TRUE HADITH
Home
About
Mission
Contact
مشکوۃ شریف
حجۃ الوداع کے واقعہ کا بیان
احرام کے طریقے اور حج کی اقسام
وعن عائشة رضي الله عنها قالت : خرجنا مع النبي صلى الله عليه و سلم في حجة الوداع فمنا من أهل بعمرة ومنا من أهل بحج فلما قدمنا مكة قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " من أهل بعمرة ولم يهد فليحلل ومن أحرم بعمرة وأهدى فليهل بالحج مع العمرة ثم لا يحل حتى يحل منها " . وفي رواية : " فلا يحل حتى يحل بنحر هديه ومن أهل بحج فليتم حجه " . قالت : فحضت ولم أطف بالبيت ولا بين الصفا والمروة فلم أزل حائضا حتى كان يوم عرفة ولم أهلل إلا بعمرة فأمرني النبي صلى الله عليه و سلم أن أنقض رأسي وأمتشط وأهل بالحج وأترك العمرة ففعلت حتى قضيت حجي بعث معي عبد الرحمن بن أبي بكر وأمرني أن أعتمر مكان عمرتي من التنعيم قالت : فطاف الذين كانوا أهلوا بالعمرة بالبيت وبين الصفا والمروة ثم حلوا ثم طافوا بعد أن رجعوا من منى وأما الذين جمعوا الحج والعمرة فإنما طافوا طوافا واحدا-
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ جب ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ جحۃ الوداع کے موقع پر روانہ ہوئے تو ہم میں سے بعض تو وہ تھے جنہوں نے صرف عمرہ کا احرام باندھا تھا اور بعض وہ تھے جنہوں نے صرف حج کا (یا حج و عمرہ دونوں کا) احرام باندھا چنانچہ جب ہم مکہ پہنچے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے صرف عمرہ کا احرام باندھا ہے اور اپنے ساتھ قربانی کا جانور نہیں لایا وہ افعال عمرہ کے بعد اپنے سر کے بال منڈوا کر یا کتروا کر، احرام کھول دے اور جس نے عمرہ کا احرام باندھا ہے اور قربانی کا جانور لایا ہے تو وہ عمرہ کے ساتھ حج کا احرام باندھ لے یعنی حج کو عمرہ کے ساتھ شامل کر کے قارن ہو جائے اور جب حج و عمرہ دونوں سے فارغ نہ ہو جائے احرام نہ کھولے۔ ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ جب تک کہ وہ (بقر عید کے دن) اپنی قربانی کے جانور کے ذبح کرنے سے فارغ نہ ہوئے احرام نہ کھولے اور جس نے حج کا احرام باندھا ہے خواہ وہ قربانی کا جانور اپنے ساتھ لایا ہو یا نہ لایا ہو اور اس نے حج کے ساتھ عمرہ کا بھی احرام باندھا ہو یا نہ باندھا ہو وہ اپنا حج پورا کرے مگر جن لوگوں کو عمرہ کے ساتھ حج فسخ کرنے کا حکم دیا گیا ہے جیسا کہ گزشتہ روایت میں گزرا وہ اپنا حج پورا نہ کریں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ چونکہ میں حائضہ تھی اس لئے مکہ پہنچ کر نہ تو میں نے عمرہ کرنے کے لئے طواف کیا اور صفا و مروہ کے درمیان سعی کی ، میں حیض ہی کی حالت میں تھی کہ عرفہ کا دن آ گیا اور میں نے چونکہ عمرہ کا احرام باندھا تھا اس لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کہ میں اپنا سر کھول ڈالوں اور بالوں میں کنگھی کر لوں یعنی احرام کھول دوں تاکہ جو چیزیں احرام کی حالت میں ممنوع ہیں وہ مباح ہو جائیں اور پھر حج کا احرام باندھ لوں، نیز یہ کہ عمرہ چھوڑ دوں یعنی حج سے فارغ ہو کر عمرہ کے احرام کی قضا کروں چنانچہ میں نے ایسا ہی کیا، اور جب میں حج ادا کر چکی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میرے ساتھ عبدالرحمن بن ابوبکر کو تنعیم بھیجا اور مجھے حکم دیا کہ مقام تنعیم سے احرام باندھ کر اپنے قضا شدہ عمرہ کے بدلے عمرہ کروں! حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ جن لوگوں نے حج و عمرہ دونوں کو جمع کیا تھا یعنی شروع ہی سے حج اور عمرہ دونوں کا احرام باندھا تھا انہوں نے عمرہ کے لئے خانہ کعبہ کا طواف کیا اور پھر صفا و مروہ کے درمیان سعی کی۔ اس کے بعد انہوں نے احرام کھول ڈالا لوگوں نے منی سے مکہ واپس آ کر دوبارہ اپنے حج کا طواف کیا جسے طواف افاضہ کہتے ہیں اور جن لوگوں نے حج و عمرہ دونوں کو جمع کیا تھا یعنی شروع میں سے حج اور عمرہ دونوں کا احرام باندھا تھا۔ یا بعد میں ایک کو دوسرے کے ساتھ شامل کیا۔ انہوں نے صرف ایک ہی یعنی یوم نحر کے دن طواف کیا۔ (بخاری و مسلم) تشریح تنعیم ایک جگہ کا نام ہے جو مکہ سے ڈھائی تین میل کے فاصلہ پر شمال مغربی جانب واقع ہے ۔ یہ جگہ حدود حرم سے باہر ہے حجاج عمرہ کا احرام باندھنے کے لئے یہیں آ جاتے ہیں۔ عمرہ کے احرام کے لئے ضروری اور شرط ہے کہ حل سے یعنی حدود حرام سے باہر باندھا جائے عمرہ کرنے والا خواہ مکی ہو یا غیر مکی جب کہ حج کا احرام غیر مکی تو حل سے باندھے اور مکی حدود حرم ہی میں کہیں سے باندھے۔ " انہوں نے صرف ایک ہی طواف کیا " سے اگرچہ یہ بات مفہوم ہوتی ہے کہ قارن کو ایک طواف عمرہ اور حج دونوں کے لئے کافی ہے، جیسا کہ حضرت امام شافعی کا مسلک ہے لیکن حنفیہ کے ہاں قارن کو دو طواف کرنے ضروری ہیں ایک طواف تو عمرہ کے لئے جو مکہ میں داخل ہونے کے بعد کیا جائے اور دوسرا طواف حج کے لئے وقوف عرفات کے بعد کیا جائے کیونکہ حدیث سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ حجۃ الوداع کے موقوع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قارن تھے، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب مکہ میں داخل ہوئے تو ایک طواف اس وقت کیا اور دوسری مرتبہ طواف الزیارۃ وقوف عرفات کے بعد کیا نیز دارقطنی نے ایک روایت نقل کی ہے جس کا حاصل بھی یہی ہے کہ قارن دو طواف کرے اور صفا و مروہ کے درمیان دو مرتبہ سعی کرے! حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے بھی یہی بات منقول ہے کہ قارن دو طواف اور دو مرتبہ سعی کرے۔
-
وعن عبد الله بن عمر رضي الله عنهما قال : تمتع رسول الله صلى الله عليه و سلم في حجة الوداع بالعمرة إلى الحج فساق معه الهدي من ذي الحليفة وبدأ فأهل بالعمرة ثم أهل بالحج فتمتع الناس مع النبي صلى الله عليه و سلم بالعمرة إلى الحج فكان من الناس من أهدى ومنهم من لم يهد فلما قدم النبي صلى الله عليه و سلم مكة قال للناس : " من كان منكم أهدى فإنه لا يحل من شيء حرم منه حتى يقضي حجه ومن لم يكن منكم أهدى فليطف بالبيت وبالصفا والمروة وليقصر وليحلل ثم ليهل بالحج وليهد فمن لم يجد هديا فيلصم ثلاثة أيام في الحج وسبعة إذا رجع إلى أهله " فطاف حين قدم مكة واستلم الركن أول شيء ثم خب ثلاثة أطواف ومشى أربعا فركع حين قضى طوافه بالبيت عند المقام ركعتين ثم سلم فانصرف فأتى الصفا فطاف بالصفا والمروة سبعة أطواف ثم لم يحل من شيء حرم منه حتى قضى حجه ونحر هديه يوم النحر وأفاض فطاف بالبيت ثم حل من كل شيء حرم منه وفعل مثل ما فعل رسول الله صلى الله عليه و سلم من ساق الهدي من الناس-
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عمرہ کو حج کے ساتھ ملا کر تمتع کیا (یعنی فائدہ اٹھایا بایں طور پر کہ پہلے عمرے کا احرام باندھا پھر حج کا) اور ذوالحلیفہ سے (کہ جہاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے احرام باندھا تھا) قربانی کا جانور ساتھ لے لیا تھا، چنانچہ پہلے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عمرہ کا احرام باندھا تھا ، پھر حج کا احرام باندھا، اور لوگوں نے بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ عمرہ کو حج کے ساتھ ملا کر تمتع کیا، بعض لوگ کہ جنہوں نے عمرہ کا احرام باندھا تھا وہ تھے جو قربانی کے جانور اپنے ساتھ لائے تھے اور بعض وہ تھے جو قربانی کا جانور اپنے ساتھ نہیں لائے تھے، جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مکہ پہنچے تو (عمرہ کرنے والے) لوگوں سے فرمایا کہ تم میں سے جو شخص قربانی کا جانور ساتھ لایا ہو وہ اس چیزش کو حلال نہ کرے جس سے وہ باز رہا ہے (یعنی احرا نہ کھولے) یہاں تک کہ وہ اپنا حج ادا کرے اور جو شخص قربانی کا جانور ساتھ نہ لایا ہو تو وہ (عمرہ کے لئے ) خانہ کعبہ کا طواف کرے، صفا و مروہ کے درمیان سعی کرے، بال کتروائے اور پھر وہ (عمرہ کا ) احرام کھول دے (یعنی جو چیزیں حالت احرام میں ممنوع تھیں انہیں مباح کر لے) اس کے بعد حج کے لئے دوبارہ احرام باندھے اور رمی جمار کے بعد سر منڈانے سے پہلے نحر کے دن قربانی کرے (کیونکہ ادائیگی حج و عمرہ کی توفیق اور حق تعالیٰ کی اس عظیم نعمت کی شگر گزاری کے طور پر متمتع پر قربانی واجب ہے) اور جس شخص کو قربانی کا جانور میسر نہ ہو تو وہ تین روزے رکھے حج کے دنوں میں (یعنی حج کے مہینوں میں احرام کے بعد اور قربانی کے دن سے پہلے) رکھے اس بارہ میں افضل یہ ہے کہ ذی الحجہ کی ساتویں، آٹھویں اور نویں تاریخ کو تین روزے رکھے اور سات روزے رکھ لے چاہے گھر پہنچ کر) بہر کیف آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مکہ پہنچ کر (عمرہ کے لئے ) خانہ کعبہ کا طواف کیا اور (طواف کے جو افعال ہیں ان میں ) سب چیزوں سے پہلے (مگر لبیک کہنے کے بعد) حجر اسود کو بوسہ دیا، اور طواف میں تین مرتبہ تو جلدی جلدی (یعنی اکڑ کر اور تیز رفتار سے ) چلے اور چار مرتبہ معمولی رفتار سے چلے، پھر خانہ کعبہ کے گرد طواف پورے کرنے کے بعد مقام ابراہیمی پر دو رکعت نماز پڑھی اور سلام پھیرا (یعنی صلوۃ الطواف پڑھی، حنفیہ کے نزدیک یہ نماز واجب ہے) اس کے بعد (خانہ کعبہ) سے چل کر صفاء پر آئے اور صفا و مروہ کے درمیان سات پھیرے کئے (یعنی سعی کی) اس کے بعد کسی ایسی چیز کے ساتھ حلال نہیں ہوئے جس سے اجتناب کیا جاتا ہے (یعنی احرام سے باہر نہ آئے) یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا حج پورا کیا، اور نحر کے دن (دسویں ذی الحجہ کو ) اپنی قربانی کا جانور ذبح کر لیا (تو اب سر منڈانے کے بعد وہ تمام چیزیں جو حالت احرام میں ممنوع تھیں مباح ہو گئیں علاوہ بیوی سے ہمبستری ) اور پھر (منی سے ) چلے اور (مکہ پہنچ کر) خانہ کعبہ کا طواف (یعنی طواف افاضہ ) کیا اور اس کے بعد وہ چیز حلال ہو گئی جو ممنوع تھی (یعنی اب طواف سے فراغت کے بعد بیوی سے ہمبستری بھی حلال ہو گئی ) پھر جن لوگوں کے ساتھ قربانی کے جانور تھے انہوں نے بھی وہی کیا جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کیا تھا۔ (بخاری و مسلم) تشریح اس حدیث سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حج تمتع کیا تھا جب کہ زیادہ صحیح بات یہی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قارن تھے لہٰذا اب حدیثوں کے بارہ میں یہی کہا جائے گا کہ یہاں تمتع سے مراد اس کے لغوی معنی ہیں یعنی نفع اٹھانا اور یہ مفہوم قرآن میں بھی موجود ہے بایں طور کہ قارن حج کے ساتھ عمرہ ملا کر منتفع ہوتا ہے۔
-