TRUE HADITH
Home
About
Mission
Contact
مسند احمد
ا ب ج
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
حَدَّثَنَا عَفَّانُ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي نَجِيحٍ قَالَ سَأَلْتُ طَاوُسًا عَنْ رَجُلٍ رَمَى الْجَمْرَةَ بِسِتِّ حَصَيَاتٍ فَقَالَ لِيُطْعِمْ قَبْضَةً مِنْ طَعَامٍ قَالَ فَلَقِيتُ مُجَاهِدًا فَسَأَلْتُهُ وَذَكَرْتُ لَهُ قَوْلَ طَاوُسٍ فَقَالَ رَحِمَ اللَّهُ أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَمَا بَلَغَهُ قَوْلُ سَعْدِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ رَمَيْنَا الْجِمَارَ أَوْ الْجَمْرَةَ فِي حَجَّتِنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ جَلَسْنَا نَتَذَاكَرُ فَمِنَّا مَنْ قَالَ رَمَيْتُ بِسِتٍّ وَمِنَّا مَنْ قَالَ رَمَيْتُ بِسَبْعٍ وَمِنَّا مَنْ قَالَ رَمَيْتُ بِثَمَانٍ وَمِنَّا مَنْ قَالَ رَمَيْتُ بِتِسْعٍ فَلَمْ يَرَوْا بِذَلِكَ بَأْسًا-
ابن ابی نجیح کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے طاؤس سے پوچھا کہ اگر کوئی آدمی جمرات کی رمی کرتے ہوئے کسی جمرہ کو سات کی بجائے چھ کنکریاں مار دے تو کیا حکم ہے؟ انہوں نے کہا کہ ایک مٹھی کے برابر گندم صدقہ کر دے، اس کے بعد میں مجاہد سے ملا تو ان سے بھی یہی سوال کیا اور طاؤس کا جواب بھی ذکر کر دیا، انہوں نے کہا کہ اللہ ان پر رحم کرے، کیا انہیں حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث نہیں پہنچی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہم نے جو حج کیا تھا، اس میں جمرات کی رمی کرنے کے بعد جب ہم لوگ بیٹھے اور آپس میں بات چیت ہونے لگی تو کسی نے کہا کہ میں نے چھ کنکریاں ماری ہیں، کسی نے سات کہا، کسی نے آٹھ اور کسی نے نو کہا، لیکن انہوں نے اس میں کوئی حرج محسوس نہیں کیا۔
-
حَدَّثَنَا عَفَّانُ حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ حَدَّثَنَا أَيُّوبُ عَنْ عَمْرِو بْنِ سَعِيدٍ عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحِمْيَرِيِّ عَنْ ثَلَاثَةٍ مِنْ وَلَدِ سَعْدٍ عَنْ سَعْدٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ عَلَيْهِ يَعُودُهُ وَهُوَ مَرِيضٌ وَهُوَ بِمَكَّةَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَدْ خَشِيتُ أَنْ أَمُوتَ بِالْأَرْضِ الَّتِي هَاجَرْتُ مِنْهَا كَمَا مَاتَ سَعْدُ ابْنُ خَوْلَةَ فَادْعُ اللَّهَ أَنْ يَشْفِيَنِي قَالَ اللَّهُمَّ اشْفِ سَعْدًا اللَّهُمَّ اشْفِ سَعْدًا اللَّهُمَّ اشْفِ سَعْدًا فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ لِي مَالًا كَثِيرًا وَلَيْسَ لِي وَارِثٌ إِلَّا ابْنَةً أَفَأُوصِي بِمَالِي كُلِّهِ قَالَ لَا قَالَ أَفَأُوصِي بِثُلُثَيْهِ قَالَ لَا قَالَ أَفَأُوصِي بِنِصْفِهِ قَالَ لَا قَالَ أَفَأُوصِي بِالثُّلُثِ قَالَ الثُّلُثُ وَالثُّلُثُ كَثِيرٌ إِنَّ نَفَقَتَكَ مِنْ مَالِكَ لَكَ صَدَقَةٌ وَإِنَّ نَفَقَتَكَ عَلَى عِيَالِكَ لَكَ صَدَقَةٌ وَإِنَّ نَفَقَتَكَ عَلَى أَهْلِكَ لَكَ صَدَقَةٌ وَإِنَّكَ أَنْ تَدَعَ أَهْلَكَ بِعَيْشٍ أَوْ قَالَ بِخَيْرٍ خَيْرٌ مِنْ أَنْ تَدَعَهُمْ يَتَكَفَّفُونَ النَّاسَ-
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ وہ مکہ مکرمہ میں بیمار ہوگئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کی عیادت کے لئے تشریف لائے، انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! مجھے اندیشہ ہے کہ کہیں میں اس سر زمین میں ہی نہ مر جاؤں جہاں سے میں ہجرت کر کے جا چکا تھا اور جیسے سعد بن خولہ کے ساتھ ہوا تھا، اس لئے آپ اللہ سے میری صحت کے لئے دعاء کیجئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ فرمایا اے اللہ! سعد کو شفاء عطاء فرما۔ پھر حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! میرے پاس بہت سامان ہے، میری وارث صرف ایک بیٹی ہے، کیا میں اپنے سارے مال کو راہ خدا میں دینے کی وصیت کر سکتا ہوں؟ فرمایا نہیں، انہوں نے دو تہائی مال کی وصیت کے بارے پوچھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر منع فرمادیا، انہوں نے نصف کے متعلق پوچھا تب بھی منع فرمادیا، پھر جب ایک تہائی مال کے متعلق پوچھا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں! ایک تہائی مال کی وصیت کر سکتے ہو اور یہ ایک تہائی بھی بہت زیادہ ہے، یاد رکھو! تم اپنا مال جو اپنے اوپر خرچ کرتے ہو، یہ بھی صدقہ ہے، اپنے و اہل وعیال پر جو خرچ کرتے ہو، یہ بھی صدقہ ہے، اپنی بیوی پر جو خرچ کرتے ہو، وہ بھی صدقہ ہے، نیز یہ کہ تم اپنے اہل خانہ کو اچھی حالت میں چھوڑ کر جاؤ، یہ اس سے بہت بہتر ہے کہ تم انہیں اس حال میں چھوڑ جاؤ کہ وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے پر مجبور ہو جائیں ۔
-
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ الْحَنَفِيُّ عَبْدُ الْكَبِيرِ بْنُ عَبْدِ الْمَجِيدِ حَدَّثَنَا بُكَيْرُ بْنُ مِسْمَارٍ عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدٍ أَنَّ أَخَاهُ عُمَرَ انْطَلَقَ إِلَى سَعْدٍ فِي غَنَمٍ لَهُ خَارِجًا مِنْ الْمَدِينَةِ فَلَمَّا رَآهُ سَعْدٌ قَالَ أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ شَرِّ هَذَا الرَّاكِبِ فَلَمَّا أَتَاهُ قَالَ يَا أَبَتِ أَرَضِيتَ أَنْ تَكُونَ أَعْرَابِيًّا فِي غَنَمِكَ وَالنَّاسُ يَتَنَازَعُونَ فِي الْمُلْكِ بِالْمَدِينَةِ فَضَرَبَ سَعْدٌ صَدْرَ عُمَرَ وَقَالَ اسْكُتْ إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ يُحِبُّ الْعَبْدَ التَّقِيَّ الْغَنِيَّ الْخَفِيَّ-
عامربن سعد کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ان کے بھائی عمر مدینہ منورہ سے باہر حضرت سعد رضی اللہ عنہ کے پاس ان کے بکریوں کے فارم میں چلے گئے، جب حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے انہیں دیکھا ( تو وہ پریشان ہوگئے کہ اللہ خیر کرے ، کوئی اچھی خبر لے کر آیا ہو) اور کہنے لگے کہ اس سوار کے پاس اگر کوئی بری خبر ہے تو میں اس سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں، جب وہ ان کے قریب پہنچے تو کہنے لگے اباجان! لوگ مدینہ منورہ میں حکومت کے بارے میں جھگڑ رہے ہیں اور آپ دیہاتیوں کی طرح اپنی بکریوں میں مگن ہیں؟ حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے ان کے سینے پر ہاتھ مار کر فرمایا خاموش رہو، میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس بندے کو پسند فرماتے ہیں جو متقی ہو، بے نیاز ہو اور اپنے آپ کو مخفی رکھنے والا ہو۔
-
حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ حَدَّثَنَا فُلَيْحٌ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ يَعْنِي ابْنَ مَعْمَرٍ قَالَ حَدَّثَ عَامِرُ بْنُ سَعْدٍ عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِيزِ وَهُوَ أَمِيرٌ عَلَى الْمَدِينَةِ أَنَّ سَعْدًا قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ أَكَلَ سَبْعَ تَمَرَاتِ عَجْوَةٍ مِنْ بَيْنَ لَابَتَيْ الْمَدِينَةِ عَلَى الرِّيقِ لَمْ يَضُرَّهُ يَوْمَهُ ذَلِكَ شَيْءٌ حَتَّى يُمْسِيَ قَالَ فُلَيْحٌ وَأَظُنُّهُ قَالَ وَإِنْ أَكَلَهَا حِينَ يُمْسِي لَمْ يَضُرَّهُ شَيْءٌ حَتَّى يُصْبِحَ فَقَالَ عُمَرُ انْظُرْ يَا عَامِرُ مَا تُحَدِّثُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ أَشْهَدُ مَا كَذَبْتُ عَلَى سَعْدٍ وَمَا كَذَبَ سَعْدٌ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-
ابن معمر کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ عامربن سعد نے حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ کو جبکہ وہ گورنر مدینہ تھے اپنے والد حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے حوالے سے یہ حدیث سنائی کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص صبح نہار منہ مدینہ منورہ کے دونوں اطراف میں کہیں سے بھی عجوہ کھجور کے سات دانے لے کر کھائے تو اس دن شام تک اسے کوئی چیز نقصان نہیں پہنچا سکے گی۔ راوی کا گمان ہے کہ انہوں نے یہ بھی فرمایا کہ اگر شام کو کھالے تو صبح تک اسے کوئی چیز نقصان نہیں پہنچا سکے گی، حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا عامر! اچھی طرح سوچ لو کہ تم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے کیا حدیث بیان کر رہے ہو؟ انہوں نے کہا کہ میں اس بات پر گواہ ہوں کہ حضرت سعد رضی اللہ عنہ پر جھوٹ نہیں باندھ رہا اور یہ کہ حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ نہیں باندھا۔
-
حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ جَعْفَرٍ عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ سَعْدٍ عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدٍ أَنَّ سَعْدًا رَكِبَ إِلَى قَصْرِهِ بِالْعَقِيقِ فَوَجَدَ غُلَامًا يَخْبِطُ شَجَرًا أَوْ يَقْطَعُهُ فَسَلَبَهُ فَلَمَّا رَجَعَ سَعْدٌ جَاءَهُ أَهْلُ الْغُلَامِ فَكَلَّمُوهُ أَنْ يَرُدَّ مَا أَخَذَ مِنْ غُلَامِهِمْ فَقَالَ مَعَاذَ اللَّهِ أَنْ أَرُدَّ شَيْئًا نَفَّلَنِيهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبَى أَنْ يَرُدَّ عَلَيْهِمْ-
عامر بن سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ اپنی سواری پر سوار ہو کر وادی عقیق میں اپنے محل کی طرف جا رہے تھے، وہاں پہنچے تو ایک غلام کو درخت کاٹتے ہوئے دیکھا، انہوں نے اس سے وہ ساری لکڑیاں وغیرہ چھین لیں (جو اس نے کاٹی تھیں) جب حضرت سعد رضی اللہ عنہ واپس آئے تو غلام کے مالکان ان کے پاس آئے اور ان سے کہا کہ انہوں نے غلام سے جو کچھ لیا ہے وہ واپس کر دیں، انہوں نے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جو چیز مجھے عطاء فرمائی ہے، میں اسے واپس لوٹا دوں، خدا کی پناہ اور یہ کہہ کر وہ چیزیں واپس لوٹانے سے انکار کردیا۔ فائدہ : اس کی وضاحت عنقریب حدیث نمبر1460 میں آرہی ہے۔
-
حَدَّثَنَا رَوْحٌ أَمْلَاهُ عَلَيْنَا بِبَغْدَادَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي حُمَيْدٍ عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ سَعَادَةِ ابْنِ آدَمَ اسْتِخَارَتُهُ اللَّهَ وَمِنْ سَعَادَةِ ابْنِ آدَمَ رِضَاهُ بِمَا قَضَاهُ اللَّهُ وَمِنْ شِقْوَةِ ابْنِ آدَمَ تَرْكُهُ اسْتِخَارَةَ اللَّهِ وَمِنْ شِقْوَةِ ابْنِ آدَمَ سَخَطُهُ بِمَا قَضَى اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ-
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ابن آدم کی سعادت ہے کہ وہ ہر معاملے میں اللہ سے استخارہ کرے، اور اس کے فیصلے پر راضی رہے اور ابن آدم کی بدنصیبی ہے کہ وہ اللہ سے استخارہ کرنا چھوڑ دے اور اللہ کے فیصلے پر ناگواری کا اظہار کرے۔
-
حَدَّثَنَا رَوْحٌ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي حُمَيْدٍ حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ سَعَادَةِ ابْنِ آدَمَ ثَلَاثَةٌ وَمِنْ شِقْوَةِ ابْنِ آدَمَ ثَلَاثَةٌ مِنْ سَعَادَةِ ابْنِ آدَمَ الْمَرْأَةُ الصَّالِحَةُ وَالْمَسْكَنُ الصَّالِحُ وَالْمَرْكَبُ الصَّالِحُ وَمِنْ شِقْوَةِ ابْنِ آدَمَ الْمَرْأَةُ السُّوءُ وَالْمَسْكَنُ السُّوءُ وَالْمَرْكَبُ السُّوءُ-
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تین چیزیں ابن آدم کی سعات مندی کی علامت ہیں اور تین چیزیں اس کی بدنصیبی کی علامت ہیں، ابن آدم کی خوش نصیبی تو یہ ہے کہ اسے نیک بیوی ملے، اچھی رہائش ملے اور عمدہ سواری ملے جبکہ اس کی بدنصیبی یہ ہے کہ اسے بری بیوی ملے، بری رہائش ملے اور بری سواری ملے۔
-
حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ مَوْلَى بَنِي هَاشِمٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ لَهِيعَةَ حَدَّثَنَا بُكَيْرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْأَشَجِّ أَنَّهُ سَمِعَ حُسَيْنَ بْنَ عَبْدِ الرَحَّمَنِ يُحَدِّثُ أَنَّهُ سَمِعَ سَعْدَ بْنَ أَبِي وَقَّاصٍ يَقُولُ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ سَتَكُونُ فِتْنَةٌ الْقَاعِدُ فِيهَا خَيْرٌ مِنْ الْقَائِمِ وَالْقَائِمُ فِيهَا خَيْرٌ مِنْ الْمَاشِي وَيَكُونُ الْمَاشِي فِيهَا خَيْرًا مِنْ السَّاعِي قَالَ وَأُرَاهُ قَالَ وَالْمُضْطَجِعُ فِيهَا خَيْرٌ مِنْ الْقَاعِدِ-
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا عنقریب فتنوں کا دور آئے گا، اس دور میں بیٹھنے والا کھڑے ہونے والے سے بہتر ہوگا، کھڑا ہونے والا چلنے والے سے بہتر ہوگا اور چلنے والا دوڑنے والے سے بہتر ہوگا اور شاید یہ بھی فرمایا کہ لیٹنے والا بیٹھنے والے سے بہتر ہوگا ۔
-
حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ عَنِ ابْنِ أَخٍ لِسَعْدٍ عَنْ سَعْدٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لِبَنِي نَاجِيَةَ أَنَا مِنْهُمْ وَهُمْ مِنِّي حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ وَذَكَرَ الْحَدِيثَ بِقِصَّةٍ فِيهِ فَقَالَ ابْنُ أَخِي سَعْدِ بْنِ مَالِكٍ قَدْ ذَكَرُوا بَنِي نَاجِيَةَ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ هُمْ حَيٌّ مِنِّي وَلَمْ يُذْكَرْ فِيهِ سَعْدٌ-
حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (کے سامنے ایک مرتبہ بنو ناجیہ کا تذکرہ ہوا تو) فرمایا کہ میں ان سے ہوں اور وہ مجھ سے ہیں ۔
-
حَدَّثَنَا حَسَنٌ حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ أَبِي حَبِيبٍ عَنْ دَاوُدَ بْنِ عَامِرِ بْنِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَوْ أَنَّ مَا يُقِلُّ ظُفُرٌ مِمَّا فِي الْجَنَّةِ بَدَا لَتَزَخْرَفَتْ لَهُ مَا بَيْنَ خَوَافِقِ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ وَلَوْ أَنَّ رَجُلًا مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ اطَّلَعَ فَبَدَا سِوَارُهُ لَطَمَسَ ضَوْءُهُ ضَوْءَ الشَّمْسِ كَمَا تَطْمِسُ الشَّمْسُ ضَوْءَ النُّجُومِ-
حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اگر جنت کی ناخن سے بھی کم کوئی چیز دنیا میں ظاہر ہوجائے تو زمین و آسمان کی چاروں سمتیں مزین ہو جائیں اور اگر کوئی جنتی مرد دنیا میں جھانک کر دیکھ لے اور اس کا کنگن نمایاں ہو جائے تو اس کی روشنی سورج کی روشنی کو اس طرح مات کر دے جیسے سورج کی روشنی ستاروں کی روشنی کو مات کر دیتی ہے۔
-
حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ الْخُزَاعِيُّ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ جَعْفَرٍ عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدٍ عَنْ سَعْدٍ قَالَ الْحَدُوا لِي لَحْدًا وَانْصِبُوا عَلَيَّ اللَّبِنَ نَصْبًا كَمَا صُنِعَ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَنَا ابْنُ مَهْدِيٍّ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ جَعْفَرٍ عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ سَعْدٍ فَذَكَرَ مِثْلَهُ وَوَافَقَهُ أَبُو سَعِيدٍ عَلَى عَامِرِ بْنِ سَعْدٍ كَمَا قَالَ الْخُزَاعِيُّ-
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے اپنی آخری وصیت میں فرمایا تھا کہ میری قبر کو لحد کی صورت میں بنانا اور اس پر کچی اینٹیں نصب کرنا جیسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کیا گیا تھا۔ گذشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے جو یہاں ذکر ہوئی۔
-
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الْهَاشِمِيُّ حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ يَعْنِي ابْنَ جَعْفَرٍ أَخْبَرَنِي مُوسَى بْنُ عُقْبَةَ عَنْ أَبِي النَّضْرِ مَوْلَى عُمَرَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ مَعْمَرٍ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فِي الْمَسْحِ عَلَى الْخُفَّيْنِ لَا بَأْسَ بِذَلِكَ-
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے موزوں پر مسح کرنے کے حوالے سے فرمایا ہے کہ اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
-
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ عِيسَى حَدَّثَنِي مَالِكٌ يَعْنِي ابْنَ أَنَسٍ عَنْ سَالِمٍ أَبِي النَّضْرِ عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ قَالَ سَمِعْتُ أَبِي يَقُولُ مَا سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ لِحَيٍّ مِنْ النَّاسِ يَمْشِي إِنَّهُ فِي الْجَنَّةِ إِلَّا لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَلَامٍ-
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی زندہ انسان کے حق میں یہ فرماتے ہوئے نہیں سنا کہ یہ زمین پر چلتا پھرتا جنتی ہے، سوائے حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کے۔
-
حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ أَنْبَأَنَا خَالِدٌ عَنْ أَبِي عُثْمَانَ قَالَ لَمَّا ادُّعِيَ زِيَادٌ لَقِيتُ أَبَا بَكْرَةَ قَالَ فَقُلْتُ مَا هَذَا الَّذِي صَنَعْتُمْ إِنِّي سَمِعْتُ سَعْدَ بْنَ أَبِي وَقَّاصٍ يَقُولُ سَمِعَ أُذُنِي مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَقُولُ مَنْ ادَّعَى أَبًا فِي الْإِسْلَامِ غَيْرَ أَبِيهِ وَهُوَ يَعْلَمُ أَنَّهُ غَيْرُ أَبِيهِ فَالْجَنَّةُ عَلَيْهِ حَرَامٌ فَقَالَ أَبُو بَكْرَةَ وَأَنَا سَمِعْتُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-
ابو عثمان کہتے ہیں کہ جب زیاد کی نسبت کا مسئلہ بہت بڑھا تو ایک دن میری ملاقات حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے ہوئی، میں نے ان سے پوچھا کہ یہ آپ لوگوں نے کیا کیا؟ میں نے حضرت سعد رضی اللہ عنہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات میرے ان کانوں نے سنی ہے کہ جو شخص حالت اسلام میں اپنے باپ کے علاوہ کسی اور شخص کو اپنا باپ قرار دیتا ہے حالانکہ وہ جانتا ہے کہ وہ شخص اس کا باپ نہیں ہے تو اس پر جنت حرام ہے، حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے۔
-
حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ عَنْ وُهَيْبٍ عَنْ أَبِي وَاقِدٍ اللَّيْثِيِّ عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدٍ عَنْ أَبِيهِ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ تُقْطَعُ الْيَدُ فِي ثَمَنِ الْمِجَنِّ-
حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ایک ڈھال کی قیمت کے برابر کوئی چیز چوری کرنے پر چور کا ہاتھ کاٹ دیا جائے گا۔
-
حَدَّثَنَا رَوْحٌ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي حُمَيْدٍ الْمَدَنِيُّ حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ قَالَ أَمَرَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ أُنَادِيَ أَيَّامَ مِنًى إِنَّهَا أَيَّامُ أَكْلٍ وَشُرْبٍ فَلَا صَوْمَ فِيهَا يَعْنِي أَيَّامَ التَّشْرِيقِ-
حضرت سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ ایام منی میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے یہ منادی کرنے کا حکم دیا کہ ایام تشریق کھانے پینے کے دن ہیں اس لئے ان میں روزہ نہیں ہے۔
-
حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا الْفُضَيْلُ بْنُ سُلَيْمَانَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي يَحْيَى عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ بْنِ سَالِمٍ عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدٍ عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ قَالَ مَا بَيْنَ لَابَتَيْ الْمَدِينَةِ حَرَامٌ قَدْ حَرَّمَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَمَا حَرَّمَ إِبْرَاهِيمُ مَكَّةَ اللَّهُمَّ اجْعَلْ الْبَرَكَةَ فِيهَا بَرَكَتَيْنِ وَبَارِكْ لَهُمْ فِي صَاعِهِمْ وَمُدِّهِمْ-
حضرت سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مدینہ منورہ کے دونوں کناروں کے درمیان کی جگہ حرم ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے حرم قرار دیا ہے جیسے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مکہ مکرمہ کو حرم قرار دیا تھا ، اے اللہ! اہل مدینہ کو دوگنی برکتیں عطاء فرما اور ان کے صاع اور مد میں برکت عطاء فرما۔
-
حَدَّثَنَا عَفَّانُ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ أَنْبَأَنَا عَاصِمُ بْنُ بَهْدَلَةَ عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ عَنْ أَبِيهِ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُتِيَ بِقَصْعَةٍ فَأَكَلَ مِنْهَا فَفَضَلَتْ فَضْلَةٌ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَجِيءُ رَجُلٌ مِنْ هَذَا الْفَجِّ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ يَأْكُلُ هَذِهِ الْفَضْلَةَ قَالَ سَعْدٌ وَكُنْتُ تَرَكْتُ أَخِي عُمَيْرًا يَتَوَضَّأُ قَالَ فَقُلْتُ هُوَ عُمَيْرٌ قَالَ فَجَاءَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَلَامٍ فَأَكَلَهَا-
حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک پیالہ لایا گیا ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں موجود کھانا تناول فرمایا، اس میں سے کچھ بچ گیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس راہداری سے ابھی ایک جنتی آدمی آئے گا جو یہ بچا ہوا کھانا کھائے گا، حضرت سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں اپنے بھائی عمیر کو وضو کرتا ہوا چھوڑ کر آیا تھا ، میں نے اپنے دل میں سوچا کہ یہاں سے عمیر ہی آئے گا، لیکن وہاں سے حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ آئے اور انہوں نے وہ کھانا کھایا۔
-
حَدَّثَنَا عَفَّانُ حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ عُقْبَةَ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا النَّضْرِ يُحَدِّثُ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ حَدِيثًا رَفَعَهُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ الْوُضُوءِ عَلَى الْخُفَّيْنِ أَنَّهُ لَا بَأْسَ بِهِ-
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے موزوں پر مسح کرنے کے حوالے سے فرمایا کہ اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
-
حَدَّثَنَا عَفَّانُ حَدَّثَنَا جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ حَدَّثَنِي يَعْلَى بْنُ حَكِيمٍ عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ قَالَ رَأَيْتُ سَعْدَ بْنَ أَبِي وَقَّاصٍ أَخَذَ رَجُلًا يَصِيدُ فِي حَرَمِ الْمَدِينَةِ الَّذِي حَرَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَلَبَهُ ثِيَابَهُ فَجَاءَ مَوَالِيهِ فَقَالَ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَرَّمَ هَذَا الْحَرَمَ وَقَالَ مَنْ رَأَيْتُمُوهُ يَصِيدُ فِيهِ شَيْئًا فَلَهُ سَلَبُهُ فَلَا أَرُدُّ عَلَيْكُمْ طُعْمَةً أَطْعَمَنِيهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَكِنْ إِنْ شِئْتُمْ أَعْطَيْتُكُمْ ثَمَنَهُ وَقَالَ عَفَّانُ مَرَّةً إِنْ شِئْتُمْ أَنْ أُعْطِيَكُمْ ثَمَنَهُ أَعْطَيْتُكُمْ-
سلیمان بن ابی عبداللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے حضرت سعد رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ انہوں نے ایک آدمی کو پکڑ رکھا ہے جو حرم مدینہ میں شکار کر رہا تھا، انہوں نے اس سے اس کے کپڑے چھین لیے، تھوڑی دیر بعد اس کے مالکان آگئے اور ان سے کپڑوں کا مطالبہ کرنے لگے، حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اس شہر مدینہ کو جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حرم قرار دیا ہے اور فرمایا ہے کہ جس شخص کو تم یہاں شکار کرتے ہوئے دیکھو، اس سے اس کا سامان چھین لو، اس لئے اب میں تمہیں وہ لقمہ واپس نہیں کر سکتا جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے کھلایا ہے، البتہ اگر تم چاہو تو میں تمہیں اس کی قیمت دے سکتا ہوں ۔
-
حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ حَدَّثَنَا أَبِي عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحُصَيْنِ أَنَّهُ حَدَّثَ عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ أَنَّهُ كَانَ يُصَلِّي الْعِشَاءَ الْآخِرَةَ فِي مَسْجِدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ يُوتِرُ بِوَاحِدَةٍ لَا يَزِيدُ عَلَيْهَا قَالَ فَيُقَالُ لَهُ أَتُوتِرُ بِوَاحِدَةٍ لَا تَزِيدُ عَلَيْهَا يَا أَبَا إِسْحَاقَ فَيَقُولُ نَعَمْ إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ الَّذِي لَا يَنَامُ حَتَّى يُوتِرَ حَازِمٌ-
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ وہ عشاء کی نماز مسجد نبوی میں پڑھتے تھے اور ایک رکعت وتر پڑھ کر اس پر کوئی اضافہ نہ کرتے تھے، کسی نے ان سے پوچھا کہ اے ابو اسحاق! آپ ایک رکعت وتر پڑھنے کے بعد کوئی اضافہ نہیں کرتے؟ انہوں نے فرمایا ہاں! میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص وتر پڑھے بغیر نہ سوئے، وہ عقلمند ہے ۔
-
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عُمَرَ حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ أَبِي إِسْحَاقَ الْهَمْدَانِيُّ حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ سَعْدٍ حَدَّثَنِي وَالِدِي مُحَمَّدٌ عَنْ أَبِيهِ سَعْدٍ قَالَ مَرَرْتُ بِعُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ فِي الْمَسْجِدِ فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ فَمَلَأَ عَيْنَيْهِ مِنِّي ثُمَّ لَمْ يَرُدَّ عَلَيَّ السَّلَامَ فَأَتَيْتُ أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ فَقُلْتُ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ هَلْ حَدَثَ فِي الْإِسْلَامِ شَيْءٌ مَرَّتَيْنِ قَالَ لَا وَمَا ذَاكَ قَالَ قُلْتُ لَا إِلَّا أَنِّي مَرَرْتُ بِعُثْمَانَ آنِفًا فِي الْمَسْجِدِ فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ فَمَلَأَ عَيْنَيْهِ مِنِّي ثُمَّ لَمْ يَرُدَّ عَلَيَّ السَّلَامَ قَالَ فَأَرْسَلَ عُمَرُ إِلَى عُثْمَانَ فَدَعَاهُ فَقَالَ مَا مَنَعَكَ أَنْ لَا تَكُونَ رَدَدْتَ عَلَى أَخِيكَ السَّلَامَ قَالَ عُثْمَانُ مَا فَعَلْتُ قَالَ سَعْدٌ قُلْتُ بَلَى قَالَ حَتَّى حَلَفَ وَحَلَفْتُ قَالَ ثُمَّ إِنَّ عُثْمَانَ ذَكَرَ فَقَالَ بَلَى وَأَسْتَغْفِرُ اللَّهَ وَأَتُوبُ إِلَيْهِ إِنَّكَ مَرَرْتَ بِي آنِفًا وَأَنَا أُحَدِّثُ نَفْسِي بِكَلِمَةٍ سَمِعْتُهَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا وَاللَّهِ مَا ذَكَرْتُهَا قَطُّ إِلَّا تَغَشَّى بَصَرِي وَقَلْبِي غِشَاوَةٌ قَالَ قَالَ سَعْدٌ فَأَنَا أُنْبِئُكَ بِهَا إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَكَرَ لَنَا أَوَّلَ دَعْوَةٍ ثُمَّ جَاءَ أَعْرَابِيٌّ فَشَغَلَهُ حَتَّى قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاتَّبَعْتُهُ فَلَمَّا أَشْفَقْتُ أَنْ يَسْبِقَنِي إِلَى مَنْزِلِهِ ضَرَبْتُ بِقَدَمِي الْأَرْضَ فَالْتَفَتَ إِلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ مَنْ هَذَا أَبُو إِسْحَاقَ قَالَ قُلْتُ نَعَمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ فَمَهْ قَالَ قُلْتُ لَا وَاللَّهِ إِلَّا أَنَّكَ ذَكَرْتَ لَنَا أَوَّلَ دَعْوَةٍ ثُمَّ جَاءَ هَذَا الْأَعْرَابِيُّ فَشَغَلَكَ قَالَ نَعَمْ دَعْوَةُ ذِي النُّونِ إِذْ هُوَ فِي بَطْنِ الْحُوتِ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنْتُ مِنْ الظَّالِمِينَ فَإِنَّهُ لَمْ يَدْعُ بِهَا مُسْلِمٌ رَبَّهُ فِي شَيْءٍ قَطُّ إِلَّا اسْتَجَابَ لَهُ-
حضرت سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ مسجد نبوی میں میرا گذر حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے پاس سے ہوا، میں نے انہیں سلام کیا، انہوں نے نگاہیں بھر کر مجھے دیکھا لیکن سلام کا جواب نہیں دیا، میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور ان سے دو مرتبہ کہا کہ امیرالمومنین! کیا اسلام میں کوئی نئی چیز پیدا ہوگئی ہے؟ انہوں نے فرمایا نہیں خیر تو ہے، میں نے کہا کہ میں ابھی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس سے مسجد میں گذرا تھا، میں نے انہیں سلام کیا، انہوں نے نگاہیں بھر کر مجھے دیکھا لیکن سلام کا جواب نہیں دیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پیغام بھیج کر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو بلا بھیجا اور فرمایا کہ اپنے بھائی کے سلام کو جواب دینے سے آپ کو کس چیز نے روکا؟ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا میں نے تو ایسا نہیں کیا، میں نے کہا کیوں نہیں، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے قسم کھالی، میں نے بھی قسم کھالی، تھوڑی دیر بعد حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو یاد آگیا تو انہوں نے فرمایا ہاں ! ایسا ہوا ہے، میں اللہ سے معافی مانگتا اور توبہ کرتا ہوں، آپ ابھی ابھی میرے پاس سے گذرے تھے، دراصل میں اس وقت ایک بات سوچ رہا تھا جو میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی تھی اور بخدا! جب بھی مجھے وہ بات یاد آتی ہے میری آنکھیں پتھرا جاتی ہیں اور میرے دل پر پردہ آجاتا ہے (یعنی مجھے اپنے آپ کی خبر نہیں رہتی) حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں آپ کو اس کے بارے بتاتا ہوں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ کسی گفتگو کی ابتداء میں ایک دعاء کا ذکر چھیڑا، تھوڑی دیر کے بعد ایک دیہاتی آیا اور اس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مشغول کر لیا، یہاں تک کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے تو میں بھی آپ کے پیچھے پیچھے چلا گیا، جب مجھے اندیشہ ہوا کہ جب تک میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب پہنچوں گا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر پہنچ چکے ہوں گے تو میں نے زور سے اپنا پاؤں زمین پر مارا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم میری طرف متوجہ ہو کر فرمانے لگے کون ہے؟ ابواسحاق ہو؟ میں نے عرض کیا جی یا رسول اللہ! نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے رکنے کے لئے فرمایا، میں نے عرض کیا کہ آپ نے ہمارے سامنے ابتداء میں ایک دعاء کا تذکرہ کیا تھا، بعد میں اس دیہاتی نے آکر آپ کو اپنی طرف مشغول کر لیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں! وہ حضرت یونس علیہ السلام کی دعاء ہے جو انہوں نے مچھلی کے پیٹ میں مانگی تھی یعنی " لاالہ الا انت سبحانک انی کنت من الظالمین " کوئی بھی مسلمان جب بھی کسی معاملے میں ان الفاظ کے ساتھ اپنے پروردگار سے دعاء کرے وہ دعاء ضرور قبول ہوگی۔
-
حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ مَوْلَى بَنِي هَاشِمٍ حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ بِلَالٍ حَدَّثَنَا الْجُعَيْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ عَائِشَةَ بِنْتِ سَعْدٍ عَنْ أَبِيهَا أَنَّ عَلِيًّا خَرَجَ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى جَاءَ ثَنِيَّةَ الْوَدَاعِ وَعَلِيٌّ يَبْكِي يَقُولُ تُخَلِّفُنِي مَعَ الْخَوَالِفِ فَقَالَ أَوَمَا تَرْضَى أَنْ تَكُونَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُونَ مِنْ مُوسَى إِلَّا النُّبُوَّةَ-
حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ روانہ ہوئے، جب ثنیۃ الوداع تک پہنچے تو وہ رونے لگے اور کہنے لگے کہ آپ مجھے عورتوں اور بچوں کے ساتھ چھوڑے جا رہے ہیں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم اس بات پر خوش نہیں کہ تمہیں مجھ سے وہی نسبت ہو جو حضرت ہارون علیہ السلام کو حضرت موسی علیہ السلام سے حاصل تھی، صرف نبوت کافرق ہے۔
-
حَدَّثَنَا عِصَامُ بْنُ خَالِدٍ حَدَّثَنِي أَبُو بَكْرٍ يَعْنِي ابْنَ أَبِي مَرْيَمَ عَنْ رَاشِدِ بْنِ سَعْدٍ عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ كَانَ يَقُولُ لَا تَعْجِزُ أُمَّتِي عِنْدَ رَبِّي أَنْ يُؤَخِّرَهَا نِصْفَ يَوْمٍ وَسَأَلْتُ رَاشِدًا هَلْ بَلَغَكَ مَاذَا النِّصْفُ يَوْمٍ قَالَ خَمْسُ مِائَةِ سَنَةٍ-
حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا مجھے امید ہے کہ میری امت اپنے رب کے پاس اتنی عاجز نہیں ہوگی کہ اللہ تعالیٰ ان کا حساب کتاب نصف دن تک مؤخر کردے، کسی نے حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ " نصف دن " سے کیا مراد ہے ۔ فرمایا پانچ سو سال۔
-
حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ رَاشِدِ بْنِ سَعْدٍ عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ إِنِّي لَأَرْجُو أَنْ لَا يَعْجِزَ أُمَّتِي عِنْدَ رَبِّي أَنْ يُؤَخِّرَهُمْ نِصْفَ يَوْمٍ فَقِيلَ لِسَعْدٍ وَكَمْ نِصْفُ يَوْمٍ قَالَ خَمْسُ مِائَةِ سَنَةٍ-
حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا مجھے امید ہے کہ میری امت اپنے رب کے پاس اتنی عاجز نہیں ہوگی کہ اللہ تعالیٰ ان کا حساب کتاب نصف دن تک مؤخر کردے، کسی نے حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ " نصف دن " سے کیا مراد ہے ۔ فرمایا پانچ سو سال۔
-
حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ رَاشِدِ بْنِ سَعْدٍ عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ قَالَ سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ هَذِهِ الْآيَةِ هُوَ الْقَادِرُ عَلَى أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذَابًا مِنْ فَوْقِكُمْ أَوْ مِنْ تَحْتِ أَرْجُلِكُمْ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَا إِنَّهَا كَائِنَةٌ وَلَمْ يَأْتِ تَأْوِيلُهَا بَعْدُ-
حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس آیت کا مطلب پوچھا گیا کہ اللہ اس بات پر قادر ہے کہ تم پر تمہارے اوپر سے یا پاؤں کے نیچے سے عذاب بھییج دے، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ابھی اس کی تاویل ظاہر ہونے کا وقت نہیں آیا۔
-
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ إِسْحَاقَ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ أَخْبَرَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ عَنْ دَاوُدَ بْنِ عَامِرِ بْنِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَوْ أَنَّ مَا يُقِلُّ ظُفُرٌ مِمَّا فِي الْجَنَّةِ بَدَا لَتَزَخْرَفَتْ لَهُ خَوَافِقُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ وَلَوْ أَنَّ رَجُلًا مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ اطَّلَعَ فَبَدَتْ أَسَاوِرُهُ لَطَمَسَ ضَوْءُهُ ضَوْءَ الشَّمْسِ كَمَا تَطْمِسُ الشَّمْسُ ضَوْءَ النُّجُومِ-
حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اگر جنت کی ناخن سے بھی کم کوئی چیز دنیا میں ظاہر ہوجائے تو زمین و آسمان کی چاروں سمتیں مزین ہوجائیں اور اگر کوئی جنتی مرد دنیا میں جھانک کر دیکھ لے اور اس کا کنگن نمایاں ہو جائے تو اس کی روشنی سورج کی روشنی کو اس طرح مات کر دے جیسے سورج کی روشنی ستاروں کی روشنی کو مات کر دیتی ہے۔
-
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الْهَاشِمِيُّ أَنْبَأَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَبِيهِ عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ قَالَ لَقَدْ رَأَيْتُ عَنْ يَمِينِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعَنْ يَسَارِهِ يَوْمَ أُحُدٍ رَجُلَيْنِ عَلَيْهِمَا ثِيَابٌ بِيضٌ يُقَاتِلَانِ عَنْهُ كَأَشَدِّ الْقِتَالِ مَا رَأَيْتُهُمَا قَبْلُ وَلَا بَعْدُ-
حضرت سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے غزوہ احد کے دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دائیں بائیں دو آدمیوں کو دیکھا جنہوں نے سفید کپڑے پہن رکھے تھے اور وہ بڑی سخت جنگ لڑ رہے تھے، میں نے انہیں اس سے پہلے دیکھا تھا اور نہ بعد میں ۔
-
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ عِيسَى حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ يَعْنِي ابْنَ سَعْدٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ مُعَاذٍ التَّيْمِيِّ قَالَ سَمِعْتُ سَعْدَ بْنَ أَبِي وَقَّاصٍ يَقُولُ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ صَلَاتَانِ لَا يُصَلَّى بَعْدَهُمَا الصُّبْحُ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ وَالْعَصْرُ حَتَّى تَغْرُبَ الشَّمْسُ حَدَّثَنَا يُونُسُ حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ عَنْ أَبِيهِ عَنْ رَجُلٍ مِنْ بَنِي تَيْمٍ يُقَالُ لَهُ مُعَاذٌ عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرَ مِثْلَهُ-
حضرت سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ دو نمازیں ایسی ہیں جن کے بعد کوئی نفلی نماز نہ پڑھی جائے، نماز فجر، جب تک کہ سورج طلوع نہ ہوجائے اور نماز عصر، جب تک سورج غروب نہ ہو جائے۔ گذشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔
-
حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ وَسَعْدٌ قَالَا حَدَّثَنَا أَبِي عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ قَالَ سَعْدٌ عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ قَالَ سَمِعْتُ سَعْدَ بْنَ أَبِي وَقَّاصٍ يَقُولُ لَقَدْ رَأَيْتُ عَنْ يَمِينِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعَنْ يَسَارِهِ يَوْمَ أُحُدٍ رَجُلَيْنِ عَلَيْهِمَا ثِيَابٌ بِيضٌ يُقَاتِلَانِ عَنْهُ كَأَشَدِّ الْقِتَالِ مَا رَأَيْتُهُمَا قَبْلُ وَلَا بَعْدُ-
حضرت سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے غزوہ احد کے دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دائیں بائیں دو آدمیوں کو دیکھا جنہوں نے سفید کپڑے پہن رکھے تھے اور وہ بڑی سخت جنگ لڑ رہے تھے، میں نے انہیں اس سے پہلے دیکھا تھا اور نہ بعد میں ۔
-
حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ حَدَّثَنَا أَبِي عَنْ صَالِحٍ قَالَ ابْنُ شِهَابٍ أَخْبَرَنِي عَبْدُ الْحَمِيدِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ زَيْدٍ أَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ أَخْبَرَهُ أَنَّ أَبَاهُ سَعْدَ بْنَ أَبِي وَقَّاصٍ قَالَ اسْتَأْذَنَ عُمَرُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعِنْدَهُ نِسَاءٌ مِنْ قُرَيْشٍ يُكَلِّمْنَهُ وَيَسْتَكْثِرْنَهُ عَالِيَةٌ أَصْوَاتُهُنَّ فَلَمَّا اسْتَأْذَنَ قُمْنَ يَبْتَدِرْنَ الْحِجَابَ فَأَذِنَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعْنِي فَدَخَلَ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَضْحَكُ فَقَالَ عُمَرُ أَضْحَكَ اللَّهُ سِنَّكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَجِبْتُ مِنْ هَؤُلَاءِ اللَّاتِي كُنَّ عِنْدِي فَلَمَّا سَمِعْنَ صَوْتَكَ ابْتَدَرْنَ الْحِجَابَ قَالَ عُمَرُ فَأَنْتَ يَا رَسُولَ اللَّهِ كُنْتَ أَحَقَّ أَنْ يَهَبْنَ ثُمَّ قَالَ عُمَرُ أَيْ عَدُوَّاتِ أَنْفُسِهِنَّ أَتَهَبْنَنِي وَلَا تَهَبْنَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُلْنَ نَعَمْ أَنْتَ أَغْلَظُ وَأَفَظُّ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ مَا لَقِيَكَ الشَّيْطَانُ قَطُّ سَالِكًا فَجًّا إِلَّا سَلَكَ فَجًّا غَيْرَ فَجِّكَ و قَالَ يَعْقُوبُ مَا أُحْصِي مَا سَمِعْتُهُ يَقُولُ حَدَّثَنَا صَالِحٌ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ-
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے گھر میں داخل ہونے کی اجازت طلب کی، اس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس قریش کی کچھ عورتیں (ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن) بیٹھی ہوئی باتیں کر رہی تھیں، وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اضافہ کا مطالبہ کر رہی تھیں اور ان کی آوازیں اونچی ہو رہی تھیں، لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اندر آنے کی اجازت مانگی تو ان سب نے جلدی جلدی اپنے دوپٹے سنبھال لیے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اندر آنے کی اجازت دے دی، جب وہ اندر آئے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم مسکرا رہے تھے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! اللہ آپ کو اسی طرح ہنستا مسکراتا ہوا رکھے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے تو تعجب ان عورتوں پر ہے جو پہلے میرے پاس بیٹھی ہوئی تھیں، لیکن جیسے ہی انہوں نے تمہاری آواز سنی، جلدی سے پردہ کر لیا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! آپ اس بات کے زیادہ حقدار ہیں کہ یہ آپ سے ڈریں، پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا اے اپنی جان کی دشمن عورتو! تم مجھ سے ڈرتی ہو اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں ڈرتی ہو؟ انہوں نے کہا کہ ہاں! کیونکہ تم نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ سخت اور ترش ہو، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے، شیطان جب تمہیں کسی راستے سے گذرتا ہوا دیکھ لیتا ہے، تو اس راستے کو چھوڑ کر دوسرا راستہ اختیار کر لیتا ہے ۔
-
حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ وَسَعْدٌ قَالَا حَدَّثَنَا أَبِي عَنْ صَالِحٍ عَنِ ابْنِ شِهَابٍ حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي سُفْيَانَ بْنِ جَارِيَةَ أَنَّ يُوسُفَ بْنَ الْحَكَمِ أَبَا الْحَجَّاجِ أَخْبَرَهُ أَنَّ سَعْدَ بْنَ أَبِي وَقَّاصٍ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ مَنْ يُرِدْ هَوَانَ قُرَيْشٍ أَهَانَهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ-
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص قریش کو ذلیل کرنا چاہے گا اللہ اسے ذلیل کر دے گا۔
-
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ عَنِ الْجَعْدِ بْنِ أَوْسٍ قَالَ حَدَّثَتْنِي عَائِشَةُ بِنْتُ سَعْدٍ قَالَتْ قَالَ سَعْدٌ اشْتَكَيْتُ شَكْوًى لِي بِمَكَّةَ فَدَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعُودُنِي قَالَ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي قَدْ تَرَكْتُ مَالًا وَلَيْسَ لِي إِلَّا ابْنَةٌ وَاحِدَةٌ أَفَأُوصِي بِثُلُثَيْ مَالِي وَأَتْرُكُ لَهَا الثُّلُثَ قَالَ لَا قَالَ أَفَأُوصِي بِالنِّصْفِ وَأَتْرُكُ لَهَا النِّصْفَ قَالَ لَا قَالَ أَفَأُوصِي بِالثُّلُثِ وَأَتْرُكُ لَهَا الثُّلُثَيْنِ قَالَ الثُّلُثُ وَالثُّلُثُ كَثِيرٌ ثَلَاثَ مِرَارٍ قَالَ فَوَضَعَ يَدَهُ عَلَى جَبْهَتِهِ فَمَسَحَ وَجْهِي وَصَدْرِي وَبَطْنِي وَقَالَ اللَّهُمَّ اشْفِ سَعْدًا وَأَتِمَّ لَهُ هِجْرَتَهُ فَمَا زِلْتُ يُخَيَّلُ إِلَيَّ بِأَنِّي أَجِدُ بَرْدَ يَدِهِ عَلَى كَبِدِي حَتَّى السَّاعَةِ-
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں مکہ مکرمہ میں بیمار ہوگیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم میری عیادت کے لئے تشریف لائے، میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! میرے پاس بہت سا مال ہے، میری وارث صرف ایک بیٹی ہے، کیا میں اپنے دو تہائی مال کو راہ خدا میں دینے کی وصیت کر سکتا ہوں؟ فرمایا نہیں، میں نے نصف کے متعلق پوچھا تب بھی منع فرما دیا، پھر جب ایک تہائی مال کے متعلق پوچھا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں ! ایک تہائی مال کی وصیت کر سکتے ہو اور یہ ایک تہائی بھی بہت زیادہ ہے (تین مرتبہ فرمایا) پھر اپنا ہاتھ پیشانی پر رکھ کر میرے چہرے، سینے اور پیٹ پر پھیرا اور یہ دعاء کی کہ اے اللہ! سعد کو شفاء دے اور اس کی ہجرت کو تام فرما، مجھے آج تک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں کی ٹھنڈک اپنے جگر میں محسوس ہوتی ہے۔
-
حَدَّثَنَا يَحْيَى عَنِ ابْنِ عَجْلَانَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي سَلَمَةَ أَنَّ سَعْدًا سَمِعَ رَجُلًا يَقُولُ لَبَّيْكَ ذَا الْمَعَارِجِ فَقَالَ إِنَّهُ لَذُو الْمَعَارِجِ وَلَكِنَّا كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا نَقُولُ ذَلِكَ-
ایک مرتبہ حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے ایک آدمی کو یہ کہتے ہوئے سنا " لبیک ذا المعارج" تو فرمایا کہ (جس کی پکار پر تم لبیک کہہ رہے ہو) وہ بلندیوں والا ہوگا لیکن ہم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں کبھی یہ لفظ نہیں کہا۔
-
حَدَّثَنَا وَكِيعٌ حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ حَسَّانَ الْمَخْزُومِيُّ عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي نَهِيكٍ عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْسَ مِنَّا مَنْ لَمْ يَتَغَنَّ بِالْقُرْآنِ قَالَ وَكِيعٌ يَعْنِي يَسْتَغْنِي بِهِ-
حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا وہ شخص ہم میں سے نہیں جو قرآن کریم کو عمدہ آواز کے ساتھ نہ پڑھے وکیع نے اس کا معنی یہ بیان کیا ہے کہ قرآن کریم کی تلاوت خوش آوازی سے نہ کرنے والا ہم میں سے نہیں ہے۔
-
حَدَّثَنَا وَكِيعٌ حَدَّثَنَا أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَبِيبَةَ عَنْ سَعْدِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَيْرُ الذِّكْرِ الْخَفِيُّ وَخَيْرُ الرِّزْقِ مَا يَكْفِي حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ إِسْحَاقَ عَنِ ابْنِ الْمُبَارَكِ عَنْ أُسَامَةَ قَالَ أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عُثْمَانَ أَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَبِيبَةَ أَخْبَرَهُ قَالَ أَبِي و قَالَ يَحْيَى يَعْنِي الْقَطَّانَ ابْنَ أَبِي لَبِيبَةَ أَيْضًا إِلَّا أَنَّهُ قَالَ عَنْ أُسَامَةَ قَالَ حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ابْنِ لَبِيبَةَ-
حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا بہترین ذکر وہ ہے جو خفی ہو اور بہترین رزق وہ ہے جو کفایت کر سکے۔ گذشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے جو یہاں مذکور ہوئی۔
-
حَدَّثَنَا وَكِيعٌ حَدَّثَنَا هِشَامٌ عَنْ أَبِيهِ عَنْ سَعْدٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ عَلَيْهِ يَعُودُهُ وَهُوَ مَرِيضٌ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَلَا أُوصِي بِمَالِي كُلِّهِ قَالَ لَا قَالَ فَبِالشَّطْرِ قَالَ لَا قَالَ فَبِالثُّلُثِ قَالَ الثُّلُثُ وَالثُّلُثُ كَثِيرٌ أَوْ كَبِيرٌ-
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ وہ بیمار ہوگئے، انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! کیا میں اپنے سارے مال کی راہ خدا میں وصیت نہ کردوں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں، عرض کیا کہ نصف مال کی وصیت کردوں؟ فرمایا نہیں، عرض کیا کہ نصف مال کی وصیت کردوں؟ فرمایا نہیں، عرض کیا کہ ایک تہائی کی وصیت کر دوں؟ فرمایا ہاں ایک تہائی کی وصیت کردو، اور ایک تہائی بھی بہت زیادہ ہے۔
-
حَدَّثَنَا وَكِيعٌ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدٍ عَنْ أَبِيهِ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَهُ إِنَّكَ مَهْمَا أَنْفَقْتَ عَلَى أَهْلِكَ مِنْ نَفَقَةٍ فَإِنَّكَ تُؤْجَرُ فِيهَا حَتَّى اللُّقْمَةَ تَرْفَعُهَا إِلَى فِي امْرَأَتِكَ-
حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تم اپنے اہل خانہ پر جو کچھ بھی خرچ کرو گے، تمہیں اس پر ثواب ملے گا، حتی کہ وہ لقمہ جو تم اپنی بیوی کے منہ میں ڈالو گے، تمہیں اس پر بھی ثواب ملے گا۔
-
حَدَّثَنَا وَكِيعٌ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ عَاصِمِ بْنِ أَبِي النَّجُودِ عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ عَنْ أَبِيهِ قَالَ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَيُّ النَّاسِ أَشَدُّ بَلَاءً قَالَ الْأَنْبِيَاءُ ثُمَّ الصَّالِحُونَ ثُمَّ الْأَمْثَلُ فَالْأَمْثَلُ مِنْ النَّاسِ يُبْتَلَى الرَّجُلُ عَلَى حَسَبِ دِينِهِ فَإِنْ كَانَ فِي دِينِهِ صَلَابَةٌ زِيدَ فِي بَلَائِهِ وَإِنْ كَانَ فِي دِينِهِ رِقَّةٌ خُفِّفَ عَنْهُ وَمَا يَزَالُ الْبَلَاءُ بِالْعَبْدِ حَتَّى يَمْشِيَ عَلَى ظَهْرِ الْأَرْضِ لَيْسَ عَلَيْهِ خَطِيئَةٌ-
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا یا رسول اللہ! سب سے زیادہ سخت مصیبت کن لوگوں پر آتی ہے، فرمایا انبیاء کرام علیہم السلام پر، پھر صالحین پر، پھر درجہ بدرجہ عام لوگوں پر، انسان پر آزمائش اس کے دین کے اعتبار سے آتی ہے، اگر اس کے دین میں پختگی ہو تو اس کے مصائب میں مزید اضافہ کر دیا جاتا ہے اور اگر اس کے دین میں کمزوری ہو تو اس کے مصائب میں تخفیف کردی جاتی ہے اور انسان پر مسلسل مصائب آتے رہتے ہیں یہاں تک کہ جب وہ زمین پر چلتا ہے تو اس کا کوئی گناہ نہیں ہوتا۔
-
حَدَّثَنَا وَكِيعٌ حَدَّثَنَا مِسْعَرٌ وَسُفْيَانُ عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ قَالَ سُفْيَانُ عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدٍ وَقَالَ مِسْعَرٌ عَنْ بَعْضِ آلِ سَعْدٍ عَنْ سَعْدٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ عَلَيْهِ يَعُودُهُ وَهُوَ مَرِيضٌ بِمَكَّةَ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أُوصِي بِمَالِي كُلِّهِ قَالَ لَا قُلْتُ فَبِالشَّطْرِ قَالَ لَا قُلْتُ فَبِالثُّلُثِ قَالَ الثُّلُثُ وَالثُّلُثُ كَبِيرٌ أَوْ كَثِيرٌ إِنَّكَ أَنْ تَدَعَ وَارِثَكَ غَنِيًّا خَيْرٌ مِنْ أَنْ تَدَعَهُ فَقِيرًا يَتَكَفَّفُ النَّاسَ وَإِنَّكَ مَهْمَا أَنْفَقْتَ عَلَى أَهْلِكَ مِنْ نَفَقَةٍ فَإِنَّكَ تُؤْجَرُ فِيهَا حَتَّى اللُّقْمَةَ تَرْفَعُهَا إِلَى فِي امْرَأَتِكَ قَالَ وَلَمْ يَكُنْ لَهُ يَوْمَئِذٍ إِلَّا ابْنَةٌ فَذَكَرَ سَعْدٌ الْهِجْرَةَ فَقَالَ يَرْحَمُ اللَّهُ ابْنَ عَفْرَاءَ وَلَعَلَّ اللَّهَ يَرْفَعُكَ حَتَّى يَنْتَفِعَ بِكَ قَوْمٌ وَيُضَرَّ بِكَ آخَرُونَ-
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ وہ مکہ مکرمہ میں بیمار ہوگئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کی عیادت کے لئے تشریف لائے، میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! کیا میں اپنے سارے مال کو راہ خدا میں دینے کی وصیت کر سکتا ہوں؟ فرمایا نہیں، میں نے نصف کے متعلق پوچھا تب بھی منع فرمادیا، پھر جب ایک تہائی مال کے متعلق پوچھا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں! ایک تہائی مال کی وصیت کر سکتے ہو اور یہ ایک تہائی بھی بہت زیادہ ہے، یاد رکھو! کہ تم اپنے اہل خانہ کو اچھی حالت میں چھوڑ کر جاؤ، یہ اس سے بہت بہتر ہے کہ تم انہیں اس حال میں چھوڑ جاؤ کہ وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے پر مجبور ہوجائیں، تم اپنا مال جو اپنے اوپر خرچ کرتے ہو، یہ بھی صدقہ ہے، اپنے اہل وعیال پر جو خرچ کرتے ہو، یہ بھی صدقہ ہے، اپنی بیوی پر جو خرچ کرتے ہو یہ بھی صدقہ ہے، نیز راوی کہتے ہیں کہ اس وقت حضرت سعد رضی اللہ عنہ کی صرف ایک بیٹی ہی تھی، پھر حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے ہجرت کا ذکر کیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ ابن عفراء پر رحم فرمائے، ہو سکتا ہے کہ اللہ تمہیں اتنی بلندی عطاء کرے کہ ایک قوم کو تم سے فائدہ ہو اور دوسروں کو نقصان ہو۔
-
حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ زِيَادِ بْنِ مِخْرَاقٍ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا عَبَايَةَ عَنْ مَوْلًى لِسَعْدٍ أَنَّ سَعْدًا سَمِعَ ابْنًا لَهُ يَدْعُو وَهُوَ يَقُولُ اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ الْجَنَّةَ وَنَعِيمَهَا وَإِسْتَبْرَقَهَا وَنَحْوًا مِنْ هَذَا وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ النَّارِ وَسَلَاسِلِهَا وَأَغْلَالِهَا فَقَالَ لَقَدْ سَأَلْتَ اللَّهَ خَيْرًا كَثِيرًا وَتَعَوَّذْتَ بِاللَّهِ مِنْ شَرٍّ كَثِيرٍ وَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ إِنَّهُ سَيَكُونُ قَوْمٌ يَعْتَدُونَ فِي الدُّعَاءِ وَقَرَأَ هَذِهِ الْآيَةَ ادْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَخُفْيَةً إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ وَإِنَّ حَسْبَكَ أَنْ تَقُولَ اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ الْجَنَّةَ وَمَا قَرَّبَ إِلَيْهَا مِنْ قَوْلٍ أَوْ عَمَلٍ وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ النَّارِ وَمَا قَرَّبَ إِلَيْهَا مِنْ قَوْلٍ أَوْ عَمَلٍ-
ایک مرتبہ حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے اپنے ایک بیٹے کو یہ دعاء کرتے ہوئے سنا کہ اے اللہ! میں تجھ سے جنت، اس کی نعمتوں اور اس کے ریشمی کپڑوں اور فلاں فلاں چیز کی دعاء کرتا ہوں اور جہنم کی آگ، اس کی زنجیروں اور بیڑیوں سے آپ کی پناہ میں آتا ہوں تو انہوں نے فرمایا کہ تم نے اللہ سے بڑی خیر مانگی اور بڑے شر سے اللہ کی پناہ چاہی، میں نے نبی صلی اللہ عیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ عنقریب ایک ایسی قوم آئے گی جو دعاء میں حد سے آگے بڑھ جائے گی اور یہ آیت تلاوت فرمائی کہ تم اپنے رب کو عاجزی کے ساتھ اور چپکے سے پکارا کرو، بیشک وہ حد سے تجاوز کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا، تمہارے لیے اتنا ہی کہنا کافی ہے کہ اے آپ سے جنت کا اور اس کے قریب کرنے قول و عمل کا سوال کرتا ہوں اور جہنم اور اس کے قریب کرنے والے قول و عمل سے آپ کی پناہ میں آتا ہوں ۔
-
حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ وَأَبُو سَعِيدٍ قَالَا حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ جَعْفَرٍ عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ مُحَمَّدٍ قَالَ أَبُو سَعِيدٍ قَالَ حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدٍ عَنْ أَبِيهِ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَالَ أَبُو سَعِيدٍ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُسَلِّمُ عَنْ يَمِينِهِ حَتَّى يُرَى بَيَاضُ خَدِّهِ وَعَنْ يَسَارِهِ حَتَّى يُرَى بَيَاضُ خَدِّهِ-
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب دائیں جانب سلام پھیرتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دایاں رخسار اپنی چمک کے ساتھ نظر آتا اور جب بائیں جانب سلام پھیرتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بائیں رخسار کی سفیدی دکھائی دیتی۔
-
حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ عَنْ هَمَّامٍ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ يُونُسَ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سَعْدٍ عَنْ أَبِيهِ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ عَلَيْهِ بِمَكَّةَ وَهُوَ مَرِيضٌ فَقَالَ إِنَّهُ لَيْسَ لِي إِلَّا ابْنَةٌ وَاحِدَةٌ فَأُوصِي بِمَالِي كُلِّهِ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا قَالَ فَأُوصِي بِنِصْفِهِ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا قَالَ فَأُوصِي بِثُلُثِهِ قَالَ الثُّلُثُ وَالثُّلُثُ كَبِيرٌ حَدَّثَنَا بَهْزٌ حَدَّثَنَا هَمَّامٌ حَدَّثَنَا قَتَادَةُ عَنْ أَبِي غَلَّابٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سَعْدِ بْنِ مَالِكٍ عَنْ أَبِيهِ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ عَلَيْهِ فَذَكَرَ مِثْلَهُ و قَالَ عَبْدُ الصَّمَدِ كَثِيرٌ يَعْنِي وَالثُّلُثُ-
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ وہ مکہ مکرمہ میں بیمار ہوگئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کی عیادت کے لئے تشریف لائے، حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! میرے پاس بہت سا مال ہے، میری واث صرف ایک بیٹی ہے، کیا میں اپنے دو تہائی مال کو راہ خدا میں دینے کی وصیت کر سکتا ہوں؟ فرمایا نہیں، میں نے نصف کے متعلق پوچھا تب بھی منع فرما دیا، پھر جب ایک تہائی مال کے متعلق پوچھا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں! ایک تہائی مال کی وصیت کر سکتے ہو، اور یہ ایک تہائی بھی بہت زیادہ ہے۔ گذشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔
-
حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ وَعَبْدُ الرَّزَّاقِ الْمَعْنَى قَالَا أَنْبَأَنَا سُفْيَانُ عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ عَنِ الْعَيْزَارِ بْنِ حُرَيْثٍ عَنْ عُمَرَ بْنِ سَعْدٍ عَنْ أَبِيهِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَجِبْتُ مِنْ قَضَاءِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ لِلْمُؤْمِنِ إِنْ أَصَابَهُ خَيْرٌ حَمِدَ رَبَّهُ وَشَكَرَ وَإِنْ أَصَابَتْهُ مُصِيبَةٌ حَمِدَ رَبَّهُ وَصَبَرَ الْمُؤْمِنُ يُؤْجَرُ فِي كُلِّ شَيْءٍ حَتَّى فِي اللُّقْمَةِ يَرْفَعُهَا إِلَى فِي امْرَأَتِهِ-
حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا بندہ مومن کے متعلق اللہ کی تقدیر اور فیصلے پر مجھے تعجب ہوتا ہے کہ اگر اسے کوئی بھلائی حاصل ہوتی ہے تو وہ اپنے پروردگار کا شکر ادا کرتا ہے اور اگر کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو وہ اس پر بھی الحمدللہ کہہ کر صبر کرتا ہے (اور صبر و شکر دونوں اللہ کو پسند ہیں) مومن کو تو ہر چیز کے بدلے ثواب ملتا ہے حتی کہ اس لقمے پر بھی جو وہ اٹھا کر اپنی بیوی کے منہ میں دیتا ہے ۔
-
حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ سَعْدٍ عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدٍ عَنْ أَبِيهِ قَالَ جَاءَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعُودُهُ وَهُوَ بِمَكَّةَ وَهُوَ يَكْرَهُ أَنْ يَمُوتَ بِالْأَرْضِ الَّتِي هَاجَرَ مِنْهَا فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَرْحَمُ اللَّهُ سَعْدَ ابْنَ عَفْرَاءَ يَرْحَمُ اللَّهُ سَعْدَ ابْنَ عَفْرَاءَ وَلَمْ يَكُنْ لَهُ إِلَّا ابْنَةٌ وَاحِدَةٌ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُوصِي بِمَالِي كُلِّهِ قَالَ لَا قَالَ فَالنِّصْفُ قَالَ لَا قَالَ فَالثُّلُثُ قَالَ الثُّلُثُ وَالثُّلُثُ كَثِيرٌ إِنَّكَ أَنْ تَدَعَ وَرَثَتَكَ أَغْنِيَاءَ خَيْرٌ مِنْ أَنْ تَدَعَهُمْ عَالَةً يَتَكَفَّفُونَ النَّاسَ فِي أَيْدِيهِمْ وَإِنَّكَ مَهْمَا أَنْفَقْتَ مِنْ نَفَقَةٍ فَإِنَّهَا صَدَقَةٌ حَتَّى اللُّقْمَةَ تَرْفَعُهَا إِلَى فِي امْرَأَتِكَ وَلَعَلَّ اللَّهَ أَنْ يَرْفَعَكَ فَيَنْتَفِعَ بِكَ نَاسٌ وَيُضَرَّ بِكَ آخَرُونَ-
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ وہ مکہ مکرمہ میں بیمار ہوگئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کی عیادت کے لئے تشریف لائے، وہ اس بات کو اچھا نہیں سمجھتے تھے کہ جس علاقے سے وہ ہجرت کر چکے ہیں وہیں ان کا انتقال ہو، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دو مرتبہ فرمایا سعد بن عفراء پر اللہ کی رحمتیں نازل ہوں اور ان کی صرف ایک ہی بیٹی تھی۔ حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! کیا میں اپنے سارے مال کو راہ خدا میں دینے کی وصیت کر سکتا ہوں؟ فرمایا نہیں انہوں نے نصف کے متعلق پوچھا تب بھی منع فرما دیا، پھر جب ایک تہائی مال کے متعلق پوچھا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں! ایک تہائی مال کی وصیت کر سکتے ہو اور یہ ایک تہائی بھی بہت زیادہ ہے تم اپنے اہل خانہ کو اچھی حالت میں چھوڑ کر جاؤ، یہ اس سے بہتر ہے کہ تم انہیں اس حال میں چھوڑ کر جاؤ کہ وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے پر مجبور ہو جائیں اور تم جو کچھ بھی خرچ کرو گے اس پر تمہیں صدقہ کا ثواب ملے گا، حتی کہ اس لقمے پر بھی جو تم اٹھا کر اپنی بیوی کے منہ میں ڈالتے ہو اور ہو سکتا ہے کہ اللہ تمہیں رفعتیں عطاء فرمائے اور تمہارے ذریعے بہت سے لوگوں کو نفع پہنچائے اور بہت سے لوگوں (کافروں) کو نقصان۔
-
حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ جَعْفَرٍ عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ سَعْدٍ قَالَ الْحَدُوا لِي لَحْدًا وَانْصِبُوا عَلَيَّ كَمَا فُعِلَ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے اپنی آخری وصیت میں فرمایا تھا کہ میری قبر کو لحد کی صورت میں بنانا اور اس پر کچی اینٹیں نصب کرنا جیسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کیا گیا تھا۔
-
حَدَّثَنَا عَفَّانُ حَدَّثَنَا حَمَّادٌ يَعْنِي ابْنَ سَلَمَةَ أَنْبَأَنَا عَلِيُّ بْنُ زَيْدٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ قَالَ قُلْتُ لِسَعْدِ بْنِ مَالِكٍ إِنِّي أُرِيدُ أَنْ أَسْأَلَكَ عَنْ حَدِيثٍ وَأَنَا أَهَابُكَ أَنْ أَسْأَلَكَ عَنْهُ فَقَالَ لَا تَفْعَلْ يَا ابْنَ أَخِي إِذَا عَلِمْتَ أَنَّ عِنْدِي عِلْمًا فَسَلْنِي عَنْهُ وَلَا تَهَبْنِي قَالَ فَقُلْتُ قَوْلُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِعَلِيٍّ حِينَ خَلَّفَهُ بِالْمَدِينَةِ فِي غَزْوَةِ تَبُوكَ فَقَالَ سَعْدٌ خَلَّفَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلِيًّا بِالْمَدِينَةِ فِي غَزْوَةِ تَبُوكَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَتُخَلِّفُنِي فِي الْخَالِفَةِ فِي النِّسَاءِ وَالصِّبْيَانِ فَقَالَ أَمَا تَرْضَى أَنْ تَكُونَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُونَ مِنْ مُوسَى قَالَ بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ فَأَدْبَرَ عَلِيٌّ مُسْرِعًا كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى غُبَارِ قَدَمَيْهِ يَسْطَعُ وَقَدْ قَالَ حَمَّادٌ فَرَجَعَ عَلِيٌّ مُسْرِعًا-
حضرت سعید بن مسیب رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے عرض کیا کہ میں آپ سے ایک حدیث کے متعلق سوال کرنا چاہتا ہوں لیکن مجھے آپ سے پوچھتے ہوئے ڈر لگتا ہے، انہوں نے فرمایا بھتیجے! ایسا نہ کرو، جب تمہیں پتہ ہے کہ مجھے ایک بات کا علم ہے تو تم مجھ سے بے تکلف ہو کر سوال کرو اور مت ڈرو، میں نے پوچھا کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ تبوک کے موقع پر اپنے نائب کے طور پر مدینہ منورہ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کو چھوڑا تھا تو ان سے کیا فرمایا تھا؟ حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو غزوہ تبوک کے موقع پر مدینہ منورہ میں اپنا نائب مقرر کر کے وہاں چھوڑ دیا تو وہ کہنے لگے یا رسول اللہ! کیا آپ مجھے بچوں اور عورتوں کے پاس چھوڑ جائیں گے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم اس بات پر خوش نہیں ہو کہ تمہیں مجھ سے وہی نسبت ہو سوائے نبوت کے جو حضرت ہارون علیہ السلام کو حضرت موسی علیہ السلام سے تھی، انہوں نے کہا کیوں نہیں، یا رسول اللہ! یہ کہہ کر حضرت علی رضی اللہ عنہ تیزی سے واپس چلے گئے، مجھے آج بھی ان کے قدموں سے اڑنے والا غبار اپنی آنکھوں کے سامنے محسوس ہوتا ہے۔
-
حَدَّثَنَا عَفَّانُ حَدَّثَنَا سَلِيمُ بْنُ حَيَّانَ حَدَّثَنِي عِكْرِمَةُ بْنُ خَالِدٍ حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ سَعْدٍ عَنْ أَبِيهِ قَالَ ذُكِرَ الطَّاعُونُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ رِجْزٌ أُصِيبَ بِهِ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ فَإِذَا كَانَ بِأَرْضٍ فَلَا تَدْخُلُوهَا وَإِذَا كَانَ بِهَا وَأَنْتُمْ بِهَا فَلَا تَخْرُجُوا مِنْهَا-
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں طاعون کا ذکر چھڑ گیا، نبی صلی اللہ عیلہ وسلم نے فرمایا کہ یہ ایک عذاب ہے جو تم سے پہلی امتوں پر آیا تھا، اس لئے جس علاقے میں یہ وبا پھیلی ہوئی ہو، تم وہاں مت جاؤ اور اگر تم کسی علاقے میں ہو اور وہاں یہ وبا پھیل جائے تو وہاں سے نہ نکلو۔
-
حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَنْبَأَنَا مَعْمَرٌ عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ عَنِ الْعَيْزَارِ بْنِ حُرَيْثٍ عَنْ عُمَرَ بْنِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ عَنْ أَبِيهِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَجِبْتُ لِلْمُؤْمِنِ إِذَا أَصَابَهُ خَيْرٌ حَمِدَ اللَّهَ وَشَكَرَ وَإِنْ أَصَابَتْهُ مُصِيبَةٌ حَمِدَ اللَّهَ وَصَبَرَ فَالْمُؤْمِنُ يُؤْجَرُ فِي كُلِّ أَمْرِهِ حَتَّى يُؤْجَرَ فِي اللُّقْمَةِ يَرْفَعُهَا إِلَى فِي امْرَأَتِهِ-
حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا بندہ مومن کے متعلق اللہ کی تقدیر اور فیصلے پر مجھے تعجب ہوتا ہے کہ اگر اسے کوئی بھلائی حاصل ہوتی ہے تو وہ اپنے پروردگار کا شکر ادا کرتا ہے اور اگر کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو وہ اس پر بھی الحمدللہ کہہ کر صبر کرتا ہے ( اور صبروشکر دونوں اللہ کو پسند ہیں) مومن کو تو ہر چیز کے بدلے ثواب ملتا ہے حتی کہ اس لقمے پر بھی جو وہ اٹھا کر اپنی بیوی کے منہ میں دیتا ہے ۔
-
حَدَّثَنَا وَكِيعٌ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَاشِدٍ عَنْ مَكْحُولٍ عَنْ سَعْدِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ الرَّجُلُ يَكُونُ حَامِيَةَ الْقَوْمِ أَيَكُونُ سَهْمُهُ وَسَهْمُ غَيْرِهِ سَوَاءً قَالَ ثَكِلَتْكَ أُمُّكَ يَا ابْنَ أُمِّ سَعْدٍ وَهَلْ تُرْزَقُونَ وَتُنْصَرُونَ إِلَّا بِضُعَفَائِكُمْ-
حضرت سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا یا رسول اللہ! ایک آدمی جو اپنی قوم میں کم حیثیت شمار ہوتا ہو، کیا اس کا اور دوسرے آدمی کا حصہ برابر ہو سکتا ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم پر افسوس ہے، کیا کمزوروں کے علاوہ بھی کسی اور کے ذریعے تمہیں رزق ملتا اور تمہاری مدد ہوتی ہے؟
-
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ عَاصِمِ بْنِ بَهْدَلَةَ قَالَ سَمِعْتُ مُصْعَبَ بْنَ سَعْدٍ يُحَدِّثُ عَنْ سَعْدٍ قَالَ سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيُّ النَّاسِ أَشَدُّ بَلَاءً فَقَالَ الْأَنْبِيَاءُ ثُمَّ الْأَمْثَلُ فَالْأَمْثَلُ فَيُبْتَلَى الرَّجُلُ عَلَى حَسَبِ دِينِهِ فَإِنْ كَانَ رَقِيقَ الدِّينِ ابْتُلِيَ عَلَى حَسَبِ ذَاكَ وَإِنْ كَانَ صُلْبَ الدِّينِ ابْتُلِيَ عَلَى حَسَبِ ذَاكَ قَالَ فَمَا تَزَالُ الْبَلَايَا بِالرَّجُلِ حَتَّى يَمْشِيَ فِي الْأَرْضِ وَمَا عَلَيْهِ خَطِيئَةٌ-
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا یا رسول اللہ! سب سے زیادہ سخت مصیبت کن لوگوں پر آتی ہے، فرمایا انبیاء کرام علیہم السلام پر، پھر صالحین پر، پھر درجہ بدرجہ عام لوگوں پر، انسان پر آزمائش اس کے دین کے اعتبار سے آتی ہے، اگر اس کے دین میں پختگی ہو تو اس کے مصائب میں مزید اضافہ کر دیا جاتا ہے اور اگر اس کے دین میں کمزوری ہو تو اس کے مصائب میں تخفیف کر دی جاتی ہے اور انسان پر مسلسل مصائب آتے رہتے ہیں یہاں تک کہ جب وہ زمین پر چلتا ہے تو اس کا کوئی گناہ نہیں ہوتا۔
-
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ قَالَ قَالَ سَعْدُ بْنُ مَالِكٍ جَمَعَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَبَوَيْهِ يَوْمَ أُحُدٍ-
حضرت زبیر رضی اللہ عنہ فرماتے تھے کہ غزوہ احد کے دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے لیے اپنے والدین کو جمع فرمایا (یعنی مجھ سے یوں فرمایا کہ میرے ماں باپ تم پر قربان ہوں )
-
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ مَوْلَى جُهَيْنَةَ قَالَ سَمِعْتُ مُصْعَبَ بْنَ سَعْدٍ يُحَدِّثُ عَنْ سَعْدٍ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ أَيَعْجِزُ أَحَدُكُمْ أَنْ يَكْسِبَ فِي الْيَوْمِ أَلْفَ حَسَنَةٍ قَالَ وَمَنْ يُطِيقُ ذَلِكَ قَالَ يُسَبِّحُ مِائَةَ تَسْبِيحَةٍ فَيُكْتَبُ لَهُ أَلْفُ حَسَنَةٍ وَتُمْحَى عَنْهُ أَلْفُ سَيِّئَةٍ-
حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مخاطب ہو کر فرمایا کیا تم میں سے کوئی شخص اس بات سے عاجز ہے کہ دن میں ایک ہزار نیکیاں کما لے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا یا رسول اللہ! اس کی طاقت کس میں ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سو مرتبہ سبحان اللہ کہہ لیا کرے، اس کے نامہ اعمال میں ایک ہزار نیکیاں لکھ دی جائیں گی اور ایک ہزار گناہ مٹا دئیے جائیں گے۔
-
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ عَاصِمٍ الْأَحْوَلِ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا عُثْمَانَ قَالَ سَمِعْتُ سَعْدًا وَهُوَ أَوَّلُ مَنْ رَمَى بِسَهْمٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَأَبَا بَكْرَةَ تَسَوَّرَ حِصْنَ الطَّائِفِ فِي نَاسٍ فَجَاءَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَا سَمِعْنَا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَقُولُ مَنْ ادَّعَى إِلَى أَبٍ غَيْرِ أَبِيهِ وَهُوَ يَعْلَمُ أَنَّهُ غَيْرُ أَبِيهِ فَالْجَنَّةُ عَلَيْهِ حَرَامٌ-
ابوعثمان کہتے ہیں کہ میں نے حضرت سعد رضی اللہ عنہ جو راہ خدا میں سب سے پہلا تیر پھینکنے والے تھے اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ جو قلعہ طائف کی شہر پناہ پر چڑھنے والے تھے دونوں سے سنا ہے کہ ہم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص اپنے باپ کے علاوہ کسی اور شخص کو اپنا باپ قرار دیتا ہے حالانکہ وہ جانتا ہے کہ وہ شخص اس کا باپ نہیں ہے تو اس پر جنت حرام ہے۔
-
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ إِسْمَاعِيلَ قَالَ سَمِعْتُ قَيْسَ بْنَ أَبِي حَازِمٍ قَالَ قَالَ سَعْدٌ لَقَدْ رَأَيْتُنِي مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَابِعَ سَبْعَةٍ وَمَا لَنَا طَعَامٌ إِلَّا وَرَقَ الْحُبْلَةِ حَتَّى إِنَّ أَحَدَنَا لَيَضَعُ كَمَا تَضَعُ الشَّاةُ مَا يُخَالِطُهُ شَيْءٌ ثُمَّ أَصْبَحَتْ بَنُو أَسَدٍ يُعَزِّرُونِي عَلَى الْإِسْلَامِ لَقَدْ خَسِرْتُ إِذَنْ وَضَلَّ سَعْيِي-
حضرت سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ عیہ وسلم کے ساتھ اپنے آپ کو سات میں کا سا تواں آدمی پایا ہے (جس نے اسلام قبول کیا ہو) اس وقت ہمارے پاس کھانے کے لئے سوائے انگور کی شاخوں اور پتوں کے کوئی دوسری چیز نہیں ہوتی تھی اور ہم میں سے ہر ایک اس طرح مینگنی کرتا تھا جیسے بکری مینگنی کرتی ہے، اس کے ساتھ کوئی اور چیز نہیں ملتی تھی اور آج بنو اسد کے لوگ مجھ ہی کو میرے اسلام پر ملامت کرتے ہیں، تب تو میں بڑے خسارے میں رہا اور میری ساری محنت برباد ہوگئی۔
-
حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَنْبَأَنَا سُفْيَانُ عَنْ عَاصِمٍ حَدَّثَنِي أَبُو عُثْمَانَ النَّهْدِيُّ قَالَ سَمِعْتُ ابْنَ مَالِكٍ يَقُولُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ ادَّعَى إِلَى غَيْرِ أَبِيهِ وَهُوَ يَعْلَمُ فَالْجَنَّةُ عَلَيْهِ حَرَامٌ-
حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص اپنے باپ کے علاوہ کسی اور شخص کو اپنا باپ قرار دیتا ہے حالانکہ وہ جانتا ہے کہ وہ شخص اس کا باپ نہیں ہے تو اس پر جنت حرام ہے۔
-
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَكْرٍ أَنْبَأَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي حُمَيْدٍ أَخْبَرَنِي إِسْمَاعِيلُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ قَالَ قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَا سَعْدُ قُمْ فَأَذِّنْ بِمِنًى إِنَّهَا أَيَّامُ أَكْلٍ وَشُرْبٍ وَلَا صَوْمَ فِيهَا-
حضرت سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ ایام منی میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے یہ منادی کرنے کا حکم دیا کہ ایام تشریق کھانے پینے کے دن ہیں اس لئے ان میں روزہ نہیں ہے۔
-
حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ عَنْ زَائِدَةَ عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِيِّ قَالَ قَالَ سَعْدٌ فِيَّ سَنَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الثُّلُثَ أَتَانِي يَعُودُنِي قَالَ فَقَالَ لِي أَوْصَيْتَ قَالَ قُلْتُ نَعَمْ جَعَلْتُ مَالِي كُلَّهُ فِي الْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ قَالَ لَا تَفْعَلْ قُلْتُ إِنَّ وَرَثَتِي أَغْنِيَاءُ قُلْتُ الثُّلُثَيْنِ قَالَ لَا قُلْتُ فَالشَّطْرَ قَالَ لَا قُلْتُ الثُّلُثَ قَالَ الثُّلُثُ وَالثُّلُثُ كَثِيرٌ-
حضرت سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ وصیت میں ایک تہائی کی مقدار نبی صلی اللہ علیہ وسلم میرے حوالے سے مقرر فرمائی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس عیادت کے لئے تشریف لائے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے پوچھا کہ کیا تم نے وصیت کر دی؟ میں نے کہا جی! میں نے سارا مال فقراء، مساکین اور مسافروں کے نام وقف کرنے کی وصیت کر دی ہے، فرمایا ایسا نہ کرو، میں نے عرض کیا کہ میرے ورثاء غنی ہیں، بہرحال! میں دوتہائی کی وصیت کر دیتا ہوں؟ فرمایا نہیں، میں نے نصف کا ذکر کیا، فرمایا نہیں، میں نے تہائی کا ذکر کیا، فرمایا ہاں! ایک تہائی صحیح ہے اور یہ بھی زیادہ ہے۔
-
حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ عَمْرٍو حَدَّثَنَا أَبَانُ حَدَّثَنَا يَحْيَى عَنِ الْحَضْرَمِيِّ بْنِ لَاحِقٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ عَنْ سَعْدِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا هَامَةَ وَلَا عَدْوَى وَلَا طِيَرَةَ إِنْ يَكُنْ فَفِي الْمَرْأَةِ وَالدَّابَّةِ وَالدَّارِ-
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا مرنے کے بعد مردے کی قبر سے اس کی کھوپڑی نکل آنے، بیماریوں کے متعدی ہونے اور بدشگونی کی کوئی حیثیت نہیں ہے، اگر کسی چیز میں نحوست ہوتی تو عورت، گھوڑے اور گھر میں ہوتی۔
-
قَالَ قَرَأْتُ عَلَى عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ مَالِكٍ قَالَ أَبِي و حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَنْبَأَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ عَنِ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ نَوْفَلِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ أَنَّهُ حَدَّثَهُ أَنَّهُ سَمِعَ سَعْدَ بْنَ أَبِي وَقَّاصٍ وَالضَّحَّاكَ بْنَ قَيْسٍ عَامَ حَجَّ مُعَاوِيَةُ بْنُ أَبِي سُفْيَانَ وَهُمَا يَذْكُرَانِ التَّمَتُّعَ بِالْعُمْرَةِ إِلَى الْحَجِّ فَقَالَ الضَّحَّاكُ لَا يَصْنَعُ ذَلِكَ إِلَّا مَنْ جَهِلَ أَمْرَ اللَّهِ فَقَالَ سَعْدٌ بِئْسَمَا قُلْتَ يَا ابْنَ أَخِي فَقَالَ الضَّحَّاكُ فَإِنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ قَدْ نَهَى عَنْ ذَلِكَ فَقَالَ سَعْدٌ قَدْ صَنَعَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَصَنَعْنَاهَا مَعَهُ-
محمد بن عبداللہ کہتے ہیں کہ جس سال حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ حج کے لئے تشریف لے گئے، اس سال انہوں نے حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ اور ضحاک بن قیس کو حج تمتع کا ذکر کرتے ہوئے سنا،ضحاک کہنے لگے کہ حج تمتع تو وہ آدمی کر سکتا ہے جو اللہ کے حکم سے ناواقف اور جاہل ہو، اس پر حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے فرمایا بھتیجے! تم نے یہ بہت بری بات کہی، ضحاک کہنے لگے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے تو اس سے منع کیا ہے؟ فرمایا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس طرح حج کیا ہے کہ ایک ہی سفر میں حج اور عمرہ کو جمع کر لیا اور ہم نے بھی ان کے ساتھ ایسا ہی کیا ہے۔
-
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ حَدَّثَنَا عَاصِمٌ الْأَحْوَلُ عَنْ أَبِي عُثْمَانَ النَّهْدِيِّ قَالَ قَالَ سَعْدٌ وَقَالَ مَرَّةً سَمِعْتُ سَعْدًا يَقُولُ سَمِعَتْهُ أُذُنَايَ وَوَعَاهُ قَلْبِي مِنْ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ مَنْ ادَّعَى أَبًا غَيْرَ أَبِيهِ وَهُوَ يَعْلَمُ أَنَّهُ غَيْرُ أَبِيهِ فَالْجَنَّةُ عَلَيْهِ حَرَامٌ قَالَ فَلَقِيتُ أَبَا بَكْرَةَ فَحَدَّثْتُهُ فَقَالَ وَأَنَا سَمِعَتْهُ أُذُنَايَ وَوَعَاهُ قَلْبِي مِنْ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات میرے ان کانوں نے سنی ہے اور میرے دل نے اسے محفوظ کیا ہے کہ جو شخص حالت اسلام میں اپنے باپ کے علاوہ کسی اور شخص کو اپنا باپ قرار دیتا ہے حالانکہ وہ جانتا ہے کہ وہ شخص اس کا باپ نہیں ہے تو اس پر جنت حرام ہے، حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے میرے بھی کانوں نے سناہے اور دل نے اسے محفوظ کیا ہے۔
-
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ قَالَ سَمِعْتُ إِبْرَاهِيمَ بْنَ سَعْدٍ يُحَدِّثُ عَنْ سَعْدٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ لِعَلِيٍّ أَمَا تَرْضَى أَنْ تَكُونَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُونَ مِنْ مُوسَى-
حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم اس بات پر خوش نہیں ہو کہ تمہیں مجھ سے وہی نسبت ہو جو حضرت ہارون علیہ السلام کو حضرت موسی علیہ السلام سے حاصل تھی، صرف نبوت کا فرق ہے۔
-
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ وَحَجَّاجٌ حَدَّثَنِي شُعْبَةُ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ يُونُسَ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سَعْدٍ عَنِ سَعْدٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَأَنْ يَمْتَلِئَ جَوْفُ أَحَدِكُمْ قَيْحًا يَرِيهِ خَيْرٌ لَهُ مِنْ أَنْ يَمْتَلِئَ شِعْرًا قَالَ حَجَّاجٌ سَمِعْتُ يُونُسَ بْنَ جُبَيْرٍ-
حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تم میں سے کسی کا پیٹ قئی سے بھر جانا اس بات کی نسبت زیادہ بہتر ہے کہ وہ شعر سے بھر جائے۔
-
حَدَّثَنَا حَسَنٌ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ عُمَرَ بْنِ سَعْدِ بْنِ مَالِكٍ عَنْ سَعْدٍ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَأَنْ يَمْتَلِئَ جَوْفُ أَحَدِكُمْ قَيْحًا حَتَّى يَرِيَهُ خَيْرٌ مِنْ أَنْ يَمْتَلِئَ شِعْرًا-
حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تم میں سے کسی کا پیٹ قئی سے بھر جانا اس بات کی نسبت زیادہ بہتر ہے کہ وہ شعر سے بھر جائے۔
-
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ عِكْرِمَةَ عَنِ ابْنِ سَعْدٍ عَنْ سَعْدٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ فِي الطَّاعُونِ إِذَا وَقَعَ بِأَرْضٍ فَلَا تَدْخُلُوهَا وَإِذَا كُنْتُمْ بِهَا فَلَا تَفِرُّوا مِنْهُ قَالَ شُعْبَةُ وَحَدَّثَنِي هِشَامٌ أَبُو بَكْرٍ أَنَّهُ عِكْرِمَةُ بْنُ خَالِدٍ-
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے طاعون کے متعلق فرمایا کہ جس علاقے میں یہ وباء پھیلی ہوئی ہو، تم وہاں مت جاؤ اور اگر تم کسی علاقے میں ہو اور وہاں وباء پھیل جائے تو وہاں سے نہ نکلو۔
-
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ قَالَ سَمِعْتُ سَعِيدَ بْنَ الْمُسَيَّبِ قَالَ قُلْتُ لِسَعْدِ بْنِ مَالِكٍ إِنَّكَ إِنْسَانٌ فِيكَ حِدَّةٌ وَأَنَا أُرِيدُ أَنْ أَسْأَلَكَ قَالَ مَا هُوَ قَالَ قُلْتُ حَدِيثُ عَلِيٍّ قَالَ فَقَالَ إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لِعَلِيٍّ أَمَا تَرْضَى أَنْ تَكُونَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُونَ مِنْ مُوسَى قَالَ رَضِيتُ ثُمَّ قَالَ بَلَى بَلَى-
حضرت سعید بن مسیب رحمۃ اللہ عیہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے عرض کیا کہ میں آپ سے ایک حدیث کے متعلق سوال کرنا چاہتا ہوں لیکن مجھے آپ سے پوچھتے ہوئے ڈر لگتا ہے، کیونکہ آپ کے مزاج میں حدت بہت ہے، انہوں نے فرمایا کون سی حدیث؟ میں نے پوچھا کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ تبوک کے موقع پر اپنے نائب کے طور پر مدینہ منورہ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کو چھوڑا تھا تو ان سے کیا فرمایا تھا؟ حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم اس بات پر خوش نہیں ہو کہ تمہیں مجھ سے وہی نسبت ہو سوائے نبوت کے جو حضرت ہارون علیہ السلام کو حضرت موسی علیہ السلام سے تھی، انہوں نے کہا میں خوش ہوں، پھر دو مرتبہ کہا کیوں نہیں۔
-
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ أَبِي عَوْنٍ عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ وَبَهْزٌ وَعَفَّانُ قَالَا حَدَّثَنَا شُعْبَةُ أَخْبَرَنِي أَبُو عَوْنٍ قَالَ بَهْزٌ قَالَ سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ سَمُرَةَ قَالَ قَالَ عُمَرُ لِسَعْدٍ شَكَاكَ النَّاسُ فِي كُلِّ شَيْءٍ حَتَّى فِي الصَّلَاةِ قَالَ أَمَّا أَنَا فَأَمُدُّ مِنْ الْأُولَيَيْنِ وَأَحْذِفُ مِنْ الْأُخْرَيَيْنِ وَلَا آلُو مَا اقْتَدَيْتُ بِهِ مِنْ صَلَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ عُمَرُ ذَاكَ الظَّنُّ بِكَ أَوْ ظَنِّي بِكَ-
حضرت جابر بن سمرہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے کہا کہ لوگوں کو آپ سے ہر چیز حتی کہ نماز کے معاملے میں بھی شکایات ہیں، انہوں نے فرمایا کہ میں تو پہلی دو رکعتیں نسبتا لمبی کرتا ہوں اور دوسری دو رکعتیں مختصر کر دیتا ہوں اور میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء میں جو نمازیں پڑھی ہیں، ان کی پیروی کرنے میں کوئی کوتاہی نہیں کرتا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ مجھے آپ سے یہی امید تھی۔
-
حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ حَدَّثَنَا فِطْرٌ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَرِيكٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الرُّقَيْمِ الْكِنَانِيِّ قَالَ خَرَجْنَا إِلَى الْمَدِينَةِ زَمَنَ الْجَمَلِ فَلَقِيَنَا سَعْدُ بْنُ مَالِكٍ بِهَا فَقَالَ أَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِسَدِّ الْأَبْوَابِ الشَّارِعَةِ فِي الْمَسْجِدِ وَتَرْكِ بَابِ عَلِيٍّ-
عبداللہ بن رقیم کہتے ہیں کہ جنگ جمل کے زمانے میں ہم لوگ مدینہ منورہ پہنچے، وہاں ہماری ملاقات حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے ہوئی، تو انہوں نے فرمایا کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد نبوی کی طرف کھلنے والے تمام دروازے بند کر دینے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کا دروازہ کھلا رکھنے کا حکم دیا تھا ۔
-
حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ أَنْبَأَنَا لَيْثٌ وَأَبُو النَّضْرِ حَدَّثَنَا لَيْثٌ حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ الْقُرَشِيُّ ثُمَّ التَّيْمِيُّ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي نَهِيكٍ عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ لَيْسَ مِنَّا مَنْ لَمْ يَتَغَنَّ بِالْقُرْآنِ-
حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا وہ شخص ہم میں سے نہیں جو قرآن کریم کو عمدہ آواز کے ساتھ نہ پڑھے۔
-
حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ أَنْبَأَنَا لَيْثٌ حَدَّثَنِي عُقَيْلٌ عَنِ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ أَنَّهُ قَالَ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى أَنْ يَطْرُقَ الرَّجُلُ أَهْلَهُ بَعْدَ صَلَاةِ الْعِشَاءِ-
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات سے منع فرمایا ہے کہ کوئی شخص عشاء کی نماز کے بعد اچانک سفر سے واپس آکر اپنے اہل خانہ کو پریشان کرے۔
-
حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ أَنْبَأَنَا لَيْثٌ حَدَّثَنِي عُقَيْلٌ عَنِ ابْنِ شِهَابٍ أَخْبَرَنِي سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيَّبِ أَنَّهُ سَمِعَ سَعْدَ بْنَ أَبِي وَقَّاصٍ قَالَ أَرَادَ عُثْمَانُ بْنُ مَظْعُونٍ أَنْ يَتَبَتَّلَ فَنَهَاهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَوْ أَجَازَ ذَلِكَ لَهُ لَاخْتَصَيْنَا-
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ نے گوشہ نشینی اختیار کرنا چاہی لییکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اس کی اجازت نہ دی، اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم انہیں اس چیز کی اجازت دے دیتے تو ہم بھی کم از کم اپنے آپ کو خصی کر لیتے۔
-
حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ مَوْلَى الْأَسْوَدِ بْنِ سُفْيَانَ عَنْ أَبِي عَيَّاشٍ عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ قَالَ سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ الرُّطَبِ بِالتَّمْرِ فَقَالَ أَلَيْسَ يَنْقُصُ الرُّطَبُ إِذَا يَبِسَ قَالُوا بَلَى فَكَرِهَهُ-
حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ کسی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کیا تر کھجور کوخشک کھجور کے بدلے بیچناجائز ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا ایسا نہیں ہے کہ تر کھجور خشک ہونے کے بعد کم رہ جاتی ہے؟ لوگوں نے عرض کیا ایسا ہی ہے، اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ناپسندیدہ قرار دیا۔
-
حَدَّثَنَا يَعْلَى حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ حَكِيمٍ حَدَّثَنَا عَامِرُ بْنُ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ عَنْ أَبِيهِ قَالَ أَقْبَلْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى مَرَرْنَا عَلَى مَسْجِدِ بَنِي مُعَاوِيَةَ فَدَخَلَ فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ وَصَلَّيْنَا مَعَهُ وَنَاجَى رَبَّهُ عَزَّ وَجَلَّ طَوِيلًا قَالَ سَأَلْتُ رَبِّي عَزَّ وَجَلَّ ثَلَاثًا سَأَلْتُهُ أَنْ لَا يُهْلِكَ أُمَّتِي بِالْغَرَقِ فَأَعْطَانِيهَا وَسَأَلْتُهُ أَنْ لَا يُهْلِكَ أُمَّتِي بِالسَّنَةِ فَأَعْطَانِيهَا وَسَأَلْتُهُ أَنْ لَا يَجْعَلَ بَأْسَهُمْ بَيْنَهُمْ فَمَنَعَنِيهَا-
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کہیں جا رہے تھے، راستے میں ہمارا گذر بنو معاویہ کی مسجد پر ہوا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مسجد میں داخل ہو کر دو رکعت نماز پڑھی، ہم نے بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ یہ نماز پڑھی، اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے طویل دعاء فرمائی اور فراغت کے بعد فرمایا میں نے اپنے پروردگار سے تین چیزوں کی درخواست کی تھی، ایک درخواست تو میں نے یہ کی تھی کہ میری امت کو سمندر میں غرق کر کے ہلاک نہ کرے، اللہ نے میری یہ درخواست قبول کرلی، دوسری درخواست میں نے یہ کی تھی کہ میری امت کو قحط سالی کی وجہ سے ہلاک نہ کرے، اللہ نے میری یہ درخواست بھی قبول کر لی اور تیسری درخواست میں نے یہ کی تھی کہ میری امت آپس میں نہ لڑے لیکن اللہ نے یہ دعاء قبول نہیں فرمائی۔
-
حَدَّثَنَا يَعْلَى وَيَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ قَالَ يَحْيَى حَدَّثَنِي رَجُلٌ كُنْتُ أُسَمِّيهِ فَنَسِيتُ اسْمَهُ عَنْ عُمَرَ بْنِ سَعْدٍ قَالَ كَانَتْ لِي حَاجَةٌ إِلَى أَبِي سَعْدٍ قَالَ و حَدَّثَنَا أَبُو حَيَّانَ عَنْ مُجَمِّعٍ قَالَ كَانَ لِعُمَرَ بْنِ سَعْدٍ إِلَى أَبِيهِ حَاجَةٌ فَقَدَّمَ بَيْنَ يَدَيْ حَاجَتِهِ كَلَامًا مِمَّا يُحَدِّثُ النَّاسُ يُوصِلُونَ لَمْ يَكُنْ يَسْمَعُهُ فَلَمَّا فَرَغَ قَالَ يَا بُنَيَّ قَدْ فَرَغْتَ مِنْ كَلَامِكَ قَالَ نَعَمْ قَالَ مَا كُنْتَ مِنْ حَاجَتِكَ أَبْعَدَ وَلَا كُنْتُ فِيكَ أَزْهَدَ مِنِّي مُنْذُ سَمِعْتُ كَلَامَكَ هَذَا سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ سَيَكُونُ قَوْمٌ يَأْكُلُونَ بِأَلْسِنَتِهِمْ كَمَا تَأْكُلُ الْبَقَرَةُ مِنْ الْأَرْضِ-
عمرو بن سعد کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ مجھے اپنے والد حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے کوئی کام پڑ گیا، انہوں نے اپنا مقصد بیان کرنے سے پہلے ایک لمبی چوڑی تمہید باندھی جیسا کہ لوگوں کی عادت ہے، جب وہ اس سے فارغ ہوئے تو حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے فرمایا بیٹا! آپ اپنی بات پوری کر چکے؟ عرض کیا جی ہاں! فرمایا تم اپنی ضرورت سے بہت زیادہ دور نہیں ہو (میں تمہاری ضرورت پوری کردوں گا) لیکن جب سے میں نے تم سے یہ بات سنی ہے، مجھے تم میں کوئی دلچسپی نہیں رہی، میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے عنقریب ایک ایسی قوم آئے گی جو اپنی زبان (چرب لسانی) کے بل بوتے پر کھائے گی جیسے گائے زمین سے اپنی زبان کے ذریعے کھانا کھاتی ہے۔
-
حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَنْبَأَنَا سُفْيَانُ عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ قَالَ شَكَا أَهْلُ الْكُوفَةِ سَعْدًا إِلَى عُمَرَ فَقَالُوا لَا يُحْسِنُ يُصَلِّي قَالَ فَسَأَلَهُ عُمَرُ فَقَالَ إِنِّي أُصَلِّي بِهِمْ صَلَاةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرْكُدُ فِي الْأُولَيَيْنِ وَأَحْذِفُ فِي الْأُخْرَيَيْنِ قَالَ ذَلِكَ الظَّنُّ بِكَ يَا أَبَا إِسْحَاقَ-
حضرت جابر بن سمرہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ اہل کوفہ نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے حضرت سعد رضی اللہ عنہ کی شکایت کی کہ وہ اچھی طرح نماز نہیں پڑھاتے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے پوچھا، تو انہوں نے فرمایا کہ میں تو پہلی دو رکعتیں نسبتا لمبی کرتا ہوں اور دوسری دو رکعتیں مختصر کر دیتاہوں اور میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء میں جو نماز یں پڑھی ہیں، ان کی پیروی کرنے میں، میں کوئی کوتاہی نہیں کرتا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ مجھے آپ سے یہی امید تھی۔
-
حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَنْبَأَنَا مَعْمَرٌ عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ عَنْ عُمَرَ بْنِ سَعْدٍ حَدَّثَنَا سَعْدُ بْنُ أَبِي وَقَّاصٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قِتَالُ الْمُؤْمِنِ كُفْرٌ وَسِبَابُهُ فُسُوقٌ وَلَا يَحِلُّ لِمُسْلِمٍ أَنْ يَهْجُرَ أَخَاهُ فَوْقَ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ-
حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا مسلمان سے قتال کرنا کفر ہے اور اسے گالی دینا فسق ہے اور کسی مسلمان کے حلال نہیں ہے وہ تین دن سے زیادہ اپنے بھائی سے قطع کلامی کرے۔
-
حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَنْبَأَنَا مَعْمَرٌ عَنِ الزُّهْرِيِّ عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ عَنْ أَبِيهِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ مِنْ أَكْبَرِ الْمُسْلِمِينَ فِي الْمُسْلِمِينَ جُرْمًا رَجُلًا سَأَلَ عَنْ شَيْءٍ وَنَقَّرَ عَنْهُ حَتَّى أُنْزِلَ فِي ذَلِكَ الشَّيْءِ تَحْرِيمٌ مِنْ أَجْلِ مَسْأَلَتِهِ-
حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا مسلمانوں میں سب سے بڑا جرم اس شخص کا ہے جس نے کسی چیز کے متعلق سوال کیا اور ناگوار گذرنے والے امور کو معلوم کرنے کی کوشش کی، یہاں تک کہ اس کے سوال کے نتیجے میں اس چیز کی حرمت کا حکم نازل ہوگیا۔
-
حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ عَنِ الزُّهْرِيِّ عَنْ عُمَرَ بْنِ سَعْدٍ أَوْ غَيْرِهِ أَنَّ سَعْدَ بْنَ مَالِكٍ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ مَنْ يُهِنْ قُرَيْشًا يُهِنْهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ-
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص قریش کو ذلیل کرنا چاہے گا اللہ اسے ذلیل کر دے گا۔
-
حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَنْبَأَنَا مَعْمَرٌ عَنِ الزُّهْرِيِّ عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ عَنْ أَبِيهِ قَالَ أَعْطَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رِجَالًا وَلَمْ يُعْطِ رَجُلًا مِنْهُمْ شَيْئًا فَقَالَ سَعْدٌ يَا نَبِيَّ اللَّهِ أَعْطَيْتَ فُلَانًا وَفُلَانًا وَلَمْ تُعْطِ فُلَانًا شَيْئًا وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْ مُسْلِمٌ حَتَّى أَعَادَهَا سَعْدٌ ثَلَاثًا وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ أَوْ مُسْلِمٌ ثُمَّ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنِّي لَأُعْطِي رِجَالًا وَأَدَعُ مَنْ هُوَ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْهُمْ فَلَا أُعْطِيهِ شَيْئًا مَخَافَةَ أَنْ يُكَبُّوا فِي النَّارِ عَلَى وُجُوهِهِمْ-
حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ لوگوں کو مال و دولت عطاء فرمایا، لیکن ان ہی میں سے ایک آدمی کو کچھ نہیں دیا، حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے عرض کیا اے اللہ کے نبی! آپ نے فلاں فلاں کو تو دے دیا، لیکن فلاں شخص کو کچھ بھی نہیں دیا، حالانکہ وہ پکا مومن بھی ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مسلمان نہیں؟ یہ سوال جواب تین مرتبہ ہوئے، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں کچھ لوگوں کو دے دیتا ہوں اور ان لوگوں کو چھوڑ دیتا ہوں جو مجھے زیادہ محبوب ہوتے ہیں اور انہیں کچھ نہیں دیتا، اس خوف اور اندیشے کی بناء پر کہ کہیں انہیں ان کے چہروں کے بل گھسیٹ کر جہنم میں نہ ڈال دیا جائے۔
-
حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ عَنِ الزُّهْرِيِّ عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ عَنْ أَبِيهِ قَالَ أَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِقَتْلِ الْوَزَغِ وَسَمَّاهُ فُوَيْسِقًا-
حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ نے چھپکلی کو مار دینے کا حکم دیاہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا نام " فویسق " رکھاہے (جوکہ فاسق کی تصغیر ہے)
-
حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ عَنِ الزُّهْرِيِّ عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ عَنْ أَبِيهِ قَالَ كُنْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ فَمَرِضْتُ مَرَضًا أَشْفَيْتُ عَلَى الْمَوْتِ فَعَادَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ لِي مَالًا كَثِيرًا وَلَيْسَ يَرِثُنِي إِلَّا ابْنَةٌ لِي أَفَأُوصِي بِثُلُثَيْ مَالِي قَالَ لَا قُلْتُ بِشَطْرِ مَالِي قَالَ لَا قُلْتُ فَثُلُثُ مَالِي قَالَ الثُّلُثُ وَالثُّلُثُ كَثِيرٌ إِنَّكَ يَا سَعْدُ أَنْ تَدَعَ وَرَثَتَكَ أَغْنِيَاءَ خَيْرٌ لَكَ مِنْ أَنْ تَدَعَهُمْ عَالَةً يَتَكَفَّفُونَ النَّاسَ إِنَّكَ يَا سَعْدُ لَنْ تُنْفِقَ نَفَقَةً تَبْتَغِي بِهَا وَجْهَ اللَّهِ تَعَالَى إِلَّا أُجِرْتَ عَلَيْهَا حَتَّى اللُّقْمَةَ تَجْعَلُهَا فِي فِي امْرَأَتِكَ قَالَ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أُخَلَّفُ بَعْدَ أَصْحَابِي قَالَ إِنَّكَ لَنْ تَتَخَلَّفَ فَتَعْمَلَ عَمَلًا تَبْتَغِي بِهِ وَجْهَ اللَّهِ إِلَّا ازْدَدْتَ بِهِ دَرَجَةً وَرِفْعَةً وَلَعَلَّكَ تُخَلَّفُ حَتَّى يَنْفَعَ اللَّهُ بِكَ أَقْوَامًا وَيَضُرَّ بِكَ آخَرِينَ اللَّهُمَّ أَمْضِ لِأَصْحَابِي هِجْرَتَهُمْ وَلَا تَرُدَّهُمْ عَلَى أَعْقَابِهِمْ لَكِنْ الْبَائِسُ سَعْدُ ابْنُ خَوْلَةَ رَثَى لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَكَانَ مَاتَ بِمَكَّةَ-
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حجۃ الوداع کے موقع پر میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھا، میں مکہ مکرمہ میں ایسابیمار ہوگیا کہ موت کے قریب جا پہنچا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم میری عیادت کے لئے تشریف لائے۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! میرے پاس بہت سا مال ہے، میری وارث صرف ایک بیٹی ہے، کیا میں اپنے دو تہائی مال کو راہ خدا میں دینے کی وصیت کر سکتا ہوں؟ فرمایا نہیں، انہوں نے نصف کے متعلق پوچھا تب بھی منع فرما دیا، پھر جب ایک تہائی مال کے متعلق پوچھا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں! ایک تہائی مال کی وصیت کر سکتے ہو اور یہ ایک تہائی بھی بہت زیادہ ہے، یاد رکھو! تم اپنا مال جو اپنے اوپر خرچ کرتے ہو، یہ بھی صدقہ ہے، نیز یہ کہ تم اپنے اہل خانہ کو اچھی حالت میں چھوڑ کر جاؤ، یہ اس سے بہت بہتر ہے کہ تم انہیں اس حال میں چھوڑ کر جاؤ کہ وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے پر مجبور ہو جائیں، میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! کیا میں اپنے ساتھیوں سے پیچھے رہ جاؤں گا؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایسا ہرگز نہیں ہوگا، تم جو عمل بھی رضاء الہی کے لئے کرو گے، تمہارے درجے اور بلندی میں اس کی برکت سے اضافہ ہوگا اور ہو سکتا ہے کہ تمہیں زیادہ عمر ملے اور اللہ تمہارے ذریعے ایک قوم (مسلمانوں کو نفع پہنچائے اور دوسرے لوگوں (کافروں ) کو نقصان پہنچائے، اے اللہ! میرے صحابہ کی ہجرت کو مکمل فرما، انہیں ان کی ایڑیوں کے بل نہ لوٹا، افسوس! سعد بن خولہ پر، یہ مکہ مکرمہ میں ہی فوت ہوگئے تھے جس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم افسوس کا اظہار فرما رہے تھے۔
-
حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ عَنِ الزُّهْرِيِّ قَالَ أَخْبَرَنِي سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيَّبِ عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ قَالَ لَقَدْ رَدَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى عُثْمَانَ التَّبَتُّلَ وَلَوْ أَحَلَّهُ لَاخْتَصَيْنَا-
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ نے گوشہ نشینی اختیار کرنا چاہی لییکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اس کی اجازت نہ دی، اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم انہیں اس چیز کی اجازت دے دیتے تو ہم بھی کم از کم اپنے آپ کو خصی کر لیتے۔
-
حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ أَنْبَأَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ عَنْ دَاوُدَ بْنِ عَامِرِ بْنِ سَعْدِ بْنِ مَالِكٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ أَنَّهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّهُ لَمْ يَكُنْ نَبِيٌّ إِلَّا وَصَفَ الدَّجَّالَ لِأُمَّتِهِ وَلَأَصِفَنَّهُ صِفَةً لَمْ يَصِفْهَا أَحَدٌ كَانَ قَبْلِي إِنَّهُ أَعْوَرُ وَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ لَيْسَ بِأَعْوَرَ-
حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہر نبی نے اپنی امت کے سامنے دجال کے اوصاف ضرور ذکر کیے ہیں، لیکن میں تمہارے سامنے اس کا ایک ایسا وصف بیان کروں گا جو مجھ سے پہلے کسی نبی نے بیان نہیں کیا، یاد رکھو! دجال کانا ہوگا (اور ربوبیت کا دعوی کرے گا) جبکہ اللہ کانا نہیں ہے۔
-
حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ وَعَفَّانُ قَالَا حَدَّثَنَا سَلِيمُ بْنُ حَيَّانَ حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ بْنُ خَالِدٍ قَالَ عَفَّانُ حَدَّثَنِي عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعْدٍ عَنْ سَعْدٍ أَنَّ الطَّاعُونَ ذُكِرَ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ إِنَّهُ رِجْزٌ أُصِيبَ بِهِ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ فَإِذَا كَانَ بِأَرْضٍ فَلَا تَدْخُلُوهَا وَإِذَا كُنْتُمْ بِأَرْضٍ وَهُوَ بِهَا فَلَا تَخْرُجُوا مِنْهَا-
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں طاعون کا ذکر چھڑ گیا، نبی صلی اللہ عیلہ وسلم نے فرمایا کہ یہ ایک عذاب ہے جو تم سے پہلی امتوں پر آیا تھا، اس لئے جس علاقے میں یہ وبا پھیلی ہوئی ہو، تم وہاں مت جاؤ اور اگر تم کسی علاقے میں ہو اور وہاں وبا پھیل جائے تو وہاں سے نہ نکلو۔
-
حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ عَمْرٍو حَدَّثَنَا فُلَيْحٌ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مَعْمَرٍ قَالَ حَدَّثَ عَامِرُ بْنُ سَعْدٍ عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِيزِ وَهُوَ أَمِيرٌ عَلَى الْمَدِينَةِ أَنَّ سَعْدًا قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ أَكَلَ سَبْعَ تَمَرَاتِ عَجْوَةٍ مَا بَيْنَ لَابَتَيْ الْمَدِينَةِ حِينَ يُصْبِحُ لَمْ يَضُرَّهُ يَوْمَهُ ذَلِكَ شَيْءٌ حَتَّى يُمْسِيَ قَالَ فُلَيْحٌ وَأَظُنُّهُ قَدْ قَالَ وَإِنْ أَكَلَهَا حِينَ يُمْسِي لَمْ يَضُرَّهُ شَيْءٌ حَتَّى يُصْبِحَ قَالَ فَقَالَ عُمَرُ يَا عَامِرُ انْظُرْ مَا تُحَدِّثُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ عَامِرٌ وَاللَّهِ مَا كَذَبْتُ عَلَى سَعْدٍ وَمَا كَذَبَ سَعْدٌ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-
ابن معمر کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ عامر بن سعد نے حضرت عمربن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ کو جبکہ وہ گورنر مدینہ تھے اپنے والد حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے حوالے سے یہ حدیث سنائی کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص صبح نہار منہ مدینہ منورہ کے دونوں اطراف میں کہیں سے بھی عجوہ کھجور کے سات دانے لے کر کھائے تو اس دن شام تک اسے کوئی چیز نقصان نہیں پہنچا سکے گی۔ راوی کا گمان ہے کہ انہوں نے یہ بھی فرمایا کہ اگر شام کو کھالے تو صبح تک اسے کوئی چیز نقصان نہیں پہنچا سکے گی، حضرت عمر بن عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا عامر! اچھی طرح سوچ لو کہ تم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے کیا حدیث بیان کر رہے ہو؟ انہوں نے کہا کہ میں اس بات پر گواہ ہوں کہ حضرت سعد رضی اللہ عنہ پر جھوٹ نہیں باندھ رہا اور یہ کہ حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ نہیں باندھا۔
-
حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ عَمْرٍو حَدَّثَنَا كَثِيرُ بْنُ زَيْدٍ الْأَسْلَمِيُّ عَنِ الْمُطَّلِبِ عَنْ عُمَرَ بْنِ سَعْدٍ عَنْ أَبِيهِ أَنَّهُ قَالَ جَاءَهُ ابْنُهُ عَامِرٌ فَقَالَ أَيْ بُنَيَّ أَفِي الْفِتْنَةِ تَأْمُرُنِي أَنْ أَكُونَ رَأْسًا لَا وَاللَّهِ حَتَّى أُعْطَى سَيْفًا إِنْ ضَرَبْتُ بِهِ مُؤْمِنًا نَبَا عَنْهُ وَإِنْ ضَرَبْتُ بِهِ كَافِرًا قَتَلَهُ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ يُحِبُّ الْغَنِيَّ الْخَفِيَّ التَّقِيَّ-
عمربن سعد کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ان کے بھائی عامر مدینہ منورہ سے باہر حضرت سعد رضی اللہ عنہ کے پاس ان کے بکریوں کے فارم میں چلے گئے، حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے ان سے فرمایا بیٹا! کیا تم مجھے شورش کے کاموں کا سر غنہ بننے کے لئے کہتے ہو؟ بخدا! ایسا نہیں ہو سکتا کہ میرے ہاتھ میں تلوار پکڑا دی جائے اور میں اس سے کسی مومن کو قتل کردوں تو وہ اس کی خبر دے اور اگر کسی کافر کو قتل کردوں تو وہ بھی اس پر پل پڑے، میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس بندے کو پسند فرماتے ہیں جو متقی ہو، بے نیاز ہو اور اپنے آپ کو مخفی رکھنے والا ہو۔
-
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ حَدَّثَنَا مِسْعَرٌ عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ قَالَ رَأَيْتُ عَنْ يَمِينِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعَنْ شِمَالِهِ يَوْمَ أُحُدٍ رَجُلَيْنِ عَلَيْهِمَا ثِيَابٌ بِيضٌ لَمْ أَرَهُمَا قَبْلُ وَلَا بَعْدُ-
حضرت سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے غزوہ احد کے دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دائیں بائیں دو آدمیوں کو دیکھا جنہوں نے سفید کپڑے پہن رکھے تھے اور وہ بڑی سخت جنگ لڑ رہے تھے، میں نے انہیں اس سے پہلے دیکھا تھا اور نہ بعد میں ۔
-
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ عَنِ الْعَيْزَارِ عَنْ عُمَرَ بْنِ سَعْدٍ عَنْ أَبِيهِ سَعْدٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ عَجِبْتُ لِلْمُسْلِمِ إِذَا أَصَابَهُ خَيْرٌ حَمِدَ اللَّهَ وَشَكَرَ وَإِذَا أَصَابَتْهُ مُصِيبَةٌ احْتَسَبَ وَصَبَرَ الْمُسْلِمُ يُؤْجَرُ فِي كُلِّ شَيْءٍ حَتَّى فِي اللُّقْمَةِ يَرْفَعُهَا إِلَى فِيهِ-
حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا بندہ مومن کے متعلق اللہ کی تقدیر اور فیصلے پر مجھے تعجب ہوتا ہے کہ اگر اسے کوئی بھلائی حاصل ہوتی ہے تو وہ اپنے پروردگار کا شکر ادا کرتا ہے اور اگر کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو وہ اس پر بھی ثواب کی نیت سے صبر کرتا ہے ( اور صبروشکر دونوں اللہ کو پسند ہیں) مومن کو تو ہر چیز کے بدلے ثواب ملتا ہے حتی کہ اس لقمے پر بھی جو وہ اٹھا کر اپنی بیوی کے منہ میں دیتا ہے ۔
-
حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَنْبَأَنَا مَعْمَرٌ عَنْ قَتَادَةَ وَعَلِيِّ بْنِ زَيْدِ بْنِ جُدْعَانَ قَالَا حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُسَيَّبِ حَدَّثَنِي ابْنٌ لِسَعْدِ بْنِ مَالِكٍ حَدِيثًا عَنْ أَبِيهِ قَالَ دَخَلْتُ عَلَى سَعْدٍ فَقُلْتُ حَدِيثًا حُدِّثْتُهُ عَنْكَ حِينَ اسْتَخْلَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلِيًّا عَلَى الْمَدِينَةِ قَالَ فَغَضِبَ فَقَالَ مَنْ حَدَّثَكَ بِهِ فَكَرِهْتُ أَنْ أُخْبِرَهُ أَنَّ ابْنَهُ حَدَّثَنِيهِ فَيَغْضَبَ عَلَيْهِ ثُمَّ قَالَ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ خَرَجَ فِي غَزْوَةِ تَبُوكَ اسْتَخْلَفَ عَلِيًّا عَلَى الْمَدِينَةِ فَقَالَ عَلِيٌّ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا كُنْتُ أُحِبُّ أَنْ تَخْرُجَ وَجْهًا إِلَّا وَأَنَا مَعَكَ فَقَالَ أَوَمَا تَرْضَى أَنْ تَكُونَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُونَ مِنْ مُوسَى غَيْرَ أَنَّهُ لَا نَبِيَّ بَعْدِي-
حضرت سعید بن مسیب رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے ایک بیٹے نے مجھے اپنے والد کے حوالے سے ایک حدیث سنائی، میں حضرت سعد رضی اللہ عنہ کے پاس گیا اور ان سے عرض کیا کہ مجھے آپ کے حوالے سے ایک حدیث معلوم ہوئی ہے جس کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پیچھے مدینہ منورہ پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو خلیفہ مقرر کیا تھا؟ وہ یہ سن کر غصے میں آگئے اور فرمایا کہ تم سے یہ حدیث کس نے بیان کی ہے؟ میں نے ان کے بیٹے کا نام لینا مناسب نہ سمجھا پھر حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو غزوہ تبوک میں مدینہ منورہ پر اپنا نائب مقرر کر کے وہاں چھوڑ دیا تو وہ کہنے لگے یا رسول اللہ! میری خواہش تو یہی ہے کہ آپ جہاں بھی جائیں، میں آپ کے ہمراہ ہوں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم اس بات پر خوش نہیں ہو کہ تمہیں مجھ سے وہی نسبت ہو سوائے نبوت کے جو حضرت ہارون علیہ السلام کو حضرت موسی علیہ السلام سے تھی۔
-
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ عِيسَى حَدَّثَنَا مَالِكٌ يَعْنِي ابْنَ أَنَسٍ حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدٍ قَالَ سَمِعْتُ أَبِي يَقُولُ مَا سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ لِحَيٍّ يَمْشِي إِنَّهُ فِي الْجَنَّةِ إِلَّا لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَلَامٍ-
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی زندہ شخص کے حق میں یہ فرماتے ہوئے نہیں سنا کہ یہ زمین پر چلتا پھرتا جنتی ہے، سوائے حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کے۔
-
حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ مَعْرُوفٍ قَالَ عَبْد اللَّهِ وَسَمِعْتُهُ أَنَا مِنْ هَارُونَ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ حَدَّثَنِي مَخْرَمَةُ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ قَالَ سَمِعْتُ سَعْدًا وَنَاسًا مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُونَ كَانَ رَجُلَانِ أَخَوَانِ فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَكَانَ أَحَدُهُمَا أَفْضَلَ مِنْ الْآخَرِ فَتُوُفِّيَ الَّذِي هُوَ أَفْضَلُهُمَا ثُمَّ عُمِّرَ الْآخَرُ بَعْدَهُ أَرْبَعِينَ لَيْلَةً ثُمَّ تُوُفِّيَ فَذُكِرَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَضْلُ الْأَوَّلِ عَلَى الْآخَرِ فَقَالَ أَلَمْ يَكُنْ يُصَلِّي فَقَالُوا بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ فَكَانَ لَا بَأْسَ بِهِ فَقَالَ مَا يُدْرِيكُمْ مَاذَا بَلَغَتْ بِهِ صَلَاتُهُ ثُمَّ قَالَ عِنْدَ ذَلِكَ إِنَّمَا مَثَلُ الصَّلَوَاتِ كَمَثَلِ نَهَرٍ جَارٍ بِبَابِ رَجُلٍ غَمْرٍ عَذْبٍ يَقْتَحِمُ فِيهِ كُلَّ يَوْمٍ خَمْسَ مَرَّاتٍ فَمَا تُرَوْنَ يُبْقِي ذَلِكَ مِنْ دَرَنِهِ-
حضرت سعد رضی اللہ عنہ اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور باسعادت میں دو بھائی تھے ان میں سے ایک دوسرے سے افضل تھا اس افضل شخص کا پہلے انتقال ہوگیا اور دوسرا بھائی اس کے بعد چالیس دن تک مزید زندہ رہا پھر وہ بھی فوت ہوگیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے جب ان کا تذکرہ ہوا تو لوگوں نے پہلے کے افضل ہونے کا ذکر کیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا یہ دوسرا بھائی نماز نہیں پڑھتا تھا؟ لوگوں نے کہا کیوں نہیں، لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہیں کیا خبر کہ اس کی نمازوں نے اسے کہاں تک پہنچا دیا؟ پھر فرمایا کہ نماز کی مثال اس جاری نہر کی سی ہے جس کا پانی میٹھا اور شیریں ہو اور وہ تمہارے گھر کے دروازے پر بہہ رہی ہو اور وہ اس میں روزانہ پانچ مرتبہ غوطہ لگاتا ہو، تمہارا کیا خیال ہے، کیا اس کے جسم پر کچھ بھی میل کچیل باقی رہے گا؟
-
حَدَّثَنَا بَهْزٌ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ حَدَّثَنَا قَتَادَةُ عَنْ يُونُسَ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ عَنْ أَبِيهِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَأَنْ يَمْتَلِئَ جَوْفُ أَحَدِكُمْ قَيْحًا وَدَمًا خَيْرٌ لَهُ مِنْ أَنْ يَمْتَلِئَ شِعْرًا-
حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تم میں سے کسی کا پیٹ قئی سے بھر جانا اس بات کی نسبت زیادہ بہتر ہے کہ وہ شعر سے بھر جائے۔
-
حَدَّثَنَا بَهْزٌ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ أَخْبَرَنِي حَبِيبُ بْنُ أَبِي ثَابِتٍ قَالَ قَدِمْتُ الْمَدِينَةَ فَبَلَغَنَا أَنَّ الطَّاعُونَ وَقَعَ بِالْكُوفَةِ قَالَ فَقُلْتُ مَنْ يَرْوِي هَذَا الْحَدِيثَ فَقِيلَ عَامِرُ بْنُ سَعْدٍ قَالَ وَكَانَ غَائِبًا فَلَقِيتُ إِبْرَاهِيمَ بْنَ سَعْدٍ فَحَدَّثَنِي أَنَّهُ سَمِعَ أُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ يُحَدِّثُ سَعْدًا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِذَا وَقَعَ الطَّاعُونُ بِأَرْضٍ فَلَا تَدْخُلُوهَا وَإِذَا وَقَعَ وَأَنْتُمْ بِهَا فَلَا تَخْرُجُوا مِنْهَا قَالَ قُلْتُ أَنْتَ سَمِعْتَ أُسَامَةَ قَالَ نَعَمْ-
حبیب بن ابی ثابت کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں مدینہ منورہ آیا ہوا تھا، پیچھے سے خبر معلوم ہوئی کہ کوفہ میں طاعون کی وباء پھوٹ پڑی ہے، میں نے لوگوں سے پوچھا کہ اس مضمون کی حدیث یہاں کون بیان کرتا ہے؟ لوگوں نے عامربن سعد کا نام لیا، لیکن وہ اس وقت وہاں موجود نہ تھے، پھر میری ملاقات ابراہیم بن سعد سے ہوئی، انہوں نے مجھے حضرت اسامہ بن زید کے حوالے سے حضرت سعد رضی اللہ عنہ کی یہ روایت سنائی کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جب کسی قوم میں طاعون کی وباء پھیل جائے تو تم وہاں مت جاؤ اور اگر تم کسی علاقے میں پہلے سے موجود ہو اور وہاں طاعون کی وباء پھیل جائے تو وہاں سے نکلو مت، میں نے ابراہیم سے پوچھا کیا آپ نے حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ سے یہ روایت خود سنی ہے؟ انہوں نے اثبات میں جواب دیا۔
-
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ بَحْرٍ حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ عَنْ زَكَرِيَّا عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سَعْدِ بْنِ مَالِكٍ عَنْ أَبِيهِ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ قِتَالُ الْمُسْلِمِ كُفْرٌ وَسِبَابُهُ فِسْقٌ-
حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا مسلمان سے قتال کرنا کفر ہے اور اسے گالی دینا فسق ہے۔
-
حَدَّثَنَا أَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ أَنْبَأَنَا أَبُو بَكْرٍ عَنْ عَاصِمِ بْنِ أَبِي النَّجُودِ عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ عَنْ سَعْدِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَدْ شَفَانِي اللَّهُ مِنْ الْمُشْرِكِينَ فَهَبْ لِي هَذَا السَّيْفُ قَالَ إِنَّ هَذَا السَّيْفَ لَيْسَ لَكَ وَلَا لِي ضَعْهُ قَالَ فَوَضَعْتُهُ ثُمَّ رَجَعْتُ قُلْتُ عَسَى أَنْ يُعْطَى هَذَا السَّيْفُ الْيَوْمَ مَنْ لَمْ يُبْلِ بَلَائِي قَالَ إِذَا رَجُلٌ يَدْعُونِي مِنْ وَرَائِي قَالَ قُلْتُ قَدْ أُنْزِلَ فِيَّ شَيْءٌ قَالَ كُنْتَ سَأَلْتَنِي السَّيْفَ وَلَيْسَ هُوَ لِي وَإِنَّهُ قَدْ وُهِبَ لِي فَهُوَ لَكَ قَالَ وَأُنْزِلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ يَسْأَلُونَكَ عَنْ الْأَنْفَالِ قُلْ الْأَنْفَالُ لِلَّهِ وَالرَّسُولِ-
حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ بارگاہ رسالت میں عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! اللہ نے آج مجھے مشرکین سے بچا لیا ہے، اس لئے آپ یہ تلوار مجھے دے دیجئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ تلوار تمہاری ہے اور نہ میری، اس لئے اسے یہیں رکھ دو، چنانچہ میں وہ تلوار رکھ کر واپس چلا گیا ، اور اپنے دل میں سوچنے لگا کہ شاید نبی صلی اللہ علیہ وسلم یہ تلوار کسی ایسے شخص کو عطاء فرما دیں جسے میری طرح کی آزمائش نہ آئی ہو، اتنی دیر میں مجھے پیچھے سے ایک آدمی کی آواز آئی جو مجھے بلا رہا تھا، میں نے سوچا کہ شاید میرے بارے کوئی حکم نازل ہوا ہے؟ میں وہاں پہنچا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم نے مجھ سے یہ تلوار مانگی تھی، واقعی یہ تلوار میری نہ تھی لیکن اب مجھے بطور ہبہ کے مل گئی ہے اس لئے میں تمہیں دیتا ہوں، اس کے بعد یہ آیت نازل ہوئی کہ اے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم! یہ لوگ آپ سے مال غنیمت کا سوال کرتے ہیں ، آپ فرما دیجئے کہ مال غنیمت اللہ اور اس کے رسول کا ہے۔
-
حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ قَالَ وَجَدْتُ هَذَا الْحَدِيثَ فِي كِتَابِ أَبِي بِخَطِّ يَدِهِ حَدَّثَنِي عَبْدُ الْمُتَعَالِ بْنُ عَبْدِ الْوَهَّابِ حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْأُمَوِيُّ قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ وَحَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ يَحْيَى حَدَّثَنَا أَبِي حَدَّثَنَا الْمُجَالِدُ عَنْ زِيَادِ بْنِ عِلَاقَةَ عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ قَالَ لَمَّا قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ جَاءَتْهُ جُهَيْنَةُ فَقَالُوا إِنَّكَ قَدْ نَزَلْتَ بَيْنَ أَظْهُرِنَا فَأَوْثِقْ لَنَا حَتَّى نَأْتِيَكَ وَتُؤْمِنَّا فَأَوْثَقَ لَهُمْ فَأَسْلَمُوا قَالَ فَبَعَثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي رَجَبٍ وَلَا نَكُونُ مِائَةً وَأَمَرَنَا أَنْ نُغِيرَ عَلَى حَيٍّ مِنْ بَنِي كِنَانَةَ إِلَى جَنْبِ جُهَيْنَةَ فَأَغَرْنَا عَلَيْهِمْ وَكَانُوا كَثِيرًا فَلَجَأْنَا إِلَى جُهَيْنَةَ فَمَنَعُونَا وَقَالُوا لِمَ تُقَاتِلُونَ فِي الشَّهْرِ الْحَرَامِ فَقُلْنَا إِنَّمَا نُقَاتِلُ مَنْ أَخْرَجَنَا مِنْ الْبَلَدِ الْحَرَامِ فِي الشَّهْرِ الْحَرَامِ فَقَالَ بَعْضُنَا لِبَعْضٍ مَا تَرَوْنَ فَقَالَ بَعْضُنَا نَأْتِي نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَنُخْبِرُهُ وَقَالَ قَوْمٌ لَا بَلْ نُقِيمُ هَاهُنَا وَقُلْتُ أَنَا فِي أُنَاسٍ مَعِي لَا بَلْ نَأْتِي عِيرَ قُرَيْشٍ فَنَقْتَطِعُهَا فَانْطَلَقْنَا إِلَى الْعِيرِ وَكَانَ الْفَيْءُ إِذْ ذَاكَ مَنْ أَخَذَ شَيْئًا فَهُوَ لَهُ فَانْطَلَقْنَا إِلَى الْعِيرِ وَانْطَلَقَ أَصْحَابُنَا إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرُوهُ الْخَبَرَ فَقَامَ غَضْبَانًا مُحْمَرَّ الْوَجْهِ فَقَالَ أَذَهَبْتُمْ مِنْ عِنْدِي جَمِيعًا وَجِئْتُمْ مُتَفَرِّقِينَ إِنَّمَا أَهْلَكَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ الْفُرْقَةُ لَأَبْعَثَنَّ عَلَيْكُمْ رَجُلًا لَيْسَ بِخَيْرِكُمْ أَصْبَرُكُمْ عَلَى الْجُوعِ وَالْعَطَشِ فَبَعَثَ عَلَيْنَا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ جَحْشٍ الْأَسَدِيَّ فَكَانَ أَوَّلَ أَمِيرٍ أُمِّرَ فِي الْإِسْلَامِ-
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے تو آپ کے پاس قبیلہ جہینہ کے لوگ آئے اور کہنے لگے کہ آپ لوگ ہمارے درمیان آکر قیام پذیر ہوگئے ہیں اس لئے ہمیں کوئی وثیقہ لکھ دیجئے تاکہ جب ہم آپ کے پاس آئیں تو آپ پر ہمیں اطمینان ہو، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں وثیقہ لکھوا دیا، بعد میں وہ لوگ مسلمان ہوگئے۔ کچھ عرصہ بعد ماہ رجب میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں روانہ فرمایا، ہماری تعداد سو بھی نہیں ہوگی اور ہمیں حکم دیا کہ قبیلہ جہینہ کے پہلو میں بنو کنانہ کا ایک قبیلہ آباد ہے، اس پر حملہ کریں، ہم نے ان پر شب خون مارا لیکن ان کی تعداد بہت زیادہ تھی، چنانچہ ہم نے قبیلہ جہینہ میں پناہ لی لیکن انہوں نے ہمیں پناہ دینے سے انکار کر دیا اور کہنے لگے کہ تم لوگ اشہر حرم میں قتال کیوں کر رہے ہو؟ ہم نے جواب دیا کہ ہم ان لوگوں سے قتال کر رہے ہیں جنہوں نے ہمیں بلد حرام سے شہر حرام میں نکال کر ان کی حرمت کو ختم کیا تھا ۔ پھر ہم آپس میں مشورہ کرنے لگے کہ اب کیا کیا جائے؟ کچھ لوگوں نے کہا کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چل کر انہیں ساری صورت حال سے مطلع کرتے ہیں، بعض لوگوں نے کہا کہ نہیں، ہم یہیں ٹھہریں گے، چند لوگوں کے ساتھ میری رائے یہ تھی کہ ہم لوگ قریش کے قافلے کی طرف چلتے ہیں اور ان پر حملہ کرتے ہیں، چنانچہ لوگ قافلہ کی طرف روانہ ہوگئے۔ اس وقت مال غنیمت کا اصول یہ تھا کہ جس کے ہاتھ جو چیز لگ گئی، وہ اس کی ہوگئی، ہم میں سے کچھ لوگوں نے جا کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اس کی خبر کر دی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے روئے انور کا رنگ سرخ ہوگیا اور فرمایا کہ تم لوگ میرے پاس سے اکٹھے ہو کر گئے تھے اور ا ب جدا جدا ہو کر آ رہے ہو، تم سے پہلے لوگوں کو اسی تفرقہ نے ہی ہلاک کیا تھا ، میں تم پر ایک ایسے آدمی کو امیر مقرر کر کے بھیجوں گا جو اگرچہ تم سے زیادہ بہتر نہیں ہوگا لیکن بھوک اور پیاس کی برداشت میں تم سے زیادہ مضبوط ہوگا، چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبداللہ بن جحش اسدی رضی اللہ عنہ کو امیر بنا کر بھیجا، جواسلام میں سب سے پہلے امیر تھے۔
-
حَدَّثَنَا حُسَيْنٌ عَنْ زَائِدَةَ عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ وَعَبْدُ الصَّمَدِ حَدَّثَنَا زَائِدَةُ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ عُمَيْرٍ عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ وَعَنْ نَافِعِ بْنِ عُتْبَةَ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تُقَاتِلُونَ جَزِيرَةَ الْعَرَبِ فَيَفْتَحُهَا اللَّهُ لَكُمْ ثُمَّ تُقَاتِلُونَ فَارِسَ فَيَفْتَحُهَا اللَّهُ لَكُمْ ثُمَّ تُقَاتِلُونَ الرُّومَ فَيَفْتَحُهَا اللَّهُ لَكُمْ ثُمَّ تُقَاتِلُونَ الدَّجَّالَ فَيَفْتَحُهُ اللَّهُ لَكُمْ قَالَ فَقَالَ جَابِرٌ لَا يَخْرُجُ الدَّجَّالُ حَتَّى يُفْتَتَحَ الرُّومُ-
حضرت نافع بن عتبہ بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تم لوگ جزیرہ عرب والوں سے قتال کرو گے اور اللہ تمہیں ان پر فتح عطاء فرمائے گا، پھر تم اہل فارس سے جنگ کرو گے اور اللہ تمہیں ان پر بھی فتح عطاء فرمائے گا، پھر تم رومیوں سے جنگ کرو گے، اللہ تمہیں ان پر بھی فتح عطاء فرمائے گا اور پھر تم دجال سے جنگ کرو گے اور اللہ تمہیں اس پر بھی فتح نصیب فرمائے گا حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ فتح روم سے پہلے دجال کا خروج نہیں ہوگا۔
-
حَدَّثَنَا عَفَّانُ حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ عُمَيْرٍ عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ عَنْ نَافِعِ بْنِ عُتْبَةَ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ أَنَّهُ سَمِعَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ تَغْزُونَ جَزِيرَةَ الْعَرَبِ فَيَفْتَحُ اللَّهُ لَكُمْ وَتَغْزُونَ فَارِسَ فَيَفْتَحُهَا اللَّهُ لَكُمْ وَتَغْزُونَ الرُّومَ فَيَفْتَحُهَا اللَّهُ لَكُمْ وَتَغْزُونَ الدَّجَّالَ فَيَفْتَحُ اللَّهُ لَكُمْ-
حضرت نافع بن عتبہ بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تم لوگ جزیرہ عرب والوں سے قتال کرو گے اور اللہ تمہیں ان پر فتح عطاء فرمائے گا، پھر تم اہل فارس سے جنگ کرو گے اور اللہ تمہیں ان پر بھی فتح عطاء فرمائے گا، پھر تم رومیوں سے جنگ کرو گے، اللہ تمہیں ان پر بھی فتح عطاء فرمائے گا اور پھر تم دجال سے جنگ کرو گے اور اللہ تمہیں اس پر بھی فتح نصیب فرمائے گا حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ فتح روم سے پہلے دجال کا خروج نہیں ہوگا۔
-
حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ قَالَ سَمِعْتُ أَبِي يُحَدِّثُ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عِكْرِمَةَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ابْنِ لَبِيبَةَ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ أَنَّ أَصْحَابَ الْمَزَارِعِ فِي زَمَانِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانُوا يُكْرُونَ مَزَارِعَهُمْ بِمَا يَكُونُ عَلَى السَّوَاقِي مِنْ الزُّرُوعِ وَمَا سَعِدَ بِالْمَاءِ مِمَّا حَوْلَ النَّبْتِ فَجَاءُوا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاخْتَصَمُوا فِي بَعْضِ ذَلِكَ فَنَهَاهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُكْرُوا بِذَلِكَ وَقَالَ أَكْرُوا بِالذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ-
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور باسعادت میں کھیتوں کے مالکان اپنے کھیت کرائے پر دے دیا کرتے تھے اور اس کا عوض یہ طے کر لیا کرتے تھے کہ نالیوں کے اوپر جو پیداوار ہو اور جسے پانی خود بخود پہنچ جائے وہ ہم لیں گے، یہ معاملہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچا اور بعض لوگوں کا اس میں جھگڑا بھی ہوا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح کرائے پر زمین لینے دینے سے منع فرمادیا اور فرمایا کہ سونے چاندی کے بدلے زمین کو کرایہ پر لیا دیا کرو ۔
-
حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ وَيَعْقُوُبُ حَدَّثَنَا أَبِي عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ قَالَ حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ بْنِ أَبِي عَتِيقٍ قَالَ يَعْقُوبُ ابْنُ أَبِي عَتِيقٍ عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدٍ حَدَّثَهُ عَنْ أَبِيهِ سَعْدٍ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ إِذَا تَنَخَّمَ أَحَدُكُمْ فِي الْمَسْجِدِ فَلْيُغَيِّبْ نُخَامَتَهُ أَنْ تُصِيبَ جِلْدَ مُؤْمِنٍ أَوْ ثَوْبَهُ فَتُؤْذِيَهُ-
حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اگر تم میں سے کوئی شخص مسجد میں تھوک دے تو اسے چاہیے کہ وہ اسے چھپا دے تاکہ وہ کسی مسلمان کے جسم یا کپڑوں کو لگ کر اس کی اذیت کا سبب نہ بن جائے۔
-
حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ عَنْ مَالِكٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يَزِيدَ عَنْ زَيْدِ بْنِ عَيَّاشٍ قَالَ سُئِلَ سَعْدٌ عَنْ الْبَيْضَاءِ بِالسُّلْتِ فَكَرِهَهُ وَقَالَ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُسْأَلُ عَنْ الرُّطَبِ بِالتَّمْرِ فَقَالَ يَنْقُصُ إِذَا يَبِسَ قَالُوا نَعَمْ قَالَ فَلَا إِذَنْ-
حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ کسی نے ان سے پوچھا کیا تر کھجور کو خشک کھجور کے بدلے بیچنا جائز ہے؟ انہوں نے اس کو ناپسندیدہ سمجھا اور فرمایا کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی کسی شخص نے یہی سوال پوچھا تھا تو میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا تھا، کیا ایسا نہیں ہے کہ تر کھجور خشک ہونے کے بعد کم رہ جاتی ہے؟ لوگوں نے عرض کیا ایسا ہی ہے، اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر نہیں ۔
-
حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنِ الزُّهْرِيِّ عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدٍ عَنْ أَبِيهِ بَلَغَ بِهِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَعْظَمُ الْمُسْلِمِينَ فِي الْمُسْلِمِينَ جُرْمًا مَنْ سَأَلَ عَنْ أَمْرٍ لَمْ يُحَرَّمْ فَحُرِّمَ عَلَى النَّاسِ مِنْ أَجْلِ مَسْأَلَتِهِ-
حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا مسلمانوں میں سب سے بڑا جرم اس شخص کا ہے جس نے کسی چیز کے متعلق سوال کیا جو حرام نہ تھی لیکن اس کے سوال کے نتیجے میں اس چیز کی حرمت کا حکم نازل ہوگیا۔
-
حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنِ الزُّهْرِيِّ عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدٍ عَنْ أَبِيهِ قَالَ مَرِضْتُ بِمَكَّةَ عَامَ الْفَتْحِ مَرَضًا شَدِيدًا أَشْفَيْتُ مِنْهُ عَلَى الْمَوْتِ فَأَتَانِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعُودُنِي قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ لِي مَالًا كَثِيرًا وَلَيْسَ يَرِثُنِي إِلَّا ابْنَتِي أَفَأَتَصَدَّقُ بِثُلُثَيْ مَالِي وَقَالَ سُفْيَانُ مَرَّةً أَتَصَدَّقُ بِمَالِي قَالَ لَا قَالَ فَأَتَصَدَّقُ بِثُلُثَيْ مَالِي قَالَ لَا قُلْتُ فَالشَّطْرُ قَالَ لَا قَالَ قُلْتُ الثُّلُثُ قَالَ الثُّلُثُ وَالثُّلُثُ كَبِيرٌ إِنَّكَ أَنْ تَتْرُكَ وَرَثَتَكَ أَغْنِيَاءَ خَيْرٌ مِنْ أَنْ تَتْرُكَهُمْ عَالَةً يَتَكَفَّفُونَ النَّاسَ إِنَّكَ لَنْ تُنْفِقَ نَفَقَةً إِلَّا أُجِرْتَ فِيهَا حَتَّى اللُّقْمَةَ تَرْفَعُهَا إِلَى فِي امْرَأَتِكَ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أُخَلَّفُ عَنْ هِجْرَتِي قَالَ إِنَّكَ لَنْ تُخَلَّفَ بَعْدِي فَتَعْمَلَ عَمَلًا تُرِيدُ بِهِ وَجْهَ اللَّهِ إِلَّا ازْدَدْتَ بِهِ رِفْعَةً وَدَرَجَةً وَلَعَلَّكَ أَنْ تُخَلَّفَ حَتَّى يَنْتَفِعَ بِكَ أَقْوَامٌ وَيُضَرَّ بِكَ آخَرُونَ اللَّهُمَّ أَمْضِ لِأَصْحَابِي هِجْرَتَهُمْ وَلَا تَرُدَّهُمْ عَلَى أَعْقَابِهِمْ لَكِنْ الْبَائِسُ سَعْدُ ابْنُ خَوْلَةَ يَرْثِي لَهُ أَنْ مَاتَ بِمَكَّةَ-
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حجۃ الوداع کے موقع پر میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھا، میں مکہ مکرمہ میں ایسا بیمار ہوگیا کہ موت کے قریب جا پہنچا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم میری عیادت کے لئے تشریف لائے۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! میرے پاس بہت سامال ہے، میری وارث صرف ایک بیٹی ہے، کیا میں اپنے دوتہائی مال کو راہ خدا میں دینے کی وصیت کر سکتا ہوں؟ فرمایا نہیں، انہوں نے نصف کے متعلق پوچھا تب بھی منع فرما دیا، پھر جب ایک تہائی مال کے متعلق پوچھا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں! ایک تہائی مال کی وصیت کر سکتے ہو اور یہ ایک تہائی بھی بہت زیادہ ہے، یاد رکھو! تم اپنا مال جو اپنے اوپر خرچ کرتے ہو، یہ بھی صدقہ ہے، نیز یہ کہ تم اپنے اہل خانہ کو اچھی حالت میں چھوڑ کر جاؤ، یہ اس سے بہت بہتر ہے کہ تم انہیں اس حال میں چھوڑ کر جاؤ کہ وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے پر مجبور ہوجائیں، میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! کیا میں اپنے ساتھیوں سے پیچھے رہ جاؤں گا؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایسا ہرگز نہیں ہوگا، تم جو عمل بھی رضاء الہی کے لئے کرو گے، تمہارے درجے اور بلندی میں اس کی برکت سے اضافہ ہوگا اور ہو سکتا ہے کہ تمہیں زیادہ عمر ملے اور اللہ تمہارے ذریعے ایک قوم (مسلمانوں کو نفع پہنچائے اور دوسرے لوگوں (کافروں ) کو نقصان پہنچائے، اے اللہ! میرے صحابہ کی ہجرت کو مکمل فرما، انہیں ان کی ایڑیوں کے بل نہ لوٹا، افسوس! سعد بن خولہ پر، یہ مکہ مکرمہ میں ہی فوت ہوگئے تھے جس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم افسوس کا اظہار فرما رہے تھے۔
-
حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ عَنْ سَعْدٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لِعَلِيٍّ أَنْتَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُونَ مِنْ مُوسَى قِيلَ لِسُفْيَانَ غَيْرَ أَنَّهُ لَا نَبِيَّ بَعْدِي قَالَ قَالَ نَعَمْ-
حضرت سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا تمہیں مجھ سے وہی نسبت ہے سوائے نبوت کے جو حضرت ہارون علیہ السلام کو حضرت موسی علیہ السلام سے تھی۔
-
حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ سَمِعَهُ مِنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ شَكَا أَهْلُ الْكُوفَةِ سَعْدًا إِلَى عُمَرَ فَقَالُوا إِنَّهُ لَا يُحْسِنُ يُصَلِّي قَالَ آلْأَعَارِيبُ وَاللَّهِ مَا آلُو بِهِمْ عَنْ صَلَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ أَرْكُدُ فِي الْأُولَيَيْنِ وَأَحْذِفُ فِي الْأُخْرَيَيْنِ فَسَمِعْتُ عُمَرَ يَقُولُ كَذَلِكَ الظَّنُّ بِكَ يَا أَبَا إِسْحَاقَ-
حضرت جابر بن سمرہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ اہل کوفہ نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے حضرت سعد رضی اللہ عنہ کی شکایت کی کہ وہ اچھی طرح نماز نہیں پڑھاتے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے پوچھا، انہوں نے فرمایا کہ میں تو پہلی رکعتیں نسبتا لمبی کرتا ہوں اور دوسری دو رکعتیں مختصر کر دیتا ہوں اور میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء میں جو نماز یں پڑھی ہیں، ان کی پیروی کرنے میں، میں کوئی کوتاہی نہیں کرتا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ مجھے آپ سے یہی امید تھی۔
-
حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ عَمْرٍو سَمِعْتُ ابْنَ أَبِي مُلَيْكَةَ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي نَهِيكٍ عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْسَ مِنَّا مَنْ لَمْ يَتَغَنَّ بِالْقُرْآنِ-
حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا وہ شخص ہم میں سے نہیں جو قرآن کریم کو عمدہ آواز کے ساتھ نہ پڑھے۔
-
حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ عَمْرٍو عَنِ الزُّهْرِيِّ عَنْ مَالِكِ بْنِ أَوْسٍ سَمِعْتُ عُمَرَ يَقُولُ لِعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ وَطَلْحَةَ وَالزُّبَيْرِ وَسَعْدٍ نَشَدْتُكُمْ اللَّهَ الَّذِي تَقُومُ بِهِ السَّمَاءُ وَالْأَرْضُ وَقَالَ مَرَّةً الَّذِي بِإِذْنِهِ تَقُومُ أَعَلِمْتُمْ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنَّا لَا نُورَثُ مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ قَالُوا اللَّهُمَّ نَعَمْ-
ایک مرتبہ حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے حضرت عبدالرحمن بن عوف، حضرت طلحہ، حضرت زبیر اور حضرت سعد رضی اللہ عنہم سے فرمایا میں تمہیں اس اللہ کی قسم اور واسطہ دیتا ہوں جس کے حکم سے زمین و آسمان قائم ہیں، کیا آپ کے علم میں یہ بات ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے ہمارے مال میں وراثت جاری نہیں ہوتی، ہم جو کچھ چھوڑ جاتے ہیں وہ سب صدقہ ہوتا ہے؟ انہوں نے اثبات میں جواب دیا۔
-
حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنِ الْعَلَاءِ يَعْنِي ابْنَ أَبِي الْعَبَّاسِ عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ عَنْ بَكْرِ بْنِ قِرْوَاشٍ عَنْ سَعْدٍ قِيلَ لِسُفْيَانَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ نَعَمْ قَالَ شَيْطَانُ الرَّدْهَةِ يَحْتَدِرُهُ يَعْنِي رَجُلًا مِنْ بَجِيلَةَ-
حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا پہاڑ یا چٹان کے گڑھے کی برائی اور نقصان یہ ہے کہ قبیلہ بجیلہ کا آدمی بھی بلندی سے پستی میں جا پڑتا ہے۔
-
حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أُمَيَّةَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يَزِيدَ عَنْ أَبِي عَيَّاشٍ قَالَ سُئِلَ سَعْدٌ عَنْ بَيْعِ سُلْتٍ بِشَعِيرٍ أَوْ شَيْءٍ مِنْ هَذَا فَقَالَ سُئِلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ تَمْرٍ بِرُطَبٍ فَقَالَ تَنْقُصُ الرَّطْبَةُ إِذَا يَبِسَتْ قَالُوا نَعَمْ قَالَ فَلَا إِذَنْ-
حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ کسی نے ان سے پوچھا کیا بغیر چھلکے کے جو کو عام جو کے بدلے بیچنا جائز ہے؟ انہوں نے فرمایا ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی کسی شخص نے تر کھجور کو خشک کھجور کے بدلے بیچنے کا سوال پوچھا تھا تو میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا تھا، کیا ایسا نہیں ہے کہ تر کھجور خشک ہونے کے بعد کم رہ جاتی ہے؟ لوگوں نے عرض کیا ایسا ہی ہے؟ اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر نہیں ۔
-
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ أَخْبَرَنَا هِشَامٌ الدَّسْتُوَائِيُّ عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ عَنْ الْحَضْرَمِيِّ بْنِ لَاحِقٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ قَالَ سَأَلْتُ سَعْدَ بْنَ أَبِي وَقَّاصٍ عَنْ الطِّيَرَةِ فَانْتَهَرَنِي وَقَالَ مَنْ حَدَّثَكَ فَكَرِهْتُ أَنْ أُحَدِّثَهُ مَنْ حَدَّثَنِي قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا عَدْوَى وَلَا طِيَرَةَ وَلَا هَامَ إِنْ تَكُنِ الطِّيَرَةُ فِي شَيْءٍ فَفِي الْفَرَسِ وَالْمَرْأَةِ وَالدَّارِ وَإِذَا سَمِعْتُمْ بِالطَّاعُونِ بِأَرْضٍ فَلَا تَهْبِطُوا وَإِذَا كَانَ بِأَرْضٍ وَأَنْتُمْ بِهَا فَلَا تَفِرُّوا مِنْهُ-
حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات میرے ان کانوں نے سنی ہے اور میرے دل نے اسے محفوظ کیا ہے کہ جو شخص حالت اسلام میں اپنے باپ کے علاوہ کسی اور شخص کو اپنا باپ قرار دیتا ہے حالانکہ وہ جانتا ہے کہ وہ شخص اس کا باپ نہیں ہے تو اس پر جنت حرام ہے، حضرت ابو بکرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے میرے بھی کانوں نے سنا ہے اور دل نے اسے محفوظ کیا ہے۔
-
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ يَعْنِي ابْنَ إِبْرَاهِيمَ أَنْبَأَنَا هِشَامٌ الدَّسْتُوَائِيُّ عَنْ عَاصِمِ بْنِ بَهْدَلَةَ عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ قَالَ قَالَ سَعْدٌ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَيُّ النَّاسِ أَشَدُّ بَلَاءً قَالَ الْأَنْبِيَاءُ ثُمَّ الْأَمْثَلُ فَالْأَمْثَلُ حَتَّى يُبْتَلَى الْعَبْدُ عَلَى قَدْرِ دِينِهِ ذَاكَ فَإِنْ كَانَ صُلْبَ الدِّينِ ابْتُلِيَ عَلَى قَدْرِ ذَاكَ وَقَالَ مَرَّةً أَشَدُّ بَلَاءً وَإِنْ كَانَ فِي دِينِهِ رِقَّةٌ ابْتُلِيَ عَلَى قَدْرِ ذَاكَ وَقَالَ مَرَّةً عَلَى حَسَبِ دِينِهِ قَالَ فَمَا تَبْرَحُ الْبَلَايَا عَنْ الْعَبْدِ حَتَّى يَمْشِيَ فِي الْأَرْضِ يَعْنِي وَمَا إِنْ عَلَيْهِ مِنْ خَطِيئَةٍ قَالَ أَبِي وَقَالَ مَرَّةً عَنْ سَعْدٍ قَالَ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ-
حضرت سعید بن مسیب رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ میں نے ایک مرتبہ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے بدشگونی کے بارے پوچھا تو انہوں نے مجھے ڈانٹ دیا اور فرمایا تم سے یہ حدیث کس نے بیان کی ہے؟ میں نے ان صاحب کا نام لینا مناسب نہ سمجھا جنہوں نے مجھ سے یہ حدیث بیان کی تھی، انہوں نے فرمایا کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کوئی بیماری متعدی نہیں ہوتی، بدشگونی اور مردے کی قبر سے اس کی کھوپڑی نکلنے کی کوئی حیثیت نہیں ہے، اگر کسی چیز میں نحوست ہوتی تو گھوڑے، عورت اور گھر میں ہوتی اور جب تم کسی علاقے میں طاعون کی وباء پھیلنے کا سنو تو وہاں مت جاؤ اور اگر تم کسی علاقے میں ہو اور وہاں طاعون کی وباء پھوٹ پڑے تو وہاں سے راہ فرار اختیار مت کرو۔
-
حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ الشَّيْبَانِيُّ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ الثَّقَفِيِّ عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ قَالَ لَمَّا كَانَ يَوْمُ بَدْرٍ قُتِلَ أَخِي عُمَيْرٌ وَقَتَلْتُ سَعِيدَ بْنَ الْعَاصِ وَأَخَذْتُ سَيْفَهُ وَكَانَ يُسَمَّى ذَا الْكَتِيفَةِ فَأَتَيْتُ بِهِ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ اذْهَبْ فَاطْرَحْهُ فِي الْقَبَضِ قَالَ فَرَجَعْتُ وَبِي مَا لَا يَعْلَمُهُ إِلَّا اللَّهُ مِنْ قَتْلِ أَخِي وَأَخْذِ سَلَبِي قَالَ فَمَا جَاوَزْتُ إِلَّا يَسِيرًا حَتَّى نَزَلَتْ سُورَةُ الْأَنْفَالِ فَقَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اذْهَبْ فَخُذْ سَيْفَكَ-
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا یا رسول اللہ! سب سے زیادہ سخت مصیبت کن لوگوں پر آتی ہے، فرمایا انبیاء کرام علیہم السلام پر، پھر درجہ بدرجہ عام لوگوں پر، انسان پر آزمائش اس کے دین کے اعتبار سے آتی ہے، اگر اس کے دین میں پختگی ہو تو اس کے مصائب میں مزید اضافہ کر دیا جاتا ہے اور اگر اس کے دین میں کمزوری ہو تو اس کے مصائب میں تخفیف کر دی جاتی ہے اور انسان پر مسلسل مصائب آتے رہتے ہیں یہاں تک کہ جب وہ زمین پر چلتا ہے تو اس کا کوئی گناہ نہیں ہوتا۔
-
حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ الشَّيْبَانِيُّ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ الثَّقَفِيِّ عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ قَالَ لَمَّا كَانَ يَوْمُ بَدْرٍ قُتِلَ أَخِي عُمَيْرٌ وَقَتَلْتُ سَعِيدَ بْنَ الْعَاصِ وَأَخَذْتُ سَيْفَهُ وَكَانَ يُسَمَّى ذَا الْكَتِيفَةِ فَأَتَيْتُ بِهِ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ اذْهَبْ فَاطْرَحْهُ فِي الْقَبَضِ قَالَ فَرَجَعْتُ وَبِي مَا لَا يَعْلَمُهُ إِلَّا اللَّهُ مِنْ قَتْلِ أَخِي وَأَخْذِ سَلَبِي قَالَ فَمَا جَاوَزْتُ إِلَّا يَسِيرًا حَتَّى نَزَلَتْ سُورَةُ الْأَنْفَالِ فَقَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اذْهَبْ فَخُذْ سَيْفَكَ-
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ غزوہ بدر کے دن میرے بھائی عمیر شہید ہو گئے اور میں نے سعید بن عاص کو قتل کر دیا اور اس کی تلوار لے لی، جس کا نام " ذوالکتیفہ " تھا، میں وہ تلوار لے کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جاکر یہ تلوار مال غنیمت میں ڈال دو، مجھے اپنے بھائی کی شہادت کا جو غم تھا اور مال غنیمت کے حصول کا جو خیال تھا، اسے اللہ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا تھا، ابھی میں تھوڑی دور ہی گیا تھا کہ سورت انفال نازل ہوگئی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جا کر اپنی تلوار لے لو۔
-
حَدَّثَنَا جَرِيرُ بْنُ عَبْدِ الْحَمِيدِ عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ قَالَ شَكَا أَهْلُ الْكُوفَةِ سَعْدًا إِلَى عُمَرَ فَقَالُوا لَا يُحْسِنُ يُصَلِّي فَذَكَرَ ذَلِكَ عُمَرُ لَهُ فَقَالَ أَمَّا صَلَاةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَدْ كُنْتُ أُصَلِّي بِهِمْ أَرْكُدُ فِي الْأُولَيَيْنِ وَأَحْذِفُ فِي الْأُخْرَيَيْنِ فَقَالَ ذَاكَ الظَّنُّ بِكَ يَا أَبَا إِسْحَاقَ-
حضرت جابربن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ اہل کوفہ نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے حضرت سعد رضی اللہ عنہ کی شکایت کی کہ وہ اچھی طرح نماز نہیں پڑھاتے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے پوچھا، تو انہوں نے فرمایا کہ میں تو پہلی دو رکعتیں نسبتا لمبی کرتا ہوں اور دوسری دو رکعتیں مختصر کر دیتا ہوں اور میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء میں جو نمازیں پڑھی ہیں، ان کی پیروی کرنے میں کوئی کوتاہی نہیں کرتا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ مجھے آپ سے یہی امید تھی۔
-
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ عَنْ عُمَرَ بْنِ نُبَيْهٍ حَدَّثَنِي أَبُو عَبْدِ اللَّهِ الْقَرَّاظُ قَالَ سَمِعْتُ سَعْدَ بْنَ مَالِكٍ يَقُولُ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ مَنْ أَرَادَ أَهْلَ الْمَدِينَةِ بِدَهْمٍ أَوْ بِسُوءٍ أَذَابَهُ اللَّهُ كَمَا يَذُوبُ الْمِلْحُ فِي الْمَاءِ-
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص اہل مدینہ کے ساتھ کسی ناگہانی دھوکے یا برائی کا ارادہ کرے گا، اللہ اسے اس طرح پگھلا دے گا جیسے پانی میں نمک پگھل جاتا ہے ۔
-
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ابْنِ لَبِيبَةَ عَنْ سَعْدِ بْنِ مَالِكٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ خَيْرُ الذِّكْرِ الْخَفِيُّ وَخَيْرُ الرِّزْقِ مَا يَكْفِي حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ إِسْحَاقَ عَنِ ابْنِ الْمُبَارَكِ عَنْ أُسَامَةَ قَالَ أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ عُثْمَانَ أَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ابْنِ لَبِيبَةَ أَخْبَرَهُ فَذَكَرَهُ-
حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا بہترین ذکر وہ ہے جو خفی ہو اور بہترین رزق وہ ہے جو کفایت کر سکے۔ گذشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔
-
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ عَنْ مُوسَى الْجُهَنِيِّ حَدَّثَنِي مُصْعَبُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ أَبِيهِ أَنَّ أَعْرَابِيًّا أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ عَلِّمْنِي كَلَامًا أَقُولُهُ قَالَ قُلْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ اللَّهُ أَكْبَرُ كَبِيرًا وَالْحَمْدُ لِلَّهِ كَثِيرًا وَسُبْحَانَ اللَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ الْعَزِيزِ الْحَكِيمِ خَمْسًا قَالَ هَؤُلَاءِ لِرَبِّي فَمَا لِي قَالَ قُلْ اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي وَارْحَمْنِي وَارْزُقْنِي وَاهْدِنِي وَعَافِنِي-
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک دیہاتی آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا کہ مجھے کوئی دعاء سکھا دیجئے جو میں پڑھ لیا کروں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم یوں کہا کرو کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، اللہ بہت بڑا ہے، تمام تعریفیں اللہ ہی کے لئے ہیں، اللہ ہر عیب اور نقص سے پاک ہے، جو کہ تمام جہانوں کو پالنے والا ہے، گناہ سے بچنے اور نیکی کے کام کرنے کی طاقت اللہ ہی سے مل سکتی ہے جو غالب حکمت والا ہے، یہ کلمات پانچ مرتبہ کہہ لیا کرو ۔ اس دیہاتی نے عرض کیا کہ ان سب کلمات کا تعلق تو میرے رب سے ہے، میرے لیے کیا ہے؟ فرمایا تم یوں کہہ لیا کرو کہ اے اللہ مجھے معاف فرما، مجھ پر رحم فرما، مجھے رزق عطاء فرما، مجھے ہدایت عطاء فرما اور مجھے عافیت نصیب فرما۔
-
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا يَحْيَى يَعْنِي ابْنَ سَعِيدٍ الْأَنْصَارِيَّ قَالَ سَمِعْتُ سَعِيدَ بْنَ الْمُسَيَّبِ يَقُولُ سَمِعْتُ سَعْدًا يَقُولُ جَمَعَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَبَوَيْهِ يَوْمَ أُحُدٍ-
حضرت سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ غزوہ احد کے دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے لیے اپنے والدین کو جمع فرمایا (یعنی مجھ سے یوں فرمایا کہ میرے ماں باپ تم پر قربان ہوں )
-
حَدَّثَنَا يَحْيَى عَنْ مُوسَى يَعْنِي الْجُهَنِيَّ حَدَّثَنِي مُصْعَبُ بْنُ سَعْدٍ حَدَّثَنِي أَبِي أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ أَيَعْجِزُ أَحَدُكُمْ أَنْ يَكْسِبَ كُلَّ يَوْمٍ أَلْفَ حَسَنَةٍ فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ جُلَسَائِهِ كَيْفَ يَكْسِبُ أَحَدُنَا أَلْفَ حَسَنَةٍ قَالَ يُسَبِّحُ مِائَةَ تَسْبِيحَةٍ تُكْتَبُ لَهُ أَلْفُ حَسَنَةٍ أَوْ يُحَطُّ عَنْهُ أَلْفُ خَطِيئَةٍ قَالَ أَبِي و قَالَ ابْنُ نُمَيْرٍ أَيْضًا أَوْ يُحَطُّ وَيَعْلَى أَيْضًا أَوْ يُحَطُّ-
حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مخاطب ہو کر فرمایا کیا تم میں سے کوئی شخص اس بات سے عاجز ہے کہ دن میں ایک ہزار نیکیاں کمالے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا یا رسول اللہ! اس کی طاقت کس میں ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سو مرتبہ سبحان اللہ کہہ لیا کرے، اس کے نامہ اعمال میں ایک ہزار نیکیاں لکھ دی جائیں گی اور ایک ہزار گناہ مٹا دیئے جائیں گے۔
-
حَدَّثَنَا يَحْيَى حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو حَدَّثَنِي مُصْعَبُ بْنُ ثَابِتٍ عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ سَعْدٍ عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدٍ عَنْ أَبِيهِ سَعْدِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُسَلِّمُ عَنْ يَمِينِهِ وَعَنْ شِمَالِهِ حَتَّى يُرَى بَيَاضُ خَدَّيْهِ-
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب دائیں جانب سلام پھیرتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دایاں رخسار اپنی چمک کے ساتھ نظر آتا اور جب بائیں جانب سلام پھیرتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بائیں رخسار کی سفیدی دکھائی دیتی۔
-
حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا لَيْثٌ عَنِ الْحُكَيْمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ قَيْسٍ عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ عَنْ أَبِيهِ سَعْدٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ قَالَ حِينَ يَسْمَعُ الْمُؤَذِّنَ وَأَنَا أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ رَضِينَا بِاللَّهِ رَبًّا وَبِمُحَمَّدٍ رَسُولًا وَبِالْإِسْلَامِ دِينًا غُفِرَ لَهُ ذَنْبُهُ حَدَّثَنَاه قُتَيْبَةُ عَنِ لَيْثٍ عَنِ الْحُكَيْمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ قَيْسٍ-
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص مؤذن کی اذان سنتے وقت یہ کلمات کہے کہ میں بھی اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں اور یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں، میں اللہ کو رب مان کر، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا رسول مان کر اور اسلام کو اپنا دین مان کر راضی اور مطمئن ہوں تو اس کے سارے گناہ معاف ہو جائیں گے۔ گذشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔
-
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ حَدَّثَنَا قَيْسٌ قَالَ سَمِعْتُ سَعْدَ بْنَ مَالِكٍ يَقُولُ إِنِّي لَأَوَّلُ الْعَرَبِ رَمَى بِسَهْمٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلَقَدْ أَتَيْنَا نَغْزُو مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَا لَنَا طَعَامٌ نَأْكُلُهُ إِلَّا وَرَقَ الْحُبْلَةِ وَهَذَا السَّمُرَ حَتَّى إِنَّ أَحَدَنَا لَيَضَعُ كَمَا تَضَعُ الشَّاةُ مَا لَهُ خِلْطٌ ثُمَّ أَصْبَحَتْ بَنُو أَسَدٍ يُعَزِّرُونِي عَلَى الدِّينِ لَقَدْ خِبْتُ إِذَنْ وَضَلَّ عَمَلِي-
حضرت سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں عرب کا وہ سب سے پہلا آدمی ہوں جس نے راہ خدا میں سب سے پہلا تیر پھینکا تھا، ہم نے وہ وقت دیکھا ہے جب ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مل کر جہاد کرتے تھے، اس وقت ہمارے پاس کھانے کے لئے سوائے انگور کی شاخوں اور ببول کے کوئی دوسری چیز نہ ہوتی تھی اور ہم میں سے ہر ایک اس طرح مینگنی کرتا تھا جیسے بکری مینگنی کرتی ہے، اس کے ساتھ کوئی اور چیز نہ ملتی تھی اور آج بنو اسد کے لوگ مجھ ہی کو میرے اسلام پر ملامت کرتے ہیں، تب تو میں بڑے خسارے میں رہا اور میری ساری محنت برباد ہوگئی۔
-
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ عَنْ شُعْبَةَ حَدَّثَنِي سِمَاكُ بْنُ حَرْبٍ عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ قَالَ أُنْزِلَتْ فِي أَبِي أَرْبَعُ آيَاتٍ قَالَ قَالَ أَبِي أَصَبْتُ سَيْفًا قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ نَفِّلْنِيهِ قَالَ ضَعْهُ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ نَفِّلْنِيهِ أُجْعَلْ كَمَنْ لَا غَنَاءَ لَهُ قَالَ ضَعْهُ مِنْ حَيْثُ أَخَذْتَهُ فَنَزَلَتْ يَسْأَلُونَكَ الْأَنْفَالَ قَالَ وَهِيَ فِي قِرَاءَةِ ابْنِ مَسْعُودٍ كَذَلِكَ قُلْ الْأَنْفَالُ وَقَالَتْ أُمِّي أَلَيْسَ اللَّهُ يَأْمُرُكَ بِصِلَةِ الرَّحِمِ وَبِرِّ الْوَالِدَيْنِ وَاللَّهِ لَا آكُلُ طَعَامًا وَلَا أَشْرَبُ شَرَابًا حَتَّى تَكْفُرَ بِمُحَمَّدٍ فَكَانَتْ لَا تَأْكُلُ حَتَّى يَشْجُرُوا فَمَهَا بِعَصًا فَيَصُبُّوا فِيهِ الشَّرَابَ قَالَ شُعْبَةُ وَأُرَاهُ قَالَ وَالطَّعَامَ فَأُنْزِلَتْ وَوَصَّيْنَا الْإِنْسَانَ بِوَالِدَيْهِ حَمَلَتْهُ أُمُّهُ وَهْنًا عَلَى وَهْنٍ وَقَرَأَ حَتَّى بَلَغَ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ وَدَخَلَ عَلَيَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا مَرِيضٌ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أُوصِي بِمَالِي كُلِّهِ فَنَهَانِي قُلْتُ النِّصْفُ قَالَ لَا قُلْتُ الثُّلُثُ فَسَكَتَ فَأَخَذَ النَّاسُ بِهِ وَصَنَعَ رَجُلٌ مِنْ الْأَنْصَارِ طَعَامًا فَأَكَلُوا وَشَرِبُوا وَانْتَشَوْا مِنْ الْخَمْرِ وَذَاكَ قَبْلَ أَنْ تُحَرَّمَ فَاجْتَمَعْنَا عِنْدَهُ فَتَفَاخَرُوا وَقَالَتْ الْأَنْصَارُ الْأَنْصَارُ خَيْرٌ وَقَالَتْ الْمُهَاجِرُونَ الْمُهَاجِرُونَ خَيْرٌ فَأَهْوَى لَهُ رَجُلٌ بِلَحْيَيْ جَزُورٍ فَفَزَرَ أَنْفَهُ فَكَانَ أَنْفُ سَعْدٍ مَفْزُورًا فَنَزَلَتْ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ إِلَى قَوْلِهِ فَهَلْ أَنْتُمْ مُنْتَهُونَ-
مصعب بن سعد کہتے ہیں کہ میرے والد صاحب کے بارے قرآن کریم کی چار آیات مبارکہ نازل ہوئی ہیں، میرے والد کہتے ہیں کہ ایک غزوہ میں مجھے ایک تلوار ملی، میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! یہ مجھے عطاء فرما دیں، فرمایا اسے رکھ دو، میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! یہ مجھے عطاء فرما دیجئے، کیا میں اس شخص کی طرح سمجھا جاؤں گا جسے کوئی ضرورت ہی نہ ہو؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا اسے جہاں سے لیا ہے وہیں رکھ دو، اس پر سورت انفال کی ابتدائی آیت نازل ہوئی۔ پھر جب میں نے اسلام قبول کیا تھا تو میری والدہ نے مجھ سے کہا کیا اللہ نے تمہیں صلہ رحمی اور والدین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم نہیں دیا؟ بخدا! میں اس وقت تک کچھ کھاؤں گی اور نہ پیوں گی جب تک تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار نہ کر دو گے، چنانچہ ایسا ہی ہوا، انہوں نے کھانا پیناچھوڑ دیا حتی کہ لوگ زبردستی ان کے منہ میں لکڑی ڈال کر اسے کھولتے اور اس میں کوئی پینے کی چیز انڈیل دیتے، اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ ہم نے انسان کو والدین کے ساتھ حسن سلوک کی وصیت کی ہے۔ ۔ ۔ ۔ لیکن اگر وہ تمہیں شرک پر مجبور کریں تو ان کی بات نہ مانو۔ پھر ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم میری بیمار پرسی کے لئے تشریف لائے، میں نے پوچھا یا رسول اللہ! کیا میں اپنے کل مال کی وصیت کر دوں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اس سے منع فرمایا، نصف کے متعلق سوال پر بھی منع کر دیا، لیکن ایک تہائی کے سوال پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے اور اس کے بعد لوگوں نے اس پر عمل شروع کر دیا۔ پھر حرمت شراب کا حکم نازل ہونے سے قبل ایک انصاری نے دعوت کا اہتمام کیا، مدعووین نے خوب کھایا پیا اور شراب کے نشے میں مد ہوش ہوگئے اور آپس میں ایک دوسرے پر فخر کرنا شروع کر دیا، انصار کہنے لگے کہ انصار بہتر ہیں اور مہاجرین اپنے آپ کو بہتر قرار دینے لگے، اسی دوران ایک آدمی نے اونٹ کے جبڑے کی ہڈی اٹھائی اور ایک آدمی کی ناک زخمی کر دی، جن صاحب کی ناک زخمی ہوئی وہ حضرت سعد رضی اللہ عنہ تھے، اس پر سورت مائدہ کی آیت تحریم خمر نازل ہوگئی۔
-
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ أَنْبَأَنَا سُلَيْمَانُ يَعْنِي التَّيْمِيَّ حَدَّثَنِي غُنَيْمٌ قَالَ سَأَلْتُ سَعْدَ بْنَ أَبِي وَقَّاصٍ عَنْ الْمُتْعَةِ قَالَ فَعَلْنَاهَا وَهَذَا كَافِرٌ بِالْعُرُشِ يَعْنِي مُعَاوِيَةَ-
غنیم کہتے ہیں کہ میں نے حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے حج تمتع کے متعلق سوال کیا تو انہوں نے جواب دیا کہ ہم نے اس وقت حج تمتع کیا تھا جب انہوں نے یعنی حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے مکہ مکرمہ کے گھروں میں اسلام قبول نہیں کیا تھا ۔
-
حَدَّثَنَا يَحْيَى عَنْ شُعْبَةَ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ يُونُسَ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سَعْدٍ عَنْ أَبِيهِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَأَنْ يَمْتَلِئَ جَوْفُ الرَّجُلِ قَيْحًا خَيْرٌ مِنْ أَنْ يَمْتَلِئَ شِعْرًا-
حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تم میں سے کسی کا پیٹ قئی سے بھر جانا اس بات کی نسبت زیادہ بہتر ہے کہ وہ شعر سے بھر جائے۔
-
حَدَّثَنَا يَحْيَى عَنْ إِسْمَاعِيلَ عَنِ الزُّبَيْرِ بْنِ عَدِيٍّ عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ قَالَ صَلَّيْتُ مَعَ سَعْدٍ فَقُلْتُ بِيَدَيَّ هَكَذَا وَوَصَفَ يَحْيَى التَّطْبِيقَ فَضَرَبَ بِيَدَيَّ وَقَالَ كُنَّا نَفْعَلُ هَذَا فَأُمِرْنَا أَنْ نَرْفَعَ إِلَى الرُّكَبِ-
مصعب بن سعد کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے اپنے والد صاحب کے ساتھ نماز پڑھی تو رکوع میں اپنے دونوں ہاتھ جوڑ کر گھٹنوں کے بیچ میں کر لیے، انہوں نے میرے ہاتھوں پر ایک ضرب لگائی اور فرمایا کہ ابتداء میں ہم لوگ اس طرح کیا کرتے تھے، بعد میں ہمیں گھٹنوں پر ہاتھ رکھنے کا حکم دیا گیا۔
-
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ حَدَّثَنَا هَاشِمٌ عَنْ عَائِشَةَ بِنْتِ سَعْدٍ عَنْ سَعْدٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ تَصَبَّحَ بِسَبْعِ تَمَرَاتٍ مِنْ عَجْوَةٍ لَمْ يَضُرَّهُ ذَلِكَ الْيَوْمَ سُمٌّ وَلَا سِحْرٌ حَدَّثَنَا مَكِّيٌّ حَدَّثَنَا هَاشِمٌ عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ عَنْ سَعْدٍ فَذَكَرَ الْحَدِيثَ مِثْلَهُ حَدَّثَنَاه أَبُو بَدْرٍ عَنْ هَاشِمٍ عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ-
حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص صبح نہار منہ عجوہ کھجور کے سات دانے کھالے، اسے اس دن کوئی زہر یا جادو نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔ گذشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔
-
حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ عَنْ عُثْمَانَ يَعْنِي ابْنَ حَكِيمٍ أَخْبَرَنِي عَامِرُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ أَبِيهِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنِّي أُحَرِّمُ مَا بَيْنَ لَابَتَيْ الْمَدِينَةِ أَنْ يُقْطَعَ عِضَاهُهَا أَوْ يُقْتَلَ صَيْدُهَا وَقَالَ الْمَدِينَةُ خَيْرٌ لَهُمْ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ لَا يَخْرُجُ مِنْهَا أَحَدٌ رَغْبَةً عَنْهَا إِلَّا أَبْدَلَ اللَّهُ فِيهَا مَنْ هُوَ خَيْرٌ مِنْهُ وَلَا يَثْبُتُ أَحَدٌ عَلَى لَأْوَائِهَا وَجَهْدِهَا إِلَّا كُنْتُ لَهُ شَهِيدًا أَوْ شَفِيعًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ-
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا میں مدینہ منورہ کے دو کناروں کے درمیان کی جگہ کو حرم قرار دیتا ہوں، اس لئے یہاں کا کوئی درخت نہ کاٹا جائے اور نہ ہی یہاں کا جانور شکار کیا جائے اور فرمایا کہ لوگوں کے لئے مدینہ ہی سب سے بہتر ہے کاش! کہ انہیں اس پر یقین بھی ہو، یہاں سے کوئی شخص بھی اگر بے رغبتی کی وجہ سے چلا جائے تو اللہ تعالیٰ اس کی جگہ اس سے بہتر شخص کو وہاں آباد فرما دیں گے اور جو شخص بھی یہاں کی تکالیف اور محنت و مشقت پر ثابت قدم رہتا ہے، میں قیامت کے دن اس کے حق میں سفارش کروں گا۔
-
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ عَنْ عُثْمَانَ قَالَ أَخْبَرَنِي عَامِرُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ أَبِيهِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَقْبَلَ ذَاتَ يَوْمٍ مِنْ الْعَالِيَةِ حَتَّى إِذَا مَرَّ بِمَسْجِدِ بَنِي مُعَاوِيَةَ دَخَلَ فَرَكَعَ فِيهِ رَكْعَتَيْنِ وَصَلَّيْنَا مَعَهُ وَدَعَا رَبَّهُ طَوِيلًا ثُمَّ انْصَرَفَ إِلَيْنَا فَقَالَ سَأَلْتُ رَبِّي ثَلَاثًا فَأَعْطَانِي اثْنَتَيْنِ وَمَنَعَنِي وَاحِدَةً سَأَلْتُ رَبِّي أَنْ لَا يُهْلِكَ أُمَّتِي بِسَنَةٍ فَأَعْطَانِيهَا وَسَأَلْتُهُ أَنْ لَا يُهْلِكَ أُمَّتِي بِالْغَرَقِ فَأَعْطَانِيهَا وَسَأَلْتُهُ أَنْ لَا يَجْعَلَ بَأْسَهُمْ بَيْنَهُمْ فَمَنَعَنِيهَا-
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم " عالیہ" سے آرہے تھے، راستے میں بنو معاویہ کی مسجد پر گذر ہوا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مسجد میں داخل ہو کر دو رکعت نماز پڑھی، ہم نے بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ یہ نماز پڑھی، اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے طویل دعاء فرمائی اور فراغت کے بعد فرمایا میں نے اپنے پروردگار سے تین چیزوں کی درخواست کی تھی، جن میں سے دو اس نے قبول کر لیں اور ایک قبول نہیں کی ۔ ایک درخواست تو میں نے یہ کی تھی کہ میری امت کو سمندر میں غرق کر کے ہلاک نہ کرے، اللہ نے میری یہ درخواست قبول کرلی، دوسری درخواست میں نے یہ کی تھی کہ میری امت کو قحط سالی کی وجہ سے ہلاک نہ کرے، اللہ نے میری یہ درخواست بھی قبول کرلی اور تیسری درخواست میں نے یہ کی تھی کہ میری امت آپس میں نہ لڑے لیکن اللہ نے یہ دعاء قبول کرنے سے انکار کر دیا۔
-
حَدَّثَنَا وَكِيعٌ حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ عَنِ الْعَيْزَارِ بْنِ حُرَيْثٍ الْعَبْدِيِّ عَنْ عُمَرَ بْنِ سَعْدٍ عَنْ أَبِيهِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَجِبْتُ لِلْمُؤْمِنِ إِنْ أَصَابَهُ خَيْرٌ حَمِدَ اللَّهَ وَشَكَرَ وَإِنْ أَصَابَتْهُ مُصِيبَةٌ احْتَسَبَ وَصَبَرَ الْمُؤْمِنُ يُؤْجَرُ فِي كُلِّ شَيْءٍ حَتَّى فِي اللُّقْمَةِ يَرْفَعُهَا إِلَى فِيهِ-
حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا بندہ مومن کے متعلق اللہ کی تقدیر اور فیصلے پر مجھے تعجب ہوتا ہے کہ اگر اسے کوئی بھلائی حاصل ہوتی ہے تو وہ اپنے پروردگار کا شکر ادا کرتا ہے اور اگر کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو وہ اس پر بھی ثواب کی نیت سے صبر کرتا ہے (صبروشکر دونوں اللہ کو پسند ہیں) مومن کو تو ہر چیز کے بدلے ثواب ملتا ہے حتی کہ اس لقمے پر بھی جو وہ اٹھا کر اپنی بیوی کے منہ میں دیتا ہے ۔
-
حَدَّثَنَا وَكِيعٌ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي خَالِدٍ عَنِ الزُّبَيْرِ بْنِ عَدِيٍّ عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ قَالَ كُنْتُ إِذَا رَكَعْتُ وَضَعْتُ يَدَيَّ بَيْنَ رُكْبَتَيَّ قَالَ فَرَآنِي أَبِي سَعْدُ بْنُ مَالِكٍ فَنَهَانِي وَقَالَ إِنَّا كُنَّا نَفْعَلُهُ فَنُهِينَا عَنْهُ-
مصعب بن سعد کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے اپنے والد صاحب کے ساتھ نماز پڑھی تو رکوع میں اپنے دونوں ہاتھ جوڑ کر گھٹنوں کے بیچ میں کر لیے انہوں نے مجھے اس سے منع کیا اور فرمایا کہ ابتداء میں ہم لوگ اس طرح کیا کرتے تھے، بعد میں ہمیں گھٹنوں پر ہاتھ رکھنے کا حکم دیا گیا۔
-
حَدَّثَنَا وَكِيعٌ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ عَنْ سَعْدِ بْنِ مَالِكٍ وَخُزَيْمَةَ بْنِ ثَابِتٍ وَأُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ قَالُوا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ هَذَا الطَّاعُونَ رِجْزٌ أَوْ بَقِيَّةٌ مِنْ عَذَابٍ عُذِّبَ بِهِ قَوْمٌ قَبْلَكُمْ فَإِذَا وَقَعَ بِأَرْضٍ وَأَنْتُمْ بِهَا فَلَا تَخْرُجُوا مِنْهَا فِرَارًا مِنْهُ وَإِذَا سَمِعْتُمْ بِهِ فِي أَرْضٍ فَلَا تَدْخُلُوا عَلَيْهِ-
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ، خزیمہ بن ثابت اور اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ طاعون ایک عذاب ہے جو تم سے پہلی امتوں پر آیا تھا ، اس لئے جس علاقے میں یہ وباء پھیلی ہوئی ہو، تم وہاں مت جاؤ اور اگر تم کسی علاقے میں ہو اور وہاں یہ وباء پھیل جائے تو وہاں سے نہ نکلو۔
-
حَدَّثَنَا يَزِيدُ أَنْبَأَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ عَنْ دَاوُدَ بْنِ عَامِرِ بْنِ سَعْدِ بْنِ مَالِكٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَأَصِفَنَّ الدَّجَّالَ صِفَةً لَمْ يَصِفْهَا مَنْ كَانَ قَبْلِي إِنَّهُ أَعْوَرُ وَاللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ لَيْسَ بِأَعْوَرَ-
حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا میں تمہارے سامنے دجال کا ایک ایسا وصف بیان کروں گا جو مجھ سے پہلے کسی نبی نے بیان نہیں کیا، یاد رکھو! دجال کانا ہوگا (اور ربوبیت کا دعوی کرے گا) جبکہ اللہ کانا نہیں ہے۔
-
حَدَّثَنَا يَزِيدُ أَنْبَأَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ عَنِ الزُّهْرِيِّ عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدِ بْنِ مَالِكٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ أَتَاهُ رَهْطٌ فَسَأَلُوهُ فَأَعْطَاهُمْ إِلَّا رَجُلًا مِنْهُمْ قَالَ سَعْدٌ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَعْطَيْتَهُمْ وَتَرَكْتَ فُلَانًا فَوَاللَّهِ إِنِّي لَأَرَاهُ مُؤْمِنًا فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْ مُسْلِمًا فَرَدَّ عَلَيْهِ سَعْدٌ ذَلِكَ ثَلَاثًا مُؤْمِنًا وَرَدَّ عَلَيْهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْ مُسْلِمًا فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الثَّالِثَةِ وَاللَّهِ إِنِّي لَأُعْطِي الرَّجُلَ الْعَطَاءَ لَغَيْرُهُ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْهُ خَوْفًا أَنْ يَكُبَّهُ اللَّهُ عَلَى وَجْهِهِ فِي النَّارِ قَالَ قَالَ أَبُو نُعَيْمٍ لَقِيتُ سُفْيَانَ بِمَكَّةَ فَأَوَّلُ مَنْ سَأَلَنِي عَنْهُ قَالَ كَيْفَ شُجَاعٌ يَعْنِي أَبَا بَدْرٍ-
حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ لوگوں کو مال و دولت عطاء فرمایا، لیکن ان ہی میں سے ایک آدمی کو کچھ نہیں دیا، حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے عرض کیا اے اللہ کے نبی! آپ نے فلاں فلاں کو تو دے دیا، لیکن فلاں شخص کو کچھ بھی نہیں دیا، حالانکہ وہ پکا مومن بھی ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مسلمان نہیں؟ یہ سوال جواب تین مرتبہ ہوئے، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں کچھ لوگوں کو دے دیتا ہوں اور ان لوگوں کو چھوڑ دیتا ہوں جو مجھے زیادہ محبوب ہوتے ہیں اور انہیں کچھ نہیں دیتا، اس خوف اور اندیشے کی بناء پر کہ کہیں انہیں ان کے چہروں کے بل گھسیٹ کر جہنم میں نہ ڈال دیا جائے۔ ابو نعیم کہتے ہیں کہ مکہ مکرمہ میں میری ملاقات سفیان سے ہوئی تو سب سے پہلے انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ شجاع یعنی ابو بدر کیسے ہیں؟
-
حَدَّثَنَا يَزِيدُ أَنْبَأَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ وَهَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ صَالِحِ بْنِ كَيْسَانَ قَالَ هَاشِمٌ فِي حَدِيثِهِ قَالَ حَدَّثَنِي صَالِحُ بْنُ كَيْسَانَ وَقَالَ يَزِيدُ عَنْ صَالِحٍ عَنِ الزُّهْرِيِّ عَنْ عَبْدِ الْحَمِيدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سَعْدٍ عَنْ أَبِيهِ قَالَ دَخَلَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعِنْدَهُ نِسْوَةٌ مِنْ قُرَيْشٍ يَسْأَلْنَهُ وَيَسْتَكْثِرْنَ رَافِعَاتٍ أَصْوَاتَهُنَّ فَلَمَّا سَمِعْنَ صَوْتَ عُمَرَ انْقَمَعْنَ وَسَكَتْنَ فَضَحِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ عُمَرُ يَا عَدُوَّاتِ أَنْفُسِهِنَّ تَهَبْنَنِي وَلَا تَهَبْنَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْنَ إِنَّكَ أَفَظُّ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ وَأَغْلَظُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ يَا عُمَرُ مَا لَقِيَكَ الشَّيْطَانُ سَالِكًا فَجًّا إِلَّا سَلَكَ فَجًّا غَيْرَ فَجِّكَ-
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے گھر میں داخل ہونے کی اجازت طلب کی، اس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس قریش کی کچھ عورتیں بیٹھی ہوئی باتیں کر رہی تھیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اضافہ کا مطالبہ کر رہی تھیں اور ان کی آوازیں اونچی ہو رہی تھیں، لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اندر آنے کی اجازت مانگی تو ان سب نے جلدی جلدی اپنے دوپٹے سنبھال لیے اور خاموش ہوگئیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم مسکرانے لگے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا اے اپنی جان کی دشمن عورتو! تم مجھ سے ڈرتی ہو اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں ڈرتی ہو؟ انہوں نے کہا کہ ہاں ! کیونکہ تم نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ سخت اور ترش ہو، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عمر! شیطان جب تمہیں کسی راستے سے گذرتا ہوا دیکھ لیتا ہے، تو اس راستے کو چھوڑ کر دوسرا راستہ اختیار کر لیتا ہے ۔
-
حَدَّثَنَا يَزِيدُ أَخْبَرَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عِكْرِمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ هِشَامٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَبِيبَةَ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ عَنْ سَعْدِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ كُنَّا نُكْرِي الْأَرْضَ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَا عَلَى السَّوَاقِي مِنْ الزَّرْعِ وَبِمَا سَعِدَ بِالْمَاءِ مِنْهَا فَنَهَانَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ذَلِكَ وَأَذِنَ لَنَا أَوْ رَخَّصَ بِأَنْ نُكْرِيَهَا بِالذَّهَبِ وَالْوَرِقِ-
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور با سعادت میں ہم لوگ اپنے کھیت کرائے پر دے دیا کرتے تھے اور اس کا عوض یہ طے کر لیا کرتے تھے کہ نالیوں کے اوپر جو پیداوار ہو اور جسے پانی خود بخود پہنچ جائے وہ ہم لیں گے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح کرائے پر زمین دینے سے منع فرما دیا اور سونے چاندی کی بدلے زمین کو کرایہ پر دینے کی اجازت دے دی۔
-
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنِ الْحَكَمِ عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ قَالَ خَلَّفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ فِي غَزْوَةِ تَبُوكَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ تُخَلِّفُنِي فِي النِّسَاءِ وَالصِّبْيَانِ قَالَ أَمَا تَرْضَى أَنْ تَكُونَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُونَ مِنْ مُوسَى غَيْرَ أَنَّهُ لَا نَبِيَّ بَعْدِي-
حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو غزوہ تبوک میں مدینہ منورہ پر اپنا نائب مقرر کر کے وہاں چھوڑ دیا تو وہ کہنے لگے یا رسول اللہ! کیا آپ مجھے بچوں اور عورتوں کے پاس چھوڑ جائیں گے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم اس بات پر خوش نہیں ہو کہ تمہیں مجھ سے وہی نسبت ہو سوائے نبوت کے جو حضرت ہارون علیہ السلام کو حضرت موسی علیہ السلام سے تھی۔
-
حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ قَالَ زِيَادُ بْنُ مِخْرَاقٍ أَخْبَرَنِي قَالَ سَمِعْتُ قَيْسَ بْنَ عَبَايَةَ يُحَدِّثُ عَنْ مَوْلًى لِسَعْدٍ ح قَالَ أَبِي و حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ زِيَادِ بْنِ مِخْرَاقٍ قَالَ سَمِعْتُ قَيْسَ بْنَ عَبَايَةَ الْقَيْسِيَّ يُحَدِّثُ عَنْ مَوْلًى لِسَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ عَنِ ابْنٍ لِسَعْدٍ أَنَّهُ كَانَ يُصَلِّي فَكَانَ يَقُولُ فِي دُعَائِهِ اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ الْجَنَّةَ وَأَسْأَلُكَ مِنْ نَعِيمِهَا وَبَهْجَتِهَا وَمِنْ كَذَا وَمِنْ كَذَا وَمِنْ كَذَا وَمِنْ كَذَا وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ النَّارِ وَسَلَاسِلِهَا وَأَغْلَالِهَا وَمِنْ كَذَا وَمِنْ كَذَا قَالَ فَسَكَتَ عَنْهُ سَعْدٌ فَلَمَّا صَلَّى قَالَ لَهُ سَعْدٌ تَعَوَّذْتَ مِنْ شَرٍّ عَظِيمٍ وَسَأَلْتَ نَعِيمًا عَظِيمًا أَوْ قَالَ طَوِيلًا شُعْبَةُ شَكَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّهُ سَيَكُونُ قَوْمٌ يَعْتَدُونَ فِي الدُّعَاءِ وَقَرَأَ ادْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَخُفْيَةً إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ قَالَ شُعْبَةُ لَا أَدْرِي قَوْلُهُ ادْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَخُفْيَةً هَذَا مِنْ قَوْلِ سَعْدٍ أَوْ قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَالَ لَهُ سَعْدٌ قُلْ اللَّهُمَّ أَسْأَلُكَ الْجَنَّةَ وَمَا قَرَّبَ إِلَيْهَا مِنْ قَوْلٍ أَوْ عَمَلٍ وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ النَّارِ وَمَا قَرَّبَ إِلَيْهَا مِنْ قَوْلٍ أَوْ عَمَلٍ-
ایک مرتبہ حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے اپنے ایک بیٹے کو یہ دعاء کرتے ہوئے سنا کہ اے اللہ! میں تجھ سے جنت، اس کی نعمتوں اور اس کے ریشمی کپڑوں اور فلاں فلاں چیز کی دعاء کرتا ہوں اور جہنم کی آگ، اس کی زنجیروں اور بیڑیوں اور فلاں فلاں چیز سے آپ کی پناہ میں آتا ہوں، تو انہوں نے فرمایا کہ تم نے اللہ سے بڑی خیر مانگی اور بڑے شر سے اللہ کی پناہ چاہی، میں نے نبی صلی اللہ عیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ عنقریب ایک ایسی قوم آئے گی جو دعاء میں حد سے آگے بڑھ جائے گی اور یہ آیت تلاوت فرمائی کہ تم اپنے رب کو عاجزی کے ساتھ اور چپکے سے پکارا کرو، بیشک وہ حد سے تجاوز کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا، تمہارے لیے اتنا ہی کہنا کافی ہے کہ اے آپ سے جنت کا اور اس کے قریب کرنے قول وعمل کا سوال کرتا ہوں اور جہنم اور اس کے قریب کرنے والے قول و عمل سے آپ کی پناہ میں آتا ہوں ۔
-
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ عَنْ مُصْعَبٍ عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ أَنَّهُ كَانَ يَأْمُرُ بِهَؤُلَاءِ الْخَمْسِ وَيُخْبِرُ بِهِنَّ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ الْبُخْلِ وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ الْجُبْنِ وَأَعُوذُ بِكَ أَنْ أُرَدَّ إِلَى أَرْذَلِ الْعُمُرِ وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ فِتْنَةِ الدُّنْيَا وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ-
مصعب کہتے ہیں کہ حضرت سعد رضی اللہ عنہ ان پانچ کلمات کی تاکید فرماتے تھے اور انہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے بیان کرتے تھے کہ اے اللہ! میں بخل اور کنجوسی سے آپ کی پناہ میں آتاہوں، میں بزدلی سے آپ کی پناہ میں آتا ہوں، میں گھٹیا عمر کی طرف لوٹائے جانے سے آپ کی پناہ میں آتا ہوں، دنیا کی آزمائش سے آپ کی پناہ میں آتا ہوں اور عذاب قبر سے آپ کی پناہ مانگتا ہوں ۔
-
حَدَّثَنَا أَبُو كَامِلٍ حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ كَيْسَانَ عَنِ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ بْنِ الْعَلَاءِ بْنِ جَارِيَةَ عَنْ يُوسُفَ بْنِ الْحَكَمِ أَبِي الْحَجَّاجِ عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ أَهَانَ قُرَيْشًا أَهَانَهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ-
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص قریش کو ذلیل کرنا چاہے گا اللہ اسے ذلیل کر دے گا۔
-
حَدَّثَنَا أَبُو كَامِلٍ مَرَّةً أُخْرَى حَدَّثَنِي صَالِحُ بْنُ كَيْسَانَ عَنِ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ بْنِ الْعَلَاءِ بْنِ جَارِيَةَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سَعْدٍ عَنْ أَبِيهِ سَعْدٍ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ مَنْ يُرِدْ هَوَانَ قُرَيْشٍ أَهَانَهُ اللَّهُ-
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص قریش کو ذلیل کرنا چاہے گا اللہ اسے ذلیل کر دے گا۔
-
حَدَّثَنَا أَبُو كَامِلٍ حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ حَدَّثَنَا ابْنُ شِهَابٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ قَالَ سَمِعْتُ سَعْدَ بْنَ أَبِي وَقَّاصٍ يَقُولُ لَقَدْ رَدَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى عُثْمَانَ بْنِ مَظْعُونٍ التَّبَتُّلَ وَلَوْ أَذِنَ لَهُ فِيهِ لَاخْتَصَيْنَا-
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ نے گوشہ نشینی اختیار کرنا چاہیے لییکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اس کی اجازت نہ دی، اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم انہیں اس چیز کی اجازت دے دیتے تو ہم بھی کم از کم اپنے آپ کو خصی کر لیتے۔
-
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سَعْدِ بْنِ مَالِكٍ عَنْ أَبِيهِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يَحِلُّ لِمُسْلِمٍ أَنْ يَهْجُرَ أَخَاهُ فَوْقَ ثَلَاثٍ-
حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کسی مسلمان کے لئے حلال نہیں ہے کہ وہ تین دن سے زیادہ اپنے بھائی سے قطع کلامی کرے۔
-
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ عَنْ أَبِيهِ قَالَ حَلَفْتُ بِاللَّاتِ وَالْعُزَّى فَقَالَ أَصْحَابِي قَدْ قُلْتَ هُجْرًا فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ إِنَّ الْعَهْدَ كَانَ قَرِيبًا وَإِنِّي حَلَفْتُ بِاللَّاتِ وَالْعُزَّى فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُلْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ ثَلَاثًا ثُمَّ انْفُثْ عَنْ يَسَارِكَ ثَلَاثًا وَتَعَوَّذْ وَلَا تَعُدْ-
حضرت سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے لات اور عزی کی قسم کھالی، میرے ساتھیوں نے مجھ سے کہا کہ تم نے بے ہودہ بات کہی، میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ میں نے ابھی نیا نیا اسلام قبول کیا ہے، میری زبان سے لات اور عزی کے نام کی قسم نکل گئی ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تین مرتبہ یہ کہہ لو " لاالہ الا اللہ وحدہ " اور بائیں جانب تین مرتبہ تھتکار دو اور اعوذ باللہ پڑھ لو، اور آئندہ ایسے مت کہنا۔
-
حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ مُؤَمَّلُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ وَعَفَّانُ الْمَعْنَى قَالَا حَدَّثَنَا حَمَّادٌ حَدَّثَنَا عَاصِمٌ عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ عَنْ أَبِيهِ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُتِيَ بِقَصْعَةٍ مِنْ ثَرِيدٍ فَأَكَلَ فَفَضَلَ مِنْهُ فَضْلَةٌ فَقَالَ يَدْخُلُ مِنْ هَذَا الْفَجِّ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ يَأْكُلُ هَذِهِ الْفَضْلَةَ قَالَ سَعْدٌ وَقَدْ كُنْتُ تَرَكْتُ أَخِي عُمَيْرَ بْنَ أَبِي وَقَّاصٍ يَتَهَيَّأُ لِأَنْ يَأْتِيَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَطَمِعْتُ أَنْ يَكُونَ هُوَ فَجَاءَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَلَامٍ فَأَكَلَهَا حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ حَدَّثَنَا أَبَانُ حَدَّثَنَا عَاصِمٌ فَذَكَرَ مَعْنَاهُ إِلَّا أَنَّهُ قَالَ فَمَرَرْتُ بِعُوَيْمِرِ بْنِ مَالِكٍ-
حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ثرید کا ایک پیالہ لایا گیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں موجود کھانا تناول فرمایا، اس میں سے کچھ بچ گیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس راہداری سے ابھی ایک جنتی آدمی آئے گا جو یہ بچا ہوا کھانا کھائے گا، حضرت سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے اپنے بھائی عمیر کو وضو کرتا ہوا چھوڑ کر آیا تھا، میں نے اپنے دل میں سوچا کہ یہاں سے عمیر ہی آئے گا، لیکن وہاں سے حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ آئے اور انہوں نے وہ کھانا کھایا۔ گذشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔
-
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ حَدَّثَنَا أُسَامَةُ يَعْنِي ابْنَ زَيْدٍ حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّهِ الْقَرَّاظُ أَنَّهُ سَمِعَ سَعْدَ بْنَ مَالِكٍ وَأَبَا هُرَيْرَةَ يَقُولَانِ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اللَّهُمَّ بَارِكْ لِأَهْلِ الْمَدِينَةِ فِي مَدِينَتِهِمْ وَبَارِكْ لَهُمْ فِي صَاعِهِمْ وَبَارِكْ لَهُمْ فِي مُدِّهِمْ اللَّهُمَّ إِنَّ إِبْرَاهِيمَ عَبْدُكَ وَخَلِيلُكَ وَإِنِّي عَبْدُكَ وَرَسُولُكَ وَإِنَّ إِبْرَاهِيمَ سَأَلَكَ لِأَهْلِ مَكَّةَ وَإِنِّي أَسْأَلُكَ لِأَهْلِ الْمَدِينَةِ كَمَا سَأَلَكَ إِبْرَاهِيمُ لِأَهْلِ مَكَّةَ وَمِثْلَهُ مَعَهُ إِنَّ الْمَدِينَةَ مُشَبَّكَةٌ بِالْمَلَائِكَةِ عَلَى كُلِّ نَقْبٍ مِنْهَا مَلَكَانِ يَحْرُسَانِهَا لَا يَدْخُلُهَا الطَّاعُونُ وَلَا الدَّجَّالُ مَنْ أَرَادَهَا بِسُوءٍ أَذَابَهُ اللَّهُ كَمَا يَذُوبُ الْمِلْحُ فِي الْمَاءِ-
حضرت سعد رضی اللہ عنہ اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ دعاء کرتے ہوئے فرمایا اے اللہ! اہل مدینہ کے لئے ان کا مدینہ مبارک فرما اور ان کے صاع اور مد میں برکت عطاء فرما، اے اللہ! ابراہیم آپ کے بندے اور خلیل تھے، اور میں آپ کا بندہ اور رسول ہوں، ابراہیم نے آپ سے اہل مکہ کے لئے دعاء مانگی تھی، میں آپ سے اہل مدینہ کے لئے دعا مانگ رہا ہوں ۔ پھر فرمایا کہ مدینہ منورہ ملائکہ جال میں جکڑا ہوا ہے، اس کے ہر سوراخ پر دو فرشتے اس کی حفاظت کے لئے مقر رہیں، یہاں طاعون اور دجال داخل نہیں ہو سکتے، جو اس کے ساتھ کوئی ناپاک ارادہ کرے گا، اللہ اسے اس طرح پگھلا دے گا جیسے نمک پانی پگھل جاتا ہے ۔
-
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبِي خَالِدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سَعْدٍ عَنْ أَبِيهِ سَعْدٍ قَالَ خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَضْرِبُ بِإِحْدَى يَدَيْهِ عَلَى الْأُخْرَى وَهُوَ يَقُولُ الشَّهْرُ هَكَذَا وَهَكَذَا ثُمَّ نَقَصَ أُصْبُعَهُ فِي الثَّالِثَةِ-
حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے، اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا ایک ہاتھ دوسرے پر مارتے جا رہے تھے اور کہتے جا رہے تھے کہ مہینہ بعض اوقات اتنا اور اتنا بھی ہوتا ہے، تیسری مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھوں کی دس انگلیوں میں سے ایک انگلی کو بند کر لیا۔
-
حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ عَمْرٍو حَدَّثَنَا زَائِدَةُ عَنْ إِسْمَاعِيلَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سَعْدٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ الشَّهْرُ هَكَذَا وَهَكَذَا عَشْرٌ وَعَشْرٌ وَتِسْعٌ مَرَّةً-
حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مہینہ بعض اوقات اتنا اور اتنا بھی ہوتا ہے، تیسری مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھوں کی دس انگلیوں میں سے ایک انگلی کو بند کر لیا (مراد 29 کا مہینہ ہونا ہے)
-
حَدَّثَنَا الطَّالَقَانِيُّ حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ عَنْ إِسْمَاعِيلَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سَعْدٍ عَنْ أَبِيهِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الشَّهْرُ هَكَذَا وَهَكَذَا وَهَكَذَا يَعْنِي تِسْعًا وَعِشْرِينَ-
حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مہینہ بعض اوقات اتنا اور اتنا بھی ہوتا ہے، تیسری مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھوں کی دس انگلیوں میں سے ایک انگلی کو بند کر لیا (مراد 29 کا مہینہ ہونا ہے)
-
حَدَّثَنَا سُرَيْجُ بْنُ النُّعْمَانِ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ يَعْنِي الدَّرَاوَرْدِيَّ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى يَخْرُجَ قَوْمٌ يَأْكُلُونَ بِأَلْسِنَتِهِمْ كَمَا يَأْكُلُ الْبَقَرُ بِأَلْسِنَتِهَا-
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا عنقریب ایک ایسی قوم آئے گی جو اپنی زبان (چرب لسانی) کے بل بوتے پر کھائے گی جیسے گائے زمین سے اپنی زبان کے ذریعے کھانا کھاتی ہے۔
-
حَدَّثَنَا أَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ حَدَّثَنَا حَسَنٌ عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ الْمُهَاجِرِ عَنْ أَبِي بَكْرٍ يَعْنِي ابْنَ حَفْصٍ فَذَكَرَ قِصَّةً قَالَ سَعْدٌ إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ نِعْمَ الْمِيتَةُ أَنْ يَمُوتَ الرَّجُلُ دُونَ حَقِّهِ-
حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ بہترین موت یہ ہے کہ انسان حق کی خاطر مرجائے۔
-
حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا جَرِيرٌ يَعْنِي ابْنَ حَازِمٍ عَنْ عَمِّهِ جَرِيرٍ يَعْنِي ابْنَ زَيْدٍ عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ عَنْ أَبِيهِ سَعْدٍ قَالَ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أُوصِي بِمَالِي كُلِّهِ قَالَ لَا قُلْتُ فَثُلُثَيْهِ قَالَ لَا قُلْتُ فَنِصْفَهُ قَالَ لَا قُلْتُ فَالثُّلُثَ قَالَ الثُّلُثَ وَالثُّلُثُ كَبِيرٌ أَحَدُكُمْ يَدَعُ أَهْلَهُ بِخَيْرٍ خَيْرٌ لَهُ مِنْ أَنْ يَدَعَهُمْ عَالَةً عَلَى أَيْدِي النَّاسِ-
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! کیا میں اپنے سارے مال کو راہ خدا میں دینے کی وصیت کر سکتا ہوں؟ فرمایا نہیں، انہوں نے دو تہائی مال کی وصیت کے بارے پوچھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر منع فرما دیا، انہوں نے نصف کے متعلق پوچھا تب بھی منع فرما دیا، پھر جب ایک تہائی مال کے متعلق پوچھا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں! ایک تہائی مال کی وصیت کر سکتے ہو اور یہ ایک تہائی بھی بہت زیادہ ہے، یاد رکھو! کہ تم اپنے اہل خانہ کو اچھی حالت میں چھوڑ کر جاؤ، یہ اس سے بہت بہتر ہے کہ تم انہیں اس حال میں چھوڑ جاؤ کہ وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے پر مجبور ہوجائیں ۔
-
حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ الزُّبَيْرِيُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ يَعْنِي ابْنَ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ عَنْ حَمْزَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ أَبِيهِ عَنْ سَعْدٍ قَالَ لَمَّا خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَزْوَةِ تَبُوكَ خَلَّفَ عَلِيًّا فَقَالَ لَهُ أَتُخَلِّفُنِي قَالَ لَهُ أَمَا تَرْضَى أَنْ تَكُونَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُونَ مِنْ مُوسَى إِلَّا أَنَّهُ لَا نَبِيَّ بَعْدِي-
حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو غزوہ تبوک میں مدینہ منورہ پر اپنا نائب مقرر کر کے وہاں چھوڑ دیا تو وہ کہنے لگے یا رسول اللہ! کیا آپ مجھے بچوں اور عورتوں کے پاس چھوڑ جائیں گے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم اس بات پر خوش نہیں ہو کہ تمہیں مجھ سے وہی نسبت ہو سوائے نبوت کے جو حضرت ہارون علیہ السلام کو حضرت موسی علیہ السلام سے تھی۔
-
حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ مَوْلَى بَنِي هَاشِمٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدٍ أَنَّ سَعْدًا قَالَ فِي مَرَضِهِ إِذَا أَنَا مُتُّ فَالْحَدُوا لِي لَحْدًا وَاصْنَعُوا مِثْلَ مَا صُنِعَ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے اپنی آخری وصیت میں فرمایا تھا کہ جب میں مرجاؤں تو میری قبر کو لحد کی صورت میں بنانا اور اسی طرح کرنا جیسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کیا گیا تھا۔
-
حَدَّثَنَا مَنْصُورُ بْنُ سَلَمَةَ الْخُزَاعِيُّ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ جَعْفَرٍ عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدٍ عَنْ سَعْدٍ قَالَ الْحَدُوا لِي لَحْدًا وَانْصِبُوا عَلَيَّ نَصْبًا كَمَا صُنِعَ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے اپنی آخری وصیت میں فرمایا تھا کہ میری قبر کو لحد کی صورت میں بنانا اور اس پر کچی اینٹیں نصب کرنا جیسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کیا گیا تھا۔
-
حَدَّثَنَا سُرَيْجُ بْنُ النُّعْمَانِ حَدَّثَنَا أَبُو شِهَابٍ عَنِ الْحَجَّاجِ عَنِ ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ عَنْ مُجَاهِدٍ عَنْ سَعْدِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ طُفْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَمِنَّا مَنْ طَافَ سَبْعًا وَمِنَّا مَنْ طَافَ ثَمَانِيًا وَمِنَّا مَنْ طَافَ أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا حَرَجَ-
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم طواف میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک تھے، ہم میں سے بعض نے طواف میں سات چکر لگائے، بعض نے آٹھ اور بعض نے اس سے بھی زیادہ، لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کوئی حرج نہیں ۔
-
حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ مَعْرُوفٍ أَنْبَأَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ أَخْبَرَنِي أَبُو صَخْرٍ قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ عَبْد اللَّهِ بْن أَحْمَد وَسَمِعْتُهُ أَنَا مَنْ هَارُونَ أَنَّ أَبَا حَازِمٍ حَدَّثَهُ عَنِ ابْنٍ لِسَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ قَالَ سَمِعْتُ أَبِي يَقُولُ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَقُولُ إِنَّ الْإِيمَانَ بَدَأَ غَرِيبًا وَسَيَعُودُ كَمَا بَدَأَ فَطُوبَى يَوْمَئِذٍ لِلْغُرَبَاءِ إِذَا فَسَدَ النَّاسُ وَالَّذِي نَفْسُ أَبِي الْقَاسِمِ بِيَدِهِ لَيَأْرِزَنَّ الْإِيمَانُ بَيْنَ هَذَيْنِ الْمَسْجِدَيْنِ كَمَا تَأْرِزُ الْحَيَّةُ فِي جُحْرِهَا-
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ایمان کا آغاز بھی اس حال میں ہوا تھا کہ وہ اجنبی تھا، اور عنقریب یہ اسی حال پر لوٹ جائے گا جیسے اس کا آغاز ہوا تھا، اس موقع پر جب لوگوں میں فساد پھیل جائے گا غرباء کے لئے خوشخبری ہوگی، اس ذات کی قسم! جس کے دست قدرت میں ابوالقاسم کی جان ہے ایمان ان دو مسجدوں کے درمیان اس طرح سمٹ آئے گا جیسے سانپ اپنے بل میں سمٹ آتا ہے۔
-
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ أَنْبَأَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ يَعْنِي ابْنَ أَبِي الزِّنَادِ عَنْ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ الْقَرَّاظِ عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ صَلَاةٌ فِي مَسْجِدِي هَذَا خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ صَلَاةٍ فِيمَا سِوَاهُ إِلَّا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ-
حضرت سعد ابن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ سوائے مسجد حرام کے دوسری مسجدوں کی نسبت میری اس مسجد میں ایک نماز پڑھنے کا ثواب ایک ہزار نمازوں سے بڑھ کر ہے۔
-
حَدَّثَنَا عَفَّانُ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ زِيَادٍ أَنْبَأَنَا عُثْمَانُ بْنُ حَكِيمٍ حَدَّثَنِي عَامِرُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ أَبِيهِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنِّي أُحَرِّمُ مَا بَيْنَ لَابَتَيْ الْمَدِينَةِ كَمَا حَرَّمَ إِبْرَاهِيمُ حَرَمَهُ لَا يُقْطَعُ عِضَاهُهَا وَلَا يُقْتَلُ صَيْدُهَا وَلَا يَخْرُجُ مِنْهَا أَحَدٌ رَغْبَةً عَنْهَا إِلَّا أَبْدَلَهَا اللَّهُ خَيْرًا مِنْهُ وَالْمَدِينَةُ خَيْرٌ لَهُمْ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ وَلَا يُرِيدُهُمْ أَحَدٌ بِسُوءٍ إِلَّا أَذَابَهُ اللَّهُ ذَوْبَ الرَّصَاصِ فِي النَّارِ أَوْ ذَوْبَ الْمِلْحِ فِي الْمَاءِ-
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا میں مدینہ منورہ کے دو کناروں کے درمیان کی جگہ کو حرام قرار دیتا ہوں، جیسے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مکہ مکرمہ کو حرم قرار دیا تھا، اس لئے یہاں کا کوئی درخت نہ کاٹا جائے اور نہ یہ یہاں کا جانور شکار کیا جائے، یہاں سے کوئی شخص بھی اگر بے رغبتی کی وجہ سے چلا جائے تو اللہ تعالیٰ اس کی جگہ اس سے بہتر شخص کو وہاں آباد فرما دیتے ہیں اور لوگوں کے لئے مدینہ ہی سب سے بہتر ہے اگر وہ جانتے ہوتے اور جو شخص بھی اہل مدینہ کے ساتھ برا ارادہ کرے گا، اسے اللہ اسی طرح پگھلا دے گا جیسے تانبا آگ میں یا نمک پانی میں گھل جاتا ہے ۔
-
حَدَّثَنَا عَفَّانُ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ حَدَّثَنَا عَاصِمُ بْنُ بَهْدَلَةَ حَدَّثَنِي مُصْعَبُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ أَبِيهِ قَالَ قُلْتُ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيُّ النَّاسِ أَشَدُّ بَلَاءً قَالَ فَقَالَ الْأَنْبِيَاءُ ثُمَّ الْأَمْثَلُ فَالْأَمْثَلُ يُبْتَلَى الرَّجُلُ عَلَى حَسَبِ دِينِهِ فَإِنْ كَانَ دِينُهُ صُلْبًا اشْتَدَّ بَلَاؤُهُ وَإِنْ كَانَ فِي دِينِهِ رِقَّةٌ ابْتُلِيَ عَلَى حَسَبِ دِينِهِ فَمَا يَبْرَحُ الْبَلَاءُ بِالْعَبْدِ حَتَّى يَتْرُكَهُ يَمْشِي عَلَى الْأَرْضِ مَا عَلَيْهِ خَطِيئَةٌ-
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا یا رسول اللہ! سب سے زیادہ سخت مصیبت کن لوگوں پر آتی ہے، فرمایا انبیاء کرام علیہم السلام پر، پھر درجہ بدرجہ عام لوگوں پر، انسان پر آزمائش اس کے دین کے اعتبار سے آتی ہے، اگر اس کے دین میں پختگی ہو تو اس کے مصائب میں مزید اضافہ کر دیا جاتا ہے اور اگر اس کے دین میں کمزوری ہو تو اس کے مصائب میں تخفیف کر دی جاتی ہے اور انسان پر مسلسل مصائب آتے رہتے ہیں یہاں تک کہ جب وہ زمین پر چلتا ہے تو اس کا کوئی گناہ نہیں ہوتا۔
-
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ عَنْ بُكَيْرِ بْنِ مِسْمَارٍ عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدٍ عَنْ أَبِيهِ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ لَهُ وَخَلَّفَهُ فِي بَعْضِ مَغَازِيهِ فَقَالَ عَلِيٌّ أَتُخَلِّفُنِي مَعَ النِّسَاءِ وَالصِّبْيَانِ قَالَ يَا عَلِيُّ أَمَا تَرْضَى أَنْ تَكُونَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُونَ مِنْ مُوسَى إِلَّا أَنَّهُ لَا نُبُوَّةَ بَعْدِي وَسَمِعْتُهُ يَقُولُ يَوْمَ خَيْبَرَ لَأُعْطِيَنَّ الرَّايَةَ رَجُلًا يُحِبُّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيُحِبُّهُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ فَتَطَاوَلْنَا لَهَا فَقَالَ ادْعُوا لِي عَلِيًّا فَأُتِيَ بِهِ أَرْمَدَ فَبَصَقَ فِي عَيْنِهِ وَدَفَعَ الرَّايَةَ إِلَيْهِ فَفَتَحَ اللَّهُ عَلَيْهِ وَلَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَكُمْ دَعَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلِيًّا وَفَاطِمَةَ وَحَسَنًا وَحُسَيْنًا فَقَالَ اللَّهُمَّ هَؤُلَاءِ أَهْلِي-
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی غزوہ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اپنے پیچھے اپنا نائب بنا کر چھوڑ دیا، حضرت علی رضی اللہ عنہ کہنے لگے کہ آپ مجھے عورتوں اور بچوں کے ساتھ چھوڑے جا رہے ہیں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا علی! کیا تم اس بات پر خوش نہیں ہو کہ تمہیں میرے ساتھ وہی نسبت ہو جو حضرت ہارون علیہ السلام کو حضرت موسی علیہ السلام کے ساتھ تھی؟ البتہ اتنی بات ضرور ہے کہ میرے بعد نبوت کا سلسلہ نہیں ہے۔ نیز میں نے غزوہ خیبر کے موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا تھا کہ کل میں یہ جھنڈا اس شخص کو دوں گا جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہوگا اور خود اللہ اور اس کے رسول کو محبوب ہوگا، ہم نے اس سعات کے لئے اپنے آپ کو نمایاں کرنے کی کوشش کی، لیکن لسان نبوت سے ارشاد ہوا علی کو میرے پاس بلا کر لاؤ، جب انہیں بلا کر لایا گیا تو معلوم ہوا کہ انہیں آشوب چشم کا عارضہ لاحق ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی آنکھوں میں اپنا لعاب دہن لگادیا اور جھنڈا ان کے حوالے کریا، اللہ نے ان کے ہاتھ پر مسلمانوں کو فتح عطاء فرمائی۔ اور جب یہ آیت نازل ہوئی کہ ہم اپنے بیٹوں کو بلاتے ہیں اور تم اپنے بیٹوں کو بلاؤ، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ، حضرت فاطمہ ، حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنہم کو بلایا اور فرمایا اے اللہ! یہ میرے اہل خانہ ہیں ۔
-
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا لَيْثُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ عَيَّاشِ بْنِ عَبَّاسٍ عَنْ بُكَيْرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ بُسْرِ بْنِ سَعِيدٍ أَنَّ سَعْدَ بْنَ أَبِي وَقَّاصٍ قَالَ عِنْدَ فِتْنَةِ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ أَشْهَدُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنَّهَا سَتَكُونُ فِتْنَةٌ الْقَاعِدُ فِيهَا خَيْرٌ مِنْ الْقَائِمِ وَالْقَائِمُ خَيْرٌ مِنْ الْمَاشِي وَالْمَاشِي خَيْرٌ مِنْ السَّاعِي قَالَ أَفَرَأَيْتَ إِنْ دَخَلَ عَلَيَّ بَيْتِي فَبَسَطَ يَدَهُ إِلَيَّ لِيَقْتُلَنِي قَالَ كُنْ كَابْنِ آدَمَ-
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے ایام امتحان میں فرمایا میں گواہی دیتا ہوں کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا عنقریب فتنوں کا دور آئے گا، اس دور میں بیٹھنے والا کھڑے ہونے والے سے بہتر ہوگا، کھڑا ہونے والا چلنے والے سے بہتر ہوگا اور چلنے والا دوڑنے والے سے بہتر ہوگا راوی نے پوچھا کہ اگر کوئی شخص میرے گھر میں گھس آئے اور مجھے قتل کرنے کے ارادے سے اپنا ہاتھ بڑھائے تو کیا کروں ؟ فرمایا ابن آدم (ہابیل) کی طرح ہو جانا۔
-
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ طَلْحَةَ التَّيْمِيُّ مِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ حَدَّثَنِي أَبُو سُهَيْلٍ نَافِعُ بْنُ مَالِكٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلْعَبَّاسِ هَذَا الْعَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ أَجْوَدُ قُرَيْشٍ كَفًّا وَأَوْصَلُهَا-
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے متعلق فرمایا یہ عباس بن عبدالمطلب ہیں جو قریش میں ہاتھ کے سب سے سخی اور سب سے زیادہ جوڑ پیدا کرنے والے ہیں۔
-
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ وَيَعْلَى قَالَا حَدَّثَنَا مُوسَى يَعْنِي الْجُهَنِيَّ عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ عَنْ أَبِيهِ قَالَ جَاءَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَعْرَابِيٌّ فَقَالَ يَا نَبِيَّ اللَّهِ عَلِّمْنِي كَلَامًا أَقُولُهُ قَالَ قُلْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ اللَّهُ أَكْبَرُ كَبِيرًا وَالْحَمْدُ لِلَّهِ كَثِيرًا سُبْحَانَ اللَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ الْعَزِيزِ الْحَكِيمِ قَالَ هَؤُلَاءِ لِرَبِّي عَزَّ وَجَلَّ فَمَا لِي قَالَ قُلْ اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي وَارْحَمْنِي وَاهْدِنِي وَارْزُقْنِي قَالَ ابْنُ نُمَيْرٍ قَالَ مُوسَى أَمَّا عَافِنِي فَأَنَا أَتَوَهَّمُ وَمَا أَدْرِي-
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک دیہاتی آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا کہ مجھے کوئی دعاء سکھا دیجئے جو میں پڑھ لیا کروں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم یوں کہا کرو کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، اللہ بہت بڑا ہے، تمام تعریفیں اللہ ہی کے لئے ہیں، اللہ ہر عیب اور نقص سے پاک ہے، جو کہ تمام جہانوں کو پالنے والا ہے، گناہ سے بچنے اور نیکی کے کام کرنے کی طاقت اللہ ہی سے مل سکتی ہے جو غالب اور حکمت والا ہے، یہ کلمات پانچ مرتبہ کہہ لیا کرو ۔ اس دیہاتی نے عرض کیا کہ ان سب کلمات کا تعلق تو میرے رب سے ہے، میرے لیے کیا ہے؟ فرمایا تم یوں کہہ لیا کرو کہ اے اللہ مجھے معاف فرما، مجھ پر رحم فرما، مجھے رزق عطاء فرما، مجھے ہدایت عطاء فرما۔
-
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ حَدَّثَنَا مُوسَى عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ حَدَّثَنِي أَبِي قَالَ كُنَّا جُلُوسًا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ أَيَعْجِزُ أَحَدُكُمْ أَنْ يَكْسِبَ كُلَّ يَوْمٍ أَلْفَ حَسَنَةٍ قَالَ فَسَأَلَهُ سَائِلٌ مِنْ جُلَسَائِهِ يَا نَبِيَّ اللَّهِ كَيْفَ يَكْسِبُ أَحَدُنَا أَلْفَ حَسَنَةٍ قَالَ يُسَبِّحُ مِائَةَ تَسْبِيحَةٍ فَيُكْتَبُ لَهُ أَلْفُ حَسَنَةٍ أَوْ يُحَطُّ عَنْهُ أَلْفُ خَطِيئَةٍ-
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مخاطب ہو کر فرمایا کیا تم میں سے کوئی شخص اس بات سے عاجز ہے کہ دن میں ایک ہزار نیکیاں کمالے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا یا رسول اللہ! اس کی طاقت کس میں ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سو مرتبہ سبحان اللہ کہہ لیا کرے، اس کے نامہ اعمال میں ایک ہزار نیکیاں لکھ دی جائیں گی اور ایک ہزار گناہ مٹا دئیے جائیں گے۔
-
حَدَّثَنَا يَعْلَى بْنُ عُبَيْدٍ حَدَّثَنَا مُوسَى عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ عَنْ أَبِيهِ قَالَ كُنَّا جُلُوسًا عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ أَيَعْجِزُ أَحَدُكُمْ أَنْ يَكْسِبَ كُلَّ يَوْمٍ أَلْفَ حَسَنَةٍ فَسَأَلَهُ سَائِلٌ مِنْ جُلَسَائِهِ كَيْفَ يَكْسِبُ أَحَدُنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ كُلَّ يَوْمٍ أَلْفَ حَسَنَةٍ قَالَ يُسَبِّحُ مِائَةَ تَسْبِيحَةٍ فَيُكْتَبُ لَهُ أَلْفُ حَسَنَةٍ أَوْ يُحَطُّ عَنْهُ أَلْفُ خَطِيئَةٍ-
حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مخاطب ہو کر فرمایا کیا تم میں سے کوئی شخص اس بات سے عاجز ہے کہ دن میں ایک ہزار نیکیاں کما لے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا یا رسول اللہ! (صلی اللہ علیہ وسلم) اس کی طاقت کس میں ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سو مرتبہ سبحان اللہ کہہ لیا کرے، اس کے نامہ اعمال میں ایک ہزار نیکیاں لکھ دی جائیں گی اور ایک ہزار گناہ مٹا دئیے جائیں گے۔
-
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ سِمَاكٍ عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ عَنْ أَبِيهِ قَالَ أُنْزِلَتْ فِيَّ أَرْبَعُ آيَاتٍ يَوْمَ بَدْرٍ أَصَبْتُ سَيْفًا فَأَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ نَفِّلْنِيهِ فَقَالَ ضَعْهُ ثُمَّ قَامَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ نَفِّلْنِيهِ فَقَالَ ضَعْهُ ثُمَّ قَامَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ نَفِّلْنِيهِ أُجْعَلْ كَمَنْ لَا غَنَاءَ لَهُ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ضَعْهُ مِنْ حَيْثُ أَخَذْتَهُ فَنَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ يَسْأَلُونَكَ عَنْ الْأَنْفَالِ قُلْ الْأَنْفَالُ لِلَّهِ وَالرَّسُولِ قَالَ وَصَنَعَ رَجُلٌ مِنْ الْأَنْصَارِ طَعَامًا فَدَعَانَا فَشَرِبْنَا الْخَمْرَ حَتَّى انْتَشَيْنَا قَالَ فَتَفَاخَرَتْ الْأَنْصَارُ وَقُرَيْشٌ فَقَالَتْ الْأَنْصَارُ نَحْنُ أَفْضَلُ مِنْكُمْ وَقَالَتْ قُرَيْشٌ نَحْنُ أَفْضَلُ مِنْكُمْ فَأَخَذَ رَجُلٌ مِنْ الْأَنْصَارِ لَحْيَيْ جَزُورٍ فَضَرَبَ بِهِ أَنْفَ سَعْدٍ فَفَزَرَهُ قَالَ فَكَانَ أَنْفُ سَعْدٍ مَفْزُورًا قَالَ فَنَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنْصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ قَالَ وَقَالَتْ أُمُّ سَعْدٍ أَلَيْسَ اللَّهُ قَدْ أَمَرَهُمْ بِالْبِرِّ فَوَاللَّهِ لَا أَطْعَمُ طَعَامًا وَلَا أَشْرَبُ شَرَابًا حَتَّى أَمُوتَ أَوْ تَكْفُرَ بِمُحَمَّدٍ قَالَ فَكَانُوا إِذَا أَرَادُوا أَنْ يُطْعِمُوهَا شَجَرُوا فَاهَا بِعَصًا ثُمَّ أَوْجَرُوهَا قَالَ فَنَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ وَوَصَّيْنَا الْإِنْسَانَ بِوَالِدَيْهِ حُسْنًا قَالَ وَدَخَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى سَعْدٍ وَهُوَ مَرِيضٌ يَعُودُهُ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أُوصِي بِمَالِي كُلِّهِ قَالَ لَا قَالَ فَبِثُلُثَيْهِ فَقَالَ لَا قَالَ فَبِثُلُثِهِ قَالَ فَسَكَتَ-
مصعب بن سعد کہتے ہیں کہ میرے والد صاحب کے بارے قرآن کریم کی چار آیات مبارکہ نازل ہوئی ہیں، میرے والد کہتے ہیں کہ ایک غزوہ میں مجھے ایک تلوار ملی، میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! یہ مجھے عطاء فرما دیں، فرمایا اسے رکھ دو، میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! یہ مجھے عطاء فرما دیجئے، کیا میں اس شخص کی طرح سمجھا جاؤں گا جسے کوئی ضرورت ہی نہ ہو؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا اسے جہاں سے لیا ہے وہیں رکھ دو، اس پر سورت انفال کی ابتدائی آیت نازل ہوئی۔ پھر جب میں نے اسلام قبول کیا تھا تو میری والدہ نے مجھ سے کہا کیا اللہ نے تمہیں صلہ رحمی اور والدین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم نہیں دیا؟ بخدا! میں اس وقت تک کچھ کھاؤں گی اور نہ پیوں گی جب تک تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار نہ کر دو گے، چنانچہ ایسا ہی ہوا، انہوں نے کھانا پینا چھوڑ دیا حتی کہ لوگ زبردستی ان کے منہ میں لکڑی ڈال کر اسے کھولتے اور اس میں کوئی پینے کی چیز انڈیل دیتے، اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ ہم نے انسان کو والدین کے ساتھ حسن سلوک کی وصیت کی ہے۔ ۔ ۔ ۔ لیکن اگر وہ تمہیں شرک پر مجبور کریں تو ان کی بات نہ مانو۔ پھر ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم میری بیمار پرسی کے لئے تشریف لائے، میں نے پوچھا یا رسول اللہ! کیا میں اپنے کل مال کی وصیت کردوں ؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اس سے منع فرمایا، نصف کے متعلق سوال پر بھی منع کر دیا، لیکن ایک تہائی کے سوال پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے اور اس کے بعد لوگوں نے اس پر عمل شروع کر دیا۔
-
حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ عَمْرٍو الْكَلْبِيُّ حَدَّثَنَا أَبَانُ حَدَّثَنَا يَحْيَى عَنِ الْحَضْرَمِيِّ بْنِ لَاحِقٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ عَنْ سَعْدِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِذَا كَانَ الطَّاعُونُ بِأَرْضٍ فَلَا تَهْبِطُوا عَلَيْهِ وَإِذَا كَانَ بِأَرْضٍ وَأَنْتُمْ بِهَا فَلَا تَفِرُّوا مِنْهُ-
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جب تم کسی علاقے میں طاعون کی وباء پھیلنے کا سنو تو وہاں مت جاؤ اور اگر تم کسی علاقے میں ہو اور وہاں طاعون کی وباء پھوٹ پڑے تو وہاں سے راہ فرار مت اختیار کرو۔
-
حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ الثَّقَفِيُّ عَنْ خَالِدٍ عَنْ عِكْرِمَةَ عَنْ سَعْدِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ يَوْمَ أُحُدٍ ارْمِهْ فِدَاكَ أَبِي وَأُمِّي-
حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ احد کے موقع پر مجھ سے فرمایا تیر پھینکو، تم پر میرے ماں باپ قربان ہوں ۔
-
حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ أَنْبَأَنَا الْحَجَّاجُ بْنُ أَرْطَاةَ عَنْ يَحْيَى بْنِ عُبَيْدٍ الْبَهْرَانِيِّ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سَعْدٍ قَالَ وَكَانَ يَتَوَضَّأُ بِالزَّاوِيَةِ فَخَرَجَ عَلَيْنَا ذَاتَ يَوْمٍ مِنْ الْبَرَازِ فَتَوَضَّأَ وَمَسَحَ عَلَى خُفَّيْهِ فَتَعَجَّبْنَا وَقُلْنَا مَا هَذَا قَالَ حَدَّثَنِي أَبِي أَنَّهُ رَأَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَعَلَ مِثْلَ مَا فَعَلْتُ-
یحیی بن عبید کہتے ہیں کہ محمد بن سعد ایک دن ہمارے سامنے بیت الخلاء سے نکلے اور وضو کرنے لگے، وضو کے دوران انہوں نے موزوں پر مسح کیا، ہمیں اس پر تعجب ہوا اور ہم نے پوچھا یہ کیا ہے؟ انہوں نے کہا کہ مجھ سے میرے والد صاحب نے بیان کیا ہے کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح کرتے ہوئے دیکھا ہے۔
-
حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ أَنْبَأَنَا إِسْمَاعِيلُ عَنْ قَيْسٍ قَالَ سَمِعْتُ سَعْدَ بْنَ مَالِكٍ يَقُولُ وَاللَّهِ إِنِّي لَأَوَّلُ الْعَرَبِ رَمَى بِسَهْمٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ لَقَدْ كُنَّا نَغْزُو مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَا لَنَا طَعَامٌ نَأْكُلُهُ إِلَّا وَرَقَ الْحُبْلَةِ وَهَذَا السَّمُرَ حَتَّى إِنَّ أَحَدَنَا لَيَضَعُ كَمَا تَضَعُ الشَّاةُ مَالَهُ خِلْطٌ ثُمَّ أَصْبَحَتْ بَنُو أَسَدٍ يُعَزِّرُونِي عَلَى الدِّينِ لَقَدْ خِبْتُ إِذَنْ وَضَلَّ عَمَلِي-
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں عرب کا وہ سب سے پہلا آدمی ہوں جس نے راہ خدا میں سب سے پہلا تیر پھینکا تھا، ہم نے وہ وقت دیکھا ہے جب ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مل کر جہاد کرتے تھے، اس وقت ہمارے پاس کھانے کے لئے سوائے انگور کی شاخوں اور ببول کے کوئی دوسری چیز نہ ہوتی تھی اور ہم میں سے ہر ایک اس طرح مینگنی کرتا تھا جیسے بکری مینگنی کرتی ہے، اس کے ساتھ کوئی اور چیز نہ ملتی تھی، اور آج بنو اسد کے لوگ مجھ ہی کو میرے اسلام پر ملامت کرتے ہیں، تب تو میں بڑے خسارے میں رہا اور میری ساری محنت برباد ہوگئی۔
-
حَدَّثَنَا يَزِيدُ أَنْبَأَنَا أَبُو مَعْشَرٍ عَنْ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدٍ عَنْ أَبِيهِ قَالَ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُسَلِّمُ عَنْ يَمِينِهِ وَعَنْ شِمَالِهِ-
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دائیں اور بائیں جانب سلام پھیرتے ہوئے دیکھا ہے۔
-
حَدَّثَنَا رَوْحٌ حَدَّثَنَا ابْنُ عَوْنٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ الْأَسْوَدِ عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدٍ عَنْ أَبِيهِ قَالَ لَمَّا كَانَ يَوْمُ الْخَنْدَقِ وَرَجُلٌ يَتَتَرَّسُ جَعَلَ يَقُولُ بِالتُّرْسِ هَكَذَا فَوَضَعَهُ فَوْقَ أَنْفِهِ ثُمَّ يَقُولُ هَكَذَا يُسَفِّلُهُ بَعْدُ قَالَ فَأَهْوَيْتُ إِلَى كِنَانَتِي فَأَخْرَجْتُ مِنْهَا سَهْمًا مُدَمًّا فَوَضَعْتُهُ فِي كَبِدِ الْقَوْسِ فَلَمَّا قَالَ هَكَذَا يُسَفِّلُ التُّرْسَ رَمَيْتُ فَمَا نَسِيتُ وَقْعَ الْقِدْحِ عَلَى كَذَا وَكَذَا مِنْ التُّرْسِ قَالَ وَسَقَطَ فَقَالَ بِرِجْلِهِ فَضَحِكَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحْسِبُهُ قَالَ حَتَّى بَدَتْ نَوَاجِذُهُ قَالَ قُلْتُ لِمَ قَالَ لِفِعْلِ الرَّجُلِ-
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ سے مروی ہے کہ غزوہ خندق کے دن میں نے ایک آدمی کو دیکھا جو ڈھال سے اپنے آپ کو بچا رہا تھا، کبھی وہ ڈھال کو اپنی ناک کے اوپر رکھ لیتا، کبھی اس سے نیچے کر لیتا، میں نے یہ دیکھ کر اپنے ترکش کی طرف توجہ کی، اس میں سے ایک خون آلود تیر نکالا اور اسے کمان میں جوڑا، جب اس نے ڈھال کو نیچے کیا تو میں نے اسے تاک کر تیر دے مارا، اس سے پہلے میں تیر کی لکڑی لگانا نہ بھولا تھا، تیر لگتے ہی وہ نیچے گر پڑا اور اس کی ٹانگیں اوپر کو اٹھ گئیں، جسے دیکھ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم اتنے ہنسے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دندان مبارک ظاہر ہوگئے، میں نے اس کی وجہ پوچھی تو فرمایا اس آدمی کی حرکت کی وجہ سے۔
-
حَدَّثَنَا رَوْحٌ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ قَالَ سَمِعْتُ مُصْعَبَ بْنَ سَعْدٍ يُحَدِّثُ عَنْ أَبِيهِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ أَنَّهُ كَانَ يَأْمُرُ بِهَذَا الدُّعَاءِ وَيُحَدِّثُ بِهِ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ الْبُخْلِ وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ الْجُبْنِ وَأَعُوذُ بِكَ أَنْ أُرَدَّ إِلَى أَرْذَلِ الْعُمُرِ وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ فِتْنَةِ الدُّنْيَا وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ-
مصعب کہتے ہیں کہ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ ان پانچ کلمات کی تاکید فرماتے تھے اور انہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے بیان کرتے تھے کہ اے اللہ! میں بخل اور کنجوسی سے آپ کی پناہ میں آتا ہوں ، میں بزدلی سے آپ کی پناہ میں آتا ہوں، میں گھٹیا عمر کی طرف لوٹائے جانے سے آپ کی پناہ میں آتا ہوں ، دنیا کی آزمائش سے آپ کی پناہ میں آتا ہوں اور عذاب قبر سے آپ کی پناہ مانگتا ہوں ۔
-
حَدَّثَنَا حُجَيْنُ بْنُ الْمُثَنَّي وَأَبُو سَعِيدٍ قَالَا حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ قَالَ أَبُو سَعِيدٍ قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ عَنْ أَبِيهِ أَنَّهُ حَلَفَ بِاللَّاتِ وَالْعُزَّى فَقَالَ لَهُ أَصْحَابُهُ قَدْ قُلْتَ هُجْرًا فَأَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ إِنَّ الْعَهْدَ كَانَ حَدِيثًا وَإِنِّي حَلَفْتُ بِاللَّاتِ وَالْعُزَّى فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُلْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ ثَلَاثًا وَاتْفُلْ عَنْ شِمَالِكَ ثَلَاثًا وَتَعَوَّذْ بِاللَّهِ مِنْ الشَّيْطَانِ وَلَا تَعُدْ-
حضرت سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے لات اور عزی کی قسم کھالی، میرے ساتھیوں نے مجھ سے کہا کہ تم نے بے ہودہ بات کہی، میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ میں نے ابھی نیانیا اسلام قبول کیا ہے، میری زبان سے لات اور عزی کے نام کی قسم نکل گئی ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تین مرتبہ یہ کہہ لو " لاالہ الا اللہ وحدہ " اور بائیں جانب تین مرتبیہ تھتکار دو، اور اعوذباللہ پڑھ لو، اور آئندہ ایسے مت کہنا۔
-
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ حَدَّثَنَا أُسَامَةُ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ابْنِ لَبِيبَةَ أَنَّ سَعْدَ بْنَ مَالِكٍ قَالَ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ خَيْرُ الذِّكْرِ الْخَفِيُّ وَخَيْرُ الرِّزْقِ مَا يَكْفِي-
حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا بہترین ذکر وہ ہے جو خفی ہو اور بہترین رزق وہ ہے جو کفایت کر سکے۔
-
حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ سُلَيْمَانُ حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ صَالِحِ بْنِ كَيْسَانَ حَدَّثَنَا ابْنُ شِهَابٍ عَنْ عَبْدِ الْحَمِيدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سَعْدٍ عَنْ أَبِيهِ قَالَ اسْتَأْذَنَ عُمَرُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعِنْدَهُ جَوَارٍ قَدْ عَلَتْ أَصْوَاتُهُنَّ عَلَى صَوْتِهِ فَأَذِنَ لَهُ فَبَادَرْنَ فَذَهَبْنَ فَدَخَلَ عُمَرُ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَضْحَكُ فَقَالَ عُمَرُ أَضْحَكَ اللَّهُ سِنَّكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي قَالَ قَدْ عَجِبْتُ لِجَوَارٍ كُنَّ عِنْدِي فَلَمَّا سَمِعْنَ حِسَّكَ بَادَرْنَ فَذَهَبْنَ فَأَقْبَلَ عَلَيْهِنَّ فَقَالَ أَيْ عَدُوَّاتِ أَنْفُسِهِنَّ وَاللَّهِ لَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كُنْتُنَّ أَحَقَّ أَنْ تَهَبْنَ مِنِّي فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَعْهُنَّ عَنْكَ يَا عُمَرُ فَوَاللَّهِ إِنْ لَقِيَكَ الشَّيْطَانُ بِفَجٍّ قَطُّ إِلَّا أَخَذَ فَجًّا غَيْرَ فَجِّكَ آخِرُ حَدِيثِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ-
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے گھر میں داخل ہونے کی اجازت طلب کی، اس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس قریش کی کچھ عورتیں بیٹھی ہوئی باتیں کر رہی تھیں اور ان کی آوازیں اونچی ہو رہی تھیں، لیکن جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اندر آنے کی اجازت ملی تو ان سب نے جلدی جلدی اپنے دوپٹے سنبھال لیے، جب وہ اندر آئے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم مسکرا رہے تھے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! صلی اللہ علیہ وسلم اللہ آپ کو اسی طرح ہنستا مسکراتا ہوا رکھے، میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے تو تعجب ان عورتوں پر ہے جو پہلے میرے پاس بیٹھی ہوئی تھیں، لیکن جیسے ہی انہوں نے تمہاری آواز سنی جلدی سے پردہ کر لیا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا اے اپنی جان کی دشمن عورتو! بخدا! نبی صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے زیادہ اس بات کے حقدار ہیں کہ تم ان سے ڈرو، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عمر! انہیں چھوڑ دو کیونکہ خدا کی قسم! شیطان جب تمہیں کسی راستے سے گذرتا ہوا دیکھ لیتا ہے، تو اس راستے کو چھوڑ کر دوسرا راستہ اختیار کر لیتا ہے ۔
-