انگور کی زکوۃ

وعن عتاب بن أسيد أن النبي صلى الله عليه و سلم قال في زكاة الكروم : " إنها تخرص كما تخرص النخل ثم تؤدى زكاته زبيبا كما تؤدى زكاة النخل تمرا " . رواه الترمذي وأبو داود-
حضرت عتاب بن اسید رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انگور کی زکوۃ کے بارے میں فرمایا کہ انگوروں کا اسی طرح اندازہ کیا جائے جیسے کھجوروں کا اندازہ کیا جاتا ہے پھر ان انگوروں کی زکوۃ اس وقت ادا کی جائے جب وہ خشک ہو جائیں جس طرح کہ خشک ہو جانے کے بعد کھجوروں کی زکوۃ ادا کی جاتی ہے۔ (ترمذی، ابوداؤد ) تشریح مطلب یہ ہے کہ جب انگوروں اور کھجوروں میں شیرینی پیدا ہو جائے تو کوئی ماہر شخص ان کے بارے میں یہ اندازہ لگائے کہ خشک ہونے کے بعد یہ کس قدر ہوں گی۔ پھر جب وہ خشک ہو جائیں تو حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کے مسلک مطابق وہ جتنی بھی ہوں ان کا دسواں حصہ بطور زکوہ ادا کیا جائے صاحبین اور حضرت امام شافعی کے مسلک کے مطابق اگر ان کی مقدار حد نصاب یعنی پانچ وسق تک پہنچ جائے تو دسواں حصہ ادا کیا جائے۔
-
وعن سهل بن أبي حثمة حدث أن رسول الله صلى الله عليه و سلم كان يقول : " إذا خرصتم فخذوا ودعوا الثلث فإن لم تدعوا الثلث فدعوا الربع " . رواه الترمذي وأبو داود والنسائي-
حضرت سہل بن ابی حثمہ رضی اللہ عنہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ حدیث بیان کرتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جب تم انگوروں اور کھجوروں کی زکوۃ کا اندازہ کر لو تو اس میں دو تہائی لے لو اور ایک تہائی چھوڑ دو، اگر ایک تہائی نہ چھوڑ سکو تو چوتھائی تو چھوڑ ہی دو۔ (ترمذی، ابوداؤد ، نسائی) تشریح دراصل یہ زکوۃ وصول کرنے والوں سے خطاب ہے کہ جب تم زکوۃ کی مقدادر متعین کر لو تو اس مقدار متعین میں سے دو تہائی تو لے لو اور ایک تہائی از راہ احسان و مروت مالک کے لیے چھوڑ دو تاکہ وہ اس میں اپنے ہمسایوں اور راہ گیروں کو کھلائے حضرت امام اعظم اور حضرت امام مالک کا یہی مسلک ہے اگرچہ حضرت امام شافعی کا پہلا قول بھی یہی ہے مگر ان کا بعد کا قول یہ ہے کہ زکوۃ کی مقدار واجب میں سے کچھ حصہ بھی نہ چھوڑا جائے۔ اس حدیث کی تاویل وہ یہ کرتے ہیں کہ اس کا تعلق خیبر کے یہودیوں سے تھا، چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خیبر کے یہودیوں سے مساقات (بٹائی) پر معاملہ کر رکھا تھا کہ آدھی کھجوریں وہ رکھا کریں اور آدھی کھجوریں دربار نبوت میں بھیج دیا کریں اس لیے آپ نے وہاں کی کھجوروں کا اندازہ کرنے والے کو یہ حکم دیا تھا کہ پہلے تمام کھجوروں میں سے ایک تہائی یا ایک چوتھائی ان یہودیوں کے لئے از راہ احسان چھوڑ دیا جائے پھر باقی کھجوروں کو نصف تقسیم کر دیا جائے ایک حصہ یہودیوں کو دے دیا جائے اور ایک دربار نبوت میں بھیج دیا جائے۔
-