جانوروں کو کسی ضرورت ومصلحت کی وجہ سے داغنا جائز ہے

وعن أنس قال : غدوت إلى رسول الله صلى الله عليه و سلم بعبد الله بن أبي طلحة ليحنكه فوافيته في يده الميسم يسم إبل الصدقة-
" اور حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں ( ایک دن ) صبح کے وقت عبداللہ بن ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے گیا تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھجور چبا کر اس کے تالو میں لگا دیں ، چنانچہ اس وقت میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس حال میں دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک میں داغنے کا آلہ تھا جس کے ذریعہ زکوۃ کے اونٹوں کو داغ رہے تھے ۔ ( بخاری ومسلم ) تشریح عبداللہ بن طلحہ رضی اللہ عنہ ماں کی طرف سے حضرت انس رضی اللہ عنہ کے بھائی تھے " یعنی ماں کی طرف سے حقیقی بھائی تھے اور باپ کی طرف سے سوتیلے بھائی تھے اور ابوطلحہ رضی اللہ عنہ، حضرت انس رضی اللہ عنہ کی ماں کے دوسرے خاوند تھے جن سے عبداللہ پیدا ہوئے تھے کھجور چبا کر اس کا لعاب بچے کے تالو میں لگانا سنت ہے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ان اونٹوں کو داغنا کسی خلجان کا باعث نہیں بننا چاہئے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم منہ کے علاوہ جسم کے دوسرے حصوں پر داغ دے رہے تھے اور داغنے کی جو ممانعت منقول ہے اس کا تعلق خاص طور پر منہ سے ہے ، یا بلا ضرورت داغنے کو ممنوع قرار دیا گیا ہے جب کہ زکوۃ کے اونٹوں کو اس ضرورت کے تحت داغا جا رہا تھا کہ ان کے اور دوسرے اونٹوں کے درمیان فرق و امتیاز کیا جا سکے ۔
-
وعن هشام بن زيد عن أنس قال : دخلت على النبي صلى الله عليه و سلم وهو في مربد فرأيته يسم شاء حسبته قال : في آذانها-
" اور حضرت ہشام ین زید، حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا میں ( ایک دن ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم جانوروں کے باڑے میں تھے ، میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بکریوں وغیرہ کے کسی عضور پر داغ دے رہے تھے ۔ " ہشام کہتے ہیں کہ میرا گمان ہے کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے یہ بیان کیا تھا کہ ( آپ صلی اللہ علیہ وسلم ) ان بکریوں وغیرہ کے کان پر ( داغ دے رہے تھے ۔ " ( بخاری ومسلم ) تشریح اس حدیث سے معلوم ہوا کہ منہ یعنی چہرہ میں کان شامل نہیں ہے ، کیونکہ ( چہرہ ) پر داغ دینے سے تو منع فرمایا گیا ہے اگر کان کا تعلق بھی چہرہ سے ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کان پر داغ کیوں دیتے ۔
-