وفد عبدالقیس کی احادیث

حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ قَالَ حَدَّثَنَا يُونُسُ قَالَ زَعَمَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي بَكْرَةَ قَالَ قَالَ أَشَجُّ بْنُ عَصَرٍ قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ فِيكَ خُلَّتَيْنِ يُحِبُّهُمَا اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ قُلْتُ مَا هُمَا قَالَ الْحِلْمُ وَالْحَيَاءُ قُلْتُ أَقَدِيمًا كَانَ فِيَّ أَمْ حَدِيثًا قَالَ بَلْ قَدِيمًا قُلْتُ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي جَبَلَنِي عَلَى خُلَّتَيْنِ يُحِبُّهُمَا-
حضرت اشج بن عصر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا تمہارے اندر دو خصلتیں ایسی ہیں جو اللہ تعالیٰ کو بہت پسند ہیں ، میں نے پوچھا وہ کون سی خصلتیں ہیں ؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا حلم اور حیا، میں نے پوچھا کہ یہ عادتیں مجھ میں شروع سے تھیں یا بعد میں پیدا ہوئی ہیں ؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا شروع سے ہیں ، میں نے شکر خداوندی ادا کرتے ہوئے کہا اس اللہ کا شکر ہے جس نے مجھے اپنی دو پسندیدہ خصلتوں پر پیدا کیا۔
-
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ قَالَ حَدَّثَنَا عَوْفٌ حَدَّثَنِي أَبُو الْقَمُوصِ زَيْدُ بْنُ عَلِيٍّ قَالَ حَدَّثَنِي أَحَدُ الْوَفْدِ الَّذِينَ وَفَدُوا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ عَبْدِ الْقَيْسِ قَالَ وَأَهْدَيْنَا لَهُ فِيمَا يُهْدَى نَوْطًا أَوْ قِرْبَةً مِنْ تَعْضُوضٍ أَوْ بَرْنِيٍّ فَقَالَ مَا هَذَا قُلْنَا هَذِهِ هَدِيَّةٌ قَالَ وَأَحْسِبُهُ نَظَرَ إِلَى تَمْرَةٍ مِنْهَا فَأَعَادَهَا مَكَانَهَا وَقَالَ أَبْلِغُوهَا آلَ مُحَمَّدٍ قَالَ فَسَأَلَهُ الْقَوْمُ عَنْ أَشْيَاءَ حَتَّى سَأَلُوهُ عَنْ الشَّرَابِ فَقَالَ لَا تَشْرَبُوا فِي دُبَّاءٍ وَلَا حَنْتَمٍ وَلَا نَقِيرٍ وَلَا مُزَفَّتٍ اشْرَبُوا فِي الْحَلَالِ الْمُوكَى عَلَيْهِ فَقَالَ لَهُ قَائِلُنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ وَمَا يُدْرِيكَ مَا الدُّبَّاءُ وَالْحَنْتَمُ وَالنَّقِيرُ وَالْمُزَفَّتُ قَالَ أَنَا لَا أَدْرِي مَا هِيَهْ أَيُّ هَجَرٍ أَعَزُّ قُلْنَا الْمُشَقَّرُ قَالَ فَوَاللَّهِ لَقَدْ دَخَلْتُهَا وَأَخَذْتُ إِقْلِيدَهَا قَالَ وَكُنْتُ قَدْ نَسِيتُ مِنْ حَدِيثِهِ شَيْئًا فَأَذْكَرَنِيهِ عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي جَرْوَةَ قَالَ وَقَفْتُ عَلَى عَيْنِ الزَّارَةِ ثُمَّ قَالَ اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِعَبْدِ الْقَيْسِ إِذْ أَسْلَمُوا طَائِعِينَ غَيْرَ كَارِهِينَ غَيْرَ خَزَايَا وَلَا مَوْتُورِينَ إِذْ بَعْضُ قَوْمِنَا لَا يُسْلِمُونَ حَتَّى يُخْزَوْا وَيُوتَرُوا قَالَ وَابْتَهَلَ وَجْهُهُ هَاهُنَا مِنْ الْقِبْلَةِ يَعْنِي عَنْ يَمِينِ الْقِبْلَةِ حَتَّى اسْتَقْبَلَ الْقِبْلَةَ ثُمَّ يَدْعُو لِعَبْدِ الْقَيْسِ ثُمَّ قَالَ إِنَّ خَيْرَ أَهْلِ الْمَشْرِقِ عَبْدُ الْقَيْسِ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ قَالَ حَدَّثَنَا عَوْفٌ عَنْ أَبِي الْقَمُوصِ قَالَ حَدَّثَنِي أَحَدُ الْوَفْدِ الَّذِينَ وَفَدُوا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِنْ لَا يَكُنْ قَالَ قَيْسَ بْنَ النُّعْمَانِ فَإِنِّي أُنْسِيتُ اسْمَهُ فَذَكَرَ الْحَدِيثَ قَالَ وَابْتَهَلَ حَتَّى اسْتَقْبَلَ الْقِبْلَةَ ثُمَّ يَدْعُو لِعَبْدِ الْقَيْسِ ثُمَّ قَالَ إِنَّ خَيْرَ أَهْلِ الْمَشْرِقِ نِسَاءً عَبْدُ الْقَيْسِ-
بنو عبدالقیس کے وفد میں شریک ایک صاحب بیان کرتے ہیں کہ ہم لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ہدایا میں تعضوض یا برنی کھجوروں کی ایک ٹوکری بھی لے کر آئے تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا یہ کیا ہے؟ ہم نے بتایا کہ یہ ہدیہ ہے، غالبا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے ایک کھجور نکال کر دیکھی پھر واپس رکھ کر فرمایا کہ یہ ٹوکری آل محمد کو پہنچا دو۔ لوگوں نے اس موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مختلف سوالات پوچھے تھے، جن میں سے ایک سوال پینے کے برتنوں سے متعلق بھی تھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دباء، حنتم، نقیر اور مزفت میں پانی یا نبیذ مت پیو، اس حلال برتن میں پیا کرو جس کا منہ بندھا ہوا ہو، ہم میں سے ایک شخص نے کہا یا رسول اللہ ! صلی اللہ علیہ وسلم کیا آپ کو معلوم ہے کہ دباء حنتم نقیر اور مزفت کیا ہوتے ہیں ؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے خوب اچھی طرح معلوم ہیں کہ وہ کیسے برتن ہوتے ہیں ، یہ بتاؤ کہ ہجر کا کون سا علاقہ سب سے زیادہ معزز ہے؟ ہم نے کہا شقر، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بخدا! میں اس میں داخل ہوا ہوں اور اس کی کنجی بھی پکڑی ہے۔ راوی کہتے ہیں کہ میں اس حدیث کا کچھ حصہ بھول گیا تھا، بعد میں عبیداللہ بن ابی جروہ نے یاد دلایا کہ میں عین زارہ پر کھڑا ہوا تھا، پھر فرمایا اے اللہ! عبدالقیس کی مغفرت فرما کہ یہ رضا مندی سے کسی کے جبر کے بغیر مسلمان ہوگئے ہیں ، اب یہ شرمندہ ہوں گے اور نہ ہی ہلاک، جبکہ ہماری قوم کے کچھ لوگ اس وقت تک مسلمان نہیں ہوتے جب تک رسوا اور ہلاک نہ ہو جائیں پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چہرے کا رخ موڑتے ہوئے قبلہ کی جانب کیا اور فرمایا اہل مشرق میں سب سے بہترین لوگ بنو عبدالقیس ہیں ۔ گذشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔
-
حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْعَصَرِيُّ قَالَ حَدَّثَنَا شِهَابُ بْنُ عَبَّادٍ أَنَّهُ سَمِعَ بَعْضَ وَفْدِ عَبْدِ الْقَيْسِ وَهُوَ يَقُولُ قَدِمْنَا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاشْتَدَّ فَرَحُهُمْ بِنَا فَلَمَّا انْتَهَيْنَا إِلَى الْقَوْمِ أَوْسَعُوا لَنَا فَقَعَدْنَا فَرَحَّبَ بِنَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَدَعَا لَنَا ثُمَّ نَظَرَ إِلَيْنَا فَقَالَ مَنْ سَيِّدُكُمْ وَزَعِيمُكُمْ فَأَشَرْنَا جَمِيعًا إِلَى الْمُنْذِرِ بْنِ عَائِذٍ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَهَذَا الْأَشَجُّ فَكَانَ أَوَّلَ يَوْمٍ وُضِعَ عَلَيْهِ هَذَا الِاسْمُ لِضَرْبَةٍ بِوَجْهِهِ بِحَافِرِ حِمَارٍ فَقُلْنَا نَعَمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ فَتَخَلَّفَ بَعْدَ الْقَوْمِ فَعَقَلَ رَوَاحِلَهُمْ وَضَمَّ مَتَاعَهُمْ ثُمَّ أَخْرَجَ عَيْبَتَهُ فَأَلْقَى عَنْهُ ثِيَابَ السَّفَرِ وَلَبِسَ مِنْ صَالِحِ ثِيَابِهِ ثُمَّ أَقْبَلَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَدْ بَسَطَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رِجْلَهُ وَاتَّكَأَ فَلَمَّا دَنَا مِنْهُ الْأَشَجُّ أَوْسَعَ الْقَوْمُ لَهُ وَقَالُوا هَاهُنَا يَا أَشَجُّ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَاسْتَوَى قَاعِدًا وَقَبَضَ رِجْلَهُ هَاهُنَا يَا أَشَجُّ فَقَعَدَ عَنْ يَمِينِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَاسْتَوَى قَاعِدًا فَرَحَّبَ بِهِ وَأَلْطَفَهُ ثُمَّ سَأَلَ عَنْ بِلَادِهِ وَسَمَّى لَهُ قَرْيَةَ الصَّفَا وَالْمُشَقَّرِ وَغَيْرَ ذَلِكَ مِنْ قُرَى هَجَرَ فَقَالَ بِأَبِي وَأُمِّي يَا رَسُولَ اللَّهِ لَأَنْتَ أَعْلَمُ بِأَسْمَاءِ قُرَانَا مِنَّا فَقَالَ إِنِّي قَدْ وَطِئْتُ بِلَادَكُمْ وَفُسِحَ لِي فِيهَا قَالَ ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَى الْأَنْصَارِ فَقَالَ يَا مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ أَكْرِمُوا إِخْوَانَكُمْ فَإِنَّهُمْ أَشْبَاهُكُمْ فِي الْإِسْلَامِ وَأَشْبَهُ شَيْءٍ بِكُمْ شِعَارًا وَأَبْشَارًا أَسْلَمُوا طَائِعِينَ غَيْرَ مُكْرَهِينَ وَلَا مَوْتُورِينَ إِذْ أَبَى قَوْمٌ أَنْ يُسْلِمُوا حَتَّى قُتِلُوا فَلَمَّا أَنْ قَالَ كَيْفَ رَأَيْتُمْ كَرَامَةَ إِخْوَانِكُمْ لَكُمْ وَضِيَافَتَهُمْ إِيَّاكُمْ قَالُوا خَيْرَ إِخْوَانٍ أَلَانُوا فَرْشَنَا وَأَطَابُوا مَطْعَمَنَا وَبَاتُوا وَأَصْبَحُوا يُعَلِّمُونَنَا كِتَابَ رَبِّنَا وَسُنَّةَ نَبِيِّنَا فَأُعْجِبَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَفَرِحَ بِهَا ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَيْنَا رَجُلًا رَجُلًا يَعْرِضُنَا عَلَى مَا تَعَلَّمْنَا وَعَلِمْنَا فَمِنَّا مَنْ تَعَلَّمَ التَّحِيَّاتِ وَأُمَّ الْكِتَابِ وَالسُّورَةَ وَالسُّورَتَيْنِ وَالسُّنَّةَ وَالسُّنَّتَيْنِ ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَيْنَا بِوَجْهِهِ فَقَالَ هَلْ مَعَكُمْ مِنْ أَزْوَادِكُمْ شَيْءٌ فَفَرِحَ الْقَوْمُ بِذَلِكَ وَابْتَدَرُوا رِحَالَهُمْ فَأَقْبَلَ كُلُّ رَجُلٍ مَعَهُ صُبْرَةٌ مِنْ تَمْرٍ فَوَضَعَهَا عَلَى نِطْعٍ بَيْنَ يَدَيْهِ وَأَوْمَأَ بِجَرِيدَةٍ فِي يَدِهِ كَانَ يَخْتَصِرُ بِهَا فَوْقَ الذِّرَاعِ وَدُونَ الذِّرَاعَيْنِ فَقَالَ أَتُسَمُّونَ هَذَا التَّعْضُوضَ قُلْنَا نَعَمْ ثُمَّ أَوْمَأَ إِلَى صُبْرَةٍ أُخْرَى فَقَالَ أَتُسَمُّونَ هَذَا الصَّرَفَانَ قُلْنَا نَعَمْ ثُمَّ أَوْمَأَ إِلَى صُبْرَةٍ فَقَالَ أَتُسَمُّونَ هَذَا الْبَرْنِيَّ فَقُلْنَا نَعَمْ قَالَ أَمَا إِنَّهُ خَيْرُ تَمْرِكُمْ وَأَنْفَعُهُ لَكُمْ قَالَ فَرَجَعْنَا مِنْ وِفَادَتِنَا تِلْكَ فَأَكْثَرْنَا الْغَرْزَ مِنْهُ وَعَظُمَتْ رَغْبَتُنَا فِيهِ حَتَّى صَارَ عُظْمَ نَخْلِنَا وَتَمْرِنَا الْبَرْنِيُّ قَالَ فَقَالَ الْأَشَجُّ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ أَرْضَنَا أَرْضٌ ثَقِيلَةٌ وَخِمَةٌ وَإِنَّا إِذَا لَمْ نَشْرَبْ هَذِهِ الْأَشْرِبَةَ هِيجَتْ أَلْوَانُنَا وَعَظُمَتْ بُطُونُنَا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا تَشْرَبُوا فِي الدُّبَّاءِ وَالْحَنْتَمِ وَالنَّقِيرِ وَلْيَشْرَبْ أَحَدُكُمْ فِي سِقَائِهِ يُلَاثُ عَلَى فِيهِ فَقَالَ لَهُ الْأَشَجُّ بِأَبِي وَأُمِّي يَا رَسُولَ اللَّهِ رَخِّصْ لَنَا فِي هَذِهِ فَأَوْمَأَ بِكَفَّيْهِ وَقَالَ يَا أَشَجُّ إِنْ رَخَّصْتُ لَكُمْ فِي مِثْلِ هَذِهِ وَقَالَ بِكَفَّيْهِ هَكَذَا شَرِبْتَهُ فِي مِثْلِ هَذِهِ وَفَرَّجَ يَدَيْهِ وَبَسَطَهَا يَعْنِي أَعْظَمَ مِنْهَا حَتَّى إِذَا ثَمِلَ أَحَدُكُمْ مِنْ شَرَابِهِ قَامَ إِلَى ابْنِ عَمِّهِ فَهَزَرَ سَاقَهُ بِالسَّيْفِ وَكَانَ فِي الْوَفْدِ رَجُلٌ مِنْ بَنِي عَصَرٍ يُقَالُ لَهُ الْحَارِثُ قَدْ هُزِرَتْ سَاقُهُ فِي شُرْبٍ لَهُمْ فِي بَيْتٍ تَمَثَّلَهُ مِنْ الشِّعْرِ فِي امْرَأَةٍ مِنْهُمْ فَقَامَ بَعْضُ أَهْلِ ذَلِكَ الْبَيْتِ فَهَزَرَ سَاقَهُ بِالسَّيْفِ قَالَ فَقَالَ الْحَارِثُ لَمَّا سَمِعْتُهَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَعَلْتُ أُسْدِلُ ثَوْبِي لِأُغَطِّيَ الضَّرْبَةَ بِسَاقِي وَقَدْ أَبْدَاهَا اللَّهُ لِنَبِيِّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-
وفد عبدالقیس کے کچھ لوگ بیان کرتے ہیں کہ ہم لوگ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو ان کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ ہی نہیں رہا، جب ہم لوگوں کے پاس گئے تو انہوں نے ہمارے لیے جگہ کشادہ کردی، ہم لوگ وہاں جا کر بیٹھ گئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں خوش آمدید کہا، ہمیں دعائیں دیں ، اور ہماری طرف دیکھ کر فرمایا کہ تمہارا سردار کون ہے؟ ہم سب نے منذر بن عائذ کی طرف اشارہ کر دیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا یہی اشج ہیں ؟ اصل میں ان کے چہرے پر گدھے کے کھر کی چوٹ کا نشان تھا، یہ پہلا دن تھا جب ان کا یہ نام پڑا، ہم نے عرض کیا! جی یا رسول اللہ! (صلی اللہ علیہ وسلم) اس کے بعد کچھ لوگ جو پیچھے رہ گئے تھے، انہوں نے اپنی سواریوں کو باندھا، سامان سمیٹا، پراگندگی کو دور کیا، سفر کے کپڑے اتارے، عمدہ کپڑے زیب تن کیے، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مبارک پاؤں پھیلا کر پیچھے ٹیک لگائی ہوئی تھی، جب اشج قریب پہنچے تو لوگوں نے ان کے لئے جگہ کشادہ کی اور کہا کہ اے اشج! یہاں تشریف لائیے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی سیدھے ہو کر بیٹھ گئے اور پاؤں سمیٹ لئے اور فرمایا اشج! یہاں آؤ، چنانچہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دائیں جانب جا کر بیٹھ گئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں خوش آمدید کہا، اورا ن کے ساتھ لطف وکرم سے پیش آئے، اور ان کے شہروں کے متعلق دریافت فرمایا اور ایک ایک بستی مثلا صفا، مشقر وغیرہ دیگر بستیوں کے نام لیے، انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! (صلی اللہ علیہ وسلم) میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں ، آپ کو تو ہماری بستویں کے نام ہم سے بھی زیادہ اچھی طرح معلوم ہیں ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں تمہارے علاقوں میں گیا ہوا ہوں اور وہاں میرے ساتھ کشادگی کا معاملہ رہا ہے۔ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا اے گروہ انصار! اپنے بھائیوں کا اکرام کرو، کہ یہ اسلام میں تمہاے مشابہہ ہیں ، ملاقات اور خوشخبری میں تمہارے سب سے زیادہ مشابہہ ہیں ، یہ لوگ اپنی رغبت سے بلا کسی جبر واکرام یا ظلم کے اس وقت اسلام لائے ہیں جبکہ دوسرے لوگوں نے اسلام لانے سے انکار کر دیا اور قتل ہوگئے۔ اگلے دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا کہ تم نے اپنے بھائیوں کا اکرام اور میزبانی کا طریقہ کیسا پایا؟ انہوں نے جواب دیا کہ یہ لوگ بہترین بھائی ثابت ہوئے ہیں ، انہوں نے ہمیں نرم گرم بستر مہیا کیے، بہترین کھانا کھلایا اور صبح وشام ہمیں اپنے رب کی کتاب اور اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سکھاتے رہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم یہ سن کر بہت خوش ہوئے، پھر ہم سب کی طرف فردا فردا متوجہ ہوئے اور ہم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے وہ چیزیں پیش کیں جو ہم نے سیکھی تھیں ، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ہمیں کچھ باتیں سکھائیں ، ہم میں سے بعض لوگ وہ بھی تھے جنہوں نے التحیات، سورت فاتحہ، ایک دو سورتیں اور کچھ سنتیں سیکھی تھیں ۔ اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہماری طرف متوجہ ہو کر فرمایا کہ کیا تم لوگوں کے پاس زاد راہ ہے؟ لوگ خوشی سے اپنے اپنے خیموں کی طرف دوڑے اور ہر آدمی اپنے ساتھ کھجوروں کی تھیلی لے آیا، اور لا کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک دستر خوان پر رکھ دیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دست مبارک سے جو چھڑی پکڑی ہوئی تھی اور کبھی کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے اپنی کوکھ میں چبھاتے تھے جو ایک گز سے لمبی اور دو گز سے چھوٹی تھی سے اشارہ کر کے فرمایا کیا تم اسے تعضوض کہتے ہو؟ ہم نے عرض کیا جی ہاں ! پھر دوسری تھیلی کی طرف اشارہ کر کے فرمایا کیا تم اسے برنی کہتے ہو؟ ہم نے عرض کیا جی ہاں ! نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ سب سے زیادہ بہترین اور فائدہ مند کھجور ہے۔ ہم اپنا وہ کھانا لے کر واپس آئے تو ہم نے سوچا کہ اب سب سے زیادہ اسے اگائیں گے اور اس سلسلے میں ہماری رغبت میں اضافہ ہوگیا، حتی کہ ہمارے اکثر باغات میں برنی کھجور لگنے لگی، اسی دوران اشج کہنے لگے یا رسول اللہ! (صلی اللہ علیہ وسلم) ہمارا علاقہ بنجر اور شور علاقہ ہے، اگر ہم یہ مشروبات پئیں تو ہمارے رنگ بدل جائیں اور پیٹ بڑھ جائیں ؟ حنتم اور نقیر کچھ نہ پیا کرو، بلکہ تمہیں اپنے مشکیزے سے پینا چاہئے۔ اشج کہنے لگے یا رسول اللہ! (صلی اللہ علیہ وسلم) میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں ، ہمیں اتنی مقدار کی (دونوں ہاتھوں کی ہتھیلیوں سے اشارہ کر کے کہا) اجازت دے دیں ؟ نبی صلی اللہ علیہ نے بھی اپنے ہاتھوں کی ہتھیلیوں سے اشارہ کر کے فرمایا اگر میں تمہیں اتنی مقدار کی اجازت دے دوں تو تم اتنی مقدار پینے لگو گے، یہ کہہ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھوں کو کشادہ کیا، مطلب یہ تھا کہ اس مقدار سے آگے نکل جاؤ گے، حتی کہ جب تم میں سے کوئی شخص نشے سے مدہوش ہوجائے تو اپنے ہی چچا زاد کی طرف بڑھ کر تلوار سے اس کی پنڈلی کاٹ دے گا۔ دراصل اس وفد میں ایک آدمی بھی تھا، جس کا تعلق بنو عصر سے تھا اور اس کا نام حارث تھا، اس کی پنڈلی ایسے ہی ایک موقع پر کٹ گئی تھی جبکہ انہوں نے ایک گھر میں اپنے ہی قبیلے کی ایک عورت کے متعلق اشعار کہتے ہوئے شراب پی تھی۔ اور اسی دوران اہل خانہ میں سے ایک شخص نے نشے سے مدہوش ہو کر اس کی پنڈلی کاٹ ڈالی تھی، حارث کا کہنا ہے کہ جب میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ سے یہ جملہ سنا تو میں اپنی پنڈلی پر کپڑا ڈال کر اسے چھپانے کی کوشش کرنے لگا جسے اللہ نے ظاہر کر دیا تھا۔
-
حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْعُمَرِيُّ قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو سَهْلٍ عَوْفُ بْنُ أَبِي جَمِيلَةَ عَنْ زَيْدٍ أَبِي الْقَمُوصِ عَنْ وَفْدِ عَبْدِ الْقَيْسِ أَنَّهُمْ سَمِعُوا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ اللَّهُمَّ اجْعَلْنَا مِنْ عِبَادِكَ الْمُنْتَخَبِينَ الْغُرِّ الْمُحَجَّلِينَ الْوَفْدِ الْمُتَقَبَّلِينَ قَالَ فَقَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا عِبَادُ اللَّهِ الْمُنْتَخَبُونَ قَالَ عِبَادُ اللَّهِ الصَّالِحُونَ قَالُوا فَمَا الْغُرُّ الْمُحَجَّلُونَ قَالَ الَّذِينَ يَبْيَضُّ مِنْهُمْ مَوَاضِعُ الطُّهُورِ قَالُوا فَمَا الْوَفْدُ الْمُتَقَبَّلُونَ قَالَ وَفْدٌ يَفِدُونَ مِنْ هَذِهِ الْأُمَّةِ مَعَ نَبِيِّهِمْ إِلَى رَبِّهِمْ عَزَّ وَجَلَّ-
وفد عبدالقیس کے لوگ کہتے ہیں کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اے اللہ! ہمیں اپنے منتخب غیر محجل اور وفد متقبل میں شمار فرما، لوگوں نے پوچھا یا رسول اللہ! (صلی اللہ علیہ وسلم) اللہ کے منتخب بندوں سے کیا مراد ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ کے نیک بندے مراد ہیں ، لوگوں نے پوچھا یا رسول اللہ! (صلی اللہ علیہ وسلم) غیر محجل بندوں سے کیا مراد ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جن کے اعضاء وضو چمک رہے ہوں گے، لوگوں نے پوچھا یا رسول اللہ! (صلی اللہ علیہ وسلم) وفد متقبل کے بندوں سے کیا مراد ہے ؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس امت کے وہ لوگ جو اپنے نبی کے ساتھ اللہ کی بارگاہ میں وفد کی صورت میں حاضر ہوں گے۔
-