آ نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھنے کا ذکر

وعن أبي هريرة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال من رآني في المنام فقد رآني فإن الشيطان لا يتمثل في صورتي . ( متفق عليه )-
اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔" جس شخص نے مجھ کو خواب میں دیکھا اس نے درحقیقت مجھ کو ہی دیکھا کیونکہ شیطان میری صورت نہیں بن سکتا ۔" (بخاری ومسلم ) تشریح مطلب یہ ہے کہ جس شخص نے مجھ کو خواب میں دیکھا اس نے گویا عالم بیداری میں میرا دیدار کیا ، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہو گا کہ اس شخص پر وہ احکام عائد ہوں جو واقعۃ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دیدار و صحبت کی صورت میں ہوتے ہیں ۔ یعنی نہ تو ایسے شخص کو صحابی کہا جائے گا اور نہ اس چیز پر عمل کرنا اس کے لئے ضروری ہوگا جس کو اس نے اپنے خواب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہو گا، بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حدیث اپنے زمانہ کے لوگوں کے لئے فرمائی میرے زمانہ میں جو شخص مجھ کو خواب میں دیکھے گا اس کو اللہ تعالیٰ ہجرت کی توفیق عطا فرمائے گا ۔تاکہ وہ مجھ سے آ کر ملے ۔ یا یہ مراد ہے کہ آخرت میں میرا دیدار کرے گا ۔ بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ یہ ارشاد گرامی صلی اللہ علیہ وسلم بمعنی اخبار کے ہے، مطلب یہ ہے کہ جس شخص نے مجھ کو خواب میں دیکھا اس کو خبر دیدو کہ اس کا خواب حقیقی اور سچا ہے اضغاث احلام میں سے نہیں ہے کیونکہ شیطان میری صورت اختیار نہیں کر سکتا ۔ یعنی اس کی یہ مجال نہیں ہے کہ وہ کسی کے خواب میں آئے اور اس کے خیال میں یہ بات ڈالے کہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہوں اور اس طرح وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ جھوٹ لگائے ۔ بعض محققین نے لکھا ہے کہ شیطان حق تعالیٰ کی ذات کے بارے میں جھوٹ دکھا سکتا ہے ، یعنی دیکھنے والے کو اس خیال و وسوسہ میں مبتلا کر سکتا ہے کہ یہ حق تعالیٰ کی صورت ہے لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صورت ہرگز نہیں بن سکتا ۔ اور نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر جھوٹ لگا سکتا ہے، کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہدایت و راستی کے مظہر ہیں۔ جب کہ شیطان لعین ضلالت و گمراہی کا مظہر ہے اور ہدایت و ضلالت کے درمیان پانی اور آگ کی نسبت ہے کہ دونوں ایک دوسرے کی ضد ہیں، اس کے برخلاف حق تعالیٰ کی ذات الہی صفات ہدایت و اضلال اور صفات متضادہ کی جامع ہے علاوہ ازیں صفت الوہیت ایسی صفت ہے جس کا مخلوقات میں سے کسی کا دعوی کرنا صریح البطلان ہے اور محل اشتباہ نہیں ہے، جب کہ وصف نبوت اس درجہ کی صفت نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ اگر کوئی شخص الوہیت کا دعوی کرے تو اس سے خرق عادات صادر ہو سکتا جب کہ اگر کوئی شخص نبوت کا دعوی کرے تو اس سے معجزہ کا ظاہر ہونا ممکن ہی نہیں ہے ۔
-
وعن أبي قتادة قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم من رآني فقد رأى الحق . ( متفق عليه )-
اور حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔" جس نے اپنے خواب میں مجھ کو دیکھا اس نے حق دیکھا یعنی اس کا خواب سچا ہے کہ اس نے مجھ کو ہی دیکھا ۔" (بخاری ومسلم ) تشریح واضح رہے کہ اس مضمون کی احادیث، جو متعدد طرق و اسانید سے اور مختلف الفاظ میں منقول ہیں اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ جس شخص نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا اس نے حقیقت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی کو دیکھا اس بارے میں دروغ خیال اور شیطانی اثرات کا قطعا دخل نہیں ہوتا، چنانچہ علماء نے اس چیز کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خصائل میں شمار کیا ہے اور اس کو اعجاز نبوی صلی اللہ علیہ وسلم قرار دیا ہے البتہ علماء کے ہاں اس بات میں اختلاف ہے کہ ان احادیث کا تعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کس صورت و حلیہ میں دیکھنے سے ہے چنانچہ بعض حضرات تو کہتے ہیں کہ ان احادیث کا تعلق اس شخص سے ہے جو اپنے خواب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس مخصوص صورت و حلیہ میں دیکھے جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم متصف تھے، پھر بعض حضرات نے اس بارے میں توسع کیا ہے اور کہا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس صورت و شکل میں دیکھے جو پوری عمر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق رہی ہے ۔ یعنی خواہ جوانی کی صورت و شکل میں دیکھے خواہ کہولت اور خواہ آخری عمر کی صورت میں دیکھے ۔ اور بعض حضرات نے اس دائرے کو محدود کیا اور کہا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس شکل و صورت میں دیکھنے کا اعتبار ہے جو بالوں کو بھی دیکھنے کا اعتبار کیا ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر مبارک اور لحیہ مبارک میں تھے اور جو تعداد میں بیس تک بھی نہیں پہنچے تھے، منقول ہے کہ حضرت محمد بن سیرین جو تعبیر خواب کے فن میں امام تھے کے پاس جب کوئی شخص آ کر بیان کرتا کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا ہے تو وہ کہتے تھے کہ بتاؤ تم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کس شکل و صورت اور کس حلیہ میں دیکھا ہے اگر وہ شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا حلیہ بیان نہ کرتا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مخصوص تھا تو ابن سیرین اس سے کہتے کہ بھاگ جاؤ تم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں نہیں دیکھا ہے ۔ اس بارے میں حضرت امام نووی فرماتے ہیں کہ جس شخص نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا اس نے بہر صورت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا خواہ اس نے مخصوص صورت و حلیہ میں دیکھا ہو جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں منقول ہے یا کسی اور شکل و شباہت میں دیکھا ہو کیونکہ شکل و شباہت کا مختلف ہونا ذات کے مختلف کے ہونے کو ضروری قرار نہیں دیتا، علاوہ ازیں یہ نکتہ بھی ملحوظ رہنا چاہئے کہ شکل و شباہت میں اختلاف و تفاوت کا تعلق خواب دیکھنے والے کے ایمان کے کمال و نقصان سے بھی ہو سکتا ہے یعنی جس شخص نے خواب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اچھی صورت و شکل میں دیکھا یہ اس کے ایمان کامل اور عقیدے کے صالح ہونے کی علامت قرار پائے گا اور جس شخص نے اس کے بہر خلاف دیکھا، یہ اس کے ایمان کی کمزوری اور عقیدے کے فساد کی علامت قرار پائے گا اسی طرح ایک شخص نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بوڑھا دیکھا ایک شخص نے جوان دیکھا ایک شخص نے رضامند دیکھا ایک شخص نے خفگی کے عالم میں دیکھا ایک شخص نے روتے ہوئے دیکھا ایک شخص نے شاد و خوش دیکھا اور ایک شخص نے ناخوش دیکھا تو یہ ساری حالتیں خواب دیکھنے والے کے ایمانی احوال کے فرق و تفاوت پر مبنی ہوں گی کہ جو شخص جس درجہ کے ایمان کا حامل ہو گا وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اسی درجہ کی مثالی صورت میں دیکھا گا اس اعتبار سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھنا گویا اپنے احوال ایمانی کو پہچاننے کا ایک معیار ہے لہٰذا یہ ایک چیز سالکین طریقت کے لئے یہ ایک مفید ضابطہ کی حیثیت رکھتی ہے کہ وہ اس کے ذریعہ اپنے باطن کی حالت کو پہچان کر اس کی اصلاح کریں اسی پر قیاس کرتے ہوئے بعض علماء نے یہ بھی لکھا ہے کہ جو شخص خواب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی ارشاد سنے تو اس کا حدیث و سنت سے تقابل کرے اگر وہ ارشاد حدیث و سنت کے موافق ہو تو وہ یقینا حق ہے اور اگر موافق نہ ہو، جانے کہ یہ میرے ذہن اور سامع کا خلل ہے لہٰذا خواب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کریمہ کو اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کو سننا حق ہے اگر صورت مبارک اور ارشادات مقدسہ میں کوئی تفاوت و مخالفت نظر آئے تو سمجھنا چاہئے کہ یہ خواب دیکھنے والے کے نقص و کوتاہی کے اعتبار سے ہے حضرت شیخ متقی سے منقول ہے کہ ایک فقیر نے خواب میں دیکھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس کو شراب کے لئے فرما رہے ہیں، اس خواب کی وجہ سے اس کے ذہن میں سخت خلجان پیدا ہو اس نے اس خلجان کو دور کرنے کے لئے علماء سے رجوع کیا اور ان سے پوچھا کہ اس خواب کی حقیقت کیا ہے کہ ہر عالم نے اس کی مختلف تعبیر و تاویل بیان کی اسی دوران یہ مسئلہ حدیث کے ایک عالم حضرت شیخ ابن عراۃ کے سامنے آیا جو عالم با عمل اور نہایت متبع سنت تھے انہوں نے فرمایا کہ اصل بات یوں نہیں ہے جس طرح اس نے سنی ہے بلکہ اس کا ذہن و سامعہ، خلل اور انتشار کا شکار ہوا ہے ۔ حقیقت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں فرمایا تھا کہ لاتشرب الخمر شراب ہرگز نہ پینا مگر اس نے اس جملہ کو یوں سنا اشرب الخمر (شراب پیؤ)
-
وعن أبي هريرة قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم من رآني في المنام فيسراني في اليقظة ولا يتمثل الشيطان بي . ( متفق عليه )-
اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس شخص نے مجھ کو خواب میں دیکھا وہ جلد ہی مجھ کو بیداری کے عالم میں دیکھے گا اور شیطان میری صورت نہیں بن سکتا ۔" (بخاری ومسلم ) ۔ تشریح اس حدیث کا تعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ سے ہے کہ جو شخص خواب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھتا ہے اس کو اللہ تعالیٰ یہ توفیق عطا فرما دیتا ہے کہ وہ عالم بیداری میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دیدار سے مشرف ہوتا ہے یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتا ۔ اور اسلام قبول کرتا ۔ یا اس ارشاد گرامی کی مراد یہ ہے کہ مجھ کو خواب میں دیکھنے والا شخص آخرت میں عالم بیداری میں مجھ کو دیکھے گا۔
-