TRUE HADITH
Home
About
Mission
Contact
مشکوۃ شریف
شکار کا بیان
انتقام کے خوف سے سانپ کو نہ مارنے والے کے بارے میں وعید
وعن عكرمة عن ابن عباس قال : لا أعلمه إلا رفع الحديث : أنه كان يأمر بقتل الحيات وقال : " من تركهن خشية ثائر فليس منا " . رواه في شرح السنة-
" اور حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے نقل کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس کے علاوہ کچھ نہیں جانتا کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے بطریق مرفوع یہ حدیث بیان کی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سانپوں کو مار ڈالنے کا حکم دیا کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ " جو شخص بدلے ( انتقام ) کے خوف سے ان ( سانپوں ) کو مارنا چھوڑ دے تو وہ ایک موذی کو نہ مارنے اور قضا و قدر الہٰی پر بھروسہ نہ کرنے کے سبب ) ہم میں سے نہیں ہے ۔ یعنی ہمارے راستے پر گامزن نہیں ہے ۔ " ( شرح السنۃ ) تشریح " بدلے کے خوف " کا مطلب یہ ہے کہ وہ اس ڈر کی وجہ سے سانپ کو نہ مارے کہ کہیں اس کا جوڑا مجھ سے انتقام نہ لے ، چنانچھ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ایک شخص نے کسی سانپ کو مار ڈالا اور پھر اس کے جوڑے نے آ کر اس شخص کو کاٹ لیا اور بدلہ لیا ، مارا جانے والا سانپ اگر نر ہوتا ہے تو اس کی مادہ انتقام لینے آتی ہے اور اگر وہ مادہ تھی تو اس کا نر بدلہ لینے آتا ہے ، زمانہ جاہلیت میں اہل عرب کے ہاں یہ خوف ایک عقیدے کی حد تک تھا وہ کہا کرتے تھے کہ سانپ کو ہرگز نہیں مارنا چاہئے ، اگر اس کو مارا جائے گا تو اس کا جوڑا آ کر انتقام لے گا ۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح کے قول و اعتقاد سے منع فرمایا ۔
-
وعن أبي هريرة قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " ما سالمناهم منذ حاربناهم ومن ترك شيئا منهم خيفة فليس منا " . رواه أبو داود-
" اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " جب سے ہم نے سانپوں سے لڑائی شروع کی ہے اس وقت سے ہم نے ان سے مصالحت نہیں کی ہے ۔ لہٰذا جو شخص ان سانپوں میں سے کسی سانپ کو ( اس ) خوف کی وجہ سے (مارنے ) باز رہے ( کہ خود وہ سانپ یا اس کا جوڑا نقصان پہنچائے گا اور بدلہ لے گا ، تو وہ ہم میں سے نہیں ہے ۔ " ( ابوداؤد ) تشریح ایک دوسری روایت میں منذ حار بناہم کے بجائے منذ عا دینا ہم کے الفاظ منقول ہیں ۔ " یعنی جب سے ہمارے اور سانپوں کے درمیان لڑائی اور دشمنی واقع ہوئی ہے " بہر حال مراد یہ ہے کہ انسان اور سانپ کے درمیان دشمنی اور لڑائی ایک طبعی اور جبلی چیز ہے کہ ہر ایک دوسرے کو نقصان پہنچاتا ہے ، اگر انسان سانپ کو دیکھتا ہے تو اس کو ضرور مار ڈالنے کی کوشش کرتا ہے اور اگر سانپ موقع پاتا ہے تو اس کو کاٹے اور ڈسے بغیر نہیں رہتا ، بلکہ بعض علماء نے تو یہ کہا ہے کہ اس لڑائی اور دشمنی سے مراد دراصل وہ عداوت ہے جو اولاد آدم علیہ السلام کی تخلیق سے بھی پہلے حضرت آدم علیہ السلام اور سانپ کے درمیان قائم ہوئی تھی ، جیسا کہ ایک روایت میں بیان کیا جاتا ہے کہ جب ابلیس لعین نے حضرت آدم علیہ السلام کو بہکانے کے لئے جنت میں داخل ہونا چاہا ، تو جنت کے داروغہ نے اس کو روک دیا چنانچہ یہ سانپ ہی تھا جو ابلیس کا کام آیا اس نے ابلیس کو اپنے منہ کے اندر لے کر جنت میں پہنچا دیا اور پھر ابلیس لعین نے حضرت آدم علیہ السلام و حوا کے لئے اپنے مکر و فریب کا جال پھیلا کر ان کو وسوسہ میں ڈال دیا اور ان دونوں نے جنت کے اس درخت سے کھا لیا ، جس کے پاس جانے سے بھی ان کو منع کر دیا تھا اور آخر کار ان دونوں کو جنت سے نکال دیا گیا اور حق تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام و حوا علیھا ، اور ابلیس و سانپ کو خطاب کر کے فرمایا ا یت (اھبطوا بعضکم لبعض عدو )۔ بیان کیا جاتا ہے کہ پہلے سانپ کی شکل و صورت بہت اچھی اور خوشنما تھی مگر اس کے اس سخت جرم کے عذاب میں کہ وہ ابلیس کا آلہ کار بنا اس کی صورت مسخ کر دی گئی ، لہٰذا سانپ اس کے مستحق ہے کہ اس کے تئیں یہ عداوت و نفرت ہمیشہ باقی رکھی جائے ۔ واضح رہے کہ ما سلمانھم منذ حاربنا ہم میں سانپوں کے لئے ذوی العقول کی ضمیر اس لئے استعمال ہوئی ہے کہ ان کی طرف صلح کی نسبت کی گئی ہے جو ذوی العقول کے افعال میں سے ہے ۔ جیسے کہ اس آیت کریمہ ( وَّالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ رَاَيْتُهُمْ لِيْ سٰجِدِيْنَ) 12۔یوسف : 4) میں سورج اور چاند کے لئے ذوی العقول کی ضمیر لائی گئی ہے ورنہ قاعدے کے اعتبار سے ان کے لئے غیر ذوی العقول کی ضمیر استعمال کرتے ہوئے یہ کہنا چاہئے تھا ما سالمنا ہن منذ حاربناہن ۔
-
وعن ابن مسعود قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " اقتلوا الحيات كلهن فمن خاف ثأرهن فليس مني " . رواه أبو داود والنسائي-
" اور حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " تمام سانپوں کو قتل کر دو اگر کوئی شخص ان کے انتقام سے خوف زدہ ہوا تو وہ مجھ سے نہیں ہے ۔( ابوداؤد ، نسائی ) تشریح اس حدیث کے ظاہری مفہوم سے تو یہ واضح ہوتا ہے ہر قسم کے سانپوں کو مارنا چاہئے مگر حقیقت یہ ہے کہ اس عمومی حکم سے عوامر یعنی گھروں میں رہنے والے سانپوں کا استثناء کیا جانا چاہئے یا پھر یہ کہا جائے کہ " قتل " سے مراد یہ ہے کہ أگاہ کرنے کے بعد مارو ، جیسا کہ پہلے حضرت ابوسائب کی حدیث میں بیان ہوا ہے ۔
-
وعن العباس رضي الله عنه قال : يا رسول الله إنا نريد أن نكنس زمزم وإن فيها من هذه الجنان يعني الحيات الصغار فأمر رسول الله صلى الله عليه و سلم بقتلهن . رواه أبو داود-
" اور حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے ( ایک دن ) عرض کیا کہ " یا رسول اللہ ! ہم زمزم کے کنوئیں کی صفائی کرنا چاہتے ہیں لیکن اس میں سانپ یعنی چھوٹے سانپ ہیں ؟ " چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سانپوں کو مار ڈالنے کا حکم دے دیا ۔ " ( ابوداؤد ) تشریح اس حدیث سے یہ ثابت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر قسم کے چھوٹے سانپوں کو مار ڈالنے کا حکم دے دیا تھا ، لیکن آگے جو حدیث آ رہی ہے اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں سے ایک قسم کے سانپوں کو مارنے سے منع فرمایا ، اس کی وجہ یہ ہے کہ اس موقع پر چاہ زمزم کو صاف کرنا ان سب سانپوں کو مار ڈالنے کے بغیر ممکن نہیں تھا ، جب کہ دوسری صورتوں میں ان میں سے بعض قسم کے سانپوں کا استثناء ممکن ہے ۔
-