TRUE HADITH
Home
About
Mission
Contact
مشکوۃ شریف
لباس کا بیان
" قزع " کی ممانعت
وعن نافع عن ابن عمر قال سمعت النبي صلى الله عليه وسلم ينهى عن القزع . قيل لنافع ما القزع ؟ قال يحلق بعض رأس الصبي ويترك البعض . وألحق بعضهم التفسير بالحديث .-
اور حضرت نافع، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو " قزع " سے منع فرماتے ہوئے سنا، حضرت نافع سے پوچھا گیا کہ قزع کیا ہے؟ تو انہوں نے کہا (قزع اس کو کہتے ہیں کہ ) لڑکے کے سر کے بعض حصہ کو مونڈا جائے، اور بعض حصے کو چھوڑ دیا جائے ۔ (بخاری ومسلم ) اور بعض راویوں نے وضاحت کو حدیث کے ساتھ جوڑا ہے یعنی راوی کے مطابق، قزع کے یہ معنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی نے بیان فرمائے ۔" تشریح نووی کہتے ہیں کہ قزع کے معنی مطلق (کسی کے بھی ) سر کے کچھ حصے کو مونڈنا (اور کچھ حصے کو بغیر مونڈے چھوڑ دینا ہیں ) اور یہی معنی زیادہ صحیح ہیں کیوں کہ حدیث کے روای نے بھی یہی معنی بیان کئے ہیں اور یہ حدیث کے ظاہری مفہوم کے مخالف بھی نہیں ہیں لہٰذا اسی معنی پر اعتماد کرنا واجب ہے ! جہاں تک " لڑکے " کی تخصیص کا ذکر ہے تو یہ محض عام رواج و عادات کی بنا پر ہے ورنہ قزع جس طرح لڑکے کے حق میں مکروہ ہے، اس طرح بڑوں کے حق میں بھی مکروہ ہے، اسی لئے فقہی روایات میں یہ مسئلہ کسی قید و استثناء کے بغیر بیان کیا جاتا ہے، اور قزع میں کراہت اس اہل کفر کی مشابہت اور بد ہئیتی سے بچانے کے لئے ہے ۔ راوی نے " قزع " کا جو مطلب بیان کیا ہے اور جس کو نووی نے زیادہ صحیح کہا ہے اس میں چوٹی (جیسا کہ غیر مسلم اپنے سر چھوڑتے ہیں ) (زلف اور بالوں کی ) وہ تراش خراش شامل ہے جو مسنون طرز کے خلاف ہو۔
-
وعن ابن عمر أن النبي صلى الله عليه وسلم رأى صبيا قد حلق بعض رأسه وترك بعضه فنهاهم عن ذلك وقال احلقوا كله أو اتركوا كله . رواه مسلم .-
اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ایسے لڑکے کو دیکھا جس کے سر کا کچھ حصہ مونڈا گیا تھا ۔چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لڑکے کی پرورش کرنے والوں کو اس سے منع فرمایا اور فرمایا کہ پورے سر کو مونڈو یا پورے سر کو چھوڑ دو!۔" (مسلم ) تشریح اس حدیث میں اس طرف اشارہ ہے کہ حج و عمرہ کے علاوہ بھی سر منڈانا جائز ہے ۔ ویسے مسئلہ یہ ہے کہ مرد کو اختیار ہے کہ وہ چاہے سر منڈائے اور چاہے سر پر بال رکھے لیکن افضل یہ کہ سوائے حج اور عمرہ کے سر نہ منڈائے، جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے علاوہ دوسرے صحابہ کرام کا معمول تھا اور کتاب کے ابتدائی حصہ میں باب الجنایت کے دوران اس کا ذکر گزر چکا ہے ۔
-