انبیاء علیہ السلام کے حلیے :

وعن جابر أن رسول الله صلى الله عليه و سلم قال : " عرض علي الأنبياء فإذا موسى ضرب من الرجال كأنه من رجال شنوءة ورأيت عيسى بن مريم فإذا أقرب من رأيت به شبها عروة بن مسعود ورأيت إبراهيم فإذا أقرب من رأيت به شبها صاحبكم - يعني نفسه - ورأيت جبريل فإذا أقرب من رأيت به شبها دحية بن خليفة " . رواه مسلم-
" اور حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جب انبیاء کرام میرے سامنے لائے گئے تو میں نے دیکھا کہ موسی علیہ السلام ہلکے بدن کے ہیں جیسے وہ قبیلہ بنوشنوہ میں سے کوئی آدمی ہوں اور میں نے عیسی ابن مریم علیہ السلام کو دیکھا تو وہ میرے دیکھے ہوئے لوگوں میں عروہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بہت مشابہ نظر آئے اور میں نے جبرائیل علیہ السلام کو دیکھا تو وہ میرے دیکھے ہوئے لوگوں میں دحیہ ابن خلیفہ سے بہت مشابہ نظر آئے ۔ (مسلم) تشریح : جب انبیاء کرام میرے سامنے لائے گئے ۔" یہ شب معراج کا ذکر ہے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس رات میں مسجد اقصی میں یا آسمان پر ان انبیاء کرام سے ملاقات فرمائی اور ان کو دیکھا ، اس ملاقات کے وقت ان انبیاء کرام کی ارواح مقدسہ کو ان کے ان اجسام کے ساتھ کہ جو وہ دنیا میں رکھتے تھے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے لایا گیا ، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان انبیاء کرام کی شکل وصورت اور ان کے سراپا کا خاکہ اپنے صحابہ کرام کے سامنے رکھنے کے لئے ان افراد واشخاص کا ذکر فرمایا جن کو صحابہ نے دیکھ رکھا تھا اور جو جسم وبدن اور تن وتوش کے اعتبار سے ان انبیاء کرام کی مشابہت رکھتے تھے ۔ حضرت موسی علیہ السلام کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہلکے بدن کا بتایا اور ان کے سراپا کو قبیلہ بنو شنوہ کے لوگوں کی طرح قرار دیا ، یہ قبیلہ یمن کی سر زمین سے تعلق رکھتا تھا اور اس کے لوگ دبلے جسم کے ہوتے تھے حضرت عیسی علیہ السلام کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ایک صحابی حضرت عروہ ابن مسعود کی طرح بتایا کہ عروہ ابن مسعود حضرت عیسی علیہ السلام کے بہت مشابہ ہیں ، حضرت ابراہیم علیہ السلام کی مشابہت کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنی ذات شریف کو پیش کیا ، جس سے ثابت ہوا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میں بہت زیادہ مشابہت تھی اور حضرت جبرائیل علیہ السلام کے بارے میں بتایا کہ وہ دحیہ ابن خلیفہ کے بہت مشابہ تھے ، حضرت دحیہ ایک مشہور صحابی ہیں ، اور بہت زیادہ خوبصورت تھے ، حضرت جبرائیل علیہ السلام اکثر وبیشتر ان ہی کی شکل وصورت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا کرتے تھے اور شب معراج میں بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ان کو دحیہ ہی کی شکل وصورت میں پیش کیا گیا۔
-
وعن ابن عباس عن النبي صلى الله عليه و سلم قال : " رأيت ليلة أسري بي موسى رجلا آدم طوالا جعدا كأنه شنوءة ورأيت رجلا مربوع الخلق إلى الحمرة والبياض سبط الرأس ورأيت مالكا خازن النار والدجال في آيات أراهن الله إياه فلا تكن في مرية من لقائه " . متفق عليه-
اور حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میں شب معراج میں حضرت موسی علیہ السلام کو دیکھا وہ گندم گوں اور دراز قد تھے ان کے بال خمدار تھے اور (جسم وبدن کا اعتبار سے ) قبیلہ شنوہ کے کسی آدمی کی طرح نظر آتے تھے اور میں نے عیسی علیہ السلام کو دیکھا وہ خلقی طور پر متوسط قدوقامت کے تھے (نہ بہت لمبے تھے نہ ٹھگنے ، اور نہ بہت موٹے تھے نہ دبلے ) ان کا رنگ سرخ سفید تھا (جیسے خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم مبارک کا رنگ تھا ) اور ان کے سر کے بال سیدھے (یعنی گھونگھریالے نہیں ) تھے اور میں نے دوزخ کے دورغہ مالک کو اور دجال کو بھی دیکھا !" اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ان سب کو دیکھنا قدرت الہٰی کی ان نشانیوں اور علامتوں کے ضمن میں تھا جو اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو (شب معراج میں ) دیکھائیں اس لئے (اے اس حدیث کو پڑھنے اور سننے والے ) اس امر میں کوئی شک وشبہ نہ کر ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سب کو دیکھا اور ملاقات فرمائی ۔" (بخاری) تشریح : " جعد" کے معنی ہیں بالوں کا گھونگھریالہ ہونا ۔ اور اس کے مقابلہ پر " سبط " کے معنی ہیں بالوں کا سیدھا ہونا پس یہاں مراد یہ ہے کہ حضرت موسی علیہ السلام کے بال سیدھے نہیں تھے بلکہ خمدار تھے یعنی گھونگھریالے نظر آتے تھے اور حضرت شیخ عبد الحق دہلوی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ نے اپنی شرح میں " جعد" کے تحت لکھا ہے کہ اس لفظ (جعد) کا اکثر اطلاق گھونگھریالے بالوں پر ہوتا ہے مگر کبھی کبھی یہ لفظ " مضبوط اور گٹھے ہوئے بدن " کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے اور یہاں حدیث میں یہ لفظ اسی معنی میں استعمال ہوا ہے یعنی حضرت موسی علیہ السلام ایک گٹھے ہوئے بدن کے آدمی تھے ۔ حضرت شیخ نے " جعد " کے یہ معنی مراد لینے کی وجہ یہ لکھی ہے کہ اگلی حدیث میں حضرت موسی علیہ السلام کے بارے میں منقول ہے کہ وہ رجل الشعر " تھے اور " رجل " کا اطلاق ایسے بالوں پر ہوتا ہے جو گھونگھریالے نہ ہوں ۔ اس کی وضاحت اگلی حدیث میں آرہی ہے ۔ روایت کا یہ جملہ فی ایات ارہن اللہ ایاہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کا جزء نہیں ہے ، نیز یہ ذریعہ قرآن کریم کی اس آیت کی طرف اشارہ مقصود ہے ۔ ولقد اتینا موسی الکتب فلاتکن فی مریۃ من لقائہ ' اور ہم نے موسی علیہ السلام کو کتاب دی تھی ، سو (اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) آپ شب معراج میں ) موسی علیہ السلام کے ملنے میں کچھ شک نہ کیجئے ۔ یعنی آپ موسی علیہ السلام سے شب معراج میں ملے تھے ، وہ سچی حقیقت ہے کوئی دھوکا یانظر بندی نہیں ۔ لہٰذا مذکورہ جملہ سے اس آیت کی طرف اشارہ کرکے ہر ایک کو آگاہ کیا گیا کہ جب قرآن سے بھی یہ ثابت ہے کہ شب معراج میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت موسی علیہ السلام سے ملنا ایک سچی حقیقت ہے تو کوئی بھی اس شک وشبہ کا شکار نہ ہو ۔
-