تیر کے شکار کا حکم

وعنه قال : قلت : يا رسول الله أرمي الصيد فأجد فيه من الغد سهمي قال : " إذا علمت أن سهمك قتله ولم تر فيه أثر سبع فكل " . رواه أبو داود-
' ' اور حضرت عدی ابن حاتم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! میں شکار پر اپنا تیر چلاتا ہوں اور پھر اگلے دن ( جب وہ شکار کہیں پڑا ہوا مجھے ملتا ہے تو ) اس میں میں اپنا تیر پاتا ہوں ( کیا میں وہ شکار کو کھا سکتا ہوں ؟ ) " آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " اس صورت میں اگر تم یہ جانور کہ اس شکار کو تمہارے ہی تیر نے مار ڈالا ہے اور اس ( شکار ) میں تم کسی درندے کا کوئی نشان نہ پاؤ تو اس کو کھا سکتے ہو ( اور اگر اس شکار میں کسی درندے کے دانت یا پنجے وغیرہ کوئی نشان پاؤ یا کسی دوسرے کے تیر کی علامت پاؤ تو اس صورت میں اس کو مت کھاؤ ۔ " ( ابوداؤد ) جس غیر مسلم کے ہاتھ کا ذبیحہ حلال نہیں ، اس کا کتے وغیرہ کے ذریعہ پکڑا ہوا شکار بھی حلال نہیں
-
وعن جابر قال : نهينا عن صيد كلب المجوس . رواه الترمذي-
" اور حضرت حابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہمیں مجوسیوں کے کتے کا پکڑا ہوا شکار کھانے سے منع کیا گیا ہے ۔ " ( ترمذی ) تشریح مطلب یہ ہے کہ جس شکار کو مجوسی اپنے کتے یا کسی مسلمان کے کتے کے ذریعہ پکڑے اس کو کھانا جائز نہیں ہے ۔ ہاں اگر وہ شکار زندہ ہاتھ لگے اور اس کو ذبح کر لیا جائے تو اس صورت میں اس کو کھانا جائز ہوگا ، اور اسی طرح اگر مسلمان نے مجوسی کے کتے کے ذریعہ شکار مارا ہے تو اس کو کھانا بھی جائز ہو گا اور اگر کتے چھوڑنے یا تیر چلانے میں مسلمان اور مجوسی دونوں شریک ہوں ، اور وہ شکار مارے تو وہ شکار بھی حلال نہیں ہو گا ۔
-