TRUE HADITH
Home
About
Mission
Contact
مشکوۃ شریف
نماز کا بیان
تعلیم کے پیش نظر امام تنہاد اور نچی جگہ کھڑا ہو سکتا ہے
عَنْ سَہْلِ بْنِ سَعْدِنِ السَّاعِدِیِّ اَنَّہُ سُئِلَ مِنْ اَیِّ شَیْءٍ الْمِنْبَرُ فَقَالَ ہُوَ مِنْ اَثْلِ الْغَابَۃِ عَمِلَہُ فَلَانٌ مَوْلٰی فُلاَ نَۃٍ لِرَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم وَقَامَ عَلَیْہِ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم حِیْنَ عُمِلَ وَوُضِعَ فَاسْتَقْبَلَ الْقِبْلَۃَ وَکَبَّرَ وَقَامَ النَّاسُ خَلْفَہُ فَقَرَأَوَرَکَعَ وَرَکَعَ النَّاسُ خَلْفَہُ ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَہُ ثُمَّ رَجَعَ الْقَہْقَرٰی فَسَجَدَ عَلَی الْاَرْضِ ثُمَّ عَادَ اِلَی الْمِنْبَرِثُمَّ قَرَأَ ثُمَّ رَکَعَ ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَہُ ثُمَّ رَجَعَ الْقَہْقَرٰی حَتّٰی سَجَدَ بِالْاَرْضِ ہَذٰا لَفْظُ الْبُخَارِیِّ۔ وَفِی الْمُتَّفَقِ عَلَیْہِ نَحْوَہُ وَفِیْ اٰخِرِہٖ فَلَمَّافَرَغَ اَقْبَلَ عَلَی النَّاسِ فَقَالَ یَااَیُّھَا النَّاسُ اِنَّمَا صَنَعْتُ ھَذَا لِتَاْتَمُّوْا بِیْ وَ لِتَعْلَمُوْا صَلٰوتِیْ۔-
" اور حضرت سہل ابن سعد ساعدی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں منقول ہے کہ ان سے (ایک روز) پوچھا گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا منبر کس چیز(یعنی کس لکٹر) کا تھا؟ انہوں نے فرمایا کہ " وہ جنگلی جھاؤ کی لکڑی کا تھا۔ جسے فلاں آدمی نے جو فلاں عورت کا آزاد کردہ غلام تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بنایا تھا ۔ چنانچہ جب وہ تیار ہو گیا اور (مسجد میں ) رکھا گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (اس پر کھڑے ہوئے اور ) قبلہ رو ہو کر (نماز کے لیے) تکبیر تحریمہ کی اور سب لوگ آپ کے پیچھے کھڑے ہوگئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے " منبر ہی پر قرات فرمائی اور رکوع کیا، اور دوسرے لوگوں نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے رکوع کیا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا سر مبارک رکوع سے اٹھایا اور پچھلے پاؤں ہٹ کر (یعنی منبر سے اتر کر ) زمین پر سجدہ کیا۔" یہ الفاظ بخاری کے ہیں اور بخاری ومسلم کی متفقہ روایت بھی اس طرح ہے اس حدیث کے راوی نے حدیث کے آخر میں یہ (بھی) کہا ہے کہ " (جب نماز سے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فارغ ہوئے تو فرمایا کہ " یہ میں نے اس لیے کیا ہے تاکہ تم لوگ میری پیروی کرو اور میری نماز کی کیفیات اور اس کے احکام و مسائل سیکھ لو۔" تشریح مدینہ منورہ سے نو کوس کے فاصلے پر ایک جنگل ہے وہاں درخت بہت کثرت سے تھے وہیں کے جھاؤ کی لکڑی سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے منبر بنایا گیا تھا۔ فلاں آدمی سے مراد " یاقوم رومی" ہیں اور فلاں عورت سے عائشہ انصاریہ کی ذات مراد ہے۔ مولانا مظہر نے لکھا ہے کہ اس منبر پر چھڑنے اترنے کے لیے تین سیڑھیاں تھیں جو بہت قریب قریب بنائی گئی تھیں ان کے ذریعہ سے منبر پر ایک یا دو قدم کے ساتھ چڑھنا بہت آسان تھا۔ لہٰذا اس وجہ سے فعل کثیر لازم نہیں آیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز باطل ہوتی۔ اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ اگر امام اس بات کا ارادہ کرے کہ اس کی نماز کی حرکات و سکنات اور اس کی کیفیات کو دور و نزدیک کھڑے ہوئے سب ہی نمازی دیکھیں اور اس کے ذریعے نماز کے احکام و مسائل سیکھیں تو اس کے لیے بلند جگہ پر تنہا کھڑے ہونا جائز ہے۔ ھذا الفظ البخاری ( یہ الفاظ بخاری کے ہیں ) کہ الفاظ اور اس کے بعد عبارت نقل کر کے مصف مشکوٰۃ نے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ یہ حدیث چونکہ بخاری و مسلم دونوں ہی نے نقل کی ہے اس لیے اس کو پہلی فصل میں ذکر کرنا چاہیے تھا لیکن اس حدیث کو اس فصل میں اس لیے نقل کیا گیا ہے ۔ اس لیے مصابیح نے اس کو حسان میں (بخاری و مسلم کے علاوہ دوسرے ائمہ حدیث کی روایتوں کے ساتھ نقل کیا تھا اس کے لیے صاحب مصابیح کی اتباع میں ہم نے بھی اس فصل میں نقل کرنا مناسب سمجھا۔
-