بیمار کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعاء شفائ

وعن عائشة رضي الله عنها قالت : كان رسول الله صلى الله عليه و سلم إذا اشتكى منا إنسان مسحه بيمينه ثم قال : " أذهب الباس رب الناس واشف أنت الشافي لا شفاء إلا شفاؤك شفاء لا يغادر سقما "-
اور ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (کا یہ طریقہ تھا) جب ہم میں سے کوئی بیمار ہوتا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس پر داہنا ہاتھ پھیرتے اور یہ (دعا) فرماتے ۔ اے لوگوں کے پروردگار! بیماری دور کر دے اور شفا دے تو ہی شفا دینے والا ہے۔ تیرے سوا کسی کی شفاء ایسی نہیں جو بیماری کو دور کر دے۔ (بخاری ومسلم)
-
وعن عائشة رضي الله عنها قالت : كان إذا اشتكى الإنسان الشيء منه أو كانت به قرحة أو جرح قال النبي صلى الله عليه و سلم بأصبعه : " بسم الله تربة أرضنا بريقة بعضنا ليشفى سقيمنا بإذن ربنا "-
اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب کوئی شخص اپنے بدن کے کسی حصہ (کے درد) کی شکایت کرتا، یا (اس کے جسم کے کسی عضو پر) پھوڑا یا زخم ہوتا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی انگلی سے اشارہ کر کے یہ دعا فرماتے خدا کے نام سے میں برکت حاصل کرتا ہوں، یہ مٹی ہمارے بعض آدمیوں کے لعاب دہن سے آلودہ ہے (یہ ہم اس لئے کہتے ہیں تاکہ) ہمارے پروردگار کے حکم سے ہمارا بیمار تندرست ہو جائے۔ (بخاری ومسلم) تشریح منقول ہے کہ اس بارہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا طریقہ یہ ہوتا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنا لعاب مبارک اپنی انگلی پر لگاتے اور اسے مٹی پر رکھتے پھر اس خاک آلودہ انگلی کو درد کی جگہ رکھ کر اس عضو پر پھیرتے جاتے تھے اور مذکورہ بالا دعا یعنی بسم اللہ الخ پڑھتے رہتے۔ پھوڑوں اور زخموں کے علاج کے سلسلہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ طریقہ اور یہ دعا درحقیقت رموز الٰہی میں سے ایک رمز ہے جسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی جانتے تھے ہماری عقلیں اس رمز کی حقیقت تک پہنچنے سے قاصر ہیں۔ تاہم قاضی بیضاوی رحمہ اللہ نے از راہ احتمال کے لکھا ہے کہ طبی نقطہ نظر سے یہ بات ثابت ہے کہ تبدیلی مزاج کے سلسلہ میں لعاب دہن بہت موثر ہوتا ہے اسی طرح مزاج کو اپنی حالت پر برقرار رکھنے کے لئے وطن کی مٹی بہت تاثیر رکھتی ہے یہاں تک کہ حکماء لکھتے ہیں کہ مسافر کو چاہئے کہ وہ اپنے ساتھ اپنے وطن کی کچھ خاک ضرور رکھے اور تھوڑی سی خاک پانی کے برتن میں ڈال دے اور اسی برتن سے دوران سفر پیتا رہے تاکہ اس کی وجہ سے مزاج کی تبدیلی سے محفوظ رہے۔ لہٰذا ہو سکتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسی بناء پر یہ طریقہ اختیار فرماتے ہوں۔ نیز دوسرے شارحین نے بھی اس کی توجیہات بیان کی ہیں مگر وہ سب احتمال ہی کے درجہ میں ہیں۔ صحیح یہی ہے کہ خدا کا بھید ہے جس کی حقیقت تک ہماری عقلوں کی رسائی ممکن نہیں ہے۔ اشرف رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ یہ حدیث رقیہ یعنی منتر کے جائز ہونے پر دلالت کرتی ہے بشرطیکہ اس منتر میں کفر کی آمیزش نہ ہو جیسے سحر یا کلمہ کفر و شرک وغیرہ۔ نیز اس سلسلہ میں مسئلہ یہ ہے کہ منتر خواہ کسی بھی زبان کا ہو، ہندی و اردو کا ہو یا عربی و فارسی اور ترکی وغیرہ کا، اس کا پڑھنا اس وقت تک درست نہیں ہے تا وقتیکہ اس کے معنی معلوم نہ ہو جائیں کیونکہ ہو سکتا ہے کہ اس میں الفاظ کفر ہوں۔ہاں حدیث میں ایک منتر بسم اللہ شجۃ قرنیۃ الخ بچھو کے کاٹے کے لئے منقول ہے اگرچہ اس کے معنی معلوم نہیں ہیں مگر اس کا پڑھنا جائز ہے۔
-
وعن عائشة رضي الله عنها قالت : كان النبي صلى الله عليه و سلم إذا اشتكى نفث على نفسه بالمعوذات ومسح عنه بيده فلما اشتكى وجعه الذي توفي فيه كنت أنفث عليه بالمعوذات التي كان ينفث وأمسح بيد النبي صلى الله عليه و سلم وفي رواية لمسلم قالت : كان إذا مرض أحد من أهل بيته نفث عليه بالمعوذات-
اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب بیمار ہوتے تو معوذات پڑھ کر اپنے اوپر دم کرتے اور اپنا ہاتھ بدن پر (جہاں تک پہنچتا) پھیرتے، چنانچہ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس بیماری میں مبتلا تھے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وفات پائی تو میں معوذات پڑھ کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر دم کرتی تھی جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود معوذات پڑھ کر اپنے اوپر دم فرمایا کرتے تھے، نیز میں آپ کا ہاتھ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بدن پر پھیرا کرتی تھی۔ اس طرح کہ میں معوذات پڑھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھوں پر دم کرتی تھی اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دونوں ہاتھ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بدن مبارک پر پھیرتی۔ (بخاری ومسلم) مسلم کی ایک دوسری روایت میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے یہ منقول ہے کہ " جب گھر والوں میں سے کوئی بیمار ہوتا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم معوذات پڑھ کر اس پر دم فرمایا کرتے تھے" تشریح معوذات سے مراد قل اعوذ برب الفلق اور قل اعوذ برب الناس کی سورتیں ہیں۔ چنانچہ حدیث میں معوذاب بصیغہ جمع آیتوں کے اعتبار سے فرمایا گیا ہے۔ یا یہ کہ چونکہ اقل جمع (یعنی جمع کا سب سے کم درجہ) دو ہیں اس لئے ان دونوں سورتوں کے لئے جمع کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے ۔ نیز یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ " معوذات" سے مراد تین سورتیں یعنی قل اعوذ برب الفلق، قل اعوذ برب الناس، اور قل ھو اللہ ہیں اور ان تینوں کو معوذات کا نام تغلیباً دیا گیا ہے۔ یہی بات زیادہ معتمد ہے بعض حضرات نے یہ بھی کہا ہے کہ " معوذات " میں ان تینوں سورتوں کے علاوہ " قل یا ایہا الکافرون" بھی داخل ہے۔ و اللہ اعلم۔ مسلم کی دوسری روایت میں " ہاتھ پھیرنے" کا ذکر نہیں ہے۔ لہٰذا اس موقع پر جہاں یہ احتمال ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دم کرنے کے ساتھ ہاتھ بھی پھیرتے ہوں گے۔ لیکن یہاں اس کا ذکر اس لئے نہیں کیا گیا ہے کہ " دم کرنے" سے ہاتھ پھیرنا بھی خود بخود مفہوم ہو جاتا ہے وہیں یہ بھی احتمال ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جس طرح دم کرنے کے ساتھ ہاتھ پھیر تے تھے اس طرح کسی کسی موقعہ پر صرف دم کرنے ہی پر اکتفاء کرتے ہوں گے اور ہاتھ نہ پھیرتے ہوں گے۔ لیکن صحیح اور قریب از حقیقت وضاحت وہی ہے جو پہلے بیان کی گئی ہے اور اولیٰ بھی یہی ہے کہ دم بھی کیا جائے اور ہاتھ بھی پھیرا جائے۔ یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ کلام اللہ کی آیتیں پڑھ کر بیمار پر دم کرنا سنت ہے۔
-