تین انگلیوں سے کھانا اور انگلیاں چاٹنا سنت ہے

وعن كعب بن مالك قال : كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يأكل بثلاثة أصابع ويلعق يده قبل أن يمسحها . رواه مسلم-
اور حضرت کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تین انگلیوں سے ( یعنی انگوٹھے شہادت کی انگلی اور بیچ کی انگلی کے ساتھ ) کھانا کھایا کرتے اور ( کھانے سے فراغت کے بعد ) اپنا ہاتھ ( کسی رومال وغیرہ سے ) پونچھنے ( یا دھو نے ) سے پہلے چاٹ لیا کرتے تھے (مسلم ) تشریح نووی کہتے ہیں کہ انگلیوں سے کھانا سنت ہے لہذا ان تینوں کے ساتھ چوتھی اور پانچویں انگلی نہ ملائی جائے الا یہ کہ چوتھی اور پانچویں انگلی کو ملانا ضروی ہو ۔ ہاتھ کو چاٹنے" سے مراد یہ ہے کہ جن انگلیوں سے کھاتے تھے ان کو چاٹ لیا کرتے تھے چنانچہ پہلے بیچ کی انگلی کو چاٹتے پھر اس کے پاس کی انگلی کو پھر انگوٹھے کو چاٹتے تھے ۔ طبرانی نے عامر بن ربیعہ سے اس طرح نقل کیا ہے کہ أنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تین انگلیوں سے کھاتے تھے اور ان کی مدد کے لئے چوتھی انگلی بھی ملا لیا کرتے تھے ! نیز ایک حدیث مرسل میں یوں بیان کیا گیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پانچ انگلیوں سے کھاتے تھے ۔' ' یا تو یہ پتلی چیز کھانے پر محمول ہے یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیان جواز کی خاطر کبھی کبھی اس طرح بھی کھاتے تھے ، لیکن اکثر اوقات تین ہی انگلیوں سے کھانے کی عادت تھی ۔ بعض روایت میں یمسحہا کے بعد بشئی کا لفظ بھی منقول ہے اور یہ الفاظ بھی نقل کئے گئے ہیں کہ ثم یغسلہا یعنی (ہاتھ کو چاٹتے اور ) پھر اس کو دھو لیتے ۔
-
وعن جابر : أن النبي صلى الله عليه وسلم أمر بلعق الأصابع والصفحة وقال : " إنكم لا تدرون : في أية البركة ؟ " . رواه مسلم-
اور حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انگلیوں اور رکابی کو چاٹنے کا حکم دیا اور فرمایا کہ تم نہیں جانتے کہ کس انگلی یا نوالے میں برکت ہے ۔" (مسلم ) تشریح والصحفحۃ" میں حرف واو مطلق جمع کے لئے ہے لہٰذا پہلے رکابی وبرتن وغیرہ کو صاف کیا جائے اور پھر انگلی کو چاٹا جائے ۔ لفظ " ایۃ " تاء تانیث کے ساتھ منقول ہے اس لئے ترجمہ " انگلی یا نوالہ " کیا گیا ہے ۔ لیکن بعض نسخوں میں یہ لفظ "ہ ' ' ( یعنی مذکر ) ضمیر کے ساتھ ہے ۔ اس صورت میں یہ معنی ہوں گے کہ ( تم نہیں جانتے کہ ) کس کھانے میں برکت ہے ( آیا اس کھانے میں جو کھا چکے ہو یا اس کھانے میں جو چاٹو گے ) اس کی تائید آگے آنے والی حدیث کے ان الفاظ سے بھی ہوتی ہے ۔ کہ فانہ لایدری فی ای طعام تکون البرکتہ اس سے معلوم ہوا کہ اصل میں سنت انگلیوں کو چاٹنا ہے اور اس چیز کو صاف کرنا ہے جو انگلیوں کو لگی ہے نہ کہ محض انگلیوں کو بمبالغہ منہ میں داخل کرنا ۔
-
وعن ابن عباس أن النبي صلى الله عليه وسلم قال : " إذا أكل أحدكم فلا يمسح يده حتى يلعقها أو يلعقها "-
اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " جب تم سے کوئی شخص کھانا کھا چکے تو وہ ہاتھ کو اس وقت تک (کسی چیز سے ) نہ پونچھے (اور نہ دھوئے ) جب تک کہ ہاتھ کی انگلیوں کو چاٹ نہ لے یا چٹوا نہ دے ۔" (بخاری ومسلم ) تشریح چٹوا نہ دے " کا مطلب یہ ہے کہ اگر انگلیوں کو خود نہ چاٹے تو ان لوگوں میں کسی کو چٹوا دے جو اس سے گھن اور کراہت محسوس نہ کریں جیسے بیوی ، بچے ، لونڈی، اور خادم و غلام وغیرہ کیونکہ ان کو اپنے طبعی تعلق و محبت کی وجہ سے نہ صرف یہ کہ اس سے کوئی گھن اور کراہت محسوس نہیں ہوتی ، بلکہ ایک خاص قسم کی لذت محسوسس کرتے ہیں ، انہیں کے حکم میں شاگرد اور وہ لوگ بھی شامل ہیں جو اس کو حصول سعادت سمجھتے ہوں ۔
-