ایک سبق آموز واقعہ :

--
ایک سبق ا موز واقعہ منقول ہے کہ ایک مرتبہ حضرت امام احمد رحمہ اللہ بازار گئے اور وہاں سے انہوں نے کچھ سامان خریدا جسے بنان جلال اٹھا کر احمد کے ساتھ ان کے گھر لائے جب وہ گھر میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ وہاں روٹیاں ٹھنڈی ہونے کے لیے کھلی ہوئی رکھی تھیں ، حضرت امام نے اپنے صاحبزادے کو حکم دیا کہ ایک روٹی بنان کو دے دیں، صاحبزادے نے جب بنان کو روٹی دی تو انہوں نے انکار کر دیا بنان جب گھر سے باہر نکل گئے اور واپس چل دئیے تو امام احمد نے صاحبزادے سے کہا کہ اب ان کے پاس جاؤ اور انہیں روٹی دے دو صاحبزادے نے باہر جا کر بنان کو روٹی دی تو انہوں نے فورا قبول کر لیا۔ انہیں بڑا تعجب ہوا کہ پہلے تو روٹی لینے سے صاف انکار کر دیا اور اب فورا قبول کر لیا آخر یہ ماجرا کیا ہے! انہوں نے حضرت امام احمد سے اس کا سبب پوچھا تو امام صاحب نے فرمایا کہ بنان جب گھر میں داخل ہوئے تو انہوں نے کھانے کی ایک عمدہ چیز دیکھی بتقاضائے طبیعت بشری انہیں اس کی خواہش ہوئی اور دل میں اس کی طمع پیدا ہو گئی اس لیے جب تم نے انہیں روٹی دی تو انہوں نے یہ گوارا نہ کیا کہ اپنی طمع و خواہش کے تابع بن جائیں انہوں نے روٹی لینے سے انکار کر دیا مگر جب وہ باہر چلے گئے اور روٹی سے قطع نظر کر کے اپنا راستہ پکڑا اور پھر تم نے جا کر وہ روٹی دی تو اب چونکہ وہ روٹی انہیں بغیر طمع و خواہش اور غیر متوقع طریق پر حاصل ہو رہی تھی اس لیے انہوں نے اسے خدا کی نعمت سمجھ کر فورا قبول کر لیا۔
-
عن سمرة بن جندب قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " المسائل كدوح يكدح بها الرجل وجهه فمن شاء أبقى على وجهه ومن شاء تركه إلا أن يسأل الرجل ذا سلطان أو في أمر لا يجد منه بدا " . رواه أبو داود والترمذي والنسائي-
حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا سوال کرنا ایک زخم ہے کہ جس کے ذریعے انسان اپنا منہ زخمی کرتا ہے بایں طور کہ کسی کے آگے ہاتھ پھیلانا اپنی عزت و آبرو کو خاک میں ملاتا ہے کہ یہ اپنے منہ کو زخمی کرنے ہی کے مترادف ہے لہٰذا جو شخص اپنی عزت و آبرو باقی رکھنا چاہے کہ وہ سوال سے شرم کرے اور کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلا کر اپنی عزت و آبرو کو باقی رکھے اور کوئی شخص اپنی آبرو کو باقی رکھنا ہی نہیں چاہتا تو وہ لوگوں کے ہاتھ پھیلا کر اپنی عزت خاک میں ملا لے یعنی اسے باقی نہ رکھے یہ گویا سوال کرنے و الے کے لیے تہدید اور تنبیہ ہے کہ کسی سے سوال نہ کرنا چاہئے۔ ہاں اگر سوال ہی کرنا ہے تو پھر حاکم سے سوال کرے یا ایسی صورت میں سوال کرے کہ اس کے لیے کوئی واقعی ضرورت اور مجبوری ہو۔ ( ابوداؤد ، نسائی ، ترمذی) تشریح مطلب یہ ہے کہ اگر تم سوال ہی کرو تو کم سے کم ایسے شخص سے تو کرو جس پر تمہارا حق بھی ہے اور وہ حاکم یا بادشاہ ہے کہ جس کے تصرف میں بیت المال اور خزانہ ہو تم ان سے اپنا حق مانگو، اگر تم مستحق ہوگے وہ تمہیں بیت المال سے دیں گے۔ عطاء سلطانی کو قبول کرنے کا مسئلہ علامہ طیبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس بارے میں اختلافی اقوال ہیں کہ آیا عطاء سلطانی بادشاہ و حاکم کا عطیہ قبول کرنا جائز ہے یا نہیں؟ چنانچہ اس بارے میں صحیح قول یہی ہے کہ اگر بیت المال اور خزانے میں حرام مال زیادہ ہو تو اس میں سے کچھ مانگنا یا اس سے عطیہ سلطانی قبول کرنا حرام ہے اور اگر ایسی صورت نہ ہو تو پھر حلال ہے۔ حدیث کے آخری جملے کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی واقعی مجبوری اور ضرورت ہو کہ کسی سے مانگے بغیر چارہ کار نہ ہو مثلا کسی کا ضامن بن گیا ہو، طوفان و سیلاب کی وجہ سے کھیتی باڑی تباہ ہو گئی ہو یا کسی حادثے و مصیبت کی وجہ سے نوبت فاقوں تک پہنچ گئی تو ایسی صورتوں میں سوال کرنے کی اجازت ہے بلکہ اگر کوئی شخص حالت اضطراری کو پہنچ گیا ہو خواہ وہ اضطراری حالت کپڑے کی طرف سے ہو کہ ستر چھپانے کو کپڑا نہ ہو یا کھانے کی طرف سے ہو کہ شدت بھوک سے جان نکلی جاتی ہو تو پھر ایسی صورت میں کسی سے مانگ کر اپنی اضطراری حالت کو دور کرنا واجب ہو جاتا ہے۔ امام غزالی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اسی طرح اس شخص کے لیے بھی سوال کرنا واجب ہوتا ہے جو حج کی استطاعت رکھتا تھا مگر حج نہیں کیا یہاں تک کہ مفلس ہو گیا تو اب اسے چاہئے کہ وہ لوگوں سے سفر خرچ مانگ کر حج کے لیے جائے
-