اپنے اہل بیت کا راحت وآرام کی زندگی اختیار کرنا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک ناپسندیدہ

وعن ثوبان قال كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا سافر كان آخر عهده بإنسان من أهله فاطمة وأول من يدخل عليها فاطمة فقدم من غزاة وقد علقت مسحا أو سترا على بابها وحلت الحسن والحسين قلبين من فضة فقدم فلم يدخل فظنت أن ما منعه أن يدخل ما رأى فهتكت الستر وفكت القلبين عن الصبيين وقطعته منهما فانطلقا إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم يبكيان فأخذه منهما فقال يا ثوبان اذهب بهذا إلى فلان إن هؤلاء أهلي أكره أن يأكلوا طيباتهم في حياتهم الدنيا . يا ثوبان اشتر لفاطمة قلادة من عصب وسوارين من عاج . رواه أحمد وأبو داود .-
اور حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب سفر پر روانہ ہوتے تو اپنے اہل و عیال کے لوگوں میں سب سے آخری وقت حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو عطا کرتے اور جب سفر سے واپس تشریف لاتے تو سب سے پہلے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے ہاں جاتے یعنی سفر کے لئے روانگی کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم پہلے دیگر اہل بیت سے الوداعی ملاقات فرماتے پھر ان سب سے فارغ ہو کر اور سب کو رخصت کر کے آخر میں حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے پاس تشریف لے جاتے ان سے جو کچھ کہنا سننا ہوتا کہتے اور جو کوئی وصیت و نصیحت کرنی ہوتی وہ کرتے اور ان کو خدا حافظ کہہ کر کے روانہ ہو جاتے اور پھر جب سفر سے واپس تشریف لاتے تو سب سے پہلے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے ہاں تشریف لے جاتے اور سب سے پہلے ان سے ملاقات کرتے چنانچہ (ایک مرتبہ ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک جہاد کے سفر سے واپس آئے تو اس وقت حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے اپنے مکان کے دروازے پر ٹاٹ کا پردہ لٹکا رکھا تھا ۔ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے وہ پردہ آرائش کی خاطر لٹکایا تھا ) کیونکہ اگر پردہ کی ضرورت کی خاطر لٹکایا ہوا ہوتا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی ناگواری نہیں ہوتی ) نیز انہوں نے (اپنے دونوں صاحبزادوں ) حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنہما کو چاندی کے دو کڑے پہنا رکھے تھے (یعنی ان میں سب سے ہر ایک کو ایک ایک کڑا یا دو دو کڑے پہنا رکھے تھے ) جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے معمول کے مطابق سفر سے واپسی میں حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی ملاقات کے لئے ان کے گھر، تشریف لائے اور یہ چیزیں دیکھیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے گھر میں داخل نہیں ہوئے، حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سمجھ گئیں کہ جس چیز نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو میرے گھر میں داخل ہونے سے روکا وہ یہ ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا ہے (یعنی دروازہ پر پردہ لٹکنا اور حسن و حسین رضی اللہ عنہما کے ہاتھوں میں کڑے کا ہونا چنانچہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے (فورًا ) پردہ کو پھاڑ ڈالا اور دونوں صاحبزادوں کے ہاتھ سے دونوں کڑوں کو اتار لیا اور ان کو توڑ ڈالا پھر دونوں صاحبزادے ان ٹوٹے ہوئے کڑوں کو لے کر ) روتے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں گئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپنے رشتہ داروں میں کسی شخص کا نام لے کر فرمایا کہ اس کے گھر والوں کو دے آؤ کیونکہ وہ محتاج و ضرورت مند تھے، چونکہ یہ دونوں بچے میرے اہل بیت میں سے ہیں اس لئے میں اس کو اچھا نہیں سمجھتا کہ یہ دنیاوی زندگی میں بہترین غذا کھائیں (یعنی میرے نزدیک یہ پسندیدہ ) نہیں ہے کہ میرے یہ بچے بہترین غذاؤں اور نفیس پوشاک و اسباب سے لذت و فائدہ اٹھائیں یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے " بہترین غذا " سے عیش و آرام کی زندگی اختیار کرنا اور دنیا کی لذتیں حاصل کرنا مراد لیا ۔ نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ارشاد کے ذریعہ گویا یہ واضح فرمایا کہ میں اپنے اہل بیت کے بارے میں اس چیز کو اختیار کرتا ہوں کہ وہ اس دنیا میں فقر و زہد اور سختی و مشقت کی زندگی اپنائیں تاکہ آخرت میں ان کے درجات بلند ہوں اور ان کا شمار ان لوگوں میں نہ ہو جن کے حق میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ا یت (اذہبتم طیباتکم فی حیوتکم الدنیا) لیکن اس کے ساتھ ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم چشم تصور سے اپنی لخت جگر فاطمہ رضی اللہ عنہا کی شکستہ دلی کو بھی دیکھ رہے تھے اس لئے ان کے تئیں شفقت و محبت کا اظہار کرتے ہوئے یہ بھی فرمایا کہ ثوبان ! فاطمہ کے لئے عصب کا ایک ہار اور دونوں بچوں کے لئے ہاتھی دانت کے دو کڑے خرید لینا تاکہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی بھی دلجوائی ہو جائے اور بچوں کی اشک شوئی ہو جائے ۔" (احمد ، ابوداؤد )
-