ازار کا نصف ساق تک ہونا پسندیدہ ہے

عن ابن عمر قال : مررت برسول الله صلى الله عليه وسلم وفي إزاري استرخاء فقال : " يا عبد الله ارفع إزارك " فرفعته ثم قال : " زد " فزدت فما زلت أتحراها بعد فقال : بعض القوم : إلى أين ؟ قال : " إلى أنصاف الساقين " . رواه مسلم-
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب سے گزرا اس وقت میرا تہبند لٹکا ہوا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عبداللہ ! اپنا تہبند اونچا کرو ۔ میں نے تھوڑا سا اونچا کر لیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اور اونچا کرو ، میں نے اور اونچا کرلیا پھر حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس حکم کے بعد میں برابر عمل (یعنی تہبند کو اونچا کرتے رہنے ) کی طرف متوجہ رہتا ہوں، بعض لوگوں نے ان سے پوچھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے تہبند کو کتنا اونچا رکھتے ہیں انہوں نے فرمایا کہ " آدھی پنڈلیوں تک ۔" (مسلم ) تشریح " اتحراھا " کی ضمیر اصل میں فعلہ جو مخدوف ہے کی طرف راجع ہے چنانچہ ترجمہ اسی کے مطابق کیا گیا ہے لیکن بظاہر صحیح یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس کی ضمیر رفعہ اخیرہ کی طرف راجع ہے ۔ اس صورت میں ترجمہ یوں ہو گا کہ میں ہمیشہ اس بات کی طرف متوجہ رہتا ہوں کہ میرا تہبند آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی منشاء کے مطابق اونچا ہے ۔ بہرحال مطلب دونوں صورتوں کا ایک ہی ہے ۔
-