TRUE HADITH
Home
About
Mission
Contact
مشکوۃ شریف
نماز کا بیان
تکبیر تحریمہ کے بعد کی دعا
عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ کَانَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم اِذَا افْتَتَحَ الصَّلٰوۃَ قَالَ سُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ وَ بِحَمْدِکَ وَتَبَارَکَ اسْمُکَ وَ تَعَالٰی جَدُّکَ وَلَا اِلٰہَ غَیْرُکْ رَوَاہُ التِّرْمِذِیُّ وَ اَبُوْدَاؤدَ وَرَوَاہُ ابْنُ مَاجَۃَ عَنْ اَبِیْ سَعِیْدٍ وَ قَالَ التِّرْمِذِیُّ ھٰذَا حَدِیْثٌ لَا نَعْرِفُہ، اِلَّا مِنْ حَارِثَۃَ وَ قَدْ تُکَلِّمَ فِیْہِ مِنْ قِبَلِ حِفْظِہٖ۔-
" حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز شروع کرتے تو (تکبیر تحریمہ کے بعد) یہ پڑھا کرتے تھے۔ "سُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ وَ بِحَمْدِکَ وَتَبَارَکَ اسْمُکَ وَ تَعَالٰی جَدُّکَ وَلَا اِلٰہَ غَیْرُکْ" اللہ تو پاک ہے اور ہم تیری پاکی تیری تعریف کے ساتھ بیان کرتے ہیں۔تیرا نام بابرکت ہے، تیری شان بلند و برتر ہے اور تیرے سوا کوئی معبود نہیں ہے ۔ یہ حدیث ترمذی اور ابوداؤد نے نقل کی ہے نیز ابن ماجہ نے (بھی) اس روایت کو ابوسعید سے نقل کیا ہے اور ترمذی نے کہا ہے کہ اس حدیث کو ہم سوائے (بواسطہ) حارثہ راوی کے نہیں جانتے اور اس میں قوت حافظہ کے فقدان کی وجہ سے کلام کیا گیا ہے۔" تشریح علامہ طیبی شافعی نے اس حدیث کے بارے میں کہا ہے کہ یہ حدیث حسن مشہور ہے اور اس حدیث پر خلفائے راشدین میں سے حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عمل کیا ہے نیز یہ حدیث مسلم میں بھی منقول ہے ۔ اس موقعہ پر علامہ موصوف نے اس حدیث کی تقویت کے بارے میں بہت لمبی چوڑی بحث کی ہے جسے اہل علم و نظر ان کی کتاب میں دیکھ سکتے ہیں۔
-
وَعَنْ جُبَیْرِ بْنِ مُطْعِمٍ اَنَّہ، رَاٰی رَسُوْلَ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلمیُصَلِّی صَلَاۃً قَالَ اَﷲُ اَکْبَرُ کَبِیْرًا اَﷲُ اَکْبَرُ کَبِیْرًا اَﷲُ اَکْبَرُ کَبِیْرًا وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ کَثِیْرَا وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ کَثِیْرَا وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ کَثِیْرَا وَسُبْحَانَ اﷲِ بُکْرَۃَ وَّاصِیْلَا ثَلَاثًا اَعُوْذُ بِاﷲِ مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیْمِ مِنْ نَفْخِہٖ وَنَفَثِہٖ وَھَمَزِہٖ رَوَاہُ اَبُوْدَاؤدَ وَابْنُ مَاجَۃَ اِلَّا اَنَّہ، لَمْ یَذْکُرْوَ الْحَمْدُ لِلّٰہِ کَثِیْرًا وَذَکَرَ فِیْ اٰخِرِہٖ مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیْمِ وَقَالَ عُمَرُ نَفْخُہُ الْکِبْرُ وَ نَفْثُہُ الشِّعْرُ وَ ھَمْزُہُ المُؤْتَۃُ۔-
" اور حضرت جبیر ابن مطعم رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے چنانچہ آپ (تکبیر تحریمہ کے بعد، کہتے تھے اَ اَکْبَرُ کَبِیْرًا اَ اَکْبَرُ کَبِیْرًا اللہ اَکْبَرُ کَبِیْرًا وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ کَثِیْرَا وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ کَثِیْرَا وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ کَثِیْرَا وَسُبْحَانَ ا بُکْرَۃَ وَّاصِیْلَا (یعنی اللہ بہت بڑا و برتر ہے اللہ بہت بڑا و برتر ہے، اللہ بہت بڑا و برتر ہے، اللہ کے واسطے بہت تعریف ہے۔ اللہ کے واسطے بہت تعریف ہے میں اور پاکی بیان کرتا ہوں اللہ کی صبح و شام، تین مرتبہ پہلے کلمات کی طرح وَسُبْحَانَ ا بُکْرَۃَ وَّاصِیْلَا کو بھی تین مرتبہ کہتے تھے اور پھر اس کے بعد یہ کہتے تھے) اَعُوْذُ بِا مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیْمِ مِنْ نَفْخِہ وَنَفَثِہ وَھَمَزِہ (یعنی شیطان کے تکبر، اس کے شعروں اور اس کے وسوسوں سے پناہ مانگتا ہوں، اس حدیث کو ابوداؤد اور سنن ابن ماجہ نے نقل کیا ہے البتہ ابن ماجہ نے وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ کَثِیْرَا ذکر نہیں کیا ہے اور آخر میں مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیْمِ ذکر کیا ہے۔ نیز حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے تھے کہ شیطان کے نفخ سے تکبر، اس کے نفث سے شعر اور اس کے ہمز سے جنون مراد ہے۔" تشریح " نفح شیطان" سے مراد تکبر و خود پسندی ہے جس میں شیطان آدمی کو اس طرح پھنساتا ہے کہ اس کو خود اس کی نظر میں اس حیثیت سے دکھاتا ہے کہ وہ آدمی اپنے آپ کو اچھا اور اعلیٰ سمجھ کر تکبر میں مبتلا ہو جاتا ہے اس طرح شیطان آدمی سے تکبر کا ارتکاب کراتا ہے۔ گویا نفح شیطان کا مطلب یہ ہوا کہ شیطان آدمی میں تکبر کی لہر پھونک دیتا ہے۔ نفث سے جس کے معنی دم کرنے یعنی پھونکنے کے ہیں سحر مراد لیا گیا ہے جو شیطان آدمی پر کرتا ہے یا آدمی سے کسی دوسرے پہ کراتا ہے یہ معنی ارشاد ربانی آیت ( وَمِنْ شَرِّالنَّفّٰثٰتِ فِی الْعُقَدِ ) سورت الناس) کی مناسبت سے زیادہ اولیٰ ہے کیونکہ اس آیت کریمہ میں نَفّٰثٰتِ سے مراد سحر کرنے والی عورتیں ہیں۔ بعض حضرات نے کہا ہے کہ " نفثت' سے مراد غیر سنجیدہ اور برے مضمون کے اشعار ہیں جنہیں شیطان آدمی کے تخیل میں ڈالتا ہے اور پھر انہیں اس کی زبان سے صادر کراتا ہے جیسے برے منتر یا وہ غلط اشعار جن میں مسلمانوں کی ہجو اور کفر و فسق کے الفاظ ہوتے ہیں ۔ " ھمز" سے مراد غیبت کرنا اور لعن و طعن کرنا ہے۔ بعض حضرات نے کہا ہے کہ ہمز شیطان سے اس کا وسوسہ مراد ہے جیسا کہ اس آیت (وَقُلْ رَّبِّ اَعُوْذُ بِكَ مِنْ هَمَزٰتِ الشَّيٰطِيْنِ) 23۔ المومنون : 67) میں ہمزات سے مراد شیطان کے وسو سے لیے گئے ہیں۔ بہر حال یہ معانی اسی وقت مراد لیے جائیں گے جب کہ یہ ثابت ہو جائے کہ حدیث میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ان تینوں الفاظ کی جو توضیح نقل کی گئی ہے وہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول نہیں ہے بلکہ کسی راوی کا ہے۔ اگر یہ توضیح صحیح طور پر حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ثابت ہو تو پھر وہی معنی مراد ہوں جو حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے منقول ہیں اور ان کے علاوہ دوسرے معنی مراد نہیں لیے جائیں گے۔
-
عَنْ جَابِرْ قَالَ کَانَ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وسلماِذَا اسْتَفْتَحَ الصَّلَاۃَ کَبَّرَ ثُمَّ قَالَ اِنَّ صَلَا تِیْ وَ نُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ لَا شَرِیْکَ لَہ، وَبِذٰلِکَ اُمِرْتُ وَاَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِیْنَ اَللّٰھُمَّ اھْدِنِیْ لِاَحْسَنِ الْاَ عْمَالِ وَاَحْسَنِ الْاَخْلَاقِ لَا یَھْدِیْ لِاَ حْسَنِھَا اِلَّا اَنْتَ وَقِنِیْ سَیِّئَ الْاَعْمَالِ وَسَیِّئَ الْاَ خْلَاقِ لَا یَقِیْ سَیِّئَھَا اِلاَّ اَنْتَ۔ (رواہ النسائی )-
" اور حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز شروع کرتے تو (پہلے) تکبیر تحریمہ (یعنی اللہ اکبر) کہتے پھر یہ دعا پڑھتے اِنَّ صَلَاتِیْ وَ نُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ لَا شَرِیْکَ لَہ، وَبِذٰلِکَ اُمِرْتُ وَاَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِیْنَ اَللّٰھُمَّ اھْدِنِیْ لِاَحْسَنِ الْاَ عْمَالِ وَاَحْسَنِ الْاَخْلَاقِ لَا یَھْدِیْ لِاَ حْسَنِھَا اِلَّا اَنْتَ وَقِنِیْ سَیِّئَ الْاَعْمَالِ وَسَیِّئَ الْاَ خْلَاقِ لَا یَقِیْ سَیِّئَھَا اِلاَّ اَنْتَمیری نماز میری عبادت میری زندگی اور میری موت (سب کچھ) پروردگار عالم ہی کے لیے ہے جس کا کوئی شریک نہیں ہے اور اسی کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور میں سب سے پہلا مسلمان (یعنی فرما نبردار) ہوں۔ اے اللہ ! نیک اعمال اور حسن اخلاق کی طرف میری رہنمائی کر کیونکہ بہترین اعمال و اخلاق کی طرف توہی رہنمائی کر سکتا ہے اور مجھے برے اعمال و بد اخلاقی سے بچا کیونکہ برے اعمال و اخلاق سے تو ہی بچا سکتا ہے۔" (سنن نسائی) تشریح اَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِیْنْ (یعنی میں سب سے پہلا مسلمان ہوں) کی تشریح میں علماء لکھتے ہیں کہ یہ خصوصیت صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہی حاصل ہے کہ سب سے پہلا اسلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے کیونکہ پیغمبر اپنی امت میں سب سے پہلا مسلمان ہوتا ہے چونکہ قرآن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا حکم دیا گیا ہے کہ اس طرح کہیں اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی دوسرے کے لیے یہ بات کہ وہ اَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِیْنْ کہنادرست نہیں ہے بلکہ ایک قسم کو جھوٹ ہوگا چنانچہ بعض حضرات نے کہا ہے کہ اگر کوئی آدمی نماز میں اس طرح کہے تو اس کی نماز فاسد ہو جائے گی۔ لیکن اس سلسلے میں صحیح یہ ہے کہ اگر کوئی آدمی ان الفاظ کو آیت قرآن کی تلاوت کی نیت سے نہ کہ اپنی حالت کی خبر دینے کی نیت سے ادا کرے تو نماز فاسد نہیں ہوگی۔ اس مسئلے میں ایک خیال یہ ہے کہ اگر کوئی آدمی اس جملے کو " خبر" قرار نہ دے بلکہ اس کا مقصد تجدید ایمان و اسلام کی انشاء اور اطاعت و فرمانبرداری کا اظہار ہو تو کوئی مضائقہ نہیں ہے جیسا کہ امراء و سلاطین کے تابعدار لوگ کسی حکم کے صادر ہونے کے وقت کہتے ہیں کہ " جو بھی حکم ہو اس کی اطاعت پہلے جو کرے گا وہ میں ہوں گا۔" گویا اس طرح اطاعت و فرمانبرداری کا اظہار مقصود ہوتا ہے۔
-
وَعَنْ مُحَمَّدِ بْنِ مَسْلَمَۃَ قَالَ اَنَّ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم اِذَا قَامَ یُصَلِّیْ تَطَوُّعًا قَالَ اﷲُ اَکْبَرُ وَجَّھْتُ وَجْھِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمٰوَاتِ وَالْاَرْضَ حَنِیْفًا وَّمَا اَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ وَذَکَرَ الْحَدِیْثَ مِثْلَ حَدِیْثِ جَابِرٍ اِلَّا اَنَّہُ قَالَ وَ اَنَا مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ ثُمَ قَالَ اَللّٰھُمَّ اَنْتَ الْمٰلِکُ لَا اِلٰہَ اِلَّا اَنْتَ سُبْحَانَکَ وَبِحَمْدِکَ ثُمَّ یَقْرَأُ۔(رواہ النسائی )-
" اور حضرت محمد بن مسلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز نفل پڑھنے کے لیے کھڑے ہوتے تو یہ کہتے ا اَکْبَرُ وَجَّھْتُ وَجْھِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمٰوَاتِ وَالْاَرْضَ حَنِیْفًا وَّمَا اَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ ترجمہ : اللہ بہت بڑا ہے ۔ میں نے اپنا منہ اس ذات کی طرف متوجہ کیا جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے در حالیکہ میں تو حید کو ماننے والا ہوں اور مشرکین میں سے نہیں ہوں۔ (اس کے بعد راوی نے) حضرت جابر ( کی مذکورہ بالا حدیث) کی مانند حدیث بیان کی ہے لیکن محمد نے (وَ اَنَا اَوَّلَ الْمُسْلِمِیْنَ کی جگہ) وَ اَنَا مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ کے الفاظ ذکر کئے ہیں۔ پھر اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ فرماتے ہیں اَللّٰھُمَّ اَنْتَ الْمٰلِکُ لَا اِلٰہَ اِلَّا اَنْتَ سُبْحَانَکَ وَبِحَمْدِکَ اے اللہ ! تو ہی بادشاہ ہے، تیرے سوا کوئی معبود نہیں، تو پاک ہے اور تیرے ہی لیے تعریف ہے ۔ اس کے بعد (تعوذ و بسملہ پڑھ کر) قرات کرتے تھے۔" (سنن نسائی )
-