TRUE HADITH
Home
About
Mission
Contact
مشکوۃ شریف
نماز کا بیان
التحیات میں ہاتھوں کو رکھنے کا طریقہ
عَنِ ابْنِ عُمَرَص قَالَ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اِذَا قَعَدَ فِی التَّشَھُّدِ وَضَعَ ےَدَہُ الْےُسْرٰی عَلٰی رُکْبَتِہِ الْےُسْرٰی وَوَضَعَ ےَدَہُ الْےُمْنٰی عَلٰی رُکْبَتِہِ الْےُمْنٰی وَعَقَدَ ثَلٰثَۃً وَّخَمْسِےْنَ وَاَشَارَ بِالسَّبَابَۃِ وَفِیْ رِوَاےَۃٍ کَانَ اِذَا جَلَسَ فِی الصَّلٰوۃِ وَضَعَ ےَدَےْہِ عَلٰی رُکْبَتَےْہِ وَرَفَعَ اِصْبَعَہُ الْےُمْنٰی الَّتِیْ تَلِی الْاِبْھَامَ ےَدْعُوْ بِھَا وَےَدَہُ الْےُسْرٰی عَلٰی رُکْبَتِہٖ بَاسِطَھَا عَلَےْھَا۔ (صحیح مسلم)-
" حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم تشہد (یعنی التحیات) میں بیٹھتے تو اپنا بایاں ہاتھ اپنے بائیں گھٹنے پر رکھتے اور اپنا داہنا ہاتھ اپنے داہنے گھٹنے پر رکھتے تھے اور اپنا (داہنا) ہاتھ مثل عدد تریپن کے بند کر کے شہادت کی انگلی سے اشارہ کرتے تھے۔ اور ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ " جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز ( کے قعدہ) میں بیٹھتے تو دونوں ہاتھوں کو اپنے گھٹنوں پر رکھ لیتے تھے اور داہنے ہاتھ کی اس انگلی کو جو انگوٹھے کے قریب ہے۔ (یعنی شہادت کی انگلی کو) اٹھاتے اور اس کے ساتھ دعا مانگتے (یعنی ) اس کو اٹھا کر اشارہ و حدانیت کرتے ) اور بایاں ہاتھ اپنے زانو پر کھلا ہوا رکھتے۔" (صحیح مسلم) تشریح " مثل عد ترپین" کا مطلب یہ ہے کہ اہل حساب گنتی کے وقت انگلیوں کو جس طرح بند کرتے جاتے ہیں کہ انہوں نے ہر انگلی کو ایک عدد متعین کے لیے مقرر کیا ہوا ہے کہ انہیں اکائیوں کے لیے یہاں رکھا جائے اور دہائی، سینکڑہ اور ہزار کے لیے فلاں فلاں جگہ۔ لہٰذا راوی کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شہادت کی انگلی کو اشارے کے لیے اٹھاتے وقت بقیہ انگلیوں کو اس طرح بند کیا جس طرح تریپن کے عدد کے لیے انگلیوں کو بند کرتے ہیں اور صورت اس کی یہ ہوتی ہے کہ چھنگلیا، اس کے قریب والی انگلی اور بیچ کی انگلی کو بند کر لیا جائے۔ شہادت کی انگلی کھلی رکھی جائے اور انگوٹھے کے سرے کو شہادت کی انگلی کی جڑ میں رکھا جائے۔ یہ عدد تریپن (٥٣) کہلاتا ہے۔ چنانچہ حضرت امام شافعی اور ایک روایت کے مطابق حضرت امام احمد نے اس حدیث پر عمل کرتے ہوئے اسی طریقے کو اختیار کیا ہے۔ حنفیہ کے نزدیک شہادت کی انگلی اٹھانے کا طریقہ : ابھی آپ نے عدد تریپن کی وضاحت پڑھی اسی طرح ایک عدد تسعین (٩٠) ہوتا ہے اس کی شکل یہ ہوتی ہے کہ چھنگلیا اور اس کے قریب والی انگلی کو بند کر لیا جائے اور شہادت کی انگلی کو کھول دیا جائے اور انگوٹھے کا سرا بیچ کی انگلی کے سرے پر رکھ کر حلقہ کی شکل دے دی جائے۔ حضرت امام ابوحنیفہ فرماتے ہیں کہ شہادت کی انگلی اٹھانے کے لیے یہی طریقہ اختیار کرنا چاہئے۔ اور حضرت امام احمد کا ایک قول بھی یہی ہے نیز حضرت امام شافعی کا قول قدیم بھی یہی ہے اور یہی طریقہ آگے آنے والی صحیح مسلم کی روایت سے بھی ثابت ہے جو حضرت عبداللہ ابن زبیر سے مروی ہے، اسی طرح احمد ، و ابوداؤد نے بھی حضرت وائل ابن حجر سے نقل کیا ہے۔ حضرت امام مالک کا مسلک یہ ہے کہ داہنے ہاتھ کی تمام انگلیاں بند کرلی جائیں اور شہادت کی انگلی کھلی رکھی جائے۔ بعض احادیث میں انگلیوں کو بند کئے بغیر شہادت کی انگلی سے اشارہ کرنا بھی ثابت ہے چنانچہ بعض حنفی علماء کا کا مختار مسلک یہی ہے اور معلوم ایسا ہوتا ہے کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل بھی مختلف رہا ہوگا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی تو اشارہ بغیر عقد کے کرتے ہوں گے اور کبھی عقد کے ساتھ کرتے ہوں گے۔ اسی بنا پر ان مختلف احادیث کی توجیہ کہ جن سے یہ دونوں طریقے ثابت ہوتے ہیں یہی کی جاتی ہے۔ ماوراء النھر (یعنی بخارا و سمر قند وغیرہ) اور ہندوستان ( ممکن ہے کہ صاحب مظاہر حق علامہ نواب قطب الدین کے زمانے میں عمل عقد و اشارت کے ترک کے قائل ہوں مگر اب تو سب حنفی اس کے قائل ہیں۔ ) کے حنفیہ نے اس عمل عقد و اشارت (یعنی داہنے ہاتھ کی انگلیوں کو بند کر کے شہادت کی انگلی کو اٹھانے) کو ترک کیا ہے، گو متقدمین کے ہاں یہ عمل جاری تھا مگر متأخرین نے اس میں اختلاف کیا ہے لیکن حرمین اور عرب کے دوسرے شہروں کے علماء کے نزدیک مختار مسلک عمل عقد و اشارت کرنا ہی ہے۔ علامہ شیخ ابن الہمام رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ نے جن کا شمار محققین حنفیہ میں ہوتا ہے فرمایا ہے کہ " اول تشہد (التحیات) میں شہادتین تک تو ہاتھ کھلا رکھنا چاہئے اور تہلیل کے وقت انگلیوں کو بند کر لینا چاہئے نیز (شہادت کی انگلی سے ) اشارہ کرنا چاہئے۔" موصوف لکھتے ہیں کہ " اشارہ کرنے کو منع کرنا روایت اور درایت کے خلاف ہے۔" محیط میں مذکور ہے کہ دائیں ہاتھ کی شہادت کی انگلی کو اٹھانا حضرت امام ابوحنیفہ اور حضرت امام محمد رحمہما اللہ تعالیٰ علیہما کے نزدیک سنت ہے اور حضرت امام ابویوسف رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ سے بھی اسی طرح ثابت ہیے۔ علامہ نجم الدین زاہدی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ " ہمارے علماء کا متفقہ طور پر یہ قول ہے کہ عمل اشارت سنت ہے۔" لہٰذا جب صحابہ کرام تابعین، ائمہ دین، محدثین عظام، فقہائے امت اور علمائے کوفہ و مدینہ سب ہی کا مذہب و مسلک یہ ہے کہ التحیات میں شہادتین کے وقت دائیں ہاتھ کی شہادت کی انگلی کو اٹھانا یعنی اشارہ وحدانیت کرنا چاہئے اور یہ کہ اس کے ثبوت میں بہت زیادہ احادیث اور اقوال صحابہ وارد ہیں تو پھر اس پر عمل کرنا ہی اولیٰ و ارجح ہوگا۔ اشارہ کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ جب کلمہ شہادت پر پہنچے تو شافعیہ کے نزدیک الا اللہ کہتے وقت شہادت کی انگلی اٹھالی جائے اور حنفیہ کے نزدیک جس وقت لا الہ کہے تو انگلی اٹھائے اور جب الا اللہ کہے تو انگلی رکھ دے۔ اس سلسلہ میں اتنی بات بھی یاد رکھنی چاہئے کہ انگلی سے اوپر کی جانب اشارہ نہ کیا جائے تاکہ جہت کا وہم پیدا نہ ہو جائے۔ حدیث کے الفاظ یدعوبھا ) (اس کے ساتھ دعا مانگتے) کا مطلب یہی ہے کہ : آپ صلی اللہ علیہ وسلم شہادت کی انگلی اٹھا کر اشارہ وحدانیت کرتے جس کی طرف ترجمہ میں یہ بھی اشارہ کر دیا گیا ہے یا پھر دعا سے مراد ذکر ہے کو دعا بھی کہتے ہیں کیونکہ ذکر کرنے والا بھی مستحق انعام و اکرام ہوتا ہے۔ حدیث کے آخری جملے " بایاں ہاتھ اپنے زانو پر کھلا ہوا رکھتے تھے" کا مطلب یہ ہے کہ بائیں ہاتھ کو زانو کے قریب یعنی ران پر کھلا ہوا قبلہ رخ رکھتے تھے۔
-
وَعَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ الزُّبَےْرِرَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلماِذَا قَعَدَ ےَدْعُوْا وَضَعَ ےَدَہُ الْےُمْنٰی عَلٰی فَخِذِہِ الْےُمْنٰی وَےَدَہُ الْےُسْرٰی عَلٰی فَخِذِہِ الْےُسْرٰی وَاَشَارَ بِاِصْبَعِہِ السَّبَّابَۃِ وَوَضَعَ اِبْھَامَہُ عَلٰی اِصْبَعِہِ الْوُسْطٰی وَےُلْقِمُ کَفَّہُ الْےُسْرٰی رُکْبَتَہُ۔ (صحیح مسلم)-
" اور حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم جب (نماز میں التحیات پڑھنے کے لیے ) بیٹھتے تو اپنے دائیں ہاتھ کو اپنی دائیں ران پر اور اپنے بائیں ہاتھ کو اپنی بائیں ران پر رکھتے اور شہادت کی انگلی سے اشارہ کرتے تھے اور اپنے انگوٹھے کو اپنی بیچ کی انگلی پر رکھتے (یعنی اس طرح حلقہ بنا لیتے تھے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم (کبھی) اپنے بائیں ہاتھ سے بایاں گھٹنا پکڑ لیتے۔" (صحیح مسلم) تشریح جیسا کہ ابھی پہلے بتایا جا چکا ہے حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کا مسلک یہ ہے کہ التحیات میں کلمہ شہادت پڑھتے وقت دائیں ہاتھ کی شہادت کی انگلی اٹھاتے وقت یہی طریقہ اختیار کرنا چاہئے کہ چھنگلیاں اور اس کے قریب والی انگلی کو بند کر لیا جائے اور انگوٹھے کے سرے کو بیچ کی انگلی کے سرے پر رکھ کے حلقہ بنا لیا جائے اور شہادت کی انگلی اٹھالی جائے۔ حضرت امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کے نزدیک التحیات پڑھنے کے لیے بیٹھتے وقت ہی اس طرح حلقہ بنا لینا چاہئے لیکن حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کے نزدیک یہ حلقہ انگلی اٹھاتے وقت ہی بنانا چاہئے۔
-
وَعَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍ ص قَالَ کُنَّا اِذَا صَلَّےْنَا مَعَ النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وسلم قُلْنَا السَّلَامُ عَلَی اللّٰہِ قِبَلَ عِبَادِہِ السَّلَامُ عَلٰی جِبْرَئِےْلَ السَّلَامُ عَلٰی مِےْکَآئِےْلَ السَّلَامُ عَلٰی فُلَانٍ فَلَمَّا انْصَرَفَ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وسلم اَقْبَلَ عَلَےْنَا بِوَجْھِہٖ قَالَ لَا تَقُوْلُوا السَّلَامُ عَلَی اللّٰہِ فَاِنَّ اللّٰہَ ھُوَ السَّلَامُ فَاِذَا جَلَسَ اَحَدُکُمْ فِی الصَّلٰوۃِ فَلْےَقُلْ التَّحِےَّاتُ لِلّٰہِ وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّےِّبٰتُ اَلسَّلَامُ عَلَےْکَ اَےُّھَا النَّبِیُّ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہُ اَلسَّلَامُ عَلَےْنَا وَعَلٰی عِبَادِ اللّٰہِ الصّٰلِحِےْنَ فَاِنَّہُ اِذَا قَالَ ذَالِکَ اَصَابَ کُلَّ عَبْدٍ صَالِحٍ فِی السَّمَآءِ وَالْاَرْضِ اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہُ وَرَسُوْلُہُ ثُمَّ لِےَتَخَےَّرْ مِنَ الدُّعَآءِ اَعْجَبَہُ اِلَےْہِ فَےَدْعُوْہُ۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)-
" اور حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ جب ہم سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ نماز پڑھتے تو (قعدہ میں التحیات کی بجائے) یہ پڑھا کرتے تھے۔" السلام علی اللہ قبل عبادہ السلام علی جبریل السلام علی میکائیل السلام علی فلان " اللہ پر سلام ہے، میکائیل پر سلام ہے اس کے بندوں پر سلام بھیجے سے پہلے جبرائیل پر سلام ہے اور فلاں (یعنی فرشتوں میں سے کسی فرشتے پر یا انبیاء میں سے کسی نبی پر سلام ہے۔ " چنانچہ (ایک دن) جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (نماز پڑھ کر) فارغ ہوئے تو ہماری طرف متوجہ ہو کر فرمایا کہ " اللہ پر سلام" نہ کہو کیونکہ اللہ تعالیٰ (تو خود) سلام ہے یعنی پروردگار کی ذات تمام آفات و نقصانات سے محفوظ و سالم ہے وہ بندوں کو تمام ظاہری و باطنی آفات و نقصانات سے سلامتی دیتا ہے اور چونکہ اس کے لیے اور اس کی طرف سے سلامتی ثابت ہے اس لیے سلامتی کے لیے دعا تو اس کے لیے کرنی چاہئے جس کو نقصانات و آفات کا خوف ہو اور جو اس کی سلامتی کا محتاج ہو لہٰذا جب تم میں سے کوئی نماز (کے قعدہ) میں بیٹھے تو یہ کہے " التحیات اللہ والصلوات والطیبات اسلام علیک ایھا النبی و رحمۃ اللہ وبرکا تہ السلام علینا و علی عباد اللہ الصالحین" سب تعریفیں اور بدنی عبادتیں (یعنی نماز وغیرہ اور مالی عبادتیں (یعنی زکوۃ وغیرہ) اللہ ہی کے لیے ہے۔ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تم پر سلام اور اللہ کی برکتیں ہوں۔ ہم پر بھی سلام اور اللہ کے سب نیک بندوں پر سلام ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو آدمی ان کلمات کو کہتا ہے تو اس کی برکت زمین و آسمان کے ہر نیک بندے کو پہنچتی ہے۔ (اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کلمات کو شہادتین پر ختم فرمایا جو تمام اعمال کی اصل اور خلاصہ ہے۔ چنانچہ فرمایا ۔ " اشھد ان لا الہ الا اللہ و اشھد ان محمدا عبدہ و رسولہ " میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور گواہی دیتا ہوں کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اس کے بندے اور رسول ہیں۔ " پھر فرمایا اس کے بعد بندے کو جو دعا اچھی لگے اسے اختیار کرے اور اللہ کے سامنے دست سوال دراز کرے۔" (صحیح البخاری و صحیح مسلم) تشریح ابن ملک رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو معراج حاصل ہوئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم بارگاہ خداوندی میں باریاب ہوئے تو اللہ جل شانہ کی تعریف میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ کلمات زبان سے ادا فرمائے : التحیات اللہ والصلوات والطیبات۔ " تمام تعریفیں اور مالی و بدنی عبادتیں اللہ ہی کے لیے ہیں۔" اس کے جواب میں بارگاہ الوہیت سے فرمایا گیا۔ السلام علیک ایھا النبی ورحمۃ اللہ و برکاتہ۔ " اے نبی تم پر سلام اور اللہ کی برکتیں و رحمتیں!۔" اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ علینا وعلی عباد اللہ الصالحین۔ " ہم پر بھی سلام اور اللہ کے نیک بندوں پر بھی سلام۔" تب جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا۔ اشھد ان لا الہ الا اللہ واشھد ان محمدا عبدہ و رسول۔ " میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں۔" بہر حال السلام علینا و علی عباد اللہ الصالحیں میں " نیک بندوں" کی قید لگا کر اس طرف اشارہ کر دیا گیا ہے کہ بد بخت و بدکار بندوں پر سلام بھیجنا یا ان کو سلام کہنا مناسب نہیں ہے۔ اس کی سعادت کے حقدار اور لائق تو وہی بندے ہیں جو اپنے عقیدہ و فکر اور اعمال و کردار کے اعتبار سے اللہ اور اللہ کے رسول کی نظر میں پسندیدہ ہیں جنہیں " صالح" کہا جاتا ہے اور " بندہ صالح" وہی ہے جو حقوق اللہ و حقوق العباد دونوں کی رعایت کو مد نظر رکھتا ہے اور دونوں کو پورا کرتا ہے۔" حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا ہے کہ " صالح" دراصل اس حالت کا نام ہے جس میں بندے کے ذاتی و نفسانی ارادے و خواہشات موت کے گھاٹ اتر جائیں اور اللہ تعالیٰ کی مراد و مقصد پر قائم رہے (جس کی وجہ سے وہ بند صالح کہلانے کا مستحق ہو) لہٰذا بندے کو چاہئے کہ وہ پروردگار کی رضا و خواہش پر اس کیفیت کے ساتھ راضی اور اپنے تمام امور کو خداوندعالم کی طرف اس طرح سوپنے والا ہو جائے جیسا کہ نومولود بچہ دایہ کے ہاتھ میں یا میت نہلانے والوں کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ علماء فرماتے ہیں کہ " جب بندہ اس مرتبے پر پہنچ جاتا ہے اور اس کا جذبہ بندگی و اطاعت اس قدر لطیف و پاکیزہ ہو جاتا ہے تو وہ یقینی طور پر تمام دنیاوی و جسمانی اور نفسانی آفات اور بلاؤں سے محفوظ و مامون رہتا ہے۔ آخر میں۔ اتنی بات اور سمجھتے چلے کہ التحیات کو دونوں قعدوں میں پڑھنا چاہئے اور یہ کہ درمیان کا قعدہ (یعنی جب دو رکعتوں کے بعد بیٹھتے ہیں) واجب ہے اور آخری قعدہ (جس میں سلام پھیرا جاتا ہے) فرض ہے۔
-
وَعَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم ےُعَلِّمُنَا التَّشَھُّدَ کَمَا ےُعَلِّمُنَا السُّوْرَۃَ مِنَ الْقُرْآنِ فَکَانَ ےَقُوْلُ التَّحِےَّاتُ الْمُبَارَکَاتُ الصَّلَوَاتُ الطَّےِّبٰتُ لِلّٰہِ السَّلَامُ عَلَےْکَ اَےُّھَا النَّبِیُّ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہُ اَلسَّلَامُ عَلَےْنَا وَعَلٰی عِبَادِ اللّٰہِ الصَّالِحِےْنَ اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہِ- (رَوَاہُ مُسْلِم) وَلَمْ اَجِدْ فِی الصَّحِیْحَیْنَ وَلَا فِی الْجَمْعِ بَیْنَ الصَّحِیْحَیْنَ سَلَامٌ عَلَیْکَ وَسَلَامٌ عَلَیْنَا بِغَیْرِ اَلْفٍ وَلَامٍ وَلٰکِنْ رَوَاہُ صَاحِبُ الْجَا مِعِ عَنِ التِّرمِذِیِّ۔-
" اور حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم جس طرح ہمیں قرآن کی کوئی سورت سکھاتے تھے اسی طرح تشہد سکھایا کرتے تھے چنانچہ کہا کرتے تھے " التَّحِیاتُ الْمُبَارَکَاتُ الصَّلَوَاتُ الطَّیبٰتُ لِلّٰہِ السَّلَامُ عَلَیکَ اَیھَا النَّبِیُّ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہ اَلسَّلَامُ عَلَینَا وَعَلٰی عِبَادِ اللّٰہِ الصَّالِحِینَ اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہ " تمام با برکت تعریفیں اور تمام مالی و بدنی عبادتیں اللہ ہی کے لیے ہیں، اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم! تم پر سلام اور اللہ کی برکت و رحمتیں " ہم پر بھی سلام اور اللہ کے نیک بندوں پر سلام اور میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں۔" (صحیح مسلم) اور مولف مشکوٰۃ فرماتے ہیں کہ میں نے نہ تو صحیحین (یعنی صحیح البخاری و صحیح مسلم میں) اور نہ جمع بین صحیحین میں لفظ " سلام علیک" اور " سلام علینا " بغیر الف لام کے پایا ہے البتہ اس طرح اس کو صاحب جامع الاصول نے جامع ترمذی (کے حوالہ) سے نقل کیا ہے۔ تشریح اس روایت میں حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے تشہد یعنی التحیات کے جو الفاظ نقل کئے گئے ہیں اس پر حضرات شافعیہ عمل کرتے ہیں اور التحیات میں انہی الفاظ کو پڑھتے ہیں لیکن حنفیہ حضرات کے ہاں حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے روایت کردہ تشہد کے الفاظ پر جو اس سے پہلی روایت میں گذرے ہیں عمل کیا جاتا ہے ۔ حضرت عبدا اللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے روایت کردہ تشہد کے بارے میں محدثین صراحت کرتے ہیں کہ یہ صحیح تر ہے۔ چنانچہ حضرت علامہ ابن حجر شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ " تشہد کے سلسلے میں جتنی احادیث مروی ہیں ان سب میں سے حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت کردہ حدیث سب سے زیادہ صحیح تر ہے۔ حضرت امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ بھی عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث پر عمل کرتے ہیں اور صحابہ و تابعین میں سے اکثر اہل علم کا معمول بھی انہیں کی حدیث کے مطابق تھا۔ پھر یہ کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں منقول ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت کردہ تشہد کے لیے حکم فرمایا تھا کہ اسے لوگوں کو سکھایا جائے، چنانچہ مسند امام احمد ابن حنبل میں منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابن مسعود کو رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حکم دیا تھا کہ وہ اسی تشہد کو لوگوں کو سکھائیں۔ ایک دوسری روایت میں مذکور ہے کہ حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ " رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا ہاتھ پکڑا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم جس طرح مجھے قرآن کی تعلیم دیتے تھے اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے تشہد سکھایا۔ پھر حضرت عبداللہ ابن مسعود اور حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی روایتوں میں یہ بھی بڑا فرق ہے کہ حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت کو تو بخاری و مسلم دونوں نے نقل کیا ہے جبکہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت کو صرف مسلم نے نقل کیا ہے۔ حضرت امام مالک رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کے بارہ میں کہا جاتا ہے کہ آپ نے وہ تشہد اختیار فرمایا ہے جو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے منقول ہے یعنی " التحیات للہ الذا کیات للہ الطیبات للہ السلام علیک ایھا النبی الخ۔ بہر حال علماء لکھتے ہیں کہ یہ پوری بحث صرف اولیت و ا فضیلت سے متعلق ہے یعنی حضرت امام اعظم رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کے نزدیک حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی تشہد پڑھنا افضل ہے اور حضرت امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کے ہاں حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی تشہد پڑھنا افضل ہے۔ لیکن جہاں تک جواز کا سوال ہے تو مسئلہ یہ ہے کہ ان میں سے جو تشہد بھی چاہے پڑھ لیا جائے جائز ہوگا۔ روایت کے آخری الفاظ ولم اجد (الخ ) سے دراصل مولف مشکوٰۃ، صاحب مصابیح پر ایک اعتراض کر رہے ہیں وہ کہ یہ صاحب مصابیح نے عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی تشہد میں " سلام علیک" اور " سلام علینا " کو بغیر الف لام کے ذکر کیا ہے ۔ حالانکہ اس طرح یہ روایت صحیح البخاری و صحیح مسلم میں منقول نہیں لہٰذا صاحب مصابیح کا اس روایت کو پہلی فصل میں ذکر کرنا صحیح نہیں ہے۔ وا اللہ اعلم۔
-