بلا ضرورت کتا پالنا ، اپنے ذخیرہ ثواب میں کمی کرنا ہے

عن ابن عمر قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " من اقتنى كلبا إلا كلب ماشية أو ضار نقص من عمله كل يوم قيراطان "-
" حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، جو شخص مویشیوں کی حفاظت کرنے والے کتے اور شکاری کتے کے علاوہ کوئی کتا پالتا ہے اس کے اعمال ( کے ثواب ) میں سے روزانہ دو قیراط کے برابر کمی کر دی جاتی ہے ۔ " ( بخاری ومسلم ) تشریح " قیراط " اصل میں ایک وزن کا نام ہے جو آدھے دانگ ، یا بقول بعض ، دینار کے۴/۶ اور بقول بعض دینار کے دسویں حصے کے آدھے حصے کے برابر ہوتا ہے ، اور ایک دانگ چھ رتی کے وزن ، یا ایک درم کے چھٹے حصے کے برابر ہوتا ہے ، لیکن حدیث میں " قیراط " کا اسعتمال اس مقدار کے لئے کیا گیا ہے جس کا حقیقی علم اللہ تعالیٰ ہی کو ہے اگرچہ بعض احادیث میں اس " مقدار " کو احد پہاڑ کے برابر بتایا گیا ہے ، اس بنیاد پر اس حدیث کا مطلب یہ ہو گا کہ شریعت نے جن مقاصد کے لئے کتوں کو پالنے کی اجازت دی ہے جیسے مویشیوں ( یا گھر ، کھیت ) کی حفاظت اور شکار ، ان کے علاوہ محض تفریح طبع اور شوق کی خاطر اگر کوئی شخص کتا پالے گا تو اس نے جو نیک اعمال کئے ہیں اور حق تعالیٰ نے ان اعمال کی بناء پر اپنے فضل و کرم سے اس کے نامہ اعمال میں اجر و ثواب کے جو ذخیرے رکھے ہیں ، ان میں سے روزانہ اس مقدار میں کمی آتی رہے گی کہ اگر اس مقدار کو جسم تصور کیا جائے تو وہ دو احد پہاڑ کے برابر ہو ! یا یہ کہ دو قیراط سے مراد اس شخص کی نیکیوں کے حصول میں سے دو حصے کی کمی و نقصان ہے ۔ بہر حال " دو قیراط" سے کچھ ہی مراد لیا جائے ، حدیث کا اصل منشاء تو صرف یہ ظاہر کرنا ہے کہ بلا ضرورت شرعی ، کتا پالنا اپنے اعمال کے اجرو ثواب کے ایک بہت بڑے حصے سے ہاتھ دھو نا ہے ، جہاں تک اس سبب کا تعلق ہے جو کتے پالنے کی وجہ سے ثواب اعمال میں کمی کی بنیاد ہے تو اس بارہ میں علماء کے اختلافی اقوال ہیں ۔ چنانچہ بعض حضرات کے نزدیک اس کمی و نقصان کا سبب ملائکہ رحمت کا گھر میں نہ آنا ہے ۔ جیسا کہ فرمایا گیا ہے کہ جس گھر میں کتا ہوتا ہے وہاں رحمت کے فرشتے نہیں آتے ۔ اور بعض حضرات نے یہ سبب بیان کیا ہے کہ وہ شخص ( کتا پال کر ) دوسرے لوگوں کو ایذاء پہنچانے کا ذریعہ بنتا ہے ۔ اور بعض حضرات نے فرمایا کہ یہ کمی و نقصان اس سبب سے ہے کہ جب گھر میں کتا پلا ہوا ہوتا ہے تو وہ گھر والوں کی بے خبری میں کھانے پینے کے برتن باسن میں منہ ڈالتا رہتا ہے اور ظاہر ہے کہ گھر والے چونکہ بے خبر ہوتے ہی اس لئے وہ ان برتنوں کو دھوئے مانجے بغیر ان میں کھاتے پیتے ہیں ۔
-
وعن أبي هريرة قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " من اتخذ كلبا إلا كلب ماشية أو صيد أو زرع انتقص من أجره كل يوم قيراط "-
" اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص مویشیوں کی حفاظت کرنے والے شکار پکڑنے والے اور کھیت کھلیان کی چوکسی کرنے والے کتے کے علاوہ کوئی کتا پا لتا ہے تو اس کے ثواب میں سے ہر روز ایک قیراط کے برابر کمی کر دی جاتی ہے ۔ " ( بخاری و مسلم ) تشریح مضمون و مفہوم کے اعتبار سے یہ حدیث بھی پہلی حدیث کی طرح ہے ، البتہ اس حدیث میں اس کتے کے استثناء کو بھی ذکر کیا گیا ہے جو کھیت کھلیان کی حفاظت کرنے کے لئے پالا جاتا ہے ، نیز اس حدیث میں " ایک قیراط " کا ذکر ہے جب کہ پہلی حدیث میں دو قیراط کا ذکر کیا گیا ہے ، چنانچہ یہ فرق کتوں کی مختلف اقسام کی بنیاد پر ہے کہ بلا ضرورت پالے جانے والے کتوں میں بعض کتے ایسے ہوتے ہیں جو لوگوں کو کم ایذاء پہنچاتے ہیں ، ان کو پالنے کی صورت میں ایک قیراط کے برابر کمی کی جاتی ہے یا یہ فرق " مقام و جگہ " کے اعتبار سے ہے کہ بعض جگہ تو بلا ضرورت کتے پالنے کی وجہ سے ثواب میں دو قیرط کے برابر کمی کی جاتی ہے ۔ جیسے مکہ اور مدینہ کہ دونوں مقدس شہر اپنی عظمت و بزرگی کے لحاظ سے ایسے ہیں کہ اگر ان کی حدود میں رہنے والا کوئی شخص بلا ضرورت کتا پالتا ہے تو وہ زیادہ گنہگار ہوتا ہے اس لئے اس کے ذخیرہ ثواب میں روزانہ دو قیراط کے برابر کمی ہو جاتی ہے جب کہ ان دونوں مقدس شہروں کے علاوہ کسی دوسرے شہر میں کتا پالنے والا نسبتا کم گنتہگار ہوتا ہے ، اس لئے اس کے ثواب میں دو قیراط کے برابر کمی ہوتی ہے اور جو لوگ جنگل و بیابان میں کتا پالتے ہیں ان کے ثواب میں ایک قیراط کی کمی ہوتی ہے کیونکہ آبادی میں کتے پالنے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس کی وجہ سے زیادہ سے زیادہ لوگوں کو ایذاء پہنچانے کا ذریعہ پیدا ہو جب کہ جنگل و بیابان میں یہ صورت نہیں ہوتی ۔ اور یا یہ فرق اختلاف زمانہ کے سبب سے ہے کہ پہلے تو ایک ہی قیراط کے برابر کم ہونے کے ساتھ تنبیہ کی گئی تھی ، مگر جب بعد میں لوگوں نے کتوں کو زیادہ پالنا شروع کر دیا اور ان کے ساتھ رہن سہن اختیار کیا ، نیز ان کی طرف زیادہ رغبت و شوق رکھنے لگے تو شریعت کی طرف سے زجر و تنبیہ میں بھی زیادتی اور شدت اختیار کی گئی اور ثواب میں روازانہ دو قیراط کے برابر کمی ہو جانے کی وعید بیان فرمائی گئی ۔
-