بلا ومصیبت میں راضی برضا رہنا چاہئے

وعن أنس قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " إن عظم الجزاء مع عظم البلاء وإن الله عز و جل إذا أحب قوما ابتلاهم فمن رضي فله الرضا ومن سخط فله السخط " . رواه الترمذي وابن ماجه-
حضرت انس رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا " بڑی مصیبتوں کے بدلہ بڑا اجر ہے۔ اور جب اللہ تعالیٰ کسی قوم کو پسند کرتا ہے تو اسے (مصیبتوں میں ) مبتلا کر دیتا ہے چنانچہ جو (مصائب و بلاء میں) راضی رہا تو اس کے لیے (اللہ تعالیٰ کی) رضا ہے اور جو شخص (مصیبت کے ابتلاء سے) ناراض رہا تو اس کے لیے (اللہ کی) ناراضگی ہے" (ترمذی وابن ماجہ) تشریح اللہ تعالیٰ جب کسی شخص سے خوش ہوتا ہے تو اسے مصیبت و بلاء میں مبتلا کر دیتا ہے اسی طرح جب کسی شخص سے ناراض و ناخوش ہوتا ہے تو اسے بھی مصیبت میں مبتلا کرتا ہے اگرچہ اس دوسرے جزو کو حدیث میں بظاہر ذکر نہیں کیا گیا ہے لیکن حدیث کے الفاظ فمن رضی الخ سے یہ جزو بھی مفہوم ہوتا ہے۔گویا حدیث کا حاصل یہ ہوا کہ بندہ کی خوشی و ناخوشی حق تعالیٰ کی خوشی و ناخوشی کی علامت ہے جو شخص مصیبت و بلاء میں راضی برضا رہتا ہے وہ خدا کا پسندیدہ و محبوب ہوتا ہے بایں طور کہ خدا بھی اس سے راضی و خوش رہتا ہے اور جو شخص مصیبت و بلاء کی سختیوں پر زبان شکایت دراز کرتا اور ناراضگی و ناخوشی کا اظہار کرتا ہے وہ راندہ درگاہ الٰہی ہوتا ہے بایں طور کہ خدا اس سے خوش و راضی نہیں رہتا۔چنانچہ منقول ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم آپس میں یہ سوال کرتے تھے کہ کس طرح معلوم ہو کہ اللہ تعالیٰ کس بندہ سے خوش و راضی ہے اور کس بندہ سے ناخوش و ناراض ہے؟ پھر یہ جواب دیتے تھے کہ اگر بندہ خدا سے خوش و راضی ہے تو سمجھا جائے کہ خدا اس بندہ سے خوش و راضی ہے اور اگر بندہ خدا سے ناخوش و ناراض ہے تو اس کا صاف مطلب یہ ہو گا کہ خدا اس سے ناراض و ناخوش ہے۔
-