انصار کی فضیلت

وعن أنس عن النبي صلى الله عليه و سلم قال : " آية الإيمان حب الأنصار وآية النفاق بغض الأنصار " . متفق عليه-
اور حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (یعنی کمال ایمان ) کی نشانی (تمام) انصار سے محبت رکھنا ۔ اور نفاق کی نشانی انصار سے بغض ودشمنی رکھنا ہے ۔ " (بخاری ومسلم ) تشریح : " انصار " کا لفظ لغوی طور پر " ناصر" یا " نصر" کی جمع ہے اور اصطلاحا اس لفظ کا اطلاق مدینہ کے ان لوگوں پر ہوتا ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے اور جان ومال سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد کی دراصل مدینہ میں دو قبیلے آباد تھے ۔ ایک کے مورث اعلی کا نام " اوس " اور دوسرے کامورث اعلی کا نام " خزرج " تھا اوس وخزرج 'دونوں بھائی تھے اور آگے چل کر ان دونوں کی نسلوں نے دو زبر دست قبیلوں کی صورت اختیار کرلی ۔ مدینہ میں اسلام اور پیغمبر اسلام کی آمد سے پہلے یہ دونوں قبیلے ایک دوسرے کے خلاف بھیانک مخاصمت ودشمنی رکھتے تھے ۔ کہا جاتا ہے کہ ہجرت نبوی کے وقت تک مسلسل ایک سو بیس سال سے ان دونوں قبیلوں کے درمیان جنگ وعداوت چلی آرہی تھی ، لیکن جوں ہی انہوں نے اسلام وتوحید اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم سے تعلق قائم کیا ان کی باہمی عداوت ومخاصمت ، باہمی محبت وموانست میں بدل گئی ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں قبیلوں کو " انصار " کا لقب عطا فرمایا اور اسی لقب کے ذریعہ ان قبیلوں کے لوگ ممتاز ہوئے ۔ ان کے بعد ان کی اولاد ، ان کی نسلوں ، اور ان کے آزاد کردہ غلاموں کے لئے بھی یہ لقب باقی رہا ۔ انصار کے فضائل ومناقب کا کوئی ٹھکانہ نہیں ، اسلام میں بلند تر ، شرف واعزاز ان کو حاصل ہے قرآن کریم میں ان کی تعریف مذکور ہے اور یہ عظیم تر رتبہ ان کو اس بناء پر حاصل ہوا کہ انہوں نے نہایت مخلصانہ طور پر پیغمبر اسلام کو ٹھکانا دیا ۔ جان ومال سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد کی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دعوتی مشن کے نہایت زبردست اور موثر و معاون بنے ۔ اور چونکہ انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی معاونت کر کے تمام عرب وعجم کے دشمنان دین کی عداوت مول لی ۔ اس لئے ضروری ہوا کہ ان کی محبت کو ایمان کی علامت اور ان کی عداوت کو کفر ونفاق کی علامت ، اسی طرح ان کے تئیں کمال محبت کو کمال ایمان کاموجب اور ان کے تئیں نقصان محبت کونقصان ایمان کا موجب قرار دیا جائے بلکہ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اگر کوئی شخص اس بناء پر ان سے عدوات رکھے کہ وہ اسلام اور پیغمبر اسلام کے معاون ومددگار بنے تو وہ شخص یقینی طور پر حقیقی کافر ہے ۔
-
وعن أبي هريرة قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " لولا الهجرة لكنت امرءا من الأنصار ولو سلك الناس واديا وسلكت الأنصار واديا أو شعبا لسلكت وادي الأنصار وشعبها والأنصار شعار والناس دثار إنكم سترون بعدي أثرة فاصبروا حتى تلقوني على الحوض " . رواه البخاري-
اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اگر ہجرت نہ ہوتی تو میں بھی انصار میں کا ایک آدمی ہوتا ۔ اگر لوگ ایک وادی میں (یعنی حسی یا معنوی راستہ پر ) چلیں اور انصار کسی دوسرے راستہ پر چلیں ۔ یا یہ فرمایا کہ ( اور انصار ) کسی دوسرے پہاڑی درہ میں چلیں تو میں اسی راستہ پر یا اسی پہاڑی درہ میں چلوں جو جماعت انصار کا راستہ ہے ۔ انصار تو شعار کے مانند ہیں اور دوسرے لوگ دثار کے مانند (اے انصار ) ! تم میرے بعد دیکھو گے کہ دوسرے لوگوں کو تم پر بلا استحقاق فضیلت دی جائے گی تو تم صبر کئے رہنا یہاں تک کہ مجھ سے حوض کوثر پر آکر ملو ۔ " (بخاری ) تشریح : تو میں بھی انصار میں کا ایک آدمی ہوتا " اس سے نسب ولادی (پیدائشی نسب ونسل ) میں تبدیلی کی خواہش یا تمنا کا اظہار مقصود نہیں ہے ۔ کیونکہ اول تونسب ولادی میں تبدیلی حرام ہے دوسرے یہ کہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نسب چونکہ دنیا کے تمام نسبوں اور نسلوں سے اعلی واشرف ہے اس لئے اس نسب ونسل کی نسبت چھوڑ کر کسی دوسرے نسب ونسل کی طرف نسبت کی خواہش یا تمنا کے اظہار کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ ہاں یہاں نسب بلادی یعنی وطنیت وشہریت کی نسبت ضرور مراد ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ ہجرت کا تعلق اگر دین سے نہ ہوتا اور اس کی طرف منسوب ہونا ضروری نہ ہوتا تو میں اس بات کو پسند کرتا کہ اپنی اصل وطنی وشہری نسبت کو ترک کرکے انصار کے شہر کی طرف اپنے کو منسوب کرتا اور " مہاجر " کہلانے کی بجائے " انصار " کہلاتا ۔ لیکن " ہجرت " چونکہ بجائے خود ایک بہت بڑا دینی شرف ہے اور اس کی طرف منسوب ہونا بڑی فضیلت کی بات ہے اس لئے میں اپنی اس خواہش یا تمنا کی تکمیل نہیں کرسکتا پس اس ارشاد گرامی میں اگرچہ " انصار " کا اکر ام اور ان کی زبر دست عزت افزائی نیز " نصرت " کی طرف منسوب ہونے کی بڑی فضیلت ہے ، لیکن اس میں " ہجرت " کی افضلیت اور رتبئہ مہاجرین کی برتری کی طرف بھی ارشاد ہے کیونکہ مہاجرین تو وہ لوگ ہیں جنہوں نے اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں اپنا وطن ودیار ، اپنا گھر بار اپنے اہل وعیال اور اپنے قرابتداروں کو چھوڑ دینے کی بے مثال قربانی دی ۔ جب کہ انصار نے گو اللہ کے دین اور اللہ کے رسول کی مدد ونصرت اور اس راہ میں بے پناہ ایثار کی فضیلت کاملہ حاصل کی لیکن وہ بہرحال ترک وطن ، ترک قبیلہ اور ترک اہل وعیال جیسی عقوبت سے دوچار نہیں ہوئے ۔ لہٰذا نصرت کی فضیلت ہجرت کی بعد کی اور انصار کی فضیلت مہاجرین کے بعد کی ہے اور بعض حضرات نے اس ارشاد گرامی کی مراد یہ بیان کی ہے کہ جو چیز مجھ کو انصار سے ممتاز کرتی ہے وہ ہجرت کی فضیلت ہے ۔ اگر ہجرت کا شرف اور اس کی فضیلت میرے ساتھ نہ ہوتی ۔ تو پھر میں بھی انصار کے ایک فرد کی طرح ہوتا اور رتبہ میں ان کے برابر اور ان کی مثل ہوتا ، اس صورت میں کہا جائے گا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے لئے تو تواضع اور کسر نفی کا پہلو اختیار فرمایا اور انصار کا دل ملانے کے لئے ان کی رفعت ومنزلت ظاہر فرمائی ۔ " یایہ فرمایا کہ " یہاں روای کو شک ہوا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں یا تو " وادیاً " کا لفظ فرمایا تھا یا " شعبا " کا اصل میں " وادی " تو اس قطعہ زمین یا اس راستہ کو کہتے ہیں جو دو پہاڑوں یا دو ٹیلوں کے درمیان ہو جس کو عربی میں فرجہ بھی کہتے ہیں اور فارسی میں " کا واک " اور شعب اس راستہ کو کہتے ہیں جو کسی پہاڑ کے اندر ہو کر گزرتا ہے ۔ حجاز میں چونکہ پہاڑ اور پہاڑیاں بہت ہیں اس لئے وادیاں اور شعب یعنی درے اور گھاٹیاں بھی کثرت سے ہیں ۔ اس زمانہ میں ہوتا یہ تھا کہ کسی قافلہ یا قبیلہ کا سردار جس درے یا گھاٹی میں ہو کر گزرنا چاہتا سارا قافلہ اور سارا قبیلہ اس کے پیچھے پیچھے اسی درے یا گھاٹی میں داخل ہوتا اور پھر وہاں سے گزر کر سب اپنی منزل یا کھلے راستہ پر پہنچ جاتے ۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر کبھی ایسا ہو کہ تمام لوگ دو گرہوں میں بٹ کر کسی منزل کی طرف چلیں ، ان میں سے ایک گروہ انصار پر مشتمل ہو اور دوسرا گروہ باقی لوگوں پر ، اور ان دونوں گروہوں کے راستے الگ الگ ہوں تو میں دوسرے گروہ کا راستہ چھوڑ کر اس راستہ پر چلوں گا جو انصار نے اختیار کیا ہوگا ، اس صورت میں کہا جائے گا کہ اس ارشاد گرامی صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصد انصار کے تئیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کمال تعلق وارتباط اور ان پر آپ کے کمال عنایت وشفقت کا اظہار ہے اس میں دوسرا قول یہ ہے کہ وادی اور شعب کے جو معنی یہاں مراد ہیں وہ " مسلک " اور " رائے " کے ہیں مطلب یہ کہ کسی معاملہ میں لوگوں کے درمیان رائے اور مسلک کے اختلاف کا اظہار ہو تو میں اسی رائے اور مسلک کو اختیار کروں گا ، جوانصار کا اختیار کردہ ہوگا اور انہی کی موافقت کا اظہار کرونگا۔ اس صورت میں یہ کہا جائے گا کہ اس ارشاد گرامی سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصد انصار کے ساتھ حسن موافقت ومرافقت کا اظہار کرنا ہے کیونکہ انصار نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تئیں حسن وفا اور اچھی خدمت گزاری کا ثبوت دیا ہے ۔ اس سے یہ مراد ہرگز نہیں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار کی اتباع اور ان کی طرف احتیاج کا اظہار کیا ہے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات تو متبوع مطلق ہے اور سب آپ کے تابع ہیں ۔ " شعار " اور " دثار " شعار اس کپڑے کو کہتے ہیں جو پہننے میں جسم اور شعر یعنی بالوں سے لگا ہوجیسے کرتا وغیرہ اور " دثار " اس کپڑے کو کہتے ہیں جو پہنے ہوئے کپڑوں کے اوپر رہتا ہے جیسے چادر وغیرہ ۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار کو شعار کے ساتھ اس اعتبار سے تشبیہہ دی کہ صدق ایمان اور خلوص محب کا جوہر ان میں پیوست ہے گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا کہ انصار میرے خاص اعتباری اور راز دار لوگ ہیں سب لوگوں میں باعتبار قدرو منزلت کے مجھ سے بہت قریب یہی لوگ ہیں ۔ " دوسرے لوگوں کو تم پر بلا استحقاق فضیلت دی جائے گی " اَثرۃً یا اُثرۃً یا اِثرۃً کے معنی ہیں حق تلفی اور بلا استحقاق دوسرے کسی شخص کو عہدہ یا منصب یا عطا میں فضیلت دینا ۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار سے فرمایا کہ میرے بعد وہ زمانہ آئے گا جب لوگ عہدہ ومنصب کی تقسیم میں اپنی ذات کو مقدم رکھیں گے اور تم پر ترجیح دینگے ، امارت وحکومت پر خود فائز کریں گے اور ایسے ایسے لوگ کہ جو حقیقی مرتبہ ومنزلت کے اعتبار سے کم رتبہ ہوں گے اعلی عہدہ ومناصب حاصل کرلینے کے سبب تم سے بالا تر وافضل بن جائیں گے ، چنانچہ مخبر صادق صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ فرمایا تھا وہ پورا ہو کر رہا ، خصوصا حضرت امیر المؤمنین عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عہد خلافت میں بعض عمال خلافت کی طرف سے اور اموی دور حکومت میں عام طور پر انصار کی بڑی حق تلفیاں کی گئیں ۔ ان کے فضل وشرف کو نظر انداز کیا گیا اور حکومت وامارت کے مناصب سے ان کو محروم رکھنے کی کوشش کی گئی ۔ یا اس ارشاد گرامی سے آپ کا مطلب یہ تھا کہ فتوحات میں حاصل ہونے والا مال غنیمت امراء وحکام خود بانٹ لیا کریں گے اور عطا کے مال میں تمہارے حق میں نظر انداز کر کے اپنی ذات کو یا تم سے کم تر لوگوں کو تم پر فضیلت وترجیح دیں گے ۔ " " یہاں تک کہ مجھ سے حوض کوثر پر ملو" یعنی حق تلفی کی صورت میں تمہیں جس دل شکستگی اور مایوسی کا سامنا کرنا پڑے گا اگر تم نے اس پر صبر کیا اور تمامتر شکایات کے باوجود نہ تو حاکم وقت سے بغاوت کے مرتکب ہوئے اور نہ ملی شیرازہ بکھرنے کا سبب بنے تو اس کا اجر تم کو اس وقت ملے گا جب حشر کے دن تم حوض کوثر پر آکر مجھ سے ملوگے ، کہ میری زیارت اور وہاں کی لازوال نعمتیں تمہیں باغ باغ کر دیں گی ، پس یہ ارشاد گرامی دراصل انصار کے اس صبر کے عوض ان کے لئے سرفرازی جنت کی بشارت ہے منقول ہے کہ امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عہد حکومت میں ایک دن بعض انصار کے پاس بعض مہاجرین کی شکایت لے کر آئے، حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان کی شکایت کا ازالہ نہ کر سکے ۔ اس پر انصار نے امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو مخاطب کرکے کہا کہ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے سچ ہی فرمایا تھا کہ (اے انصار ) تم میرے بعد دیکھوگے کہ دوسرے لوگوں کو تم پر بلا استحقاق ترجیح دی جائے گی (یہ سن کر ) امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پوچھا پھر اس وقت کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہیں کیا حکم دیا تھا ، انصار نے کہا صبر کرنے کا ، حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بولے : تو پھر (شکوہ شکایت کے بجائے ') تمہیں صبر ہی کرنا چاہئے ۔ کیونکہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہیں اسی بات کا حکم دیا ہے ۔
-
وعن أنس أن النبي صلى الله عليه و سلم رأى صبيانا ونساء مقبلين من عرس فقام النبي صلى الله عليه و سلم فقال : " اللهم أنتم من أحب الناس إلي اللهم أنتم من أحب الناس إلي " يعني الأنصار . متفق عليه-
اور حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ (ایک دن ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (انصار کے ) بچوں اور عورتوں کو کسی شادی وغیرہ کی دعوت طعام سے واپس آتے دیکھا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم (ان کے راستہ میں، یا ان سے ملنے کے لئے ایک جگہ پر ) کھڑے ہوگئے اور (ان سے مخاطب کرکے ) فرمایا : خداوند : (میں تجھ کو گواہ کرکے انصار کی ان عورتوں اور بچوں سے کہتا ہوں کہ اے انصار ) تمام لوگوں میں تم میرے نزدیک محبوب ترین ہو ، خداوند! (میں تجھ کو گواہ کر کے کہتا ہوں کہ اے انصار ) تمام لوگوں میں تم میرے نزدیک محبوب ترین ہو ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد تمام انصار سے تھی ۔ " (بخاری ومسلم ) تشریح : تمام لوگوں میں تم میرے نزدیک محبوب ترین ہو" یہ بات دوبار آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تاکیدًا فرمائی اور صحیح بخاری کی روایت میں ان الفاظ کا تین بار فرمانا نقل ہوا ہے نیز بعض نسخوں میں الی کے لفظ کو زیادہ صحیح ظاہر کرتا ہے ۔ اللہم (خداوند) کا لفظ یا تو قسم کے معنی میں استعمال ہوا ہے یا اس معنی میں اے خدا تو خوب جانتا ہے کہ میں یہ بات صدق دل سے کہہ رہا ہوں ۔ گویا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جب عورتوں اور بچوں کو خوش خوش آتے دیکھا تو ان کی نظر پڑتے ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم باغ باغ ہوگئے اور ان کے تئیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جذبات محبت امڈ پڑے جن کا اظہار آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مذکورہ الفاظ میں کیا اور کمال عنایت ومکرمت کے سبب ان جذبات واحساسات پر حق سبحانہ تعالیٰ کو گواہ کیا ۔
-
وعنه قال : مر أبو بكر والعباس بمجلس من مجالس الأنصار وهم يبكون فقال : ما يبكيكم ؟ قالوا : ذكرنا مجلس النبي صلى الله عليه و سلم منا فدخل أحدهما على النبي صلى الله عليه و سلم فأخبره بذلك فخرج النبي صلى الله عليه و سلم وقد عصب على رأسه حاشية برد فصعد المنبر ولم يصعده بعد ذلك اليوم . فحمد الله وأثنى عليه . ثم قال : " أوصيكم بالأنصار فإنهم كرشي وعيبتي وقد قضوا الذي عليهم وبقي الذي لهم فاقبلوا من محسنهم وتجاوزوا عن مسيئهم " . رواه البخاري-
اور حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ (آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مرض وفات کے دوران ایک دن) حضرت ابوبکر اور حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما انصار کی ایک مجلس کے پاس سے گذرے تو ( دیکھا کہ ) وہ اہل مجلس ہمیں یاد آگئی تھی ۔ (یہ سن کر ) ان دونوں میں ایک صاحب (یعنی یا تو حضرت ابوبکر یا حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات سے آگاہ کیا ۔ کہ (انصار کی جماعت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس مبارک کو یاد کر کے رو رہی ہے ) چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس حالت میں حجرہ مبارک سے باہر تشریف لائے کہ (درد سر کو کم کرنے کے لئے ) چادر کا ایک کونہ بطور پٹی سر مبارک پر باندھ رکھا تھا ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم (خطبہ دینے کے لئے منبر پر چڑھے اور اس دن کے بعد پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو منبر پر چڑھنا نصیب نہیں ہوا ۔ پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی حمد اور اس کی کامل ثنا بیان کی اور پھر فرمایا : (اے مہاجرو) میں تم کو انصار کے بارے میں وصیت کرتا ہوں (کہ ان کے ساتھ رعایت وحمایت اور سلوک کا رویہ اختیار کئے رہنا ) کیونکہ انصار میرا معدہ اور میری گٹھری ہیں ۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ان پر جو حق تھا اس کو انہوں نے ادا کردیا اور جو کچھ ان کا ہے (یعنی اجروثواب اور سرفرازی جنت ) وہ اللہ کے ہاں باقی ہے پس ان کے نیک لوگوں کا عذر (کہ جو اپنی لغزش اور کوتاہی کے سلسلہ میں بیان کریں ) قبول کرو اور ان کے برے لوگوں برے کاموں سے (کہ جن کا عذر پیش کرنے سے وہ عاجز ہوں ) درگزر کرو " (بخاری ) تشریح : کرش ( اور ایک نسخہ کے مطابق کرش ) اصل میں چوپایوں (یعنی بیل اور گائے وغیرہ ) کے کوٹھے یا اوجھ کو کہتے ہیں جو آدمیوں کے لئے معدہ کہلاتا ہے اور " عیبہ " جامہ دانی یعنی بغچی یاگٹھری کو کہتے ہیں ۔ پس " انصار میرا معدہ اور میری گٹھری ہیں " سے مراد یہ ہے کہ انصار میرے راز دار ، ولی دوست اور تمام امور میں میرے محرم اسرار اور معتمد علیہ ہیں ۔ گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار کو ان چیزوں سے مشابہت اس بناء پر دی کہ جیسے اوجھ یا معدہ میں چارہ اور کھانا جا کر جمع ہو جاتا ہے ، اور جامہ دانی میں کپڑے محفوظ رکھے جاتے ہیں ، اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی راز کی باتیں اور امانتیں انصار کے پاس رہتی ہیں ۔ اور بعض حضرات کہتے ہیں کہ لغت میں " کرش " کے ایک اور معنی عیال ، چھوٹے بچوں اور جماعت کے بھی آتے ہیں لہٰذا حدیث میں مذکورہ " کرش " کا لفظ اس معنی پر بھی محمول کیا جاسکتا ہے ۔ اس صورت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کا مطلب یہ ہوگا کہ انصار میری جماعت میرے اصحاب ورفیق اور میرے لئے میرے عیال اور میرے چھوٹے بچوں کی مانند ہیں ۔ جن پر میری شفقت ومہربانی ہے ۔ اور جن کا میں غمخوار ہوں ۔ " ان پر جو حق تھا " میں " حق " سے مراد جان ومال سے امداد ومعاونت اور خیرخواہی ہے ۔ اس جملہ کا حاصل یہ ہے کہ انصار کے نمائندوں نے مدینہ سے مکہ پہنچ کر لیلۃ العقبہ میں میرے ہاتھ پر اسلام کی بیعت کرتے ہوئے جو وعدہ اور جو عہد کیا تھا کہ اللہ کی راہ میں جان مال سے ہرطرح میری مدد کریں گے ۔ اور اس کے عوض میں اللہ تعالیٰ نے ان سے جنت کا وعدہ کیا تھا ۔ جیسا کہ اس موقع پر نازل ہونے والی اس آیت (اِنَّ اللّٰهَ اشْتَرٰي مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ اَنْفُسَھُمْ وَاَمْوَالَھُمْ بِاَنَّ لَھُمُ الْجَنَّةَ) 9۔ التوبہ : 111) سے واضح ہے ، تو اپنے اس عہد کو انصار نے کماحقہ پورا کردیا ہے۔
-
وعن ابن عباس قال : خرج النبي صلى الله عليه و سلم في مرضه الذي مات فيه حتى جلس على المنبر فحمد الله وأثنى عليه ثم قال : " أما بعد فإن الناس يكثرون ويقل الأنصار حتى يكونوا في الناس بمنزلة الملح في الطعام فمن ولي منكم شيئا يضر فيه قوما وينفع فيه آخرين فليقبل عن محسنهم وليتجاوز عن مسيئهم " رواه البخاري-
" اور حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اس بیماری کے دوران کہ جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات پائی ، (ایک دن) حجرئہ مبارک سے باہر آئے اور منبر پر تشریف فرما ہوئے ۔ اول آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی حمد اور اس کی ثنا بیان کی ، پھر فرمایا ، بعد ازاں جان لو ، لوگو یعنی مسلمانوں کی تعداد ( روز بروز ) بڑھے گی (جن میں کا معتد بہ حصہ اپنے اپنے وطن چھوڑ کر بہ نیت ہجرت مدینہ میں آئے گا ) اور انصار کی تعداد کم ہوجائے گی یہاں تک دوسرے لوگوں میں ان (انصار ) کا تناسب کھانے میں نمک کے برابر رہ جائے گا ، پس (اے مہاجرین ) تم میں سے جو شخص کسی بھی طرح کے اقتدار کا مالک بنے اور اس کے سبب وہ کچھ لوگوں یعنی نیکوکاروں کو فائدہ پہنچانے اور کچھ لوگوں یعنی بدکاروں کو نقصان پہنچانے کا اختیار رکھتا ہو اس شخص کو چاہئے کہ انصار کے نیکو کاروں (کی نیکی ) کو قبول کرے اور ان کے بدکاروں (کی برائی ) سے درگزر کرے ۔ " (بخاری ) تشریح : اور انصار کی تعداد کم ہوجائے گی " یعنی " انصار " چونکہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی اس جماعت سے عبارت ہیں جنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے یہاں ٹھکانہ دیا اور جان ومال سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اور مسلمانوں کی مدد کی اس لئے " انصار ہونا " ایک ایسا وصف ہے جو ایک خاص زمانہ میں جن لوگوں کا نصیب بننا تھا بن گیا ، اب آگے یہ وصف کسی کو حاصل نہیں ہوگا اور اس اعتبار سے انصار کی جماعت میں اضافہ کا کوئی سوال نہیں ، جب کہ " ہجرت " کا وصف باقی ہے ۔ اور باقی رہے گا جوں جوں لوگ اللہ کی راہ میں اپنا گھر بار چھوڑ کر اور ہجرت کر کے مدینہ آتے رہیں گے ویسے مہاجرین کی جماعت مدینہ میں بڑھتی رہے گی ۔ پس ظاہر یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان الفاظ کے ذریعہ گویا یہ پیشین گوئی فرمائی کہ مہاجرین تو بڑھتے رہیں گے ، ان کی اولاد کا سلسلہ بھی بہت پھیلے گا اور وہ نہ صرف یہ کہ مختلف شہروں اور علاقوں میں وسیع بنیادوں پر سکونت اختیار کریں گے ۔ بلکہ ملکوں کی حکمرانی وجہانبانی بھی انہی کے حصہ میں آئے گی ۔ ان کے برخلاف " انصار " کا طبقہ روز بروز محدود ہوتا جائے گا اور پوری ملت میں ان کا وجود نہایت محدود تعداد میں رہ جائے گا ۔ چنانچہ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ واقع میں وہی ہوا جو مخبر صادق صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی تھی ۔ " کھانے میں نمک کے برابر " اس تشبیہہ میں بھی انصار کے کم ہوجانے کی خبر ہے ۔ اور ان کی تعریف کی طرف اشارہ بھی ہے یعنی جس طرح نمک کھانے کا ذائقہ سنوارتا ، بناتا ہے ۔ اسی طرح انصار کا وجود اہل اسلام کے سنوار اور بناؤ کا باعث ہوگا ۔
-
وعن ابن عباس أن النبي صلى الله عليه و سلم قال : " لا يبغض الأنصار أحد يؤمن بالله واليوم الآخر " . رواه الترمذي وقال : هذا حديث حسن صحيح-
اور حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جو شخص اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے وہ انصار سے بغض وعداوت نہیں رکھتا ، اس روایت کو ترمذی نے نقل کیا ہے کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے ۔ "
-
وعن قتادة قال ما نعلم حيا من أحياء العرب أكثر شهيدا أعز يوم القيامة من الأنصار . قال : وقال أنس : قتل منهم يوم أحد سبعون ويوم بئر معونة سبعون ويوم اليمامة على عهد أبي بكر سبعون . رواه البخاري-
اور حضرت قتادہ (تابعی ) سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا : قبائل عرب میں سے کسی قبیلہ یا قوم کے بارے میں ہمیں یہ علم نہیں کہ اس کے شہیدوں کی تعداد انصار کے شہیدوں سے زیادہ ہو اور قیامت کے دن انصار سے زیادہ باعزت مانے جائیں حضرت انس کا بیان ہے کہ احد کی جنگ میں ستر انصار شہید ہوئے ، بیر معونہ میں ستر انصار (جوقراء تھے ) شہید ہوئے اور یمامہ کی جنگ میں جو حضرت ابوبکر کے عہد خلافت میں (مسیلمہ کذاب کے خلاف لڑی گئی ) ستر انصار شہید ہوئے ۔ " (بخاری ) تشریح : انصار سے زیادہ وہ باعزت مانے جائیں " مطلب یہ کہ جس قبیلہ کے شہیدوں کی تعداد زیادہ عزت ملے گی لہٰذا ہمارے علم کے مطابق انصار ہی چونکہ ایک ایسا قبیلہ اور ایسی قوم ہے جس کے افراد نے اللہ کی راہ میں سب سے زیادہ اپنی جانیں قربان کی ہیں اور اس اعتبار سے ان کے شہیدوں کی تعداد الگ الگ سب قبیلوں اور قوموں کے شہیدوں سے زیادہ ہے اس لئے قیامت کے دن وہ عزت کہ جو اللہ کی راہ میں جان دینے والوں کے لئے اللہ کے ہاں مقرر ہے سب سے زیادہ انصار ہی کو ملے گا ۔ " احد کی جنگ میں ستر انصار شہید ہوئے " یہاں مراد یہ ہے کہ جنگ احد میں جو ستر اہل ایمان شہید ہوئے تھے ان میں چند کو چھوڑ کر سب ہی انصار تھے ، یہ وضاحت اس لئے ضروری ہے کہ حدیث وتاریح اور سیر کی مستند روایتوں کی مطابق جنگ احد میں کل ستر مسلمان شہید ہوئے تھے جن میں سے چونسٹھ انصار میں سے تھے اور چھ مہاجرین میں سے ۔
-
وعن قيس بن حازم قال : كان عطاء البدريين خمسة آلاف . وقال عمر : لأفضلنهم على من بعدهم . رواه البخاري-
" اور حضرت قیس بن ابی حازم رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ (تابعی ) کہتے ہیں کہ جو لوگ جنگ بدر میں شریک ہوئے تھے ان میں سے ہر ہر شخص کا وظیفہ پانچ پانچ ہزار درہم تھا جو بیت المال سے ادا کیا جاتا تھا اور حضرت عمر نے فرمایا تھا : میں جنگ بدر میں شریک ہونے والوں کو (مرتبہ میں ) دوسرے تمام لوگوں پر ترجیح دیتا ہوں ۔ " (بخاری ) تشریح : جنگ بدر میں شریک ہونے والے ہر صحابی کے لئے حضرت ابوبکر کے عہد خلافت میں بیت المال سے پانچ ہزار درہم سالانہ کا وظیفہ مقرر ہوا تھا جو مقدار میں دوسرے تمام لوگوں کے وظائف سے زیادہ تھا ، حضرت عمر فاروق نے اپنے عہد خلافت میں وظائف کے جو منضبط درجات قائم کئے اس میں بھی چند مخصوص لوگوں (جیسے حضرت عباس ، اور ازواج مطہرات ) کو چھوڑ کر تمام درجات کے وظائف کی تعداد اصحاب بدر کے وظائف کی تعداد سے کم ہی رکھی ، اور اس طرح حضرت عمر فاروق نے بھی نہ صرف یہ کہ عملی طور پر اصحاب بدر ہی کا درجہ ورتبہ دوسرے تمام لوگوں سے بلند وبرتر رکھا بلکہ مذکورہ بالا الفاظ کے ذریعہ گویا وضاحت بھی کردی کہ اگرچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مخصوص نسبت کا لحاظ کرکے میں نے بعض وظائف اصحاب بدر کے وظائف سے زائد مقرر کئے ہیں لیکن جہاں تک درجاتی رتبہ کا تعلق ہے تو میرے نزدیک بھی اصحاب بدر ہی کا درجہ دوسرے تمام لوگوں کے درجات سے بلند ہے اور ان کے وظائف دوسرے تمام درجات کے وظائف سے زیادہ ہونے چاہئیں ۔ اہل بدر میں سے ان صحابہ کے ناموں کا ذکر جو جامع بخاری میں مذکور ہیں : واضح ہو کہ امام بخاری نے جنگ بدر میں شریک ہونے والے صحابہ میں سے کچھ مخصوص صحابہ کے اسماء اپنی کتاب " بخاری شریف " کے ایک الگ باب میں بطریق اجمال مفصل ذکر کئے ہیں یہ بدری صحابہ وہ ہیں جن کے بدری ہونے کا ذکر بخاری میں آیا ہم اور جن کی روایتیں اس کتاب (بخاری) میں نقل ہوئی ہے ، اور ایک الگ باب میں ان مخصوص بدری صحابہ کے اسماء کے ذکر سے امام بخاری کا مقصد یہ ہے کہ دوسرے تمام بدری صحابہ پر ان مخصوص صحابہ کی فضیلت سبقت اور برتری کا اظہار ہو اور ان کے حق میں الگ سے بطور خاص دعاء رحمت ورضوان کی جائے یہاں اس بات کا ذکر ضروری ہے ، علماء نے لکھی ہے کہ بخاری شریف کے اس باب اصحاب بدر کے جو اسماء مذکور ہیں ان کے ذکر وبیان کے وقت جو بھی دعا مانگی جاتی ہے، اللہ تعالیٰ اپنے فضل وکرم سے اس کو قبول فرماتا ہے ۔ امام بخاری اس باب میں سب سے پہلے سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کا اسم مبارک ، پھر خلفاء اربعہ کے اسماء گرامی لائے ہیں اور پھر باقی صحابہ کے نام حروف تہجی کی ترتیب سے ذکر کئے گئے ہیں ۔ امام بخاری کے مقصد اور ان کی اتباع کی برکت حاصل کرنے کے لئے مشکوٰۃ المصابیح کے مؤلف نے بھی ان اسماء مبارک کو جوں کا توں یہاں نقل کیا ہے ۔ اور ملاعلی قاری نے لکھا ہے اس باب میں ان اصحاب بدر کے ناموں کا ذکر ہے جن کے حقیقۃ یا حکما ً بدری ہونے کا ذکر صحیح بخاری میں آیا ہے ارویہ (حقیقۃً یا حکماً کی قید ) اس لئے ہے تاکہ اس زمرہ میں حضرت عثمان غنی کا نام شامل کرنا درست مانا جائے (جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے حقیقۃً تو جنگ بدر میں شریک نہیں ہوئے تھے لیکن حکماً ان کو بھی بدری مانا جاتا ہے پس اس باب میں ان بدری صحابہ کے نام نہیں ہے جو نہ تو بخاری نے اپنے اس باب میں بیان کئے ہیں اور نہ سرے سے ان کا ذکر بخاری میں آیا ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ امام بخاری نے اصحاب بدر کی فہرست پر مشتمل اپنے اس باب میں صرف ان بدری صحابہ کے نام ذکر کئے ہیں جن کے متعلق صحیح بخاری شریف میں صراحت کے ساتھ ذکر ہوا ہے کہ انہوں نے جنگ بدر میں شرکت کی ہے خواہ خود ان صحابہ نے اپنے بارے میں صراحۃ ً ایسا بیان کیا ہویا دوسرں نے جنگ بدر میں ان کے شریک ہونے کو صراحت کے ساتھ روایت کیا ہو۔ اس طرح ان بدری صحابہ نے اپنے بارے میں صراحۃً ایسا بیان کیا ہویا دوسروں نے جنگ بدر میں ان کے شریک ہونے کو صراحت کے ساتھ روایت کیا ہو ۔ اس طرح ان بدری صحابہ کے نام اس باب میں ذکر نہیں ہوئے ہیں جن کا ذکر گو صحیح بخاری شریف میں آیا ہے ، مگر اس صراحت کے ساتھ نہیں آیا ہے کہ وہ جنگ بدر میں شریک تھے ۔ اس وضاحت کی روشنی میں اس بات پر حیرت واشکال کا موقع نہیں رہ جاتا کہ مخصوص بدری صحابہ کی فہرست پر مشتمل اس باب میں ایک جلیل القدر بدری صحابی حضرت ابوعبیدۃ الجراح کا اسم گرامی ذکر نہیں ہوا ہے ۔ حضرت عبیدہ بلاشبہ جنگ بدر میں شریک تھے اور اس پر تمام ہی محدثین اور اصحاب سیر کا اتفاق ہے ، علاوہ ازیں بخاری شریف میں متعدد مواقع پر ان کا ذکر بھی آیا ہے مگر بخاری کی کسی روایت میں صراحت کے ساتھ بیان نہیں ہوا ہے کہ وہ جنگ بدر میں شریک تھے ۔
-