TRUE HADITH
Home
About
Mission
Contact
مشکوۃ شریف
قربانى کا بیان
تکبیرات عیدین
وَعَنْ کَثِیْرِ بْنِ عَبْدِاﷲِ عَنْ اَبِیْہٖ عَنْ جَدِّہٖ اَنَّ النَّبِیَّ صلی اللہ علیہ وسلم کَبَّرَ فِی الْعِیْدَیْنِ فِی الْاُوْلٰی سَبْعًا قَبْلَ الْقِرَاءَ ۃِ۔ (رواہ الترمذی و ابن ماجۃ و الدارمی)-
" اور حضرت کیثر ابن عبداللہ اپنے والد سے اور وہ کیثر کے دادا سے یعنی اپنے والد مکرم سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عیدین کی نماز میں پہلی رکعت میں قرات سے پہلے پانچ تکبیریں کہیں۔" (جامع ترمذی ، ابن ماجۃ، دارمی) تشریح مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلی رکعت میں قرات سے پہلے تحریمہ اور رکوع کی تکبیروں کے علاوہ ساتھ تکبیریں کہیں۔ اسی طرح دوسری رکعت میں قیام اور رکوع کی تکبیروں کے علاوہ پانچ تکبیریں کہیں۔ چنانچہ حضرت امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کا اسی پر عمل ہے اس سلسلہ میں مفصل بحث آگے آرہی ہے۔
-
وَعَنْ جَعْفِرِ بْنِ مُحَمَّدٍ مُرْسَلًا اَنَّ النَّبِیَّ صلی اللہ علیہ وسلم وَاَبَا بَکْرٍ وَ عُمَرَ کَبَّرُوا فِی الْعِیْدَیْنِ وَالْاِسْتِسْقَآءِ سَبْعًا وَخَمْسًا وَصَلَّوْا قَبْلَ الْخُطْبَۃِ وَجَھَرُوْابِلْقِرَاءَ ۃِ۔ (رواہ الشافعی)-
" اور حضرت جعفر ابن محمد مرسلا روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما عیدین اور استسقاء کی نماز میں سات اور پانچ تکبیریں کہا کر تھے اور (عیدین و استسقاء کی) نماز خطبہ سے پہلے پڑھا کرتے تھے، نیز قرات بآواز بلند پڑھتے تھے۔" (شامی) تشریح " جعفر" سے مراد امام جعفر صادق ابن محمد باقر ابن علی یعنی امام زین العابدین ابن حضرت امام حسین ابن علی ابن حضرت علی کرم اللہ وجہہ ہیں۔ سات اور پانچ کی وضاحت حدیث بالا تاکید کی ہے کہ پہلی رکعت میں قرات سے پہلے سات تکبیریں اور دوسرک رکعت میں قرار سے پہلے پانچ تکبیریں کہا کرتے تھے ، یہ بھی بتایا جا چکا ہے کہ حضرت امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کا یہی مسلک ہے۔
-
وَعَنْ سَعِیْدِ بْنِ الْعَاصِ قَالَ سَأَلْتُ اَبَا مُوْسٰی وَحُذَیْفَۃَ کَیْفَ کَانَ رَسُوْلَ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم یُکَبِّرُ فِی الْاَضْحٰی وَالْفِطْرِ ؟ فَقَالَ اَبُوْ مُوْسٰی کَانَ یُکَبِّرُ اَرْبَعًا تَکْبِیْرَہ، عَلَی الْجَنَائِزِ فَقَالَ حُذَیْفَۃُ صَدَقَ۔ (رواہ ابوداؤد)-
" اور حضرت سعید ابن عاص فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابوموسی و حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے سوال کیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم عید و بقر عید کی نماز میں کتنی تکبیریں کہتے تھے؟ تو حضرت ابوموسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب دیا کہ " جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم جنازہ میں چار تکبیریں کہتے تھے اسی طرح عیدین کی نماز میں بھی چار تکبیریں کہا کرتے تھے" حضرت حذیفہ نے (یہ سن کر) فرمایا کہ " ابوموسی نے سچ کہا " (ابوداؤد) تشریح حضرت ابوموسی کے جواب کی تفصیل یہ ہے کہ جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز جناز میں چار تکبیریں کہا کرتے تھے اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم عیدین کی نماز میں بھی ہر رکعت میں چار تکبیریں کہا کرتے تھے اس طرح کہ پہلی رکعت میں تو قرات سے پہلے تکبیر تحریمہ سمیت چار تکبیریں کہتے تھے اور دوسری رکعت میں قرات کے بعد رکوع کی تکبیر سمیت چار تکبیریں کہتے تھے۔ اس سلسلہ میں یہ بات جان لینی چاہیے کہ تکبیرات عید کے سلسلہ میں متضاد احادیث منقول ہیں اسی وجہ سے ائمہ کے مسلک میں بھی اختلاف ظاہر ہوا ہے چنانچہ تینوں اماموں کے نزدیک عیدین کی نماز میں پہلی رکعت میں سات تکبیریں ہیں اور دوسری رکعت میں پانچ تکبیریں ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ حضرت امام مالک اور حضرت امام احمد کے ہاں تو پہلی رکعت میں سات تکبیریں مع تکبیر تحریمہ کے ہیں اور اسی طرح دوسری رکعت میں پانچ تکبیریں تکبیر قیام سمیت ہیں جب کہ حضرت امام شافعی کے نزدیک پہلی رکعت میں سات تکبیریں تکبیر تحریمہ کے علاوہ اور دوسری رکعت میں پانچ تکبیریں تکبیر قیام کے علاوہ ہیں۔ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کا مسلک یہ ہے کہ تکبیر تحریمہ کے علاوہ تین تکبیریں پہلی رکعت میں اور تکبیر رکوع کے علاوہ تین تکبیریں دوسری رکعت میں ہیں جیسا کہ اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے ۔ نیز اسی کو حضرت عبداللہ ابن مسعود نے بھی اختیار کیا ہے جبکہ حضرت امام شافعی کے مسلک کے مطابق حضرت عبداللہ ابن عباس کا مسلک ہے یہاں تک ان احادیث کا تعلق ہے جن سے حضرت امام شافعی استدلال کرتے ہیں تو ان کی صحت و ضعف اور ان کی اسناد و طرق کے بارہ میں بہت زیادہ اعتراضات ہیں جس کو یہاں نقل کرنے کا موقع نہیں ہے۔ علماء حنیفہ اپنے مسلک کے بارہ میں لکھتے ہیں کہ تکبیرات عیدین کے سلسلہ میں جب متضاد اور مختلف احادیث سامنے آئیں تو ہم نے ان میں سے ان احادیث کو اپنا معمول بہ قرار دیا جن میں تکبیرات کی تعداد کم منقول تھی کیونکہ عیدین کی زائد تکبیریں اور رفع یدین بہر حال خلاف معمول ہیں اس لیے کم تعداد کا اختیار کرنا ہی اولیٰ ہوگا۔
-