بالوں کی سفیدی نورانیت کی غماز ہوتی ہے

وعن عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم لا تنتفوا الشيب فإنه نور المسلم من شاب شيبة في الإسلام كتب الله له بها حسنة وكفر عنه بها خطيئة ورفعه بها درجة . رواه أبو داود .-
اور حضرت عمرو بن شعیب اپنے باپ اور وہ اپنے دادا سے نقل کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سفید بالوں کو نہ چنو کیونکہ بڑھاپا (یعنی بالوں کا سفید ہونا ') مسلمانوں کے لئے نورانیت کا سبب ہے، جو شخص حالت اسلام میں بڑھاپے کی طرف قدم بڑھاتا ہے یعنی جب کسی مسلمان کا ایک بال سفید ہوتا ہے تو اس کی وجہ ہے اللہ تعالیٰ اس کے لئے ایک نیکی لکھ دیتا ہے اور اس کی ایک خطا کو محو کر دیتا ہے اور اس کا ایک درجہ بلند کر دیتا ہے ۔" (ابوداؤد ) تشریح بڑھاپے کی نورانیت کا سبب اس اعتبار سے فرمایا گیا ہے کہ بڑھاپا اصل میں وقار کا مظہر ہے، جیسا کہ تیسری فصل میں آنے والی ایک روایت سے واضح ہو گا کہ بنی آدم میں سب سے پہلے شخص پر سفید بالوں کی صورت بڑھاپا آیا وہ حضرت ابراہیم علیہ والسلام تھے چنانچہ جب انہوں نے پہلے پہل اپنی داڑھی میں سفید بال کی صورت میں بڑھاپا دیکھا تو بار گاہ کبریائی میں عرض کیا کہ میرے پروردگار ! یہ کیا ہے ؟ جواب آیا کہ یہ وقار ہے، حضرت ابراہیم علیہ السلام نے عرض کیا کہ خداوند ا! میرے وقار کو زیادہ کر ۔" وقار ، دراصل ایک ایسا وصف ہے جو انسان کو گناہ فسق اور بے حیائی کی باتوں سے روکتا ہے اور توبہ و طاعات کی طرف مائل کرتا ہے، اس اعتبار سے یہ وصف انسان میں اس نور کو پیدا کرتا ہے جو میدان حشر میں ظلمت و تاریکیوں کو چیرتا ہوا آگے آگے چلے گا، جیسا کہ اس آیت کریمہ میں فرمایا گیا ہے ۔" ا یت ( يَسْعٰى نُوْرُهُمْ بَيْنَ اَيْدِيْهِمْ وَبِاَيْمَانِهِمْ) 57۔ الحدید : 12) " لہٰذا اس توجیہ کی روشنی میں بڑھاپے کے نور سے قیامت کے دن کا نور مراد ہے چنانچہ ایک روایت میں اس کی تفریح بھی ہے اور اگر نورانیت سے شکل و صورت کی خوشنمائی و دل کشی اور باطن کی صفائی نیک سیرتی مراد ہو جو اس دنیا میں بوڑھوں کو حاصل ہوتی ہے تو یہ بھی بعید از حقیقت نہیں ہو گا ۔ اس حدیث سے یہ مسئلہ ثابت ہوا کہ سفید بالوں کو چننا مکروہ ہے۔
-
وعن كعب بن مرة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال من شاب شيبة في الإسلام كانت له نورا يوم القيامة . رواه الترمذي والنسائي . ( حسن )-
اور حضرت کعب بن مرہ رضی اللہ عنہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص اسلام کی حالت میں بوڑھا ہوتا ہے اس کا بڑھاپا قیامت کے دن نور کی صورت میں ظاہر ہو گا ۔" (ترمذی ، نسائی ) تشریح اس موقعہ پر یہ اشکال پیدا ہوتا ہے کہ جب بڑھاپا (یعنی بالوں کا سفید ہونا ) دنیا و آخرت دونوں جگہ نورانیت کا سبب ہے تو خضاب کے ذریعہ اس کو ظاہر نہ ہونے دینا اور اس کو تبدیل کرنا شریعت نے جائز کیوں قرار دیا ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ خضاب کی مشروعیت بھی دراصل ایک دینی مصلحت کے سبب سے ہے اور وہ یہ کہ اس کے ذریعہ دشمنوں کے سامنے قوت و ہیبت کا اظہار ہوتا ہے تاکہ وہ مسلمانوں کو ضعیف و نا تو اں جان کر دلیر نہ ہوں اس صورت میں پھر یہ اشکال پیدا ہوتا ہے کہ اگر مذکورہ مصلحت کی خاطر خضاب کرنا مشروع ہے تو اسی مصلحت کے لئے بالوں کو جڑ سے اکھاڑنا پڑتا ہے جو اول تو تکلیف کا باعث ہے دوسرے بدہئیی اور بدنمائی کا سبب بھی بنتا ہے جب کہ خضاب کا لگانا خوش ہئیتی میں اضافہ کرتا ہے لہذا اخضاب کرنے اور بالوں کو چننے میں بڑا فرق ہے
-