برتری محض تقویٰ سے حاصل ہو سکتی ہے، رنگ ونسل سے نہیں

عن أبي ذر أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال له : " إنك لست بخير من أحمر ولا أسود إلا أن تفضله بتقوى " . رواه أحمد-
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے فرمایا۔ (ابو ذر!) تم نہ تو سرخ رنگ والے سے بہتر ہو اور نہ سیاہ رنگ والے سے الا یہ کہ تم ان دونوں میں سے کسی سے تقویٰ کے اعتبار سے افضل ہو" (احمد) تشریح : مطلب یہ ہے کہ انسانی فضیلت وبرتری، ظاہری شکل وصورت اور رنگ ونسل پر موقوف نہیں ہے بلکہ اس کا مدار دینی اخلاقی کردار کی عظمت اور تقویٰ پر ہے! واضح رہے کہ حدیث میں صرف دو رنگوں سرخ اور سیاہ کا ذکر اس بناء پر کیا گیا ہے کہ زیادہ تر لوگ انہی دو رنگ کے ہوتے ہیں اور زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ ان دونوں رنگوں والوں سے مراد آقا اور غلام ہیں چنانچہ اکثر ایسا ہی ہوتا ہے کہ آقا گورے رنگ کا ہوتا ہے اور غلام کالے رنگ کا ۔ طیبی رحمہ اللہ نے حدیث کی وضاحت میں کہا ہے کہ یہاں سرخ سے مراد اہل عجم اور سیاہ رنگ سے مراد اہل عرب ہیں۔ چنانچہ (اس زمانہ میں ) اہل عرب، عجم والوں یعنی غیر عرب لوگوں کو" احمر" (سرخ) کہا کرتے تھے کیونکہ ان کے رنگ پر سرخی اور سفیدی غالب ہوتی تھی، اور اہل عرب کو " اسود" (سیاہ) کہا جاتا تھا کیونکہ ان کی رنگت پختہ ہوتی تھی اور اس پر سیاہی اور سبزی کا غلبہ ہوتا تھا ۔ نیز حضرت شیخ عبدالحق رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ حدیث کے معنی یہ ہیں کہ حقیقی فضیلت وبرتری کا تعلق تقویٰ اور عمل صالح سے ہے اور تقویٰ وعمل صالح کے بغیر کسی بھی وصف وخصوصیت کی طرف نسبت کوئی فضیلت نہیں رکھتی جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ان اکرمکم عند اللہ اتقاکم (یعنی اللہ تعالیٰ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ باعزت وہ شخص ہے جو تم میں سب سے زیادہ متقی ہے) یہ بات ملحوظ رہے کہ " تقویٰ" اپنے مراتب ودرجات کے اعتبار سے کئی اقسام پر مشتمل ہے، سب سے ادنیٰ قسم یا سب سے ادنیٰ درجہ یہ ہے کہ ہر حالت میں شرک جلی سے اجتناب کیا جائے۔ اوسط درجہ یہ ہے کہ ہر قسم کے گناہ ہر طرح کی برائی ہر طرح کے لہوولعب اور شرک خفی سے اجتناب کیا جائے۔ اور سب سے اعلیٰ درجہ یہ ہے کہ ہر لمحہ خدا کے ساتھ تعلق وحضور رکھا جائے اور دل میں ماسویٰ اللہ کا خیال بھی نہ آنے دیا جائے۔
-