TRUE HADITH
Home
About
Mission
Contact
مشکوۃ شریف
کھانوں کے ابواب
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تنگی معاش
وعنها قالت : كان يأتي علينا الشهر ما نوقد فيه نارا إنما هو التمر والماء إلا أن يؤتى باللحيم-
اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کہتی ہیں کہ بعض مہینہ ہم پر ایسا گزرتا تھا کہ ہم اس میں آگ نہ جلاتے تھے (یعنی بعض مرتبہ پورا پورا مہینہ ایسا گزرتا تھا کہ ہمارے گھر میں سامان خوارک نہ ہونے کی وجہ سے چھولھے میں آگ بھی نہیں جلتی تھی) اور (اس عرصہ میں ) ہماری غذا کا انحصار (صرف) کھجور اور پانی پر ہوتا تھا ۔ الایہ کہ کہیں سے تھوڑا سا گوشت آ جاتا تھا ۔" (بخاری ومسلم ) تشریح " الایہ کہ کہیں سے تھوڑا سا گوشت آ جاتا تھا " کا مطلب یہ ہے کہ تنگی معاش کے اس عرصہ میں ہم صرف کھجوریں کھا کھا کر اور پانی پی پی کر گزر کر لیا کرتے تھے ، یا اگر کوئی شخص تھوڑا بہت گوشت بھیج دیا کرتا تھا تو اس کو کھا لیتے تھے ۔ یا یہ مطلب ہے کہ گھر میں خوراک کا کوئی سامان نہ ہونے کی وجہ سے ہمارے چولہے میں آگ نہیں جلتی تھی ، ہاں اگر کہیں سے کچھ گوشت آ جاتا تو اس کو پکانے کے لئے آگ جلالیا کرتے تھے ۔
-
وعنها قالت : ما شبع آل محمد يومين من خبز بر إلا وأحدهما تمر-
اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ایسا (کبھی نہیں ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر والوں نے دو دن گیہوں کی روٹی سے اپنا پیٹ بھرا ہو ، اور ان دو دنوں میں سے ایک دن کی غذا کھجور نہ ہوئی ہو ۔" (بخاری ومسلم ) تشریح حدیث کا مطلب یہ ہے کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل و عیال کبھی بھی مسلسل دو دنوں تک گیہوں کی روٹی نہیں کھاتے تھے ، جہاں تک گیہوں کی روٹی کی قید لگانے کا سوال ہے تو ہو سکتا ہے کہ جو کی روٹی میسر ہو جاتی ہو ۔
-
وعنها قالت : توفي رسول الله صلى الله عليه وسلم وما شبعنا من الأسودين-
" حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا سے تشریف لے گئے ۔ اور ہم نے (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات میں کبھی ) دو سیاہ چیزوں یعنی کھجور اور پانی سے پیٹ نہیں بھرا ۔" (بخاری ومسلم ) تشریح یہ حدیث بھی واضح کرتی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل و عیال کس تنگی و سختی کے ساتھ اپنی زندگی گزارتے تھے اور باوجودیکہ اگر آپ چاہتے تو دنیا کی تمام لذات اور ایک خوش حال ، بافراغت زندگی گزارنے کے سارے وسائل و ذرائع آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں ہوتے مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ کمال ایثار و استغناء اور نفس کشی و ترک لذات پر عامل رہے ۔ اسودین (دو سیاہ چیزوں ) میں سے ایک سیاہ چیز کھجور ہے اور دوسری سیاہ چیز پانی ! کو سیاہ چیز سے تعبیر کرنا مجاورت و مقارنت کی وجہ سے ہے اور اس طرح کا طرز کلام اہل عرب کی یہاں مستعمل ہے ، جیسا کہ ماں اور باپ کو ابوین یا چاند اور سورج کو قمرین کہتے ہیں ، اس کو عربی میں " تغلیب " کہتے ہیں ۔تاہم واضح رہے کہ اس ارشاد میں " پانی کا ذکر کھجور کے ضمن و طفیل میں ہے ، اصل مقصد کھجور ہی کا ذکر کرنا ہے، کیونکہ پانی نہ تو پیٹ بھرنے کے مصرف میں آتا ہے اور نہ اس کی کوئی کمی ہی تھی ، اس سے یہ بات بھی واضح ہوئی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے گھر والوں کو غذا کے طور پر کھجوریں بھی اتنی مقدار میں مہیا نہیں ہوتی تھیں جو پیٹ بھرنے کے بقدر ہوں ، بلکہ بس اتنی ہی مہیا ہو جاتی تھیں جس سے پیٹ کو سہارا مل جاتا تھا ۔
-
وعن النعمان بن بشير قال : ألستم في طعام وشراب ما شئتم ؟ لقد رأيت نبيكم صلى الله عليه وسلم وما يجد من الدقل ما يملأ بطنه . رواه مسلم-
اور حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے (ایک موقع پر ) فرمایا کیا تم لوگ اپنے کھانے پینے میں جس طرح چاہتے ہو عیش نہیں کرتے (یعنی تم اپنے کھانے پینے کی چیزوں میں اپنی خواہش کے مطابق وسعت و افراط اختیار کر کے عیش و راحت کی زندگی گزار رہے ہو ) جب کہ میں نے تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس حال میں دیکھا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ناکارہ کھجوریں ۔ بھی اس قدر میسر نہیں ہوتی تھیں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پیٹ بھر دیتیں ۔" (مسلم ) تشریح کیا تم ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ الخ ، حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ نے یہ بات یا تو تابعین کو مخاطب کر کے کہی، یا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد صحابہ کرام کو مخاطب کرتے ہوئے کہی ۔ " تمہارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ الخ " مخاطبین کی طرف سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اضافت و نسبت ان کو الزام دینے یا یوں کہا جائے کہ غیرت دلانے کے لئے کی کہ تم جس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں ہو اور جن کا نام لیوا ہونے پر فخر کرتے ہو، ان نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا تو یہ حال تھا کہ ان کو پیٹ بھرنے کے لئے ناکارہ کھجوریں بھی میسر نہیں آتی تھیں اور ایک تم ہو کہ انواع و اقسام کے کھانے کھاتے ہو ، اور عیش و عشرت کی زندگی اختیار کئے ہوئے ہو ، اور اس طرح گویا تم نے دنیا اور دنیا کی لذتوں سے اجتناب کرنے کے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ کو اختیار کرنے سے اعراض کیا ہے ۔ واضح رہے کہ پہلی حدیث میں تو یہ بیان کیا گیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر بعض ایام ایسے گزرتے تھے جن میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی غذا محض کھجوریں ہوتی تھیں ، دوسری حدیث میں بیان کیا گیا کہ وہ کھجوریں بھی اتنی مقدار میں میسر نہیں ہوتی تھیں جس سے پیٹ ہی بھر لیا جاتا، اور یہاں یہ بیان کیا گیا کہ وہ قلیل مقدار بھی اچھی کھجوروں پر مشتمل نہیں ہوتی تھی بلکہ وہ ناکارہ کھجوریں ہوتی تھیں جن کو بالکل ہی محتاج و مفلس شخص کے علاوہ کوئی دوسرا کھانا بھی پسند نہ کرے اور یہ ساری باتیں اس حقیقت کی غماز ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک لذات دنیا کی قطعا کوئی اہمیت نہیں تھی ، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم معمولی درجہ کی بھی خوش حال و راحت بخش زندگی گزارنے سے کوئی دل چسپی نہیں رکھتے تھے، بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بنیادی طور پر فقر اور ترک لذات کو اختیار کیا تھا اور یہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول بن گیا تھا ، جس پر اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہر حالت میں قائم رکھا ، جب اسلام اور اہل اسلام پر سخت عسرت و تنگی کا زمانہ تھا اس وقت بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر عامل رہے اور جب اسلام و اہل اسلام کو شوکت نصیب ہوئی اور دنیا کے خزانے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں آ گئے اس حالت میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی فقر و عسرت کی زندگی گزارنے پر قناعت کی ایسا کیوں تھا؟ محض اس لئے نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم واقعۃ مفلس و محتاج تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم خواہش و طلب کے باوجود ایک خوش گوار و خوش حال زندگی کے اسباب و وسائل مہیا کرنے پر قادر نہیں تھے، کیوں کہ یہ بتایا جا چکا ہے کہ بعد میں مسلمانوں کو اسباب معیشت کی بڑی وسعت و فراوانی نصیب ہوئی بلکہ بجا طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ عسرت و تنگی کے زمانہ میں بھی اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم چاہتے تو عیش و تنعم کے وہ کون سے وسائل تھے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل نہیں ہو سکتے تھے، حقیقت یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اتنی سخت و تنگ زندگی گذارنا اس سخاوت کی بناء پر تھا کہ گھر میں جو بھی آیا دوسروں پر صرف کر دیا ، اس ایثار کی بناء پر تھا جو خود سخت سے سخت تکلیف میں مبتلا کر کے بھی دوسروں کی راحت چاہنا تھا ، اس زہد و تقویٰ اور قناعت و توکل کی بنا پر تھا جس نے آخرت کی سر بلندی اپنے پروردگار کی رضا جوئی اور اپنی عبدیت و بے چارگی کے مکمل اظہار کے لئے دنیا کی ہر لذت، دنیا کا ہر عیش و تنعم اور دنیا کی ہر خواہش کو کلیۃً پس پشت ڈال دیا تھا، اور ایک بڑا سبب یہ بھی تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اس عملی زندگی کے ذریعہ اپنی امت کو عیش و تنعم کی زندگی سے اجتناب کرنے قناعت و توکل اور ایثار کا وصف پیدا کرنے اور اپنے حقیقی مقصد حیات کی راہ میں سختی و مشقت برداشت کرنے کی تعلیم و تربیت دیں ۔
-