TRUE HADITH
Home
About
Mission
Contact
مشکوۃ شریف
استغفار وتوبہ کا بیان
توبہ اور رحمت الٰہی کی وسعت
وعن أبي سعيد الخدري رضي الله عنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " كان في بني إسرائيل رجل قتل تسعة وتسعين إنسانا ثم خرج يسأل فأتى راهبا فسأله فقال : أله توبة قال : لا فقتله وجعل يسأل فقال له رجل ائت قرية كذا وكذا فأدركه الموت فناء بصدره نحوها فاختصمت فيه ملائكة الرحمة وملائكة العذاب فأوحى الله إلى هذه أن تقربي وإلى هذه أن تباعدي فقال قيسوا ما بينهما فوجد إلى هذه أقرب بشبر فغفر له "-
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ بنی اسرائیل حضرت موسیٰ کی قوم میں ایک شخص تھا جس نے ننانوے آدمیوں کو قتل کیا پھر لوگوں سے یہ پوچھنے نکلا کہ اگر میں توبہ کر لوں تو وہ توبہ قبول ہو گی یا نہیں؟ چنانچہ اسی سلسلہ میں وہ ایک عابد و زاہد کے پاس آیا اور اس سے پوچھا کہ کیا اس اتنے بڑے گناہ سے یا اس اتنے بڑے گناہ کرنے والے ہی کے لئے توبہ ہے؟ یعنی کیا اس کی توبہ قبول ہو گی یا نہیں؟ اس عابد و زاہد نے کہا کہ نہیں! اس شخص نے یہ سنتے ہی اس عابد و زاہد کو بھی قتل کر دیا اور پھر دوسرے لوگوں سے پوچھتا پھرنے لگا۔ ایک شخص نے اس سے کہا کہ تم فلاں بستی جاؤ وہ ایسی اور ایسی ہے (یعنی اس نے اس بستی کا نام لیا اور اس کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ وہ بہت اچھی بستی ہے وہاں ایک عالم رہتا ہے جو تمہیں تمہاری توبہ کے قبول ہونے کا فتویٰ دے گا چنانچہ وہ شخص اس بستی کی طرف چل کھڑا ہوا ابھی آدھے ہی راستے پر پہنچ پایا تھا کہ اچانک اسے موت نے آ دبوچا (چنانچہ اسے موت کی علامت محسوس ہوئیں) تو اس نے اپنا سینہ اس بستی کی طرف جھکا دیا اور پھر اس کی روح قبض کرنے کے وقت رحمت کے فرشتے اور عذاب کے فرشتے (ملک الموت سے جھگڑنے لگے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس بستی کو جس کی طرف وہ توبہ کرنے جا رہا تھا حکم دیا کہ وہ میت کے قریب آ جائے اور اس بستی کو جہاں سے وہ قتل کر کے آ رہا تھا حکم دیا کہ وہ میت سے دور ہو جائے پھر اللہ تعالیٰ نے ان فرشتوں سے فرمایا تم دونوں بستیوں کے درمیان پیمائش کرو اگر میت اس بستی کے قریب ہو گی جہاں وہ توبہ کے لئے جا رہا تھا تو اسے رحمت کے فرشتوں کے حوالہ کیا جائے گا اور اگر اس بستی کے قریب ہو جہاں سے وہ قتل کر کے آ رہا تھا تو عذاب کے فرشتوں کے حوالہ کیا جائے گا۔ چنانچہ جب فرشتوں نے پیمائش کی تو وہ توبہ کے لئے جس بستی کی طرف جا رہا تھا اس سے ایک بالشت قریب پایا گیا پس حق تعالیٰ نے اسے بخش دیا ۔ (بخاری ومسلم) تشریح ابن ملک کہتے ہیں کہ جب ملک الموت نے اس شخص کی روح قبض کی تو رحمت کے فرشتے اور عذاب کے فرشتے دونوں ملک الموت سے اس کی روح لینے کے لئے جھپٹنے لگے ، رحمت کے فرشتے تو یہ کہتے تھے کہ چونکہ یہ شخص توبہ کے لئے اس بستی کی طرف متوجہ ہونے کی بنا پر تائب تھا اس لئے ہم اسے رحمت خداوندی کی طرف لے جائیں گے اور عذاب کے فرشتے یہ کہتے تھے کہ اس شخص نے چونکہ ایک سو آدمیوں کو ناحق قتل کیا ہے اور ابھی تک اس نے توبہ نہیں کی تھی اس لئے ہم اسے عذاب الٰہی کی طرف لے جائیں گے چنانچہ حق تعالیٰ نے اس کا فیصلہ جس طرح فرمایا وہ اوپر ذکر کیا گیا ہے۔ یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ طالب توبہ کے لئے حق تعالیٰ کی رحمت کی وسعت کسی قید اور حد کی پابند نہیں ہے اس کی بے پایاں رحمت خلوص قلب کے ساتھ اپنی طرف متوجہ ہونے والے بڑے سے بڑے سرکش اور گنہگار کو بھی اپنے دامن میں چھپا لیتی ہے ۔ علامہ طیبی فرماتے ہیں کہ جب کوئی بندہ قلب ونیت کے اخلاص کے ساتھ بارگاہ الوہیت کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ اس سے راضی ہو جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے دشمنوں کو بھی اس سے راضی کر دیتا ہے۔ یہ حدیث اس بات کی ترغیب دلا رہی ہے کہ توبہ واستغفار کے ذریعے اپنے دامن کو گناہوں کی آلائش سے پاک وصاف رکھا جائے اور حق تعالیٰ کی رحمت سے مایوسی اور نا امیدی کو اپنے پاس بھٹکنے بھی نہ دیا جائے۔
-
وعن أبي هريرة قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " والذي نفسي بيده لو لم تذنبوا لذهب الله بكم ولجاء بقوم يذنبون فيستغفرون الله فيغفر لهم " . رواه مسلم-
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ وقدرت میں میری جان ہے اگر تم لوگ گناہ نہ کرو تو اللہ تعالیٰ تمہیں اٹھا لے اور تمہاری جگہ ایسے لوگ پیدا کر دے جو گناہ کریں اور خدا سے بخشش ومغفرت چاہیں اور پھر اللہ تعالیٰ انہیں بخشے۔ (مسلم) تشریح اس ارشاد گرامی کا مقصد مغفرت اور رحمت باری تعالیٰ کی وسعت کو بیان کرنا اور یہ بتانا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے اسم پاک غفور کی شان کو ظاہر کرنے کے لئے اتنا بخشش کرنے والا ہے اس لئے لوگوں کو چاہئے کہ وہ اپنے گناہوں سے توبہ کرنے میں کوتاہی نہ کریں۔ خدانخواستہ اس حدیث کے ذریعہ گناہ کی ترغیب مقصود ہی نہیں ہے کیونکہ گناہ سے بچنے کا حکم خود اللہ تعالیٰ نے دیا ہے اور اپنے پیغمبر رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس دنیا میں اس لئے بھیجا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لوگوں کو گناہ ومعصیت کی زندگی سے نکال کر طاعت وعبادت کی راہ پر لگائیں۔
-
وعن أبي موسى رضي الله عنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " إن الله يبسط يده بالليل ليتوب مسيء النهار ويبسط يده بالنهار ليتوب مسيء الليل حتى تطلع الشمس من مغربها " . رواه مسلم-
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ رات میں اپنا ہاتھ پھیلاتا ہے تاکہ دن میں گناہ کرنے والا توبہ کرے اور دن میں اپنا ہاتھ پھیلاتا ہے تاکہ رات میں گناہ کرنے والا توبہ کرے یہاں تک کہ سورج مغرب کی سمت سے نکلے۔ (مسلم) تشریح ہاتھ پھیلانا دراصل کنایہ ہے طلب کرنے سے چنانچہ جب کوئی شخص کسی سے کچھ مانگتا ہے تو اس کے سامنے ہاتھ پھیلاتا ہے لہٰذا اللہ تعالیٰ رات میں ہاتھ پھیلاتا ہے الخ کے معنیٰ یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ گنہگاروں کو توبہ کی طرف بلاتا ہے! بعض حضرات کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا ہاتھ پھیلانا اس کی رحمت ومغفرت سے کنایہ ہے۔ حدیث کے آخری الفاظ یہاں تک کہ سورج مغرب کی سمت سے نکلے ، کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بندوں سے طلب توبہ کا یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک کہ قرب قیامت میں سورج مشرق کی بجائے مغرب سے نکلے کیونکہ جب آفتاب مغرب کی طرف سے طلوع ہوگا تو توبہ کا دروازہ بند ہو جائے گا۔ اس کے بعد پھر کسی کی توبہ قبول نہیں ہوگی
-
وعن أبي هريرة قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " من تاب قبل أن تطلع الشمس من مغربها تاب الله عليه " . رواه مسلم-
حضرت ابوہریرہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جو شخص مغرب کی سمت سے آفتاب طلوع ہونے سے پہلے پہلے توبہ کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول فرمائے گا۔ (مسلم) تشریح : علامہ طیبی فرماتے ہیں کہ یہ توبہ قبول ہونے کی حد ہے کہ مغرب کی سمت سے آفتاب نکلنے سے پہلے تک توبہ کا دروازہ کھلا رہے گا لہٰذا اس وقت تک جو بھی توبہ کرے گا اس کی توبہ قبول کرلی جائے گی لیکن اس کے بعد کی جانے والی توبہ قبول نہیں ہوگی اسی طرح توبہ قبول ہونے کی ایک حد شخصی ہوتی ہے جس کا تعلق ہر فرد سے ہوتا ہے اور وہ حالت غرغرہ (نزع) سے پہلے پہلے کا وقت ہے یعنی جو شخص حالت غرغر سے توبہ کر لے گا اس کی توبہ قبول ہوگی۔ حالت غرغرہ میں کی جانے والی توبہ قبول نہیں ہوگی۔
-