اختلاف قرات سے دینی احکام پر اثر نہیں پڑتا

وعن ابن عباس رضي الله عنهما قال : إن رسول الله صلى الله عليه و سلم قال : " أقرأني جبريل على حرف فراجعه فلم أزل أستزيده ويزيدني حتى انتهى إلى سبعة أحرف " . قال ابن شهاب : بلغني أن تلك السبعة الأحرف إنما هي في الأمر تكون واحدا لا تختلف في حلال ولا حرام-
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے پہلی مرتبہ مجھے ایک قرات یعنی ایک لہجہ پر قرآن پڑھایا پھر میں نے اپنی امت کی آسانی کے لئے خدا کی طرف مراجعت کی اور میں آسانی میں برابر زیادتی طلب کرتا رہا جس کے نتیجہ میں مجھے زیادہ آسانی حاصل ہوتی رہی یہاں تک کہ سات قرأتوں تک نوبت پہنچ گئی اور یہ آخری فیصلہ دے دیا گیا کہ قرآن کریم سات لغات پر پڑھا جا سکتا ہے۔ اس حدیث کے راوی حضرت ابن شہاب زہری (تابعی) رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ یہ بات مجھ تک تحقیق طور پر پہنچی ہے کہ قرأت کے یہ سات طریقے دینی احکام و امور میں متفق و متحد ہیں حلال و حرام میں ان سے کوئی اختلاف واقع نہیں ہوتا۔ (بخاری ومسلم) تشریح مطلب یہ ہے کہ اختلاف قرأت سے قرآن کریم میں مذکور احکام ومسائل میں تغیر و تبدل نہیں ہوتا یعنی ایسا نہیں ہوتا کہ قرآن کی کوئی آیت اگر ایک قرات سے پڑھی جائے اور اس آیت میں کسی چیز کے حلال ہونے کا ذکر موجود ہو اور پھر جب وہی آیت دوسری قرأت سے پڑھی جائے تو اس اختلاف قرات سے حکم میں تغیر ہو جائے اور وہی چیز جو پہلی قرات سے حلال ثابت ہو رہی تھی اب دوسری قرات کی بنا پر حرام ہو جائے ایسا نہیں بلکہ ایک قرات سے کسی چیز کے حلال ہونے کا حکم ثابت ہوتا ہے تو دوسری قرات سے بھی اس چیز کے حلال ہونے ہی کا حکم ثابت ہوتا ہے حاصل یہ کہ اختلاف قرأت کا تعلق صرف الفاظ لہجہ اور صوت سے ہے احکام ومعانی سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔
-