تیمم کا بیان

--
" تیمم" ( تیمم٥ھ میں مشروع ہوا۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے : آیت (فَلَمْ تَجِدُوْا مَا ءً فَتَيَمَّمُوْا صَعِيْدًا طَيِّبًا فَامْسَحُوْا بِوُجُوْهِكُمْ وَاَيْدِيْكُمْ مِّنْهُ) 5۔ المائدہ : 6) (تم کو پانی نہ ملے تو تم پاک زمین سے تیمم کر لیا کرو یعنی اپنے چہروں اور ہاتھوں پر ہاتھ اس زمین (کی جنس) پر سے (مار کر) پھیر لیا کرو" ۔ ) وضو اور غسل کا قائم مقام ہے۔ لغت میں تیمیم کے معنی 'قصد" کے آتے ہیں اور اصطلاح شریعت میں تیمم سے مراد ہے پاک مٹی کا قصد کرنا یا اس چیز کا قصد کرنا جو مٹی کے قائم مقام ہو جیسے پتھر اور چونا وغیرہ اور طہارت کی نیت کے ساتھ اسے ہاتھ اور منہ پر ملنا۔ اس مسئلہ میں علماء کا اختلاف ہے کہ تیمیم کے لیے دو ضربیں یا ایک ضرب ہے؟ چنانچہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ، حضرت امام ابویوسف، حضرت امام مالک اور حضرت امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ تعالیٰ علیہم کا مسلک یہ ہے کہ تیمم کے لیے دو ضربیں ہیں یعنی پاک مٹی یا اس کے قائم مقام مثلاً پاک چونے اور پتھر وغیرہ پر دو دفعہ ہاتھ مارنا چاہئے ایک ضرب تو منہ کے لیے ہے اور دوسری ضرب کہنیوں تک دونوں ہاتھوں کے لیے۔ حضرت امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کا بھی مختار مسلک یہی ہے اور بعض حنابلہ کا بھی یہی مسلک ہے۔ لیکن حضرت امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کا مشہور مسلک اور حضرت امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کا قدیم قول یہ ہے کہ تیمیم ایک ہی ضرب ہے یعنی تیمم کرنے والے کو چاہئے کہ ایک ہی مرتبہ پاک مٹی وغیرہ پر ہاتھ مار کر اسے منہ اور کہنیوں تک دونوں ہاتھوں پر پھیر لے، حضرت امام اوزاعی، عطاء اور مکحول رحمہم اللہ تعالیٰ عیہم سے بھی یہی منقول ہے۔ دونوں فریقین کے مذہب و مسلک کی تائید میں احادیث منقول ہیں جو آگے انشاء اللہ آئیں گی اور جن کی حسب موقع فائدہ و توضیح بھی کی جائے گی۔ اس موقعہ پر مناسب ہے کہ تیمیم کے کچھ احکام اور وہ صورتیں ذکر کر دی جائیں جن میں تیمیم جائز ہے تیمم حسب ذیل صورتوں میں جائز ہوتا ہے۔ (١) اتنا پانی جو وضو اور غسل کے لیے کافی ہو اپنے پاس موجود نہ ہو بلکہ ایک میل یا ایک میل سے زائد فاصلے پر ہو۔ (٢) پانی جو موجود تو ہو مگر کسی کی امانت ہو یا کسی سے غصب کیا ہوا ہو۔ (٣) پانی کے نرخ کا معمول سے زیادہ گراں ہو جانا۔ (٤) پانی کی قیمت کا موجود نہ ہونا خواہ پانی قرض مل سکتا ہو یا نہیں، قرض لینے کے صورت میں اس پر قادر ہو یا نہ ہو، ہاں اگر اپنی ملکیت میں مال ہو اور ایک مدت معینہ کے وعدے پر قرض مل سکتا ہو تو قرض لے لینا چاہئے۔ (٥) پانی کے استعمال سے کسی مرض کے پیدا ہو جانے یا بڑھ جانے کا خوف ہو یا یہ خوف ہو کہ اگر پانی استعمال کیا جائے گا تو صحت یابی میں دیر ہو گی۔ (٦) سردی اس قدر شدید ہو کہ پانی کے استعمال سے کسی عضو کے ضائع ہو جانے یا کسی مرض کے پیدا ہو جانے کا خوف ہو اور گرم پانی ملنا ممکن نہ ہو۔ (٧) کسی دشمن یا درندے کا خوف ہو مثلاً پانی ایسی جگہ ہو جہاں درندے وغیرہ آتے ہوں یا موجود ہوں یا راستے میں چوروں کا خوف ہو، یا اپنے اوپر کسی کا قرض ہو، یا کسی سے عداوت اور یہ خیال ہو کہ اگر پانی لینے جاؤں گا تو قرض خواہ مجھ کو پکڑ لے گا، یا کسی قسم کی تکلیف دے گا، یا پانی کسی غنڈے اور فاسق کے پاس ہو اور عورت کو اس کے حاصل کرنے میں اپنی بے حرمتی کا خوف ہو۔ (٨) پانی کھانے پینے کی ضرورت کے لیے رکھا ہو کہ اسے وضو یا غسل میں خرچ کر دیا جائے تو اس ضرورت میں حرج ہو مثلاً آٹا گوندھنے یا گوشت وغیرہ پکانے کے لیے رکھا ہو، یا پانی اس قدر ہو کہ اگر وضو غسل میں صرف کر دیا جائے تو پیاس کا خوف ہو خواہ اپنی پیاس کا یا کسی دوسرے کی پیاس کا، یا اپنے جانوروں کی پیاس کا، بشرطیکہ کوئی ایسی تدبیر نہ ہو سکے کہ مستعمل پانی جانوروں کے کام آسکے۔ (٩) کنوئیں سے پانی نکالنے کی کوئی چیز نہ ہو اور نہ کوئی کپڑا ہو کہ اسے کنوئیں میں ڈال کر تر کرے اور پھر اس سے نچوڑ کر طہارت حاصل کرے، یا پانی مٹکے وغیرہ میں ہو اور کوئی چیز پانی نکالنے کے لیے نہ ہو اور نہ مٹکا جھکا کر پانی لے سکتا ہو، نیز ہاتھ نجس ہوں اور کوئی دوسرا ایسا آدمی نہ ہو جو پانی نکال کر دے یا اس کے ہاتھ دھلا دے۔ (١٠) وضو یا غسل کرنے میں ایسی نماز کے چلے جانے کا خوف ہو جس کی قضا نہیں ہے جیسے عیدین یا جنازے کی نماز۔ (١١) پانی کا بھول جانا مثلاً کسی آدمی کے پاس پانی تو ہے مگر وہ اسے بھول گیا ہو اور اس کا خیال ہو کہ میرے پاس پانی نہیں ہے۔ تیمم کرنے کا مسنون و مستحب طریقہ درج ذیل ہے : پہلے بسم اللہ پڑھ کر تیمم کی نیت کی جائے پھر اپنے دونوں ہاتھوں کو کسی ایسی مٹی پر جس کو نجاست نہ پہنچی ہو یا اس کی نجاست دھو کر زائل کر دی گئی ہو، ہتھیلیوں کی جانب سے کشادہ کر کے مار کر ملے اس کے بعد ہاتھوں کو اٹھا کر ان کی مٹی جھاڑ ڈالے اور پھر پورے دونوں ہاتھوں کو اپنے پورے منہ پر ملے اس طرح کہ کوئی جگہ ایسی باقی نہ رہ جائے جہاں ہاتھ نہ پہنچے۔ پھر اسی طرح دونوں ہاتھوں کو مٹی پر مار کر ملے پھر ان کی مٹی جھاڑ ڈالے اور بائیں ہاتھ کی تین انگلیاں سوائے کلمہ کی انگلی اور انگوٹھے کے، داہنے ہاتھ کے انگلیوں کے سرے پر پشت کی جانب رکھ کر کہنیوں تک کھینچ لائے اس طرح کہ بائیں ہاتھ کی ہتھیلی بھی لگ جائے اور کہنیوں کا مسح بھی ہو جائے پھر باقی انگلیوں کو اور ہاتھ کی ہتھیلی کو دوسری جانب رکھ کر انگلیوں تک کھینچا جائے، اسی طرح بائیں ہاتھ کا بھی مسح کرے۔ وضو اور غسل دونوں کے تیمم کا یہی طریقہ ہے اور ایک ہی تیمم دونوں کے لیے کافی ہے۔ اگر دونوں کی نیت کرلی جائے۔ تیمم کے کچھ احکام و مسائل یہ ہیں۔ یہ تمام مسائل عبدالشکور لکھنوی کی کتاب سے ماخوذ ہیں۔ (١) تیمّم کے وقت نیت کرنا فرض ہے اور نیت کی شکل یہ ہے کہ جس حدیث کے سبب سے تیمم کیا جائے اس سے طہارت کی نیت کی جائے یا جس چیز کے لیے تیمم کیا جائے اس کی نیت کی جائے مثلاً اگر نماز جنازہ کے لیے تیمم کیا جائے یا قرآن مجید کی تلاوت کے لیے تیمم کیا جائے تو اس کی نیت کی جائے مگر نماز اسی تیمم سے صحیح ہوگی جس میں حدث سے طہارت کی نیت کی جائے یا کسی ایسی عبادت مقصودہ کی نیت کی جائے جو بغیر طہارت کے نہیں ہوسکتی۔ (٢) تیمم کرتے وقت اعضاء تیمم سے ایسی چیزوں کو دور کر دینا فرض ہے جس کی وجہ سے مٹی جسم تک نہ پہنچ سکے جیسے روغن یا چربی وغیرہ۔ (٣) تنگ انگوٹھی تنگ چھلوں اور چوڑیوں کو اتار ڈالنا واجب ہے۔ (٤) اگر کسی قرینے سے پانی کا قریب ہونا معلوم ہو تو اس کی تلاش میں سو قدم تک خود جانا یا کسی کو بھیجنا واجب ہے۔ (٥) اگر کسی دوسرے آدمی کے پاس پانی موجود ہو اور اس سے ملنے کی امید ہو تو اس سے طلب کرنا واجب ہے۔ (٦) اس ترتیب سے تیمم کرنا سنت ہے جس ترتیب سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیمم کیا ہے یعنی پہلے منہ کا مسح پھر دونوں ہاتھوں کا مسح۔ (٧) منہ کے مسح کے بعد داڑھی کا خلال کرنا سنت ہے۔ (٨) جس آدمی کو آخر وقت تک پانی ملنے کا یقین یا گمان غالب ہو تو اس کو نماز کے اخیر وقت تک پانی کا انتظام کرنا مستحب ہے مثلاً کنوئیں سے پانی نکالنے کی کوئی چیز نہ ہو اور یہ یقن یا گمان غالب ہو کہ آخر وقت رسی اور ڈول مل جائیں گے۔ یا کوئی آدمی ریل پر سوار ہو اور یہ بات یقین کے ساتھ معلوم ہو کہ نماز کے آخر وقت ریل ایسے اسٹیشن پر پہنچ جائے گی جہاں پانی مل سکتا ہے۔ (٩) تیمم نماز کے وقت کے تنگ ہو جانے کی صورت میں واجب ہوتا ہے۔ شروع وقت میں واجب نہیں ہوتا۔ (١٠) نماز کا اس قدر وقت ملے کہ جس میں تیمم کر کے نماز پڑھنے کی گنجائش ہو تو تیمم واجب ہوتا ہے اور اگر وقت نہ ملے تو تیمم واجب نہیں۔ (١١) جن چیزوں کے لیے وضو فرض ہے ان کے لیے وضو کا تیمم بھی فرض ہے۔ اور جن چیزوں کے لیے وضو واجب ہے ان کے لیے وضو کا تیمم بھی واجب ہے اور جن چیزوں کے لیے وضو سنت یا مستحب ہے ان کے لیے وضو کا تیمم بھی سنت اور مستحب ہے، یہی حال غسل کا بھی ہے۔ (١٢) اگر کوئی آدمی حالت جنابت میں ہو اور مسجد میں جانے کی اسے سخت ضرورت ہو تو اس پر تیمم کرنا واجب ہے۔ (١٣) جن عبادتوں کے لیے حدث اکبر (یعنی جنابت) اور حدث اصغر (یعنی جس سے وضو ٹوٹ جاتا ہے) سے طہارت شرط نہیں ہے۔ جیسے سلام و سلام کا جواب وغیرہ ان کے لیے وضو و غسل دونوں کا تیمم بغیر عذر کے ہو سکتا ہے اور جن عبادتوں میں صرف حدث اصغر سے طہارت شرط نہ ہو جیسے تلاوت قرآن مجید اور اذان وغیرہ ان کے لیے صرف وضو کا تیمم بغیر عذر ہو سکتا ہے۔ (١٤) اگر کسی کے پاس مشکوک پانی ہو جیسے گدھے کا استعمال کردہ پانی تو ایسی حالت میں پہلے اگر وضو کی ضرورت ہو تو وضو، غسل کی ضرورت ہو تو غسل کیا جائے اس کے بعد تیمم کیا جائے۔ (١٥) اگر وہ عذر جس کی وجہ سے تیمم کیا گیا ہے آدمیوں کی طرف سے ہو تو جب وہ عذر جاتا رہے تو جس قدر نمازیں اس تیمم سے پڑھی ہیں سب کو دوبارہ پڑھنا چاہئے۔ مثلاً کوئی آدمی جیل میں ہو اور جیل کے ملازم اس کو پانی نہ دیں یا کوئی آدمی اس سے کہے کہ اگر تو وضو کرے گا تو تجھ کو مار ڈالوں گا۔ (١٦) ایک جگہ سے اور ایک ڈھیلے سے چند آدمی یکے بعد دیگرے تیمم کریں تو درست ہے۔ (١٧) جو آدمی پانی اور مٹی دونوں پر قادر نہ ہو خواہ پانی و مٹی نہ ہونے کی وجہ سے یا بیماری کی وجہ سے تو اس کو چاہئے کہ نماز بلا طہارت پڑھ لے پھر اس نماز کو طہارت سے لوٹا لے مثلاً کوئی آدمی ریل میں سوار ہے اور نماز کا وقت ہوگیا ہے مگر نہ تو پانی موجود ہے کہ وہ وضو کرے اور نہ مٹی یا اس قسم کی کوئی دوسری چیز ہے جس سے وہ تیمم کر سکے، ادھر نماز کا وقت بھی ختم ہوا جا رہا ہے تو اسے چاہئے کہ ایسی حالت میں بلا طہارت نماز پڑھ لے۔ اسی طرح کوئی آدمی جیل میں ہو اور وہ پاک پانی اور مٹی پر قادر نہ ہو تو وہ بے وضو اور بے تیمم نماز پڑھ لے گا مگر ان دونوں صورتوں میں نماز کا اعادہ ضروری ہوگا۔
-
عَنْ حُذَےْفَۃَص قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم فُضِّلْنَا عَلَی النَّاسِ بِثَلٰثٍ جُعِلَتْ صُفُوفُنَا کَصُفُوْفِ الْمَلٰئِکَۃِ وَجُعِلَتْ لَنَا الْاَرْضُ کُلُّھَا مَسْجِدًا وَّجُعِلَتْ تُرْبَتُھَا لَنَا طُہُوْرًا اِذَا لَمْ نَجِدِ الْمَآئَ۔(صحیح مسلم)-
" حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا " ہم لوگ (پہلی امتوں کے) لوگوں پر تین چیزوں سے فضیلت دئیے گئے ہیں (١) ہماری صفیں (نماز میں یا جہاد میں) فرشتوں کی صفوں جیسی (شمار) کی گئی ہیں۔ (٢) ہمارے واسطے تمام زمین مسجد بنا دی گئی ہے (کہ جہاں چاہیں نماز پڑھ لیں)۔ (٣) جس وقت ہمیں پانی نہ ملے تو زمین کی مٹی ہمارے لیے پاک کر دینے والی ہے۔" (صحیح مسلم) تشریح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس امت سے پہلے دنیا میں جتنی بھی امتیں پیدا ہوئی ہیں، یوں تو ان سب کے مقابلہ میں یہ امت گوناگوں خصوصیات اور امیتازات کی بناء پر سب سے زیادہ افضل اور بزرگ ہے۔ عظمت و فضیلت میں کوئی امت اس امت سے مماثل نہیں ہے۔ مگر یہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس امت کی بعض امتیازی خصوصیات کی طرف جو اللہ تعالیٰ کی جانب سے اس امت پر بے پایاں انعامات و احسانات کا نتیجہ ہیں اشارہ فرما رہے ہیں کہ ان چیزوں کے بناء پر میری امت کو دوسری امتوں پر خاص فضیلت و فوقیت دی گئی ہے۔ چنانچہ پہلی چیز تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ فرما رہے ہیں کہ (نماز یا جہاد میں) اس امت کی صفیں فرشتوں کی صفیں جیسی (شمار) کی گئی ہیں یعنی جس طرح فرشتے صف بندی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہیں کہ جس کی بناء پر انہیں مقام قرب میسر ہے اور بے انتہا بزرگی و سعادت حاصل ہوتی ہے اسی طرح اس امت کو بھی جہاد یا نماز میں صف بندی اور جماعت کی بناء پر خداوند قدوس کا مقام قرب حاصل ہوتا ہے اور اس وجہ سے یہ امت سابقہ امتوں کے مقابلے میں افضل ہے کیونکہ سابقہ امتوں میں صف بندی اور جماعت نہیں تھی وہ لوگ جس طرح چاہتے نماز پڑھ لیتے مگر اللہ تعالیٰ نے اس امت کو جماعت کا حکم دے کر گویا سعادت و نیک بختی کے اس عظیم راستہ پر لگا دیا کہ جماعت اور صف بندی کی جتنی زیادہ پابندی کی جائے گی سعادت و نیک بختی اور مقام قرب کے دروازے کھلتے چلے جائیں گے۔ دوسری چیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمائی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دوسری امتوں کے مقابلہ میں اس امت پر یہ بھی بڑا احسان فرمایا اور اس کو فضیلت بخشی کہ اس امت کے لوگوں کے لیے تمام زمین کو سجدہ گاہ قرار دے دیا کہ بندہ زمین کے جس پاک حصے پر خدا کے سامنے جھک جائے اور نماز ادا کرے اس کی نماز قبول کرلی جائے گی برخلاف اس کے کہ پچھلی امتوں کے لئے یہ سہولت اور فضیلت نہیں تھی ان لوگوں کی نماز " کنائس" اور " بیع" (جو پچھلی امتوں کے عبادت خانوں کے نام ہیں) اس کے علاوہ اور کہیں جائز نہ ہوتی تھی۔ تیسری چیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمائی ہے کہ اس امت کے لیے تیمم کو جائز کر کے اللہ تعالیٰ نے اس امت کو دوسری امتوں پر عظیم فضیلت عنایت فرمائی ہے یعنی اگر پانی موجود نہ ہو یا پانی کے استعمال پر قدرت نہ ہو یا پانی کے استعمال سے معذور ہو تو پاک مٹی سے تیمم کر کے نماز پڑھ لی جائے۔ نماز جائز ہو جائے گی۔ بہر حال۔ اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ ان تین چیزوں میں ہمیں دوسری امتوں کے مقابلہ میں فضیلت و بزرگی ہے کہ " ہمیں جماعت سے نماز پڑھنے کا حکم ہوا اور اس پر بے شمار اجر و انعام اور ثواب کا وعدہ کیا گیا " ساری زمین ہمارے لیے مسجد قرار دی گئی کہ جہاں چاہیں نماز پڑھ لیں، نماز جائز ہو جائے گی اور جہاں پانی نہ ملے یا پانی کے استعمال پر قدرت نہ ہو تو پاک مٹی سے تیمم کر کے نماز پڑھ لیں۔" اس حدیث سے بظاہر تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ تیمم صرف مٹی ہی سے کرنا چاہئے اور کسی چیز سے تیمم کرنا درست نہ ہوگا۔ جیسے کہ حضرت امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ وغیرہ کا مسلک ہے ۔ مگر حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ، حضرت امام محمد رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کے نزدیک تیمم ہر اس چیز سے درست ہے جو زمین کی جنس سے ہو، زمین کی جنس کا اطلاق ان چیزوں پر ہوتا ہے جو نہ تو آگ میں جلنے سے پگھلیں نہ نرم ہوں اور نہ جل کر راکھ ہوں جیسے مٹی پتھر اور چونا وغیرہ ان حضرات کی دلیل سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد گرامی ہے جو حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے صحیح البخاری میں منقول ہے کہ : الحدیث (جُعِلَتْ لِیَ الْاَرْضِ مَسْجِدً اوَّطَھُوْرًا۔) " یعنی زمین میرے لیے مسجد اور پاک کرنے والی کر دی گئی ہے۔" اس ارشاد میں لفظ " ارض" کا استعمال کیا گیا ہے جو ہر اس چیز کے مفہوم کو ادا کرتا ہے جو زمین کی جنس سے ہو۔
-
(١)وَعَنْ عِمْرَانَص قَالَ کُنَّا فِیْ سَفَرٍ مَعَ النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وسلم فَصَلّٰی بِالنَّاسِ فَلَمَّا انفَتَلَ مِنْ صَلٰوتِہٖ اِذَا ھُوَ بِرَجُلٍ مُّعْتَزِلٍ لَّمْ ےُصَلِّ مَعَ الْقَوْمِ فَقَالَ مَا مَنَعَکَ ےَا فُلَانُ اَنْ تُصَلِّیَ مَعَ الْقَوْمِ قَالَ اَصَابَتْنِیْ جَنَابَۃٌ وَّلَا مَآءَ قَالَ عَلَےْکَ بِالصَّعِےْدِ فَاِنَّہ، ےَکْفِےْکَ۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)-
" اور حضرت عمران رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ (ایک مرتبہ) ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ سفر میں تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (ہم ) لوگوں کو نماز پڑھائی جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ ایک آدمی علیحدہ بیٹھا ہوا ہے اس نے لوگوں کے ساتھ نماز نہیں پڑھی تھی چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے فلاں ! تمہیں لوگوں کے ساتھ نماز پڑھنے سے کس نے روک دیا تھا؟ اس نے عرض کیا کہ " مجھے نہانے کی ضرورت ہوگئی ہے اور پانی نہیں ملا " آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (" ایسی صورت میں) تمہیں مٹی سے تیمم کر لینا لازم تھا اور تمہیں وہی کافی تھا۔" ( صحیح البخاری و صحیح مسلم )
-
وَعَنْ عَمَّارٍص قَالَ جَآءَ رَجُلٌ اِلٰی عُمَرَ ص بْنِ الْخَطَّابِ فَقَالَ اِنِّیْ اَجْنَبْتُ فَلَمْ اُصِبِ الْمَآءَ فَقَالَ عَمَّارٌ لِّعُمَرَص اَمَا تَذْکُراَنَّا کُنَّا فِیْ سَفَرٍ اَنَا وَاَنْتَ فَاَمَّا اَنْتَ فَلَمْ تُصَلِّ وَاَمَّا اَنَا فَتَمَعَّکْتُ فَصَلَّےْتُ فَذَکَرْتُ ذَالِکَ لِلنَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وسلم فَقَالَ اِنَّمَا کَانَ ےَکْفِےْکَ ھٰکَذَا فَضَرَبَ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وسلم بِکَفَّےْہِ الْاَرْضَ وَنَفَخَ فِےْھِمَا ثُمَّ مَسَحَ بِھِمَا وَجْھَہُ وَکَفَّےْہِ رَوَاہُ الْبُخَارِیِّ وَلِمُسْلِمٍ نَّحْوَہُ وَفِےْہِ قَالَ اِنَّمَا ےَکْفِےْکَ اَنْ تَضْرِبَ بِےَدَےْکَ الْاَرْضَ ثُمَّ تَنْفُخُ ثُمَّ تَمْسَحُ بِھِمَا وَجْہَکَ وَکَفَّےْکَ۔-
" اور حضرت عمار رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک آدمی عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آیا اور کہنے لگا کے مجھے نہانے کی ضرورت ہے اور پانی نہیں ملا (تو اب تیمم کروں یا کیا کروں؟) حضرت عمار رضی اللہ تعالیٰ عنہ (یہ سن کر) حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بولے کیا تمہیں یاد نہیں رہا کہ میں اور تم سفر میں تھے اور ہم دونوں کو نہانے کی ضرورت ہوگئی تھی ) تو تم نے نماز پڑھی تھی لیکن میں نے زمین پر لوٹ کر نماز پڑھ لی تھی پھر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صورت حال ذکر کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہیں اس طرح کر لینا کافی تھا، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھ زمین پر مارے پھر ان پر پھونک مار کر (یعنی جھاڑ کر) ان سے اپنے منہ اور ہاتھوں پر مسح کر لیا۔" (صحیح البخاری ) اسی طرح مسلم نے روایت کی ہے (جس کے آخری الفاظ یہ ہیں ( آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ) تمہارے لیے یہ کافی ہے کہ اپنے ہاتھوں کو زمین پر مارو پھر ان میں پھونک مار کر اپنے منہ اور ہاتھوں پر مسح کرو۔" تشریح اس حدیث میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا جواب ذکر نہیں کیا گیا ہے لیکن حدیث کے بعض دوسرے طرق سے مذکور ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس آدمی کے سوال کے جواب میں فرمایا کہ لا تصل یعنی جب تک پانی نہ ملے نماز نہ پڑھو! چنانچہ حضرت عمر کا رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مسلک یہی تھا کہ جنبی کے لیے تیمم جائز نہیں ہے۔ یا یہ ممکن ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مسئلہ پوچھنے والے کے سوال پر جو سکوت اختیار فرمایا اس کی وجہ یہ تھی کہ جنبی کے لیے تیمم کا حکم ان کے ذہن میں نہیں رہا تھا۔ چنانچہ حضرت عمار رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تمام واقعہ بیان کیا تاکہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ذہن میں اس سے یہ بات پیدا ہو جائے کہ جنبی کے لیے تیمم جائز ہے حضرت عمار رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جو واقعہ بیان کیا اس میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں جو یہ بتایا کہ انھوں نے غسل کے لیے پانی نہ ہونے کی وجہ سے حالت جنابت میں نماز نہیں پڑھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ سوچا ہوگا کہ ہو سکتا ہے کہ نماز کے آخر وقت تک پانی مل جائے اس لیے انھوں نے یہ مناسب سمجھا کہ پانی مل جانے کے بعد غسل کر کے ہی نماز پڑھی جائے یا پھر اس کی وجہ وہی ہو سکتی ہے کہ ان کے ذہن میں بات بیٹھی ہوئی تھی کہ تیمم تو صرف وضو کے قائم مقام ہے غسل کا قائم مقام نہیں ہے۔ ظاہری طور پر یہ وجہ قرین قیاس ہے ان کے اس اعتقاد کا سبب یہ تھا کہ چونکہ انہیں اس مسئلہ کی پوری حقیقت معلوم نہیں تھی پھر یہ کہ انہیں اس مسئلہ پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کبھی سوال کا اتفاق بھی نہ ہوا تھا اس لئے وہ تو یہی سمجھ رہے تھے کہ کہ تیمم صرف وضو کا قائم مقام ہے غسل کا نہیں ہے حالانکہ متفقہ طور پر سب ہی کے نزدیک تیمم جس طرح وضو کا قائم مقام ہے اسی طرح غسل کا قائم مقام بھی ہے ۔ حضرت عمار رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے بارے میں بتا رہے ہیں اس موقع پر میں نے دوسرا طریقہ اختیار کیا وہ یہ کہ میں مٹی میں لوٹ پوٹ ہو گیا اور اس کے بعد نماز پڑھ لی اس کی وجہ یہ تھی کہ ان کے ذہن میں بھی یہ مسئلہ پوری وضاحت سے نہیں تھا اس لیے انہوں نے یہ قیاس کر کے جس طرح غسل میں پانی تمام اعضاء پر بہایا جاتا ہے اسی طرح مٹی بھی تمام اعضاء پر پہنچانی چاہئے، مٹی میں لوٹ گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمار رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو تیمم کا طریقہ بتاتے ہوئے اپنے دونوں ہاتھ زمین پر مارے پھر ہاتھوں پر پھونک مار کر اس پر لگی ہوئی مٹی کو اس لیے جھاڑا تاکہ مٹی منہ پر نہ لگے جس سے منہ کی ہیت بگڑ جائے کہ وہ مثلہ کہ حکم میں ہے جو ممنوع ہے۔ مثلہ اسے کہتے ہیں کہ بدن کے کسی عضو کو کاٹ کر یا ایسا کوئی طریقہ اختیار کر کے جس سے خلقی طور پر اعضاء میں فرق آجائے، اللہ تعالیٰ کی تخلیق کو بگاڑا جائے، لہٰذا اس سے معلوم ہوا کہ جو لوگ اپنے چہروں پر بھبھوت وغیرہ ملتے ہیں وہ سخت گمراہی میں مبتلا ہیں۔ یہ حدیث اس پر دلالت کرتی ہے کہ تیمم کے لیے مٹی پر ایک مرتبہ ہاتھ مارنا کافی ہے جیسا کہ دوسرے حضرات کا یہی مسلک ہے مگر امام اعظم، حضرت امام شافعی اور حضرت امام مالک رحمہم اللہ تعالیٰ علیہم کا مسلک چونکہ یہ ہے کہ تیمم کے لیے مٹی پر دو مرتبہ ہاتھے مارنا چاہئے ایک مرتبہ تو منہ پر پھیرنے کے لیے اور دوسری مرتبہ کہنیوں تک ہاتھوں پر پھیرنے کے لیے اس لیے حضرت شیخ محی الدین نووی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ اس حدیث کی توجیہ یہ فرماتے ہیں کہ : سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصد صرف یہ تھا کہ حضرت عمار رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو مٹی پر ہاتھ مارنے کی کیفیت و صورت دکھا دیں کہ جنابت کے لیے تیمم اس طرح کر لیا کرو مٹی میں لوٹ پوٹ ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ لہٰذا چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصد پورے تیمم کی کیفیت بیان کرنا نہیں تھا اس لیے حضرت عمار رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی روایت حدیث کے وقت ایک مرتبہ ہاتھ مارنے ہی کو بطور تعلیم ذکر کیا ۔ یہی وجہ ہے کہ اس حدیث کے علاوہ حضرت عمار رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے جو روایتیں تیمم کے بارے میں منقول ہیں ان میں صراحت کے ساتھ دو مرتبہ ہی ہاتھ مارنے کا ذکر کیا گیا ہے۔ اتنی بات اور سمجھ لیجئے کہ حدیث میں " کفین" سے " ذراعین" یعنی کہنیوں تک ہاتھ مراد ہیں جس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھوں پر کہنیوں تک مسح کیا۔"
-
وَعَنْ اَبِی الْجُھَیْمِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ الصِّمَّۃِ قَالَ مَرَرْتُ عَلَی النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وسلم وَھُوَ یَبُوْلُ فَسَلَّمْتُ عَلَیْہِ فَلَمْ یَرُدَّ عَلَیَّ حَتٰی قَامَ اِلٰی جِدَارٍ فَحَثَّہ، بِعَصَا کَانَتْ مَعَہُ ثُمَّ وَضَعَ یَدَیْہِ عَلَے الْجِدَارِ فَمَسَحَ وَجْھَہ، وَذِرَاعَیْہِ ثُمَّ رَدَّ عَلَیَّ (وَلَمْ اَجِدْ ھٰذِہِ الرِّوَایَۃَ فِی الصَّحِیْحَیْنِ وَلَا فِی کِتَابِ الْحُمَیْدِیِّ وَلٰکِنْ ذَکَرَہ، فِیْ شَرْحِ السُّنَّۃِ وَقَالَ ھٰذَا حَدِیْثٌ حَسَنٌ)۔-
" اور حضرت ابوجہیم ابن حارث ابن صمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ " (میں ایک مرتبہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب سے گزرا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت پیشاب کر رہے تھے میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب نہیں دیا۔ اور پیشاب سے فارغ ہو کر) ایک دیوار کے پاس کھڑے ہوئے اور ایک لاٹھی سے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھی کھرچ کر اپنے دونوں ہاتھوں پر مسح کر کے میرے سلام کا جواب دیا۔" (مشکوٰۃ کے مصنف فرماتے ہیں کہ " مجھے یہ روایت نہ صحیحین میں ملی ہے اور نہ حمیدی کی کتاب میں ہاں محی السنۃ نے اس کو شرح السنۃ میں ذکر کیا ہے اور یہ کہا ہے کہ حدیث حسن ہے (لہٰذا صاحب مصابیح کو چاہئے تھا کہ اس روایت کو پہلی فصل میں ذکر نہ کرتے ۔) تشریح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عصا سے دیوار کی مٹی اس لیے کھرچی کہ اس میں سے غبار اٹھنے لگے کہ اس پر تیمم کرنا افضل ہے اور ثواب کی زیادتی کا باعث ہے ۔ یہ حدیث اس پر دلالت کرتی ہے ذکر اللہ کے لیے باطہارت ہونا مستحب ہے نیز ہر وقت پاک و صاف اور طاہر رہنا بھی مستحب ہے۔
-
عَنْ اَبِیْ ذَرٍّ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم اِنَّ الصَّعِیْدَ الطَّیِّبَ وَضُوْءُ الْمُسْلِمِ وَاِنْ لَّمْ یَجِدِالْمَآءَ عَشَرَ سِنِیْنَ فَاِذَا وَجَدَ المَآءَ فَلْیَمَسَّہُ بَشَرَہ، فَاِنَّ ذٰلِکَ خَیْرٌ۔ (رَوَاہُ اَحْمَدُ وَالتِّرْمِذِیُّ وَ اَبُوْدَاؤدَ وَرَوَی النِّسَائِیُّ نَحْوَہ، اِلٰی قَوْلِہٖ عَشْرَ سِنِیْنَ)-
" حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " پاک مٹی مسلمان کو پاک کرنے والی ہے۔ اگرچہ وہ دس برس تک پانی نہ پائے اور جس وقت مل جائے تو بدن دھو لینا چاہئے کیونکہ یہ بہتر ہے ۔' ' (مسند احمد بن حنبل جامع ترمذی، سنن ابوداؤد) " اور نسائی نے بھی اسی طرح کی روایت عشر سنین تک نقل کی ہے۔" تشریح دس برس کی مدت تحدید کے لیے نہیں ہے بلکہ کثرت کے لیے ہے یعنی اگر اتنے طویل عرصے تک بھی پانی نہ ملے تو غسل یا وضو کے لیے تیمم کیا جا سکتا ہے اور پھر بعد میں جب بھی اتنا پانی مل جائے جو غسل یا وضو کے لیے کافی ہو اور پینے کی ضرورت سے زیادہ ہو نیز اس کے استعمال پر قادر بھی ہو تو غسل کرنا یا وضو کرنا چاہئے کیونکہ اس صورت میں غسل یا وضو واجب ہوگا تیمم جائز نہیں ہوگا۔ یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ نماز کا وقت ختم ہو جانے پر تیمم نہیں ٹوٹتا بلکہ اس کا حکم وضو ( جن چیزوں سے وضو ٹوٹ جاتا ہے ان سے وضو کا تیمم بھی ٹوٹ جاتا ہے اور جن چیزوں سے غسل واجب ہوتا ہے ان سے غسل کا تیمم بھی ٹوٹ جاتا ہے۔ مزید وضاحت کے لیے " علم الفقہ کا مطالعہ کریں۔) کی طرح ہے کہ جس طرح جب تک وضو نہ ٹوٹے ایک وضو سے جتنے فرض یا نقل چاہے پڑھ سکتا ہے اسی طرح ایک تیمم سے بھی کئی وقت کی نماز پڑھی جا سکتی ہیں چنانچہ حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کا یہی مسلک ہے مگر حضرت امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کے نزدیک تیمم معذور کے وضو کی طرح ہے کہ جس طرح نماز کا وقت گزر جانے سے معذور کا وضو ٹوٹ جاتا ہے۔ اسی طرح نماز کا وقت ختم ہو جانے پر تیمم بھی ٹوٹ جاتا ہے۔
-
وَعَنْ جَابِرٍ قَالَ خَرَ جْنَا فِیْ سَفَرِ فَاَ صَابَ رَجُلًا مِنَّا حَجَرٌ فَشَجَّہ، فِیْ رَأْسِہٖ فَا حْتَلَمَ فَسَأْلَ اَصَحَابَہ، ھَلْ تَجِدُوْنَ لِی رُخْصَۃً فِی التَّیَمُّمِ قَالُوْ امَا نَجِدُلَکَ رُخْصَۃً وَاَنْتَ تَقْدِرُ عَلَی الْمَآءِ فَاغْتَسَلَ فَمَاتَ فَلَمَّا قَدِ مْنَا عَلَی النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وسلم أُخْبِرُ بِذٰلِکَ قَالَ قَتَلُوْہُ قَتَلَھُمُ اﷲُ اَلَّا سَالُوْا اِذَالَمْ یَعْلَمُوْا فَاِ نَّمَا شِفَاءُ الْعَیِّ السُّؤَالُ اِنَّمَا کَانَ یَکْفِیْہِ اَنْ یَّتَیَمََّمَ وَیُعَصِّبُ عَلٰی جُرْحِہٖ خِرْقَۃً ثُمَّ یَمْسَحَ عَلَیْھَا وَیَغْسِلَ سَائِرَ جَسَدِہٖ۔ (رَوَاہُ اَبُوْدَاؤدَ وَرَوَاہُ ابْنُ مَاجَۃَ عَنْ عَطَآءِ بْنِ اَبِیْ رَبَاحٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ)-
" اور حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ " ہم سفر میں جارہے تھے کہ ہم میں سے ایک آدمی کے پتھر لگا جس نے اس کے سر کو زخمی کر ڈالا (اتفاق سے) اسے نہانے کی حاجت بھی ہوگئی چنانچہ اس نے اپنے ساتھیوں سے دریافت کیا کہ کیا تمہارے نزدیک (اس صورت میں) میرے لیے تیمم کرنا جائز ہےَ انھوں نے کہا " ایسی صورت میں جب کہ تم پانی استعمال کر سکتے ہو، ہم تمہارے لیے تیمم کی کوئی وجہ نہیں پاتے۔" چنانچہ اس آدمی نے غسل کیا (جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ) اس کا انتقال ہوگیا۔ جب ہم (سفر سے واپس ہو کر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ واقعہ بیان کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (انتہائی رنج اور تکلیف کے ساتھ) فرمایا " لوگوں نے اسے مار دیا ، اللہ بھی انہیں مارے " پھر فرمایا کہ" ان کو جو بات معلوم نہ تھی، اسے انھوں نے دریافت کیوں نہ کر لیا؟ (کیونکہ) نادانی کی بیماری کا علاج سوال ہے اور اسے تو یہی کافی تھا کہ تیمم کر لیتا اور اپنے زخم پر ایک پٹی باندھ کر اس پر مسح کر لیتا اور پھر اپنا تمام بدن دھو لیتا ۔" (ابوداؤد اور ابن ماجہ نے اس روایت کو عطاء ابن رباح سے اور انہوں نے حضرت عبداللہ ابن عباس سے نقل کیا ہے۔) تشریح بسا اوقات کم علمی اور کسی مسئلے سے عدم واقفیت پر اندو ہناک واقعہ کا سبب بن جایا کرتی ہے چنانچہ اس موقعہ پر یہی ہوا کہ جب اس زخمی آدمی نے اپنے عذر کے بارے میں اپنے ساتھیوں سے مشورہ کیا کہ آیا ایسے حال میں کہ جب میرے سر پر زخم ہے اور پانی اس زخم کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے تو ناپاکی دور کرنے کے لیے بجائے غسل کے میں تیمم کر سکتا ہوں؟ تو ساتھیوں نے مسئلے سے ناواقفیت اور اپنی کم علمی کی بنا پر یہ سمجھ کر آیت تیمم (فَلَمْ تَجِدُوْا مَا ءً فَتَيَمَّمُوْا صَعِيْدًا طَيِّبًا فَامْسَحُوْا بِوُجُوْهِكُمْ وَاَيْدِيْكُمْ مِّنْهُ) 5۔ المائدہ : 6) کا مطلب یہ ہے کہ تیمم صرف اس شکل میں جائز ہوگا جب کہ پانی موجود نہ ہو اگر پانی موجود ہو تو تیمم جائز نہیں ہوگا ۔ اس آدمی سے کہہ دیا کہ تمہارے لیے تیمم جائز ہونے کا کوئی سوال ہی نہیں ہے؟ حالانکہ انھوں نے یہ نہ سمجھا کہ تیمم جائز نہ ہونے کی شکل یہ ہے کہ پانی موجود ہو اور ساتھ ساتھ اس کے استعمال پر قدرت نیز پانی کے استعمال سے کسی نقصان اور ضرر کا خدشہ بھی نہ ہو۔ اس بیچارے نے ان لوگوں کے علم و فہم پر اعتماد کیا اور اس حالت میں غسل کر لیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ پانی نے زخم میں شدت پیدا کر دی اور شدت بھی ایسی کہ وہ اللہ کا بندہ اسی وجہ سے اللہ کو پیار ہوگیا۔ بہر حال یہ حدیث اس پر دلالت کرتی ہے کہ ایسے مواقع پر تیمم بھی کرنا چاہئے اور اس کے ساتھ ساتھ تمام بدن کو دھونا بھی چاہئے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ چنانچہ حضرت امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کا مسلک یہ ہے مگر امام اعظم ابوحنیفہ کے رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کے نزدیک دونوں میں سے ایک ہی چیز کافی ہے۔ حنفیہ کی جانب سے شوافع کو جواب دیتے ہوئے یہ کہا جاتا ہے کہ یہ حدیث ضعیف ہے اور پھر قیاس کے خلاف بھی ہے کہ اس سے بدل اور مبدل منہ کا جمع لازم آیا ہے۔ الحاصل اس مسئلے کا خلاصہ یہ ہے کہ ایسے مواقع پر اگر کسی آدمی کو پانی کے استعمال کرنے کی وجہ سے تلف جان کا خوف ہو تو اس کے لیے تیمم کرنا جائز ہے یہ مسئلہ سب کے نزدیک متفق علیہ ہے۔ اور اگر کسی آدمی کو یہ ڈر ہو کہ پانی کے استعمال سے مرض بڑھ جائے گا یا صحت یابی میں تاخیر ہو جائے گی تو ایسی شکل میں بھی حضرت امام اعظم اور حضرت امام مالک رحمہما اللہ تعالیٰ علیہ کے نزدیک اسے تیمم کر کے نماز پڑھ لینی جائز ہے اور بعد میں نماز کی قضا ضروری نہیں ہے حضرات شوافع کے ہاں بھی تقریباً یہ مسلک ہے۔ اگر کسی آدمی کے کسی عضو میں زخم ہو یا پھوڑا ہو اور اس کی پٹی بندھی ہوئی ہو تو اس صورت میں حضرت امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کا مسلک یہ ہے کہ اگر پٹی اتارنے سے تلف جان کا خطرہ ہو تو اسے چاہئے کہ پٹی پر مسح کرے اور تیمم کرے مگر حضرت امام اعظم اور حضرت امام مالک رحمہما اللہ تعالیٰ علیہما فرماتے ہیں کہ جب کسی آدمی کے بدن کا کچھ حصہ زخمی اور کچھ حصہ اچھا ہو تو یہ دیکھا جائے گا کہ زخمی حصہ کتنا ہے اور اچھا حصہ کتنا ہے اگر زیادہ حصہ اچھا ہے تو اسے دھوئیں گے اور زخم پر مسح کریں اور اگر اکثر حصہ زخمی ہوگا تو تیمم کریں گے اور دھونا ساقط ہو جائے گا۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کا مسلک یہ ہے کہ جو حصہ اچھا ہو ا سے دھویا جائے اور زخم کے لیے تیمم کیا جائے۔"
-
وَعَنْ اَبِیْ سَعِیْدِ الْخُدْرِیِّ قَالَ خَرَجَ رَجُلَانِ فِیْ سَفَرٍ فَحَضَرَتِ الصَّلَاۃُ وَلَیْسَ مَعَھُمَا مَآءٌ فَتَیَمَّمَا صَعِیْدًا طَیِّبًا فَصَلَّیَا ثُمَّ وَجَدَا الْمَا ۤءَ فِیْ الْوَقْتِ فَاَ عَادَاَ حَدُ ھُمَا الصَّلٰوۃَ بِوُضُوْءٍ وَلَمْ یُعِدِ الْاٰ خَرُثُمَّ اَتَیَا رَسُوْلَ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلمفَزَکَرَا ذٰلِکَ فَقَالَ لِلَّذِیْ لَمْ یُعِدْ اَصَبْتَ السُّنَّۃَ وَاَجْزَأَتْکَ صَلاَ تُکَ وَقَالَ لِلَّذِیْ تَوَضَّأَ وَ اَعَادَلَکَ الْاَجْرُ مَرَّتَیْنِ۔ (رَوَاہُ اَبُوْدَاؤدَ وَالدَّارِمِیُّ والنَّسَائِیُّ نَحْوَہ، وَ قَدْرَوٰی ھُوَ وَاَبُوْدَاؤَدَ اَیْضًا عَنْ عَطَاءِ بْنِ یَسَارٍ مُرْسَلًا)-
" اور حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ " دو آدمی سفر کو روانہ ہوئے (اثنأ راہ میں) نماز کا وقت ہوا مگر ان کے پاس پانی نہیں تھا چنانچہ دونوں نے پاک مٹی سے تیمم کیا اور نماز پڑھ لی (آگے چل کر انہیں پانی مل گیا اور نماز کا وقت بھی باقی تھا لہٰذا ان میں سے ایک نے وضو کر کے نماز لوٹا لی مگر دوسرے نے نہیں لوٹائی۔ جب دونوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے تو یہ واقعہ ذکر کیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (پورا وقعہ سن کر) اس آدمی سے جس نے نماز نہیں لوٹائی تھی فرمایا کہ تم نے سنت پر عمل کیا تمہارے لیے وہ نماز کافی ہے اور جس آدمی نے وضو کر کے نماز لوٹائی تھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا " تمہارے لیے دو گنا اجر ہے۔" (ابوداؤد ، دارمی) اور نسائی نے بھی اسی طرح روایت نقل کی ہے اور نسائی و ابوداؤد نے عطا ابن یسار سے مرسلا بھی نقل کی ہے۔ تشریح پانی نہ ملنے کی صورت میں اگر نماز پڑھ لی جائے اور پھر پانی مل جائے اور نماز کا وقت بھی باقی ہو تو اس نماز کو لوٹانا ضروری نہیں ہے اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آدمی سے جس نے نماز نہیں لوٹائی تھی فرمایا کہ تم نے سنت پر عمل کیا یعنی شریعت کا حکم چونکہ یہی ہے اس لیے تم نے شریعت کے حکم کی پابندی کی ہے کہ تیمم سے نماز پڑھ لینے کے بعد پانی ملنے کے باوجود تم نے نماز نہیں لوٹائی۔ دوسرے آدمی کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوہرے ثواب کا مستحق قرار دیا کہ ایک ثواب تو ادائے فرض کا اور دوسرا ثواب ادائے نفل کا ۔ اس مسئلے میں علماء کرام کا اتفاق ہے کہ تیمم کرنے والا نماز سے فارغ ہو کر اگر پانی دیکھے اور اسے پانی مل جائے تو اس پر نماز لوٹانا ضروری نہیں ہے خواہ نماز کا وقت باقی کیوں نہ ہو۔ لیکن صورت اگر یہ ہو کہ ایک آدمی تیمم کرنے کے بعد نماز پڑھنی شروع کر دے اور درمیان نماز سے پانی مل جائے تو اب وہ کیا کرے؟ آیا نماز ختم کر کے وضو کر لے اور پھر نماز پڑھے یا اپنی نماز تیمم ہی سے پوری کرلے؟ اس مسئلے پر علماء کرام کا اختلاف ہے؟ چنانچہ جمہور یعنی اکثر علماء کا مسلک تو یہ ہے کہ اس آدمی کو اپنی نماز ختم نہیں کرنی چاہئے بلکہ وہ نماز پوری کر لے، اس کی نماز صحیح ہوگی۔ مگر حضرت امام اعظم ابوحنیفہ اور حضرت امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کا ایک قول یہ ہے کہ اس صورت میں اس آدمی کا تیمم باطل ہو جائے گا ، گویا اسے نماز توڑ کر اور پانی سے وضو کر کے دوبارہ نماز شروع کرنی چاہئے۔
-
وَعَنْ اَبِی الْجُھَیْمِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ الصِّمَّۃِ ص قَالَ اَقْبَلَ النَّبِیُّ مِنْ نَحْوِبِئْرِ جَمَلٍ فَلَقِیَہُ رَجُلٌ فَسَلَّمَ عَلَیْہِ فَلَمْ یَرُدَّ النَّبِیُّ حَتّٰی اَقْبَلَ عَلَی الْجِدَارِ فَمَسَحَ بِوَجْھِہٖ وَیَدَیْہِ ثُمَّ رَدَّ عَلَیْہِ السَّلَامَ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)-
" حضرت ابوجہیم ابن حارث ابن صمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ " رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (مدینہ میں ) جمل کے کنوئیں کی طرف سے تشریف لائے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک آدمی (یعنی خود ابی جہیم) ملے اور سلام کیا سرکا دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے سلام کا جواب نہیں دیا اور ایک دیوار کے پاس تشریف لائے چنانچہ (پہلے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منہ اور ہاتھوں کا مسح کیا (یعنی تیمم کیا) پھر سلام کا جواب دیا ۔" (صحیح البخاری و صحیح مسلم )
-
وَعَنْ عَمَّارِ بْنِ یَاسِرْ اَنَّہ، کَانَتْ یُحَدِّثُ اَنَّھُمْ تَمَسَّحُوْا وَھُمْ مَعَ رَسُوْلِ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم بِالصَّعِیْدِ لِصَلَاۃِ الْفَجْرِ فَضَرَ بُوْابِا کُفِّھِمُ الصَّعِیْدَ ثُمَّ مَسَحُوْا بِوُجُوْھِھِمْ مَسْحَۃً وَاحِدَۃً ثُمَّ عَادُوْا فَضَرَبُوْا بِاَکُفِّھِمُ الصَّعِیْدَ مَرَّۃً اُخْرٰی فَمَسَحُوْا بِاَ یْدِیْھِمْ کُلِّھَا اِلَی الْمَنَاکِبِ وَالْاٰ بَاطِ مِنْ بُطُوْنِ اَیْدِیْھِمْ۔ (رواہ ابوداؤد)-
" اور حضرت عمار ابن یاسر رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہ بیان کرتے ہیں کہ (" ایک دفعہ) چند صحابہ کرام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھے اور (پانی نہ ملنے کی وجہ سے) فجر کی نماز کے لیے انھوں نے پاک مٹی سے (اس طرح) تیمم کیا (کہ پہلے) اپنے ہاتھوں کو مٹی پر مار کر اپنے چہروں پر پھیرا اور دوسری مرتبہ اپنے ہاتھوں کو مٹی پر مار کر اپنے پورے ہاتھوں پر یعنی کندھوں تک اور بغلوں کے اندر تک مسح کیا ہاتھوں کے اندر کی طرف سے۔" (سنن ابوداؤد) تشریح حدیث کے آخری جملے من بطون ایدیھم میں لفظ من ابتدا کے لیے ہے یعنی انہوں نے پہلے ہاتھوں کے اندر کے رخ پر ہاتھ پھیرے نہ کہ ہاتھوں کے اوپر کے رخ پر، جیسا کہ فقہاء نے لکھا ہے کہ پہلے ہاتھوں کے اوپر کے رخ پر مسح کرنا مستحب ہے۔ یا پھر اس کے معنی یہ ہوئے کہ " انھوں نے " ہتھیلیوں سے تیمم کرنا شروع کیا۔" یہی معنی زیادہ مناسب ہیں۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے ہاتھوں پر بغلوں اور مونڈھوں تک مسح کیا اس کی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے خیال کیا کہ آیت تیمم میں " ید" یعنی ہاتھ کا لفط مذکور ہے جو مطلق ہے ۔ اس آیت سے اور اس لفظ سے یہ بصراحت معلوم نہیں ہوتا کہ ہاتھوں پر مسح کہاں تک کیا جائے لہٰذا اس اطلاق کا تقاضا یہ ہے کہ " ید" یعنی ہاتھ جو انگلیوں سے لے کر بغل اور کندھوں تک کے حصے کے لیے بولا جاتا ہے اس پورے حصے پر مسح کیا جائے اس لیے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے ہاتھ کے پورے حصے پر مسح کر ڈالا۔ اب جہاں تک مسئلے کا تعلق ہے تو یہ کہا جائے گا کہ یہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا اپنا اجتہاد تھا کیونکہ جمہور علماء کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے تیمم میں ہاتھوں پر کہینوں تک مسح کرنے کا جو حکم دیا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ تیمم وضو کا قائم مقام ہے اور وضو کے بارے میں قرآن نے صراحت کے ساتھ بتادیا کہ ہاتھوں کو کہینوں تک دھونا فرض ہے لہٰذا جس طرح اصل یعنی وضو میں ہاتھوں کو کہنیوں تک دھویا جاتا ہے ۔ وضو کے قائم مقام یعنی تیمم میں بھی ہاتھوں پر مسح وہیں تک کیا جا نا چاہئے۔ پھر اس سے پہلے تیمم کے بارے میں کچھ احکام نقل کئے گئے تھے اس حدیث پر چونکہ باب ختم ہو رہا ہے اس لیے مناسب ہے کہ تیمم کے چھ دوسرے احکام و مسائل جو پہلے نقل نہیں کئے گئے ذکر کر دئیے جائیں۔ پہلے بتایا جا چکا ہے کہ تیمم ان چیزوں سے کرنا چاہئے جو زمین کی جنس سے ہوں چنانچہ مٹی، ریت ، چونا، قلعی، سرمہ، ہڑتال اور پتھر سے تیمم کیا جا سکتا ہے، اسی طرح موتی اور مونگے کے علاوہ تمام جواہرت سے بھی تیمم کیا جاسکتا ہے۔ یہ بھی سمجھ لیجئے کہ تیمم کرنے کے لیے ان چیزوں پر جو زمین کی جنس سے ہوں غبار ہونا ضروری نہیں ہے۔ یعنی ان مذکور چیزوں پر غبار نہ ہونے کی صورت میں بھی ان سے تیمم کیا جا سکتا ہے ۔ ہاں اگر ایسی چیز کے ذریعے تیمم کیا جائے جو زمین کی جنس سے نہ ہو تو اس پر غبار ہونا ضروری ہے، غبار نہ ہونے کی شکل میں اس کے ذریعے کیا گیا تیمم جائز نہ ہوگا، مثلاً کسی لکڑی، کپڑے یا سونے اور چاندی وغیرہ پر غبار ہو تو اس سے تیمم جائز ہے۔ تیمم کے جواز کے لیے چار شرائط ہیں۔ (١) پانی کے استعمال سے حقیقۃً یا حکمًا عاجز ہونا۔ (٢) جس چیز سے تیمم کیا جائے اس کا پاک ہونا۔ (٣) استیعاب یعنی اعضاء تیمم کے ہر ہر حصے پر اس طرح ہاتھ پھیرنا کہ کوئی جگہ مسح سے باقی نہ رہ جائے۔ (٤) نیت اس کے بارے میں پہلے بتایا جا چکا ہے کہ نماز اسی تیمم سے صحیح ہوگی جس میں حدث سے طہارت کی نیت کی جائے۔ اس سلسلے میں (حدث یا جنابت کی تعیین شرط نہیں ہے) یا اس سے عبادت مقصودہ کی نیت کی جائے جو بغر طہارت کے صحیح نہیں ہوتی۔ چنانچہ اگر کافر اسلام قبول کرنے کے لیے تیمم کرے یا کوئی آدمی مسجد میں جانے کے لیے تیمم اور پھر یہ چاہئے کہ اسی تیمم سے نماز پڑھ لے تو نماز اس تیمم سے جائز نہ ہوگی۔ جنبی، محدث، حائضہ اور نفاس والی عورت سب کے لیے تیمم کا ایک ہی طریقہ ہے جو پہلے ذکر کیا جا چکا ہے۔
-