آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے ایک مخنث کو شہر بدر کرنے کا ذکر

وعن أبي هريرة قال أتي رسول الله صلى الله عليه وسلم بمخنث قد خضب يديه ورجليه بالحناء فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ما بال هذا ؟ قالوا يتشبه بالنساء فأمر به فنفي إلى النقيع . فقيل يا رسول الله ألا تقتله ؟ فقال إني نهيت عن قتل المصلين . رواه أبو داود .-
اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک مخنث کو لایا گیا جس نے (عورتوں کی طرح) اپنے ہاتھ پر مہندی لگا رکھی تھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (اس کو دیکھ کر ) فرمایا کہ اس کو کیا ہوا؟ صحابہ نے عرض کیا کہ یہ شخص (اپنے رہن سہن، بول چال اور طور طریقوں میں ) عورتوں کی مشابہت کرتا ہے ۔چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو شہر سے باہر نکال دینے کا حکم دیا اور اس کو (مدینہ کی ایک جگہ ) نقیع میں بھیج دیا گیا، پھر صحابہ نے عرض کیا کہ " یا رسول اللہ !" کیا ہم اس کو موت کے گھاٹ نہ اتار دیں" یعنی چونکہ یہ فسق و فساد اور برائی کی گند پھیلا رہا ہے اس لئے اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم حکم دیں تو اس کو قتل کر دیا جائے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " مجھ کو نماز پڑھنے والوں کو قتل سے منع کیا گیا ہے ۔" (ابوداؤد ) ۔ تشریح بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے " نماز " کے ذریعہ بطور کنایہ اس کے اسلام کو ذکر کیا گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح کیا کہ چونکہ وہ شخص بہرحال مسلمان ہے اس لئے اس کے قتل کا حکم کیسے دیا جا سکتا ہے ! نماز بول کر اسلام مراد لینے کی بنیاد یہ بھی ہے کہ حقیقت میں نماز ایک ایسا عمل ہے جو اسلام کے اظہار کا ذریعہ ہے اگر کوئی شخص نماز نہیں پڑھتا تو گویا وہ ظاہر کرتا ہے کہ میرا اسلام سے تعلق نہیں ہے اسی لئے اس قول " اگر کوئی مسلمان نماز نہ پڑھے تو اس کو قتل کر دیا جائے " کو بعض علماء نے اس کے ظاہری مفہوم ہی پر محمول کیا ہے،
-