تیز ہوا کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا

وَعَنْھَا قَالَتْ کَانَ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وسلم اِذَا عَصَفَتِ الرِّےْحُ قَالَ اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ خَےْرَھَا وَخَےْرَ مَا فِیْھَا وَ خَیْرَ مَااُرْسِلَتْ بِہٖ وَاَعُوْذُبِکَ مِنْ شَرِّھَا وَشَرِّ مَا فِےْھَا وَشَرِّ مَا اُرْسِلَتْ بِِہٖ وَاِذَا تَخَےَّلَتِ السَّمَآءُ تَغَےَّرَ لَوْنُہُ وَخَرَجَ وَدَخَلَ وَاَقْبَلَ وَاَدْبَرَ فَاِذَا مَطَرَتْ سُرِّیَ عَنْہُ فَعَرَفَتْ ذَالِکَ عَآئِشَۃُ فَسَاَلَتْہُ فَقَالَ لَعَلَّہُ ےَا عَائِشَۃُ کَمَا قَالَ قَوْمُ عَادٍ فَلَمَّا رَاَوْہُ عَارِضًا مُّسْتَقْبِلَ اَوْدِےَتِھِمْ قَالُوْا ھٰذَا عَارِضٌ مُمْطِرُنَا وَفِیْ رِوَاےَۃٍ ےَقُوْلُ اِذَا رَاَی الْمَطَرَ رَحْمَۃً۔(صحیح البخاری و صحیح مسلم)-
" اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ جب شدت کی ہوا چلتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا فرماتے " اے اللہ ! میں مانگتا ہوں تجھ سے بھلائی جو اس (ہوا کی ذات میں ہے اور بھلائی اس چیز کی جو اس میں ہے (یعنی اس کے منافع) اور بھلائی اس چیز کی جس کے لیے یہ ہوا بھیجی گئی ہے (یعنی اس کی مدد) اور پناہ مانگتاہوں تیرے ذریعہ اس برائی سے اور اس چیز کی برائی سے جو اس میں ہے (یعنی یہ عذاب کا باعث نہ ہو) اور جب آسمان ابر آلود ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (کے چہر مبارک) کا رنگ بدل جاتا چنانچہ (اضطراب و گھبراہٹ کی وجہ سے ایک جگہ نہ رہتے بلکہ) کبھی گھر سے باہر نکلتے اور کبھی باہر سے اندر آتے اس طرح پھر آتے اور پھر جاتے ۔ جب بارش شروع ہو جاتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا خوف واضطراب ختم ہوجاتا (ایک مرتبہ) حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے جب یہ (تغیر و اضطراب) محسوس کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا سبب پوچھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ " عائشہ " کیا! خبر یہ ابر و یسا ہی ہو جس کی نسبت قوم عاد نے کہا تھا کہ " یہ ابر ہے جو ہم پر بر سے گا۔' ' چنانچہ اس آیت میں قوم عاد کا حال بیان کیا گیا ہے کہ " جب انہوں نے ابر کو اپنے نالوں اور وادیوں پر آتے ہوئے دیکھا کہ یہ ابر ہے جو ہم پر بر سے گا۔" اور ایک روایت میں بجائے (فاذا مطرت سری عنہ) یہ الفاظ ہیں کہ " جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم بارش کو دیکھتے تو یہ فرماتے کہ یہ بارش باعث رحمت ہو۔" (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح مذکورہ بالا آیت میں قوم عاد کی ہلاکت کی ابتداء کا ذکر کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا عذاب جب ابر کی شکل میں ان پر نمودار ہوا تو اسی خوش فہمی میں رہے کہ یہ ابر ہمارے اوپر بارش برسائے گا، مگر حق تعالیٰ نے ان کی اس خوش فہمی کو جلد ہی ہلاکت میں بدل دیا جس کا اظہار اسی آیت کے دوسرے الفاظ میں بل ھو ما استعجلتم الا یہ کے ذریعہ بایں طور کیا گیا ہے کہ (نہیں ) بلکہ (یہ) وہ چیز ہے جس کے لیے تم رہ گئے کہ ان کے گھروں کے سوا کچھ نظر نہیں آتا تھا ، گنہگار لوگوں کو ہم اسی طرح سزا دیا کرتے ہیں۔ پس حدیث کا حاصل یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب ابر دیکھتے تو پڑھتے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ جس طرح قوم عاد نے ابر دیکھ کر یہ سمجھا تھا کہ ہم پر بارش ہوگی اور پھر وہ ابر ان پر بارش تو کیا برساتا بلکہ ایسی تند و تیز آندھی آئی جس نے آن واحد میں پوری قوم کو ہلاکت کی وادی میں پھینک دیا اسی لیے ہمارے لیے بھی یہ ابر ہلاکت و بربادی کا باعث نہ ہو۔؟
-
وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ مَا ھَبَّتْ رِیْحُ قَطُّ اِلَّا جَثَا النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وسلم عَلٰی رُکْبَتَیْہِ وَقَالَ اَللّٰھُمَّ اجْعَلْھَا رَحْمَۃً وَّلَا تَجْعَلْھَا عَذَابًا اَللّٰھُمَّ اجْعَلْھَا رِیَا حًا وَلَا تَجْعَلْھَا رِیْحًا قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ فِیْ کِتَابِ اﷲِ تَعَالیٰ اِنَّا اَرْسَلْنَا عَلَیْھِمْ رِیْھَاصَرْ صَرَاوَّاَرْ سَلْنَا عَلَیْھِمُ الرِّیْحَ الْعَقِیْمَ وَاَرْسَلْنَا الرِّ یَاحَ لِوَاقِحٌ وَاَنْ یَّرْسِلَ الرِّیَاحَ مُبَشِّرَاتٍ رَوَاہُ الشَّافِعِیُّ وَالْبَیْھِقِیُّ فِی الدَّعْوَاتِ الْکَبِیْرِ۔-
" حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ جب بھی (تیز) ہوا چلتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ( اللہ کے سامنے عجز و انکساری کے اظہار) امت کی طرف سے خوف اور تعلیم کے پیش نظر کہ دوسرے لوگ بھی ایسا ہی کریں) دوزانوں ہو کر بیٹھ جاتے تھے اور یہ دعا فرماتے تھے۔" اے اللہ ! اس ہوا کو ریاح (یعنی رحمت) بناء ریح (یعنی عذاب) نہ بنا۔" حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ قرآن کریم کی یہ آیات کریمہ ہیں (جن کا ترجمہ یہ ہے) کہ " اور بھیجی ہم نے ان پر تیز و تند ہوا۔" اور بھیجی ہم نے ان پر بانجھ ہوا (یعنی ایسی ہوا جو درختوں کو ثمر آور نہیں ہونے دیتی تھی)" اور بھیجیں ہم نے میوہ لانے والی ہوائیں۔" اور یہ کہ بھیجتا ہے اللہ تعالیٰ (بارش کی) خوشخبری لانے والی ہوائیں۔" (شافعی ، بیہقی) تشریح مشہور اور صحیح یہ ہے کہ لفظ " ریح" جو مفرد ہے عذاب کے موقع پر استعمال کیا جاتا ہے جیسا کہ اس روایت میں ذکر کردہ پہلی دونوں آیتوں سے معلوم ہوا، اور لفظ " ریاح" جو جمع ہے رحمت کے موقع پر مستعمل ہوتا ہے جیسا کہ آخر کی دونوں آیتوں سے ثابت ہوا ۔ پس حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اس روایت میں مذکور دعا میں " ریاح" سے مراد رحمت اور " ریح" سے مراد " عذاب" ہے لیکن ابوجعفر طحاوی نے اس میں اشکال ظاہر کیا ہے کیونکہ قرآن کریم ہی میں یہ بھی ارشاد ہے کہ وجرین بھم بر یح طیبۃ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ " ریح" رحمت و بھلائی کے لیے مستعمل ہے۔ اسی طرح بعض احادیث میں بھی لفظ" ریح" جو مفرد ہے خیر و شر دونوں موقعوں کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی گذشتہ روایت ( نمبر ٦) کے الفاظ الریح من روح اللہ الخ کو دیکھ لیجئے۔ لہٰذا اس اشکال کے پیش نظر خطابی نے اس حدیث کی توجیہہ یہ کی ہے کہ جب بہت ساری ہوائیں آتی ہیں تو وہ ابروبارش لاتی ہیں اور کھیتوں میں نمو پیدا کرتی ہیں۔ جب کہ ایک ہوا میں یہ تایثر کم ہوتی ہے اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا فرمائی کہ " اے اللہ ! اس ہوا کو ریاح بنا ، ریح نہ بنا۔"
-