امام کے لیے تنہا جگہ پر کھڑا ہونا مکروہ ہے

وَعَنْ عَمَّارٍ اَنَّہ، اَمَّ النَّاسَ بِالْمَدَائِنِ وَقَامَ عَلٰے دُکَّانٍ یُصَلِّی وَالنَّاسُ اَسْفَلَ مِنْہُ فَتَقَدَّمَ حُذَیْفَۃُ فَلَمَّا فَرَغَ عَمَّارٌ مِنْ صَلَاتِہٖ قَالَ لَہ، حُذَیْفَۃُ اَلَمْ تَسْمَعْ رَسُوْلَ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم یَقُوْلُ اِذَا اَمَّ الرَّجُلُ الْقَوْمَ فَلَا یَقُمْ فِی مَقَامٍ اَرْفَعَ مِنْم مِقَا مِھِمْ اَوْ نَحْوَ ذٰلِکَ فَقَالَ عَمَّارٌ لِذٰلِکَ اتَّبَعْتُکَ حِیْنَ اَخَذْتَ عَلٰی یَدِی۔ (رواہ ابوداؤد)-
" اور حضرت عمار رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے نماز کے بارے میں مروی ہے کہ انہوں نے (ایک روز) مدائن میں (جو کوفہ کے نزدیک ایک شہر ہے) لوگوں کی امامت کی چنانچہ وہ نماز پڑھنے کے لیے ایک چبوترے پر کھڑے ہوئے۔ مقتدی ان سے نیچے کھڑے تھے (یہ دیکھ کر) حضرت حذیفہ " صف سے نکل کر " آگے بڑھے اور عمار کے دونوں ہاتھ پکڑے (اور انہیں نیچے کی طرف کھینچا تاکہ وہ چپوترے سے اتر کر مقتدیوں کے برابر کھڑے ہوں) حضرت عمار رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کوئی تعارض نہیں کیا۔ چنانچہ حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے انہیں (چبوترے سے) نیچے اتار لیا۔ حضرت عمار رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب نماز پڑھ کر فارغ ہو چکے تو حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان سے کہا کہ " کیا آپ نے یہ نہیں سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جب کوئی آدمی کسی جماعت کا امام بنے تو وہ اس جگہ پر نہ کھڑا ہو جو مقتدیوں کے کھڑے ہونے کی جگہ سے بلند ہو۔" یا اس کے مانند الفاظ فرمائے حضرت عمار رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب دیا کہ " اسی لیے تو جب آپ نے میرے ہاتھ پکڑے تو میں نے آپ کا اتباع کیا۔ (اور کوئی تعارض نہیں کیا یعنی آپ کا کہنا مان کر نیچے اتر آیا۔" ) (ابوداؤد) تشریح صورت مذکورہ میں مسئلہ یہ ہے کہ امام تنہا بلند مقام پر اس طرح کھڑا ہو کہ کچھ مقتدی تو اس کے ساتھ اسی بلند جگہ پر ہوں اور کچھ نیچے ہوں تو یہ مکروہ نہیں ہے البتہ اگر امام تنہا بلند مقام پر کھڑا ہو اور تمام مقتدی نیچے ہوں تو یہ مکروہ ہوگا چنانچہ حضرت عمار رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس طرح کھڑے ہوئے کہ وہ تنہا بلند جگہ پر تھے ان کے ساتھ کچھ مقتدی نہیں تھے اور اسی لیے حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے انہیں نیچے اتار کر کھڑا کیا۔ اگر امام نیچے اور مقتدی بلند جگہ پر ہوں تو کیا حکم ہے صورت تو یہ ہے کہ امام بلند جگہ پر ہو اور مقتدی نیچے ہوں، اگر معاملہ اس کے برعکس ہو یعنی امام تو نیچے کھڑا ہو اور مقتدی بلند مقام پر ہوں تو مسئلے میں مشائخ کے ہاں اختلاف ہے چنانچہ حضرت امام طحاوی فرماتے ہیں کہ یہ مکروہ نہیں ہے اس لیے کہ اس طرح اہل کتاب (یعنی غیر مسلموں) کے ساتھ مشابہت نہیں ہوتی کیونکہ ان کے ہاں امام کو بطور خاص بلند جگہ پر کھڑا کیا جاتا تھا لہٰذا امام کا تنہا بلند جگہ پر کھڑا ہونا تو ان کی مشابہت کے پیش نظر مکروہ ہو سکتا ہے لیکن امام کا نیچی جگہ پر اور مقتدیوں کا اونچی جگہ پر کھڑا ہونا مکروہ نہیں ہو سکتا ۔ لیکن جہاں تک ظاہری روایات اور عقلی تقاضہ کا تعلق ہے تو یہ بھی مکروہ ہے کیونکہ اس طرح امام کی حقارت لازم آتی ہے اور اس کی عظمت پر حرف آتا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جس بلندی پر امام کا تنہا کھڑا ہونا مکروہ ہے اس کی حد کیا ہے؟ یعنی وہ کتنی بلند جگہ ہو کہ اس پر امام تنہا کھڑا نہ ہو؟ چنانچہ اس سلسلہ میں بعض حضرات کی رائے یہ ہے کہ بقدر قد آدمی بلندی پر امام کے لیے تنہا کھڑا ہونا مکروہ ہے لیکن دوسرے حضرات کا کہنا ہے کہ بلندی کی حد ایک ہاتھ ہے یعنی اگر ایک ہاتھ اونچی جگہ پر بھی امام کھڑا ہوگا تو یہ مکروہ ہوگا اور اسی قول پر فتوی ہے یہ تو مسئلے کی وضاحت تھی اب حدیث کی طرف آئیے! حدیث کے الفاظ وقام علی دکان یصلی سے ظاہری طور پر یہ کچھ معلوم نہیں ہوتا کہ جس وقت حضرت حذیفہ نے حضرت عمار کو ٹوکا اور انہیں نیچے اتارا اس وقت حضرت عمار حقیقۃ نماز پڑھنے کھڑے ہوگئے تھے یعنی نیت باندھ چکے تھے یا انہوں نے صرف نماز پڑھنے کا ارادہ ہی کیا تھا اور کھڑے ہی ہو رہے تھے کہ حضرت حذیفہ نے انہیں نیچے اتار ا؟ ظاہری طور پر یہی ہے کہ حضرت عمار نے اس وقت تک نیت نہیں باندھی تھی بلکہ نماز کے لیے کھڑے ہو ہی رہے تھے اور نیت باندھنے والے تھے کہ یہ واقعہ پیش آیا۔ اونحو ذالک حضرت حذیفہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث جب بیان فرمائی تو آخر میں یہ الفاظ فرمائے کیونکہ انہیں حدیث کے الفاظ بعینہ یاد نہیں رہے تھے۔ لہٰذا انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یا تو بعینہ یہی الفاظ فرمائے تھے یا اس کی مانند دوسرے الفاظ ارشاد فرمائے تھے۔ حدیث کے آخری الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمار رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یہ مسئلہ معلوم تھا اور وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سن چکے تھے کہ امام کو تنہا بلند جگہ پر نہیں کھڑا ہونا چاہیے، لہٰذا یہاں یہ اشکال وارد ہوتا ہے کہ جب حضرت عمار ارشاد نبوت پر مطلع تھے اور انہیں یہ مسئلہ معلوم تھا تو انہوں نے اس کے خلاف کیوں کیا؟ اس کا مختصر سا جواب یہ ہے کہ حضرت عمار کو یہ مسئلہ معلوم تھا اور وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی ممانعت سن بھی چکے تھے مگر اس وقت ان کے ذہن میں نہ یہ حدیث رہی اور نہ انہیں یہ مسئلہ یاد آیا۔ ہاں جب حضرت حذیفہ نے تعارض کیا اور انہیں نیچے اتارا تو یہ مسئلہ ان کو یاد آیا اور ایک صادق سچے فرما نبردار ہونے کے ناطے انہوں نے فوراً اس پر عمل کیا۔
-