TRUE HADITH
Home
About
Mission
Contact
مشکوۃ شریف
سر منڈانے کا بیان
افعال حج میں تقدیم وتاخیر
عن عبد الله بن عمرو بن العاص : أن رسول الله صلى الله عليه و سلم وقف في حجة الوداع بمنى للناس يسألونه فجاءه رجل فقال : لم أشعر فحلقت قبل أن أذبح . فقال : " اذبح ولا حرج " فجاء آخر فقال : لم أشعر فنحرت قبل أن أرمي . فقال : " ارم ولا حرج " . فما سئل النبي صلى الله عليه و سلم عن شيء قدم ولا أخر إلا قال : " افعل ولا حرج " وفي رواية لمسلم : أتاه رجل فقال : حلقت قبل أن أرمي . قال : " ارم ولا حرج " وأتاه آخر فقال : أفضت إلى البيت قبل أن أرمي . قال : " ارم ولا حرج "وعن ابن عباس قال : كان النبي صلى الله عليه و سلم يسأل يوم النحر بمنى فيقول : " لا حرج " فسأله رجل فقال : رميت بعد ما أمسيت . فقال : " لا حرج " . رواه البخاري-
حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاصرضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حجۃ الوداع کے موقع پر جب منیٰ میں ٹھہرے تاکہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مسائل دریافت کریں تو ایک شخص آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا کہ ناواقفیت کی وجہ سے میں نے ذبح کرنے سے پہلے اپنا سر منڈا لیا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اب ذبح کر لو، اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ پھر ایک اور شخص نے آ کر عرض کیا کہ میں نے ناواقفیت کی بناء پر کنکریاں مارنے سے پہلے جانور ذبح کر لیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اب کنکریاں مار لو، اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جس فعل کی بھی تقدیم یا تاخیر کے بارہ میں سوال کیا گیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہی فرمایا کہ اب کر لو ۔ اس میں کوئی حرج نہیں ۔ (بخاری و مسلم) مسلم کی ایک اور روایت میں یوں ہے کہ ایک شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے عرض کیا کہ میں نے کنکریاں مارنے سے پہلے سر منڈا لیا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اب کنکریاں مار لو، اس میں کوئی حرج نہیں ہے، ایک اور شخص آیا اور کہنے لگا کہ میں نے خانہ کعبہ کا فرض طواف کنکریاں مارنے سے پہلے کر لیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اب کنکریاں مار لو، اس میں کوئی حرج نہیں۔ تشریح اس روایت میں ان افعال حج کی تقدیم و تاخیر کے سلسلے میں فرمایا گیا ہے اور سائلین کے جواب دئیے گئے ہیں جو قربانی کے دن یعنی ذی الحجہ کی دسویں تاریخ کو کئے جاتے ہیں، چنانچہ اس دن چار چیزیں ہوتی ہیں جن کی ترتیب یہ ہے کہ پہلے منیٰ میں پہنچ کر جمرہ عقبہ پر جو ایک مینار ہے سات کنکریاں ماری جائیں ، پھر جانور کہ جن کی تفصیل پہلے بیان ہو چکی ہے ذبح کئے جائیں اس کے بعد سر منڈایا جائے یا بال کتروائے جائیں اور پھر مکہ جا کر خانہ کعبہ کا طواف کیا جائے، اس ترتیب کے ساتھ ان افعال کی ادائیگی اکثر علماء کے نزدیک مذکورہ بالا حدیث کی روشنی میں سنت ہے چنانچہ حضرت امام شافعی اور حضرت امام احمد بھی انہیں میں شامل ہیں۔ ان حضرات کے نزدیک اگر ان افعال کی ادائیگی میں تقدیم و تاخیر ہو جائے تو بطور جزاء (اس کے بدلہ میں) دم یعنی جانور ذبح کرنا واجب نہیں ہوتا۔ علماء کی ایک جماعت کا کہنا یہ ہے کہ مذکورہ بالا ترتیب واجب ہے۔ حضرت امام اعظم اور حضرت امام مالک بھی اس جماعت کے ساتھ ہیں۔ یہ حضرات کہتے ہیں کہ ارشاد گرامی " اس میں کوئی حرج نہیں ہے" کا مطلب صرف اتنا ہے کہ یہ تقدیم و تاخیر چونکہ ناواقفیت یا نسیان کی وجہ سے ہوئی ہے اس لئے اس میں کوئی گناہ نہیں ہے لیکن جزاء کے طور پر دم یعنی جانور ذبح کرنا واجب ہو گا۔ لہٰذا ان حضرات کے مسلک کے مطابق ان چاروں چیزوں میں سے کوئی چیز اگر مقدم یا مؤخر ہو گئی تو بطور جزاء ایک بکری یا اس کے مانند کوئی جانور ذبح کرنا ضروری ہو گا۔ علامہ طیبی فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عباسرضی اللہ عنہ نے ایسی ہی ایک حدیث روایت کی ہے جب کہ خود انہوں نے مذکورہ افعال کی تقدیم و تاخیر کے سلسلہ میں دم واجب کیا ہے اگر وہ حدیث کے وہ معنی نہ سمجھتے جو حضرت امام اعظم اور ان کے ہمنواء علماء نے سمجھے ہیں تو وہ خود دم واجب کیوں کرتے؟
-
--
اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ قربانی کے دن منیٰ میں لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے (تقدیم و تاخیر کے سلسلسہ میں) مسائل دریافت کررہے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم جواب میں یہی فرماتے تھے کہ" کوئی حرج نہیں ہے "چنانچہ ایک شخص نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ میں نے شام ہونے کے بعد کنکریں ماری ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ"کوئی حرج نہیں ہے۔"(بخاری) تشریح دوسرے ائمہ کا مسلک تو یہ ہے کہ اگر کوئی شخص قربانی کے دن کنکریاں مارنے میں اتنی تاخیر کرے کہ آفتاب غروب ہو جائے تو اس پر دم واجب ہو گا، چنانچہ ان کے نزدیک حدیث میں " شام کے بعد" سے مراد " بعد عصر" ہے۔ حنفیہ کے ہاں اس بارہ میں تفصیل ہے اور وہ یہ کہ دسویں ذی الحجہ کو طلوع فجر کے بعد اور طلوع آفتاب سے پہلے کا وقت کنکریاں مارنے کے لئے وقت جواز ہے مگر اساء ۃ کے ساتھ، یعنی اگر کوئی شخص طلوع فجر کے بعد ہی کنکریاں مارے تو یہ جائز ہو جائے گا مگر یہ اچھا نہیں ہو گا۔ طلوع آفتاب کے بعد سے زوال آفتاب تک کا وقت، وقت مسنون ہے۔ زوال آفتاب کے بعد سے غروب آفتاب تک کا وقت، وقت جواز ہے مگر بغیر اساء ۃ کے یعنی اگر کوئی شخص زوال آفتاب کے بعد سے غروب آفتاب تک کے کسی حصہ میں کنکریاں مارے تو یہ جائز بھی ہو گا اور اس کے بارہ میں یہ بھی نہیں کہیں گے کہ اس نے اچھا نہیں کیا ۔ البتہ " وقت مسنون" کی سعادت اسے حاصل نہیں ہو گی۔ اور غروب آفتاب کے بعد یعنی رات کا وقت، وقت جواز ہے مگر کراہت کے ساتھ۔ مگر اتنی بات ذہن میں رہے کہ کراہت اس صورت میں ہے جب کہ کوئی شخص بلا عذر اتنی تاخیر کرے کہ آفتاب بھی غروب ہو جائے اور پھر وہ رات میں کنکریاں مارے، چنانچہ اگر چرواہے یا ان کے مانند وہ لوگ جو کسی عذر کی بناء پر رات ہی میں کنکریاں مار سکتے ہوں تو ان کے حق میں کراہت نہیں ہے، البتہ اس حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ فرمانا کہ" کوئی حرج نہیں ہے" اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ سائل کوئی چرواہا ہوگا جس نے " شام کے بعد" یعنی رات میں کنکریاں ماریں اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کے بارہ میں فرمایا کہ تم چونکہ دن میں کنکریاں مارنے سے معذور تھے اس لئے رات میں کنکریاں مارنے کی وجہ سے تم پر کوئی گناہ نہیں۔ علامہ ابن ہمام فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص بلا عذر رمی کنکریاں مارنے میں اتنی تاخیر کرے کہ صبح ہو جائے تو وہ رمی کرے گا مگر اس پر بطور جزاء دم یعنی جانور ذبح کرنا واجب ہو جائے گا، یہ حضرت امام اعظم کا قول ہے صاحبین کا اس سے اختلاف ہے۔ یوم نحر کے بعد کے دو دنوں یعنی ذی الحجہ کی گیارہویں اور بارہویں تاریخ میں کنکریاں مارنے کا وقت مسنون زوال آفتاب کے بعد سے غروب آفتاب تک ہے اور غروب آفتاب کے بعد سے فجر طلوع ہونے تک مکروہ ہے، لہٰذا فجر طلوع ہوتے ہی حضرت امام اعظم کے نزدیک وقت ادا ختم ہو جاتا ہے جب کہ صاحبین یعنی حضرت امام ابویوسف اور حضرت امام محمد کے نزدیک وقت ادا طلوع فجر کے بعد بھی باقی رہتا ہے، گویا رمی کا وقت طلوع فجر کے بعد بالاتفاق باقی رہتا ہے فرق صرف اتنا ہے کہ اس وقت کی رمی حضرت امام اعظم کے ہاں وقت قضا میں ہو گی اور صاحبین کے ہاں وقت ادا ہی میں! اور چوتھے دن یعنی ذی الحجہ کی تیرہویں تاریخ کو آفتاب غروب ہوتے ہی متفقہ طور پر سب کے نزدیک رمی کا وقت ادا بھی فوت ہو جاتا ہے اور وقت قضا بھی ۔
-
عن علي قال : أتاه رجل فقال : يا رسول الله إني أفضت قبل أن أحلق فقال : " احلق أو قصر ولا حرج " . وجاء آخر فقال : ذبحت قبل أن أرمي . قال : " ارم ولا حرج " . رواه الترمذي-
حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ! میں نے طواف افاضہ یعنی فرض طواف سر منڈانے سے پہلے کر لیا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اب سر منڈالو یا بال کتروا لو۔ اس میں کوئی گناہ نہیں ہے۔ اسی طرح ایک اور شخص نے آ کر عرض کیا کہ میں نے کنکریاں مارنے سے پہلے جانور ذبح کر لیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اب کنکریاں مار لو، اس میں کوئی گناہ نہیں ہے۔ (ترمذی)
-
عن أسامة بن شريك قال : خرجت مع رسول الله صلى الله عليه و سلم حاجا فكان الناس يأتونه فمن قائل : يا رسول الله سعيت قبل أن أطوف أو أخرت شيئا أو قدمت شيئا فكان يقول : " لا حرج إلا على رجل اقترض عرض مسلم وهو ظالم فذلك الذي حرج وهلك " . رواه أبو داود-
حضرت اسامہ بن شریکرضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مجھے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ ادائیگی حج کی سعادت حاصل ہوئی ہے چنانچہ حج کے دوران جو لوگ مسائل پوچھنے کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں آتے تھے ، ان میں کوئی یہ کہتا کہ یا رسول اللہ! میں نے طواف کعبہ سے پہلے سعی کر لی ہے یا افعال منیٰ میں سے یہ کام میں نے پہلے کر لیا یا یہ کام میں نے بعد میں کیا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس سے فرماتے کہ " اس میں کوئی گناہ نہیں ہے، بلکہ گناہ اس شخص پر ہے جو ظالم ہونے کی وجہ سے کسی مسلمان کی آبروریزی کرے پس یہ وہ شخص ہے جو گنہگار ہے اور ہلاک ہوا۔ (ابوداؤد) تشریح اگر احرام باندھنے اور طواف قدوم یا طواف نفل سے پہلے سعی کر لی جائے تو صحیح نہیں ہو گی یعنی طواف افاضہ سے پہلے سعی کر لینے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے لیکن یہ ضروری ہے کہ سعی ، احرام اور طواف کے بعد ہو خواہ نفل ہی طواف ہو۔ اس لئے " میں طوف کعبہ سے پہلے سعی کر لی ہے" کے بارہ میں یہ کہا جائے گا کہ سائل اگر آفاقی (یعنی غیر مکی ) تھا تو اس کا مطلب یہ تھا کہ میں نے حج کے احرام اور طواف قدوم کے بعد اور طواف افاضہ سے پہلے سعی کر لی ہے۔ اور اگر سائل مکی تھا تو پھر اس کا مطلب یہ ہو گا کہ " میں نے حج کے احرام اور طواف نفل کے بعد طواف افاضہ سے پہلے سعی کر لی ہے" ۔ حدیث کے آخری الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ اگر افعال منیٰ میں نادانستگی کی وجہ سے کوئی تقدیم و تاخیر ہو جائے تو کوئی گناہ کی بات نہیں ہے، بلکہ دراصل گناہگار تو وہ شخص ہے جو از راہ ظلم و ایذاء رسانی ناحق کسی کی آبروریزی کرے مثلاً کسی کی اہانت کرے یا کسی کی غیبت کرے۔ گویا وہ شخص اس حکم میں داخل نہیں رہا جو دین کی خاطر کسی کی آبروریزی کرے چنانچہ ایسا شخص گنہگار نہیں ہوتا۔
-