آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہودی کا جنازہ دیکھ کر کیوں کھڑے ہوئے؟

وعن جعفر بن محمد عن أبيه أن الحسن بن علي كان جالسا فمر عليه بجنازة فقام الناس حتى جاوزت الجنازة فقال الحسن : إنما مر بجنازة يهودي وكان رسول الله صلى الله عليه و سلم على طريقها جالسا وكره أن تعلوا رأسه جنازة يهودي فقام . رواه النسائي-
حضرت جعفر بن محمد رحمہ اللہ (یعنی حضرت جعفر صادق) اپنے والد مکرم (حضرت محمد باقر رحمہ اللہ) سے یہ روایت کرتے ہیں کہ (ایک مرتبہ) حضرت علی رضی اللہ عنہ (ایک جگہ) بیٹھے ہوئے تھے کہ ان کے سامنے سے جنازہ لے جایا گیا، وہ لوگ (جنہیں اس مسئلہ کی منسوخی کا علم نہیں ہوا تھا جنازہ دیکھ کر) کھڑے ہوئے تھے اور اس وقت تک کھڑے رہے جب تک کہ جنازہ گزر نہیں گیا، حضرت حسن نے ان سے فرمایا کہ اصل بات یہ ہے کہ جب ایک یہودی کا جنازہ لے جایا جا رہا تھا تو اس وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم راستہ پر بیٹھے ہوئے تھے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے پسند نہیں کیا کہ یہودی کا جنازہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سر مبارک سے اونچا ہوا لہٰذا آپ کھڑے ہو گئے۔ (نسائی) تشریح حضرت حسن کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہودی کے جنازہ کو دیکھ کر جو کھڑے ہوئے تھے تو اس کی وجہ میت کا احترام نہیں تھا بلکہ اصل حقیقت تو یہ تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ بات پسند نہیں کی کہ ایک یہودی کا جنازہ آپ کے سر مبارک سے اونچا ہو گویا حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے اپنے اس ارشاد کے ذریعہ ان لوگوں پر اعتراض کیا جو جنازہ دیکھ کر کھڑے ہوئے تھے۔ ابھی اس سے پہلے جو حدیث گزری ہے اس سے تو معلوم ہوا کہ حضرت حسن نہ صرف یہ کہ جنازہ دیکھ کر کھڑے ہو گئے بلکہ انہوں نے حضرت ابن عباس پر اس لیے اعتراض کیا کہ وہ جنازہ دیکھ کر کھڑے نہیں ہوئے تھے اور یہاں اس حدیث میں یہ بیان کیا جا رہا ہے کہ جو لوگ جنازہ دیکھ کر کھڑے ہو گئے حضرت حسن نے ان پر اعتراض کیا۔ لہٰذا اس اختلاف کے بارہ میں محدثین رحمہم اللہ لکھتے ہیں کہ یہ واقعہ جو یہاں بیان کیا جا رہا ہے اس واقعہ کے بعد کا ہے جو اس سے پہلی حدیث میں بیان کیا گیا ہے پہلے چونکہ حضرت حسن کو منسوخی کا علم نہیں ہوا تھا اس لیے انہوں نے حضرت عباس پر اعتراض کیا۔ مگر جب بعد میں تحقیق و جستجو کے بعد یہ ثابت ہو گیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مذکورہ بالا وجہ سے یہودی کا جنازہ دیکھ کر کھڑے ہو گئے تھے اور یہ کہ جنازہ دیکھ کر کھڑے ہو جانے کا حکم اب منسوخ ہو گیا ہے تو انہوں نے اس موقع پر اعتراض کیا جو جنازہ دیکھ کر کھڑے ہو گئے تھے۔ بہر حال جنازہ دیکھ کر کھڑے ہو جانے کی اور بھی کئی وجوہ ہیں۔ مثلاً یہ کہ بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ آپ ڈر اور عبرت کی وجہ سے جنازہ دیکھ کر کھڑے ہو جاتے تھے کبھی ملائکہ کی تعظیم پیش نظر کھڑے ہو جاتے تھے جو جنازہ کے ساتھ ہوتے تھے کبھی آپ اس لیے بھی کھڑے ہو جاتے تھے کہ آپ جنازہ کو اپنے سر مبارک سے بلند ہونا پسند نہیں فرماتے تھے۔ شیخ عبداالحق محدث دہلوی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ یہ حدیث منقطع ہے کیونکہ حضرت امام باقر حضرت حسن کے زمانے میں نہیں تھے۔
-
وعن أبي موسى أن رسول الله صلى الله عليه و سلم قال : " إذا مرت بك جنازة يهودي أو نصراني أو مسلم فقوموا لها فلستم لها تقومون إنما تقومون لمن معها من الملائكة " . رواه أحمد-
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا " جب تمہارے سامنے کسی یہودی یا نصرانی یا مسلمان کا جنازہ گزرے تو اسے دیکھ کر کھڑے ہو جاؤ اور تم جنازہ (کے ادب و احترام) کے لیے نہیں کھڑے ہوتے بلکہ ان فرشتوں (کی تعظیم) کے لیے کھڑے ہوتے جو جنازہ کے ساتھ ہوتے ہیں" ۔ تشریح جیسا کہ ابھی اوپر بیان کیا گیا ہے جنازہ دیکھ کر کھڑے ہونے کے وجوہ مختلف ہیں انہیں میں سے ایک وجہ یہاں بیان کی جا رہی ہے نیز یہ کہ کھڑے ہو جانے کا یہ حکم پہلے تھا اب منسوخ ہو گیا ہے اسے بھی گزشتہ احادیث کی تشریح میں بیان کیا جا چکا ہے۔
-