آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قدوقامت وغیرہ کا ذکر :

وعن أنس قال : كان رسول الله صلى الله عليه و سلم ليس بالطويل البائن ولا بالقصير وليس بالأبيض الأمهق ولا بالآدم وليس بالجعد القطط ولا بالسبط بعثه الله على رأس أربعين سنة فأقام بمكة عشر سنين وبالمدينة عشر سنين وتوفاه الله على رأس ستين سنة وليس في رأسه ولحيته عشرون شعرة بيضاء وفي رواية يصف النبي صلى الله عليه و سلم قال : كان ربعة من القوم ليس بالطويل ولا بالقصير أزهر اللون . وقال : كان شعر رسول الله صلى الله عليه و سلم إلى أنصاف أذنيه وفي رواية : بين أذنيه وعاتقه . متفق عليه وفي رواية للبخاري قال : كان ضخم الرأس والقدمين لم أر بعده ولا قبله مثله وكان سبط الكفين . وفي أخرى له قال : كان شئن القدمين والكفين-
اور حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا قد نہ تو بہت لمبا تھا اور نہ ٹھگنا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا رنگ نہ بالکل سفید تھا اور نہ بالکل گندمی یعنی مائل بہ سیاہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر کے بال نہ بالکل خمدار تھے اور نہ بالکل سیدھے تھے ، اور اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس وقت مبعوث فرمایا (یعنی منصب رسالت پر فائز کیا ) جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر پورے چالیس سال کی ہوگئی تھی ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دس سال مکہ میں قیام فرمایا (دس سال مدینہ میں ، اور اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ساٹھ سال کی عمر میں وفات دی ، اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر مبارک اور داڑھی میں صرف بیس بال سفید تھے ۔" ایک اور روایت میں حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اوصاف بیان کرتے ہوئے یہ کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں میانہ قد تھے نہ لانبے تھے نہ ٹھگنے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا رنگ نہایت صاف اور چمکدار تھا ۔ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیان کیا : آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر کے بال آدھے کانوں تک تھے ۔ اور ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سرکے بال ) کانوں اور شانوں کے درمیان تک لمبے تھے ( بخاری ومسلم) ایک اور روایت میں ، جس کو بخاری نے نقل کیا ہے اس طرح ہے کہ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیان کیا : آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا سر مبارک بڑا تھا اور پاؤں مبارک پرُگوشت تھے ، میں نے آپ جیسا (وجیہہ وشکیل انسان ) نہ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے دیکھا تھا اور نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد دیکھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتھیلیاں فراخ تھیں ۔ بخاری ہی کی روایت میں ہے کہ حضرت انس نے بیان کیا ! آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں بازو اور ہتھیلیاں گدازا ور پرگوشت تھیں ۔ تشریح : قد نہ تو بہت لمبا تھا نہ ٹھگنا ۔" کا مطلب یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا قد میانہ مائل بہ درازی تھا جس کو ہمارے محاورے میں نکلتا قد کہتے ہیں ۔ بعض روایتوں میں جو یہ آیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کسی مجمع میں کھڑے ہوتے تو سب سے بلند دکھائی دیتے تھے ، اگرچہ اس مجمع میں دراز قد لوگ بھی ہوتے تھے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا قد بہت زیادہ دراز تھا بلکہ اس کا مقصد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اعجازی حیثیت کو بیان کرنا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات کو جو عظمت ورفعت عطا فرمائی تھی وہ ہرموقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قد وقامت سے بھی ظاہر ہوتی تھی یہاں تک کہ اگر آپ دراز قد لوگوں کے ساتھ کھڑے ہوتے تو اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے وجود کو سب سے زیادہ نمایاں رکھتا تھا۔ " آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا رنگ نہ بالکل سفید تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ الخ ۔" کا مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رنگت نہ تو چونے کی طرح بالکل سفید تھی جس میں سرخی کی جھلک بھی نہیں ہوتی اور نہ بہت گہری گندمی تھی بلکہ ایسی گندم گوں تھی جس کو سرخ سفید رنگ کہا جاتا ہے ۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر مبارک کے بال نہ تو اتنے زیادہ گھونگھرلے تھے جیسے افریقی اور حبشی لوگوں کے ہوتے ہیں اور نہ بالکل سیدھے تھے بلکہ ان دونوں کے بیچ بیچ تھے ۔ مدینہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قیام کی مدت دس سال تو بالاتفاق ثابت ہے اور اس میں کوئی اختلافی روایت نہیں ہے لیکن منصب رسالت پر فائز ہونے کے بعد مکہ میں قیام کی مدت کے بارے میں اختلافی اقوال ہیں ۔تحقیقی طور پر جوقول صحیح مانا گیا ہے وہ تیرہ سال کی مدت کا ہے اس اعتبار سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر تریسٹھ سال ہوتی ہے پس اس روایت میں جو ساٹھ سال کہا گیا ہے تو اس کی توجیہہ یہ ہے کہ راوی نے اس روایت میں کسور کے ذکر کو اہمیت نہ دیتے ہوئے تیرہ سال کو دس سال کہا اور تریسٹھ سال کو ساٹھ سال کہا ، کیونکہ اس زمانہ میں عام طور پر یہ رواج تھا کہ اعداد وشمار کو بیان کرتے وقت کسور کو ذکر کرنا زیادہ ضروری نہیں سمجھتے تھے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سرکے بالوں کی لمبائی کے بارے میں مختلف روایتیں ہیں ، دو روایتیں تو یہاں نقل ہوئیں ، ایک روایت میں دونوں کانوں کی لوتک " کے الفاظ ہیں اور ایک روایت میں " کاندھوں کے قریب تک " کا ذکر ہے ۔ روایتوں کے اس اختلاف کا سبب دراصل یہ ہے کہ جس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے بالوں کو تیل اور کنگھی سے آراستہ کئے ہوئے ہوتے اس وقت بال لمبے معلوم ہوتے اور جب بالوں میں تیل نہ ہوتا اور نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کئے ہوئے ہوتے تو اس وقت بال چھوٹے معلوم ہوتے ، اس طرح جیسا کہ مجمع البحار میں لکھا ہے جب بالوں کی اصلاح کرائے ہوئے زیادہ دن گذرجاتے تھے تو قدرتی طور پر بال لمبے ہوجاتے تھے اور جب اصلاح کرالیتے تھے تو بالوں کی لمبائی کم ہوجاتی تھی ، جس شخص نے اس میں سے جس حالت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بالوں کو دیکھا اس کے مطابق ان کی لمبائی کو ذکر کیا ۔ مجمع البحار کی اس روایت سے یہ معلوم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم وقتا فوقتا اپنے بالوں کو موزوں مقدار میں کٹواتے رہتے تھے ، جہاں تک بالوں کو منڈوانے اور سربالکل صاف کرانے کا تعلق ہے تو اس کا ثبوت کسی روایت سے نہیں ملتا ۔ہاں صرف حج اور عمرے کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سر منڈوانا ضرورثابت ہے ۔ سر مبارک بڑا اور پاؤں پرُگوشت تھے " پیروں کاموٹا یعنی پرُگوشت ہونا شجاعت اور ثابت قدمی کی علامت ہے جب کہ سرکا بڑا ہونا سرداری عظمت اور عقلمندی کی نشانی سمجھا جاتا تھا اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دونوں ہتھیلیاں بھی بہت گداز اور پرُگوشت تھیں اور یہ چیز بھی قوت وشجاعت کی علامت مانی جاتی ہے ۔
-
وعن البراء قال : كان رسول الله صلى الله عليه و سلم مربوعا بعيد ما بين المنكبين له شعر بلغ شحمة أذنيه رأيته في حلة حمراء لم أر شيئا قط أحسن منه . متفق عليه وفي رواية لمسلم قال : ما رأيت من ذي لمة أحسن في حلة حمراء من رسول الله صلى الله عليه و سلم شعره يضرب منكبيه بعيد ما بين المنكبين ليس بالطويل ولا بالقصير-
اور حضرت براء رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم میانہ قد تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں مونڈھوں کے درمیان کافی کشادگی تھی (جس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سینہ مبارک بہت چوڑا تھا) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سرکے بال کانوں کی لو تک تھے اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سرخ لباس میں (جو یمنی کپڑے کے تہبند اور چادر پر مشتمل تھا ) (اس میں کوئی مبالغہ نہیں کہ ) میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ حسین کوئی چیز نہیں دیکھی ۔ بخاری ومسلم کی ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ حضرت براء رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا میں نے کوئی بالوں والا آدمی سرخ لباس میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ حسین و وجیہہ نہیں دیکھا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سرکے بال مونڈھو تک تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں مونڈھوں کے درمیان کافی کشادگی تھی ۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا قد نہ بہت لمبا تھا اور نہ ٹھگنا ۔" تشریح : محدثین نے تحقیق کے بعد لکھا ہے کہ سرخ لباس سے مراد یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم مبارک پر جس کپڑے کا تہبند اور چادر تھی اس میں سرخ دھاریارں تھیں اس طرح جن حدیثوں میں " سبز لباس کا ذکر ہے ، اس سے بھی یہی مراد ہے کہ وہ لباس ایسے کپڑے کا تھا جس میں سبز دھاریاں تھیں عربی میں انسان کے سرکے بالوں کے لئے عام طور پر تین لفظ مستعمل ہوتے ہیں ایک جمہ ہے اس سے مراد وہ بال ہوتے ہیں جو کان کی لو سے اتنے نیچے تک ہوں کہ کاندھوں تک پہنچ جائیں اور کبھی اس لفظ کا اطلاق مطلق بالوں پر بھی ہوتا ہے خواہ وہ چھوٹے ہوں یا بڑے دوسرا لفظ لمہ ہے یہ لفظ بالوں کی اس زلف کے لئے استعمال ہوتا ہے جو کانوں کی لوسے متجاوز ہو، لیکن کاندھوں تک نہ پہنچی ہو ، اور تیسرا لفظ وفرہ " ہے جو کانوں کی لوتک لٹکے ہوئے بالوں کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔
-
وعن سماك بن حرب عن جابر بن سمرة قال : كان رسول الله صلى الله عليه و سلم ضليع الفم أشكل العينين منهوش العقبين قيل لسماك : ما ضليع الفم ؟ قال : عظيم الفم . قيل : ما أشكل العينين ؟ قال : طويل شق العين . قيل : ما منهوش العقبين ؟ قال : قليل لحم العقب . رواه مسلم-
اور حضرت سماک ابن حرب ، حضرت جابر ابن سمرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کشادہ دہن تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں میں سرخی ملی ہوئی تھی اور ایڑیاں کم گوشت تھیں (روای کہتے ہیں کہ ) حضرت سماک سے پوچھا گیا کہ ضلیع الفم سے کیا مراد ہے ؟ تو انہوں نے کہا کہ اس کے معنی ہیں بڑے منہ والا ! ان سے پوچھا گیا کہ " اشکل العین " کے کیا معنی ہیں ؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ اس کے معنی ہیں دائرہ چشم کا بڑا ہونا پھر ان سے پوچھا گیا کہ " منہوش العقبین " کے کیا معنی ہیں ؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ وہ ایڑیاں جن پر گوشت کم ہو ۔ (مسلم ) تشریح : " کشادہ دہن " سے کیا مراد یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ کا بایا بڑا تھا اور یہ چیز عرب میں مردوں کے لئے قابل تعریف سمجھی جاتی ہے جب کہ کسی مرد کے منہ کا بایا چھوٹا ہونا ایک عیب مانا جاتا ہے ۔ اور بعض حضرات نے کشادہ دہنی سے فصاحت وبلاغت مراد لی ہے ۔ آنکھوں کی سفیدی میں سرخی " سے مراد یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں میں سرخ ڈورے بہت نمایاں تھے !واضح رہے کہ حضرت سماک نے اشکل العین " کے جو یہ معنی بیان کئے کہ دائرہ چشم کا بڑا ہونا " تو یہ ان کا سہو ہے ، اصل معنی وہی ہیں جو ترجمہ میں ذکر کئے گئے ہیں ، تمام ائمہ لغت نے بھی اس لفظ کے یہی معنی لکھے ہیں ۔
-
وعن أبي الطفيل قال : رأيت رسول الله صلى الله عليه و سلم كان أبيض مليحا مقصدا " . رواه مسلم-
اور حضرت ابوطفیل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سفید ملیح رنگ کے تھے نیز متوسط القامت اور تناسب الاعضاء تھے (مسلم )
-