توکل اختیار کرنے والوں کی فضیلت

عن ابن عباس قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم يدخل الجنة من أمتي سبعون ألفا بغير حساب هم الذين لا يسترقون ولا يتطيرون وعلى ربهم يتوكلون متفق عليه ( متفق عليه )-
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ میری امت میں سے ستر ہزار لوگ بغیر حساب جنت میں داخل ہوں گے جو منتر نہیں کراتے، شگون بد نہیں لیتے ہیں اور (اپنے تمام امور میں جن کا تعلق خواہ کسی چیز کو اختیار کرنے سے ہو یا اس کو چھوڑنے سے) صرف اپنے پروردگار پر بھروسہ کرتے ہیں۔ (بخاری ومسلم) تشریح ستر ہزار کی تعداد سے مراد صرف وہ لوگ ہیں جو مستقل بالذات بغیر حساب جنت میں داخل ہوں گے اس تعداد میں وہ لوگ شامل نہیں ہیں جو ان ستر ہزار لوگوں کے متبعین کی حیثیت سے ان کے ساتھ جنت میں جائیں گے۔ یہ وضاحت اس لئے کی گئی ہے تاکہ یہ روایت اس روایت کے منافی نہ رہے جس میں یہ فرمایا گیا ہے کہ بے حساب جنت میں جانے والے ان لوگوں میں ہر ایک کے ساتھ ان کے ستر ستر ہزار متبعین بھی ہوں گے۔ " منتر نہیں کراتے" میں منتر سے مراد یا تو مطلق جھاڑ پھونک اور تعویذ گنڈا وغیرہ ہے۔ یا اس سے وہ منتر اور ٹونا ٹوٹکا مراد ہے جو کلمات قرآنیہ، ادعیہ ماثورہ اور اسماء الٰہی کے بغیر ہوں۔ اسی طرح " شگون بد" نہیں لیتے سے مراد یہ ہے کہ زمانہ جاہلیت کے لوگوں کی طرح پرندوں کے اڑ جانے اور آواز وغیرہ سن کر ان سے شگون بد نہیں لیتے ہیں بلکہ یوں گویا ہوتے ہیں کہ اللہم لا طیر الا طیرک ولا خیر الا خیرک ولا الہ غیرک اللہم لا یاتی بالحسنات الا انت ولایذہب بالسیئات الا انت۔ صاحب نہایہ نے کہا ہے کہ مذکورہ بالا اوصاف اولیائے کاملین کی خصوصیات میں سے ہیں کہ وہ پاک نفس لوگ دنیا کے اسباب و وسائل اور ان کے متعلقات سے بے اعتنائی برتتے ہیں اور دنیا سے تعلق رکھنے والی کسی بھی چیز کی طرف مائل وملتفت نہیں ہوتے اور یہی درجہ ہے جو خواص کے لئے مخصوص ہے اور اس درجہ تک عوام کی رسائی نہیں ہوتی لیکن جہاں تک ان عوام کا تعلق ہے تو ان کے لئے اس میں کوئی مضائقہ نہیں کہ وہ حلال اسباب وذرائع کو اختیار کریں اور دوا وغیرہ کے ذریعہ علاج معالجہ کرائیں البتہ اس سلسلے میں یہ بات ذہن نشین کرنی ہے کہ جو شخص کسی بیماری وغیرہ کی مصیبت میں مبتلا ہو اور وہ اس پر صبر کرے پھر دعا کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کشائش و راحت کا منتظر ومتمنی رہے تو یقینا وہ شخص اولیاء وخواص میں سے شمار ہونے کا مستحق ہوگا اور جو شخص اس پر صبر کرنے پر قادر نہ ہو اور وہ اس بیماری ومصیبت سے گلو خلاصی پانے کے ظاہری اسباب وذرائع اختیار کرنا چاہئے تو اس کو اس بات کی اجازت دے دی جائے گی کہ وہ دعا تعویذ اور دوا وغیرہ کے ذریعہ اپنی اس بیماری ومصیبت کے دفعیہ کی سعی کرے۔ حاصل یہ کہ جو شخص اپنی طبع حالت وکیفیات اور بطنی حیثیت کے اعتبار سے جس طرح کا ہوگا اس کے حق میں اس کے مطابق فیصلہ ہوگا اس کی تائید اس واقعہ سے بھی ہوتی ہے کہ جب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ نے عنہ نے ایک موقعہ پر اپنا تمام مال واسباب خدا کی راہ میں صرف کرنے کے لئے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی اس پیش کش کو رد نہیں کیا کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے بارے میں اچھی طرح جانتے تھے کہ ان میں یقین وصبر کا وصف بدرجہ کمال موجود ہے اس کے برخلاف جب ایک اور شخص نے کبوتر کے انڈے کے برابر سونا لا کر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا ہے اور کہا کہ میرے پاس اس کے سوا اور کچھ نہیں ہے یہ جو کچھ بھی ہے خدا کی راہ میں خرچ کرنے کے لئے آپ کی نذر کرتا ہوں تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہ صرف یہ کہ اس سونے کو قبول نہیں فرمایا بلکہ اس پر سخت ناراض ہوئے یہاں تک کہ اس کو ایک دھپ بھی مارا۔ یہاں تک ملا علی قاری کے منقولات کا ماحصل نقل کیا گیا۔ حضرت شیخ عبدالحق دہلوی نے یہ لکھا ہے کہ زیادہ صحیح بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ حدیث میں منتر کا جو ذکر کیا گیا ہے اس سے زمانہ جاہلیت کے ٹونے ٹوٹکے اور مشرکانہ منتر مراد ہیں جن کا کتاب وسنت کی تعلیمات سے کوئی واسطہ نہیں ہے اور جن کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قطعا روا نہیں رکھا تھا کیونکہ ان منتروں کی ساخت اور ان کے الفاظ ومعانی کچھ اس طرح کے ہوتے ہیں کہ ان کو اختیار کرنے والا شرک میں مبتلا ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ یہ بات کہ منتر سے زمانہ جاہلیت کے منتر مراد ہیں حدیث کے الفاظ لایتطیرون سے بھی واضح ہوتی ہے کہ تطیر یعنی بدفالی لینا زمانہ جاہیت کے اہل عرب کا خاص معمول تھا۔ پس جس طرح زمانہ جاہلیت کی دیگر مشرکانہ رسوم وعادات سے اجتناب ہر مسلمان کے لئے ضروری ہے اسی طرح تطیر یعنی بدفالی لینے سے بھی قطعی پرہیز کرنا نہایت لازم ہے۔ بڑے افسوس کی بات ہے کہ آج کے بہت سے مسلمان بھی بر بناء جہل ونادانی بدفالی لینے کی برائی میں مبتلا ہیں باوجودیکہ زمانہ جاہلیت کی ایک مشرکانہ عادت رہی ہے اور اگر اس بات سے قطع نظر بھی کر لیا جائے تو اس سے اجتناب کی ایک بڑی معقول وجہ یہ بھی ہے کہ بدفالی نہ لینے والے کو بڑی فضیلت کا حامل قرار دیا گیا ہے بایں طور کہ وہ ان لوگوں میں شامل ہوگا جو بغیر حساب جنت میں شامل کئے جائیں گے، نیز اس سے اجتناب ایک ایسا وصف بھی ہے جس کو توکل کے درجات میں سے شمار کیا جا سکتا ہے ۔ اور اس سے بالا تر درجہ وہ ہے جو ہر طرح کے علاج معالجہ جھاڑ پھونک تعویذ گنڈے اور دیگر تدابیر کو کلیۃ ترک کرنے کی وجہ سے حاصل ہوتا ہے اور جس کا مقصد حقیقی توکل کے مقام کو ثابت وظاہر کرنا ہوتا ہے چنانچہ توکل کا متعارف مفہوم بھی یہ بیان کیا جاتا ہے اور اسی لئے صوفیہ نے توکل کی وضاحت یہی کی ہے کہ توکل کا مطلب ہے حق تعالیٰ کی رزاقیت پر کامل اعتماد وبھروسہ کر کے سبب کسب وعمل اور اسباب و وسائل کو مطلق ترک کر دینا۔ یہ دوسرا یا اوسط درجہ ہے جو خواص کا مرتبہ مانا جاتا ہے اس مرتبہ کے لوگ اس اجر و فضیلت کے مستحق قرار پاتے ہیں جس کا ذکر حدیث میں ہے بلکہ مزید برآں ایک اور عظیم الشان سعادت کی بشارت دی گئی ہے کہ ا یت (للذین احسنوا الحسنی وزیادۃ) اس کے بعد تیسرا درجہ وہ ہے جو اس مقام کے منتہی اور مقربین بارگاہ الٰہی کے لئے مخصوص ہے اس درجہ کے لوگوں کی ظاہری نظر میں اسباب وذرائع کلیۃ ساقط ہوتے ہیں کہ ان کے نزدیک ان کا عدم اور وجود دونوں برابر ہیں، وہ اگر اسباب وذرائع کو کسی حد تک اختیار بھی کرتے ہیں تو محض اظہار عبودیت اور مشیت الٰہی کی فرمانبرداری کے طور پر، اور اس حیثیت سے ان کا اسباب وذرائع کو اختیار کرنا ان کے حق میں عزیمت (اولویت) کا حکم رکھتا ہے یہ مرتبہ اخص الخواص کا مرتبہ کہلاتا ہے اور وہ انبیاء واولیاء ہیں کہ جو اپنی ذات کے اعتبار سے فانی اور خدا کے ساتھ باقی ہیں اور توکل کا یہی سب سے آخری مرتبہ بھی ہے اور اس کی اصل حقیقت بھی، نیز جو بندگان خاص اس مرتبہ تک پہنچ جاتے ہیں، ان کی فضیلت سب سے زیادہ اور ان کا اجر سب سے بڑا ہوتا ہے۔ مذکورہ مسئلے میں عالمگیری نے یہ قاعدہ کلیہ بیان کیا ہے کہ کسی نقصان وضرر اور تکلیف کو دور کرنے والے اسباب وذرائع تین طرح کے ہوتے ہیں ایک تو وہ کہ جن کا موثر ہونا یقینی ہوتا ہے جیسا کہ پانی پیاس کو اور کھانا بھوک کو دور کرتا ہے دوسرے وہ اسباب جو ظنی ہوتے ہیں جیسے فصد کھلوانا ، پچھنے لگوانا، مسہل لینا اور طب کے دوسرے قواعد وضوابط کہ مثلاً گرمی سے پیدا ہونے والے امراض میں ٹھنڈی دواؤں کے ذریعہ اور ٹھنڈ سے پیدا ہونے والے امراض میں گرم دواؤں کے ذریعہ علاج معالجہ کرنا، اور یہ چیزیں طبی نقطہ نظر سے ظاہری اسباب کا درجہ رکھتی ہیں اور تیسرے وہ اسباب کہ جو موہوم ذریعہ ہوتے ہیں جیسے جسم کو داغنا، دعاؤں کے ذریعہ جھاڑ پھونک کرنا اور تعویذ گنڈا وغیرہ۔ پس جو اسباب وذرائع یقینی درجہ رکھتے ہیں ان کو ترک کرنا نہ صرف یہ کہ توکل کے لئے شرط نہیں ہے بلکہ اس صورت میں شرعی نقطہ نظر سے بھی حرام ہے جب کہ ان کو ترک کرنے کی وجہ سے موت کے واقع ہو جانے کا خوف ہو، اس کے برخلاف جہاں تک ان اسباب وذرائع کا تعلق ہے جو موہوم کی حیثیت رکھتے ہیں ان کو ترک کرنا ہی توکل کی شرط ہے کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایسے اسباب وذرائع کو ترک کرنے والوں کو " متوکلین " کے زمرہ میں شمار فرمایا ہے، رہی ان اسباب وذرائع کی بات جو ظنی ہیں اور جو اطباء وحکماء کے نزدیک ظاہری اسباب کا درجہ رکھتے ہیں تو ان کو اختیار کرنا یعنی طبی اصول وقواعد کے تحت علاج کرانا توکل کے منافی نہیں ہے۔ اس طرح ظنی اسباب، موہوم اسباب کی طرح تو توکل کے خلاف نہیں ہے اور ان کو ترک کرنا یقینی اسباب کو ترک کرنے کی طرح ممنوع نہیں ہے بلکہ بعض احوال میں اور بعض اشخاص کے حق میں ان کو ترک کرنا افضل ہو جاتا ہے۔ پس یہ ظنی اسباب گویا دو درجوں کے درمیان ایک معتدل درجہ ہے۔
-
وعنه قال خرج رسول الله صلى الله عليه وسلم يوما فقال عرضت علي الأمم فجعل يمر النبي ومعه الرجل والنبي ومعه الرجلان والنبي ومعه الرهط والنبي وليس معه أحد فرأيت سوادا كثيرا سد الأفق فرجوت أن يكون أمتي فقيل هذا موسى في قومه ثم قيل لي انظر فرأيت سوادا كثيرا سد الأفق فقيل لي انظر هكذا وهكذا فرأيت سوادا كثيرا سد الأفق فقيل هؤلاء أمتك ومع هؤلاء سبعون ألفا قدامهم يدخلون الجنة بغير حساب هم الذين لا يتطيرون ولايسترقون ولا يكتوون وعلى ربهم يتوكلون فقام عكاشة بن محصن فقال ادع الله أن يجعلني منهم . قال اللهم اجعله منهم . ثم قام رجل فقال ادع الله أن يجعلني منهم . فقال سبقك بها عكاشة . متفق عليه-
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم باہر تشریف لائے اور فرمایا کہ (حالت کشف یا خواب میں) میرے سامنے امتوں کو (ان کے انبیاء کے ساتھ) پیش کیا گیا (یعنی ہر نبی کو اس کی امت کے ساتھ مجھے دکھایا گیا ) پس (جب ان انبیاء نے اپنی امتوں کے ساتھ گزرنا ) شروع کیا تو میں نے دیکھا کہ ایک نبی کے ساتھ صرف ایک شخص تھا (یعنی دنیا میں اس کی پیروی کرنے والا اس ایک شخص کے علاوہ اور کوئی نہیں ہوا) اور ایک نبی ایسا تھا کہ اس کے ساتھ دو شخص تھے، ایک اور نبی گزرا تو اس کی معیت میں پوری ایک جماعت تھی اور پھر ایک نبی ایسا بھی گزرا کہ اس کے ساتھ ایک بھی شخص نہیں تھا (یعنی دنیا میں اس کی پیروی کسی ایک شخص نے بھی نہیں کی) اس کے بعد میں نے اپنے سامنے ایک بہت بڑا انبوہ دیکھا جو آسمان کے کناروں تک پھیلا ہوا تھا اتنی بڑی امت دیکھ کر میں نے امید باندھی کہ یہ میری امت ہوگی لیکن مجھے بتایا گیا کہ یہ حضرت موسی اور ان کی امت کے لوگ ہیں کہ جو ان پر ایمان لائے تھے پھر مجھ سے کہا گیا کہ ذرا آپ نظر اٹھا کر دیکھئے میں نے جو نظر اٹھائی تو اپنے سامنے دیکھا کہ ایک بڑا ہجوم بے پناہ ہے جو آسمان کے کناروں تک پھیلا ہوا ہے (میں اتنا بڑا نبوہ دیکھ کر مطمئن ہو گیا اور خدا کا شکر ادا کیا) پھر مجھ سے کہا گیا کہ آپ اس انبوہ کو بس نہ سمجھئے آپ اس سے کہیں زیادہ لوگوں کو دیکھیں گے ذرا ادھر ادھر یعنی دائیں بائیں بھی نظر گھما کر تو دیکھئے چنانچہ میں نے دائیں بائیں نظر گھما کر دیکھا تو دونوں طرف بے پناہ ہجوم تھا جو آسمان کے کناروں تک پھیلا ہوا تھا۔ اس کے بعد مجھ سے کہا گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے اور دائیں بائیں آسمان کے کناروں تک جو انسانوں کا ایک بحر بیکراں نظر آتا ہے یہ سب آپ کی امت کے لوگ ہیں اور ان کے علاوہ (یعنی منجملہ ان لوگوں کے یا ان کے علاوہ مزید) ان کے آگے ستر ہزار لوگ ایسے ہیں جو جنت میں بغیر حساب کے جائیں گے اور یہ وہ لوگ ہوں گے جو نہ تو بدفالی لیتے ہیں، نہ منتر پڑھواتے ہیں اور نہ اپنے جسم کو دغواتے ہیں اور اپنے پروردگار پر توکل کرتے ہیں ۔ یہ سن کر ، ایک صحابی عکاشہ بن محصن کھڑے ہوئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ! صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائیے کہ وہ مجھے ان لوگوں میں شامل فرما دے جو خدا پر توکل کرتے ہیں اور بغیر حساب جنت میں داخل ہوں گے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعا فرمائی ۔ الٰہی عکاشہ کو ان لوگوں میں شامل فرما دے، پھر ایک اور شخص کھڑا ہوا اور اس نے بھی عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائیے کہ وہ مجھے ان لوگوں میں شامل فرما دے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ اس دعا کے سلسلہ میں عکاشہ تم پر سبقت لے گئے۔ (بخاری ومسلم) تشریح " نبی" سے مراد" رسول" ہیں کہ جو خدا کا دین پہنچانے اور لوگوں کو راہ راست پر لانے کے لئے اس دنیا میں مبعوث کئے گئے۔ جیسا کہ ترجمہ میں بین القوسین واضح کیا گیا، امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ " ستر ہزار" سے مراد یہ بھی ہو سکتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت میں سے ستر ہزار لوگ وہ ہیں جو ان لوگوں کے علاوہ ہیں، اور اس سے یہ معنی بھی لئے جا سکتے ہیں کہ ان ہی لوگوں میں ستر ہزار لوگ ایسے بھی ہیں جو بغیر حساب جنت میں داخل ہوں گے۔ اس دوسرے معنی کی تائید بخاری کے روایت کردہ ان الفاظ سے بھی ہوتی ہے کہ ہذہ امتک ویدخلون الجنۃ من ھؤلاء سبعون الفا۔ یعنی یہ آپ کی امت کے لوگ ہیں اور ان میں سے ستر ہزار لوگ وہ ہیں جو بغیر حساب جنت میں داخل ہوں گے۔ " نہ اپنے جسم کو دغواتے ہیں" کا مطلب یہ ہے کہ وہ لوگ بلا ضرورت اپنے جسم کے کسی حصہ پر آگ کا داغ نہیں لیتے الا یہ کہ انہیں کوئی ایسی مجبوری پیش آ جائے کہ دغوائے بغیر کوئی چارہ کار نہ ہو، تو یہ اور بات ہے چنانچہ ضرورت ومجبوری کے تحت دغوانا بعض صحابہ سے بھی ثابت ہے ان میں سے حضرت سعد ابن ابی وقاص رضی اللہ عنہ بھی ہیں جن کا شمار عشرہ مبشرہ میں ہوتا ہے۔ یا یہ معنی ہیں کہ وہ لوگ مطلق نہیں دغواتے، خواہ انہیں اس کی کتنی ہی ضرورت کیوں نہ ہو، کیونکہ وہ تقدیر وقضاء الٰہی پر راضی و مطمئن ہوتے ہیں، ان کا صرف خدا پر اعتماد و بھروسہ ہوتا ہے، وہ کسی آفت ومصیبت کو دفع کرنے کی تدبیر کرنے کی بجائے اس کی وجہ سے ایک خاص لذت محسوس کرتے ہیں اور اس بات پر ان کو پورا یقین ہوتا ہے۔ کہ فائدہ اور نقصان پہنچانے والا صرف اللہ تعالیٰ ہے، اس کے علاوہ ایسی کوئی ذات اور کوئی چیز نہیں ہے۔ جو حقیقی موثر ہو۔ پس وہ لوگ پاک نفس، گویا مرتبہ مشہود پر فائز ہوتے ہیں کہ ان کی نظر میں ان کا اپنا وجود، عدم کے برابر ہوتا ہے اور نفس کی لذات وخواہشات کے اعتبار سے وہ فنا کا مقام اختیار کر لیتے ہیں۔ بعض شارحین نے یوں لکھا ہے کہ " نہ اپنے جسم کو دغواتے ہیں" کے معنی یہ ہیں کہ وہ لوگ اول تو جسم کو دغوانے سے اجتناب کرتے ہیں لیکن اگر کسی مرض وتکلیف کی واقعی ضرورت ومجبوری کے تحت ان کو ایسا کرنا بھی پڑتا ہے تو ان کا فائدہ اور شفاء کا اعتقاد صرف اللہ تعالیٰ پر ہوتا ہے نہ کہ محض دغوانے پر۔ بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ جسم پر داغ لینا ان اسباب میں سے ہے جو وہمیہ ہیں، نیز احادیث میں اس کی ممانعت منقول ہے لیکن اگر کسی بیماری وتکلیف کے دفعیہ کے لئے کوئی حاذق معالج دغوانے کو ضروری قرار دے اور اس کا کارگر ہونا یقینی امر ہو تو اس کی اجازت بھی ہے۔ " نہ منتر پڑھواتے ہیں" میں منتر سے مراد، منتر وافسوں اور جادو ہے کہ جس کے الفاظ ومعنی قرآن واحادیث صحیحہ کے مطابق نہ ہوں اور ان کی وجہ سے شرک میں مبتلا ہو جانے کا خوف ہو، اسی طرح " ' نہ بد فالی لیتے ہیں" کا مطلب یہ ہے کہ کسی جانور، خواہ وہ پرندہ ہو اور خواہ چرند جیسے کتا اور بلی وغیرہ، ان کے اڑنے، ان کی آواز، اور ان کے راستہ وغیرہ کاٹنے سے وہ لوگ کوئی بدفالی نہیں لیتے۔ حاصل یہ ہے کہ جن لوگوں کے بارے میں یہ بشارت دی گئی ہے کہ وہ بغیر حساب جنت میں داخل ہوں گے وہ دراصل وہ لوگ ہیں جو اپنے ایمان واعتقاد اور کردار وعمل کے لحاظ سے بہت پختہ ومضبوط ہیں کہ وہ کسی بھی ایسے عقیدہ اور ایسے عمل کو مطلقاً اختیار نہیں کرتے جو زمانہ جاہلیت کے عقائد واعمال سے مطابقت ومشابہت رکھتا ہے۔ اس موقع پر ایک سوال یہ پیدا ہو سکتا ہے کہ مذکورہ لوگوں کے سلسلے میں " ستر ہزار" کی تعداد کا ذکر ہے تو کیا از ابتدا تا انتہا اس امت محمدیہ میں ایسے لوگوں کی تعداد صرف ستر ہزار ہی ہوگی؟ جب کہ یقینا اس وصف کے لوگ مذکورہ تعداد سے کہیں زیادہ ایک ہی زمانہ میں پائے جا سکتے ہیں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ ستر ہزار سے مراد کسی مخصوص عدد کو واضح نہیں کرنا ہے۔ بلکہ ستر ہزار کا عدد استعمال کرنے کا واحد مقصد ایسے لوگوں کی کثرت کی طرف اشارہ کرنا ہے۔ حدیث کے آخری جزء کے سلسلے میں یہ اشکال پیدا ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دوسرے شخص کی درخواست قبول کیوں نہیں کی اور اس کے حق میں دعا کیوں نہیں کی؟ اس کے جواب دئیے جا سکتے ہیں مثلاً یہ کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس مجلس میں صرف ایک ہی شخص کے حق میں دعا کرنے کی اجازت دی گئی تھی اور چونکہ آپ عکاشہ کے حق میں دعا فرما چکے تھے اس لئے ان کے بعد کسی دوسرے شخص کے حق میں دعا کرنے کی گنجائش نہیں رہ گئی تھی۔ یا یہ کہ وہ دوسرا شخص اپنی باطنی حیثیت وحالت کے اعتبار سے اس مرتبہ کا اہل اور اس منزلت کا مستحق نہیں تھا اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کے حق میں دعا نہیں فرمائی۔ لیکن اس کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے صراحت کے ساتھ یہ نہیں فرمایا کہ تم اس مرتبہ ومنزلت کے اہل ومستحق نہیں ہو بلکہ اس کو ایک عام جواب دے دیا اور واضح فرمایا کہ عکاشہ کے حق میں دعا کرنے کا سبب ان کی طرف سے دعا کی عرض والتماس میں سبقت ہے! بعض حضرات یہ بھی کہتے ہیں کہ وہ شخص دراصل منافقین میں سے تھا اور ظاہر ہے کہ اس کی یہ حیثیت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علم میں تھی اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کے حق میں دعا نہیں فرمائی لیکن آپ نے از راہ اخلاق ومروت اس سے یہ نہیں کہا بلکہ ایک مجمل جواب دے دیا۔ لیکن بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ عکاشہ کے حق میں دعا کرنا دراصل وحی خفی کے سبب تھا جس میں حضور کو مذکورہ دعا کرنے کی اجازت دی گئی تھی۔ یہ قول زیادہ صحیح ہے کیونکہ ایک اور روایت میں بیان کیا گیا ہے کہ اس موقع پر دعا کی درخواست کرنے والے دوسرے شخص حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ تھے جو مشاہیر صحابہ میں سے ہیں۔ نیز یہ ارشاد گرامی اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ نیکی کی راہ اختیار کرنے میں سبقت کرنی چاہئے اور اہل اللہ وبزرگان دین سے اپنے حق میں فلاح وسعادت کی دعا کی درخواست کی جانی چاہئے۔
-