TRUE HADITH
Home
About
Mission
Contact
مشکوۃ شریف
جامع دعاؤں کا بیان
ایک جامع دعا
عن ابن عباس قال : كان النبي صلى الله عليه و سلم يدعو يقول : " رب أعني ولا تعن علي وانصرني ولا تنصر علي وامكر لي ولا تمكر علي واهدني ويسر الهدى لي وانصرني علي من بغى علي رب اجعلني لك شاكرا لك ذاكرا لك راهبا لك مطواعا لك مخبتا إليك أواها منيبا رب تقبل توبتي واغسل حوبتي وأجب دعوتي وثبت حجتي وسدد لساني واهد قلبي واسلل سخيمة صدري " . رواه الترمذي وأبو داود وابن ماجه-
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ دعا مانگتے تھے۔ (رب اعنی ولا تعن علی وانصرنی ولا تنصر علی وامکرلی ولا تمکر علی واہدنی ویسر الہدا لی وانصرنی علی من بغی علی رب اجعلنی لک شاکرا لک ذاکرا لک راہبا لک مطواعا لک مخبتا الیک اواہا منیبا رب تقبل توبتی واغسل حوبتی واجب دعوتی وثبت حجتی وسدد لسانی وہد قلبی واسلل سخیمۃ صدری)۔ اے پروردگار! میری مدد کر (یعنی اپنے ذکر، شکر اور اپنی عبادت کے حسن کی مجھے توفیق دے میرے خلاف کسی کی مدد نہ کر (یعنی جو طاقتیں مجھے تیری طاعت عبادت سے باز رکھیں خواہ شیطان ہو، خواہ نفس اور خواہ کفار ان کو مجھ پر غالب نہ کر مجھے فتح دے مجھ پر کسی کو فتحیاب نہ کر (یعنی مجھے کفار پر غالب کر کفار کو مجھ پر غلبہ نہ دے) اور میری مدد کرنے کے دشمنوں کے حق میں میرے لئے مکر کر، میرے ضرر کے لئے مکر نہ کر مجھے سیدھی راہ دکھا سیدھی راہ پر چلنا میرے لئے آسان کر اور اس کے خلاف میری مدد کر جو مجھ پر زیادتی کرے ۔ اے میرے رب! مجھے ہر وقت، تیرا شکر گزار (ہر حال میں ) تیرا ذکر کرنے والا تجھ سے ڈرنے والا، تیری بہت فرمانبرداری کرنے والا بنا، اے اللہ! میری توبہ قبول کر، میرے گناہ دھو دے ، میری دعا قبول کر (دنیا و آخرت میں اپنے دشمنوں کے سامنے) میری دلیل و حجت کو ثابت کر، میری زبان کو سچی اور درست رکھ(یعنی اس سے سچ و حقا بات کے علاوہ کچھ نہ نکلے) میرے دل کو ہدایت بخش اور میرے سینہ کی سیاہی دور کر دے۔ (ترمذی، ابوداؤد، ابن ماجہ) تشریح مکر کے معنی ہیں فریب۔ لیکن جب اس لفظ کی نسبت خدا کی طرف ہوتی ہے تو اس سے مراد ہوتا ہے (دشمنان دین اسلام پر ایسی جگہ سے بلاؤں کا اترنا جہاں سے انہیں گمان بھی نہ ہو)۔ سینہ کی سیاہی سے مراد ہے کینہ، بغض، حسد اور اسی قسم کی دوسری خصلتیں۔
-
وعن عطاء بن السائب عن أبيه قال : صلى بنا عمار بن ياسر صلاة فأوجز فيها فقال له بعض القوم : لقد خففت وأوجزت الصلاة فقال أما علي ذلك لقد دعوت فيها بدعوات سمعتهن من رسول الله صلى الله عليه و سلم فلما قام تبعه رجل من القوم هو أبي غير أنه كنى عن نفسه فسأله عن الدعاء ثم جاء فأخبر به القوم : " اللهم بعلمك الغيب وقدرتك على الخلق أحيني ما علمت الحياة خيرا لي وتوفني إذا علمت الوفاة خيرا لي اللهم وأسألك خشيتك في الغيب والشهادة وأسألك كلمة الحق في الرضى والغضب وأسألك القصد في الفقر والغنى وأسألك نعيما لا ينفد وأسألك قرة عين لا تنقطع وأسألك الرضى بعد القضاء وأسألك برد العيش بعد الموت وأسألك لذة النظر إلى وجهك والشوق إلى لقائك في غير ضراء مضرة ولا فتنة مضلة اللهم زينا بزينة الإيمان واجعلنا هداة مهديين " . رواه النسائي-
حضرت عطاء بن سائب اپنے والد حضرت سائب سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ نے ہمیں ایک نماز پڑھائی۔ نماز میں انہوں نے اختصار کیا یعنی نہ تو انہوں نے طویل قرات کی اور نہ تسبیحات وغیرہ بہت زیادہ پڑھیں، چنانچہ ان سے بعض لوگوں نے کہا آپ نے ہلکی نماز پرھی اور نماز کو مختصر کر دیا ۔ حضرت عمار رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میرے لئے یہ تخفیف مضر نہیں کیونکہ میں نے اس نماز کے قعدہ میں یا سجدہ میں وہ کئی دعائیں پڑھی ہیں جن کو میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے پھر جب حضرت عمار رضی اللہ عنہ اٹھ کر چلے تو جماعت میں سے ایک شخص ان کے ساتھ ہو لیا اور حدیث راوی حضرت عطاء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ وہ میرے باپ حضرت عطاء رضی اللہ عنہ ہی تھے، سوائے اس کے کہ انہوں نے اپنے آپ کو چھپایا یعنی انہوں نے اس طرح بیان نہیں کیا کہ حضرت عمار رضی اللہ عنہ کے ساتھ میں گیا بلکہ اپنے کو پوشیدہ رکھنے کے لئے یوں کہا کہ ایک شخص ان کے ساتھ ہو لیا ۔ بہر کیف انہوں نے حضرت عمار رضی اللہ عنہ سے اس دعا کے بارہ میں دریافت کیا۔ حضرت عمار رضی اللہ عنہ نے انہیں وہ دعا بتا دی جو انہوں نے نماز کے دوران پڑھی تھی پھر وہ آئے اور جماعت کو وہ دعا بتا دی جو یہ ہے ۔ دعا (اللہم بعلمک الغیب وقدرتک علی الخلق احیینی ماعلمت الحیوۃ خیرالی وتوفنی اذا علمت الوفاۃ خیرا لی اللہم واسئلک خشیتک فی الغیب والشہادۃ واسئلک کلمۃ الحق فی الرضا والغضب واسئلک القصد فی الفقر والغنی واسئلک نعیما لا ینفد واسئلک قرۃ عین لا تنقطع واسئلک الرضا بعد القضاء واسئلک برد العیش بعد الموت واسئلک لذۃ النظر الی وجہل والشوق الی لقائک فی غیر ضراء مضرۃ ولا فتنۃ مضلۃ اللہم زینا بزینۃ الایمان واجعلنا ہداۃ مہدیین)۔ اے اللہ! تو بحق اپنے علم غیب کے اور بحق قدرت کے اپنی مخلوق پر مجھ کو زندہ رکھ جب تک کہ تو زندگی کو میرے لئے بہتر جانے اور مجھے موت دے جب تو موت کو میرے لئے بہتر جانے یعنی جب تک نیکیاں برائیوں پر غالب ہیں اس وقت تک زندگی بہتر ہے اور جب برائیاں نیکیوں پر غلبہ پا لیں اور ظاہری و باطنی فتنے گھیر لیں تو اس وقت موت بہتر ہے اے اللہ! اور میں مانگتا ہوں تجھ سے تیرا خوف باطن و ظاہر میں اور مانگتا ہوں کلمہ حق کہنے کی توفیق خوشی میں بھی اور تنگی میں بھی اور مانگتا ہوں تجھ سے میانہ روی فقر و افلاس میں بھی اور خوش حالی کے وقت میں بھی (یعنی نہ تو زیادہ فقر و افلاس اور رنج و تکلیف ہی میں مبتلا ہوں اور نہ اتنا تونگر و خوش حال ہو جاؤں کہ اسراف کرنے لگوں) اور مانگتا ہوں میں تجھ سے ایسی نعمت جو کبھی ختم نہ ہو۔ (یعنی غیب کی نعمتیں) اور مانگتا ہوں تجھ سے آنکھ کی ٹھنڈک جو کبھی ختم نہ ہو۔ اور مانگتا ہوں رضا مندی (یری ) قضا (یعنی تقدیر) کے بعد اور مانگتا ہوں تجھ سے ٹھنڈک زندگی کی مرنے کے بعد یعنی ہمیشہ کی راحت برزخ اور قیامت میں۔ اور مانگتا ہوں لذت دیکھنے کی تیرے چہرہ کی طرف آخرت میں اور مانگتا ہوں تیری ملاقات کا شوق ایسی حالت میں جو ضرر نہ پہنچائے اور نہ گمراہی کے فتنہ میں مبتلا کرے اے اللہ! ہمیں ایمان کی زینت کے ساتھ مزین فرما یعنی ہمیں ایمان پر ثابت قدم رکھ اور زیادہ سے زیادہ نیکیاں کرنے کی توفیق عطا فرما اور ہمیں راہ راست دکھانے والے اور راہ راست پر چلنے والے بنا۔ (نسائی) تشریح " اور مانگتا ہوں کلمہ حق" کا مطلب یہ ہے کہ میرے اندر اتنی استقامت اور بے خوفی پیدا فرما کہ میں ہمیشہ کلمہ حق یعنی حق بات ہی کہوں چاہے مجھ سے لوگ خوش ہوں یا ناراض ہوں۔ یا یہ کہ اپنی خوشی کی حالت میں بھی اور خفگی کی حالت میں بھی کلمہ حق ہی کہوں عوام کی طرح نہ ہو جاؤں کہ جب وہ خفگی کی حالت میں ہوتے ہیں تو برا کہتے ہیں اور جب خوش ہوتے ہیں تو خوش آمد کرتے ہیں۔ " آنکھ کی ٹھنڈک" سے مراد وہ چیزیں ہیں جن سے جذبہ طاعت و عبادت کامل اور حقیقی لذت و کیف پاتا ہے۔ یا اس سے مراد دعا مانگنے والے کے مرنے کے بعد اس کی اولاد کا باقی رہنا ہے، اسی طرح آنکھ کی ٹھنڈک سے نماز پر پختگی اور اس کی پابندی بھی مراد ہو سکتی ہے اور اس کے مفہوم کو زیادہ وسعت دی جائے تو دونوں جہان کی بھلائیاں بھی مراد لی جا سکتی ہیں۔ فی غیر ضراء مضرۃ ، ایسی حالت جو ضرر نہ پہنچائے۔ کا تعلق جیسا کہ ترجمہ سے ظاہر ہے شوق ملاقات سے ہے یعنی میں تیری ملاقات کا ایسا شوق چاہتا ہوں ۔ جو میری راہ سلوک ، راہ ادب میں میری استقامت میں اور احکام و اعمال کی بجا آوری اور ادائیگی میں نقصان نہ پہنچائے کیونکہ جن لوگوں کو راہ سلوک و تصوف پر گامزن ہونے کا شرف حاصل ہے وہ جانتے ہیں کہ باری تعالیٰ کی ملاقات کا شوق بسا اوقات ورفتگی و بے خودی کی اس منزل تک پہنچ جاتا ہے جسے غلبہ حال کہا جاتا ہے اور یہی وہ وقت ہوتا ہے جب قدم راہ ادب کی استقامت سے بے نیاز ہو جاتے ہیں، سلوک میں کوتاہی پیدا ہو جاتی اور احکام و اعمال میں نقصان واقع ہو جاتا ہے چنانچہ اگلے جملہ ولا فتنۃ مضلۃ کا بھی یہی مطلب ہے کہ ایسا شوق چاہتا ہوں جو راہ استقامت سے ہٹانے والی اور احکام و اعمال میں بے راہ روی پیدا کرنے والی آزمائش میں مبتلا نہ کرے۔ یا پھر یہ کہا جائے گا کہ اس جملہ کا تعلق دعا کے ابتدائی لفظ احیینی سے ہے تاکہ اس کا مفہوم دعا میں مذکور تمام چیزوں پر حاوی ہو جائے یعنی مجھ کو اس مذکورہ نعمتوں کے ساتھ اسی طرح زندہ رکھ کہ ایسی بلاء و آزمائش میں گرفتار نہ ہو جاؤں جس میں صبر و شکر کا دامن ہاتھ سے چھوٹ جائے اور میں گمراہی میں پڑ جاؤں۔ " راہ راست پر چلنے والے بنا " کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح ہم دوسروں کو اچھی راہ بتائیں اور دوسروں کو نیک زندگی اختیار کرنے کی تلقین کریں اسی طرح ہم خود بھی اس پر عمل کرتے ہوئے اچھی راہ اپنائی۔ اور نیک زندگی اختیار کریں۔ ہماری حالت خود رافضیحت و دیگرے نصیحت والی نہ ہو بلکہ ہمارا عمل ہمارے قول کے مطابق ہو۔
-