TRUE HADITH
Home
About
Mission
Contact
مشکوۃ شریف
نماز کا بیان
امام کے پیچھے سورت فاتحہ پڑھنے کا بیان
وَعَنْ عُبَادَۃَ بْنِ الصَّامَتِ قَالَ کُنَّا خَلْفَ النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وسلم فِیْ صَلَاۃِ الْفَجْرِ فَقَرَاَ افَثَقُلَتْ عَلَیْہِ الْقِرَائَۃُ فَلَمَّا فَرَغَ قَالَ لَعَلَّکُمْ تَقْرَأُوْنَ خَلَفْ اِمَامِکُمْ قُلْنَا نَعَمْ یَا رَسُوْلَ اﷲِ قَالَ لَا تَفْعَلُوْا اِلَّا بِفَاتِحَۃِ الْکِتَابِ فَاِنَّہ، لَا صَلَاۃَ لِمَنْ لَّمْ یَقْرَأبِھَا رَوَاہُ اَبُوْدَاؤدَ وَ التِّرْمِذِیُّ وَلِلنِّسَائِیُّ مَعْنَاہُ وَفِیْ رِوَایَۃٍ لِاَ بِیْ دَاؤدَ قَالَ وَاَنَا اَقُوْلُ مَالِیْ یُنَازِ عُنِی الْقُرْآنُ فَلَا تَقْرَأُوْ بِشَیْءٍ مِنَ الْقُرْآنِ اِذَا جَھَرْتُ اِلَّا بِاُمِّ الْقُرْآنْ۔-
" اور حضرت عبادۃ بن صامت رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ (ایک دن) ہم لوگ فجر کی نماز میں آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب قرات شروع کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر پڑھانا بھاری ہوگیا۔ پھر جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا کہ " شاید تم لوگ امام کے پیچھے قرات کیا کرتے ہو؟ ہم نے عرض کیا " جی ہاں یا رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم) ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " سوائے سورت فاتحہ کے کچھ نہ پڑھا کرو اس لیے کہ جو آدمی یہ سورت نہیں پڑھتا اس کی نماز نہیں ہوتی۔ (ابوداؤد، جامع ترمذی) نسائی نے یہ روایت بالمعنی نقل کی ہے اور ابوداؤد کی ایک روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ " آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (صحابہ کا جواب سن کر) فرمایا جب ہی تو میں یوں کہتا تھا کہ یہ کیا ہو گیا ہے کہ قرات مجھ پر بھاری ہو رہی ہے، جب میں بآواز بلند پڑھا کروں تو تم لوگ بجز سورت فاتحہ کے اور کچھ مت پڑھا کرو۔" تشریح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں بآواز بلند قرات کر رہے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے مقتدی صحابہ کرام بجائے اس کے کہ خاموشی اختیار کر کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قرات سنتے خود بھی قرات کرنے لگے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مقتدیوں کی قرات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قرات پر اثر انداز ہوئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز میں خربطہ پیدا ہوا جس کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے قرات کرنا مشکل ہو گیا کیونکہ بسا اوقات کامل چیز پر ناقص چیز بھی اثر انداز ہو جاتی ہے جیسا کہ کتاب الطہارت کی ایک حدیث میں گذر چکا ہے کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کی نماز میں قرات شروع کی اور پھر اچانک رک گئے اور پھر اس رکنے کا سبب یہ بیان کیا کہ کچھ ایسے لوگ میرے پیچھے نماز پڑھنے کے لیے کھڑے ہو جاتے ہیں جو ٹھیک طرح سے وضو نہیں کرتے یعنی ان کا وضو نا قص رہ جاتا ہے جو میری نماز و قرات پر اثر انداز ہوتا ہے ۔ بظاہر اس حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ نماز میں سورت فاتحہ کا پڑھنا فرض ہے لیکن جیسا کہ پہلے بھی عرض کیا جا چکا ہے کہ ائمہ کے ہاں (اس مسئلے میں) اختلاف ہے چنانچہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کا مسلک یہ ہے کہ امام اور منفرد یعنی تنہا نماز پڑھنے والے کے لیے سورت فاتحہ پڑھنا واجب ہے مگر مقتدی کے لیے واجب نہیں ہے خواہ نماز بلند آواز کی ہو یا آہستہ آواز کی۔ اس کی دلیل قرآن کی یہ آیت ہے : آیت ( وَاِذَا قُرِي َ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَه وَاَنْصِتُوْا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ) 7۔ الاعراف : 204) (نماز میں) جب قرآن پڑھا جائے تو سنو اور خاموشی اختیار کرو۔" امام صاحب اس حدیث کو ابتداء پر محمول کرتے ہیں یعنی یہ حکم ابتداء اسلام میں تھا پھر بعد میں منسوخ ہو گیا۔
-
وَعَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ اَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم اِنْصَرَفَ مِنْ صَلَاۃٍ جَھَرَ فِیْھَا بِا لْقِرْاءَ ۃِ فَقَالَ ھَلْ قَرَأَ مَعِیَ اَحَدٌ مِنْکُمْ اٰنِفًا فَقَالَ رَجُلٌ نَعَمْ یَا رَسُوْلَ اﷲِ قَالَ اِنِّیْ اَقُوْلُ مَالِیْ اُنَازَعُ الْقُرْاٰنَ قَالَ فَانْتَھَی النَّاسُ عَنِ الْقِرَاءَ ۃِ مَعَ رَسُوْلِ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم فِیْمَا جَھَرَ فِیْہِ بِالْقِرَائَۃِ مِنَ الصَّلٰواتِ حِیْنَ سَمِعُوْا ذٰلکِ مِنْ رَسُوْلِ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم ۔'' (رواہ مالک و احمد بن حنبل و بوداؤدو الترمذیو النسائی و روی ابن ماجۃ نحوہ)-
" اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ (ایک مرتبہ) آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم (جہری) نمازی سے جس میں قراءت بآواز بلند کی جاتی ہے فارغ ہوئے (اور نمازیوں کی طرف متوجہ ہو کر) فرمایا " ابھی تم میں سے کسی نے میرے ساتھ قرات کی ہے؟ ایک آدمی نے عرض کیا ہاں! یا رسول اللہ ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( میں جبھی تو دل میں) کہتا تھا کہ کیا ہوگیا ہے کہ میں قرآن پڑھنے میں الجھتا ہوں " حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ جب لوگوں نے یہ سنا تو ان نمازوں میں جن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قرات بآواز بلند کرتے تھے آپ کے ساتھ قرات کرنے سے رک گئے۔" (مالک ، مسند احمد بن حنبل، ابوداؤد ، جامع ترمذی، سنن نسائی، سنن ابن ماجہ) تشریح اس حدیث سے بصراحت سے معلوم ہو گیا ہے کہ صحابہ جہری نماز میں امام کے پیچھے مطلقاً کچھ نہیں پڑھتے تھے نہ تو سورت فاتحہ کی قر اءت کرتے تھے اور نہ کسی دوسری سورت و آیت کی لہٰذا حنفیہ کا مسلک ثابت ہوا کہ امام کے پیچھے مقتدیوں کے لیے قرات کرنا جائز نہیں ہے ہو سکتا ہے کہ یہ حدیث اس سے پہلے گذرنے والی حدیث کے لیے ناسخ ہو جس میں کہا گیا ہے کہ امام کے پیچھے سورت فاتحہ پڑھنی چاہئے کیونکہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بعد میں اسلام لائے ہیں اس لیے ان کی روایت کردہ حدیث بھی اس حدیث کے بعد کی ہوئی اور ظاہر ہے کہ بعد کا حکم پہلے حکم کے لیے ناسخ ہوا کرتا ہے۔
-
وَعَنِ ابْنِ عُمَرَ وَالبَیَا ضِیِّ قَالَا قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم اِنَّ المُصَلِّیَ یُنَاجِیْ رَبَّہ، فَلْیَنْظُرْ مَا یُنَا جِیْہِ وَلَا یَجْھَرُ بَعْضُکُمْ عَلٰی بَعْضٍ بِالْقُرْاٰنِ۔ (رواہ احمد بن حنبل)-
" اور حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت بیاضی روایت کرتے ہیں کہ آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " نمازی اپنے پروردگار سے (حالت نماز میں) مناجات کرتا ہے لہٰذا اسے چاہئے کہ جو مناجات وہ کرتا ہے اس پر غور کرے (یعنی ذکر و قرات حضور قلب اور خشوع اور خضوع کے ساتھ کرے) اور قرآن کو پڑھنے میں تم میں سے کوئی ایک دوسرے سے اونچی آواز نہ کرے۔" (مسند احمد بن حنبل) تشریح حدیث کے آخری جملہ کا مطلب یہ ہے کہ جب کوئی آدمی قرآن پڑھے خواہ نماز میں پڑھے یا نماز کے علاوہ پڑھے تو اسے اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ اس کی آواز دوسرے نمازی یا دوسرے قاری کی آواز سے اونچی نہ ہو۔ اس طرح کسی ذکر کرنے والے یا سونے والے کے سامنے بھی اونچی آواز سے نہ پڑھے تاکہ ان لوگوں کو اس کی وجہ سے تکلیف نہ پہچنے
-