TRUE HADITH
Home
About
Mission
Contact
مشکوۃ شریف
تراویح کا بیان
تراویح کی رکعتوں کی تعداد
وَعَنِ السَّائِبِ بْنِ یَزِیْدَ قَالَ اَمَرَ عُمَرُ اُبَیَّ بْنَ کَعْبٍ وَتَمِیْمًا الدَّارِیَّ اَنْ یَّقُوْمَا لِلنَّاسِ فِیْ رَمَضَانَ بِاِحْدیٰ عَشْرَۃَ رَکْعَۃً فَکَانَ الْقَارِیُّ یَقْرَأُبِالْمِیِئْنَ حَتّٰی کُنَّا نَعْتَمِدُ عَلَی الْعَصَاءِ مِنْ طُوْلِ الْقِیَامِ فَمَا کُنَّا نَنْصَرِفُ اِلَّا فِی فُرُوْعِ الْفَجْرِ۔( رواہ مالک)-
" حضرت سائب ابن یزید فرماتے ہیں کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت ابی بن کعب اور حضرت تمیم داری کو حکم دیا کہ وہ رمضان (کی راتوں) میں لوگوں کو (تراویح) کی گیارہ رکعت نماز پڑھائیں اور (اس وقت) امام (تراویح) میں وہ سورتیں پڑھا کرتا تھا جن میں سے ہر ایک میں ایک سو سے زیادہ آیتیں ہیں، چنانچہ قیام کے طویل ہونے کی وجہ سے ہم اپنے عصاء کا سہارا لے کر کھڑے ہوتے تھے اور فجر کے قریب نماز سے فارغ ہوتے تھے۔" (مالک) تشریح حضرت ابی بن کعب اور حضرت تمیم داری دونوں کو امامت کے حکم کا مطلب یہ تھا کہ کبھی وہ امام بنیں اور کبھی وہ ، لہٰذا اس میں یہ احتمال بھی ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دونوں کو باری باری نماز پڑھانے کا اس طرح حکم دیا ہو کہ کچھ رکعتیں حضرت ابی بن کعب پڑھائیں اور کچھ رکعتیں تمیم داری پڑھائیں اور یہ احتمال بھی ہے کہ دونوں کو الگ الگ راتوں میں امامت کا حکم دیا ہو بایں طور کہ کچھ راتوں میں ایک امامت کرے اور کچھ راتوں میں دوسرا۔ اس حدیث سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ تراویح کی گیارہ ہی رکعتیں ہیں جیسا کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حکم دیا ، حالانکہ علماء لکھتے ہیں کہ یہ بات پایہ ثبوت کو صحت کے ساتھ پہنچ چکی ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عہد خلافت میں تراویح کی بیس رکعتیں پڑھی جاتی تھی لہٰذا اس حدیث کے بارے میں یہی کہا جائے گا کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کبھی تو بیس رکعتیں پڑھتے ہونگے اور کبھی گیارہ رکعتوں پر ہی اکتفا کرتے ہوں گے۔ یا یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے چونکہ تراویح کی گیارہ رکعتیں پڑھنی ثابت ہوئی ہیں اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل مبارک سے مشابہت کے قصد سے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بعض راتوں میں گیارہ رکعتیں پڑھنے کا حکم دیا پھر اس کے بعد تراویح کی بیس رکعتیں ہی مستقل طور پر مقرر کی گئیں جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی ایک روایت میں تیس رکعتیں پڑھنی منقول ہوئی ہیں جن میں تین رکعتیں وتر کی شامل ہیں۔ نفل نماز میں سہارا لینا جائز ہے : حدیث کے الفاظ کنا نعتمد علی العصاء کا مطلب یہ ہے کہ اس وقت تراویح میں اتنی طویل قرات کی جاتی تھی کہ ہم لوگ قیام میں کھڑے کھڑے تھک جاتے تھے جس کی وجہ سے اپنے اعصاء سے ٹیک لگا کر کھڑے ہونے پر ہم لوگ مجبور ہوتے تھے چنانچہ اس سلسلے میں مسئلہ یہ ہے کہ نفل نمازوں میں یوں تو عام طور پر بھی لیکن خاص طور پر ضعف کی حالت میں ٹیک لگانا یا کسی چیز کا سہار لے لینا جائز ہے۔
-
وَعَنِ الْاَعْرَجِ قَالَ مَا اَدْرَکْنَا النَّاسَ اِلَّا وَھُمْ یَلْعَنُوْنَ الْکَفَرَۃَ فِیْ رَمَضَانَ قَالَ وَکَانَ الْقَارِئُ یَقْرَأُ سُوْرَۃَ بَقْرَۃَ فِیْ ثَمَانِیِّ رَکْعَاتٍ فَاِذَا قَامَ بِھَافِیْ ثِنْتَی عَشَرَۃَ رَکْعَۃً رَأَی النَّاسُ اَنَّہ، قَدْ خَفَّفَ۔ (رواہ مالک)-
" اور حضرت اعرج (تابعی) فرماتے ہیں کہ " ہم نے ہمیشہ لوگوں کو دیکھا کہ وہ رمضان (کے روزوں) میں کفار پر لعنت بھیجا کرتے تھے اور (اس زمانے میں) قاری (یعنی نماز تراویح کا امام) سورت بقرہ کو آٹھ رکعتوں میں پڑھا کرتا تھا اور اگر (کبھی) سورت بقرہ کو بارہ رکعتوں میں پڑھتا تو لوگ سمجھتے کہ نماز ہلکی پڑھی گئی ہے۔" (مالک) تشریح گو حدیث سے بصراحت یہ معلوم نہیں ہوتا کہ کفار پر لعنت پورے رمضان کے وتروں کے ساتھ مخصوص تھا۔ اس طرح تمام حدیثوں میں تطبیق پیدا ہو جائے گی چنانچہ اس مفہوم کو اختیار کرنے کے بعد یہ حدیث حضرت عمر کی اس حدیث کے منافی نہیں ہوگی جس سے ثابت ہو چکا ہے کہ جب رمضان کا نصف حصہ گذ رجائے تو وتروں میں کفار پر لعنت بھیجنا سنت ہے۔ کفار پر لعنت بھیجنے کا سبب یہ تھا کہ جب کفار نے اس بابرکت اور مقدس و باعظمت مہینے کی تعظیم نہ کی جس کی عظمت و بزرگی خودباری تعالیٰ عزاسمہ نے بیان فرمائی ہے اور سر چشمہ ہدایت و فیضان کلام اللہ سے ذرہ برابر بھی ہدایت حاصل نہیں کی جو اسی باعظمت مہینے میں نازل ہوا ہے تو وہ اس بات کے مستحق ہوئے کہ ان پر لعنت بھیجی جائے۔ نماز تراویح کی رکعتوں کی تعداد کے بارے میں ابھی پیچھے ذکر کیا جا چکا ہے ایک مرتبہ پھر سمجھ لیجئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز تراویح کی رکعتوں کی کوئی تعداد متعین نہیں فرمائی تھی بلکہ اس سلسلے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل مختلف رہا ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے آٹھ رکعتیں بھی مسنون ہیں اور یہ بھی آتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے گیارہ رکعتیں پڑھی ہیں۔ اسی طرح تیرہ اور بیس رکعتیں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پڑھنی منقول ہیں مگر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے دور خلافت میں تراویح کی بیس رکعتیں متعین فرما دیں اس کے بعد تمام صحابہ کا اسی پر عمل رہا حضرت عثمان اور حضرت عملی رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے بھی اپنے اپنے زمانہ خلافت میں اس کا انتظام رکھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ " میری سنت اور میرے خلفاء راشدین کی سنت اپنے اوپر لازم قرار دو ، اسے اپنے دانتوں سے پکڑو" لہٰذا اگر کوئی آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس حکم کی موجودگی میں تراویح کی بیس رکعتوں کا اس لیے قائل نہیں ہوتا کہ ان کا ثبوت قطعی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں ہے تو اس کے بارے میں سوائے اس کے اور کیا کہا جا سکتا ہے۔ کہ وہ منشاء نبوت اور حقیقت سنت کی صریح خلاف ورزی کر رہا ہے۔
-