TRUE HADITH
Home
About
Mission
Contact
مشکوۃ شریف
رحمت باری تعالیٰ کی وسعت کا بیان
جزاء اور سزا میں رحمت الٰہی کا ظہور
وعن أبي سعيد قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " إذا أسلم العبد فحسن إسلامه يكفر الله عنه كل سيئة كان زلفها وكان بعد القصاص : الحسنة بعشر أمثالها إلى سبعمائة ضعف إلى أضعاف كثيرة والسيئة بمثلها إلا أن يتجاوز الله عنها " . رواه البخاري-
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جب کوئی بندہ اسلام قبول کرتا ہے اور اس کا اسلام اچھا ہوتا ہے (یعنی نفاق سے پاک صاف ہوتا ہے) کہ اس کا ظاہر وباطن یکساں ہو تو اللہ تعالیٰ اس کے وہ تمام گناہ دور کر دیتا ہے جو اس نے قبول اسلام سے پہلے کئے تھے اور اس کے بعد اسے بدلہ ملتا ہے جس کا حساب یہ ہے کہ ایک نیکی کے بدلہ میں دس سے لے کر سات سو تک نیکیاں لکھی جاتی ہیں یعنی اسلام لانے کے بعد وہ بھی جو عمل کرتا ہے بلکہ سات سو سے بھی زیادہ اور برائی کا بدلہ اسی کے مانند ملتا ہے یعنی جتنی برائی کرتا ہے وہ اتنی ہی لکھی جاتی ہیں بلکہ اللہ تعالیٰ اس سے بھی درگزر کرتا ہے۔ (بخاری) تشریح یہ محض اللہ تعالیٰ کی رحمت کا ظہور ہے اور اس کے فضل و کرم کا اثر ہے کہ وہ ایک نیکی پر دس گنا سے سات سو گنا تک جزاء سے نوازا جاتا ہے بلکہ جس کو چاہتا ہے اس کی مشقت ریاضت اور صدق واخلاص کے موافق اس سے بھی زیادہ جزاء سے بہرہ مند فرماتا ہے۔ مگر بدی کی سزا اس بدی کے بقدر دیتا ہے چنانچہ جو جتنی برائی کرتا ہے اسے صرف اتنی ہی سزا ملتی ہے بلکہ جس کو چاہتا ہے اس کی اس برائی کو معاف کر دیتا ہے۔ اور اسے اتنی سزا سے بھی بچا لیتا ہے۔
-
وعن ابن عباس رضي الله عنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " إن الله كتب الحسنات والسيئات : فمن هم بحسنة فلم يعملها كتبها الله له عنده حسنة كاملة فإن هم بعملها كتبها الله له عنده عشر حسنات إلى سبعمائة ضعف إلى أضعاف كثيرة ومن هم بسيئة فلم يعملها كتبها الله عنده حسنة كاملة فإن هو هم بعملها كتبها الله له سيئة واحدة "-
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے نیکیاں اور برائیاں لکھی یعنی فرشتوں کو حکم دیا کہ وہ لوح محفوظ میں نیکیوں اور برائیوں کے بارہ میں یہ تفصیل لکھ دیں کہ جو شخص کسی نیکی کا ارادہ کرے اور وہ اس پر عمل نہ کر سکے (یعنی ارادہ کے باوجود وہ کسی عذر کی بناء پر اس نیکی کو کرنے پر قادر نہ ہو سکے) تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے اپنے ہاں اس ارادہ ہی کو ایک پوری نیکی لکھ لیتا ہے اور جو شخص نیکی کا ارادہ کرے اور پھر اس نیکی کو کرے تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے اپنے ہاں دس گنا سے سات سو گنا تک بلکہ اس سے بھی زیادہ نیکیاں لکھ لیتا ہے یعنی اپنے بندوں میں سے جس کے لئے اللہ چاہتا ہے اپنے فضل و کرم سے بحسب اخلاص اور ادائیگی شرائط وآداب اس سے بھی زیادہ ثواب لکھتا ہے اور جو شخص کسی برائی کا ارادہ کرے اور پھر خدا کے خوف کی وجہ سے اس برائی میں بھی مبتلا نہ ہو تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے اپنے ہاں ایک پوری نیکی لکھ لیتا ہے اور جس شخص نے کسی برائی کا ارادہ کیا تو پھر اس برائی میں مبتلا بھی ہو گیا تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے ایک ہی برائی لکھتا ہے۔ (بخاری ومسلم) تشریح نیکیوں سے مراد وہ اعمال ہیں جن کو کرنے سے ثواب ملتا ہے اور برائیوں سے مراد وہ اعمال ہیں جن کو کرنے سے عذاب کا مستحق ہوتا ہے ۔ جو شخص کسی نیکی کا اردہ کرے اور وہ نیکی کسی وجہ سے نہ کر سکے تو اس کے لئے بھی ایک نیکی اس لئے لکھی جاتی ہے کہ کسی بھی عمل کا ثواب نیت پر موقوف ہے اور مومن کی نیت اس کے عمل سے بہتر اور افضل ہوتی ہے بلکہ یوں کہئے کہ اصل تو نیت ہی ہے عمل کا درجہ اس کے بعد ہے کیونکہ عمل کے بغیر صرف نیت پر تو ثواب دیا جاتا ہے مگر نیت کے بغیر صرف عمل پر ثواب نہیں دیا جاتا ہاں اتنا فرق ضرور ہوتا ہے کہ بغیر عمل کے نیت پر جو ثواب ملتا ہے وہ مضاعف نہیں ہوتا۔ نیکی پر ثواب کے مضاعف ہونے کی مقدار کو سات سو تک بیان کیا جاتا ہے اس کے بعد اللہ تعالیٰ ثواب میں کتنا اضافہ کرتا ہے اس کی آخر حد اور مقدار کسی کو معلوم نہیں ہے کیونکہ سات سو کے بعد مقدار کو اللہ تعالیٰ نے مبہم رکھا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ کسی چیز کی طرف رغبت دلانے کے لئے اس کو معین کر کے ذکر کرنے کی بجائے مبہم ذکر کرنا زیادہ موثر ہوتا ہے اسی لئے فرمایا گیا ہے کہ ا یت (فلا تعلم نفس مااخفی لھم من قرۃ اعین )۔
-
عن عقبة بن عامر قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " إن مثل الذي يعمل السيئة ثم يعمل الحسنات كمثل رجل كانت عليه درع ضيقة قد خنقته ثم عمل حسنة فانفكت حلقة ثم عمل أخرى فانفكت أخرى حتى تخرج إلى الأرض " رواه في شرح السنة-
حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جو شخص برائیاں کرتا ہو اور پھر نیکیاں کرنے لگے اس کی حالت اس شخص کی سی ہے جس کے جسم پر تنگ زرہ ہو اور اس زرہ کے حلقوں نے اس کے جسم کو بھینج رکھا ہو پھر وہ نیکی کرے اور اس کی زرہ کا ایک حلقہ کھل جائے پھر وہ دوسری نیکی کرے اور دوسرا حلقہ کھل جائے یہاں تک کہ اسی طرح اس کے حلقے کھلتے رہیں اور وہ ڈھیلی ہو کر زمین پر گر پڑے۔ (شرح السنہ) تشریح حدیث کا حاصل یہ ہے کہ برائی کرنے سے سینہ تنگ و تاریک ہو جاتا ہے اور برائی کرنے والا نہ صرف یہ کہ اپنے تمام امور میں ضمیر کی صحیح رہنمائی سے محروم ہوتا ہے جس کے نتیجہ میں اس کی تمام فکری اور عملی راہوں پر یقین واعتماد اور سکون واستقلال کے نور کی بجائے تحیر وگھبراہٹ اور اضطراب عدم استقلال کے تاریک سایہ ہوتے ہیں بلکہ وہ لوگوں کی نظروں میں بے وقعت اور کمتر ہو جاتا ہے اور تمام ہی نیکی پسند انسان اسے غصہ اور حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں اس کے برعکس نیکی کرنے سے سینہ کشادہ اور فراخ ہوتا ہے اور نیکی کرنے والا اپنے ہر کام میں آسانی وسہولت اور یقین واعتماد کے سکون آمیز اثرات محسوس کرتا ہے نیز یہ کہ وہ لوگوں کی نظر میں محبوب وپسندیدہ اور باوقعت رہتا ہے۔ حدیث بالا میں اسی بات کو تنگ زرہ سے مشابہت دی گئی ہے کہ تنگ زرہ پہننے سے جسم تنگی اور بے چینی میں مبتلا ہو جاتا ہے اور اس کا زرہ کا بدن پر سے کھلنا فراخی اور خوش دلی کا باعث ہوتا ہے۔
-