اذان کا بعض احکام کا بیان

عَنِ اَبنِْ عُمَرَص قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اِنَّ بِلَالًا ےُّنَادِیْ بِلَےْلٍ فَکُلُوْا وَاشْرَبُوْا حَتّٰی ےُنَادِیَ ابْنُ اُمِّ مَکْتُوْمٍ قَالَ وَکَانَ ابْنُ اُمِّ مَکْتُوْمٍ رَجُلًا اَعْمٰی لَا ےُنَادِیْ حَتّٰی ےُقَالَ لَہُ اَصْبَحْتَ اَصْبَحْتَ۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)-
" حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، بلال (فجر کی اذان خاص) رات کو دے دیتے ہیں لہٰذا جب تک ابن ام مکتوم اذان دیں تم (رمضان میں سحری ) کھاتے پیتے رہا کرو۔ حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ابن ام مکتوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک نابینا آدمی تھے، جب تک ان سے کوئی یہ نہ کہتا تھا کہ تم نے صبح کردی، تم نے صبح کردی، وہ اذان نہ دیتے تھے۔" (صحیح البخاری و صحیح مسلم ) تشریح اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دو مؤذن تھے، ایک مؤذن تو فجر کے وقت سے پہلے رات کو اذان دیتا تھا اور دوسرا نماز فجر کا وقت شروع ہونے کے بعد اذان دیتا تھا۔ چنانچہ حضرات شوافع کے یہاں دو مؤذن مقرر کرنا سنت ہے ایک فجر سے پہلے اخیر آدھی رات کو اذان دینے کے لیے اور دوسرا فجر کے اول وقت پر اذان دینے کے لیے۔ حضرات حنفیہ فرماتے ہیں کہ پہلا مؤذن سحر کے لیے یا تہجد کے لیے تھا، اس کا تعلق نماز فجر کی اذان سے نہیں تھا کیونکہ ایک روایت میں خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کی اذان وقت سے پہلے دینے سے منع فرمایا ہے، چنانچہ اسی لیے حنفیہ کے ہاں فجر کی نماز کے لیے وقت سے پہلے رات کو اذان دینا جائز نہیں ہے۔ حدیث کے آخری جملے اصبحت اصبحت (یعنی تم نے صبح کر دی، تم نے صبح کر دی) سے یہ اشکال پیدا ہوتا ہے کہ جب حضرت ابن ام مکتوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ صبح ہو جانے کے بعد اذان دیتے تھے تو اس وقت تک سحری کھانا پینا کیسے جائز ہو ا؟۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اصبحت کے معنی یہ ہیں کہ " صبح ہونے والی ہے" اسی کو بطور مبالغہ اصبحت سے تعبیر کیا گیا ہے۔
-
ووَعَنْ سَمُرَۃَ بْنِ جُنْدُبٍ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم لَا یَمْنَعَنَّکُمْ مِنْ سُحُورِ کُمْ اَذَانُ بلاَلٍ وَلَا الْفَجْرُ الْمُسْتَطِیْلُ وَلٰکِنَّ الْفَجْرَ الْمُسْتَطِیْرَ فِیْ الْاُفُقِ (المسلم وَ لَفْظُہُ لِلتِّرْمِذِیّ)-
" اور حضرت سمرہ ابن جندب رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، بلال کی اذان تمہیں تمہاری سحری کھانے سے نہ رو کے (کیونکہ وہ رات کو اذان دیتے ہیں) اور نہ فجر دراز (یعنی صبح کا ذب) البتہ افق پر پھیلی ہوئی فجر (یعنی صبح صادق نمودار ہو جاے تو کھانا پینا چھوڑ دو) (صحیح مسلم) الفاظ جامع ترمذی کے ہیں۔"
-
وَعَنْ مَّالِکِ بْنِ الْحُوَےْرِثِ قَالَ اَتَےْتُ النَّبِیَّ صلی اللہ علیہ وسلم اَنَا وَابْنُ عَمٍّ لِّی فَقَالَ اِذَا سَافَرْتُمَا فَاَذِّنَا وَاَقِےْمَا وَلْےَؤُمَّکُمَا اَکْبَرُکُمَا۔ (صحیح البخاری)-
" اور حضرت مالک ابن حویرث رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں اور میرے چچا کے صاحبزادے (ہم دونوں) سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ، جب تم سفر میں جاؤ تو (نماز کے لیے) اذان و تکبیر کہا کرو اور تم میں سے جو بڑا ہو وہ امامت کرائے۔" (صحیح البخاری ) تشریح غالباً یہ دونوں حضرات علم و ورع میں ہم پلہ ہوں گے اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے امام بننے کا حقدار اسے قرار دیا جو عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں بڑا ہو، یا پھر " اکبر" (یعنی بڑے) سے مراد افضل ہے کہ دونوں میں سے جوا فضل ہو وہ امامت کرے ۔ اس سے معلوم ہوا کہ ا فضیلت کی شرط اذان میں نہیں ہے، تاہم چاہیے یہی کہ اذان وہ آدمی دے جو اقامت نماز کا علم رکھتا ہو، نیک اور دیندار ہو، بلند آواز اور خوش گلو ہو اور اذان کے کلمات صحیح صحیح ادا کر سکتاہو۔
-
وَعَنْہُ قَالَ قَالَ لَنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم صَلُّوْا کَمَا رَاَےْتُمُوْنِیْ اُصَلِّیْ وَاِذَا حَضَرَتِ الصَّلٰوۃُ فَلْےُؤَذِّنْ لَکُمْ اَحَدُکُمْ ثُمَّ لِےَؤُمَّکُمْ اَکْبَرُکُمْ۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)-
" اور حضرت مالک ابن حویرث رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ تم مجھے جس طرح نماز پڑھتے ہوئے دیکھتے ہو اسی طرح تم بھی پڑھا کرو، اور جب نماز کا وقت آجائے تو تم میں سے کوئی اذان دے دیا کرے اور جو تم میں بڑا ہو وہ امام بن جایا کرے۔" (صحیح البخاری و صحیح مسلم) تشریح مطلب یہ ہے کہ امامت کا مستحق وہی آدمی ہوگا جو علم و فضل میں سب سے بڑھا ہوگا اور اگر علم و فضل کے اعتبار سے سب برابر ہوں تو جو آدمی عمر میں سب سے بڑا ہوگا وہ امام بنے گا۔ عمر سے مراد وہ عمر ہے جو ایمان و اسلام کی حالت میں گزری ہو یعنی جس آدمی کو اسلام قبول کئے ہوئے بہت عرصہ ہوگیا ہو وہ حکمًا ان لوگوں سے بڑا قرار دیا جائے گا جو اسکے بعد ایمان و اسلام کی سعادت سے مشرف ہوئے ہیں خواہ وہ عمر میں ان سب سے چھوٹا ہی کیوں نہ ہو، کیونکہ پہلے اسلام قبول کرنے والے آدمی کو دین و شریعت کا علم بعد میں اسلام کے حلقہ بگوش ہونے والوں سے زیادہ ہوتا ہے۔
-
عَنْ اَبِیْ ھُرَےْرَۃَص قَالَ اِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم حِےْنَ قَفَلَ مِنْ غَزْوَۃِ خَےْبَرَ سَارَ لَےْلَۃً حَتّٰی اِذَا اَدْرَکَہُ الْکَرٰی عَرَّسَ وَقَالَ لِبِلَالٍ اِکْلَأ لَنَا اللَّےْلَ فَصَلّٰی بِلَالٌ مَّا قُدِّرَ لَہُ وَنَامَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم وَاَصْحَابُہُ فَلَمَّا تَقَارَبَ الْفَجْرُ اسْتَنَدَ بِلَالٌ اِلٰی رَاحِلَتِہٖ مُوَجِّہَ الْفَجْرِ فَغَلَبَتْ بِلَالًا عَےْنَاہُ وَھُوَ مُسْتَنِدٌ اِلٰی رَاحِلَتِہٖ فَلَمْ ےَسْتَےْقِظْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلموَلَا بِلاَل ٌوَلَا اَحَدٌ مِّنْ اَصْحَابِہٖ حَتّٰی ضَرَبَتْھُمُ الشَّمْسُ فَکَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اَوَّلَھُمُ اسْتَےْقَاظًا فَفَزِعَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم فَقَالَ اَیْ بِلَالُ فَقَالَ بِلَالٌ اَخَذَ بِنَفْسِی الَّذِیْ اَخَذَ بِنَفْسِکَ قَالَ اقْتَادُوْا فَاَقْتَادَوْا رَوَاحِلَھُمْ شَےْئًا ثُمَّ تَوَضَّأَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم وَاَمَرَ بِلَالًا فَاَقَامَ الصَّلٰوۃَ فَصَلّٰی بِہِمُ الصُّبْحَ فَلَمَّا قَضَی الصَّلٰوَۃَ قَالَ مَنْ نَسِیَ الصَّلٰوۃَ فَلْےُصَلِّھَا اِذَا ذَکَرَھَا فَاِنَّ اللّٰہَ تَعَالٰی قَالَ وَاَقِمِ الصَّلٰوۃَ لِذِکْرِیْ۔(پ ١٦ رکوع ١٠) (صحیح مسلم)-
" اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم جب غزوہ خیبر سے واپس ہوئے تو رات بھر سفر کرتے رہے یہاں تک کہ (جب) آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر غنودگی طاری ہونے لگی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم آرام کرنے کے لیے آخر رات میں ایک جگہ اتر گئے اور حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا کہ تم ہمارا خیال رکھنا (یعنی صبح ہو جائے تو ہمیں جگا دینا ) یہ فرما کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین تو سو گئے اور حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے (تہجد کی) نماز جس قدر ہو سکی پڑھی۔ جب صبح صادق ہونے کو ہوئی، تو حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے کجاوے سے تکیہ لگا کر فجر (مشرق) کی جانب منہ کر کے بیٹھ گئے (تاکہ صبح صادق ہو جائے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے کوئی بھی بیدار نہ ہوا یہاں تک کہ جب ان کے اوپر دھوپ آگئی اور اس کی گرمی پہنچی) تو سب سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھ کھلی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے گھبرا کر فرمایا کہ بلال یہ کیا ہوا؟ حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ (بھی گھبرا کر اٹھ بیٹھے اور انہوں نے عرض) کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! مجھے بھی اس چیز نے پکڑ لیا جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پکڑ لیا تھا (یعنی نیند نے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، یہاں سے روانہ ہو جاؤ! چنانچہ سب لوگ تھوڑی دور تک اپنی اپنی سواریاں لے کر چلے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا اور حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو تکبیر کہنے کا حکم دیا۔ چنانچہ انہوں نے نماز کے لیے تکبیر کہی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو صبح کی نماز پڑھائی، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوگئے تو فرمایا، جو آدمی (نیند وغیرہ کی بناء پر ) نماز پڑھنی بھول جائے تو یاد آتے ہی فوراً اسے پڑھ لے اس لیے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے آیت ( وَاَ قِمِ الصَّلٰوةَ لِذِكْرِيْ ) 20۔طہ : 14) یعنی میرے یاد کرنے کے وقت نماز پڑھ لو۔ " (صحیح مسلم) تشریح خیبر مدینہ سے تقریباً سو میل کے فاصلے پر ہے، بنو نضیر کے یہودی جب مدینہ سے اجڑے تو خیبر جا بسے اور پھر خیبر یہودیوں کی سازشوں کا اڈا اور مرکز بن گیا۔ لہٰذا اسلام کی حفاظت کی خاطر اس بات کی ضرورت محسوس کی گئی کہ ان کے اس شر انگیز ٹھانے کو توڑ دیا جائے چنانچہ سات ہجری میں تقریباً سولہ سو مسلمان مجاہدین کا لشکر سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت میں خیبر روانہ ہوا اور وہاں پہنچ کر اس کا محاصرہ کر لیا گیا۔ یہ محاصرہ تقریباً دس روز تک جاری رہا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو فتح نصیب فرمائی اور خیبر کے تمام قلعوں پر قبضہ ہو گیا۔ اس غزوہ کی کامیابی کا سہرا حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے سر رہا اور انہیں " فاتح خبیر" کے عظیم لقب سے نوازا گیا کہ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلامی لشکر کا جھنڈا انہی کے ہاتھ دیا تھا ۔ اور یہی اسلامی لشکر کے کمانڈکر رہے تھے۔ اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے ان سے ایک خاص بہادری ظاہر کرائی کہ خیبر کا پھاٹک جو ستر آدمیوں سے بھی نہیں اٹھتا تھا انہوں نے تنہا اسے اکھاڑ پھینکا۔ جب فتح خیبر ہو گئی تو مسلمانوں اور وہاں کے یہودیوں کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا جس کی دو خاص دفعات یہ تھیں۔ (١) جب تک مسلماں چاہیں گے یہودیوں کو خیبر میں رہنے دیں گے اور جب نکالنا چاہیں گے تو ان کو خیبر سے نکلنا ہوگا۔ (٢) پیداوار کا ایک حصہ مسلمانوں کو دیا جائے گا۔ بہر حال۔ حدیث میں مذکورہ واقعہ اسی غزوے سے واپسی کے وقت پیش آیا تھا۔ اب یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ طلوع آفتاب کے بعد جب آنکھ کھل گئی تھی تو اسی جگہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قضا نماز کیوں نہ پڑھ لی؟ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو وہاں سے روانہ ہونے کا حکم دینے کا سبب کیا تھا؟ چنانچہ اس سلسلے میں علماء کرام کے مختلف اقوال ہیں حنفی علماء جن کے نزدیک طلوع آفتاب کے وقت قضا نماز پڑھنا منع ہے، فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جگہ سے کوچ کرنے کا حکم اس وجہ سے دیا تھا تاکہ آفتاب بلند ہو جائے اور نماز کے لیے وقت مکروہ نکل جائے۔ شافعی علماء جن کے ہاں طلوع آفتاب کے وقت قضاء پڑھنی جائز ہے فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے قضا نماز پڑھے بغیر فوراً اس لیے روانہ ہوئے کہ وہ جگہ شیاطین کا مسکن تھی جیسا کہ دوسری روایتوں میں اس کی تصریح موجود ہے چنانچہ صحیح مسلم ہی کی روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ دھوپ پھیل جانے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حکم دیا کہ ہر آدمی اپنی سواری کی عیال پکڑ لے (اور روانہ ہو جائے) اس لیے کہ اس جگہ ہمارے پاس شیطان آگیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو صرف تکبیر کہنے کا حکم دیا، اذان کے لیے نہیں فرمایا، اس سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ قضاء نماز کے لیے اذان دینا ضروری نہیں ہے جیساکہ قول جدید کے مطابق حضرت امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کا مسلک یہی ہے۔ لیکن شافعی علماء کے نزدیک قول قدیم کے مطابق صحیح اور معتد مسلک یہی ہے کہ قضاء نماز کے لیے بھی اذان کہنی چاہئے۔ بعض روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت نماز کے لیے اذان کہی گئی تھی چنانچہ ہدایہ میں مذکور ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لیلۃ التعریس(یعنی مذکورہ رات ) کی صبح کو نماز فجر کی قضا اذان و تکبیر کے ساتھ پڑھی تھی۔ شیخ ابن الہمام رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ نے اس سلسلے میں صحیح مسلم اور سنن ابوداؤد کی کئی حدیثیں نقل کی ہیں اور فرمایا ہے کہ صحیح مسلم کی اس روایت میں جو کچھ ذکر کیا گیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو تکبیر کہنے کا حکم دیا چنانچہ انہوں نے تکبیر کہی۔ غر مرادف نہیں ہے۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارہ میں صحیح طور پر یہ ثابت ہو چکا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت اذان و تکبیر کے ساتھ نماز پڑھی تھی، لہٰذا اس روایت میں فاقام الصلوۃ کے معنی یہ ہیں کہ " چنانچہ انہوں نے نماز کے لیے اذان کے بعد تکبیر کہی" ۔ یہاں ایک ہلکا سا خلجان اور پیدا ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ میری آنکھیں سوتی ہیں اور میرا دل بیدار رہتا ہے۔ تو دل کے جاگتے رہنے کے باوجود اس کی کیا وجہ تھی کہ صبح صادق طلوع ہو جانے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم مطلع نہیں ہوئے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ آفتاب کے طلوع و غروب کو دیکھنا آنکھوں کا کام ہے دل کا کام نہیں ہے لہٰذا دل کی بیداری کے باوجود صبح صادق کے طلوع ہو جانے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس لیے مطلع نہیں ہوئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھیں سو رہی تھی۔ اور اگر کوئی یہ سوال کے بیٹھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کشف یا وحی کے ذریعہ اطلاع کیوں نہ دی گئی؟ تو اس کا جواب یہ ہوگا کہ یہ تو اللہ تعالیٰ کی مرضی پر موقوف تھا، نیز اس میں یہ حکمت بھی تھی کہ اس طریقے سے امت کو قضا کے احکام معلوم ہوگئے۔
-
وَعَنْ اَبِیْ قَتَادَۃَص قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اِذَا اُقِےْمَتِ الصَّلٰوۃُ فَلَا تَقُوْمُوْا حَتّٰی تَرَوْنِیْ قَدْ خَرَجْتُ۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)-
" اور حضرت ابوقتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ جب نماز کے لیے تکبیر کہی جائے تو جب تک تم مجھے حجرہ سے نکلتا ہوا نہ دیکھ لو نماز کے لیے کھڑے نہ ہوا کرو۔" (صحیح بخاری و صحیح مسلم) تشریح فقہاء نے لکھا ہے کہ تکبیر کہنے والا جب حی علی الصلوۃ کہے تو مقتدیوں کو اس وقت کھڑا ہونا چاہئے چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اسی وقت اپنے حجرہ سے نکلتے ہوں گے۔
-
وعَنْ اَبِیْ ہُرَےْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اِذَا اُقِےْمَتِ الصَّلٰوۃُ فَلَا تَاْتُوْھَا تَسْعَوْنَ وَاْتُوْھَا تَمْشُوْنَ وَعَلَےْکُمُ السَّکِےْنَۃَ فَمَا اَدْرَکْتُمْ فَصَلُّوْا وَمَا فَاتَکُمْ فَاَتِمُّوْا متفق علیہ و فی روایۃ لِمُسْلِمٍ فَاِنَّ اَحَدَکُمْ اِذَا کَانَ یَعْمِدُ اِلٰی الصَّلٰوۃِفَھُوَ فِی الصّلٰوۃِ۔-
" اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جب نماز کی تکبیر ہو جائے تو تم (جماعت میں شامل ہونے کے لیے ) دوڑتے ہوئے نہ آؤ بلکہ وقار و طمانیت کے ساتھ اپنی چال آؤ، جس قدر نماز تم کو (امام کے ساتھ) مل جائے پڑھ لو اور جو فوت ہو جائے (امام کے سلام کے بعد اٹھ کر) اسے پوری کر لو (صحیح البخاری و صحیح مسلم ) اور مسلم کی ایک روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں اس لیے کہ جب تم میں سے کوئی نماز کا ارادہ کر لیتا ہے تو اس کو (حکماً) نماز ہی میں شامل سمجھا جاتا ہے۔" تشریح عام طور پر یہ دیکھا گیا ہے کہ جب نماز کھڑی ہو جاتی ہے تو وہ لوگ جو دیر سے مسجد پہنچتے ہیں نماز میں شامل ہونے کے لیے اور خصوصاً اس وقت جب کہ امام رکوع میں چلا جاتا ہے بہت بے تکے طریقے سے بھاگتے ہوئے آتے ہیں اور نماز میں شریک ہو جاتے ہیں ایسے لوگوں کو اس حدیث سے متنبہ ہونا چاہئے کہ ان کا یہ طریقہ سراسر منشاء شریعت کے خلاف ہے۔ چنانچہ نہ صرف یہ کہ اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ جماعت کھڑی ہو جانے پر بھاگ کر آنا جائز نہیں ہے بلکہ علماء کرام نے یہ بھی لکھا ہے کہ نماز کے لیے دوڑ کر آنا کمزوری عقل اور غفلت کی علامت ہے کیونکہ نماز کے لیے مستعدی اور چستی اس طرح تو شریعت کی نظر میں قابل تعریف ہوگی کہ اگر کسی کو تکبیر اولیٰ کے فوت ہونے یا کسی رکعت کے چھوڑ جانے کا خوف ہو تو وہ پہلے ہی جلدی کر لیا کرے اور جماعت شروع ہونے سے پہلے مسجد پہنچ جایا کرے۔ (حضرت شیخ عبدالحق)۔ ملا علی قاری رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ علماء کرام کے ہاں اس بارے میں اختلاف ہے کہ اگر کسی آدمی کو تکبیر اولیٰ کے فوت ہو جانے کا اندیشہ ہو تو وہ دوڑتا ہوا آئے یا نہیں؟ چنانچہ بعض حضرات نے کہا ہے کہ ایسا آدمی دوڑ کر آسکتا ہے کیونکہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں منقول ہے کہ وہ بقیع میں تھے کہ انہوں نے مسجد سے تکبیر کی آواز سنی تو دوڑتے ہوئے مسجد کی طرف آئے۔ اور بعض علماء نے یہ مناسب قرار دیا ہے کہ ایسے آدمی کو اس حدیث کے پیش نظر وقار و طمانیت کے ساتھ ہی چل کر مسجد آنا چاہئے کیونکہ جو آدمی نماز کا ارادہ کرتا ہے تو گویا وہ نماز ہی میں شامل سمجھا جاتا ہے۔ لیکن اتنی بات سمجھ لینی چاہئے کہ یہ حکم ان لوگوں کے لیے ہوگا جو نادانستہ یا کسی مجبوری و معذوری کی بناء پر لیٹ ہو جائے ورنہ اگر کوئی آدمی دانستہ نماز میں آنے کے لیے دیر کرے تو وہ اس میں شامل نہیں۔ بہر حال اس سلسلے میں صحیح اور مناسب یہ ہے کہ اگر کوئی آدمی تاخیر سے مسجد میں پہنچے تو اسے چاہئے کہ وہ جماعت میں شریک ہونے کے لیے وقار و طمانیت کے ساتھ تیز تیز چل کر آئے بالکل بے تکے طریقے سے دوڑتا ہوا نہ آئے تاکہ اس حدیث پر عمل بھی ہو جائے اور تکبیر اولیٰ کا ثواب بھی ہاتھ سے نہ جائے۔ اسی طرح نماز جمعہ کا حکم بھی یہی ہے کہ اگر کسی آدمی کو مسجد پہنچنے میں دیر ہو جائے اور اس بات کا یقین ہو کہ اگر جلدی نہ کی تو امام سلام پھیر دے گا اور میں نماز سے رہ جاؤں گا تو اسے تیزی سے آکر امام کے ساتھ نماز میں شریک ہو جانا چاہئے۔
-
عَنْ زَیْدِ بْنِ اَسْلَمَ قَالَ عَرَّسَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم لَیْلَۃً بَطَرِیْقِ مَکَّۃَ وَوَکَّلَ بِلاَلاً اَنْ یُّوْقَظَھُمْ لِلصَّلاَۃِ فَرَقَدَ بِلاَلٌ وَرَقَدُ وْ احَتَّی اسْتَیْقَظُوْا وَقَدْ طَلَعَتْ عَلَیْھِمُ الشَّمْسُ فَاسْتَیْقَظَ الْقَوْمَ فَقَدْ فْرِعُوْاَ فَامَرَ ھُمْ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲِ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَنْ یَّرْکَبُوْا حَتَّی یَخْرُ جُوْا مِنْ ذٰلِکَ الْوَادِیْ وَقَالَ اِنَّ ھَذَا وَادٍبِہٖ شَیْطَانٌ فَرْکَبُوْا حَتَّی خَرَ جُوْا مِنْ ذَلِکَ الْوَادِیْ ثُمَّ اَمَرَ ھُمْ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲِ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَنْ یَّنْزِلُوْاوَاَنْ یَّتَو ضَّؤُاوَاَمَرَ بِلاَلاً اَنْ یُّنَادِیْ لِلصَّلَاۃِ اَوْ یُقِیْمَ فَصَلّٰی رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲِ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِالنَّاسِ ثُمَّ انْصَرَفَ وَقَدْرَاٰی مِنْ فَزْعِھِمْ فَقَالَ یَا اَیُّھَا النَّاسَ اِنَّ اﷲِ قَبَضَ اَرْوَاحَنَا وَلَوْ شَآ ءَ لَرَدَّھَا اِلِیْنَا فِیْ حَیْنِ غَیْرِ ھٰذَا فَاِذَا رَقَدَ اَحَدُ کُمْ عَنِ الصَّلٰوۃِ اَوْنَسِیَھَا ثُمَّ فَزِعَ اِلَیْھَا فَلْیُصَلِّّھَا کَمَا یُصَلِّیْھَا فِیْ وَقْتِھَا ثُمَّ الْتَفَتَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲِ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِلٰی اَبِیْ بَکْرِنِ الصََّدِّیْقِ فَقَالَ اِنَّ الشَّیْطَانَ اَتٰی بِلاَ لاَ وَھُوَ قَائِمٌ یُصَلِّی فَاَضْجَعَہُ ثُمَّ لَمْ یَزِلْ یَھْدِئُہُ کَمَا یُھْدَءُ الصَّبِْی ء حَتَّی نَامَ ثُمَّ دُعَا رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲِ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِلاَ لاً فَاَخْبَرَ بِلاَلٌ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲِ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَ الَّذِیْ اَخْبَرَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲِ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَبَابَکْرٍ فَقَالَ اَبُوْبَکّرٍ اَشْھَدُاَنَّکَ رَسُوْلَ اﷲِ (رَوَاہُ مُوْطَا مَالَکْ مُرْسَلاً۔ )-
" حضرت زید ابن اسلم رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم مکہ معظمہ کے راستے میں (آرام کرنے کے لیے) آخر رات میں ٹھہرے اور حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حکم دیا کہ (صبح کی) نماز کے لیے سب کو جگا دیں اور جب سب لوگ سو گئے۔ (تھوڑی دیر کے بعد نیند کے غلبے کی وجہ سے) حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بھی آنکھ لگ گئی۔ (پہلے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے بعد ) تمام لوگ اس وقت جاگے جب کہ آفتاب طلوع ہو چکا تھا۔ سب لوگ(نماز قضاء ہوجانے کی وجہ سے ) گھبرا گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو حکم دیا کہ سوار ہو کر اس جنگل سے باہر نکل چلیں اور فرمایا کہ یہ ایک ایسا جنگل ہے جس پر شیطان مسلط ہے چنانچہ سب لوگ سوار ہو کر اس جنگل سے نکل آئے۔ (ایک جگہ پہنچ کر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ (یہاں) اتر جاؤ اور وضو کر لو۔ اور حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو نماز کے لیے اذان و تکبیر کہنے کا حکم دیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کے ساتھ (صبح کی) نماز (قضاء باجماعت) پڑھی جب نماز سے فارغ ہو کر لوگوں کو گھبرایا ہوا دیکھا تو (تسلی دینے کے لیے) فرمایا کہ لوگو! اللہ تعالیٰ نے (سونے کے وقت ) ہماری روحیں قبض کر لیں تھیں اگر وہ چاہتا تو ہماری روحوں کو دوسرے وقت (یعنی آفتاب طلوع ہونے سے پہلے) واپس کر دیتا۔ لہٰذا اگر تم میں سے کوئی نماز کے وقت غافل سو جائے یا نماز پڑھنی بھول جائے اور (اس غفلت و نسیان سے) گھبرائے تو اسے چاہئے کہ وہ اس نماز کو اسی طرح (یعنی اذان و تکبیر اور جماعت کے ساتھ نیز نماز کی تمام شرائط و آداب کو ملحوظ رکھتے ہوئے) پڑھ لے جس طرح اسے اس کے وقت میں پڑھتا تھا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا۔ بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کھڑے ہوئے نماز پڑھ رہے تھے کہ شیطان ان کے پاس آیا اور انہیں (کجاوے کا) سہارا لینے پر مجبور کر دیا اور جس طرح بچوں کو (سلانے کے لیے) تھپکی دی جاتی ہے شیطان انہیں تھپکتا رہا۔ یہاں تک کہ بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر نیند طاری ہوگئی۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بلایا۔ حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ویسا ہی بیان کیا جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بیان فرمایا تھا۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے (حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان سن کر فرمایا)، کہ میں اس بات کی (پوری یقین کے ساتھ) گواہی دیتا ہون کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں۔ (یہ روایت امام مالک نے رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ مرسلا نقل کی ہے۔)" تشریح اس قسم کا ایک واقعہ حدیث نمبر پانچ میں ذکر کیا جا چکا ہے مگر بظاہر معلوم یہ ہوتا ہے کہ یہ واقعہ پہلے واقعہ سے الگ کوئی دوسرا واقعہ ہے کیونکہ وہ واقعہ تو مدینہ اور خیبر کے راستے اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے مکہ اور مدینہ کے درمیان رونما ہوا تھا۔ حدیث کے الفاظ ینادی للصلوۃ او یقیم میں لفظ او جمع کا مفہوم ادا کر رہا ہے جیسا کہ حرف واو دو چیزوں کو جمع کرنے کے موقع پر استعمال کیا جاتا ہے۔ اس طرح اس کے معنی جیسا کہ ترجمہ میں ظاہر کیا گیا ہے یہ ہوں گے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اذان اور تکبیر کہنے کا حکم دیا، یا پھر لفظ او اپنے حقیقی مفہوم یعنی شک کو ظاہر کر رہا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اذان یا تکبیر کہنے کا حکم دیا۔ مگر صحیح اور اولیٰ پہلے ہی معنی ہیں کیونکہ اس کی تائید ابوداؤد کی روایت سے بھی ہوتی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں الحدیث ( اَنَّہُ صَلَّی ا عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَمَرَ بِلاَ لاً بِالَا ذَانِ وَالْاَ قَامَۃِ ) (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلال کو رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اذان و تکبیر کہنے کا حکم دیا)۔ فلیصلھا کما کان یصلیھا فی وقتھا (وہ اس نماز کو اس طرح پڑھ لے جس طرح اسے اس کے وقت میں پڑھتا تھا ) یہ الفاظ بظاہر اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ اگر جہری نماز قضا ہوئی ہو تو اس کی قضا میں جہر ہی کے ساتھ پڑھائی جائے اور اگر سری نماز قضا ہوئی ہے تو اس کی قضا بھی سری ہی کے ساتھ پڑھ دی جائے۔ مگر بعض حنفی علماء نے اس سلسلے میں اختلاف کرتے ہوئے کہا ہے کہ قضاء نماز کو بہر صورت سر یعنی خاموشی کے ساتھ پڑھنا واجب ہے۔ " اَضْجَحَہُ " اسندہ کے مفہوم میں ہے یعنی شیطان نے بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اس طرح سہارا دیا کہ ان پر غفلت طاری ہوگئی، جیسا کہ پہلے واقعہ کے سلسلے میں گزر چکا ہے کہ حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ تہجد کی نماز سے فارغ ہو کر اپنے کجاوے سے سہارا لگا کر سو گئے تھے۔ یہاں ایک سوال یہ پیدا ہو سکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قضاء نماز پڑھنے کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو مخاطب کرتے ہوئے ان اللہ قبض ارواحنا ( اللہ تعالیٰ نے ہماری روحیں قبض کرلی تھیں) فرما کر اس طرف اشارہ فرمایا تھا کہ ہم سب کا اس موقعہ پر سو جانا درحقیقت تقدیر الہٰی کی بناء پر تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے اوپر اس طرح غفلت کی نیند مسلط کر دی کہ ہم نماز کے وقت جاگ نہ سکے۔ مگر بعد میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پیش آمدہ صورت کی حقیقت بیان کرتے ہوئے نیند کی اس غفلت کی نسبت شیطان کی طرف فرمائی کہ شیطان نے ایسا طریقہ اختیار کیا کہ بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ غافل ہو کر سوئے رہے اور وقت پر نہ اٹھ سکے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ سب لوگ سوتے رہے اور نماز قضاء ہوگئی۔ تو اس سے بظاہر دونوں باتوں میں تعارض نظر آتا ہے کہ پہلے تو غفلت کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کی پھر بعد میں اس غفلت کی نسبت شیطان کی طرف کی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ مسئلہ خلق افعال سے متعلق ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے اندر نسیان اور غفلت پیدا کرنے کا ارادہ کیا چنانچہ اس نے شیطان کو اس بات پر قادر کر دیا کہ مذکورہ طریقوں یعنی حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو تھپکنے وغیرہ سے لوگوں کو غفلت کی نیند میں مبتلا کر دے۔ یہ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اعجاز شان کی زبردست غمازی کرتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے معجزے کے طور پر حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سو جانے کی پوری حقیقت و کیفیت بیان کر دی باوجودیکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ظاہری آنکھوں سے اس حقیقت کا مشاہدہ نہیں کیا تھا چنانچہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اشھد انک رسول اللہ کہہ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اسی اعجاز شان کی تصدیق فرمائی۔
-
وَعَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم خَصْلَتَانِ مُعَلَّقَتَانِ فِی اَعْنَاقِ الْمُؤَذِّنِیْنَ لِلْمَُسْلِمِیْنَ صِیَا مُھُمْ وَصَلَا تُھُمْ۔ (رواہ ابن ماجہ)-
" اور حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ مسلمانوں کی دو چیزیں مؤذنوں کی گردنوں میں لٹکی ہوئی ہیں۔ ایک تو ان کے روزے اور دوسری ان کی نمازیں۔" (سنن ابن ماجہ) تشریح مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں کے دو اہم اور بنیادی اعمال ایسے ہیں جو مؤذن پر موقوف ہیں یعنی مؤذن ان اعمال کی صحت و تکمیل کے ذمہ دار ہیں۔ پہلی چیز تو روزہ ہے کہ مسلمان مؤذنوں کی اذان ہی پر اعتماد کرتے ہوئے افطار کرتے ہیں۔ اور دوسری چیز نماز ہے جس کی ادائیگی مؤذنوں کی اذان کے تحت ہوتی ہے۔ بہر حال حدیث کا حاصل یہ ہے کہ مؤذنوں کو چاہئے کہ وہ اپنی عظیم ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے بڑے احتیاط کے ساتھ اور اوقات کی پوری رعایت کرتے ہوئے اذان کہا کریں تاکہ مسلمانوں کے ان دونوں اعمال میں خلل واقع نہ ہو۔
-