TRUE HADITH
Home
About
Mission
Contact
مشکوۃ شریف
تسبیح ، تحمید تہلیل اور تکبیر کے ثواب کا بیان
تسبیح وتحمید کی فضیلت وبرکت
وعنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " من قال : سبحان الله وبحمده في يوم مائة مرة حطت خطاياه وإن كانت مثل زبد البحر "-
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جس شخص نے کسی دن میں سو مرتبہ سبحان اللہ وبحمدہ پڑھا تو اس کے گناہ ختم کر دئیے جاتے ہیں اگرچہ وہ دریا کے جھاگ کی مانند یعنی کتنے ہی زیادہ کیوں نہ ہوں۔ (بخاری ومسلم) تشریح طیبی فرماتے ہیں کہ سو مرتبہ چاہے تو کئی مرتبہ کر کے پڑھا جائے دن کے ابتدائی یا آخری حصہ میں ایک ہی دفعہ میں پڑھ لیا جائے دونوں طرح درست ہے لیکن افضل اور اولیٰ یہی ہے کہ دن کے ابتدائی حصہ میں ایک ہی دفعہ پڑھ لیا جائے افضل ہے۔
-
وعنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " من قال حين يصبح وحين يمسي : سبحان الله وبحمده مائة مرة لم يأت أحد يوم القيامة بأفضل مما جاء به إلا أحد قال مثل ما قال أو زاد عليه )-
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ جس نے صبح کے وقت اور شام کے وقت سو مرتبہ سبحان اللہ وبحمدہ کہا تو قیامت کے دن کوئی شخص اس عمل سے بہتر کوئی عمل نہیں لائے گا علاوہ اس شخص کے جس نے اس کی مانند یا اس سے زیادہ کہا۔ (بخاری ومسلم) تشریح اس موقع پر ایک اشکال پیدا ہوتا ہے حدیث کی ظاہری عبارت سے یہ مفہوم معلوم ہوتا ہے کہ جس شخص نے پہلے شخص کی مانند کیا یعنی اس نے پہلے شخص کی طرح صبح وشام کے وقت سو مرتبہ سبحان اللہ وبحمدہ کہا تو وہ قیامت کے دن اس عمل سے افضل لائے گا جو یہ پہلا لائے گا ۔ حالانکہ ایسا نہیں ہے بلکہ دوسرے شخص نے اگر پہلے شخص کی طرح سبحان اللہ وبحمدہ صبح وشام سو سو مرتبہ کہا تو وہ قیامت کے دن پہلے ہی شخص کی طرح عمل لے کر حاضر ہوگا نہ کہ اس سے افضل عمل لائے گا۔ اس اشکال کا جواب یہ ہے کہ حدیث کی عبارت حقیقت ومعنی کے اعتبار سے یوں ہے کہ قیامت کے دن کوئی شخص اس عمل کے برابر کوئی عمل نہیں لائے گا جو یہ شخص لائے گا اور نہ اس کے عمل سے افضل کوئی عمل لائے گا علاوہ اس شخص کے جس نے اس کی مانند (سبحان اللہ وبحمدہ صبح وشام کے وقت سو سو مرتبہ سے زیادہ کہا) تو وہ اس پہلے شخص کے عمل سے افضل عمل لائے گا۔ یا پھر کہا جائے گا کہ کہ مثل ما قال اوزاد علیہ میں حرف او معنی کے اعتبار سے حرف واؤ کی جگہ استعمال کیا گیا ہے۔
-
وعنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " كلمتان خفيفتان على اللسان ثقيلتان في الميزان حبيبتان إلى الرحمن : سبحانه الله وبحمده سبحانه الله العظيم "-
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا دو کلمے ہیں جو زبان میں کہنے سے تو ہلکے ہیں لیکن ترازو میں بہت بھاری ہیں (یعنی ان کا ثواب میزان عمل میں بھاری ہوگا اور بخشنے والے خدا کے نزدیک بہت پیارے ہیں اور وہ دو کلمے یہ ہیں سبحان اللہ وبحمدہ سبحان اللہ العظیم۔ یعنی اللہ پاک ہے اور اپنی حمد کے ساتھ موصوف ہے پاک ہے جو اللہ بڑا ہے۔ (بخاری ومسلم)
-
وعن سعد بن أبي وقاص : قال : كنا عند رسول الله صلى الله عليه و سلم فقال : " أيعجز أحدكم أن يكسب كل يوم ألف حسنة ؟ " فسأله سائل من جلسائه : كيف يكسب أحدنا ألف حسنة ؟ قال : " يسبح مائة تسبيحة فيكتب له ألف حسنة أو يحط عنه ألف خطيئة " . رواه مسلم وفي كتابه : في جميع الروايات عن موسى الجهني : " أو يحط " قال أبو بكر البرقاني ورواه شعبة وأبو عوانة ويحيى بن سعيد القطان عن موسى فقالوا : " ويحط " بغير ألف هكذا في كتاب الحميدي-
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن جب کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کیا تم میں سے کوئی شخص اس بات پر قادر نہیں ہے کہ ہر روز ایک ہزار نیکیاں حاصل کرے ؟ مجلس میں موجود صحابہ میں سے ایک صحابی نے پوچھا کہ ہم میں سے کوئی شخص (روزانہ بسہولت ) ایک ہزار نیکیاں کس طرح حاصل کر سکتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا وہ ایک سو مرتبہ سبحان اللہ پڑھ لے اس کے لئے ایک ہزار نیکیاں لکھی جائیں گی بایں حساب کہ ہر نیکی پر دس نیکیاں لکھی جاتی ہیں یا اس کے ایک ہزار صغیرہ اگر اللہ چاہے گا تو کبیر گناہ دور کئے جائیں گے۔ (مسلم ) ابوبکر برقانی کہتے ہیں کہ صحیح مسلم میں موسی جہنی سے جو روایتیں منقول ہیں ان سب میں لفظ او یحط ہی نقل کیا گیا ہے لیکن شعبہ، ابوعوانہ، اور یحیی بن سعید قطان نے موسی جہنی ہی سے یہ روایت نقل کی ہے اس میں لفظ ویحط بغیر الف کے ذکر کیا ہے اور کتاب حمیدی یعنی جمع بین الصحیحین میں بھی اسی طرح منقول ہے۔ تشریح او یحط کے پیش نظر تو حدیث کا مفہوم یہ ہوگا کہ دونوں میں سے کوئی ایک بات ہوتی ہے یا تو ایک ہزار نیکیاں لکھی جاتی ہیں ایک ہزار گناہ دور کئے جاتے ہیں جبکہ ویحط کی صورت میں معنی یہ ہوں گے کہ ایک ہزار نیکیاں بھی لکھی جاتی ہیں اور ایک ہزار گناہ بھی دور کئے جاتے ہیں۔ ترمذی، نسائی اور ابن حبان کی روایتیں بھی اسی مفہوم کی تائید کرتی ہیں کیونکہ ان میں لفظ ویحط ہی ہے لہٰذا بظاہر تو دونوں روایتوں میں منافات معلوم ہوتی لیکن اگر ذہن میں یہ بات رہے کہ کبھی بھی واؤ معنی کے اعتبار سے او کی جگہ پر استعمال ہوتا ہے تو کوئی منافات نظر نہیں آئے گی اور دونوں روایتوں کا ایک مفہوم نکلے گا اس صورت میں اس کے معنی یہ ہوں گے کہ جس شخص نے یہ تسبیح پڑھی اس کے لئے ایک ہزار نیکیاں لکھی جاتی ہیں اگر اس کے ذمہ گناہ نہ ہوں گے یا اس کے ایک ہزار گناہ دور کر دئیے جائیں گے اگر اس کے ذمے گناہ ہوں گے۔
-