آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان رحمت

عن أبي هريرة رضي الله عنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " لكل نبي دعوة مستجابة فتعجل كل نبي دعوته وإني اختبأت دعوتي شفاعة لأمتي إلى يوم القيامة فهي نائلة إن شاء الله من مات من أمتي لا يشرك بالله شيئا " . رواه مسلم وللبخاري أقصر منه-
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ ہر ایک نبی کے لئے ایک دعا ہے جو قبول کی جاتی ہے چنانچہ ہر نبی نے اپنی دعا کے بارہ میں جلدی کی لیکن میں نے اپنی دعا اپنی امت کی شفاعت کی خاطر قیامت کے دن تک کے لئے محفوظ رکھی ہے پس میری یہ دعا اگر خدا نے چاہا تو میری امت کے ہر اس شخص کو فائدہ پہنچائے گی ۔ جو اس حال میں مرا ہو کہ اس نے خدا کے ساتھ کسی کو شریک نہ کیا ہو۔ (مسلم) اور بخاری نے اس روایت کو اس سے کم نقل کیا ہے۔ تشریح ہر نبی کے لئے ایک دعا ہے۔ کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر نبی کو حکم فرمایا تھا کہ اپنے مخالفین کی تباہی کے لیے بد دعا کرو لہٰذا وہ بد دعا کرتے تھے اور اللہ تعالیٰ اسے منظور فرماتا تھا چنانچہ اسی دعا کے بارہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ہر نبی کو دعا مانگنے کا جو حق دیا تھا اور پھر اس کی قبولیت کا یقین بھی عطا فرمایا تھا تو ہر نبی نے اپنے اس حق کے استعمال میں بہت جلدی کی جیسا کہ حضرت نوح علیہ السلام نے اپنی امت کی ہلاکت و تباہی کے لئے بد دعا کی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کی پوری امت طوفان میں غرق کر دی گئی۔ یا اسی طرح حضرت صالح علیہ السلام نے بھی اپنی امت کی تباہی کے لئے بد دعا کی اور امت ان کی حضرت جبرائیل علیہ السلام کی ایک آواز کے ذریعہ ہلاکت کی وادیوں میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے چھپ گئی لیکن میں نے اپنی دعا کو محفوظ رکھا یعنی اپنے مخالفین کی ایذاء پر صبر کیا اور ان کے لئے بد دعا نہ کی۔ کیونکہ میں رحمۃ اللعلمین ہوں میری شان یہ نہیں ہے کہ میں بد دعا کروں اور لوگوں کے لئے تباہی وبربادی کا سامان فراہم کروں میں نے اپنے اس حق کو جو مجھے بھی ملا تھا قیامت تک کے لئے اٹھا رکھا ہے۔ قیامت کے دن میں اس دنیا میں بد دعا کے بجائے ہر اس امتی کے حق میں شفاعت کروں گا جو ایمان کے ساتھ اس دنیا سے رخصت ہوا ہو اگرچہ وہ گنہگار ہی کیوں نہ رہا ہو۔ اس موقع پر اتنی بات اور جان لیجئے کہ شفاعت کئی قسم کی ہو گی بعض لوگ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفاعت کے نتیجہ میں دوزخ میں داخل ہی نہیں ہوں گے بعض دوزخ سے جلدی نکل آئیں گے بعض جنت میں جلدی داخل ہوں گے اور بعض کے جنت میں درجے بلند ہوں گے۔ اللہم ارزقنا شفاعۃ نبینا علیہ الف الف صلوۃ۔
-
وعنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " اللهم إني اتخذت عندك عهدا لن تخلفنيه فإنما أنا بشر فأي المؤمنين آذيته شتمته لعنته جلدته فاجعلها له صلاة وزكاة وقربة تقربه بها إليك يوم القيامة "-
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روای ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بارگاہ حق میں یوں دعا کی کہ اے میرے پروردگار ! میں نے تیری خدمت میں ایک درخواست پیش کی ہے تو مجھے اس کی قبولیت سے نواز اور مجھے نا امید نہ کر۔ یعنی میں امیدوار کرم ہوں کہ میری درخواست ضرور ہی منظور ہو گی اور وہ درخواست یہ ہے کہ میں ایک انسان ہوں لہٰذا جس مومن کو میں نے کوئی ایذاء پہنچائی ہو بایں طور کہ میں نے اسے برا بھلا کہا ہو میں نے اس پر لعنت کی ہو میں نے اسے مارا ہو تو ان سب چیزوں کو تو اس مومن کے حق میں رحمت کا سبب گناہوں سے پاکی کا ذریعہ اور اپنے قرب کا باعث بنا دے کہ تو ان چیزوں کے سبب اس کو قیامت کے دن اپنا قرب بخشے ۔ (بخاری ومسلم) تشریح لفظ فانما انا بشر تمہید ہے عذر کی کہ میں بھی ایک انسان ہوں کبھی کبھی بتقاضائے بشریت کسی پر خفا بھی ہو جاتا ہوں۔ لفظ فای المومنین، اس چیز کی تفصیل اور بیان ہے جس کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے ارشاد اللہم اتخذت الخ کے ذریعہ بارگاہ حق جل شانہ میں درخواست پیش کی بہر کیف آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس دعا کا حاصل یہ ہے کہ جس مومن کو مجھ سے کوئی بھی ایذاء پہنچ جائے تو اس ایذاء کو اس کے حق میں رحمت وغیرہ کا سبب بنا دے۔ منقول ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کسی چیز کی طلب میں بہت مبالغہ سے کام لیا یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دامن پکڑ کر کھڑی ہو گئیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے اس طرز عمل پر فرمایا کہ : قطع اللہ یدک۔ اللہ تعالیٰ تیرا ہاتھ کاٹے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو یہ بات بہت محسوس ہوئی۔ وہ فورا آپ کا دامن چھوڑ کر ہٹ گئیں اور اپنے حجرہ میں آخر بہت ہی رنجیدہ ملول اور غصہ میں بھر کر بیٹھ گئیں۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے پاس تشریف لائے اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی یہ کیفیت دیکھی تو اس وقت آپ نے ان کو خوش کرنے کے لئے یہ کہا۔ اللہم انی اتخذت عندک عہدا الخ۔ لہٰذا علماء لکھتے ہیں کہ جو شخص کسی کے لئے بد دعا کر بیٹھے تو اس کے لئے مسنون یہ ہے کہ وہ اس بد دعا کے بدلہ میں مذکورہ بالا دعا بھی ضرور کرے۔
-