امور خیر کی نیت سے دنیا حاصل کرنے کی فضیلت

وعن أبي هريرة رضي الله عنه قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم من طلب الدنيا حلالا استعفافا عن المسألة وسعيا على أهله وتعطفا على جاره لقي الله تعالى يوم القيامة ووجهه مثل القمر ليلة البدر . ومن طلب الدنيا حلالا مكاثرا مفاخرا مرائيا لقي الله وهو عليه غضبان . رواه البيهقي في شعب الإيمان وأبو نعيم في الحلية-
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا " جو شخص کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے کی ذلت سے بچنے، اپنے اہل و عیال کی ضروریات زندگی کو پورا کرنے اور اپنے ہمسایہ کے ساتھ احسان کرنے کی خاطر جائز وسائل و ذرائع سے دنیا (کے مال واسباب) کو حاصل کرے، وہ قیامت کے دن اللہ سے اس حال میں ملے گا کہ اس کا چہرہ (کمال نور اور نہایت مسرت و سرور کی وجہ سے) چودھویں رات کے چاند کی مانند (روشن و منور) ہوگا۔ اور جو شخص مال و دولت میں اضافہ کرنے (اپنی امارت و دولت مندی کے ذریعہ غرباء و فقراء پر) فخر کرنے اور (محض اپنا اثر و رسوخ قائم کرنے کے لئے صدقہ و خیرات اور داد و دہش کی صورت میں) نام و نمود کے لئے (حرام وسائل و ذرائع تو الگ رہے) جائز وسائل و ذرائع سے (بھی) دنیا (کے مال و اسباب) کو حاصل کرے تو وہ اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملے گا کہ اللہ تعالیٰ اس پر غضب ناک ہوگا۔ اس روایت کو بیہقی نے شعب الایمان میں ابونعیم نے کتاب حلیہ میں نقل کیا ہے۔ تشریح سوچنے اور عبرت حاصل کرنے کی بات ہے کہ جب زیادہ مال و دولت جمع کرنے کی حرص، ایک دوسرے پر اظہار فخر اور نام و نمود کے لئے دنیا کمانے اور سامان دنیا حاصل کرنے میں حلال ذرائع اختیار کرنے والے کا یہ حشر ہوگا تو ان لوگوں کا کتنا برا انجام ہوگا جو مذکورہ بالا غیر شرعی مقاصد کے لئے حرام وسائل و ذرائع سے مال و دولت حاصل کرتے ہیں؟ چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حدیث میں حرام مال کمانے والوں کا ذکر شاید اسی طرف اشارہ کرنے کے لئے نہیں فرمایا کہ یہ کام کسی مسلمان کا تو ہرگز نہیں ہو سکتا کہ اول تو وہ مذکورہ مفاسد کی خاطر دنیا کمائے اور پھر وسائل و ذرائع بھی حرام و ناجائز اختیار کرے یا ایسے لوگوں کا ذکر اس لئے نہیں فرمایا کہ ان کا انجام بد حدیث کے انداز بیان اور طرز مضمون سے خود بخود واضح ہو جاتا ہے۔
-