آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کن چیزوں سے پناہ مانگتے تھے

وعن أنس قال كان النبي صلى الله عليه و سلم يقول : " اللهم إني أعوذ بك من الهم والحزن والعجز والكسل والجبن والبخل وضلع الدين وغلبة الرجال "-
حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ دعا مانگا کرتے تھے ۔ دعا (اللہم انی اعوذبک من الہم والحزن والعجز والکسل والجبن والبخل وضلع الدین وغلبۃ الرجال) ۔ اے اللہ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں۔ فکر سے، غم سے، عاجز ہونے سے، سستی سے، نامردی سے، بخل سے ، قرض کے بوجھ سے اور لوگوں (یعنی ظالموں) کے غلبہ سے۔ (بخاری ومسلم)
-
وعن عائشة قالت : كان النبي صلى الله عليه و سلم يقول : " اللهم إني أعوذ بك من الكسل والهرم والمغرم والمأثم اللهم إني أعوذ بك من عذاب النار وفتنة النار وفتنة القبر وعذاب القبر ومن شر فتنة الغنى ومن شر فتنة الفقر ومن شر فتنة المسيح الدجال اللهم اغسل خطاياي بماء الثلج والبرد ونق قلبي كما ينقى الثوب الأبيض من الدنس وباعد بيني وبين خطاياي كما باعدت بين المشرق والمغرب "-
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بارگاہ رب العزت میں یوں عرض کیا کرتے تھے۔ دعا (اللہم انی اعوذبک من الکسل والہرم والمغرم والمأثم اللہم انی اعوذ بک من عذاب النار وفتنۃ النار وفتنۃ القبر وعذاب القبر ومن شر فتنۃ الغنی ومن شر فتنۃ الفقر ومن شر فتنۃ المسیح الدجال اللہم اغسل خطایای بماء الثلج والبرد ونق قلبی کما ینقی الثوب الابیض من الدنس وباعد بینی وبین خطایای کما باعدت بین المشرق والمغرب۔ اے اللہ میں تیری پناہ مانگتا ہوں، طاعت میں سستی سے، بڑھاپے کے سبب سے مخبوط الحو اس اور اعضاء کے ناکارہ ہونے سے تاوان یا قرض سے اور گناہ سے ، اے اللہ میں تیری پناہ مانگتا ہوں آگ کے عذاب سے اور عذاب کے فتنہ سے ۔ قبر کے فتنہ اور قبر کے عذاب سے، دولت کے فتنہ سے اور برائی سے، فقر کے فتنہ کی برائی سے اور کانے دجال کے فتنہ سے اے اللہ ۔ برف اور اولے کے پانی سے میرے گناہ دھو دے (یعنی طرح طرح مغفرتوں کے ذریعہ مجھے گناہوں سے پاک کر دے جس طرح برف اور اولے کا پانی میل کچیل کو صاف کرتا ہے اور میرے دل کو برے اخلاق اور برے خیالات سے پاک کر دے جس طرح سفید کپڑا پانی سے صاف کیا جاتا ہے اور میرے گناہوں کے درمیان اسی طرح بعد پیدا کر دے جس طرح تونے مشرق اور مغرب کے درمیان بعد پیدا کیا ہے۔ (بخاری ومسلم) تشریح : " پناہ مانگتاہوں آگ کے عذاب سے " کا مطلب یہ ہے کہ اے اللہ! میں اس بات سے تیری پناہ مانگتا ہوں کہ میرا شمار ان لوگوں میں ہو جو دوزخی ہیں یا کفار۔ اس موقع پر یہ بات جان لینی چاہئے کہ " عذاب الٰہی " میں صرف کفار ہی مبتلا ہوں گے چنانچہ موحدین جو اپنی بد عملیوں کی سزا آخرت میں پائیں گے اسے عذاب نہیں کہا جاتا بلکہ وہ " تادیب" ہے یعنی اگر ان کو دوزخ کی آگ میں ڈالا جائے گا اور ایسا عذاب کے لئے نہیں بلکہ تادیب یعنی ان کے گناہوں کو دھونے اور ختم کرنے کے لئے ہوگا۔ " آگ کے فتنہ " سے مراد وہ چیزیں ہیں جو آگ اور قبر کے عذاب کا باعث بنتی ہیں یعنی گناہ و معصیت۔ " قبر کے فتنہ " سے مراد ہے منکر و نکیر کے سوالات کا جواب دیتے وقت حو اس باختہ ہونا۔ " قبر کے عذاب " سے مراد ہے، فرشتوں کا، ان لوگوں کو لوہے کے گرزوں سے مارنا اور ان کا عذاب میں مبتلا ہونا۔ جو منکر نکیر کے سوالات کا جواب نہ دے سکیں گے۔ " قبر" سے مراد ہے عالم برزخ چاہے وہ قبر ہو یا کچھ اور ہو دولت کے فتنہ سے مراد ہے تکبر و سرکشی کرنا مال و زر حرام ذرائع سے حاصل کرنا اور ان کو گناہ کی جگہ خرچ کرنا اور مال و جاہ پر بے جا فخر کرنا اسی طرح فخر کے فتنے سے مراد ہے۔ دولت مندوں پر حسد کرنا ، ان کے مال و زر کی ہوس اور طمع رکھنا، اس چیز پر راضی نہ ہونا جو اللہ نے اس کی قسمت میں لکھ دی ہے یعنی فقر اور اسی قسم کی وہ تمام چیزیں جو صبر و توکل اور قناعت کے منافی ہیں۔ اب آخر میں یہ بات بطور خاص ذہن نشین کر لیجئے۔ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ان تمام چیزوں سے پناہ مانگنا اس کے معنی میں نہیں تھا کہ نعوذ باللہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان چیزوں میں مبتلا تھے، یا ان میں مبتلا ہونے کا خوف تھا۔ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم معصوم تھے اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دائمی طور پر ان تمام چیزوں سے امن و حفاظت میں رکھا تھا بلکہ ان چیزوں سے پناہ مانگنا تعلیم امت کے طور پر تھا کہ امت کے لوگ ان چیزوں سے پناہ مانگیں اور ان سے بچیں۔
-
وعن زيد بن أرقم قال : كان رسول الله صلى الله عليه و سلم يقول : " اللهم إني أعوذ بك من العجز والكسل والجبن والبخل والهرم وعذاب القبر اللهم آت نفسي تقواها وزكها أنت خير من زكاها أنت وليها ومولاها اللهم إني أعوذ بك من علم لا ينفع ومن قلب لا يخشع ومن نفس لا تشبع ومن دعوة لا يستجاب لها " . رواه مسلم-
حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ دعا مانگا کرتے تھے۔ دعا (اللہم انی اعوذبک من العجز والکسل والجبن والبخل والھرم وعذاب القبر اللہم اٰت نفسی تقواہا وزکہا انت خیر من زکھا انت ولیہا ومولاہا اللہم انی اعوذبک من علم لا ینفع ومن قلب لا یخشع ومن نفس لا تشبع ومن دعوۃ لا یستجاب لہا)۔ اے اللہ میں تجھ سے پناہ مانگتا ہوں عاجزی یعنی طاعت پر قادر نہ ہو کر اچھے کاموں میں سستی سے، نامردی سے، بخل سے، بڑھاپے کے سبب اعضاء کے ناکارہ اور حو اس باختہ ہونے سے اور قبر کے عذاب یعنی قبر کی تنگی، وہاں کی وحشت گرزوں کے مارے جانے سے، بچھوؤں کے ڈنگ مارنے ، سانپوں کے ڈسنے اور اسی قسم کی دوسری ہولناکیوں سے اے اللہ میرے نفس کو اس کی پرہیزگاری عطا کر اور اس کو پاک کر، کیونکہ اس کو پاک کرنے والوں میں تیری ہی ذات بہترین ہے تو ہی اس کا کارساز اور مالک ہے۔ اے اللہ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں اس علم سے جو نفع بخش نہ ہو اس دل سے جو نہ ڈرے (یا اسے ذکر اللہ سے تسکین نہ ) اس نفس سے جو سیر نہ ہو (یعنی حریص ہو اللہ نے جو کچھ دیا ہے اس پر قناعت نہ کرے اور اس دعا سے جو مرتبہ قبولیت کو نہ پہنچے ۔ (مسلم) تشریح غیر نفع بخش علم سے پناہ مانگنے کا مطلب یہ ہے کہ میں اس علم سے پناہ مانگتا ہوں جس پر عمل نہ کروں جو دوسروں کو نہ سکھاؤں اور جو اخلاق و افعال کو نہ سدھارے، یا پھر اس سے وہ علم مراد ہے جو دین کے لئے ضروری نہ ہو اس طرح وہ علم بھی مراد ہو سکتا ہے جس کو حاصل کرنے کی شریعت نے اجازت نہیں دی ہے۔ حضرت ابوطالب مکی فرماتے ہیں کہ جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شرک ، نفاق اور برے افعال سے پناہ مانگی ہے اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے علم کی (اس ایک قسم سے پناہ مانگی جو اسلامی عقائد و اعمال کے نقطہ نظر سے مضر ہے اور جو انسان کو تقویٰ اور خوف آخرت کی راہ پر لگانے کی بجائے دنیا کی حرص و محبت کے راستہ پر لے جائے چنانچہ جس علم کے ساتھ تقویٰ اور خوف آخرت نہ ہو وہ دنیا کے دروازوں میں سے ایک دروازہ اور دنیاداری کی اقسام میں سے ایک قسم ہے۔
-
وعن عبد بن عمر قال : كان من دعاء رسول الله صلى الله عليه سوسلم : " اللهم إني أعوذ بك من زوال نعمتك وتحول عافيتك وفجاءة نقمتك وجميع سخطك " . رواه مسلم-
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعاؤں میں ایک دعا یہ بھی ہوتی تھی۔ دعا (اللہم انی اعوذبک من زوال نعمتک وتحول عافیتک وفجاءۃ نعمتک وجمیع سخطک) ۔ اے اللہ میں تیری پناہ مانگتا ہوں تیری نعمت کے جاتے رہنے سے اور نعمت سے مراد ایمان و اسلام و نیکیاں اور عرفان ہے تیری عافیت کی تبدیلی سے مثلاً صحت کے بدلے بیمار اور غنا کے بدلے محتاجگی ہو جانے سے تیرے ناگہانی عذاب سے اور تمام غصوں سے۔ (مسلم )
-
وعن عائشة قالت : كان رسول الله صلى الله عليه و سلم يقول : " اللهم إني أعوذ بك من شر ما عملت ومن شر ما لم أعمل " . رواه مسلم-
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ دعا مانگا کرتے تھے دعا (اللہم انی اعوذبک من شر ما عملت ومن شر مالم اعمل) ۔ اے اللہ میں تیری پناہ مانگتا ہوں اس کام کی برائی سے جو میں نے کیا اور اس کام کی برائی سے جو میں نے نہیں کیا۔ (مسلم) تشریح مطلب یہ ہے کہ میں نے جو برے کام کئے ہیں ان سے بھی پناہ مانگتا ہوں بایں معنی کہ ان کی وجہ سے عذاب میں مبتلا نہ ہو جاؤں اور وہ برے کام معاف فرما دئیے جائیں اور جو کام نہیں کئے ہیں ان سے بھی پناہ مانگتا ہوں بایں معنی کہ آئندہ ایسا کوئی کام نہ کرو جو تیری ناراضگی و خوشی کا باعث ہو یا یہ کہ برے کاموں کے ترک کو اپنا کمال نہ سمجھوں بلکہ اسے صرف تیرا فضل جانوں۔
-
وعن ابن عباس أن رسول الله صلى الله عليه و سلم كان يقول : " اللهم لك أسلمت وبك آمنت وعليك توكلت وإليك أنبت وبك خاصمت اللهم إني أعوذ بعزتك لا إله إلا أنت أن تضلني أنت الحي الذي لا يموت والجن والإنس يموتون "-
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ دعا کرتے تھے ۔ اللہم لک اسلمت وبک اٰمنت وعلیک توکلت والیک انبت وبک خاصمت اللہم انی اعوذ بعزتک لاالہ الا انت من ان تضلنی انت الحی الذی لا یموت والجن والانس یموتون) ۔ اے اللہ میں نے تیری اطاعت کی، میں تجھی پر ایمان لایا، میں نے تجھی پر توکل کیا، میں نے تیری ہی طرف رجوع کیا (یعنی گناہوں کو چھوڑ کر تیری ہی طرف متوجہ ہوا، اور میں تیری مدد سے کافروں سے لڑتا ہوں۔ اے اللہ میں تیری عزت کے واسطے سے تیری پناہ مانگتا ہوں تیرے سوا کوئی معبود نہیں، اس سے کہ گمراہ کرے تو مجھ کو تو زندہ ہے ایسا کہ تو نہیں مرے گا اور تمام جن انسان مریں گے۔ (بخاری)
-
عن أبي هريرة قال : كان رسول الله صلى الله عليه و سلم يقول : " اللهم إني أعوذ بك من الأربع : من علم لا ينفع ومن قلب لا يخشع ومن نفس لا تشبع ومن دعاء لا يسمع " . رواه أحمد وأبو داود وابن ماجه-
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یوں دعا مانگتے تھے ۔ دعا (اللہم انی اعوذبک من الاربع من علم لا ینفع ومن قلب لا یخشع ومن نفس لا تشبع ومن دعاء لا یسمع) ۔ اے اللہ میں چار چیزوں سے تیری پناہ مانگتا ہوں اس علم سے جو نفع نہ دے اس دل سے جو عاجزی نہ کرے اس نفس سے جو سیر نہ ہو اور اس دعا سے جو قبول نہ کی جائے۔ (احمد، ابوداؤد، و ابن ماجہ) نیز اس روایت کو ترمذی نے حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے اور نسائی نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اور حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ دونوں سے روایت کیا ہے۔
-
وعن عمر قال : كان رسول الله صلى الله عليه و سلم يتعوذ من خمس : من الجبن والبخل وسوء العمر وفتنة الصدر وعذاب القبر . رواه أبو داود والنسائي-
حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پانچ چیزوں سے اللہ کی پناہ مانگتے تھے۔ (١) نامردی سے۔ (٢) بخل سے (٣) عمر کی برائی سے یعنی عمر کی اتنی زیادتی سے کہ آخر میں قویٰ اور حو اس میں فرق آ جائے اور عبادت و طاعت کی قوت نہ رہے۔ (٤) سینہ کے فتنہ سے یعنی اس چیز سے کہ سینہ کے اندر برے اخلاق اور برے عقائد جاگزیں ہوں یا حق بات قبول نہ ہو اور بلاؤں کا متحمل نہ ہو (٥) قبر کے عذاب سے۔ (ابوداؤد، نسائی)
-
وعن أبي هريرة أن رسول الله صلى الله عليه و سلم كان يقول : " اللهم إني أعوذ بك من الفقر والقلة والذلة وأعوذ من أن أظلم أو أظلم " رواه أبو داود والنسائي-
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ دعا کرتے۔ (اللہم انی اعوذبک من الفقر والقلۃ والذلۃ واعوذبک من ان اظلم او اظلم) ۔ اے اللہ میں تیری پناہ مانگتا ہوں، محتاجگی سے ، قلت سے، ذلت سے ، اور تیری پناہ مانگتا ہوں اس بات سے کہ میں کسی پر ظلم کروں یا کوئی مجھ پر ظلم کرے۔ (ابوداؤد، نسائی) تشریح محتاجگی سے مراد دل کی محتاجگی ہے یعنی دل مال و زر جمع کرنے کا حریص ہو، یا اس سے مراد مال کی محتاجگی (افلاس ہے کہ اس کی وجہ سے صبر کا دامن ہاتھ سے چھوٹ جائے۔ لہٰذا حقیقت تو یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے محتاجگی کے فتنہ سے پناہ مانگی خواہ وہ دل کی محتاجگی ہو یا مال کی۔ قلت سے مراد نیکیوں کی قلت (کمی) ہے مال و زر کی قلت مراد نہیں ہے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو خود مال و زر میں قلت و کمی رکھتے تھے۔ اور مال کی کثرت و زیادتی کو ناپسند فرماتے تھے، یا پھر قلت سے مال کی اتنی قلت مراد ہے کہ وہ قوت لایموت (بقدر بقاء زندگی غذا کے لئے بھی کافی نہ ہو جس کی وجہ سے عبادات میں کوتاہی اور نقصان واقع ہو، بعض حضرات کہتے ہیں کہ یہاں " صبر کی کمی " مراد ہے۔ " ذلت" سے مراد گناہوں کے نتیجہ میں ملنے والی ذلت ہے گنہگار اللہ تعالیٰ کے ہاں ذلیل ہوتا ہے یا پھر مالداروں کی مفلسی یا غربت کی بناء پر ذلیل ہونا مراد ہے۔
-
وعنه أن رسول الله صلى الله عليه و سلم كان يقول : " اللهم إني أعوذ بك من الشقاق والنفاق وسوء الأخلاق " . رواه أبو داود والنسائي-
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دعا کرتے۔ (اللہم انی اعوذبک من الشقاق والنفاق وسوء الاخلاق) اے اللہ میں تیری پناہ مانگتا ہوں، اختلاف سے، نفاق سے، اور برے اخلاق سے۔ (ابوداؤد، نسائی) تشریح " خلاف" سے مراد ہے حق کی مخالفت، اور بعض حضرات نے کہا کہ آپس میں اختلاف و عداوت مراد ہے۔ " نفاق" سے نفاق کی تمام قسمیں مراد ہیں خواہ عقیدہ میں نفاق ہو یا عمل میں۔ مثلاً دل میں کفر و شرک کی تاریکی رکھنا اور زبان سے اسلام کا اظہار کرنا، کسی سے زبان سے تو کچھ کہنا اور دل میں کچھ رکھنا، بہت زیادہ جھوٹ بولنا، امانت میں خیانت کرنا اور وعدہ کے خلاف کرنا، وغیرہ وغیرہ ۔
-
وعنه أن رسول الله صلى الله عليه و سلم كان يقول : " اللهم إني أعوذ بك من الجوع فإنه بئس الضجيع وأعوذ بك من الخيانة فإنها بئست البطانة " . رواه أبو داود والنسائي وابن ماجه-
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ دعا فرماتے تھے ۔ (اللہم انی اعوزبک من الجوع فانہ بئس الضجیع واعوذبک من الخیانۃ فانہا بئست البطانۃ)۔ اے اللہ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں بھوک سے کہ وہ بدترین ہم خواب ہے اور تیری پناہ مانگتا ہوں خیانت سے کہ وہ باطن کی بد ترین خصلت ہے۔ (ابوداؤد، نسائی ، ابن ماجہ) تشریح بھوک سے اس لئے پناہ مانگی کہ اس کی وجہ سے انسان کے بد، قوی اور حو اس میں کمزوری ہو جاتی ہے اور اس کا اثر عبادت میں نقصان اور حضوری میں خلل کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے لہٰذا بد ترین بھوک وہی ہے جو نقصان و خلل کا باعث بنے اور اکثر ہو جب کہ وہ بھوک جو ریاضت و مجاہدہ کے مقصد سے بطریق اعتدال اور اپنی حالت کے موافق ہو بدترین نہیں ہے۔ بلکہ وہ باطن کی صفائی دل کی نورانیت اور بیماریوں سے بدن کی صحت و سلامتی کا سبب ہے۔ " خیانت" سے مراد ہے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کا ارتکاب کرنا اور لوگوں کے اموال اور ان کے رازوں میں بے ایمانی و خیانت کرنا چنانچہ قرآن کریم کی یہ آیت اسی پر دلالت کرتی ہے۔ ا یت (يٰ اَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَخُوْنُوا اللّٰهَ وَالرَّسُوْلَ وَتَخُوْنُوْ ا اَمٰنٰتِكُمْ) 8۔ الانفال : 27) ۔ اے ایمان والو! نافرمانی کے ذریعہ اللہ اور رسول کے حق میں خیانت نہ کرو اور نہ اپنے اموال میں خیانت کرو۔
-
وعن أنس أن رسول الله صلى الله عليه و سلم كان يقول : " اللهم إني أعوذ بك من البرص والجذام والجنون ومن سيئ الأسقام " . رواه أبو داود والنسائي-
حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ دعا مانگتے تھے (اللہم انی اعوذبک من البرص والجذام والجنون ومن سییء الاسقام)۔ اے اللہ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں کوڑھ سے، جذام سے دیوانگی سے، اور بری بیماریوں سے، (ابوداؤد، نسائی) تشریح سییء الاسقام (بری بیماریوں) کا ذکر تعمیم بعد تخصیص کے طور پر ہے یعنی پہلے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خاص طور پر چند بری بیماریوں کا نام لیتے ہوئے پناہ مانگی۔ پھر عام طور پر ہر بری بیماری مثلاً استسقاء اور دق وغیرہ سے پناہ مانگی۔ ان بیماریوں سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پناہ اس لئے مانگی کہ جس شخص کو ان میں سے کوئی بیماری لاحق ہوتی ہے اکثر لوگ اس سے گھبراتے ہیں اور اس کے پاس اٹھنے بیٹھنے سے بھی پرہیز کرتے ہیں۔ نیز برص اور کوڑھ تو ایسے مرض ہیں جن کی وجہ سے مریض کا جسم بد ہیئتی اور بدنمائی کا شکار ہو جاتا ہے اس طرح وہ جسم کے معاملہ میں اپنے ہی جیسے انسانوں کی صف سے باہر ہو جاتا ہے پھر یہ کہ مرض ہمیشہ کے لئے چپک کر رہ جاتے ہیں جو کبھی اچھے نہیں ہوتے برخلاف اور امراض کے مثلاً بخار، سردرد وغیرہ کا یہ حال نہیں ہوتا ان میں تکلیف بھی کم ہوتی ہے اور ثواب بھی بہت ملتا ہے۔ ابن مالک رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ اس حدیث کا حاصل یہ ہے کہ جو مرض ایسا ہو کہ لوگ مریض سے احتراز کرتے ہوں۔ نہ خود مریض دوسروں سے منقطع ہو سکتا ہو اور نہ دوسرے اس سے کوئی فائدہ حاصل کر سکتے ہوں اور مریض اس مرض کی وجہ سے حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی سے عاجز ہو جاتا ہو تو اس مرض سے پناہ مانگنی مستحب ہے۔ علماء کا خیال یہ ہے کہ اور جذام بالطبع متعدی نہیں ہیں یعنی یہ مرض کسی کو از خود نہیں لگتے مگر اکثر ایسا ہوتا ہے کہ کوڑھی کے بدن سے اپنا بدن لگانے کی وجہ سے جذامی کی پیپ لگ کر یہ بیماریاں پیدا ہو جاتی ہیں۔
-
وعن قطبة بن مالك قال : كان النبي صلى الله عليه و سلم يقول : " اللهم إني أعوذ بك من منكرات الأخلاق والأعمال والأهواء " . رواه الترمذي-
حضرت قطبہ بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے۔ (اللھم انی اعوذبک من منکرات الاخلاق والاعمال والاہواء) ۔ اے اللہ میں تیری پناہ مانگتا ہوں برے اخلاق سے برے اعمال سے اور بری خواہشات سے۔ (ترمذی) تشریح " منکر" اسے کہتے ہیں کہ جسے شریعت نے بھلائی میں شمار نہ کیا ہو یا شریعت نے جس کی برائی بیان کی ہو۔ " اخلاق" سے مراد باطنی اعمال ہیں لہٰذا منکر الاخلاق سے پناہ مانگنے کا مطلب یہ ہوا کہ اے اللہ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں دل کے برے اعمال سے مثلا حسد وکینہ وغیرہ سے۔ " برے اعمال" سے مراد ظاہری برے افعال ہیں اور بری خواہشات سے مراد برے عقائد اور غلط افکار و نظریات ہیں۔
-