اقرباء کے ساتھ نیک سلوک کرنے کا کامل ترین جذبہ

وعن ابن عمرو قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ليس الواصل بالمكافيء ولكن الواصل الذي إذا قطعت رحمه وصلها . رواه البخاري-
" اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ نے فرمایا کامل صلہ رحم کرنے والا شخص وہ نہیں ہے جو بدلہ چکائے بلکہ کامل صلہ رحم کرنے والا وہ ہے کہ جب اس کی قرابت کو منقطع کیا جائے تو وہ اس قرابت کو قائم رکھے۔ (بخاری) تشریح مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص اپنے اس قرابت دار کے ساتھ بدلہ کے طور پر احسان اور نیک سلوک کرنا چاہے جس نے اس کے ساتھ احسان اور نیک سلوک کیا ہے تو اس کو حقیقی معنی میں صلہ رحمی نہیں کہیں گے بلکہ احسان چکانا کہیں گے ہاں اگر اس نے ایسے قرابت دار کے ساتھ احسان اور نیک سلوک کیا جس نے خود اس کی قرابت کا کوئی لحاظ نہیں رکھا ہے اور کبھی اس کے ساتھ کوئی احسان اور نیک سلوک کیا تو اس کا حسان ونیک سلوک بے شک کامل صلہ رحم کہلائے گا اور اس سے معلوم ہوا کہ صلہ رحمی کا کامل ترین جذبہ وہ ہے جس کی بنیاد بدلہ چکانے پر نہ ہو بلکہ محض حق شناسی اور حق ادائیگی کے احساس پر ہو خواہ خود اس کا حق کسی نے ادا کیا ہو یا نہ کیا ہو چنانچہ علماء نے لکھا ہے کہ جوان مرد وہی شخص ہے جو اپنا حق کسی سے طلب نہ کرے اور خود دوسروں کا حق ادا کرے۔
-
وعن أبي هريرة أن رجلا قال يا رسول الله إن لي قرابة أصلهم ويقطعوني وأحسن إليهم ويسيؤون إلي وأحلم عليهم ويجهلون علي . فقال لئن كنت كما قلت فكأنما تسفهم المل ولا يزال معك من الله ظهير عليهم ما دمت على ذلك . رواه مسلم-
" اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے عرض کیا یا رسول اللہ میرے کچھ قرابت دار ایسے ہیں تو ان کے ساتھ نیک سلوک کرتا ہوں لیکن وہ میرے ساتھ نیک سلوک نہیں کرتے، ان کے ساتھ احسان کرتا ہوں اور وہ میرے ساتھ برائی کرتے ہیں میں ان کے ساتھ حلم و بردباری اور درگزر کا رویہ اختیار کرتا ہوں اور وہ مجھ سے جہالت کے ساتھ پیش آتے ہیں یعنی مجھے برا بھلا کہتے ہیں اور مجھ پر غیظ و غضب کا اظہار کرتے ہیں اس کی یہ باتیں سن کر رسول اللہ نے فرمایا اگر تم ایسے ہی ہو جیسا کہ تم نے بیان کیا تو گویا تم ان کو گرم راکھ پھکاتے ہو اور تمہارے ساتھ اللہ کی طرف سے ہمیشہ مدد و نصرت ہے جوان کی ایذاء اور ان کے شر سے تمہاری محافظ ہے جب تک تم اسی صفت پر قائم ہو۔ (مسلم) تشریح " راکھ پھکاتے" سے مراد یہ ہے کہ تمہارے وہ قرابت دار چونکہ تمہارے نیک سلوک کے قدر دان نہیں ہیں اور تمہاری نیکی کا شکریہ ادا نہیں کرتے اس لیے تم ان کو جو کچھ دیتے ہو وہ ان کے حق میں حرام مال کا حکم رکھتا ہے اور تمہاری دی ہوئی چیزیں ان کے پیٹ میں آگ کی طرح ہیں گویا آپ نے ان قرابت داروں کے اس گناہ کو گرم راکھ کے ساتھ تشبیہ دی ہے جو ان چیزوں کو کھانے کی وجہ سے ان کو لاحق ہوتا ہے۔ بعض حضرات نے یہ مراد بیان کی ہے کہ تم ان کے برتاؤ کے علم الرغم ، ان کے ساتھ احسان و سلوک کر کے ان کو خود ان کے نفس کے سامنے ذلیل و رسوا کرتے ہو جیسا کہ کوئی شخص اگر گرم راکھ منہ میں ڈالے اور اس کو پیٹ میں اتارے تو اس کا نفس اس کو لعنت و ملامت کرتا ہے بعض شارحین نے یہ بیان کیا ہے کہ ان کے ساتھ تمہارا احسان گویا ان کے حق میں گرم راکھ ہے جو ان کو جلاتا ہے اور ہلاک کرتا ہے اور بعض حضرات نے یہ کہا ہے کہ تمہارا احسان ان کا منہ کالا کرتا ہے جیسا کہ گرم راکھ کسی چہرے کو جلا کر سیاہ کر دے۔
-