آخرت کی دشوار گزار راہ سے آسانی کے ساتھ گزرنا چاہتے ہو تو مال ودولت جمع نہ کرو

وعن أم الدرداء قالت قلت لأبي الدرداء مالك لا تطلب كما يطلب فلان ؟ فقال إني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول إن أمامكم عقبة كؤودا لا يجوزها المثقلون . فأحب أن أتخفف لتلك العقبة-
حضرت ام درداء رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ایک دن میں نے اپنے شوہر حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ سے کہا آپ کو کیا ہوگیا ہے کہ آپ (حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یا صحابہ رضی اللہ عنہم سے) مال واسباب اور منصب نہیں مانگتے جیسا کہ فلاں فلاں لوگ مانگتے ہیں؟ حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ نے یہ سن کر کہا کہ میں کسی سے مال ودولت کی خواہش کرنے اور اس کو جمع کرنے سے اس لئے گریز کرتا ہوں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے (یاد رکھو) تمہارے سامنے ایک دشوار گذار گھاٹی ہے اس سے وہ لوگ آسانی اور سہولت کے ساتھ نہیں گزر سکتے جو گرانبار ہیں۔ چنانچہ میں یہ پسند کرتا ہوں کہ مال ودولت طلب کرنے سے گریز کر کے اور کم سے کم دنیاوی مال واسباب پر صبر وقناعت کر کے ہلکار ہوں تاکہ اس گھاٹی سے آسانی وسہولت کے ساتھ گزر سکوں۔ تشریح : " دشوار گذار گھاٹی" سے مراد موت، قبر ، حشر اور ان کے سلسلہ میں پیش آنے والی ہولناکیاں اور شدائد ہیں۔ اور " گرانبار" سے مراد وہ لوگ ہیں جو مال ودولت، منصب وجاہ اور دنیاوی ترفع وخوشحالی کا بوجھ اپنے کاندھوں پر رکھتے ہیں، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشاد گرامی کا حاصل یہ ہے کہ مومن کی دنیاوی زندگی اور اس کی ابدی قرار گاہ (جنت) کے درمیان جو فاصلہ ہے وہ ایک دشوار گذار گھاٹی سے گزرنے کے بعد ہی طے ہوتا ہے کہ اور ظاہر ہے کہ جس شخص کو اپنی منزل مقصود تک پہنچنے کے لئے کسی دشوار گذار گھاٹی سے گزرنا ہوتا ہے وہ اپنے ساتھ کوئی بوجھ نہیں رکھتا اور زیادہ سے زیادہ ہلکا رہ کر ہی آسانی کے ساتھ اس گھاٹی سے گزر سکتا ہے ۔ لہٰذا اگر تم اپنی آخری منزل یعنی جنت تک آسانی کے ساتھ پہنچنا چاہتے ہو تو خود کو دنیا کے مال واسباب اور جاہ وحشم کی گرانباری سے ہلکا رکھو تاکہ تمہارے اور جنت کے درمیان جو دشوار گزار گھاٹی ہے اس کو طے کرنے میں کوئی رکاوٹ پیش نہ آئے، اور اسی لئے کہا گیا ہے فازالمخفون وہلک المثقلون یعنی سب سر لوگ کامیاب ہوئے اور گرانبار لوگ ہلاکت میں پڑ گئے۔
-