تسبیح ، تحمید ، تہلیل اور تکبیر کا ثواب

وعن عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " من سبح الله مائة بالغداة ومائة بالعشي كان كمن حج مائة حجة ومن حمد الله مائة بالغداة ومائة بالعشي كان كمن حمل على مائة فرس في سبيل الله ومن هلل الله مائة بالغداة ومائة بالعشي كان كمن أعتق مائة رقبة من ولد إسماعيل ومن كبر الله مائة بالغداة ومائة بالعشي لم يأت في ذلك اليوم أحد بأكثر مما أتى به إلا من قال مثل ذلك أو زاد على ما قال . رواه الترمذي . وقال : هذا حديث غريب-
حضرت عمرو بن شعیب رضی اللہ عنہ اپنے والد مکرم سے اور وہ اپنے جد محترم سے نقل کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جو شخص سو مرتبہ دن کے ابتدائی حصہ میں اور سو مرتبہ دن کے آخری حصہ میں سبحان اللہ کہے تو وہ از روئے ثواب اس شخص کی مانند ہے جس نے سو نفل حج کئے ہوں جو شخص سو مرتبہ دن کے ابتدائی حصہ میں اور سو مرتبہ دن کے آخری حصہ میں الحمدللہ کہے تو اس شخص کی مانند ہے جس نے سو آدمیوں کو خدا کی راہ میں سو گھوڑوں پر سوار کرایا ہو جو شخص سو مرتبہ دن کے ابتدائی حصہ میں اور سو مرتبہ دن کے آخری حصہ میں اللہ اکبر کہے تو اس دن یعنی قیامت کے دن کوئی شخص اس ثواب سے زائد ثواب لے کر نہیں آئے گا جو وہ لائے گا علاوہ اس شخص کے جس نے اس کی مانند یعنی اللہ اکبر مذکورہ تعداد میں کہا ہو گا تو یہ شخص درجہ ثواب کے اعتبار سے اس کے برابر ہوگا یا وہ شخص جس نے اس سے زائد کہا ہوگا (تو یہ اس سے بھی افضل ہوگا) امام ترمذی نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث حسن غریب ہے۔ تشریح اس شخص کی مانند ہے جس نے سو حج کئے ہوں سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ آسان وسہل ذکر بشرطیکہ اس میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ حضور کی کیفیت حاصل ہو ان عبادت شاقہ سے افضل ہے جس میں قلب حضور واخلاص سے محروم اور غفلت میں گرفتار ہو! لیکن یہ بھی امکان ہے کہ جس طرح کسی کمتر درجہ کے عمل کی مانند قرار دیا جاتا ہے اسی طرح سبحان اللہ کی عظمت وفضیلت کو بطور مبالغہ بیان کرنے کے لئے فرمایا گیا ہے کہ جو شخص صبح شام سو سو مرتبہ تسبیح پڑھتا ہے وہ نفل حج کرنے والے کی مانند ہوتا ہے۔ بعض حضرات یہ فرماتے ہیں کہ تسبیح سبحان اللہ پڑھنے کی چونکہ بہت زیادہ فضیلت ہے اس لئے اس کا ثواب بڑھا کر نفل حج کے اصل ثواب کے برابر کر دیا جاتا ہے۔ خدا کی راہ میں سو گھوڑوں پر سوار کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اس نے جہاد کے لئے سو گھوڑے دے ڈالے ہوں یا عاریۃ دئیے ہوں! اس بات سے گو ذکر اللہ میں مشغول رہنے کی ترغیب دلائی جا رہی ہے کہ کوئی شخص دنیا کی طرف التفات نہ کرے بلکہ وہ حضور مع اللہ کی سعادت عظمی کے حصول میں اپنی پوری کوششیں اور توجہات صرف کرے کیونکہ عبادت خواہ بدنیہ ہوں یا مالیہ یا دونوں کا مجموعہ ، سب کا مقصد اور حاصل ذکر اللہ ہے اور پھر یہ بات بھی پیش نظر رہنی چاہئے کہ مطلوب بہر صورت وسیلہ سے اولیٰ ہوتا ہے۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد سے سو غلام آزاد کئے ہوں۔ اس میں درحقیقت ان ذاکرین کے لئے تسلی اور ترغیب ہے جو محتاج اور کم استطاعت ہونے کی وجہ سے ان عبادت مالیہ سے عاجز ہوں جنہیں اہل ثروت اور مالدار ادا کرتے ہیں۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد سے مراد اہل عرب ہیں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قرابتی ہونے کی وجہ سے افضل واعلیٰ ہیں حدیث کے آخری جز سے بظاہر یہ مفہوم ہوتا ہے کہ اللہ اکبر ان تمام تسبیحات میں جو حدیث میں ذکر کی گئی ہیں سب سے افضل ہے حالانکہ بہت سی صحیح احادیث اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ ان تسبیحات میں سب سے افضل لا الہ الا اللہ ہے۔ پھر الحمدللہ پھر اللہ اکبر، پھر سبحان اللہ لہٰذا اس کی تاویل یہ کی جائے گی کہ حدیث کے آخری جز کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص اللہ اکبر ہر صبح وشام سو سو مرتبہ پڑھے گا قیامت کے دن لاالہ الا اللہ پڑھنے والے کے علاوہ کوئی شخص اس ثواب سے زیادہ ثواب لے نہیں آئے گا جو یہ شخص لائے گا۔
-
وعن عبد الله بن عمرو قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " التسبيح نصف الميزان والحمد لله يملؤه ولا إله إلا الله ليس لها حجاب دون الله حتى تخلص إليه " . رواه الترمذي . وقال : هذا حديث غريب وليس إسناده بالقوي-
حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا سبحان اللہ کہنا آدھی میزان اعمال کو یعنی (میزان اعمال کے اس پلڑے کو جو نیکیوں کو تولنے کے لئے مخصوص ہو گا) بھر دیتا ہے الحمد للہ کہنا پوری میزان عمل کو بھر دیتا ہے اور لا الہ الا اللہ کے لئے خدا تک پہنچنے میں کوئی پردہ حائل نہیں، یہ سیدھا خدا تک پہنچاتا ہے امام ترمذی نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے اور اس کی اسناد قوی نہیں ہے۔ تشریح الحمد للہ کہنا پوری میزان عمل کو بھر دیتا ہے کا مطلب یہ ہے کہ صرف الحمد للہ کا ثواب ہی پوری میزان کو بھر دیتا ہے اور یہ کہ الحمد للہ ، سبحان اللہ سے افضل ہے! یا پھر مراد یہ ہے کہ الحمد للہ ، سبحان اللہ کے برابر ہے کہ آدھی میزان کو تو سبحان اللہ کا ثواب بھر دیتا ہے اور آدھی میزان کو الحمد للہ کا ثواب بھر دیتا ہے اس طرح دونوں مل کر پوری میزان کو بھر دیتے ہیں۔ حدیث کے آخری الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ لا الہ الا اللہ بارگاہ کبریائی میں بہت جلد قبول ہوتا ہے اور اس کو پڑھنے والا بہت ثواب پاتا ہے اس طرح حدیث کا یہ آخری جزء وضاحت کے ساتھ اس بات کی دلیل ہے کہ سبحان اللہ اور الحمدللہ سے لا الہ الا اللہ افضل ہے۔
-
وعن أبي هريرة قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " ما قال عبد لا إله إلا الله مخلصا قط إلا فتحت له أبواب السماء حتى يفضي إلى العرش ما اجتنب الكبائر " . رواه الترمذي . وقال : هذا حديث غريب-
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جب کوئی بندہ خلوص قلب کے ساتھ یعنی بغیر ریا کے لا الہ الا للہ کہتا ہے تو اس کلمہ کے لئے آسمان کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں ۔ یہاں تک کہ وہ عرش تک پہنچتا ہے یعنی جلد قبول ہوتا ہے بشرطیکہ وہ کلمہ کہنے والا کبیرہ گناہوں سے بچتا ہو۔ امام ترمذی نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔ تشریح کبیرہ گناہوں سے بچنا جلدی قبول ہونے کی شرط ہے اصل ثواب کی شرط نہیں یعنی یہ کلمہ بارگاہ حق جل مجدہ میں اس وقت جلدی قبول ہوتا ہے جب کہ یہ کلمہ کہنے والا کبیرہ گناہوں سے بچے اور اصل ثواب اسے بہر صورت ملتا ہے خواہ وہ کبیرہ گناہوں سے بچے یا نہ بچے۔
-