جس شخص نے کلمہ پڑھ لیا وہ معصوم الدم ہوگیا

وعن المقداد بن الأسود أنه قال : يا رسول الله أرأيت إن لقيت رجلا من الكفار فاقتتلنا فضرب إحدى يدي بالسيف فقطعهما ثم لاذ مني بشجرة فقال : أسلمت لله وفي رواية : فلما أهويت لأقتله قال : لا إله إلا الله أأقتله بعد أن قالها ؟ قال : " لا تقتله " فقال : يا رسول الله إنه قطع إحدى يدي فقال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " لا تقتله فإن قتلته فإنه بمنزلتك قبل أن تقتله وإنك بمنزلته قبل أن يقول كلمته التي قال " (2/285) 3450 - [ 5 ] ( متفق عليه )-
اور حضرت مقداد ابن اسود سے روایت ہے کہ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! مجھے بتائیے کہ اگر (مجھے کوئی کافر مل جائے ) اور ہمارے درمیان لڑائی چھڑ جائے اور وہ کافر میرے ہاتھ پر تلوار کا وار کر کے کاٹ دے اور پھر ایک درخت کی آڑ میں مجھ سے پناہ پکڑ کر یہ کہے کہ میں خدا کے لئے مسلمان ہو گیا ۔ اور ایک روایت میں یہ ہے کہ اور جوں ہی میں اس کو مار ڈالنے کا ارادہ کروں تو وہ کہے کہ لا الہ الا اللہ تو کیا میں اس کی زبان سے یہ الفاظ نکلنے کے بعد اس کو قتل کر سکتا ہوں؟ آنحضرت فرمایا نہیں اس کو قتل نہ کرو مقداد نے عرض کیا یا رسول اللہ اس نے جو میرا ایک ہاتھ کاٹ ڈالا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (اس کے باوجود ) اس کو قتل نہ کرو کیونکہ اگر تم اس کو قتل کرو گے تو وہ اس جگہ پہنچ جائے گا ، جہاں تم اس کو قتل کرنے سے پہلے تھے اور تم اس جگہ پہنچ جاؤ گے جہاں وہ کلمہ پڑھنے سے پہلے تھا ۔" (بخاری ومسلم ) تشریح : مطلب یہ ہے کہ اگر تم نے اس کو کلمہ پڑھنے کے بعد قتل کر دیا تو جس طرح تم نے اس کو قتل کرنے سے پہلے معصوم الدم تھے اب وہ اسلام لانے کی وجہ سے معصوم الدم ہو گیا اور جس طرح وہ کلمہ اسلام پڑھنے سے پہلے غیر معصوم الدم تھا اب تم اس کو قتل کر دینے کی وجہ سے غیر معصوم الدم ہو گئے ۔ اس کو مزید وضاحت کے ساتھ یوں کہا جا سکتا ہے کہ کلمہ اسلام پڑھنے سے پہلے اس شخص کو اس کے کافر ہونے کی وجہ سے قتل کر دینا درست تھا اب اس کے مسلمان ہو جانے کے بعد اس کو قتل کر دینے کی وجہ سے تمہیں قتل کر دینا درست ہوگا۔
-
وعن أسامة بن زيد قال : بعثنا رسول الله صلى الله عليه و سلم إلى أناس من جهينة فأتيت على رجل منهم فذهبت أطعنه فقال : لا إله إلا الله فطعنته فقتلته فجئت إلى النبي صلى الله عليه و سلم فأخبرته فقال : " أقتلته وقد شهد أن لا إله إلا الله ؟ " قلت : يا رسول الله إنما فعل ذلك تعوذا قال : " فهلا شققت عن قلبه ؟ " (2/285) 3451 - [ 6 ] ( صحيح ) وفي رواية جندب بن عبد الله البجلي أن رسول الله صلى الله عليه و سلم قال : " كيف تصنع بلا إله إلا الله إذا جاءت يوم القيامة ؟ " . قاله مرارا . رواه مسلم-
اور حضرت اسامہ بن زید کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں قبیلہ جہینہ کے لوگوں کے مقابلہ پر بھیجا چنانچہ ( ان کے مقابلہ کے دوران ) میں ایک شخص پر جھپٹا اور اس پر نیزہ کا حملہ کرنا چاہا کہ اس نے (لاالہ الا اللہ) کہہ دیا لیکن میں نے اس میں اپنا نیزہ پیوست کر کے اس کو قتل کر دیا ۔ پھر جب میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں واپس آیا اور آپ سے یہ واقعہ بیان کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (صد افسوس) کہ تم نے اس صورت میں قتل کر دیا جب کہ اس نے (لاالہ الا اللہ) پڑھ تھا ؟ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! کیا اس نے محض قتل سے بچنے کے لئے کلمہ پڑھا تھا ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو تم نے اسکا دل چیر کر کیوں نہیں دیکھا لیا تھا؟ ۔ اور جندب ابن عبداللہ بجلی نے جو روایت نقل کی ہے اس میں یہ الفاظ ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب قیامت کے دن کلمہ (لا الہ الا اللہ) اپنے پڑھنے والے یعنی (مقتول ) کی طرف سے جھگڑتا ہوا تمہارے پاس آئے گا تو اس وقت تم اس کو کیا جواب دو گے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے (خوف دلانے کے لئے ) یہ الفاظ کئی بار ارشاد فرمائے ۔" (مسلم) تشریح : تو تم نے اس کا دل چیر کر کیوں نہ دیکھ لیا ؟ " آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ارشاد اس شخص کے باطن کے مطابق فرمایا کہ اگر تم اس شخص کے باطن پر مطلع ہو سکتے تھے تو تم اس کا دل چیر کر دیکھ لیتے اور یہ معلوم کرتے کہ آیا اس شخص نے محض اپنے آپ کو ہلاکت سے بچانے کے کلمہ (لا الہ الا اللہ) پڑھا تھا یا واقعۃ یہ کلمہ اس کے قلب کے صدق اخلاص کے ساتھ اس کی زبان سے نکلا تھا! لیکن ظاہر ہے کہ تم نہ اس کے دل کو چیر کر اس کے باطن کو دیکھ سکتے تھے اور نہ فوری طور پر اس کے باطن کا حال کسی اور ذریعہ سے تمہیں معلوم ہو سکتا تھا اس لئے معقول بات تو یہ تھی کہ تم اس کے ظاہر پر حکم لگاتے یعنی اس کے کلمہ پڑھ لینے کی وجہ سے اس کو مؤمن سمجھ لیتے اور اس کو قتل کرنے سے باز رہتے ۔ ادھر حضرت اسامہ نے یہ گمان کیا کہ ایسی حالت میں جب میرا نیزہ موت بن کر اس کے سر پر پہنچ چکا ہے اب اس کا ایمان قبول کرنا فائدہ مند نہیں ہے اس لئے انہوں نے اس شخص کا کام تمام کر دیا ، یہ گویا ان کا اجتہاد تھا، چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر یہ تو ظاہر فرما دیا کہ تم سے اجتہادی خطاء ہو گئی ہے لیکن ان پر دیت لازم نہیں کی کیوں کہ مجتہد اپنی خطاء اجتہاد میں معذور ہوتا ہے ہاں اس بات کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہر حال اپنی خفگی کا بھی اظہار فرمایا کہ اس کی اصل حیثیت وحقیقت ظاہر ہونے تک تم پر توقف لازم تھا لیکن تم نے توقف نہ کر کے اپنے اجتہاد پر عمل کیا ۔
-