حضرت عمر فاروق عنہ کی مرویات

حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ عَنْ حَارِثَةَ قَالَ جَاءَ نَاسٌ مِنْ أَهْلِ الشَّامِ إِلَى عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَقَالُوا إِنَّا قَدْ أَصَبْنَا أَمْوَالًا وَخَيْلًا وَرَقِيقًا نُحِبُّ أَنْ يَكُونَ لَنَا فِيهَا زَكَاةٌ وَطَهُورٌ قَالَ مَا فَعَلَهُ صَاحِبَايَ قَبْلِي فَأَفْعَلَهُ وَاسْتَشَارَ أَصْحَابَ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَفِيهِمْ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَقَالَ عَلِيٌّ هُوَ حَسَنٌ إِنْ لَمْ يَكُنْ جِزْيَةً رَاتِبَةً يُؤْخَذُونَ بِهَا مِنْ بَعْدِكَ-
حارثہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ شام کے کچھ لوگ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے، اور کہنے لگے کہ ہمیں کچھ مال ودولت، گھوڑے اور غلام ملے ہیں، ہماری خواہش ہے کہ ہمارے لیے اس میں پاکیزگی اور تزکیہ نفس کا سامان پیدا ہوجائے، حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ مجھ سے پہلے میرے دو پیشرو جس طرح کرتے تھے میں بھی اسی طرح کروں گا، پھر انہوں نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مشورہ کیا، ان میں حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی موجود تھے ، وہ فرمانے لگے کہ یہ مال حلال ہے، لیکن شرط یہ ہے کہ اسے ٹیکس نہ بنالیں کہ بعد میں بھی لوگوں سے وصول کرتے رہیں ۔
-
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ قَالَ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنِ الْحَكَمِ عَنْ أَبِي وَائِلٍ أَنَّ الصُّبَيَّ بْنَ مَعْبَدٍ كَانَ نَصْرَانِيًّا تَغْلِبِيًّا أَعْرَابِيًّا فَأَسْلَمَ فَسَأَلَ أَيُّ الْعَمَلِ أَفْضَلُ فَقِيلَ لَهُ الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ فَأَرَادَ أَنْ يُجَاهِدَ فَقِيلَ لَهُ حَجَجْتَ فَقَالَ لَا فَقِيلَ حُجَّ وَاعْتَمِرْ ثُمَّ جَاهِدْ فَانْطَلَقَ حَتَّى إِذَا كَانَ بِالْحَوَابِطِ أَهَلَّ بِهِمَا جَمِيعًا فَرَآهُ زَيْدُ بْنُ صُوحَانَ وَسَلْمَانُ بْنُ رَبِيعَةَ فَقَالَا لَهُوَ أَضَلُّ مِنْ جَمَلِهِ أَوْ مَا هُوَ بِأَهْدَى مِنْ نَاقَتِهِ فَانْطَلَقَ إِلَى عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَأَخْبَرَهُ بِقَوْلِهِمَا فَقَالَ هُدِيتَ لِسُنَّةِ نَبِيِّكَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ الْحَكَمُ فَقُلْتُ لِأَبِي وَائِلٍ حَدَّثَكَ الصُّبَيُّ فَقَالَ نَعَمْ-
حضرت ابووائل کہتے ہیں کہ صبی بن معبد ایک دیہاتی قبیلہ بنو تغلب کے عیسائی تھے جنہوں نے اسلام قبول کرلیا، انہوں نے لوگوں سے پوچھا کہ سب سے افضل عمل کون سا ہے؟ لوگوں نے بتایا راہ خدا میں جہاد کرنا، چنانچہ انہوں نےجہاد کا ارادہ کرلیا، اسی اثناء میں کسی نے ان سے پوچھاکہ آپ نے حج کیا ہے؟ انہوں نے کہا نہیں! اس نے کہا آپ پہلے حج اور عمرہ کرلیں ، پھر جہاد میں شرکت کریں ۔ چنانچہ وہ حج کی نیت سے روانہ ہوگئے اور میقات پر پہنچ کر حج اور عمرہ دونوں کا احرام باندھ لیا، زید بن صوحان اور سلمان بن ربیعہ کو معلوم ہوا تو انہوں نے کہا یہ شخص اپنے اونٹ سے بھی زیادہ گمراہ ہے، صبی جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو زید اور سلمان نے جو کہا تھا، اس کے متعلق ان کی خدمت میں عرض کیا، حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ آپ کو اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ کی سنت پر رہنمائی نصیب ہوگئی۔ راوی حدیث کہتے ہیں کہ میں نے ابووائل سے پوچھا کہ یہ روایت آپ کو خود صبی نے سنائی ہے؟ انہوں نے اثبات میں جواب دیا۔
-
حَدَّثَنَا عَفَّانُ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ قَالَ سَمِعْتُ عَمْرَو بْنَ مَيْمُونٍ قَالَ صَلَّى بِنَا عُمَرُ بِجَمْعٍ الصُّبْحَ ثُمَّ وَقَفَ وَقَالَ إِنَّ الْمُشْرِكِينَ كَانُوا لَا يُفِيضُونَ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ وَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَالَفَهُمْ ثُمَّ أَفَاضَ قَبْلَ أَنْ تَطْلُعَ الشَّمْسُ-
عمرو بن میمون کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے ہمیں مزدلفہ میں فجر کی نماز پڑھائی، پھر وقوف کیا اور فرمایا کہ مشرکین طلوع آفتاب سے پہلے واپس نہیں جاتے تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا طریقہ اختیار نہیں کیا، اس کے بعد حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ مزدلفہ سے منی کی طرف طلوع آفتاب سے قبل ہی روانہ ہوگئے۔
-
حَدَّثَنَا عَفَّانُ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ زِيَادٍ قَالَ حَدَّثَنَا عَاصِمُ بْنُ كُلَيْبٍ قَالَ قَالَ أَبِي فَحَدَّثَنَا بِهِ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ وَمَا أَعْجَبَكَ مِنْ ذَلِكَ كَانَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ إِذَا دَعَا الْأَشْيَاخَ مِنْ أَصْحَابِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَعَانِي مَعَهُمْ فَقَالَ لَا تَتَكَلَّمْ حَتَّى يَتَكَلَّمُوا قَالَ فَدَعَانَا ذَاتَ يَوْمٍ أَوْ ذَاتَ لَيْلَةٍ فَقَالَ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ مَا قَدْ عَلِمْتُمْ فَالْتَمِسُوهَا فِي الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ وِتْرًا فَفِي أَيِّ الْوِتْرِ تَرَوْنَهَا-
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کو جب بڑے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بلاتے تو مجھے بھی ان کے ساتھ بلا لیتے اور مجھ سے فرماتے کہ جب تک یہ حضرات بات نہ کرلیں، تم کوئی بات نہ کرنا۔ اسی طرح ایک دن حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے ہمیں بلایا اور فرمایا کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لیلۃ القدر کے متعلق جو کچھ ارشاد فرمایا ہے، وہ آپ کے علم میں بھی ہے کہ شب قدر کو رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کیا کرو، یہ بتائیے کہ آپ کو آخری عشرے کی کس طاق رات میں شب قدر معلوم ہوتی ہے؟ (ظاہرہے کہ ہرصحابی کا جواب مختلف تھا، حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو میری رائے اچھی معلوم ہوئی)
-
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ قَالَ سَمِعْتُ عَاصِمَ بْنَ عَمْرٍو الْبَجَلِيَّ يُحَدِّثُ عَنْ رَجُلٍ مِنْ الْقَوْمِ الَّذِينَ سَأَلُوا عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ فَقَالُوا لَهُ إِنَّمَا أَتَيْنَاكَ نَسْأَلُكَ عَنْ ثَلَاثٍ عَنْ صَلَاةِ الرَّجُلِ فِي بَيْتِهِ تَطَوُّعًا وَعَنْ الْغُسْلِ مِنْ الْجَنَابَةِ وَعَنْ الرَّجُلِ مَا يَصْلُحُ لَهُ مِنْ امْرَأَتِهِ إِذَا كَانَتْ حَائِضًا فَقَالَ أَسُحَّارٌ أَنْتُمْ لَقَدْ سَأَلْتُمُونِي عَنْ شَيْءٍ مَا سَأَلَنِي عَنْهُ أَحَدٌ مُنْذُ سَأَلْتُ عَنْهُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ صَلَاةُ الرَّجُلِ فِي بَيْتِهِ تَطَوُّعًا نُورٌ فَمَنْ شَاءَ نَوَّرَ بَيْتَهُ وَقَالَ فِي الْغُسْلِ مِنْ الْجَنَابَةِ يَغْسِلُ فَرْجَهُ ثُمَّ يَتَوَضَّأُ ثُمَّ يُفِيضُ عَلَى رَأْسِهِ ثَلَاثًا وَقَالَ فِي الْحَائِضِ لَهُ مَا فَوْقَ الْإِزَارِ-
ایک مرتبہ کچھ لوگ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کرنے لگے کہ ہم آپ سے تین سوال پوچھنے کے لئے حاضر ہوئے ہیں ۔ (١) گھر میں نفلی نماز پڑھنے کا کیا حکم ہے؟ (٢) غسل جنابت کا کیاطریقہ ہے؟ (٣) اگر عورت ایام میں ہوں تو مرد کے لئے کہاں تک اجازت ہے؟ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ آپ لوگ بڑے عقلمند محسوس ہوتے ہیں، میں نے ان چیزوں سے متعلق جب سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا تھا، اس وقت سے لے کر آج تک مجھ سے کسی نے یہ سوال نہیں پوچھا جو آپ لوگوں نے پوچھاہے، اور فرمایا کہ انسان گھر میں جو نفلی نماز پڑھتا ہے تو وہ نور ہے اس لئے جو چاہے اپنے گھر کو منور کرلے، غسل جنابت کا طریقہ بیان کرتے ہوئے فرمایا پہلے اپنی شرمگاہ کو دھوئے، پھر وضو کرے اور پھر اپنے سر پر تین مرتبہ پانی ڈال کر حسب عادت غسل کرے اور ایام والی عورت کے متعلق فرمایا کہ ازار سے اوپر کاجتنا حصہ ہے، مرد اس سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔
-
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ عَنْ أَبِي النَّضْرِ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّهُ قَالَ رَأَيْتُ سَعْدَ بْنَ أَبِي وَقَّاصٍ يَمْسَحُ عَلَى خُفَّيْهِ بِالْعِرَاقِ حِينَ يَتَوَضَّأُ فَأَنْكَرْتُ ذَلِكَ عَلَيْهِ قَالَ فَلَمَّا اجْتَمَعْنَا عِنْدَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ لِي سَلْ أَبَاكَ عَمَّا أَنْكَرْتَ عَلَيَّ مِنْ مَسْحِ الْخُفَّيْنِ قَالَ فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لَهُ فَقَالَ إِذَا حَدَّثَكَ سَعْدٌ بِشَيْءٍ فَلَا تَرُدَّ عَلَيْهِ فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَمْسَحُ عَلَى الْخُفَّيْنِ-
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے عراق میں حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کو موزوں پر مسح کرتے ہوئے دیکھا جب کہ وہ وضو کر رہے تھے تو مجھے اس پر بڑا تعجب اور اچنبھا ہوا، بعد میں جب ہم حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی ایک مجلس میں اکٹھے ہوئے تو حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے مجھے سے فرمایا کہ آپ کو مسح علی الخفین کے بارے مجھ پر جو تعجب ہو رہا تھا، اس کے متعلق اپنے والد صاحب سے پوچھ لیجئے، میں نے ان کے سامنے سارا واقعہ ذکر کر دیا تو انہوں نے فرمایا کہ جب حضرت سعد رضی اللہ عنہ آپ کے سامنے کوئی حدیث بیان کریں تو آپ اس کی تردید مت کیا کریں، کیونکہ خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی مورزوں پر مسح فرماتے تھے۔
-
حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ مَعْرُوفٍ قَالَ حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ الْحَارِثِ عَنْ أَبِي النَّضْرِ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ مَسَحَ عَلَى الْخُفَّيْنِ وَأَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ سَأَلَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ ذَلِكَ فَقَالَ نَعَمْ إِذَا حَدَّثَكَ سَعْدٌ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْئًا فَلَا تَسْأَلْ عَنْهُ غَيْرَهُ-
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے موزوں پر مسح فرمایا ہے، بعد میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے والد حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے اس کے متعلق پوچھا تو انہوں نے فرمایا یہ بات صحیح ہے، جب حضرت سعد رضی اللہ عنہ آپ کے سامنے کوئی حدیث بیان کریں تو آپ اس کے متعلق کسی دوسرے سے نہ پوچھا کریں ۔
-
حَدَّثَنَا عَفَّانُ حَدَّثَنَا هَمَّامُ بْنُ يَحْيَى قَالَ حَدَّثَنَا قَتَادَةُ عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ الْغَطَفَانِيِّ عَنْ مَعْدَانَ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ الْيَعْمَرِيِّ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَامَ عَلَى الْمِنْبَرِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ ثُمَّ ذَكَرَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَذَكَرَ أَبَا بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ثُمَّ قَالَ رَأَيْتُ رُؤْيَا لَا أُرَاهَا إِلَّا لِحُضُورِ أَجَلِي رَأَيْتُ كَأَنَّ دِيكًا نَقَرَنِي نَقْرَتَيْنِ قَالَ وَذَكَرَ لِي أَنَّهُ دِيكٌ أَحْمَرُ فَقَصَصْتُهَا عَلَى أَسْمَاءَ بِنْتِ عُمَيْسٍ امْرَأَةِ أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا فَقَالَتْ يَقْتُلُكَ رَجُلٌ مِنْ الْعَجَمِ قَالَ وَإِنَّ النَّاسَ يَأْمُرُونَنِي أَنْ أَسْتَخْلِفَ وَإِنَّ اللَّهَ لَمْ يَكُنْ لِيُضَيِّعَ دِينَهُ وَخِلَافَتَهُ الَّتِي بَعَثَ بِهَا نَبِيَّهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَإِنْ يَعْجَلْ بِي أَمْرٌ فَإِنَّ الشُّورَى فِي هَؤُلَاءِ السِّتَّةِ الَّذِينَ مَاتَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ عَنْهُمْ رَاضٍ فَمَنْ بَايَعْتُمْ مِنْهُمْ فَاسْمَعُوا لَهُ وَأَطِيعُوا وَإِنِّي أَعْلَمُ أَنَّ أُنَاسًا سَيَطْعَنُونَ فِي هَذَا الْأَمْرِ أَنَا قَاتَلْتُهُمْ بِيَدِي هَذِهِ عَلَى الْإِسْلَامِ أُولَئِكَ أَعْدَاءُ اللَّهِ الْكُفَّارُ الضُّلَّالُ وَايْمُ اللَّهِ مَا أَتْرُكُ فِيمَا عَهِدَ إِلَيَّ رَبِّي فَاسْتَخْلَفَنِي شَيْئًا أَهَمَّ إِلَيَّ مِنْ الْكَلَالَةِ وَايْمُ اللَّهِ مَا أَغْلَظَ لِي نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي شَيْءٍ مُنْذُ صَحِبْتُهُ أَشَدَّ مَا أَغْلَظَ لِي فِي شَأْنِ الْكَلَالَةِ حَتَّى طَعَنَ بِإِصْبَعِهِ فِي صَدْرِي وَقَالَ تَكْفِيكَ آيَةُ الصَّيْفِ الَّتِي نَزَلَتْ فِي آخِرِ سُورَةِ النِّسَاءِ وَإِنِّي إِنْ أَعِشْ فَسَأَقْضِي فِيهَا بِقَضَاءٍ يَعْلَمُهُ مَنْ يَقْرَأُ وَمَنْ لَا يَقْرَأُ وَإِنِّي أُشْهِدُ اللَّهَ عَلَى أُمَرَاءِ الْأَمْصَارِ إِنِّي إِنَّمَا بَعَثْتُهُمْ لِيُعَلِّمُوا النَّاسَ دِينَهُمْ وَيُبَيِّنُوا لَهُمْ سُنَّةَ نَبِيِّهِمْ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَيَرْفَعُوا إِلَيَّ مَا عُمِّيَ عَلَيْهِمْ ثُمَّ إِنَّكُمْ أَيُّهَا النَّاسُ تَأْكُلُونَ مِنْ شَجَرَتَيْنِ لَا أُرَاهُمَا إِلَّا خَبِيثَتَيْنِ هَذَا الثُّومُ وَالْبَصَلُ وَايْمُ اللَّهِ لَقَدْ كُنْتُ أَرَى نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَجِدُ رِيحَهُمَا مِنْ الرَّجُلِ فَيَأْمُرُ بِهِ فَيُؤْخَذُ بِيَدِهِ فَيُخْرَجُ بِهِ مِنْ الْمَسْجِدِ حَتَّى يُؤْتَى بِهِ الْبَقِيعَ فَمَنْ أَكَلَهُمَا لَا بُدَّ فَلْيُمِتْهُمَا طَبْخًا قَالَ فَخَطَبَ النَّاسَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ وَأُصِيبَ يَوْمَ الْأَرْبِعَاءِ-
ایک مرتبہ حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ جمعہ کے دن منبر پر خطبہ کے لئے تشریف لائے، اللہ کی حمدوثناء بیان کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا تذکرہ کیا، حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی یاد تازہ کی، پھر فرمانے لگے کہ میں نے ایک خواب دیکھا ہے اور مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میری دنیا سے رخصتی کا وقت قریب آگیاہے، میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ ایک مرغے نے مجھے دو مرتبہ ٹھونگ ماری ہے، مجھے یاد پڑتا ہے کہ وہ مرغ سرخ رنگ کا تھا، میں نے یہ خواب حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی زوجہ محترمہ حضرت اسماء بنت بنت عمیس رضی اللہ عنہا سے ذکر کیا تو انہوں نے اس کی تعبیر یہ بتائی کہ آپ کو ایک عجمی شخص شہید کردے گا۔ پھر فرمایا کہ لوگ مجھ سے یہ کہہ رہے ہیں کہ میں اپنا خلیفہ مقرر کردوں، اتنی بات تو طے ہے کہ اللہ اپنے دین کو ضائع کرے گا اور نہ ہی اس خلافت کو جس کے ساتھ اللہ نے اپنے پیغمبر کو مبعوث فرمایا تھا، اب اگر میرا فیصلہ جلد ہوگیا تو میں مجلس شوریٰ ان چھ افراد کی مقرر کر رہاہوں جن سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم بوقت رحلت راضی ہو کر تشریف لے گئے تھے، جب تم ان میں سے کسی ایک کی بیعت کر لو تو ان کی بات سنو اور ان کی اطاعت کرو۔ میں جانتا ہوں کہ کچھ لوگ مسئلہ خلافت میں رخنہ ڈالنے کی کوشش کریں گے، بخدا! میں اپنے ان ہاتھوں سے اسلام کی مدافعت میں ان لوگوں سے قتال کرچکاہوں، یہ لوگ دشمنان خدا، کافر اور گمراہ ہیں، اللہ کی قسم! میں نے اپنے پیچھے کلالہ سے زیادہ اہم مسئلہ کوئی نہیں چھوڑا جس کا مجھ سے میرے رب نے وعدہ کیا ہو، اور اللہ کی قسم! نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اختیار کرنے کے بعد مجھے یاد نہیں پڑتا کہ کسی مسئلہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے ناراض ہوئے ہوں، سوائے کلالہ کے مسئلہ کے کہ اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم انتہائی سخت ناراض ہوئے تھے، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگلی میرے سینے پر رکھ کر فرمایا کہ تمہارے لیے اس مسئلے میں سورت نساء کی وہ آخری آیت " جو گرمی میں نازل ہوئی تھی" کافی ہے۔ اگر میں زندہ رہا تو اس مسئلہ کا ایساحل نکال کر جاؤں گا کہ اس آیت کو پڑھنے والے اور نہ پڑھنے والے سب ہی کے علم میں وہ حل آجائے، اور میں اللہ کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ میں نے مختلف شہروں میں جو امراء اور گورنر بھیجے ہیں وہ صرف اس لئے کہ لوگوں کو دین سکھائیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتیں لوگوں کے سامنے بیان کریں، اور میرے سامنے ان کے وہ مسائل پیش کریں جن کا ان کے پاس کوئی حل نہ ہو۔ لوگو! تم دو ایسے درختوں میں سے کھاتے ہو جنہیں میں گندہ سمجھتاہوں ایک لہسن اور دوسرا پیاز(کچا کھانے سے منہ میں بدبو پیدا ہوجاتی ہے) بخدا! میں نے دیکھاہے کہ اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی شخص کے منہ سے اس کی بدبو آتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم حکم دیتے اور اسے ہاتھ سے پکڑ کر مسجد سے باہر نکال دیا جاتا تھا اور یہی نہیں بلکہ اس کو جنت البقیع تک پہنچا کر لوگ واپس آتے، اگر کوئی شخص انہیں کھانا ہی چاہتا ہے تو پکا کر ان کی بو مار دے۔ راوی کہتے ہیں کہ جمعہ کو حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے یہ خطبہ ارشاد فرمایا اور بدھ کو آپ پر قاتلانہ حملہ ہوگیا۔
-
حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ حَدَّثَنَا أَبِي عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ قَالَ حَدَّثَنِي نَافِعٌ مَوْلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ قَالَ خَرَجْتُ أَنَا وَالزُّبَيْرُ والْمِقْدَادُ بْنُ الْأَسْوَدِ إِلَى أَمْوَالِنَا بِخَيْبَرَ نَتَعَاهَدُهَا فَلَمَّا قَدِمْنَاهَا تَفَرَّقْنَا فِي أَمْوَالِنَا قَالَ فَعُدِيَ عَلَيَّ تَحْتَ اللَّيْلِ وَأَنَا نَائِمٌ عَلَى فِرَاشِي فَفُدِعَتْ يَدَايَ مِنْ مِرْفَقِي فَلَمَّا أَصْبَحْتُ اسْتُصْرِخَ عَلَيَّ صَاحِبَايَ فَأَتَيَانِي فَسَأَلَانِي عَمَّنْ صَنَعَ هَذَا بِكَ قُلْتُ لَا أَدْرِي قَالَ فَأَصْلَحَا مِنْ يَدَيَّ ثُمَّ قَدِمُوا بِي عَلَى عُمَرَ فَقَالَ هَذَا عَمَلُ يَهُودَ ثُمَّ قَامَ فِي النَّاسِ خَطِيبًا فَقَالَ أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ عَامَلَ يَهُودَ خَيْبَرَ عَلَى أَنَّا نُخْرِجُهُمْ إِذَا شِئْنَا وَقَدْ عَدَوْا عَلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَفَدَعُوا يَدَيْهِ كَمَا بَلَغَكُمْ مَعَ عَدْوَتِهِمْ عَلَى الْأَنْصَارِ قَبْلَهُ لَا نَشُكُّ أَنَّهُمْ أَصْحَابُهُمْ لَيْسَ لَنَا هُنَاكَ عَدُوٌّ غَيْرَهُمْ فَمَنْ كَانَ لَهُ مَالٌ بِخَيْبَرَ فَلْيَلْحَقْ بِهِ فَإِنِّي مُخْرِجٌ يَهُودَ فَأَخْرَجَهُمْ-
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں، حضرت زبیر رضی اللہ عنہ اور حضرت مقداد بن اسودرضی اللہ عنہ کےساتھ خیبر میں اپنے اپنے مال کی دیکھ بھال کے سلسلے میں گیا ہوا تھا، جب ہم لوگ وہاں پہنچے تو ہر ایک اپنی اپنی زمین کی طرف چلا گیا، میں رات کے وقت اپنے بستر پر سو رہا تھا کہ مجھ پر کسی نے حلمہ کردیا، میرے دونوں ہاتھ اپنی کہنیوں سے ہل گئے، جب صبح ہوئی میرے دونوں ساتھیوں کو اس حادثے کی خبردی گئی، وہ آئے اور مجھ سے پوچھنے لگے کہ یہ کس نے کیا ہے؟ میں نے کہا کہ مجھے کچھ خبر نہیں ہے۔ انہوں نے میرے ہاتھ کی ہڈی کو صحیح جگہ پر بٹھایا اور مجھے لے کر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے پاس آگئے، انہوں نے فرمایا یہ یہودیوں کی ہی کارستانی ہے، اس کے بعد وہ لوگوں کے سامنے خطاب کےلئے کھڑے ہوئے اور فرمایا لوگو! نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کے یہودیوں کے ساتھ معاملہ اس شرط پر کیا تھا کہ ہم جب انہیں چاہیں گے، نکال سکیں گے، اب انہوں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ پر حملہ کیا ہے اور جیساکہ آپ کو معلوم ہوچکا ہے کہ انہوں نے اس کے ہاتھوں کے جوڑ ہلادئیے ہیں، جب کہ اس سے قبل وہ ایک انصاری کے ساتھ بھی ایسا ہی معاملہ کرچکے ہیں، ہمیں اس بات میں کوئی شک نہیں کہ یہ ان ہی کے ساتھی ہیں، ہمارا ان کے علاوہ یہاں کوئی دشمن نہیں ہے، اس لئے خیبر میں جس شخص کا بھی کوئی مال موجود ہو، وہ وہاں چلاجائے کیونکہ اب میں یہودیوں کو وہاں سے نکالنے والا ہوں، چنانچہ ایسا ہی ہوا اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے انہیں خیبر سے بے دخل کر کے نکال دیا۔
-
حَدَّثَنَا حَسَنُ بْنُ مُوسَى وَحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالَا حَدَّثَنَا شَيْبَانُ عَنْ يَحْيَى عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ بَيْنَا هُوَ يَخْطُبُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ إِذْ جَاءَ رَجُلٌ فَقَالَ عُمَرُ لِمَ تَحْتَبِسُونَ عَنْ الصَّلَاةِ فَقَالَ الرَّجُلُ مَا هُوَ إِلَّا أَنْ سَمِعْتُ النِّدَاءَ فَتَوَضَّأْتُ فَقَالَ أَيْضًا أَوَلَمْ تَسْمَعُوا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ إِذَا رَاحَ أَحَدُكُمْ إِلَى الْجُمُعَةِ فَلْيَغْتَسِلْ-
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ جمعہ کے دن خطبہ ارشاد فرما رہے تھے، دوران خطبہ ایک صاحب آئے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے پوچھا کہ نماز کے لئے آنے میں اتنی تاخیر؟ انہوں نے جواباً کہا کہ میں نے تو جیسے ہی اذان سنی، وضو کرتے ہی آگیا ہوں، حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا اچھا، کیا تم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے نہیں سنا ہے کہ جب تم میں سے کوئی شخص جمعہ کے لئے جائے تو اسے غسل کر لینا چاہیے۔
-
حَدَّثَنَا حَسَنُ بْنُ مُوسَى قَالَ حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ قَالَ حَدَّثَنَا عَاصِمٌ الْأَحْوَلُ عَنْ أَبِي عُثْمَانَ قَالَ جَاءَنَا كِتَابُ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَنَحْنُ بِأَذْرَبِيجَانَ يَا عُتْبَةَ بْنَ فَرْقَدٍ وَإِيَّاكُمْ وَالتَّنَعُّمَ وَزِيَّ أَهْلِ الشِّرْكِ وَلَبُوسَ الْحَرِيرِ فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَانَا عَنْ لَبُوسِ الْحَرِيرِ وَقَالَ إِلَّا هَكَذَا وَرَفَعَ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِصْبَعَيْهِ-
ابوعثمان کہتے ہیں کہ ہم آذربائیجان میں تھے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا ایک خط آگیا، جس میں لکھا تھا اے عتبہ بن فرقد! عیش پرستی، ریشمی لباس، اور مشرکین کے طریقوں کو اختیار کرنے سے اپنے آپ کو بچاتے رہنا اس لئے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ریشمی لباس پہننے سے منع فرمایا ہے سوائے اتنی مقدار کے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انگلی بلند کر کے دکھائی۔
-
حَدَّثَنَا حَسَنٌ قَالَ حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ حَدَّثَنَا أَبُو الْأَسْوَدِ أَنَّهُ سَمِعَ مُحَمَّدَ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ابْنِ لَبِيبَةَ يُحَدِّثُ عَنْ أَبِي سِنَانٍ الدُّؤَلِيِّ أَنَّهُ دَخَلَ عَلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَعِنْدَهُ نَفَرٌ مِنْ الْمُهَاجِرِينَ الْأَوَّلِينَ فَأَرْسَلَ عُمَرُ إِلَى سَفَطٍ أُتِيَ بِهِ مِنْ قَلْعَةٍ مِنْ الْعِرَاقِ فَكَانَ فِيهِ خَاتَمٌ فَأَخَذَهُ بَعْضُ بَنِيهِ فَأَدْخَلَهُ فِي فِيهِ فَانْتَزَعَهُ عُمَرُ مِنْهُ ثُمَّ بَكَى عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَقَالَ لَهُ مَنْ عِنْدَهُ لِمَ تَبْكِي وَقَدْ فَتَحَ اللَّهُ لَكَ وَأَظْهَرَكَ عَلَى عَدُوِّكَ وَأَقَرَّ عَيْنَكَ فَقَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ لَا تُفْتَحُ الدُّنْيَا عَلَى أَحَدٍ إِلَّا أَلْقَى اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ بَيْنَهُمْ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاءَ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ وَأَنَا أُشْفِقُ مِنْ ذَلِكَ-
ایک مرتبہ ابوسنان دؤلی رحمہ اللہ علیہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے، اس وقت مہاجرین اولین کی ایک جماعت ان کی خدمت میں موجود اور حاضر تھی، حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ایک بکس منگوایا جوان کے پاس عراق سے لایا گیا تھا، جب اسے کھولا گیا تو اس میں سے ایک انگوٹھی نکلی، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے کسی بیٹے پوتے نے وہ لے کر اپنے منہ میں ڈال لی، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس سے وہ واپس لے لی اور رونے لگے۔ حاضرین نے پوچھا کہ آپ کیوں روتے ہیں؟ جب کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اتنی فتوحات عطاء فرمائیں، دشمن پر آپ کو غلبہ عطاء فرمایا اور آپ کی آنکھوں کوٹھنڈا کیا؟ فرمایا میں نے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے جس شخص پر اللہ دنیا کا دروازہ کھول دیتا ہے، وہاں آپس میں قیامت تک کے لئے دشمنیاں اور نفرتیں ڈال دیتا ہے، مجھے اسی کا خطرہ ہے۔
-
حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ حَدَّثَنَا أَبِي عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ حَدَّثَنِي نَافِعٌ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ عَنْ أَبِيهِ قَالَ سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَيْفَ يَصْنَعُ أَحَدُنَا إِذَا هُوَ أَجْنَبَ ثُمَّ أَرَادَ أَنْ يَنَامَ قَبْلَ أَنْ يَغْتَسِلَ قَالَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِيَتَوَضَّأْ وُضُوءَهُ لِلصَّلَاةِ ثُمَّ لِيَنَمْ-
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا اگر ہم میں سے کوئی شخص ناپاک ہوجائے اور وہ غسل کرنے سے پہلے سونا چاہے تو کیا کرے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نماز والا وضو کر کے سوجائے۔
-
حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ حَدَّثَنَا أَبِي عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ حَدَّثَنِي الزُّهْرِيُّ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ بْنِ مَسْعُودٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَقُولُ لَمَّا تُوُفِّيَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُبَيٍّ دُعِيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلصَّلَاةِ عَلَيْهِ فَقَامَ إِلَيْهِ فَلَمَّا وَقَفَ عَلَيْهِ يُرِيدُ الصَّلَاةَ تَحَوَّلْتُ حَتَّى قُمْتُ فِي صَدْرِهِ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَعَلَى عَدُوِّ اللَّهِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أُبَيٍّ الْقَائِلِ يَوْمَ كَذَا كَذَا وَكَذَا يُعَدِّدُ أَيَّامَهُ قَالَ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَبَسَّمُ حَتَّى إِذَا أَكْثَرْتُ عَلَيْهِ قَالَ أَخِّرْ عَنِّي يَا عُمَرُ إِنِّي خُيِّرْتُ فَاخْتَرْتُ وَقَدْ قِيلَ اسْتَغْفِرْ لَهُمْ أَوْ لَا تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ إِنْ تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ سَبْعِينَ مَرَّةً فَلَنْ يَغْفِرَ اللَّهُ لَهُمْ لَوْ أَعْلَمُ أَنِّي إِنْ زِدْتُ عَلَى السَّبْعِينَ غُفِرَ لَهُ لَزِدْتُ قَالَ ثُمَّ صَلَّى عَلَيْهِ وَمَشَى مَعَهُ فَقَامَ عَلَى قَبْرِهِ حَتَّى فُرِغَ مِنْهُ قَالَ فَعَجَبٌ لِي وَجَرَاءَتِي عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَاللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ قَالَ فَوَاللَّهِ مَا كَانَ إِلَّا يَسِيرًا حَتَّى نَزَلَتْ هَاتَانِ الْآيَتَانِ وَلَا تُصَلِّ عَلَى أَحَدٍ مِنْهُمْ مَاتَ أَبَدًا وَلَا تَقُمْ عَلَى قَبْرِهِ إِنَّهُمْ كَفَرُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَمَاتُوا وَهُمْ فَاسِقُونَ فَمَا صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْدَهُ عَلَى مُنَافِقٍ وَلَا قَامَ عَلَى قَبْرِهِ حَتَّى قَبَضَهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ-
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی کا انتقال ہوگیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی نماز جنازہ پڑھانے کے لیے بلایا گیا ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم اٹھ کھڑے ہوئے، جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم جنازے کے پاس جا کر نماز پڑھانے کے لیے کھڑے ہوئے تو میں اپنی جگہ سے گھوم کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آکر کھڑا ہوگیا اور عرض کیا یا رسول اللہ! اس دشمن خدا عبداللہ بن ابی کی نماز جنازہ پڑھائیں گے جس نے فلاں دن یہ کہا تھا اور فلاں دن یہ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کی بکواسات گنوانا شروع کردیں ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مسکراتے رہے لیکن جب میں برابر اصرار کرتا ہی رہا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا عمر! پیچھے ہٹ جاؤ، مجھے اس بارے اختیار دیا گیا ہے، اور میں نے ایک شق کو ترجیح دے لی ہے، مجھ سے کہا گیا ہے کہ آپ ان کے لئے استغفار کریں یانہ کریں دونوں صورتیں برابر ہیں، اگر آپ ستر مرتبہ بھی ان کے لیے بخشش کی درخواست کریں گے تب بھی اللہ ان کی بخشش نہیں فرمائے گا، اگر مجھے معلوم ہوتا کہ ستر مرتبہ سے زیادہ استغفار کرنے پر اس کی مغفرت ہوجائے گی تو میں ستر سے زائد مرتبہ اس کے لئے استغفار کرتا۔ اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی نماز جنازہ پڑھائی، جنازے کے ساتھ گئے اور اس کی قبر پر کھڑے رہے تاآنکہ وہاں سے فراغت ہوگئی، مجھے خود پر اور اپنی جرات پر تعجب ہو رہا تھا، حالانکہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی زیادہ بہتر جانتے تھے، بخدا! ابھی تھوڑی دیر ہی گذری تھی کہ مندرجہ ذیل دو آیتیں نازل ہوگئیں ۔ " ان منافقین میں سے اگر کوئی مرجائے تو آپ کبھی اس کی نماز جنازہ نہ پڑھائیں اس کی قبر پہ کھڑے نہ ہوں، بیشک یہ لوگ تو اللہ اور اس کے رسول کے نافرمان ہیں، اور فسق کی حالت میں مرے ہیں۔ اس آیت کے نزول کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی منافق کی نماز جنازہ نہیں پڑھائی اور اسی طرح منافقین کی قبروں پر بھی کبھی نہیں کھڑے ہوئے۔
-
حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ حَدَّثَنَا أَبِي عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ كَمَا حَدَّثَنِي عَنْهُ نَافِعٌ مَوْلَاهُ قَالَ كَانَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَقُولُ إِذَا لَمْ يَكُنْ لِلرَّجُلِ إِلَّا ثَوْبٌ وَاحِدٌ فَلْيَأْتَزِرْ بِهِ ثُمَّ لِيُصَلِّ فَإِنِّي سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَقُولُ ذَلِكَ وَيَقُولُ لَا تَلْتَحِفُوا بِالثَّوْبِ إِذَا كَانَ وَحْدَهُ كَمَا تَفْعَلُ الْيَهُودُ قَالَ نَافِعٌ وَلَوْ قُلْتُ لَكُمْ إِنَّهُ أَسْنَدَ ذَلِكَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَرَجَوْتُ أَنْ لَا أَكُونَ كَذَبْتُ-
نافع کہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے تھے اگر کسی آدمی کے پاس صرف ایک ہی کپڑا ہو، وہ اسی کو تہبند کے طور پر باندھ لے اور نماز پڑھ لے، کیونکہ میں نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو اسی طرح فرماتے ہوئے سنا ہے، اور وہ یہ بھی فرماتے تھے کہ اگر ایک ہی کپڑا ہو تو اسے لحاف کی طرح مت لپیٹے جیسے یہودی کرتے ہیں، نافع کہتے ہیں کہ اگر میں یہ کہوں کہ انہوں نے اس کی نسبت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کی ہے تو امید ہے کہ میں جھوٹا نہیں ہوں گا۔
-
حَدَّثَنَا مُؤَمَّلٌ حَدَّثَنَا حَمَّادٌ قَالَ حَدَّثَنَا زِيَادُ بْنُ مِخْرَاقٍ عَنْ شَهْرٍ عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ قَالَ حَدَّثَنِي عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ مَنْ مَاتَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ قِيلَ لَهُ ادْخُلْ الْجَنَّةَ مِنْ أَيِّ أَبْوَابِ الْجَنَّةِ الثَّمَانِيَةِ شِئْتَ-
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص اس حال میں فوت ہو کہ وہ اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو اس سے کہا جائے گا کہ جنت کے آٹھ میں سے جس دروازے سے چاہے داخل ہوجاؤ۔
-
حَدَّثَنَا أَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ قَالَ أَخْبَرَنَا جَعْفَرٌ يَعْنِي الْأَحْمَرَ عَنْ مُطَرِّفٍ عَنِ الْحَكَمِ عَنْ مُجَاهِدٍ قَالَ حَذَفَ رَجُلٌ ابْنًا لَهُ بِسَيْفٍ فَقَتَلَهُ فَرُفِعَ إِلَى عُمَرَ فَقَالَ لَوْلَا أَنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ لَا يُقَادُ الْوَالِدُ مِنْ وَلَدِهِ لَقَتَلْتُكَ قَبْلَ أَنْ تَبْرَحَ-
مجاہد کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ایک شخص نے تلوار کے وار کر کے اپنے بیٹے کو مارڈالا، اسے پکڑ کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں پیش کیا گیا، انہوں نے فرمایا کہ میں نے اگر جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے نہ سنا ہوتا کہ والد سے اولاد کاقصاص نہیں لیا جائے گا تو میں تجھے بھی قتل کردیتا اور تو یہاں سے اٹھنے بھی نہ پاتا۔
-
حَدَّثَنَا أَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ قَالَ حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ عَنْ سُلَيْمَانَ الْأَعْمَشِ حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ عَنْ عَابِسِ بْنِ رَبِيعَةَ قَالَ رَأَيْتُ عُمَرَ نَظَرَ إِلَى الْحَجَرِ فَقَالَ أَمَا وَاللَّهِ لَوْلَا أَنِّي رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُقَبِّلُكَ مَا قَبَّلْتُكَ ثُمَّ قَبَّلَهُ-
عابس بن ربیعہ کہتے ہیں کہ میں نے ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ انہوں نے اپنی نظریں حجر اسود پر جما رکھی ہیں اور اس سے مخاطب ہو کر فرما رہے ہیں بخدا! اگر میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تیرا بوسہ لیتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو میں تجھے کبھی بوسہ نہ دیتا، یہ کہہ کر آپ نے اسے بوسہ دیا۔
-
حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ قَالَ أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ عَنِ الزُّهْرِيِّ قَالَ أَخْبَرَنَا السَّائِبُ بْنُ يَزِيدَ ابْنُ أُخْتِ نَمِرٍ أَنَّ حُوَيْطِبَ بْنَ عَبْدِ الْعُزَّى أَخْبَرَهُ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ السَّعْدِىِّ أَخْبَرَهُ أَنَّهُ قَدِمَ عَلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فِي خِلَافَتِهِ فَقَالَ لَهُ عُمَرُ أَلَمْ أُحَدَّثْ أَنَّكَ تَلِي مِنْ أَعْمَالِ النَّاسِ أَعْمَالًا فَإِذَا أُعْطِيتَ الْعُمَالَةَ كَرِهْتَهَا قَالَ فَقُلْتُ بَلَى فَقَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَمَا تُرِيدُ إِلَى ذَلِكَ قَالَ قُلْتُ إِنَّ لِي أَفْرَاسًا وَأَعْبُدًا وَأَنَا بِخَيْرٍ وَأُرِيدُ أَنْ تَكُونَ عُمَالَتِي صَدَقَةً عَلَى الْمُسْلِمِينَ فَقَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَلَا تَفْعَلْ فَإِنِّي قَدْ كُنْتُ أَرَدْتُ الَّذِي أَرَدْتَ فَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعْطِينِي الْعَطَاءَ فَأَقُولُ أَعْطِهِ أَفْقَرَ إِلَيْهِ مِنِّي حَتَّى أَعْطَانِي مَرَّةً مَالًا فَقُلْتُ أَعْطِهِ أَفْقَرَ إِلَيْهِ مِنِّي قَالَ فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خُذْهُ فَتَمَوَّلْهُ وَتَصَدَّقْ بِهِ فَمَا جَاءَكَ مِنْ هَذَا الْمَالِ وَأَنْتَ غَيْرُ مُشْرِفٍ وَلَا سَائِلٍ فَخُذْهُ وَمَا لَا فَلَا تُتْبِعْهُ نَفْسَكَ-
ایک مرتبہ عبداللہ بن سعد رحمہ اللہ علیہ خلافت فاروقی کے زمانے میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں دیکھ کر فرمایا کیا تم وہی ہو جس کے متعلق مجھے یہ بتایا گیا ہے کہ تمہیں عوام الناس کی کوئی ذمہ داری سونپی گئی ہے لیکن جب تمہیں اس کی تنخواہ دی جاتی ہے تو تم اسے لینے سے ناگواری کا اظہار کرتے ہو؟ عبداللہ کہتے ہیں میں نے عرض کیا جی ہاں ! ایسا ہی ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ اس سے تمہارا کیا مقصد ہے ؟ میں نے عرض کیا میرے پاس اللہ کے فضل سے گھوڑے اور غلام سب ہی کچھ ہے اور میں مالی اعتبار سے بھی صحیح ہوں اس لئے میری خواہش ہوتی ہے کہ میری تنخواہ مسلمانوں کے ہی کاموں میں استعمال ہوجائے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا ایسا مت کرو، کیونکہ ایک مرتبہ میں نے بھی یہی چاہاتا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم مجھے کچھ دینا چاہتے تو میں عرض کر دیتا کہ یا رسول اللہ! مجھ سے زیادہ جو محتاج لوگ ہیں، یہ انہیں دے دیجئے، اسی طرح ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے کچھ مال ودولت عطاء فرمایا، میں نے حسب سابق یہی عرض کیا کہ مجھ سے زیادہ کسی ضرورت مند کو دے دیجئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسے لے لو، اپنے مال میں اضافہ کرو، اس کے بعد صدقہ کردو، اور یاد رکھو! اگر تمہاری خواہش اور سوال کے بغیر کہیں سے مال آئے تو اسے لے لیا کرو ، ورنہ اس کے پیچھے نہ پڑا کرو ۔
-
حَدَّثَنَا سَكَنُ بْنُ نَافِعٍ الْبَاهِلِيُّ قَالَ حَدَّثَنَا صَالِحٌ عَنِ الزُّهْرِيِّ قَالَ حَدَّثَنِي رَبِيعَةُ بْنُ دَرَّاجٍ أَنَّ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ سَبَّحَ بَعْدَ الْعَصْرِ رَكْعَتَيْنِ فِي طَرِيقِ مَكَّةَ فَرَآهُ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَتَغَيَّظَ عَلَيْهِ ثُمَّ قَالَ أَمَا وَاللَّهِ لَقَدْ عَلِمْتَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْهَا-
ربیعہ بن دراج کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے دوران سفر مکہ مکرمہ کے راستے میں عصر کے بعد دو رکعت نماز بطور نفل کے پڑھ لی، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں دیکھا تو سخت ناراض ہوئے اور فرمایا کہ آپ کو معلوم بھی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے۔
-
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَزِيدَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ قَالَ حَدَّثَنَا الْعَلَاءُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَعْقُوبَ عَنْ رَجُلٍ مِنْ قُرَيْشٍ مِنْ بَنِي سَهْمٍ عَنْ رَجُلٍ مِنْهُمْ يُقَالُ لَهُ مَاجِدَةُ قَالَ عَارَمْتُ غُلَامًا بِمَكَّةَ فَعَضَّ أُذُنِي فَقَطَعَ مِنْهَا أَوْ عَضِضْتُ أُذُنَهُ فَقَطَعْتُ مِنْهَا فَلَمَّا قَدِمَ عَلَيْنَا أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ حَاجًّا رُفِعْنَا إِلَيْهِ فَقَالَ انْطَلِقُوا بِهِمَا إِلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَإِنْ كَانَ الْجَارِحُ بَلَغَ أَنْ يُقْتَصَّ مِنْهُ فَلْيَقْتَصَّ قَالَ فَلَمَّا انْتُهِيَ بِنَا إِلَى عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ نَظَرَ إِلَيْنَا فَقَالَ نَعَمْ قَدْ بَلَغَ هَذَا أَنْ يُقْتَصَّ مِنْهُ ادْعُوا لِي حَجَّامًا فَلَمَّا ذَكَرَ الْحَجَّامَ قَالَ أَمَا إِنِّي قَدْ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ قَدْ أَعْطَيْتُ خَالَتِي غُلَامًا وَأَنَا أَرْجُو أَنْ يُبَارِكَ اللَّهُ لَهَا فِيهِ وَقَدْ نَهَيْتُهَا أَنْ تَجْعَلَهُ حَجَّامًا أَوْ قَصَّابًا أَوْ صَائِغًا حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ حَدَّثَنَا أَبِي عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ قَالَ وَحَدَّثَنِي الْعَلَاءُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ رَجُلٍ مِنْ بَنِي سَهْمٍ عَنِ ابْنِ مَاجِدَةَ السَّهْمِيِّ أَنَّهُ قَالَ حَجَّ عَلَيْنَا أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فِي خِلَافَتِهِ فَذَكَرَ الْحَدِيثَ-
ماجدہ نامی ایک شخص بیان کرتا ہے کہ میں نے ایک مرتبہ مکہ مکرمہ میں ایک لڑکے کی ہڈی سے گوشت چھیل ڈالا، اسنے میرا کان اپنے دانتوں میں چبا کر کاٹ ڈالا، جب سیدناصدیق اکبر رضی اللہ عنہ حج کے ارادے سے ہمارے یہاں تشریف لائے تو یہ معاملہ ان کی خدمت میں پیش کیا گیا، انہوں نے فرمایا کہ ان دونوں کو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے پاس لے جاؤ، اگر زخم لگانے والا قصاص کے درجے تک پہنچتا ہو تو اس سے قصاص لینا چاہیے۔ جب ہمیں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے پاس لے جایا گیا اور انہوں نے ہمارے احوال سنے تو فرمایا ہاں! یہ قصاص کے درجے تک پہنچتاہے، اور فرمایا کہ میرے پاس حجام کو بلا کر لاؤ، جب حجام کا ذ کر آیا تو وہ فرمانے لگے کہ میں نے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ میں نے اپنی خالہ کو ایک غلام دیا ہے اور مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے ان کے لیے باعث برکت بنائے گا اور میں نے انہیں اس بات سے منع کیا ہے کہ اسے حجام یا قصائی یا رنگ ریز بنائیں۔ گذشتہ روایت اس دوسری سند سے بھی منقول ہے جو عبارت میں ذکر ہوئی۔
-
حَدَّثَنَا عَبِيدَةُ بْنُ حُمَيْدٍ عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِي هِنْدٍ عَنْ أَبِي نَضْرَةَ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ قَالَ خَطَبَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ النَّاسَ فَقَالَ إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ رَخَّصَ لِنَبِيِّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا شَاءَ وَإِنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ مَضَى لِسَبِيلِهِ فَأَتِمُّوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ كَمَا أَمَرَكُمْ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ وَحَصِّنُوا فُرُوجَ هَذِهِ النِّسَاءِ-
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے لوگوں کے سامنے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر کو جو رخصت دینی تھی سو دے دی، اور وہ اس دارفانی سے کوچ کر گئے، اس لئے آپ لوگ حج اور عمرہ مکمل کیا کرو جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس کا حکم بھی دیا ہے، اور ان عورتوں کی شرمگاہوں کی حفاطت کرو۔
-
حَدَّثَنَا عَبِيدَةُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ عَنْ نَافِعٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيَرْقُدُ الرَّجُلُ إِذَا أَجْنَبَ قَالَ نَعَمْ إِذَا تَوَضَّأَ-
حضرت عمر فاروقرضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا اگر کوئی آدمی اختیاری طور پر ناپاک ہوجائے تو کیا اسی حال میں سو سکتا ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں ! وضو کرلے اور سوجائے۔
-
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ يَحْيَى قَالَ أَخْبَرَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ قَالَ حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ عَنِ الزُّهْرِيِّ عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ دَرَّاجٍ أَنَّ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ صَلَّى بَعْدَ الْعَصْرِ رَكْعَتَيْنِ فَتَغَيَّظَ عَلَيْهِ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَقَالَ أَمَا عَلِمْتَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَنْهَانَا عَنْهَا-
ربیعہ بن دراج کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے دوران سفر مکہ مکرمہ کے راستے میں عصر کے بعد دو رکعت نماز بطور نفل کے پڑھ لی، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں دیکھا تو سخت ناراض ہوئے اور فرمایا کہ آپ کو معلوم بھی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے۔
-
حَدَّثَنَا أَبُو الْمُغِيرَةِ حَدَّثَنَا صَفْوَانُ حَدَّثَنَا شُرَيْحُ بْنُ عُبَيْدٍ قَالَ قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ خَرَجْتُ أَتَعَرَّضُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَبْلَ أَنْ أُسْلِمَ فَوَجَدْتُهُ قَدْ سَبَقَنِي إِلَى الْمَسْجِدِ فَقُمْتُ خَلْفَهُ فَاسْتَفْتَحَ سُورَةَ الْحَاقَّةِ فَجَعَلْتُ أَعْجَبُ مِنْ تَأْلِيفِ الْقُرْآنِ قَالَ فَقُلْتُ هَذَا وَاللَّهِ شَاعِرٌ كَمَا قَالَتْ قُرَيْشٌ قَالَ فَقَرَأَ إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ وَمَا هُوَ بِقَوْلِ شَاعِرٍ قَلِيلًا مَا تُؤْمِنُونَ قَالَ قُلْتُ كَاهِنٌ قَالَ وَلَا بِقَوْلِ كَاهِنٍ قَلِيلًا مَا تَذَكَّرُونَ تَنْزِيلٌ مِنْ رَبِّ الْعَالَمِينَ وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ الْأَقَاوِيلِ لَأَخَذْنَا مِنْهُ بِالْيَمِينِ ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْهُ الْوَتِينَ فَمَا مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ عَنْهُ حَاجِزِينَ إِلَى آخِرِ السُّورَةِ قَالَ فَوَقَعَ الْإِسْلَامُ فِي قَلْبِي كُلَّ مَوْقِعٍ-
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں قبول اسلام سے پہلے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چھیڑ چھار کے ارادے سے نکلا لیکن پتہ چلا کہ وہ مجھ سے پہلے ہی مسجد میں جاچکے ہیں، میں جا کر ان کے پیچھے کھڑا ہوگیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سورت حاقہ کی تلاوت شروع کردی، مجھے نظم قرآن اور اس کے اسلوب سے تعجب ہونے لگا، میں نے اپنے دل میں سوچا واللہ! یہ شخص شاعر ہے جیساکہ قریش کہتے ہیں، اتنی دیر میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس آیت پر پہنچ گئے کہ " وہ تو ایک معزز قاصد کاقول ہے" کسی شاعر کی بات تھوڑی ہے لیکن تم ایمان بہت کم لاتے ہو " ۔ یہ سن کر میں نے اپنے دل میں سوچا یہ تو کاہن ہے، ادھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی " اور نہ ہی یہ کسی کاہن کا کلام ہے" تم بہت کم نصیحت حاصل کرتے ہو، یہ تو رب العالمین کی طرف سے نازل کیا گیا ہے اگر یہ پیغمبر ہماری طرف کسی بات کی جھوٹھی نسبت کرے تو ہم اسے اپنے دائیں ہاتھ سے پکڑ لیں اور اس کی گردن توڑ ڈالیں اور تم میں سے کوئی ان کی طرف سے رکاوٹ نہ بن سکے " یہ آیات سن کر اسلام نے میرے دل میں اپنے پنجے مضبوطی سے گاڑنا شروع کردئیے۔
-
حَدَّثَنَا أَبُو الْمُغِيرَةِ وَعِصَامُ بْنُ خَالِدٍ قَالَا حَدَّثَنَا صَفْوَانُ عَنْ شُرَيْحِ بْنِ عُبَيْدٍ وَرَاشِدِ بْنِ سَعْدٍ وَغَيْرِهِمَا قَالُوا لَمَّا بَلَغَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ سَرَغَ حُدِّثَ أَنَّ بِالشَّامِ وَبَاءً شَدِيدًا قَالَ بَلَغَنِي أَنَّ شِدَّةَ الْوَبَاءِ فِي الشَّامِ فَقُلْتُ إِنْ أَدْرَكَنِي أَجَلِي وَأَبُو عُبَيْدَةَ بْنُ الْجَرَّاحِ حَيٌّ اسْتَخْلَفْتُهُ فَإِنْ سَأَلَنِي اللَّهُ لِمَ اسْتَخْلَفْتَهُ عَلَى أُمَّةِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُلْتُ إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَكَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ إِنَّ لِكُلِّ نَبِيٍّ أَمِينًا وَأَمِينِي أَبُو عُبَيْدَةَ بْنُ الْجَرَّاحِ فَأَنْكَرَ الْقَوْمُ ذَلِكَ وَقَالُوا مَا بَالُ عُلْيَا قُرَيْشٍ يَعْنُونَ بَنِي فِهْرٍ ثُمَّ قَالَ فَإِنْ أَدْرَكَنِي أَجَلِي وَقَدْ تُوُفِّيَ أَبُو عُبَيْدَةَ اسْتَخْلَفْتُ مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ فَإِنْ سَأَلَنِي رَبِّي عَزَّ وَجَلَّ لِمَ اسْتَخْلَفْتَهُ قُلْتُ سَمِعْتُ رَسُولَكَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ إِنَّهُ يُحْشَرُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ بَيْنَ يَدَيْ الْعُلَمَاءِ نَبْذَةً-
شریح بن عبید اور راشد بن سعید وغیرہ کہتے ہیں کہ سفر شام میں جب حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سرغ نامی مقام پر پہنچے تو آپ کو خبر ملی کہ شام میں طاعون کی بڑی سخت وباء پھیلی ہوئی ہے، یہ خبر سن کر انہوں نے فرمایا کہ مجھے شام میں طاعون کی وباء پھیلنے کی خبرملی ہے، میری رائے یہ ہے کہ اگر میرا آخری وقت آپہنچا اور ابوعبیدہ بن الجراح زندہ ہوئے تو میں انہیں اپنا خلیفہ نامزد کر دوں گا اور اگر اللہ نے مجھ سے اس کے متعلق باز پرس کی کہ تو نے امت مسلمہ پر انہیں اپنا خلیفہ کیوں مقرر کیا؟ تو میں کہہ دوں گا کہ میں نے آپ ہی کے پیغمبر کو یہ فرماتے ہوئے سنا تھا ہر نبی کا ایک امین ہوتا ہے اور میرا امین ابوعبیدہ بن الجراح ہے۔ لوگوں کو یہ بات اچھی نہ لگی اور وہ کہنے لگے کہ اس صورت میں قریش کے بڑے لوگوں یعنی بنی فہر کا کیا بنے گا؟ پھر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا اگر میری موت سے پہلے ابو عبیدہ فوت ہو گئے تو میں معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو اپنا خلیفہ مقرر کردوں گا اور اگر اللہ نے مجھ سے پوچھا کہ تونے اسے کیوں خلیفہ مقرر کیا؟ تو میں کہہ دوں گا کہ میں نے آپ کے پیغمبر کو یہ فرماتے ہوئے سنا تھا کہ وہ قیامت کے دن علماء کے درمیان ایک جماعت کی صورت میں اٹھائے جائیں گے۔
-
حَدَّثَنَا أَبُو الْمُغِيرَةِ حَدَّثَنَا ابْنُ عَيَّاشٍ قَالَ حَدَّثَنِي الْأَوْزَاعِيُّ وَغَيْرُهُ عَنِ الزُّهْرِيِّ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ وُلِدَ لِأَخِي أُمِّ سَلَمَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غُلَامٌ فَسَمَّوْهُ الْوَلِيدَ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَمَّيْتُمُوهُ بِأَسْمَاءِ فَرَاعِنَتِكُمْ لَيَكُونَنَّ فِي هَذِهِ الْأُمَّةِ رَجُلٌ يُقَالُ لَهُ الْوَلِيدُ لَهُوَ شَرٌّ عَلَى هَذِهِ الْأُمَّةِ مِنْ فِرْعَوْنَ لِقَوْمِهِ-
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ام المؤمبین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ کے بھائی کے یہاں لڑکا پیدا ہوا، انہوں نے بچے کا نام ولید رکھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم نے اس بچے کا نام اپنے فرعونوں کے نام پر رکھاہے (کیونکہ ولید بن مغیرہ مشرکین مکہ کا سردار اور مسلمانوں کو اذیتیں پہنچانے میں بہت سرگرم تھا) میری امت میں ایک آدمی ہوگا جس کا نام ولید ہوگا جو اس امت کے حق میں فرعونوں سے بھی بدتر ہوگا ۔
-
حَدَّثَنَا بَهْزٌ حَدَّثَنَا أَبَانُ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَبِى الْعَالِيَةِ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ شَهِدَ عِنْدِي رِجَالٌ مَرْضِيُّونَ مِنْهُمْ عُمَرُ وَأَرْضَاهُمْ عِنْدِي عُمَرُ أَنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقُولُ لَا صَلَاةَ بَعْدَ صَلَاةِ الْعَصْرِ حَتَّى تَغْرُبَ الشَّمْسُ وَلَا صَلَاةَ بَعْدَ صَلَاةِ الصُّبْحِ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ-
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ مجھے ایسے لوگوں نے اس بات کی شہادت دی ہے " جن کی بات قابل اعتماد ہوتی ہے، ان میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی شامل ہیں جو میری نظروں میں ان میں سب سے زیادہ قابل اعتماد ہیں " کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے عصر کی نماز کے بعد غروب آفتاب تک کوئی نفلی نماز نہ پڑھی جائے اور فجر کی نماز کے بعد طلوع آفتاب تک کوئی نماز نہ پڑھی جائے۔
-
حَدَّثَنَا أَبُو الْمُغِيرَةِ حَدَّثَنَا صَفْوَانُ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ عَنِ الْحَارِثِ بْنِ مُعَاوِيَةَ الْكِنْدِيِّ أَنَّهُ رَكِبَ إِلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَسْأَلُهُ عَنْ ثَلَاثِ خِلَالٍ قَالَ فَقَدِمَ الْمَدِينَةَ فَسَأَلَهُ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ مَا أَقْدَمَكَ قَالَ لِأَسْأَلَكَ عَنْ ثَلَاثِ خِلَالٍ قَالَ وَمَا هُنَّ قَالَ رُبَّمَا كُنْتُ أَنَا وَالْمَرْأَةُ فِي بِنَاءٍ ضَيِّقٍ فَتَحْضُرُ الصَّلَاةُ فَإِنْ صَلَّيْتُ أَنَا وَهِيَ كَانَتْ بِحِذَائِي وَإِنْ صَلَّتْ خَلْفِي خَرَجَتْ مِنْ الْبِنَاءِ فَقَالَ عُمَرُ تَسْتُرُ بَيْنَكَ وَبَيْنَهَا بِثَوْبٍ ثُمَّ تُصَلِّي بِحِذَائِكَ إِنْ شِئْتَ وَعَنْ الرَّكْعَتَيْنِ بَعْدَ الْعَصْرِ فَقَالَ نَهَانِي عَنْهُمَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ وَعَنْ الْقَصَصِ فَإِنَّهُمْ أَرَادُونِي عَلَى الْقَصَصِ فَقَالَ مَا شِئْتَ كَأَنَّهُ كَرِهَ أَنْ يَمْنَعَهُ قَالَ إِنَّمَا أَرَدْتُ أَنْ أَنْتَهِيَ إِلَى قَوْلِكَ قَالَ أَخْشَى عَلَيْكَ أَنْ تَقُصَّ فَتَرْتَفِعَ عَلَيْهِمْ فِي نَفْسِكَ ثُمَّ تَقُصَّ فَتَرْتَفِعَ حَتَّى يُخَيَّلَ إِلَيْكَ أَنَّكَ فَوْقَهُمْ بِمَنْزِلَةِ الثُّرَيَّا فَيَضَعَكَ اللَّهُ تَحْتَ أَقْدَامِهِمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِقَدْرِ ذَلِكَ-
حارث بن معاویہ کندی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں تین سوال پوچھنے کے لئے سواری پر سفر کر کے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی طر ف روانہ ہوا، جب میں مدینہ منورہ پہنچا تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے آنے کی وجہ پوچھی، میں نے عرض کیا کہ تین باتوں کے متعلق پوچھنے کے لیے حاضر ہوا ہوں، فرمایا وہ تین باتیں کیا ہیں؟ میں نے عرض کیا کہ بعض اوقات میں اور میری بیوی ایک تنگ کمرے میں ہوتے ہیں، نماز کا وقت آجاتا ہے، اگر ہم دونوں وہاں نماز پڑھتے ہوں تو وہ میرے بالکل ساتھ ہوتی ہے اور اگر وہ میرے پیچھے کھڑی ہوتی ہے تو کمرے سے باہر چلی جاتی ہے اب کیا کیا جائے؟ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اپنے اور اپنی بیوی کے درمیان ایک کپڑا لٹکا لیا کرو، پھر اگر تم چاہو تو وہ تمہارے ساتھ کھڑے ہو کر نماز پڑھ سکتی ہے۔ پھر میں نے عصر کے بعد دو نفل پڑھنے کے حوالے سے پوچھا تو فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے، پھر میں نے ان سے وعظ گوئی کے حوالے سے پوچھا کہ لوگ مجھ سے وعظ کہنے کا مطالبہ کرتے ہیں؟ فرمایا کہ آپ کی مرضی ہے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے جواب سے معلوم ہوتا تھا کہ وہ براہ راست منع کرنے کو اچھا نہیں سمجھ رہے، میں نے عرض کیا کہ میں آپ کی بات کو حرف آخر سمجھوں گا، فرمایا مجھے یہ اندیشہ ہے کہ اگر تم نے قصہ گوئی یا وعظ شروع کردیا تو تم اپنے آپ کو ان کے مقابلے میں اونچا سمجھنے لگو گے، حتیٰ کہ ایک وقت ایسا آئے گا کہ تم وعظ کہتے وقت اپنے آپ کو ثریا پر پہنچا ہوا سمجھنے لگو گے، جس کے نتیجے میں قیامت کے دن اللہ تمہیں اسی قدر ان کے قدموں کے نیچے ڈال دے گا۔
-
حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ شُعَيْبِ بْنِ أَبِي حَمْزَةَ قَالَ حَدَّثَنِي أَبِي عَنِ الزُّهْرِيِّ قَالَ أَخْبَرَنِي سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ أَخْبَرَهُ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ يَنْهَاكُمْ أَنْ تَحْلِفُوا بِآبَائِكُمْ قَالَ عُمَرُ فَوَاللَّهِ مَا حَلَفْتُ بِهَا مُنْذُ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْهَا وَلَا تَكَلَّمْتُ بِهَا ذَاكِرًا وَلَا آثِرًا-
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں اپنے آباؤ اجداد کے نام کی قسمیں کھانے سے روکتا ہے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب سے میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی اس کی ممانعت کا حکم سناہے، میں نے اس طرح کی کوئی قسم نہیں اٹھائی، اور نہ ہی اس حوالے سے کوئی بات برسبیل تذکرہ یا کسی سے نقل کر کے کہی ہے۔
-
حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ رَاشِدِ بْنِ سَعْدٍ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَحُذَيْفَةَ بْنِ الْيَمَانِ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَأْخُذْ مِنْ الْخَيْلِ وَالرَّقِيقِ صَدَقَةً-
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اور حضرت حذیفہ بن الیمان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے گھوڑے اور غلام پر زکوۃ وصول نہیں فرمائی۔
-
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ إِسْحَاقَ أَنْبَأَنَا عَبْدُ اللَّهِ يَعْنِي ابْنَ الْمُبَارَكِ أَنْبَأَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سُوقَةَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ خَطَبَ النَّاسَ بِالْجَابِيَةِ فَقَالَ قَامَ فِينَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِثْلَ مَقَامِي فِيكُمْ فَقَالَ اسْتَوْصُوا بِأَصْحَابِي خَيْرًا ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ ثُمَّ يَفْشُو الْكَذِبُ حَتَّى إِنَّ الرَّجُلَ لَيَبْتَدِئُ بِالشَّهَادَةِ قَبْلَ أَنْ يُسْأَلَهَا فَمَنْ أَرَادَ مِنْكُمْ بَحْبَحَةَ الْجَنَّةِ فَلْيَلْزَمْ الْجَمَاعَةَ فَإِنَّ الشَّيْطَانَ مَعَ الْوَاحِدِ وَهُوَ مِنْ الِاثْنَيْنِ أَبْعَدُ لَا يَخْلُوَنَّ أَحَدُكُمْ بِامْرَأَةٍ فَإِنَّ الشَّيْطَانَ ثَالِثُهُمَا وَمَنْ سَرَّتْهُ حَسَنَتُهُ وَسَاءَتْهُ سَيِّئَتُهُ فَهُوَ مُؤْمِنٌ-
حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ دوران سفر جابیہ میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اسی طرح خطبہ ارشاد فرمانے کے لئے کھڑے ہوئے جیسے میں کھڑا ہوا ہوں، اور فرمایا کہ میں تمہیں اپنے صحابہ کے ساتھ بھلائی کی وصیت کرتا ہوں، یہی حکم ان کے بعد والوں اور ان کے بعد والوں کا بھی ہے، اس کے بعد جھوٹ اتنا عام ہوجائے گا کہ گواہی کی درخواست سے قبل ہی آدمی گواہی دینے کے لئے تیار ہوجائے گا، سو تم میں سے جو شخص جنت کا ٹھکانہ چاہتا ہے اسے چاہیے کہ وہ " جماعت " کو لازم پکڑے، کیونکہ اکیلے آدمی کے ساتھ شیطان ہوتا ہے اور دو سے دور ہوتا ہے، یاد رکھو! تم میں سے کوئی شخص کسی عورت کے ساتھ خلوت میں نہ بیٹھے کیونکہ ان دو کے ساتھ تیسرا شیطان ہوتا ہے، اور جس شخص کو اپنی نیکی سے خوشی اور برائی سے گم ہو، وہ مومن ہے۔
-
حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ عَنْ حَكِيمِ بْنِ عُمَيْرٍ وَضَمْرَةَ بْنِ حَبِيبٍ قَالَا قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ مَنْ سَرَّهُ أَنْ يَنْظُرَ إِلَى هَدْيِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلْيَنْظُرْ إِلَى هَدْيِ عَمْرِو بْنِ الْأَسْوَدِ-
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ فرماتے تھے کہ جو شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کو دیکھنا چاہتاہے، اسے چاہیے کہ عمرو بن اسود کی سیرت کو دیکھ لے۔
-
حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ مَوْلَى بَنِي هَاشِمٍ قَالَ حَدَّثَنَا زَائِدَةُ حَدَّثَنَا سِمَاكٌ عَنْ عِكْرِمَةَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ قَالَ عُمَرُ كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي رَكْبٍ فَقَالَ رَجُلٌ لَا وَأَبِي فَقَالَ رَجُلٌ لَا تَحْلِفُوا بِآبَائِكُمْ فَالْتَفَتُّ فَإِذَا هُوَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کسی سفر میں تھے، ایک آدمی نے قسم کھاتے ہوئے کہا " لاوابی " تودوسرے آدمی نے اس سے کہا کہ اپنے آباؤ اجداد کے نام کی قسمیں مت کھایا کرو، میں نے دیکھا تو وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔
-
حَدَّثَنَا عِصَامُ بْنُ خَالِدٍ وَأَبُو الْيَمَانِ قَالَا أَخْبَرَنَا شُعَيْبُ بْنُ أَبِي حَمْزَةَ عَنِ الزُّهْرِيِّ قَالَ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ بْنِ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ قَالَ لَمَّا تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَكَانَ أَبُو بَكْرٍ بَعْدَهُ وَكَفَرَ مَنْ كَفَرَ مِنْ الْعَرَبِ قَالَ عُمَرُ يَا أَبَا بَكْرٍ كَيْفَ تُقَاتِلُ النَّاسَ وَقَدْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّى يَقُولُوا لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ فَمَنْ قَالَ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ فَقَدْ عَصَمَ مِنِّي مَالَهُ وَنَفْسَهُ إِلَّا بِحَقِّهِ وَحِسَابُهُ عَلَى اللَّهِ تَعَالَى قَالَ أَبُو بَكْرٍ وَاللَّهِ لَأُقَاتِلَنَّ قَالَ أَبُو الْيَمَانِ لَأَقْتُلَنَّ مَنْ فَرَّقَ بَيْنَ الصَّلَاةِ وَالزَّكَاةِ فَإِنَّ الزَّكَاةَ حَقُّ الْمَالِ وَاللَّهِ لَوْ مَنَعُونِي عَنَاقًا كَانُوا يُؤَدُّونَهَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَقَاتَلْتُهُمْ عَلَى مَنْعِهَا قَالَ عُمَرُ فَوَاللَّهِ مَا هُوَ إِلَّا أَنْ رَأَيْتُ أَنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ قَدْ شَرَحَ صَدْرَ أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ لِلْقِتَالِ فَعَرَفْتُ أَنَّهُ الْحَقُّ-
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم دنیا سے پردہ فرما گئے اور ان کے بعد حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ خلیفہ منتخب ہوگئے اور اہل عرب میں سے جو کافر ہوسکتے تھے، سو ہوگئے تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے عرض کیا کہ آپ ان لوگوں سے کیسے قتال کرسکتے ہیں جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے مجھے لوگوں سے اس وقت تک قتال کا حکم دیا گیا ہے جب تک وہ لا الہ الا اللہ نہ کہہ لیں، جو شخص لا الہ الا اللہ کہہ لے، اس نے جان اور مال کو مجھ سے محفوظ کرلیا، ہاں ! اگر اسلام کا کوئی حق ہو تو الگ بات ہے، اور اس کا حساب کتاب اللہ کے ذمے ہوگا؟ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے یہ سن کر فرمایا اللہ کی قسم! میں ان لوگوں سے ضرور قتال کروں گا جو نماز اور زکوۃ کے درمیان فرق کرتے ہیں، کیونکہ زکوۃ مال کا حق ہے، بخدا! اگر انہوں نے ایک بکری کا بچہ " جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیتے تھے " بھی روکا تو میں ان سے قتال کروں گا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں سمجھ گیا، اللہ تعالیٰ نے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو اس معاملے میں شرح صدر کی دولت عطاء فرمادی ہے اور میں سمجھ گیا کہ ان کی رائے ہی برحق ہے۔
-
حَدَّثَنَا أَبُو الْمُغِيرَةِ حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ شُعَيْبٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا صَلَاةَ بَعْدَ صَلَاةِ الصُّبْحِ إِلَى طُلُوعِ الشَّمْسِ وَلَا بَعْدَ الْعَصْرِ حَتَّى تَغِيبَ الشَّمْسُ-
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے فجر کی نماز کے بعد طلوع آفتاب تک کوئی نماز نہ پڑھی جائے اور عصر کی نماز کے بعد غروب آفتاب تک کوئی نفلی نماز نہ پڑھی جائے۔
-
حَدَّثَنَا الْحَكَمُ بْنُ نَافِعٍ حَدَّثَنَا ابْنُ عَيَّاشٍ عَنْ أَبِي سَبَإٍ عُتْبَةَ بْنِ تَمِيمٍ عَنْ الْوَلِيدِ بْنِ عَامِرٍ الْيَزَنِيِّ عَنْ عُرْوَةَ بْنِ مُغِيثٍ الْأَنْصَارِيِّ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَضَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ صَاحِبَ الدَّابَّةِ أَحَقُّ بِصَدْرِهَا-
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فیصلہ فرمادیا ہے کہ سواری کی اگلی سیٹ پر بیٹھنے کا حقدار سواری کا مالک ہے۔
-
حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ الْحَكَمُ بْنُ نَافِعٍ حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ رَاشِدِ بْنِ سَعْدٍ عَنْ حُمْرَةَ بْنِ عَبْدِ كُلَالٍ قَالَ سَارَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ إِلَى الشَّامِ بَعْدَ مَسِيرِهِ الْأَوَّلِ كَانَ إِلَيْهَا حَتَّى إِذَا شَارَفَهَا بَلَغَهُ وَمَنْ مَعَهُ أَنَّ الطَّاعُونَ فَاشٍ فِيهَا فَقَالَ لَهُ أَصْحَابُهُ ارْجِعْ وَلَا تَقَحَّمْ عَلَيْهِ فَلَوْ نَزَلْتَهَا وَهُوَ بِهَا لَمْ نَرَ لَكَ الشُّخُوصَ عَنْهَا فَانْصَرَفَ رَاجِعًا إِلَى الْمَدِينَةِ فَعَرَّسَ مِنْ لَيْلَتِهِ تِلْكَ وَأَنَا أَقْرَبُ الْقَوْمِ مِنْهُ فَلَمَّا انْبَعَثَ انْبَعَثْتُ مَعَهُ فِي أَثَرِهِ فَسَمِعْتُهُ يَقُولُ رَدُّونِي عَنْ الشَّامِ بَعْدَ أَنْ شَارَفْتُ عَلَيْهِ لِأَنَّ الطَّاعُونَ فِيهِ أَلَا وَمَا مُنْصَرَفِي عَنْهُ مُؤَخِّرٌ فِي أَجَلِي وَمَا كَانَ قُدُومِيهِ مُعَجِّلِي عَنْ أَجَلِي أَلَا وَلَوْ قَدْ قَدِمْتُ الْمَدِينَةَ فَفَرَغْتُ مِنْ حَاجَاتٍ لَا بُدَّ لِي مِنْهَا لَقَدْ سِرْتُ حَتَّى أَدْخُلَ الشَّامَ ثُمَّ أَنْزِلَ حِمْصَ فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ لَيَبْعَثَنَّ اللَّهُ مِنْهَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ سَبْعِينَ أَلْفًا لَا حِسَابَ عَلَيْهِمْ وَلَا عَذَابَ عَلَيْهِمْ مَبْعَثُهُمْ فِيمَا بَيْنَ الزَّيْتُونِ وَحَائِطِهَا فِي الْبَرْثِ الْأَحْمَرِ مِنْهَا-
حمرہ بن عبد کلال کہتے ہیں کہ پہلے سفر شام کے بعد کے بعد ایک مرتبہ پھر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ شام کی طرف روانہ ہوئے، جب اس کے قریب پہنچے تو آپ کو اور آپ کے ساتھیوں کو یہ خبر ملی کی شام میں طاعون کی وباء پھوٹ پڑی ہے، ساتھیوں نے حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ سے کہا کہ یہیں سے واپس لوٹ چلیے، آگے مت بڑھیے، اگر آپ وہاں چلے گئے اور واقعی یہ وباء وہاں پھیلی ہوئی ہو تو ہمیں آپ کو وہاں سے منتقل کرنے کی کوئی صورت پیش نہیں آئے گی۔ چنانچہ مشورہ کے مطابق حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ مدینہ منورہ واپس آگئے، اس رات جب آپ نے آخری پہر میں پڑاؤ ڈالا تو میں آپ کے سب سے زیادہ قریب تھا، جب وہ اٹھے تو میں بھی ان کے پیچھے پیچھے اٹھ گیا، میں نے انہیں یہ کہتے ہوئے سنا کہ میں شام کے قریب پہنچ گیا تھا لیکن یہ لوگ مجھے وہاں سے اس بناء پر واپس لے آئے کہ وہاں طاعون کی وباء پھیلی ہوئی ہے، حالانکہ وہاں سے واپس آجانے کی بناء پر میری موت کے وقت میں توتاخیر ہو نہیں سکتی، اور یہ بھی نہیں ہوسکتا کہ میری موت کا پیغام جلد آجائے اس لئے اب میرا ارادہ یہ ہے کہ اگر میں مدینہ منورہ پہنچ کر ان تمام ضروری کاموں سے فارغ ہو گیا جن میں میری موجودگی ضروری ہے تو میں شام کی طرف دوبارہ ضرور روانہ ہوں گا اور شہر " حمص " میں پڑاؤ کروں گا، کیونکہ میں نے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس سے ستر ہزار ایسے بندوں کو اٹھائے گا جن کا حساب ہوگا اور نہ ہی عذاب اور ان کے اٹھائے جانے کی جگہ زیتون کے درخت اور سرخ ونرم زمین میں اس کے باغ کے درمیان ہوگی۔
-
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ أَخْبَرَنَا حَيْوَةُ أَخْبَرَنَا أَبُو عَقِيلٍ عَنِ ابْنِ عَمِّهِ عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ أَنَّهُ خَرَجَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَزْوَةِ تَبُوكَ فَجَلَسَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا يُحَدِّثُ أَصْحَابَهُ فَقَالَ مَنْ قَامَ إِذَا اسْتَقَلَّتْ الشَّمْسُ فَتَوَضَّأَ فَأَحْسَنَ الْوُضُوءَ ثُمَّ قَامَ فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ غُفِرَ لَهُ خَطَايَاهُ فَكَانَ كَمَا وَلَدَتْهُ أُمُّهُ قَالَ عُقْبَةُ بْنُ عَامِرٍ فَقُلْتُ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي رَزَقَنِي أَنْ أَسْمَعَ هَذَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ لِي عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَكَانَ تُجَاهِي جَالِسًا أَتَعْجَبُ مِنْ هَذَا فَقَدْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَعْجَبَ مِنْ هَذَا قَبْلَ أَنْ تَأْتِيَ فَقُلْتُ وَمَا ذَاكَ بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي فَقَالَ عُمَرُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ تَوَضَّأَ فَأَحْسَنَ الْوُضُوءَ ثُمَّ رَفَعَ نَظَرَهُ إِلَى السَّمَاءِ فَقَالَ أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ فُتِحَتْ لَهُ ثَمَانِيَةُ أَبْوَابِ الْجَنَّةِ يَدْخُلُ مِنْ أَيِّهَا شَاءَ-
حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ وہ غزوہ تبوک میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ روانہ ہوئے، ایک دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ حدیث بیان کرنے کے لیے بیٹھے اور فرمایا جو شخص استقلال شمس کے وقت کھڑا ہو کر خوب اچھی طرح وضو کرے اور دو رکعت نماز پرھ لے، اس کے سارے گناہ اس طرح معاف کردئیے جائیں گے گویا کہ اس کی ماں نے اسے آج ہی جنم دیا ہو حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اس اللہ کا شکر ہے جس نے مجھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے یہ ارشاد سننے کی توفیق عطا فرمائی۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اس مجلس میں حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کے سامنے بیٹھے ہوئے تھے، وہ فرمانے لگے کہ کیا آپ کو اس پر تعجب ہو رہا ہے؟ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اس مجلس میں حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کے سامنے بیٹھے ہوئے تھے، وہ فرمانے لگے کہ کیا آپ کو اس پر تعجب ہو رہا ہے؟ آپ کے آنے سے پہلے نبی نے اس سے بھی زیادہ عجیب بات فرمائی تھی، میں نے عرض کیا میرے ماں باپ آپ پر فداء ہوں، وہ کیا بات تھی؟ فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا تھا جو شخص خوب اچھی طرح وضو کرے، پھر آسمان کی طرف نظر اٹھا کر دیکھے اور یہ کہے اشہد ان لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ واشہد ان محمدا عبدہ ورسولہ اس کے لیے جنت کے آٹھوں دروازے کھول دئیے جائیں گے کہ جس دروازے سے چاہے جنت میں داخل ہوجائے۔
-
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ يَعْنِي أَبَا دَاوُدَ الطَّيَالِسِيَّ قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ عَنْ دَاوُدَ الْأَوْدِيِّ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمُسْلِيِّ عَنِ الْأَشْعَثِ بْنِ قَيْسٍ قَالَ ضِفْتُ عُمَرَ فَتَنَاوَلَ امْرَأَتَهُ فَضَرَبَهَا وَقَالَ يَا أَشْعَثُ احْفَظْ عَنِّي ثَلَاثًا حَفِظْتُهُنَّ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا تَسْأَلْ الرَّجُلَ فِيمَ ضَرَبَ امْرَأَتَهُ وَلَا تَنَمْ إِلَّا عَلَى وَتْرٍ وَنَسِيتُ الثَّالِثَةَ-
اشعث بن قیس کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی دعوت کی ان کی زوجہ محترمہ نے انہیں دعوت میں جانے سے روکا انہیں یہ بات ناگوار گذری اور انہوں نے اپنی بیوی کو مارا، پھر مجھ سے فرمانے لگے اشعث! تین باتیں یاد رکھو جو میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سن کر یاد کی ہیں ۔ (١) کسی شخص سے یہ سوال مت کرو کہ اس نے اپنی بیوی کو کیوں مارا ہے؟ (٢) وتر پڑھے بغیر مت سویا کرو ۔ (٣) تیسری بات میں بھول گیا۔
-
حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ حَدَّثَنَا أَبِي حَدَّثَنَا يَزِيدُ يَعْنِي الرِّشْكَ عَنْ مُعَاذَةَ عَنْ أُمِّ عَمْرٍو ابْنَةِ عَبْدِ اللَّهِ أَنَّهَا سَمِعَتْ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ الزُّبَيْرِ يَقُولُ سَمِعَتْ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَقُولُ فِي خُطْبَتِهِ إِنَّهُ سَمِعَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ مَنْ يَلْبَسْ الْحَرِيرَ فِي الدُّنْيَا فَلَا يُكْسَاهُ فِي الْآخِرَةِ-
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ میں نے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے جو شخص دنیا میں ریشم پہنے گا، وہ آخرت میں اسے نہیں پہنایا جائے گا۔
-
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ إِسْحَاقَ حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ عَنْ جَابِرٍ قَالَ أَخْبَرَنِي عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ لَيَسِيرَنَّ الرَّاكِبُ فِي جَنَبَاتِ الْمَدِينَةِ ثُمَّ لَيَقُولُ لَقَدْ كَانَ فِي هَذَا حَاضِرٌ مِنْ الْمُؤْمِنِينَ كَثِيرٌ قَالَ أَبِي أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ وَلَمْ يَجُزْ بِهِ حَسَنٌ الْأَشْيَبُ جَابِرًا-
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے ایک وقت ایسا ضرور آئے گا جب ایک سوار مدینہ منورہ کے اطراف وجوانب میں چکر لگاتا ہوگا اور کہتا ہوگا کہ کبھی یہاں بہت سے مومن آباد ہوا کرتے تھے۔
-
حَدَّثَنَا هَارُونُ حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ أَنَّ عُمَرَ بْنَ السَّائِبِ حَدَّثَهُ أَنَّ الْقَاسِمَ بْنَ أَبِي الْقَاسِمِ السَّبَئِيَّ حَدَّثَهُ عَنْ قَاصِّ الْأَجْنَادِ بِالْقُسْطَنْطِينِيَّةِ أَنَّهُ سَمِعَهُ يُحَدِّثُ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلَا يَقْعُدَنَّ عَلَى مَائِدَةٍ يُدَارُ عَلَيْهَا بِالْخَمْرِ وَمَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلَا يَدْخُلْ الْحَمَّامَ إِلَّا بِإِزَارٍ وَمَنْ كَانَتْ تُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلَا تَدْخُلْ الْحَمَّامَ-
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ خطاب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا اے لوگو! میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص اللہ پر اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو وہ کسی ایسے دستر خوان پر مت بیٹھے جہاں شراب پیش کی جاتی ہو جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو وہ بغیر تہبند کے حمام میں داخل نہ ہو اور جو عورت اللہ پر اور یوم آخرت پر ایمان رکھتی ہو وہ حمام میں مت جائے۔
-
حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ الْخُزَاعِيُّ أَنْبَأَنَا لَيْثٌ وَيُونُسُ حَدَّثَنَا لَيْثٌ عَنْ يَزِيدَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أُسَامَةَ بْنِ الْهَادِ عَنِ الْوَلِيدِ بْنِ أَبِي الْوَلِيدِ عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ يَعْنِي ابْنَ سُرَاقَةَ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ مَنْ أَظَلَّ رَأْسَ غَازٍ أَظَلَّهُ اللَّهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَمَنْ جَهَّزَ غَازِيًا حَتَّى يَسْتَقِلَّ كَانَ لَهُ مِثْلُ أَجْرِهِ حَتَّى يَمُوتَ قَالَ قَالَ يُونُسُ أَوْ يَرْجِعَ وَمَنْ بَنَى لِلَّهِ مَسْجِدًا يُذْكَرُ فِيهِ اسْمُ اللَّهِ تَعَالَى بَنَى اللَّهُ لَهُ بِهِ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ-
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے جو شخص کسی مجاہد کے سر پر سایہ کرے، اللہ قیامت کے دن اس پر سایہ کرے گا، جو شخص مجاہد کے لۓ سامان جہاد مہیا کرے یہاں تک کہ وہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہوجائے، اس کے لئے اس مجاہد کے برابر اجر لکھاجاتا رہے گا جب تک وہ فوت نہ ہوجائے، اور جو شخص اللہ کی رضا کے لیے مسجد تعمیر کرے جس میں اللہ کا ذکر کیا جائے، اللہ جنت میں اس کا گھر تعمیر کردے گا۔
-
حَدَّثَنَا عَفَّانُ حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ عَنْ سُلَيْمَانَ الْأَعْمَشِ عَنْ شَقِيقٍ عَنْ سَلْمَانَ بْنِ رَبِيعَةَ قَالَ سَمِعْتُ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَقُولُ قَسَمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قِسْمَةً فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ لَغَيْرُ هَؤُلَاءِ أَحَقُّ مِنْهُمْ أَهْلُ الصُّفَّةِ قَالَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّكُمْ تُخَيِّرُونِي بَيْنَ أَنْ تَسْأَلُونِي بِالْفُحْشِ وَبَيْنَ أَنْ تُبَخِّلُونِي وَلَسْتُ بِبَاخِلٍ-
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ چیزیں تقسیم فرمائیں، میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! ان کے زیادہ حقدار تو ان لوگوں کو چھوڑ کر اہل صفہ تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تم مجھ سے غیر مناسب طریقے سے سوال کرنے یا مجھے بخیل قرار دینے میں خود مختار ہو، حالانکہ میں بخیل نہیں ہوں ۔ فائدہ : مطلب یہ ہے کہ اگر میں نے اہل صفہ کو کچھ نہیں دیا تو اپنے پاس کچھ بچا کر نہیں رکھا اور اگر دوسروں کو دیا ہے تو ان کی ضروریات کو سامنے رکھ دیا۔
-
حَدَّثَنَا عَفَّانُ حَدَّثَنَا خَالِدٌ عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي زِيَادٍ عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْدَ الْحَدَثِ تَوَضَّأَ وَمَسَحَ عَلَى الْخُفَّيْنِ-
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے کہ آپ نے حدث لاحق ہونے کے بعد وضو کیا اور موزوں پر مسح فرما لیا۔
-
حَدَّثَنَا عَفَّانُ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ عَنْ أَبِي رَافِعٍ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ كَانَ مُسْتَنِدًا إِلَى ابْنِ عَبَّاسٍ وَعِنْدَهُ ابْنُ عُمَرَ وَسَعِيدُ بْنُ زَيْدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا فَقَالَ اعْلَمُوا أَنِّي لَمْ أَقُلْ فِي الْكَلَالَةِ شَيْئًا وَلَمْ أَسْتَخْلِفْ مِنْ بَعْدِي أَحَدًا وَأَنَّهُ مَنْ أَدْرَكَ وَفَاتِي مِنْ سَبْيِ الْعَرَبِ فَهُوَ حُرٌّ مِنْ مَالِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ فَقَالَ سَعِيدُ بْنُ زَيْدٍ أَمَا إِنَّكَ لَوْ أَشَرْتَ بِرَجُلٍ مِنْ الْمُسْلِمِينَ لَأْتَمَنَكَ النَّاسُ وَقَدْ فَعَلَ ذَلِكَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَأْتَمَنَهُ النَّاسُ فَقَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَدْ رَأَيْتُ مِنْ أَصْحَابِي حِرْصًا سَيِّئًا وَإِنِّي جَاعِلٌ هَذَا الْأَمْرَ إِلَى هَؤُلَاءِ النَّفَرِ السِّتَّةِ الَّذِينَ مَاتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ عَنْهُمْ رَاضٍ ثُمَّ قَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ لَوْ أَدْرَكَنِي أَحَدُ رَجُلَيْنِ ثُمَّ جَعَلْتُ هَذَا الْأَمْرَ إِلَيْهِ لَوَثِقْتُ بِهِ سَالِمٌ مَوْلَى أَبِي حُذَيْفَةَ وَأَبُو عُبَيْدَةَ بْنُ الْجَرَّاحِ-
حضرت ابورافع کہتے ہیں کہ زندگی کے آخری ایام میں ایک مرتبہ حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھے ہوئے تھے، اس وقت حضرت ابن عمر اور سعید بن زید بھی موجود تھے، آپ نے فرمایا کہ یہ بات آپ کے علم میں ہونی چاہیے کہ میں نے کلالہ کے حوالے سے کوئی قول اختیار نہیں کیا، اور نہ ہی اپنے بعد کسی کو بطور خلیفہ کے نامزد کیا ہے اور یہ کہ میری وفات کے بعد عرب کے جتنے قیدی ہیں، سب راہ خدا میں آزاد ہوں گے۔ حضرت سعید بن زید رضی اللہ عنہ کہنے لگے کہ اگر آپ کسی مسلمان کے متعلق خلیفہ ہونے کا مشورہ ہی دے دیں تو لوگ آپ پر اعتماد کریں گے جیسا کہ اس سے قبل حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے کیا تھا اور لوگوں نے ان پر بھی اعتماد کیا تھا ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ سن کر فرمایا دراصل مجھے اپنے ساتھیوں میں ایک بری لالچ دکھائی دے رہی ہے، اس لئے میں ایسا تو نہیں کرتا، البتہ ان چھ آدمیوں پر اس بوجھ کو ڈال دیتاہوں جن سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم بوقت وفات دنیا سے راضی ہو کر گئے تھے، ان میں سے جسے چاہو، خلیفہ منتخب کرلو۔ پھر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اگر دو میں سے کوئی ایک آدمی بھی موجود ہوتا اور میں خلافت اس کے حوالے کر دیتا تو مجھے اطمینان رہتا، ایک سالم جو کہ ابوحذیفہ کے غلام تھے اور دوسرے حضرت ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ۔
-
حَدَّثَنَا عَفَّانُ حَدَّثَنَا هَمَّامٌ حَدَّثَنَا قَتَادَةُ حَدَّثَنِي أَبُو الْعَالِيَةِ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ شَهِدَ عِنْدِي رِجَالٌ مَرْضِيُّونَ فِيهِمْ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَأَرْضَاهُمْ عِنْدِي عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا صَلَاةَ بَعْدَ الصُّبْحِ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ وَلَا صَلَاةَ بَعْدَ الْعَصْرِ حَتَّى تَغْرُبَ الشَّمْسُ-
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ مجھے ایسے لوگوں نے اس بات کی شہادت دی ہے جن کی بات قابل اعتماد ہوتی ہے ان میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی شامل ہیں جو میری نطروں میں ان سب سے زیادہ قابل اعتماد ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے فجر کی نماز کے بعد طلوع آفتاب تک کوئی نماز نہ پڑھی جائے اور عصر کی نماز کے بعد غروب آفتاب تک کوئی نفلی نماز نہ پڑھی جائے۔
-
حَدَّثَنَا عَفَّانُ حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ خُثَيْمٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَكَبَّ عَلَى الرُّكْنِ فَقَالَ إِنِّي لَأَعْلَمُ أَنَّكَ حَجَرٌ وَلَوْ لَمْ أَرَ حَبِيبِي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَبَّلَكَ وَاسْتَلَمَكَ مَا اسْتَلَمْتُكَ وَلَا قَبَّلْتُكَ وَ لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ-
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ حجر اسود کو بوسہ دینے کے لیے اس پر جھکے تو فرمایا کہ میں جانتا ہوں کہ تو ایک پتھر ہے، اگر میں نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کو تیری تقبیل یا استلام کرتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو میں تجھے کبھی بوسہ نہ دیتا اور کبھی تیرا استلام نہ کرتا، ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ تمہارے لیے پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے ایک ایک لمحے میں بہترین رہنمائی موجود ہے ۔
-
حَدَّثَنَا عَفَّانُ حَدَّثَنَا حَمَّادٌ أَنْبَأَنَا عَمَّارُ بْنُ أَبِي عَمَّارٍ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى فِي يَدِ رَجُلٍ خَاتَمًا مِنْ ذَهَبٍ فَقَالَ أَلْقِ ذَا فَأَلْقَاهُ فَتَخَتَّمَ بِخَاتَمٍ مِنْ حَدِيدٍ فَقَالَ ذَا شَرٌّ مِنْهُ فَتَخَتَّمَ بِخَاتَمٍ مِنْ فِضَّةٍ فَسَكَتَ عَنْهُ-
حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کے ہاتھ میں سونے کی انگوٹھی دیکھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسے اتار دو، چنانچہ اس نے اتاردی، اور اس کی جگہ لوہے کی انگوٹھی پہن لی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، یہ تو اس سے بھی بری ہے، پھر اس نے چاندی کی انگوٹھی پہن لی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر سکوت فرمالیا۔
-
حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ عَمْرٍو حَدَّثَنَا زَائِدَةُ حَدَّثَنَا عَاصِمٌ وَحُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ عَنْ زَائِدَةَ عَنْ عَاصِمٍ عَنْ زِرٍّ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ لَمَّا قُبِضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ الْأَنْصَارُ مِنَّا أَمِيرٌ وَمِنْكُمْ أَمِيرٌ فَأَتَاهُمْ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَقَالَ يَا مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ أَلَسْتُمْ تَعْلَمُونَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ أَمَرَ أَبَا بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنْ يَؤُمَّ النَّاسَ فَأَيُّكُمْ تَطِيبُ نَفْسُهُ أَنْ يَتَقَدَّمَ أَبَا بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَقَالَتْ الْأَنْصَارُ نَعُوذُ بِاللَّهِ أَنْ نَتَقَدَّمَ أَبَا بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ-
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال مبارک ہوگیا توانصار کہنے لگے کہ ایک امیر ہم میں سے ہوگا اور ایک امیر تم میں سے ہوگا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ ان کے پاس آئے، اور فرمایا اے گروہ انصار! کیا آپ کے علم میں بات نہیں کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیات طیبہ میں حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو لوگوں کی امامت کا حکم خود دیا تھا؟ آپ میں سے کون شخص اپنے دل کی بشاشت کے ساتھ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے آگے بڑھ سکتاہے؟ اس پر انصار کہنے لگے اللہ کی پناہ! کہ ہم حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے آگے بڑھیں ۔
-
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ دَاوُدَ حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ عَنْ جَابِرٍ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَخْبَرَهُ أَنَّهُ رَأَى رَجُلًا تَوَضَّأَ لِلصَّلَاةِ فَتَرَكَ مَوْضِعَ ظُفُرٍ عَلَى ظَهْرِ قَدَمِهِ فَأَبْصَرَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ ارْجِعْ فَأَحْسِنْ وُضُوءَكَ فَرَجَعَ فَتَوَضَّأَ ثُمَّ صَلَّى-
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ان کی نظر ایک ایسے شخص پر پڑی جو نماز کے لیے وضو کر رہا تھا، اس نے وضو کرتے ہوئے پاؤں کی پشت پر ایک ناخن کے بقدر جگہ چھوڑ دی یعنی وہ اسے دھو نہ سکا یا وہاں تک پانی نہیں پہنچا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اسے دیکھ لیا اور فرمایا کہ جا کر اچھی طرح وضو کرو، چنانچہ اس نے جا کر دوبارہ وضو کیا اور نماز پڑھی۔
-
حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ مَوْلَى بَنِي هَاشِمٍ حَدَّثَنَا الْهَيْثَمُ بْنُ رَافِعٍ الطَّاطَرِيُّ بَصْرِيٌّ حَدَّثَنِي أَبُو يَحْيَى رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ مَكَّةَ عَنْ فَرُّوخَ مَوْلَى عُثْمَانَ أَنَّ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَهُوَ يَوْمَئِذٍ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ خَرَجَ إِلَى الْمَسْجِدِ فَرَأَى طَعَامًا مَنْثُورًا فَقَالَ مَا هَذَا الطَّعَامُ فَقَالُوا طَعَامٌ جُلِبَ إِلَيْنَا قَالَ بَارَكَ اللَّهُ فِيهِ وَفِيمَنْ جَلَبَهُ قِيلَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ فَإِنَّهُ قَدْ احْتُكِرَ قَالَ وَمَنْ احْتَكَرَهُ قَالُوا فَرُّوخُ مَوْلَى عُثْمَانَ وَفُلَانٌ مَوْلَى عُمَرَ فَأَرْسَلَ إِلَيْهِمَا فَدَعَاهُمَا فَقَالَ مَا حَمَلَكُمَا عَلَى احْتِكَارِ طَعَامِ الْمُسْلِمِينَ قَالَا يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ نَشْتَرِي بِأَمْوَالِنَا وَنَبِيعُ فَقَالَ عُمَرُ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ مَنْ احْتَكَرَ عَلَى الْمُسْلِمِينَ طَعَامَهُمْ ضَرَبَهُ اللَّهُ بِالْإِفْلَاسِ أَوْ بِجُذَامٍ فَقَالَ فَرُّوخُ عِنْدَ ذَلِكَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ أُعَاهِدُ اللَّهَ وَأُعَاهِدُكَ أَنْ لَا أَعُودَ فِي طَعَامٍ أَبَدًا وَأَمَّا مَوْلَى عُمَرَ فَقَالَ إِنَّمَا نَشْتَرِي بِأَمْوَالِنَا وَنَبِيعُ قَالَ أَبُو يَحْيَى فَلَقَدْ رَأَيْتُ مَوْلَى عُمَرَ مَجْذُومًا-
فروخ کہتے ہیں کہ ایک دن حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اپنے دور خلافت میں مسجد جانے کے لیے گھر سے نکلے، راستے میں انہیں جگہ جگہ غلہ نظر آیا، انہوں نے پوچھا یہ غلہ کیسا ہے؟ لوگوں نے بتایا کہ یہ درآمد کیا گیا ہے، فرمایا اللہ اس میں برکت دے اور اس شخص کو بھی جس نے اسے درآمد کیا ہے، لوگوں نے کہا اے امیر المؤمنین! یہ تو ذخیرہ اندوزی کا مال ہے، پوچھا کس نے ذخیرہ کر کے رکھا ہوا تھا؟ لوگوں نے بتایا کہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے غلام فروخ اور آپ کے فلاں غلام نے۔ حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے ان دونوں کو بلاوا بھیجا اور فرمایا کہ تم نے مسلمانوں کی غذائی ضروریات کی ذخیرہ اندوزی کیوں کی؟ انہوں نے عرض کیا کہ امیر المؤمنین! ہم اپنے پیسوں سے خریدتے اور بیچتے ہیں (اس لئے ہمیں اپنی چیز پر اختیار ہے، جب مرضی بیچیں) فرمایا میں نے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص مسلمانوں کی غذائی ضروریات کی ذخیرہ اندوزی کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اسے تنگدستی اور کوڑھ کے مرض میں مبتلا کردیتا ہے۔ فروخ نے تو یہ سن کر اسی وقت کہا امیرالمومنین! میں اللہ سے اور آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ آئندہ ایسا نہیں کروں گا، لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا غلام اپنی اسی بات پر اڑا رہا کہ ہم اپنے پیسوں سے خریدتے اور بیچتے ہیں (اس لئے ہمیں اختیار ہونا چاہیے) ابو یحییٰ کہتے ہیں کہ بعد میں جب میں نے اسے دیکھا تو وہ کوڑھ کے مرض میں مبتلا ہوچکا تھا۔
-
حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ أَنْبَأَنَا شُعَيْبٌ عَنِ الزُّهْرِيِّ حَدَّثَنَا سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ قَالَ سَمِعْتُ عُمَرَ يَقُولُ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعْطِينِي الْعَطَاءَ فَأَقُولُ أَعْطِهِ أَفْقَرَ إِلَيْهِ مِنِّي حَتَّى أَعْطَانِي مَرَّةً مَالًا فَقُلْتُ أَعْطِهِ أَفْقَرَ إِلَيْهِ مِنِّي فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خُذْهُ فَتَمَوَّلْهُ وَتَصَدَّقْ بِهِ فَمَا جَاءَكَ مِنْ هَذَا الْمَالِ وَأَنْتَ غَيْرُ مُشْرِفٍ وَلَا سَائِلٍ فَخُذْهُ وَمَا لَا فَلَا تُتْبِعْهُ نَفْسَكَ حَدَّثَنَا هَارُونُ حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ أَخْبَرَنِي يُونُسُ عَنِ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ سَالِمٍ عَنْ أَبِيهِ قَالَ سَمِعْتُ عُمَرَ يَقُولُ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعْطِينِي الْعَطَاءَ فَذَكَرَ مَعْنَاهُ-
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مجھے کچھ دینا چاہتے تو میں عرض کر دیتا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! مجھ سے زیادہ جو محتاج لوگ ہیں، یہ انہیوں دے دیجئے، اسی طرح ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے کچھ مال ودولت عطاء فرمایا، میں نے حسب سابق یہی عرض کیا کہ مجھ سے زیادہ کسی ضرورت مند کو دے دیجئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسے لے لو، اپنے مال میں اضافہ کرو، اس کے بعد صدقہ کردو، اور یاد رکھو! اگر تمہاری خواہش اور سوال کے بغیر کہیں سے مال آئے تو اسے لے لیا کرو، ورنہ اس کے پیچھے نہ پڑا کرو۔ گذشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔
-
حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ حَدَّثَنَا لَيْثٌ حَدَّثَنِي بُكَيْرٌ عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ سَعِيدٍ الْأَنْصَارِيِّ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ هَشَشْتُ يَوْمًا فَقَبَّلْتُ وَأَنَا صَائِمٌ فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ صَنَعْتُ الْيَوْمَ أَمْرًا عَظِيمًا فَقَبَّلْتُ وَأَنَا صَائِمٌ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرَأَيْتَ لَوْ تَمَضْمَضْتَ بِمَاءٍ وَأَنْتَ صَائِمٌ قُلْتُ لَا بَأْسَ بِذَلِكَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَفِيمَ-
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دن میں بہت خوش تھا، خوشی سے سرشار ہو کر میں نے روزہ کی حالت میں ہی اپنی بیوی کا بوسہ لے لیا، اس کے بعد احساس ہوا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ یار سول اللہ! آج مجھ سے ایک بہت بڑا گناہ سرزد ہوگیا ہے، میں نے روزے کی حالت میں اپنی بیوی کو بوسہ دے دیا؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ بتاؤ! اگر آپ روزے کی حالت میں کلی کرلو تو کیا ہوگا؟ میں نے عرض کیا اس میں تو کوئی حرج نہیں ہے، فرمایا پھر اس میں کہاں سے ہوگا؟
-
حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا دَاوُدُ يَعْنِي ابْنَ أَبِي الْفُرَاتِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ عَنْ أَبِي الْأَسْوَدِ أَنَّهُ قَالَ أَتَيْتُ الْمَدِينَةَ فَوَافَيْتُهَا وَقَدْ وَقَعَ فِيهَا مَرَضٌ فَهُمْ يَمُوتُونَ مَوْتًا ذَرِيعًا فَجَلَسْتُ إِلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَمَرَّتْ بِهِ جَنَازَةٌ فَأُثْنِيَ عَلَى صَاحِبِهَا خَيْرًا فَقَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَجَبَتْ ثُمَّ مُرَّ بِأُخْرَى فَأُثْنِيَ عَلَى صَاحِبِهَا خَيْرًا فَقَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَجَبَتْ ثُمَّ مُرَّ بِالثَّالِثَةِ فَأُثْنِيَ عَلَيْهَا شَرًّا فَقَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَجَبَتْ فَقَالَ أَبُو الْأَسْوَدِ مَا وَجَبَتْ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ قَالَ قُلْتُ كَمَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيُّمَا مُسْلِمٍ شَهِدَ لَهُ أَرْبَعَةٌ بِخَيْرٍ أَدْخَلَهُ اللَّهُ الْجَنَّةَ قَالَ فَقُلْنَا وَثَلَاثَةٌ قَالَ فَقَالَ وَثَلَاثَةٌ قَالَ قُلْنَا وَاثْنَانِ قَالَ وَاثْنَانِ قَالَ ثُمَّ لَمْ نَسْأَلْهُ عَنْ الْوَاحِدِ-
ابو الاسود کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہوا، وہاں پہنچا تو پتہ چلا کہ وہاں کوئی بیماری پھیلی ہوئی ہے جس سے لوگ بکثرت مر رہے ہیں میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی مجلس میں بیٹھا ہوا تھا کہ وہاں سے ایک جنازہ کا گذر ہوا، لوگوں نے اس مردے کی تعریف کی، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا واجب ہوگئی، پھر دوسرا جنازہ گذرا، لوگوں نے اس کی بھی تعریف کی، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پھر فرمایا واجب ہوگئی، تیسراجنازہ گذرا تو لوگوں نے اس کی برائی بیان کی، حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرمایا واجب ہوگئی، میں نے بالآخر پوچھ ہی لیا کہ امیرالمومنین! کیا چیز واجب ہو گئی؟ فرمایا میں نے تو وہی کہا ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ جس مسلمان کے لیے چار آدمی خیر کی گواہی دے دیں اس کے لیے جنت واجب ہوگئی، ہم نے عرض کیا اگر تین آدمی ہوں؟ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تب بھی یہی حکم ہے، ہم نے دو کے متعلق پوچھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دوہوں تب بھی یہی حکم ہے، پھر ہم نے خود ہی ایک کے متعلق سوال نہیں کیا۔
-
حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ حَدَّثَنَا بُكَيْرٌ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ عَنْ عُمَرَ قَالَ غَزَوْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي رَمَضَانَ وَالْفَتْحَ فِي رَمَضَانَ فَأَفْطَرْنَا فِيهِمَا-
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہم ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رمضان میں بھی جہاد کے لئے نکلے تھے، اور فتح مکہ کا واقعہ تو خیر رمضان ہی میں پیش آیا تھا ، ان دونوں موقعوں پر ہم نے دوران سفر روزے نہیں رکھے تھے۔ (بلکہ بعد میں قضاء کی تھی)
-
حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ مَوْلَى بَنِي هَاشِمٍ حَدَّثَنَا الْمُثَنَّى بْنُ عَوْفٍ الْعَنَزِيُّ بَصْرِيٌّ قَالَ أَنْبَأَنَا الْغَضْبَانُ بْنُ حَنْظَلَةَ أَنَّ أَبَاهُ حَنْظَلَةَ بْنَ نُعَيْمٍ وَفَدَ إِلَى عُمَرَ فَكَانَ عُمَرُ إِذَا مَرَّ بِهِ إِنْسَانٌ مِنْ الْوَفْدِ سَأَلَهُ مِمَّنْ هُوَ حَتَّى مَرَّ بِهِ أَبِي فَسَأَلَهُ مِمَّنْ أَنْتَ فَقَالَ مِنْ عَنَزَةَ فَقَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ حَيٌّ مِنْ هَاهُنَا مَبْغِيٌّ عَلَيْهِمْ مَنْصُورُونَ-
غضبان بن حنظلہ کہتے ہیں کہ ان کے والد حنظلہ ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی خدمت میں ایک وفد لے کر حاضر ہوئے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس وفد کے جس آدمی کے پاس سے بھی گذرتے اس کے متعلق یہ ضرور پوچھتے کہ اس کا تعلق کہاں سے ہے؟ چنانچہ جب میرے والد کے پاس پہنچے تو ان سے بھی یہی پوچھا کہ آپ کا تعلق کہاں سے ہے؟ انہوں نے بتایا قبیلہ عنزہ سے، تو فرمایا کہ میں نے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اس قبیلے کے لوگ مظفر ومنصور ہوتے ہیں ۔
-
حَدَّثَنَا حَسَنُ بْنُ مُوسَى حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ قَالَ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ أَبِي حَبِيبٍ عَنْ مَعْمَرٍ أَنَّهُ سَأَلَ سَعِيدَ بْنَ الْمُسَيَّبِ عَنْ الصِّيَامِ فِي السَّفَرِ فَحَدَّثَهُ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّهُ قَالَ غَزَوْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَزْوَتَيْنِ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ يَوْمَ بَدْرٍ وَيَوْمَ الْفَتْحِ فَأَفْطَرْنَا فِيهِمَا-
معمر جو کہ ایک مشہور محدث ہیں نے ایک مرتبہ حضرت سعید بن مسیب رحمہ اللہ سے دوران سفر روزہ رکھنے کا حکم دریافت کیا تو انہوں نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے حوالے سے یہ حدیث انہیں سنائی کہ ہم نے ماہ رمضان میں دو مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جہاد میں شرکت کی ہے، ایک غزوہ بدر کے موقع پر اور ایک فتح مکہ کے موقع پر اور دونوں مرتبہ ہم نے روزے نہیں رکھے۔
-
حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ حَدَّثَنَا دَيْلَمُ بْنُ غَزْوَانَ عَبْدِيٌّ حَدَّثَنَا مَيْمُونٌ الْكُرْدِيُّ حَدَّثَنِي أَبُو عُثْمَانَ النَّهْدِيُّ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنَّ أَخْوَفَ مَا أَخَافُ عَلَى أُمَّتِي كُلُّ مُنَافِقٍ عَلِيمِ اللِّسَانِ-
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا مجھے اپنی امت کے متعلق سب سے زیادہ خطرہ اس منافق سے ہے جو زبان دان ہو۔
-
حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ زَائِدَةَ عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ أَنَّهُ كَانَ مَعَ مَسْلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الْمَلِكِ فِي أَرْضِ الرُّومِ فَوُجِدَ فِي مَتَاعِ رَجُلٍ غُلُولٌ فَسَأَلَ سَالِمَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ فَقَالَ حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ عَنْ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ وَجَدْتُمْ فِي مَتَاعِهِ غُلُولًا فَأَحْرِقُوهُ قَالَ وَأَحْسَبُهُ قَالَ وَاضْرِبُوهُ قَالَ فَأَخْرَجَ مَتَاعَهُ فِي السُّوقِ قَالَ فَوَجَدَ فِيهِ مُصْحَفًا فَسَأَلَ سَالِمًا فَقَالَ بِعْهُ وَتَصَدَّقْ بِثَمَنِهِ-
حضرت سالم رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ وہ مسلمہ بن عبدالملک کے ساتھ ارض روم میں تھے کہ ایک آدمی کے سامان سے چوری کا مال غنیمت نکل آیا، لوگوں نے حضرت سالم رحمہ اللہ سے اس مسئلے کے متعلق سوال کیا تو انہوں نے اپنے والد حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کے واسطے سے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث نقل کی کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے جس شخص کے سامان میں سے تمہیں چوری کا مال غنیمت مل جائے، اس سامان کو آگ لگادو، اور شاید یہ بھی فرمایا کہ اس شخص کی پٹائی کرو۔ چنانچہ لوگوں نے اس کا سامان نکال کر بازار میں لا کر رکھا، اس میں سے ایک قرآن شریف بھی نکلا، لوگوں نے سالم سے اس کے متعلق پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ اسے بیچ کر اس کی قیمت صدقہ کردو۔
-
حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ وَحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالَا حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ عَنْ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَتَعَوَّذُ مِنْ خَمْسٍ مِنْ الْبُخْلِ وَالْجُبْنِ وَفِتْنَةِ الصَّدْرِ وَعَذَابِ الْقَبْرِ وَسُوءِ الْعُمُرِ-
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پانچ چیزوں سے اللہ کی پناہ مانگا کرتے تھے، بخل سے، بزدلی سے، دل کے فتنہ سے، عذاب قبر سے اور بری عمر سے۔
-
حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ قَالَ سَمِعْتُ عَطَاءَ بْنَ دِينَارٍ عَنْ أَبِي يَزِيدَ الْخَوْلَانِيِّ أَنَّهُ سَمِعَ فَضَالَةَ بْنَ عُبَيْدٍ يَقُولُ سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ الشُّهَدَاءُ ثَلَاثَةٌ رَجُلٌ مُؤْمِنٌ جَيِّدُ الْإِيمَانِ لَقِيَ الْعَدُوَّ فَصَدَقَ اللَّهَ حَتَّى قُتِلَ فَذَلِكَ الَّذِي يَرْفَعُ إِلَيْهِ النَّاسُ أَعْنَاقَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَرَفَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأْسَهُ حَتَّى وَقَعَتْ قَلَنْسُوَتُهُ أَوْ قَلَنْسُوَةُ عُمَرَ وَرَجُلٌ مُؤْمِنٌ جَيِّدُ الْإِيمَانِ لَقِيَ الْعَدُوَّ فَكَأَنَّمَا يُضْرَبُ جِلْدُهُ بِشَوْكِ الطَّلْحِ أَتَاهُ سَهْمٌ غَرْبٌ فَقَتَلَهُ هُوَ فِي الدَّرَجَةِ الثَّانِيَةِ وَرَجُلٌ مُؤْمِنٌ جَيِّدُ الْإِيمَانِ خَلَطَ عَمَلًا صَالِحًا وَآخَرَ سَيِّئًا لَقِيَ الْعَدُوَّ فَصَدَقَ اللَّهَ حَتَّى قُتِلَ فَذَلِكَ فِي الدَّرَجَةِ الثَّالِثَةِ-
حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے شہداء تین طرح کے ہوتے ہیں ۔ (١) وہ مسلمان آدمی جس کا ایمان مضبوط ہو، دشمن سے اس کا آمنا سامنا ہوا اور اس نے اللہ کی بات کو سچا کر دکھایا یہاں تک کہ شہید ہوگیا، یہ تو وہ آدمی ہے جس کی طرف قیامت کے دن لوگ گردنیں اٹھا اٹھا کر دیکھیں گے اور خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا سر بلند کر کے دکھایا یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ٹوپی گر گئی۔ (٢) وہ مسلمان آدمی جس کا ایمان مضبوط ہو، دشمن سے آمنا سامنا ہوا، اور ایسا محسوس ہو کہ اس کے جسم پر کسی نے کانٹے چبھادئیے ہوں اچانک کہیں سے ایک تیر آیا اور وہ شہید ہوگیا، یہ دوسرے درجے میں ہوگا۔ (٣) وہ مسلمان آدمی جس کا ایمان تو مضبوط ہو لیکن اس نے کچھ اچھے اور کچھ برے دونوں طرح کے عمل کیے ہوں، دشمن سے جب اس کا آمنا سامنا ہوا تو اس نے اللہ کی بات کو سچا کر دکھایا، یہاں تک کہ شہید ہوگیا، یہ تیسرے درجے میں ہوگا۔
-
حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ لَهِيعَةَ حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ شُعَيْبٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ عَنْ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا يُقَادُ وَالِدٌ مِنْ وَلَدٍ-
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا باپ سے اس کی اولاد کا قصاص نہیں لیا جائے گا۔
-
وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَرِثُ الْمَالَ مَنْ يَرِثُ الْوَلَاءَ-
اور جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا مال کا وارث وہی ہوگا جو ولاء کا وارث ہوگا۔
-
حَدَّثَنَا حَسَنٌ حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ شُعَيْبٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ لَا يُقَادُ لِوَلَدٍ مِنْ وَالِدِهِ-
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے کہ باپ سے اس کی اولاد کا قصاص نہیں لیا جائے گا۔
-
حَدَّثَنَا حَسَنٌ حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ حَدَّثَنَا الضَّحَّاكُ بْنُ شُرَحْبِيلَ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّهُ قَالَ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَوَضَّأَ مَرَّةً مَرَّةً-
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اعضاء وضو کو ایک ایک مرتبہ بھی دھویا تھا۔
-
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ إِسْحَاقَ أَنْبَأَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ عَنْ عَطَاءِ بْنِ دِينَارٍ عَنْ أَبِي يَزِيدَ الْخَوْلَانِيِّ قَالَ سَمِعْتُ فَضَالَةَ بْنَ عُبَيْدٍ يَقُولُ سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَقُولُ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ الشُّهَدَاءُ أَرْبَعَةٌ رَجُلٌ مُؤْمِنٌ جَيِّدُ الْإِيمَانِ لَقِيَ الْعَدُوَّ فَصَدَقَ اللَّهَ فَقُتِلَ فَذَلِكَ الَّذِي يَنْظُرُ النَّاسُ إِلَيْهِ هَكَذَا وَرَفَعَ رَأْسَهُ حَتَّى سَقَطَتْ قَلَنْسُوَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْ قَلَنْسُوَةُ عُمَرَ وَالثَّانِي رَجُلٌ مُؤْمِنٌ لَقِيَ الْعَدُوَّ فَكَأَنَّمَا يُضْرَبُ ظَهْرُهُ بِشَوْكِ الطَّلْحِ جَاءَهُ سَهْمٌ غَرْبٌ فَقَتَلَهُ فَذَاكَ فِي الدَّرَجَةِ الثَّانِيَةِ وَالثَّالِثُ رَجُلٌ مُؤْمِنٌ خَلَطَ عَمَلًا صَالِحًا وَآخَرَ سَيِّئًا لَقِيَ الْعَدُوَّ فَصَدَقَ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ حَتَّى قُتِلَ قَالَ فَذَاكَ فِي الدَّرَجَةِ الثَّالِثَةِ وَالرَّابِعُ رَجُلٌ مُؤْمِنٌ أَسْرَفَ عَلَى نَفْسِهِ إِسْرَافًا كَثِيرًا لَقِيَ الْعَدُوَّ فَصَدَقَ اللَّهَ حَتَّى قُتِلَ فَذَاكَ فِي الدَّرَجَةِ الرَّابِعَةِ-
حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے شہداء چار طرح کے ہوتے ہیں ۔ (١) وہ مسلمان آدمی جس کا ایمان مضبوط ہو، دشمن سے اس کا آمنا سامنا ہوا اور اس نے اللہ کی بات کو سچا کر دکھایا یہاں تک کہ شہید ہوگیا، یہ تو وہ آدمی ہے جس کی طرف قیامت کے دن لوگ گردنیں اٹھا اٹھا کر دیکھیں گے اور خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا سر بلند کر کے دکھایا یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ٹوپی مبارک گر گئی۔ (٢) وہ مسلمان آدمی جس کا ایمان مضبوط ہو، دشمن سے آمنا سامنا ہوا، اور ایسا محسوس ہوا کہ اس کے جسم پر کسی نے کانٹے چبھادئیے ہوں ، اچانک کہیں سے ایک تیر آیا اور وہ شہید ہوگیا، یہ دوسرے درجے میں ہوگا۔ (٣) وہ مسلمان آدمی جس کا ایمان تو مضبوط ہو لیکن اس نے کچھ اچھے اور کچھ برے دونوں طرح کے عمل کیے ہوں ، دشمن سے جب اس کا آمنا سامنا ہوا تو اس نے اللہ کی بات کو سچا کر دکھایا، یہاں تک کہ شہید ہوگیا، یہ تیسرے درجے میں ہوگا۔ (٤) وہ مسلمان آدمی جس نے اپنی جان پر بے حد ظلم کیا، اس کا دشمن سے آمنا سامنا ہوا ، تو اس نے اللہ کی بات کو سچا کر دکھایا اور شہید ہوگیا، یہ چوتھے درجے میں ہوگا۔
-
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا رِشْدِينُ بْنُ سَعْدٍ حَدَّثَنِي أَبُو عَبْدِ اللَّهِ الْغَافِقِيُّ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ تَوَضَّأَ عَامَ تَبُوكَ وَاحِدَةً وَاحِدَةً-
حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ تبوک کے سال اپنے اعضاء وضو کو ایک ایک مرتبہ دھویا تھا۔
-
حَدَّثَنَا حَسَنٌ حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ حَدَّثَنَا أَبُو الزُّبَيْرِ عَنْ جَابِرٍ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَخْبَرَهُ أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ سَيَخْرُجُ أَهْلُ مَكَّةَ ثُمَّ لَا يَعْبُرُ بِهَا أَوْ لَا يَعْرِفُهَا إِلَّا قَلِيلٌ ثُمَّ تَمْتَلِئُ وَتُبْنَى ثُمَّ يَخْرُجُونَ مِنْهَا فَلَا يَعُودُونَ فِيهَا أَبَدًا-
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا عنقریب اہل مکہ اپنے شہر سے نکلیں گے لیکن دوبارہ اسے بہت کم آباد کر سکیں گے، پھر شہر مکہ بھر جائے گا اور وہاں بڑی عمارتیں بن جائیں گے، اس وقت جب اہل مکہ وہاں سے نکل گئے تو دوبارہ واپس کبھی نہیں آسکیں گے۔
-
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ حَدَّثَنَا أَبُو الزُّبَيْرِ عَنْ جَابِرٍ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَخْبَرَهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى رَجُلًا تَوَضَّأَ لِصَلَاةِ الظُّهْرِ فَتَرَكَ مَوْضِعَ ظُفُرٍ عَلَى ظَهْرِ قَدَمِهِ فَأَبْصَرَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ ارْجِعْ فَأَحْسِنْ وُضُوءَكَ فَرَجَعَ فَتَوَضَّأَ ثُمَّ صَلَّى-
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر ایک ایسے شخص پر پڑی جو نماز ظہر کے لئے وضو کر رہا تھا، اس نے وضو کرتے ہوئے پاؤں کی پشت پر ایک ناخن کے بقدر جگہ چھوڑ دی یعنی وہ اسے دھونہ سکا یا وہاں تک پانی نہیں پہنچا تھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دیکھ کر فرمایا کہ جا کر اچھی طرح وضو کرو، چنانچہ اس نے جا کر دوبارہ وضو کیا اور نماز پڑھی۔
-
حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ قَالَ زَعَمَ الزُّهْرِيُّ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ بْنِ مَسْعُودٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنْ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا تُطْرُونِي كَمَا أَطْرَتْ النَّصَارَى عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ عَلَيْهِ السَّلَام فَإِنَّمَا أَنَا عَبْدُ اللَّهِ وَرَسُولُهُ-
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا عیسائیوں نے جس طرح حضرت عیسی علیہ السلام کو حد سے زیادہ آگے بڑھایا مجھے اس طرح مت بڑھاؤ، میں تو اللہ کا بندہ اور اس کا پیغمبر ہوں ۔
-
حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ أَنْبَأَنَا أَبُو بِشْرٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُتَوَارٍ بِمَكَّةَ وَلَا تَجْهَرْ بِصَلَاتِكَ وَلَا تُخَافِتْ بِهَا قَالَ كَانَ إِذَا صَلَّى بِأَصْحَابِهِ رَفَعَ صَوْتَهُ بِالْقُرْآنِ قَالَ فَلَمَّا سَمِعَ ذَلِكَ الْمُشْرِكُونَ سَبُّوا الْقُرْآنَ وَمَنْ أَنْزَلَهُ وَمَنْ جَاءَ بِهِ فَقَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ لِنَبِيِّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَا تَجْهَرْ بِصَلَاتِكَ أَيْ بِقِرَاءَتِكَ فَيَسْمَعَ الْمُشْرِكُونَ فَيَسُبُّوا الْقُرْآنَ وَلَا تُخَافِتْ بِهَا عَنْ أَصْحَابِكَ فَلَا تُسْمِعُهُمْ الْقُرْآنَ حَتَّى يَأْخُذُوهُ عَنْكَ وَابْتَغِ بَيْنَ ذَلِكَ سَبِيلًا-
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آیت قرآنی ولا تجھر بصلاتک ولاتخافت بہا جس وقت نازل ہوئی ہے، اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں روپوش تھے، وہ یہ بھی فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب اپنے ساتھیوں کو نماز پڑھاتے تھے تو قرآن کریم کی تلاوت بلند آواز سے کرتے تھے، جب مشرکین کے کانوں تک وہ آواز پہنچتی تو وہ خودقرآن کو، قرآن نازل کرنے والے کو اور قرآن لانے والے کو برا بھلا کہنا شروع کردیتے، اس موقع پر یہ آیت نازل ہوئی کہ آپ بلند آواز سے قرات نہ کیا کریں کہ مشرکین کے کانوں تک وہ آواز پہنچے اور وہ قرآن ہی کو برا بھلا کہنا شروع کردیں، اوراتنی پست آواز سے بھی تلاوت نہ کریں کہ آپ کے ساتھی اسے سن ہی نہ سکیں، بلکہ درمیانہ راستہ اختیار کریں۔
-
حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ أَنْبَأَنَا عَلِيُّ بْنُ زَيْدٍ عَنْ يُوسُفَ بْنِ مِهْرَانَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ خَطَبَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَقَالَ هُشَيْمٌ مَرَّةً خَطَبَنَا فَحَمِدَ اللَّهَ تَعَالَى وَأَثْنَى عَلَيْهِ فَذَكَرَ الرَّجْمَ فَقَالَ لَا تُخْدَعُنَّ عَنْهُ فَإِنَّهُ حَدٌّ مِنْ حُدُودِ اللَّهِ تَعَالَى أَلَا إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ رَجَمَ وَرَجَمْنَا بَعْدَهُ وَلَوْلَا أَنْ يَقُولَ قَائِلُونَ زَادَ عُمَرُ فِي كِتَابِ اللَّهِ مَا لَيْسَ مِنْهُ لَكَتَبْتُهُ فِي نَاحِيَةٍ مِنْ الْمُصْحَفِ شَهِدَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَقَالَ هُشَيْمٌ مَرَّةً وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ وَفُلَانٌ وَفُلَانٌ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ رَجَمَ وَرَجَمْنَا مِنْ بَعْدِهِ أَلَا وَإِنَّهُ سَيَكُونُ مِنْ بَعْدِكُمْ قَوْمٌ يُكَذِّبُونَ بِالرَّجْمِ وَبِالدَّجَّالِ وَبِالشَّفَاعَةِ وَبِعَذَابِ الْقَبْرِ وَبِقَوْمٍ يُخْرَجُونَ مِنْ النَّارِ بَعْدَمَا امْتَحَشُوا-
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ خطبہ ارشاد فرمانے کے لیے کھڑے ہوئے، حمدوثناء کے بعد آپ رضی اللہ عنہ نے رجم کا تذکرہ شروع کیا اور فرمایا کہ رجم کے حوالے سے کسی دھوکے کا شکار مت رہنا، یہ اللہ کی مقرر کردہ سزاؤں میں سے ایک سزا ہے، یاد رکھو! نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی رجم کی سزا جاری فرمائی ہے اور ہم بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد یہ سزاجاری کرتے رہے ہیں، اگر کہنے والے یہ نہ کہتے کہ عمر رضی اللہ عنہ نے قرآن میں اضافہ کردیا اور ایسی چیز اس میں شامل کردی جو کتاب اللہ میں سے نہیں ہے تو میں اس آیت کو قرآن کریم کے حاشیے پر لکھ دیتا۔ یاد رکھو! عمربن خطاب رضی اللہ عنہ اس بات کا گواہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے رجم کی سزا جاری فرمائی ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ہم نے بھی یہ سزاجاری کی ہے، یاد رکھو! تمہارے بعد کچھ لوگ آئیں گے جو رجم کی تکذیب کرتے ہوں گے، دجال، شفاعت اور عذاب قبر سے انکار کرتے ہوں گے اور اس قوم کے ہونے کو جھٹلائیں گے جنہیں جہنم میں جل کر کوئلہ ہوجانے کے بعد نکال لیا جائے گا۔
-
حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ أَنْبَأَنَا حُمَيْدٌ عَنْ أَنَسٍ قَالَ قَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَافَقْتُ رَبِّي فِي ثَلَاثٍ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ لَوْ اتَّخَذْنَا مِنْ مَقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى فَنَزَلَتْ وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى وَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ نِسَاءَكَ يَدْخُلُ عَلَيْهِنَّ الْبَرُّ وَالْفَاجِرُ فَلَوْ أَمَرْتَهُنَّ أَنْ يَحْتَجِبْنَ فَنَزَلَتْ آيَةُ الْحِجَابِ وَاجْتَمَعَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نِسَاؤُهُ فِي الْغَيْرَةِ فَقُلْتُ لَهُنَّ عَسَى رَبُّهُ إِنْ طَلَّقَكُنَّ أَنْ يُبْدِلَهُ أَزْوَاجًا خَيْرًا مِنْكُنَّ قَالَ فَنَزَلَتْ كَذَلِكَ-
حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے تین باتوں میں اپنے رب کی موافقت کی ہے۔ (١) ایک مرتبہ میں نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! کاش! ہم مقام ابراہیم کو مصلی بنالیتے، اس پر یہ آیت نازل ہوگئی کہ مقام ابراہیم کو مصلی بنالو۔ (٢) ایک مرتبہ میں نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! آپ کی ازواج مطہرات کے پاس نیک اور بدہر طرح کے لوگ آتے ہیں، اگر آپ انہیں پردے کا حکم دے دیں توبہتر ہے؟ اس پر آیت حجاب نازل ہوگئی۔ (٣) ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام ازواج مطہرات نے کسی بات پر ایکا کرلیا، میں نے ان سے کہا کہ اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہیں طلاق دے دی ہو تو ہو سکتا ہے ان کا رب انہیں تم سے بہتر عطاء کردے، ان ہی الفاظ کے ساتھ قرآن کریم کی آیت نازل ہوگئی۔
-
حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى عَنْ مَعْمَرٍ عَنِ الزُّهْرِيِّ عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ عَنِ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ سَمِعْتُ هِشَامَ بْنَ حَكِيمِ بْنِ حِزَامٍ يَقْرَأُ سُورَةَ الْفُرْقَانِ فَقَرَأَ فِيهَا حُرُوفًا لَمْ يَكُنْ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَقْرَأَنِيهَا قَالَ فَأَرَدْتُ أَنْ أُسَاوِرَهُ وَهُوَ فِي الصَّلَاةِ فَلَمَّا فَرَغَ قُلْتُ مَنْ أَقْرَأَكَ هَذِهِ الْقِرَاءَةَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُلْتُ كَذَبْتَ وَاللَّهِ مَا هَكَذَا أَقْرَأَكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخَذْتُ بِيَدِهِ أَقُودُهُ فَانْطَلَقْتُ بِهِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّكَ أَقْرَأْتَنِي سُورَةَ الْفُرْقَانِ وَإِنِّي سَمِعْتُ هَذَا يَقْرَأُ فِيهَا حُرُوفًا لَمْ تَكُنْ أَقْرَأْتَنِيهَا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اقْرَأْ يَا هِشَامُ فَقَرَأَ كَمَا كَانَ قَرَأَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَكَذَا أُنْزِلَتْ ثُمَّ قَالَ اقْرَأْ يَا عُمَرُ فَقَرَأْتُ فَقَالَ هَكَذَا أُنْزِلَتْ ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ الْقُرْآنَ نَزَلَ عَلَى سَبْعَةِ أَحْرُفٍ-
حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے حضرت ہشام بن حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ کو سورت فرقان کی تلاوت کرتے ہوئے سنا، انہوں نے اس میں ایسے حروف کی تلاوت کی جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے نہیں پڑھائے تھے میں اس وقت نماز پڑھ رہا تھا ، میرا دل چاہا کہ میں ان سے نماز ہی میں پوچھ لوں ، بہرحال! فراغت کے بعد میں نے ان سے پوچھا کہ تمہیں سورت فرقان اس طرح کس نے پڑھائی ہے؟ انہوں نے کہا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے، میں نے کہا آپ جھوٹ بولتے ہیں ، بخدا! نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو اس طرح یہ سورت نہیں پڑھائی ہوگی۔ یہ کہہ کر میں نے ان کا ہاتھ پکڑا اور انہیں کھینچتا ہوا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے کر حاضر ہوگیا، اور عرض کیا یا رسول اللہ! آپ نے مجھے سورت فرقان خود پڑھائی ہے، میں نے اسے سورت فرقان کو ایسے حروف میں پڑھتے ہوئے سناہے جو آپ نے مجھے نہیں پڑھائے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہشام سے اس کی تلاوت کرنے کے لیے فرمایا، انہوں نے اسی طرح پڑھا جیسے وہ پہلے پڑھ رہے تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ سورت اسی طرح نازل ہوئی ہے، پھر مجھ سے کہا کہ عمر! تم بھی پڑھ کر سناؤ، چنانچہ میں نے بھی پڑھ کر سنادیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ سورت اس طرح بھی نازل ہوئی ہے، اس کے بعد ارشاد فرمایا بے شک اس قرآن کا نزول سات قراتوں پر ہوا ہے۔
-
حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ الْهَيْثَمِ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ عَنْ عُمَرَ قَالَ لَقَدْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَلْتَوِي مَا يَجِدُ مَا يَمْلَأُ بِهِ بَطْنَهُ مِنْ الدَّقَلِ-
حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے اپنی آنکھوں سے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھوک کی وجہ سے کروٹیں بدلتے ہوئے دیکھا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ردی کھجور بھی نہ ملتی تھی جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا پیٹ بھر لیتے۔
-
حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ عَنْ حُمَيْدٍ عَنْ أَنَسٍ قَالَ قَالَ عُمَرُ وَافَقْتُ رَبِّي عَزَّ وَجَلَّ فِي ثَلَاثٍ أَوْ وَافَقَنِي رَبِّي فِي ثَلَاثٍ قَالَ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ لَوْ اتَّخَذْتَ الْمَقَامَ مُصَلًّى قَالَ فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى وَقُلْتُ لَوْ حَجَبْتَ عَنْ أُمَّهَاتِ الْمُؤْمِنِينَ فَإِنَّهُ يَدْخُلُ عَلَيْكَ الْبَرُّ وَالْفَاجِرُ فَأُنْزِلَتْ آيَةُ الْحِجَابِ قَالَ وَبَلَغَنِي عَنْ أُمَّهَاتِ الْمُؤْمِنِينَ شَيْءٌ فَاسْتَقْرَيْتُهُنَّ أَقُولُ لَهُنَّ لَتَكُفُّنَّ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْ لَيُبْدِلَنَّهُ اللَّهُ بِكُنَّ أَزْوَاجًا خَيْرًا مِنْكُنَّ مُسْلِمَاتٍ حَتَّى أَتَيْتُ عَلَى إِحْدَى أُمَّهَاتِ الْمُؤْمِنِينَ فَقَالَتْ يَا عُمَرُ أَمَا فِي رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا يَعِظُ نِسَاءَهُ حَتَّى تَعِظَهُنَّ فَكَفَفْتُ فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ عَسَى رَبُّهُ إِنْ طَلَّقَكُنَّ أَنْ يُبْدِلَهُ أَزْوَاجًا خَيْرًا مِنْكُنَّ مُسْلِمَاتٍ مُؤْمِنَاتٍ قَانِتَاتٍ الْآيَةَ-
حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے تین باتوں میں اپنے رب کی موافقت کی ہے (١) ایک مرتبہ میں نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا یا رسول اللہ! کاش! ہم مقام ابراہیم کو مصلی بنالیتے، اس پر یہ آیت نازل ہوگئی کہ مقام ابراہیم کو مصلی بنالو۔ (٢) ایک مرتبہ میں نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا یا رسول اللہ! آپ کی ازواج مطہرات کے پاس نیک اور بد ہر طرح کے لوگ آتے ہیں اگر آپ انہیں پردے کا حکم دے دیں توبہتر ہے؟ اس پر آیت حجاب نازل ہوگئی۔ (٣) ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام ازواج مطہرات نے کسی بات پر ایکا کر لیا، میں نے ان سے کہا کہ تم باز آجاؤ، ورنہ ہوسکتا ہے ان کا رب انہیں تم سے بہتر بیویاں عطاء کردے، میں اسی سلسلے میں امہات المومنین میں سے کسی کے پاس گیا تو انہوں نے مجھ سے کہا کہ اے عمر! کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیویوں کو نصیحت نہیں کرسکتے کہ تم انہیں نصیحت کرنے نکلے ہو؟ اس پر میں رک گیا، لیکن ان ہی الفاظ کے ساتھ قرآن کریم کی آیت نازل ہوگئی۔
-
حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ أَنَّ يَحْيَى بْنَ أَبِي كَثِيرٍ حَدَّثَهُ عَنْ عِكْرِمَةَ مَوْلَى ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ يَقُولُ سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَقُولُ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ بِالْعَقِيقِ يَقُولُ أَتَانِي اللَّيْلَةَ آتٍ مِنْ رَبِّي فَقَالَ صَلِّ فِي هَذَا الْوَادِي الْمُبَارَكِ وَقُلْ عُمْرَةٌ فِي حَجَّةٍ قَالَ الْوَلِيدُ يَعْنِي ذَا الْحُلَيْفَةِ-
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے وادی عقیق میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سناکہ آج رات ایک آنے والا میرے رب کے پاس سے آیا اور کہنے لگا کہ اس مبارک وادی میں نماز پڑھیے اور حج کے ساتھ عمرہ کی بھی نیت کر کے احرام باندھ لیں ، مراد ذوالحلیفہ کی جگہ ہے۔
-
حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنِ الزُّهْرِيِّ سَمِعَ مَالِكَ بْنَ أَوْسِ بْنِ الْحَدَثَانِ سَمِعَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَقُولُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَالَ سُفْيَانُ مَرَّةً سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ الذَّهَبُ بِالْوَرِقِ رِبًا إِلَّا هَاءَ وَهَاءَ وَالْبُرُّ بِالْبُرِّ رِبًا إِلَّا هَاءَ وَهَاءَ وَالشَّعِيرُ بِالشَّعِيرِ رِبًا إِلَّا هَاءَ وَهَاءَ وَالتَّمْرُ بِالتَّمْرِ رِبًا إِلَّا هَاءَ وَهَاءَ-
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا سوناچاندی کے بدلے بیچنا اور خریدنا سود ہے الا یہ کہ نقد ہو، گندم کی گندم کے بدلے خرید و فروخت سود ہے الا یہ کہ نقد ہو، جو کی خرید و فروخت جو کے بدلے سود ہے الا یہ کہ نقد ہو،
-
حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنِ الزُّهْرِيِّ سَمِعَ أَبَا عُبَيْدٍ قَالَ شَهِدْتُ الْعِيدَ مَعَ عُمَرَ فَبَدَأَ بِالصَّلَاةِ قَبْلَ الْخُطْبَةِ وَقَالَ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْ صِيَامِ هَذَيْنِ الْيَوْمَيْنِ أَمَّا يَوْمُ الْفِطْرِ فَفِطْرُكُمْ مِنْ صَوْمِكُمْ وَأَمَّا يَوْمُ الْأَضْحَى فَكُلُوا مِنْ لَحْمِ نُسُكِكُمْ-
عبید کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں عید کے موقع پر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا ، انہوں نے خطبہ سے پہلے نماز پڑھائی، پھر فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کے روزے سے منع فرمایا، عیدالفطر کے دن تو اس لیے کہ اس دن تمہارے روزے ختم ہوتے ہیں اور عیدالاضحی کے دن اس لئے کہ تم اپنی قربانی کے جانور کاگوشت کھا سکو۔
-
حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنِ الزُّهْرِيِّ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنْ عُمَرَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا تُطْرُونِي كَمَا أَطْرَتْ النَّصَارَى عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ عَلَيْهِ السَّلَام فَإِنَّمَا أَنَا عَبْدٌ فَقُولُوا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ-
حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا عیسائیوں نے جس طرح حضرت عیس علیہ السلام کو حد سے زیادہ آگے بڑھایا مجھے اس طرح مت بڑھاؤ، میں تو اللہ کا بندہ ہوں، لہٰذا تم مجھے اس کا بندہ اور پیغمبر ہی کہا کرو۔
-
حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ عَنْ عُمَرَ أَنَّهُ سَأَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيَنَامُ أَحَدُنَا وَهُوَ جُنُبٌ قَالَ يَتَوَضَّأُ وَيَنَامُ إِنْ شَاءَ وَقَالَ سُفْيَانُ مَرَّةً لِيَتَوَضَّأْ وَلْيَنَمْ-
ایک مرتبہ حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ اگر کوئی آدمی اختیاری طور پر ناپاک ہوجائے تو کیا اسی حال میں سو سکتا ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا چاہے تو وضو کر کے سوجائے ( اور چاہے تو یوں ہی سوجائے)
-
حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ عَنْ أَبِيهِ أَنَّ عُمَرَ حَمَلَ عَلَى فَرَسٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَرَآهَا أَوْ بَعْضَ نِتَاجِهَا يُبَاعُ فَأَرَادَ شِرَاءَهُ فَسَأَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْهُ فَقَالَ اتْرُكْهَا تُوَافِكَ أَوْ تَلْقَهَا جَمِيعًا وَقَالَ مَرَّتَيْنِ فَنَهَاهُ وَقَالَ لَا تَشْتَرِهِ وَلَا تَعُدْ فِي صَدَقَتِكَ-
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فی سبیل اللہ کسی شخص کو سواری کے لئے گھوڑا دے دیا، بعد میں دیکھا کہ وہ گھوڑا خود یا اس کا کوئی بچہ بازار میں بک رہا ہے، انہوں نے سوچا کہ اسے خرید لیتاہوں، چنانچہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مشورہ کیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اس سے منع کر دیا اور فرمایا کہ اسے مت خریدو اور اپنے صدقے سے رجوع مت کرو۔
-
حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَامِرِ بْنِ رَبِيعَةَ يُحَدِّثُ عَنْ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَبْلُغُ بِهِ النَّبِيَّ وَقَالَ سُفْيَانُ مَرَّةً عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ تَابِعُوا بَيْنَ الْحَجِّ وَالْعُمْرَةِ فَإِنَّ مُتَابَعَةً بَيْنَهُمَا يَنْفِيَانِ الْفَقْرَ وَالذُّنُوبَ كَمَا يَنْفِي الْكِيرُ خَبَثَ الْحَدِيدِ-
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا حج وعمرہ تسلسل کے ساتھ کیا کرو، کیونکہ ان کے تسلسل سے فقروفاقہ اور گناہ ایسے دور ہوجاتے ہیں جیسے بھٹی میں لوہے کا میل کچیل دور ہو جاتا ہے۔
-
حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ يَحْيَى عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيِّ عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ وَقَّاصٍ قَالَ سَمِعْتُ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَقُولُ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّةِ وَلِكُلِّ امْرِئٍ مَا نَوَى فَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ إِلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ فَهِجْرَتُهُ إِلَى مَا هَاجَرَ إِلَيْهِ وَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ لِدُنْيَا يُصِيبُهَا أَوْ امْرَأَةٍ يَنْكِحُهَا فَهِجْرَتُهُ إِلَى مَا هَاجَرَ إِلَيْهِ-
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اعمال کا دارومدار تو نیت پر ہے اور ہر انسان کو وہی ملے گا جس کی اس نے نیت کی ہو، سو جس شخص کی ہجرت اللہ کی طرف ہو، تو وہ اس کی طرف ہی ہوگی جس کی طرف اس نے ہجرت کی، اور جس کی ہجرت حصول دنیا کے لئے ہو یا کسی عورت سے نکاح کی خاطر ہو تو اس کی ہجرت اس چیز کی طرف ہوگی جس کی طرف اس نے کی۔
-
حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ عَبْدَةَ بْنِ أَبِي لُبَابَةَ عَنْ أَبِي وَائِلٍ قَالَ قَالَ الصُّبَيُّ بْنُ مَعْبَدٍ كُنْتُ رَجُلًا نَصْرَانِيًّا فَأَسْلَمْتُ فَأَهْلَلْتُ بِالْحَجِّ وَالْعُمْرَةِ فَسَمِعَنِي زَيْدُ بْنُ صُوحَانَ وَسَلْمَانُ بْنُ رَبِيعَةَ وَأَنَا أُهِلُّ بِهِمَا فَقَالَا لَهَذَا أَضَلُّ مِنْ بَعِيرِ أَهْلِهِ فَكَأَنَّمَا حُمِلَ عَلَيَّ بِكَلِمَتِهِمَا جَبَلٌ فَقَدِمْتُ عَلَى عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَأَخْبَرْتُهُ فَأَقْبَلَ عَلَيْهِمَا فَلَامَهُمَا وَأَقْبَلَ عَلَيَّ فَقَالَ هُدِيتَ لِسُنَّةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هُدِيتَ لِسُنَّةِ نَبِيِّكَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ عَبْدَةُ قَالَ أَبُو وَائِلٍ كَثِيرًا مَا ذَهَبْتُ أَنَا وَمَسْرُوقٌ إِلَى الصُّبَيِّ نَسْأَلُهُ عَنْهُ-
حضرت ابووائل رحمۃ اللہ علیہ سے مروی ہے کہ صبی بن معبد کہتے ہیں کہ میں ایک عیسائی تھا، پھر میں نے اسلام قبول کر لیا، میں نے میقات پر پہنچ کر حج اور عمرہ دونوں کا احرام باندھ لیا، زید بن صوحان اور سلمان بن ربیعہ کو معلوم ہوا تو انہوں نے کہا کہ یہ شخص اپنے اونٹ سے بھی زیادہ گمراہ ہے، ان دونوں کی یہ بات مجھ پر پہاڑ سے بھی زیادہ بوجھ ثابت ہوئی، چنانچہ میں جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا تو زید اور سلمان نے جو کہا تھا، اس کے متعلق ان کی خدمت میں عرض کیا، حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ان دونوں کی طرف متوجہ ہو کر انہیں ملامت کی اور میری طرف متوجہ ہو کر فرمایا کہ آپ کو اپنے پیغمبر کی سنت کی رہنمائی نصیب ہوگئی۔
-
حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ عَمْرٍو عَنْ طَاوُسٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ذُكِرَ لِعُمَرَ أَنَّ سَمُرَةَ وَقَالَ مَرَّةً بَلَغَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ سَمُرَةَ بَاعَ خَمْرًا قَالَ قَاتَلَ اللَّهُ سَمُرَةَ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَعَنَ اللَّهُ الْيَهُودَ حُرِّمَتْ عَلَيْهِمْ الشُّحُومُ فَجَمَلُوهَا فَبَاعُوهَا-
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے سامنے یہ بات ذکر کی گئی کہ سمرہ نے شراب فروخت کی ہے، انہوں نے فرمایا اللہ اسے ہلاک کرے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تو فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ یہودیوں پر لعنت فرمائے کہ ان پر چربی کو حرام قرار دیا گیا لیکن انہوں نے اسے پگھلا کر اس کا تیل بنالیا اور اسے فروخت کرنا شروع کردیا۔
-
حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ عَمْرٍو وَمَعْمَرٍ عَنِ الزُّهْرِيِّ عَنْ مَالِكِ بْنِ أَوْسِ بْنِ الْحَدَثَانِ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ كَانَتْ أَمْوَالُ بَنِي النَّضِيرِ مِمَّا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِمَّا لَمْ يُوجِفْ الْمُسْلِمُونَ عَلَيْهِ بِخَيْلٍ وَلَا رِكَابٍ فَكَانَتْ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَالِصَةً وَكَانَ يُنْفِقُ عَلَى أَهْلِهِ مِنْهَا نَفَقَةَ سَنَةٍ وَقَالَ مَرَّةً قُوتَ سَنَةٍ وَمَا بَقِيَ جَعَلَهُ فِي الْكُرَاعِ وَالسِّلَاحِ عُدَّةً فِي سَبِيلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ-
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ بنو نضیر سے حاصل ہونے والے اموال کا تعلق مال فئی سے تھا جو اللہ نے اپنے پیغمبر کو عطاء فرمائے، اور مسلمانوں کو اس پر گھوڑے یا کوئی اور سواری دوڑانے کی ضرورت نہیں پیش آئی، اس لئے یہ مال خاص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا تھا ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس میں سے اپنی ازواج مطہرات کو سال بھر کا نفقہ ایک ہی مرتبہ دے دیا کرتے تھے اور جو باقی بچتا اس سے گھوڑے اور دیگر اسلحہ جو جہاد میں کام آسکے فراہم کر لیتے تھے۔
-
حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ عَمْرٍو عَنِ الزُّهْرِيِّ عَنْ مَالِكِ بْنِ أَوْسٍ قَالَ سَمِعْتُ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَقُولُ لِعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ وَطَلْحَةَ وَالزُّبَيْرِ وَسَعْدٍ نَشَدْتُكُمْ بِاللَّهِ الَّذِي تَقُومُ السَّمَاءُ وَالْأَرْضُ بِهِ أَعَلِمْتُمْ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنَّا لَا نُورَثُ مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ قَالُوا اللَّهُمَّ نَعَمْ-
ایک مرتبہ حضرت فاروق اعطم رضی اللہ عنہ نے حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ، حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ، حضرت زبیر رضی اللہ عنہ اور حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے فرمایا میں تمیہیں اس اللہ کی قسم اور واسطہ دیتاہوں جس کے حکم سے زمین و آسمان قائم ہیں ، کیا آپ کے علم میں یہ بات ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے ہمارے مال میں وراثت جاری نہیں ہوتی، ہم جو کچھ چھوڑ جاتے ہیں وہ سب صدقہ ہوتا ہے؟ انہوں نے اثبات میں جواب دیا۔
-
حَدَّثَنَا سَفْيَانُ عَنْ ابْنِ أَبِي يَزِيدٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ الْوَلَدُ لِلْفِرَاشِ-
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اشاد فرمایا بچہ بستر والے کا ہوتا ہے۔
-
حَدَّثَنَا ابْنُ إِدْرِيسَ أَنْبَأَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ عَنِ ابْنِ أَبِي عَمَّارٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بَابَيْهِ عَنْ يَعْلَى بْنِ أُمَيَّةَ قَالَ سَأَلْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ قُلْتُ لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَنْ تَقْصُرُوا مِنْ الصَّلَاةِ إِنْ خِفْتُمْ أَنْ يَفْتِنَكُمْ الَّذِينَ كَفَرُوا وَقَدْ أَمَّنَ اللَّهُ النَّاسَ فَقَالَ لِي عُمَرُ عَجِبْتُ مِمَّا عَجِبْتَ مِنْهُ فَسَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ذَلِكَ فَقَالَ صَدَقَةٌ تَصَدَّقَ اللَّهُ بِهَا عَلَيْكُمْ فَاقْبَلُوا صَدَقَتَهُ-
یعلی بن امیہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ قرآن کریم میں قصر کا جو حکم خوف کی حالت میں آیا ہے، اب تو ہر طرف امن وامان ہو گیا ہے تو کیا یہ حکم ختم ہوگیا؟ (اگر ایسا ہے تو پھر قرآن میں اب تک یہ آیت کیوں موجود ہے ؟) تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ مجھے بھی اسی طرح تعجب ہوا تھا جس طرح تمہیں ہوا ہے اور میں نے بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق دریافت کیا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا یہ اللہ کی طرف سے صدقہ ہے جو اس نے اپنے بندوں پر کیا ہے، لہٰذا اس صدقے اور مہربانی کو قبول کرو۔
-
حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ عَنْ إِبْرَاهِيمَ عَنْ عَلْقَمَةَ قَالَ جَاءَ رَجُلٌ إِلَى عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَهُوَ بِعَرَفَةَ قَالَ أَبُو مُعَاوِيَةَ وَحَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ عَنْ خَيْثَمَةَ عَنْ قَيْسِ بْنِ مَرْوَانَ أَنَّهُ أَتَى عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَقَالَ جِئْتُ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ مِنْ الْكُوفَةِ وَتَرَكْتُ بِهَا رَجُلًا يُمْلِي الْمَصَاحِفَ عَنْ ظَهْرِ قَلْبِهِ فَغَضِبَ وَانْتَفَخَ حَتَّى كَادَ يَمْلَأُ مَا بَيْنَ شُعْبَتَيْ الرَّحْلِ فَقَالَ وَمَنْ هُوَ وَيْحَكَ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ فَمَا زَالَ يُطْفَأُ وَيُسَرَّى عَنْهُ الْغَضَبُ حَتَّى عَادَ إِلَى حَالِهِ الَّتِي كَانَ عَلَيْهَا ثُمَّ قَالَ وَيْحَكَ وَاللَّهِ مَا أَعْلَمُهُ بَقِيَ مِنْ النَّاسِ أَحَدٌ هُوَ أَحَقُّ بِذَلِكَ مِنْهُ وَسَأُحَدِّثُكَ عَنْ ذَلِكَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يَزَالُ يَسْمُرُ عِنْدَ أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ اللَّيْلَةَ كَذَاكَ فِي الْأَمْرِ مِنْ أَمْرِ الْمُسْلِمِينَ وَإِنَّهُ سَمَرَ عِنْدَهُ ذَاتَ لَيْلَةٍ وَأَنَا مَعَهُ فَخَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَخَرَجْنَا مَعَهُ فَإِذَا رَجُلٌ قَائِمٌ يُصَلِّي فِي الْمَسْجِدِ فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْتَمِعُ قِرَاءَتَهُ فَلَمَّا كِدْنَا أَنْ نَعْرِفَهُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ سَرَّهُ أَنْ يَقْرَأَ الْقُرْآنَ رَطْبًا كَمَا أُنْزِلَ فَلْيَقْرَأْهُ عَلَى قِرَاءَةِ ابْنِ أُمِّ عَبْدٍ قَالَ ثُمَّ جَلَسَ الرَّجُلُ يَدْعُو فَجَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ لَهُ سَلْ تُعْطَهْ سَلْ تُعْطَهْ قَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قُلْتُ وَاللَّهِ لَأَغْدُوَنَّ إِلَيْهِ فَلَأُبَشِّرَنَّهُ قَالَ فَغَدَوْتُ إِلَيْهِ لِأُبَشِّرَهُ فَوَجَدْتُ أَبَا بَكْرٍ قَدْ سَبَقَنِي إِلَيْهِ فَبَشَّرَهُ وَلَا وَاللَّهِ مَا سَبَقْتُهُ إِلَى خَيْرٍ قَطُّ إِلَّا وَسَبَقَنِي إِلَيْهِ-
قیس بن روان کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ امیرالمومنین! میں کوفہ سے آپ کے پاس آرہا ہوں ، وہاں میں ایک ایسے آدمی کو چھوڑ کر آیا ہوں جو اپنی یاد سے قرآن کریم املاء کروا رہا ہے، یہ سن کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ غضب ناک ہوگئے اور ان کی رگیں اس طرح پھول گئیں کہ کجاوے کے دونوں کنارے ان سے بھرگئے، اور مجھ سے پوچھا افسوس! وہ کون ہے؟ میں نے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا نام لیا۔ میں نے دیکھا کہ ان کا نام سنتے ہی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا غصہ ٹھنڈا ہونے لگا اور ان کی وہ کیفیت ختم ہونا شروع ہوگئی، یہاں تک کہ وہ نارمل ہوگئے اور مجھ سے فرمایا کمبخت! میں اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میرے علم کے مطابق لوگوں میں ان سے زیادہ اس کا کوئی حق دار نہیں ہے، اور میں تمہیں اس کے متعلق ایک حدیث سناتا ہوں ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ معمول مبارک تھا کہ رات کے وقت حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے ساتھ مسلمانوں کے معاملات میں مشورہ کرنے کے لیے تشریف لے جاتے تھے، ایک مرتبہ اسی طرح رات کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ساتھ گفتگو میں مصروف تھے، میں بھی وہاں موجود تھا، فراغت کے بعد جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے نکلے تو ہم بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکل آئے، دیکھا کہ ایک آدمی مسجد میں کھڑا نماز پڑھ رہا ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس کی قرائت سننے کے لیے کھڑے ہوگئے۔ ابھی ہم اس آدمی کی آواز پہچاننے کی کوشش کر ہی رہے تھے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص قرآن کریم کو اسی طرح تروتازہ پڑھنا چاہے جیسے وہ نازل ہوا ہے، تو اسے چاہیے کہ وہ ابن ام عبد کی قرائت پر اسے پڑھے، پھر وہ آدمی بیٹھ کر دعاء کرنے لگا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس سے فرمانے لگے مانگو، تمہیں عطاء کیا جائےگا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے دل میں سوچا کہ صبح ہوتے ہی میں انہیں یہ خوشخبری ضرور سناؤں گا، چنانچہ جب میں صبح انہیں یہ خوشخبری سنانے کے لیے پہنچا تو وہاں حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو بھی پایا، وہ مجھ پر اس معاملے میں بھی سبقت لے گئے۔
-
حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ قَالَ حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ عَنْ إِبْرَاهِيمَ عَنْ عَابِسِ بْنِ رَبِيعَةَ قَالَ رَأَيْتُ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يُقَبِّلُ الْحَجَرَ وَيَقُولُ إِنِّي لَأُقَبِّلُكَ وَأَعْلَمُ أَنَّكَ حَجَرٌ وَلَوْلَا أَنِّي رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُقَبِّلُكَ لَمْ أُقَبِّلْكَ-
عابس بن ربیعہ کہتے ہیں کہ میں نے ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ وہ حجر اسود کو بوسہ دے رہے ہیں اور اس سے مخاطب ہو کر فرما رہے ہیں میں جانتاہوں کہ تو ایک پتھر ہے لیکن میں تجھے پھر بھی بوسہ دے رہا ہوں اگر میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تیرا بوسہ لیتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو میں تجھے کبھی بوسہ نہ دیتا۔
-
حَدَّثَنَا جَرِيرٌ عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ قَالَ خَطَبَ عُمَرُ النَّاسَ بِالْجَابِيَةِ فَقَالَ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَامَ فِي مِثْلِ مَقَامِي هَذَا فَقَالَ أَحْسِنُوا إِلَى أَصْحَابِي ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ ثُمَّ يَجِيءُ قَوْمٌ يَحْلِفُ أَحَدُهُمْ عَلَى الْيَمِينِ قَبْلَ أَنْ يُسْتَحْلَفَ عَلَيْهَا وَيَشْهَدُ عَلَى الشَّهَادَةِ قَبْلَ أَنْ يُسْتَشْهَدَ فَمَنْ أَحَبَّ مِنْكُمْ أَنْ يَنَالَ بُحْبُوحَةَ الْجَنَّةِ فَلْيَلْزَمْ الْجَمَاعَةَ فَإِنَّ الشَّيْطَانَ مَعَ الْوَاحِدِ وَهُوَ مِنْ الِاثْنَيْنِ أَبْعَدُ وَلَا يَخْلُوَنَّ رَجُلٌ بِامْرَأَةٍ فَإِنَّ ثَالِثَهُمَا الشَّيْطَانُ وَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ تَسُرُّهُ حَسَنَتُهُ وَتَسُوءُهُ سَيِّئَتُهُ فَهُوَ مُؤْمِنٌ-
حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ دوران سفرجابیہ میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اسی طرح خطبہ ارشاد فرمانے کے لیے کھڑے ہوئے جیسے میں کھڑا ہوں، اور فرمایا کہ میں تمہیں اپنے صحابہ کے ساتھ بھلائی کی وصیت کرتا ہوں، یہی حکم ان کے بعد والوں اور ان کے بعد والوں کا بھی ہے، اس کے بعد ایک قوم ایسی آئے گی جو قسم کی درخواست سے پہلے ہی قسم کھانے کے لئے تیار ہوگی اور گواہی کی درخواست سے قبل ہی آدمی گواہی دینے کے لیے تیار ہوجائے گا، سوتم میں سے جو شخص جنت کا ٹھکانہ چاہتا ہے اسے چاہیے کہ وہ جماعت کو لازم پکڑے، کیونکہ اکیلے آدمی کے ساتھ شیطان ہوتا ہے اور دو سے دور ہوتا ہے، یاد رکھو! تم میں سے کوئی شخص کسی عورت کے ساتھ خلوت میں نہ بیٹھے کیونکہ ان دو کے ساتھ تیسرا شیطان ہوتاہے، اور جس شخص کو اپنی نیکی سے خوشی اور برائی سے غم ہو، وہ مومن ہے۔
-
حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ عَنْ إِبْرَاهِيمَ عَنْ عَلْقَمَةَ عَنْ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْمُرُ عِنْدَ أَبِي بَكْرٍ اللَّيْلَةَ كَذَلِكَ فِي الْأَمْرِ مِنْ أَمْرِ الْمُسْلِمِينَ وَأَنَا مَعَهُ-
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ معمول مبارک تھا کہ روزانہ رات کو حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے پاس مسلمانوں کے معاملات میں مشورے کے لئے تشریف لے جاتے تھے، ایک مرتبہ میں بھی اس موقع پر موجود تھا۔
-
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي عَرُوبَةَ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ عَنْ مَعْدَانَ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ قَالَ قَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ مَا سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ شَيْءٍ أَكْثَرَ مِمَّا سَأَلْتُهُ عَنْ الْكَلَالَةِ حَتَّى طَعَنَ بِإِصْبَعِهِ فِي صَدْرِي وَقَالَ تَكْفِيكَ آيَةُ الصَّيْفِ الَّتِي فِي آخِرِ سُورَةِ النِّسَاءِ-
حضرت عمر فاروق رضی اللہ سے مروی ہے کہ میں نے کلالہ سے متعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے جتنی مرتبہ سوال کیا، اس سے زیادہ کسی چیز کے متعلق سوال نہیں کیا، یہاں تک کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے سینے پر اپنی انگلی رکھ کر فرمایا کہ تمہارے لیے سورت نساء کی آخری آیت جو موسم گرما میں نازل ہوئی تھی کافی ہے۔
-
حَدَّثَنَا يَحْيَى حَدَّثَنَا شُعْبَةُ حَدَّثَنَا قَتَادَةُ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ عَنِ ابْنِ عُمَرَ عَنْ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ الْمَيِّتُ يُعَذَّبُ فِي قَبْرِهِ بِالنِّيَاحَةِ عَلَيْهِ-
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا میت کو اس کی قبر میں اس پر ہونے والے نوحے کی وجہ سے عذاب ہوتا ہے۔
-
حَدَّثَنَا يَحْيَى عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ مَوْلَى أَسْمَاءَ قَالَ أَرْسَلَتْنِي أَسْمَاءُ إِلَى ابْنِ عُمَرَ أَنَّهُ بَلَغَهَا أَنَّكَ تُحَرِّمُ أَشْيَاءَ ثَلَاثَةً الْعَلَمَ فِي الثَّوْبِ وَمِيثَرَةَ الْأُرْجُوَانِ وَصَوْمَ رَجَبٍ كُلِّهِ فَقَالَ أَمَّا مَا ذَكَرْتَ مِنْ صَوْمِ رَجَبٍ فَكَيْفَ بِمَنْ يَصُومُ الْأَبَدَ وَأَمَّا مَا ذَكَرْتَ مِنْ الْعَلَمِ فِي الثَّوْبِ فَإِنِّي سَمِعْتُ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَقُولُ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ مَنْ لَبِسَ الْحَرِيرَ فِي الدُّنْيَا لَمْ يَلْبَسْهُ فِي الْآخِرَةِ-
عبداللہ جو حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کے غلام تھے کہتے ہیں کہ مجھے ایک مرتبہ حضرت اسماء رضی اللہ عنہا نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجا اور فرمایا کہ مجھے پتہ چلا ہے کہ آپ تین چیزوں کو حرام قرار دیتے ہیں ۔ (١) کپڑوں میں ریشمی نقش ونگار کو (٢) سرخ رنگ کے کپڑوں کو (٣) مکمل ماہ رجب کے روزوں کو انہوں نے جوابا کہلوا بھیجا کہ آپ نے رجب کے روزوں کو حرام قرار دینے کی جو بات ذکر کی ہے، جو شخص خود ساراسال روزے رکھتا ہو، وہ یہ بات کیسے کہہ سکتاہے؟ (یعنی یہ بات میں نے نہیں کہی) اور جہاں تک کپڑوں میں نقش ونگار کی بات ہے تو میں نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے سنا ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص دنیا میں ریشم پہنتا ہے وہ آخرت میں اسے نہیں پہن سکے گا۔
-
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ وَأَنَا سَأَلْتُهُ حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ الْمُغِيرَةِ حَدَّثَنَا ثَابِتٌ عَنْ أَنَسٍ قَالَ كُنَّا مَعَ عُمَرَ بَيْنَ مَكَّةَ وَالْمَدِينَةِ فَتَرَاءَيْنَا الْهِلَالَ وَكُنْتُ حَدِيدَ الْبَصَرِ فَرَأَيْتُهُ فَجَعَلْتُ أَقُولُ لِعُمَرَ أَمَا تَرَاهُ قَالَ سَأَرَاهُ وَأَنَا مُسْتَلْقٍ عَلَى فِرَاشِي ثُمَّ أَخَذَ يُحَدِّثُنَا عَنْ أَهْلِ بَدْرٍ قَالَ إِنْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيُرِينَا مَصَارِعَهُمْ بِالْأَمْسِ يَقُولُ هَذَا مَصْرَعُ فُلَانٍ غَدًا إِنْ شَاءَ اللَّهُ تَعَالَى وَهَذَا مَصْرَعُ فُلَانٍ غَدًا إِنْ شَاءَ اللَّهُ تَعَالَى قَالَ فَجَعَلُوا يُصْرَعُونَ عَلَيْهَا قَالَ قُلْتُ وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ مَا أَخْطَئُوا تِيكَ كَانُوا يُصْرَعُونَ عَلَيْهَا ثُمَّ أَمَرَ بِهِمْ فَطُرِحُوا فِي بِئْرٍ فَانْطَلَقَ إِلَيْهِمْ فَقَالَ يَا فُلَانُ يَا فُلَانُ هَلْ وَجَدْتُمْ مَا وَعَدَكُمْ اللَّهُ حَقًّا فَإِنِّي وَجَدْتُ مَا وَعَدَنِي اللَّهُ حَقًّا قَالَ عُمَرُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَتُكَلِّمُ قَوْمًا قَدْ جَيَّفُوا قَالَ مَا أَنْتُمْ بِأَسْمَعَ لِمَا أَقُولُ مِنْهُمْ وَلَكِنْ لَا يَسْتَطِيعُونَ أَنْ يُجِيبُوا-
حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے ساتھ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے درمیان تھے کہ ہمیں پہلی کا چاند دکھائی دیا، میری بصارت تیز تھی اس لیے میں نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے عرض کیا کہ آپ دیکھ رہے ہیں؟ فرمایا میں ابھی دیکھتا ہوں، میں اس وقت فرش پر چت لیٹا ہوا تھا، پھر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اہل بدر کے حوالے سے حدیث بیان کرنے لگے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ایک دن پہلے ہی وہ تمام جگہیں دکھادیں جہاں کفار کی لاشیں گرنی تھیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم دکھاتے جاتے تھے اور فرماتے جاتے تھے کہ یہاں فلاں کی لاش گرے گی، اور انشاء اللہ کل یہاں فلاں شخص قتل ہوگا، چنانچہ ایسا ہی ہوا اور وہ انہی جگہوں پر گرنے لگے جہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا۔ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا اس ذات کی قسم! جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے یہ تو اس جگہ سے جس کی نشاندہی آپ نے فرمائی تھی ذرا بھی ادھر ادھر نہیں ہوئے، اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر ان کی لاشیں گھسیٹ کر ایک کنویں میں پھینک دی گئیں، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس کنوئیں کے پاس جا کر کھڑے ہوئے اور ایک ایک کا نام لے کر فرمایا کہ کیا تم نے اپنے پروردگار کے وعدے کوسچا پایا یا نہیں؟ میں نے تو اپنے پروردگار کے وعدے کو سچا پایا، میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! آپ ان لوگوں سے گفتگو فرما رہے ہیں جو مردار ہوچکے، فرمایا میں ان سے جو کچھ کہہ رہا تم ان سے زیادہ نہیں سن رہے البتہ فرق صرف اتنا ہے کہ یہ جواب نہیں دے سکتے ( اور تم جواب دے سکتے ہو)
-
حَدَّثَنَا يَحْيَى حَدَّثَنَا حُسَيْنٌ الْمُعَلِّمُ حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ شُعَيْبٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ قَالَ فَلَمَّا رَجَعَ عَمْرٌو جَاءَ بَنُو مَعْمَرِ بْنِ حَبِيبٍ يُخَاصِمُونَهُ فِي وَلَاءِ أُخْتِهِمْ إِلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَقَالَ أَقْضِي بَيْنَكُمْ بِمَا سَمِعْتُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ مَا أَحْرَزَ الْوَلَدُ أَوْ الْوَالِدُ فَهُوَ لِعَصَبَتِهِ مَنْ كَانَ فَقَضَى لَنَا بِهِ-
حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ بنو معمربن حبیب اپنی بہن کی ولاء کا جھگڑالے کر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے، انہوں نے فرمایا کہ میں تمہارے درمیان اسی طرح فیصلہ کروں گا جیسے میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اولاد یا والد نے جو کچھ بھی جمع کیا ہے وہ سب اس کے عصبہ کا ہوگا خواہ وہ کوئی بھی ہو، چنانچہ انہوں نے اسی کے مطابق فیصلہ فرمایا۔
-
قَالَ قَرَأْتُ عَلَى يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ عَنْ عُثْمَانَ بْنِ غِيَاثٍ حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بُرَيْدَةَ عَنْ يَحْيَى بْنِ يَعْمَرَ وَحُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحِمْيَرِيِّ قَالَا لَقِينَا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ فَذَكَرْنَا الْقَدَرَ وَمَا يَقُولُونَ فِيهِ فَقَالَ إِذَا رَجَعْتُمْ إِلَيْهِمْ فَقُولُوا إِنَّ ابْنَ عُمَرَ مِنْكُمْ بَرِيءٌ وَأَنْتُمْ مِنْهُ بُرَآءُ ثَلَاثَ مِرَارٍ ثُمَّ قَالَ أَخْبَرَنِي عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّهُمْ بَيْنَا هُمْ جُلُوسٌ أَوْ قُعُودٌ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَاءَهُ رَجُلٌ يَمْشِي حَسَنُ الْوَجْهِ حَسَنُ الشَّعْرِ عَلَيْهِ ثِيَابُ بَيَاضٍ فَنَظَرَ الْقَوْمُ بَعْضُهُمْ إِلَى بَعْضٍ مَا نَعْرِفُ هَذَا وَمَا هَذَا بِصَاحِبِ سَفَرٍ ثُمَّ قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ آتِيكَ قَالَ نَعَمْ فَجَاءَ فَوَضَعَ رُكْبَتَيْهِ عِنْدَ رُكْبَتَيْهِ وَيَدَيْهِ عَلَى فَخِذَيْهِ فَقَالَ مَا الْإِسْلَامُ قَالَ شَهَادَةُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ وَتُقِيمُ الصَّلَاةَ وَتُؤْتِي الزَّكَاةَ وَتَصُومُ رَمَضَانَ وَتَحُجُّ الْبَيْتَ قَالَ فَمَا الْإِيمَانُ قَالَ أَنْ تُؤْمِنَ بِاللَّهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَالْجَنَّةِ وَالنَّارِ وَالْبَعْثِ بَعْدَ الْمَوْتِ وَالْقَدَرِ كُلِّهِ قَالَ فَمَا الْإِحْسَانُ قَالَ أَنْ تَعْمَلَ لِلَّهِ كَأَنَّكَ تَرَاهُ فَإِنْ لَمْ تَكُنْ تَرَاهُ فَإِنَّهُ يَرَاكَ قَالَ فَمَتَى السَّاعَةُ قَالَ مَا الْمَسْئُولُ عَنْهَا بِأَعْلَمَ مِنْ السَّائِلِ قَالَ فَمَا أَشْرَاطُهَا قَالَ إِذَا الْعُرَاةُ الْحُفَاةُ الْعَالَةُ رِعَاءُ الشَّاءِ تَطَاوَلُوا فِي الْبُنْيَانِ وَوَلَدَتْ الْإِمَاءُ رَبَّاتِهِنَّ قَالَ ثُمَّ قَالَ عَلَيَّ الرَّجُلَ فَطَلَبُوهُ فَلَمْ يَرَوْا شَيْئًا فَمَكَثَ يَوْمَيْنِ أَوْ ثَلَاثَةً ثُمَّ قَالَ يَا ابْنَ الْخَطَّابِ أَتَدْرِي مَنْ السَّائِلُ عَنْ كَذَا وَكَذَا قَالَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ قَالَ ذَاكَ جِبْرِيلُ جَاءَكُمْ يُعَلِّمُكُمْ دِينَكُمْ قَالَ وَسَأَلَهُ رَجُلٌ مِنْ جُهَيْنَةَ أَوْ مُزَيْنَةَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ فِيمَا نَعْمَلُ أَفِي شَيْءٍ قَدْ خَلَا أَوْ مَضَى أَوْ فِي شَيْءٍ يُسْتَأْنَفُ الْآنَ قَالَ فِي شَيْءٍ قَدْ خَلَا أَوْ مَضَى فَقَالَ رَجُلٌ أَوْ بَعْضُ الْقَوْمِ يَا رَسُولَ اللَّهِ فِيمَا نَعْمَلُ قَالَ أَهْلُ الْجَنَّةِ يُيَسَّرُونَ لِعَمَلِ أَهْلِ الْجَنَّةِ وَأَهْلُ النَّارِ يُيَسَّرُونَ لِعَمَلِ أَهْلِ النَّارِ قَالَ يَحْيَى قَالَ هُوَ هَكَذَا يَعْنِي كَمَا قَرَأْتَ عَلَيَّ-
یحییٰ بن یعمر اور حمید بن عبدالرحمان حمیری کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہماری ملاقات حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے ہوئی، ہم نے ان کے سامنے مسئلہ تقدیر کو چھیڑا اور لوگوں کے اعتراضات کا بھی ذکر کیا، ہماری بات سن کر انہوں نے فرمایا کہ جب تم ان لوگوں کے پاس لوٹ کر جاؤ توان سے کہہ دینا کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ تم سے بری ہے، اور تم اس سے بری ہو، یہ بات تین مرتبہ کہہ کر انہوں نے یہ روایت سنائی کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ، ایک دن ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک ایک آدمی چلتا ہوا آیا، خوبصورت رنگ، خوبصورت بال اور سفید کپڑوں میں ملبوس اس آدمی کو دیکھ کر لوگوں نے ایک دوسرے کو دیکھا اور اشاروں میں کہنے لگے کہ ہم تو اسے نہیں پہچانتے اور یہ مسافر بھی نہیں لگتا۔ اس آدمی نے عرض کیا یا رسول اللہ! کیا میں قریب آسکتاہوں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اجازت دے دی، چنانچہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے گھٹنوں سے گھٹنے ملا کر اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رانوں پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ گیا اور کہنے لگا کہ اسلام کیا ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود ہو ہی نہیں سکتا اور یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے پیغمبر ہیں، نیز یہ کہ آپ نماز قائم کریں، زکوۃ اداکریں، رمضان کے روزے رکھیں اور حج بیت اللہ کریں ۔ اس نے اگلا سوال یہ پوچھا کہ ایمان کیا ہے؟ فرمایا تم اللہ پر، اس کے فرشتوں ، جنت وجہنم، قیامت کے بعد دوبارہ جی اٹھنے اور تقدیر پر یقین رکھو، اس نے پھر پوچھا کہ احسان کیا ہے؟ فرمایا تم اللہ کی رضاحاصل کرنے کے لیے کوئی عمل اس طرح کرو گویا کہ تم اسے دیکھ رہے ہو، اگر تم یہ تصور نہیں کرسکتے تو کم ازکم یہی تصور کر لو کہ وہ تو تمہیں دیکھ ہی رہا ہے۔ اس نے پھر پوچھا کہ قیامت کب آئے گی؟ فرمایا جس سے سوال پوچھا جارہا ہے وہ پوچھنے والے سے زیادہ نہیں جانتا یعنی ہم دونوں ہی اس معاملے میں بے خبر ہیں، اس نے کہا کہ پھر اس کی کچھ علامات ہی بتا دیجئے؟ فرمایا جب تم یہ دیکھو کہ جن کے جسم پر چیتھڑا اور پاؤں میں لیترا نہیں ہوتا تھا، غریب اور چرواہے تھے، آج وہ بڑی بڑی بلڈنگیں اور عمارتیں بنا کر ایک دوسرے پر فخر کرنے لگیں، لونڈیاں اپنی مالکن کو جنم دینے لگیں تو قیامت قریب آگئی۔ جب وہ آدمی چلا گیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ذرا اس آدمی کو بلا کر لانا، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس کی تلاش میں نکلے تو انہیں کچھ نظر نہ آیا، دو تین دن بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ سے فرمایا اے ابن خطاب! کیا تمہیں علم ہے کہ وہ سائل کون تھا؟ انہوں نے عرض کیا اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں فرمایا وہ جبریل علیہ السلام تھے جو تمہیں تمہارے دین کی اہم اہم باتیں سکھانے آئے تھے۔ راوی کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے قبیلہ جہینہ یا مزینہ کے ایک آدمی نے بھی یہ سوال پوچھا تھا کہ یا رسول اللہ! ہم جو عمل کرتے ہیں کیا ان کا فیصلہ پہلے سے ہوچکا ہے یا ہمارا عمل پہلے ہوتا ہے؟ فرمایا ان کا فیصلہ پہلے ہوچکا ہے، اس نے عرض کیا یا رسول اللہ! پھر عمل کا کیا فائدہ؟ فرمایا اہل جنت کے لئے اہل جنت کے اعمال آسان کر دئیے جاتے ہیں اور اہل جہنم کے لئے اہل جہنم کے اعمال آسان کر دئیے جاتے ہیں ۔
-
حَدَّثَنَا يَحْيَى عَنْ شُعْبَةَ حَدَّثَنِي سَلَمَةُ بْنُ كُهَيْلٍ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا الْحَكَمِ قَالَ سَأَلْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ نَبِيذِ الْجَرِّ وَالدُّبَّاءِ فَقَالَ نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ نَبِيذِ الْجَرِّ وَالدُّبَّاءِ وَقَالَ مَنْ سَرَّهُ أَنْ يُحَرِّمَ مَا حَرَّمَ اللَّهُ تَعَالَى وَرَسُولُهُ فَلْيُحَرِّمْ النَّبِيذَ قَالَ وَسَأَلْتُ ابْنَ الزُّبَيْرِ فَقَالَ نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ الدُّبَّاءِ وَالْجَرِّ قَالَ وَسَأَلْتُ ابْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَحَدَّثَ عَنْ عُمَرَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْ الدُّبَّاءِ وَالْمُزَفَّتِ قَالَ وَحَدَّثَنِي أَخِي عَنْ أَبِي سَعِيدٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْ الْجَرِّ وَالدُّبَّاءِ وَالْمُزَفَّتِ وَالْبُسْرِ وَالتَّمْرِ-
ابوالحکم کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مٹکے کی نبیذ کے متعلق سوال کیا تو فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مٹکے کی نبیذ اور کدو کی نبیذ سے تو منع فرمایا ہے، اس لیے جو شخص اللہ اور اس کے رسول کی حرام کردہ چیزوں کو حرام سمجھنا چاہتا ہے اسے چاہیے کہ نبیذ کو حرام سمجھے۔ ابوالحکم کہتے ہیں کہ پھر میں نے یہی سوال حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے کیا تو انہوں نے بھی یہی فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مٹکے اور کدو کی تو نبیذ سے منع فرمایا ہے، پھر میں نے یہی سوال حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ سے کیا تو انہوں نے حضرت عمر رضی اللہ کے حوالے سے یہ حدیث سنائی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کدو کی تو نبیذ اور سبز مٹکے سے منع فرمایا ہے اور حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کے حوالے سے یہ حدیث سنائی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مٹکے، کدو کی تونبیذ اور لکڑی کو کھوکھلا کر کے بطور برتن استعمال کرنے سے منع فرمایا ہے اور کچی اور پکی کھجور کی شراب سے بھی منع فرمایا ہے۔
-
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ أَنَا سَأَلْتُهُ حَدَّثَنَا هِشَامٌ حَدَّثَنَا قَتَادَةُ عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ عَنْ مَعْدَانَ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ أَنَّ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ خَطَبَ يَوْمَ جُمُعَةٍ فَذَكَرَ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَذَكَرَ أَبَا بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَقَالَ إِنِّي قَدْ رَأَيْتُ كَأَنَّ دِيكًا قَدْ نَقَرَنِي نَقْرَتَيْنِ وَلَا أُرَاهُ إِلَّا لِحُضُورِ أَجَلِي وَإِنَّ أَقْوَامًا يَأْمُرُونِي أَنْ أَسْتَخْلِفَ وَإِنَّ اللَّهَ لَمْ يَكُنْ لِيُضِيعَ دِينَهُ وَلَا خِلَافَتَهُ وَالَّذِي بَعَثَ بِهِ نَبِيَّهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِنْ عَجِلَ بِي أَمْرٌ فَالْخِلَافَةُ شُورَى بَيْنَ هَؤُلَاءِ السِّتَّةِ الَّذِينَ تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ عَنْهُمْ رَاضٍ وَإِنِّي قَدْ عَلِمْتُ أَنَّ قَوْمًا سَيَطْعُنُونَ فِي هَذَا الْأَمْرِ أَنَا ضَرَبْتُهُمْ بِيَدِي هَذِهِ عَلَى الْإِسْلَامِ فَإِنْ فَعَلُوا فَأُولَئِكَ أَعْدَاءُ اللَّهِ الْكَفَرَةُ الضُّلَّالُ وَإِنِّي لَا أَدَعُ بَعْدِي شَيْئًا أَهَمَّ إِلَيَّ مِنْ الْكَلَالَةِ وَمَا أَغْلَظَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي شَيْءٍ مُنْذُ صَاحَبْتُهُ مَا أَغْلَظَ لِي فِي الْكَلَالَةِ وَمَا رَاجَعْتُهُ فِي شَيْءٍ مَا رَاجَعْتُهُ فِي الْكَلَالَةِ حَتَّى طَعَنَ بِإِصْبَعِهِ فِي صَدْرِي وَقَالَ يَا عُمَرُ أَلَا تَكْفِيكَ آيَةُ الصَّيْفِ الَّتِي فِي آخِرِ سُورَةِ النِّسَاءِ فَإِنْ أَعِشْ أَقْضِي فِيهَا قَضِيَّةً يَقْضِي بِهَا مَنْ يَقْرَأُ الْقُرْآنَ وَمَنْ لَا يَقْرَأُ الْقُرْآنَ ثُمَّ قَالَ اللَّهُمَّ إِنِّي أُشْهِدُكَ عَلَى أُمَرَاءِ الْأَمْصَارِ فَإِنَّمَا بَعَثْتُهُمْ لِيُعَلِّمُوا النَّاسَ دِينَهُمْ وَسُنَّةَ نَبِيِّهِمْ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَيَقْسِمُوا فِيهِمْ فَيْئَهُمْ وَيَعْدِلُوا عَلَيْهِمْ وَيَرْفَعُوا إِلَيَّ مَا أَشْكَلَ عَلَيْهِمْ مِنْ أَمْرِهِمْ أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّكُمْ تَأْكُلُونَ مِنْ شَجَرَتَيْنِ لَا أُرَاهُمَا إِلَّا خَبِيثَتَيْنِ لَقَدْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا وَجَدَ رِيحَهُمَا مِنْ الرَّجُلِ فِي الْمَسْجِدِ أَمَرَ بِهِ فَأُخِذَ بِيَدِهِ فَأُخْرِجَ إِلَى الْبَقِيعِ وَمَنْ أَكَلَهُمَا فَلْيُمِتْهُمَا طَبْخًا-
ایک مرتبہ حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ جمعہ کے دن منبر پر خطبہ کے لیے تشریف لائے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا تذکرہ کیا، حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی یاد تازہ کی پھر فرمانے لگے کہ میں نے ایک خواب دیکھا ہے اور مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میری دنیا سے رخصتی کا وقت قریب آگیا ہے، میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ ایک مرغے نے مجھے دو مرتبہ ٹھونگ ماری ہے۔ کچھ لوگ مجھ سے یہ کہہ رہے ہیں کہ میں اپنا خلیفہ مقر کردوں ، اتنی بات تو طے ہے کہ اللہ اپنے دین کو ضائع کرے گا اور نہ ہی اس خلافت کو جس کے ساتھ اللہ نے اپنے پیغمبر کو مبعوث فرمایا تھا، اب اگر میرا فیصلہ جلد ہوگیا تو میں مجلس شوری ان چھ افراد کی مقرر کررہاہوں جن سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم بوقت رحلت راضی ہو کر تشریف لے گئے تھے۔ میں جانتاہوں کہ کچھ لوگ مسئلہ خلافت میں رخنہ ڈالنے کی کوشش کریں گے، بخدا! میں اپنے ان ہاتھوں سے اسلام کی مدافعت میں ان لوگوں سے قتال کرچکاہوں ، اگر یہ لوگ ایسا کریں تو یہ لوگ دشمنان خدا، کافر اور گمراہ ہیں ، میں نے اپنے پیچھے کلالہ سے زیادہ اہم مسئلہ کوئی نہیں چھوڑا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اختیار کرنے کے بعد مجھے یاد نہیں پڑتاکہ کسی مسئلہ میں آپ مجھ سے ناراض ہوئے ہوں ، سوائے کلالہ کے مسئلہ کے کہ اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم انتہائی سخت ناراض ہوئے تھے، اور میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی چیز میں اتنا تکرار نہیں کیا جتناکلالہ کے مسئلے میں کیا تھا ، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگلی میرے سینے پر رکھ کر فرمایا کیا تمہارے لیے اس مسئلے میں سورت نساء کی وہ آخری آیت جو گرمی میں نازل ہوئی تھی کافی نہیں ہے؟۔ اگر میں زندہ رہا تو اس مسئلے کا ایسا حل نکال کر جاؤں گا کہ اس آیت کو پڑھنے والے اور نہ پڑھنے والے سب ہی کے علم میں وہ حل آجائے، پھر فرمایا میں اللہ کو گواہ بنا کر کہتاہوں کہ میں نے مختلف شہروں میں جوامراء اور گورنربھیجے ہیں وہ صرف اس لیے کہ وہ لوگوں کودین سکھائیں ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتیں لوگوں کےسامنے بیان کریں ، ان میں مال غنیمت تقسیم کریں ، ان میں انصاف کریں اور میرے سامنے ان کے وہ مسائل پیش کریں جن کا ان کے پاس کوئی حل نہ ہو۔ لوگو! تم دو درختوں میں سے کھاتے ہوجنہیں میں گندہ سمجھتاہوں (ایک لہسن اور دوسرا پیاز، جنہیں کچا کھانے سے منہ میں بدبو پیدا ہوجاتی ہے) میں نے دیکھا ہے کہ اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی شخص کے منہ سے اس کی بدبو آتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم حکم دیتے اور اسے ہاتھ سے پکڑ کر مسجد سے باہر نکال دیا جاتا تھا اور یہی نہیں بلکہ اس کو جنت البقیع تک پہنچا کر لوگ واپس آتے تھے، اگر کوئی شخص انہیں کھانا ہی چاہتا ہے تو پکا کر ان کی بدبوماردے۔
-
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ عَنْ مُجَالِدٍ عَنْ عَامِرٍ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَقُولُ لِطَلْحَةَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ مَا لِي أَرَاكَ قَدْ شَعِثْتَ وَاغْبَرَرْتَ مُنْذُ تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَعَلَّكَ سَاءَكَ يَا طَلْحَةُ إِمَارَةُ ابْنِ عَمِّكَ قَالَ مَعَاذَ اللَّهِ إِنِّي لَأَجْدَرُكُمْ أَنْ لَا أَفْعَلَ ذَلِكَ إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ إِنِّي لَأَعْلَمُ كَلِمَةً لَا يَقُولُهَا أَحَدٌ عِنْدَ حَضْرَةِ الْمَوْتِ إِلَّا وَجَدَ رُوحَهُ لَهَا رَوْحًا حِينَ تَخْرُجُ مِنْ جَسَدِهِ وَكَانَتْ لَهُ نُورًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَلَمْ أَسْأَلْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْهَا وَلَمْ يُخْبِرْنِي بِهَا فَذَلِكَ الَّذِي دَخَلَنِي قَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَأَنَا أَعْلَمُهَا قَالَ فَلِلَّهِ الْحَمْدُ فَمَا هِيَ قَالَ هِيَ الْكَلِمَةُ الَّتِي قَالَهَا لِعَمِّهِ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ قَالَ طَلْحَةُ صَدَقْتَ-
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ سے یہ فرماتے ہوئے سنا کہ کیا بات ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال مبارک کے بعد سے آپ پراگندہ حال اور غبار آلود رہنے لگے ہیں؟ کیا آپ کو اپنے چچا زاد بھائی کی یعنی میری خلافت اچھی نہیں لگی؟ انہوں نے فرمایا اللہ کی پناہ! مجھے تو کسی صورت ایسا نہیں کرنا چاہیے، اصل بات یہ ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ میں ایک ایسا کلمہ جانتاہوں کہ اگر کوئی شخص نزع کی حالت میں وہ کلمہ کہہ لے تو اس کے لئے روح نکلنے میں سہولت پیدا ہواجائے اور قیامت کے دن وہ اس کے لیے باعث نور ہو، مجھے افسوس ہے کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کلمے کے بارے میں پوچھ نہیں سکا، اور خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی نہیں بتایا، میں اس وجہ سے پریشان ہوں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں وہ کلمہ جانتاہوں، حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے الحمدللہ کہہ کر پوچھا کہ وہ کیا کلمہ ہے؟ فرمایا وہی کلمہ جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچا کے سامنے پیش کیا تھا یعنی لا الہ الا اللہ، حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ فرمانے لگے کہ آپ نے سچ فرمایا۔
-
حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ أَنْبَأَنَا أَبُو عُمَيْسٍ عَنْ قَيْسِ بْنِ مُسْلِمٍ عَنْ طَارِقِ بْنِ شِهَابٍ قَالَ جَاءَ رَجُلٌ مِنْ الْيَهُودِ إِلَى عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَقَالَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ إِنَّكُمْ تَقْرَءُونَ آيَةً فِي كِتَابِكُمْ لَوْ عَلَيْنَا مَعْشَرَ الْيَهُودِ نَزَلَتْ لَاتَّخَذْنَا ذَلِكَ الْيَوْمَ عِيدًا قَالَ وَأَيُّ آيَةٍ هِيَ قَالَ قَوْلُهُ عَزَّ وَجَلَّ الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي قَالَ فَقَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَاللَّهِ إِنَّنِي لَأَعْلَمُ الْيَوْمَ الَّذِي نَزَلَتْ فِيهِ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالسَّاعَةَ الَّتِي نَزَلَتْ فِيهَا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَشِيَّةَ عَرَفَةَ فِي يَوْمِ الْجُمُعَةِ-
طارق بن شہاب کہتے ہیں کہ ایک یہودی حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا، اور کہنے لگا امیرالمومنین! آپ لوگ اپنی کتاب میں ایک آیت ایسی پڑھتے ہیں جو ہم یہودیوں پر نازل ہوئی ہوتی تو ہم اس دن کو عید بنالیتے جس دن وہ نازل ہوئی، حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے پوچھا وہ کون سی آیت ہے؟ اس نے آیت تکمیل دین کا حوالہ دیا، اس پر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ بخدا! مجھے علم ہے کہ یہ آیت کس دن اور کس وقت نازل ہوئی تھی، یہ آیت نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر جمعہ کے دن عرفہ کی شام نازل ہوئی تھی۔
-
حَدَّثَنَا وَكِيعٌ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ عَيَّاشِ بْنِ أَبِي رَبِيعَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ عَنْ حَكِيمِ بْنِ حَكِيمِ بْنِ عَبَّادِ بْنِ حُنَيْفٍ عَنْ أَبِي أُمَامَةَ بْنِ سَهْلِ بْنِ حُنَيْفٍ أَنَّ رَجُلًا رَمَى رَجُلًا بِسَهْمٍ فَقَتَلَهُ وَلَيْسَ لَهُ وَارِثٌ إِلَّا خَالٌ فَكَتَبَ فِي ذَلِكَ أَبُو عُبَيْدَةَ بْنُ الْجَرَّاحِ إِلَى عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَكَتَبَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ مَوْلَى مَنْ لَا مَوْلَى لَهُ وَالْخَالُ وَارِثُ مَنْ لَا وَارِثَ لَهُ-
حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے دوسرے کو تیر مارا جس سے وہ جاں بحق ہوگیا، اس کا صرف ایک ہی وارث تھا اور وہ تھا اس کا ماموں، حضرت ابوعبیدہ بن الجراح نے اس سلسلے میں حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی خدمت میں خط لکھا، انہوں نے جوابا لکھ بھیجا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے جس کا کوئی مولی نہ ہو، اللہ اور اس کا رسول اس کے مولی ہیں، اور جس کا کوئی وارث نہ ہو، ماموں ہی اس کا وارث ہوگا۔
-
حَدَّثَنَا وَكِيعٌ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ أَبِي يَعْفُورٍ الْعَبْدِيِّ قَالَ سَمِعْتُ شَيْخًا بِمَكَّةَ فِي إِمَارَةِ الْحَجَّاجِ يُحَدِّثُ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَهُ يَا عُمَرُ إِنَّكَ رَجُلٌ قَوِيٌّ لَا تُزَاحِمْ عَلَى الْحَجَرِ فَتُؤْذِيَ الضَّعِيفَ إِنْ وَجَدْتَ خَلْوَةً فَاسْتَلِمْهُ وَإِلَّا فَاسْتَقْبِلْهُ فَهَلِّلْ وَكَبِّرْ-
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا عمر! تم طاقتور آدمی ہو، حجر اسود کو بوسہ دینے میں مزاحمت نہ کرنا، کہیں کمزور آدمی کو تکلیف نہ پہنچے، اگرخالی جگہ مل جائے تواستلام کرلینا، ورنہ محض استقبال کر کے تہلیل وتکبیر پر ہی اکتفاء کرلینا۔
-
حَدَّثَنَا وَكِيعٌ حَدَّثَنَا كَهْمَسٌ عَنِ ابْنِ بُرَيْدَةَ عَنْ يَحْيَى بْنِ يَعْمَرَ عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ جِبْرِيلَ عَلَيْهِ السَّلَام قَالَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا الْإِيمَانُ قَالَ أَنْ تُؤْمِنَ بِاللَّهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَبِالْقَدَرِ خَيْرِهِ وَشَرِّهِ فَقَالَ لَهُ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَام صَدَقْتَ قَالَ فَتَعَجَّبْنَا مِنْهُ يَسْأَلُهُ وَيُصَدِّقُهُ قَالَ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاكَ جِبْرِيلُ أَتَاكُمْ يُعَلِّمُكُمْ مَعَالِمَ دِينِكُمْ-
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام نے ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ ایمان کیا ہے؟ فرمایا ایمان یہ ہے کہ تم اللہ پر، اس کے فرشتوں، کتابوں ، پیغمبروں، یوم آخرت اوراچھی بری تقدیر پر یقین رکھو، حضرت جبریل علیہ السلام نے فرمایا آپ نے سچ کہا، ہمیں تعجب ہوا کہ سوال بھی کر رہے ہیں اور تصدیق بھی کر رہے ہیں، بعد میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم بتایا کہ یہ جبرئیل تھے جو تمہیں تمہارے دین کی اہم باتیں سکھانے آئے تھے۔
-
حَدَّثَنَا وَكِيعٌ حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيهِ عُرْوَةَ عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُمَرَ عَنْ أَبِيهِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَقْبَلَ اللَّيْلُ وَقَالَ مَرَّةً جَاءَ اللَّيْلُ مِنْ هَهُنَا وَذَهَبَ النَّهَارُ مِنْ هَهُنَا فَقَدْ أَفْطَرَ الصَّائِمُ يَعْنِي الْمَشْرِقَ وَالْمَغْرِبَ-
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جب رات یہاں سے آجائے اور دن وہاں سے چلاجائے تو روزہ دار کو روزہ افطار کرلینا چاہیے، مشرق اور مغرب مراد ہے ۔
-
حَدَّثَنَا يَزِيدُ أَنْبَأَنَا إِسْرَائِيلُ بْنُ يُونُسَ عَنْ عَبْدِ الْأَعْلَى الثَّعْلَبِيِّ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى قَالَ كُنْتُ مَعَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَأَتَاهُ رَجُلٌ فَقَالَ إِنِّي رَأَيْتُ الْهِلَالَ هِلَالَ شَوَّالٍ فَقَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَا أَيُّهَا النَّاسُ أَفْطِرُوا ثُمَّ قَامَ إِلَى عُسٍّ فِيهِ مَاءٌ فَتَوَضَّأَ وَمَسَحَ عَلَى خُفَّيْهِ فَقَالَ الرَّجُلُ وَاللَّهِ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ مَا أَتَيْتُكَ إِلَّا لِأَسْأَلَكَ عَنْ هَذَا أَفَرَأَيْتَ غَيْرَكَ فَعَلَهُ فَقَالَ نَعَمْ خَيْرًا مِنِّي وَخَيْرَ الْأُمَّةِ رَأَيْتُ أَبَا الْقَاسِمِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَعَلَ مِثْلَ الَّذِي فَعَلْتُ وَعَلَيْهِ جُبَّةٌ شَامِيَّةٌ ضَيِّقَةُ الْكُمَّيْنِ فَأَدْخَلَ يَدَهُ مِنْ تَحْتِ الْجُبَّةِ ثُمَّ صَلَّى عُمَرُ الْمَغْرِبَ-
عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ کہتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ حضرت فاروق اعطم رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھا، ایک آدمی آیا اور کہنے لگا کہ میں نے شوال کا چاند دیکھ لیاہے، حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا لوگو! روزہ افطار کرلو، پھر خود کھڑے ہو کر ایک برتن سے جس میں پانی تھا وضو کیا اور اپنے موزوں پر مسح کیا، وہ آدمی کہنے لگا بخدا! امیرالمومنین! میں آپ کے پاس یہی پوچھنے کے لیے آیا تھا کہ آپ نے کسی اور کو بھی موزوں پر مسح کرتے ہوئے دیکھا ہے؟ فرمایا ہاں! اس ذات کو جو مجھ سے بہتر تھی، میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس طرح کرتے ہوئے دیکھاہے، اس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شامی جبہ پہن رکھا تھا جس کی آستینیں تنگ تھیں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ جبے کے نیچے سے داخل کیے تھے، یہ کہہ کر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ مغرب کی نماز پڑھانے کے لئے چلے گئے۔
-
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا سَعِيدٌ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ سُلَيْمَانَ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ إِنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يُحَرِّمْ الضَّبَّ وَلَكِنْ قَذِرَهُ و قَالَ غَيْرُ مُحَمَّدٍ عَنْ سُلَيْمَانَ الْيَشْكُرِيِّ-
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اگرچہ گوہ کو حرام تو قرار نہیں دیا البتہ اسے ناپسند ضرور کیا ہے۔
-
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ عَنْ سَالِمٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ عَنْ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ اسْتَأْذَنَهُ فِي الْعُمْرَةِ فَأَذِنَ لَهُ فَقَالَ يَا أَخِي لَا تَنْسَنَا مِنْ دُعَائِكَ وَقَالَ بَعْدُ فِي الْمَدِينَةِ يَا أَخِي أَشْرِكْنَا فِي دُعَائِكَ فَقَالَ عُمَرُ مَا أُحِبُّ أَنَّ لِي بِهَا مَا طَلَعَتْ عَلَيْهِ الشَّمْسُ لِقَوْلِهِ يَا أَخِي-
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عمرہ پر جانے کے لیے اجازت مانگی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اجازت دیتے ہوئے فرمایا بھائی! ہمیں اپنی دعاؤں میں بھول نہ جانا، یا یہ فرمایا کہ بھائی! ہمیں بھی اپنی دعاؤں میں یاد رکھنا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اگر اس ایک لفظ یااخی کے بدلے مجھے وہ سب کچھ دے دیا جائے جن پر سورج طلوع ہوتا ہے یعنی پوری دنیا تو میں اس ایک لفظ کے بدلے پوری دنیا کو پسند نہیں کروں گا۔
-
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ وَحَجَّاجٌ قَالَ سَمِعْتُ شُعْبَةَ عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ عَنْ سَالِمٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ عَنْ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّهُ قَالَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرَأَيْتَ مَا نَعْمَلُ فِيهِ أَقَدْ فُرِغَ مِنْهُ أَوْ فِي شَيْءٍ مُبْتَدَإٍ أَوْ أَمْرٍ مُبْتَدَعٍ قَالَ فِيمَا قَدْ فُرِغَ مِنْهُ فَقَالَ عُمَرُ أَلَا نَتَّكِلُ فَقَالَ اعْمَلْ يَا ابْنَ الْخَطَّابِ فَكُلٌّ مُيَسَّرٌ أَمَّا مَنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ السَّعَادَةِ فَيَعْمَلُ لِلسَّعَادَةِ وَأَمَّا أَهْلُ الشَّقَاءِ فَيَعْمَلُ لِلشَّقَاءِ-
ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ ہم جو عمل کرتے ہیں، کیا وہ پہلے سے لکھا جا چکا ہے یا ہمارا عمل پہلے ہوتا؟ فرمایا نہیں! بلکہ وہ پہلے سے لکھا جا چکا ہے، حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ کیا ہم اسی پر بھروسہ نہ کرلیں؟ فرمایا ابن خطاب! عمل کرتے رہو کیونکہ جو شخص جس مقصد کے لیے پیدا کیا گیاہے، اسے اس کے اسباب مہیا کر دئیے جاتے ہیں اور وہ عمل اس کے لئے آسان کردیا جاتاہے، پھر جو سعادت مند ہوتا ہے وہ نیکی کے کام کرتا ہے اور جو اشقیاء میں سے ہوتا ہے وہ بدبختی کے کام کرتا ہے۔
-
حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ حَدَّثَنَا الزُّهْرِيُّ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ بْنِ مَسْعُودٍ أَخْبَرَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبَّاسٍ حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ خَطَبَ النَّاسَ فَسَمِعَهُ يَقُولُ أَلَا وَإِنَّ أُنَاسًا يَقُولُونَ مَا بَالُ الرَّجْمِ فِي كِتَابِ اللَّهِ الْجَلْدُ وَقَدْ رَجَمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرَجَمْنَا بَعْدَهُ وَلَوْلَا أَنْ يَقُولَ قَائِلُونَ أَوْ يَتَكَلَّمَ مُتَكَلِّمُونَ أَنَّ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ زَادَ فِي كِتَابِ اللَّهِ مَا لَيْسَ مِنْهُ لَأَثْبَتُّهَا كَمَا نُزِّلَتْ-
حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ یاد رکھو! بعض لوگ کہتے ہیں کہ رجم کا کیا مطلب؟ قرآن کریم میں تو صرف کوڑے مارنے کا ذکر آتاہے، حالانکہ رجم کی سزا خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہے اور ہم نے بھی دی ہے، اگر کہنے والے یہ نہ کہتے کہ عمر نے قرآن میں اضافہ کر دیا تو میں اسے قرآن میں لکھ دیتا۔
-
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ قَالَ سَمِعْتُ يَزِيدَ بْنَ خُمَيْرٍ يُحَدِّثُ عَنْ حَبِيبِ بْنِ عُبَيْدٍ عَنْ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ عَنِ ابْنِ السِّمْطِ أَنَّهُ أَتَى أَرْضًا يُقَالُ لَهَا دَوْمِينُ مِنْ حِمْصَ عَلَى رَأْسِ ثَمَانِيَةَ عَشَرَ مِيلًا فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ فَقُلْتُ لَهُ أَتُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ فَقَالَ رَأَيْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ بِذِي الْحُلَيْفَةِ يُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ فَسَأَلْتُهُ فَقَالَ إِنَّمَا أَفْعَلُ كَمَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْ قَالَ فَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-
ابن سمط کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سر زمین " دومین " جو حمص سے اٹھارہ میل کے فاصلے پر ہے، پر میرا آنا ہوا، وہاں حضرت جبیر بن نفیر نے دو رکعتیں پڑھیں، میں نے ان سے پوچھا کہ یہ رکعتیں کیسی ہیں؟ انہوں نے کہا کہ میں نے بھی ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو ذوالحلیفہ میں دو رکعتیں پڑھتے ہوئے دیکھ کر یہی سوال کیا تھا، انہوں نے مجھے جواب دیا تھا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح کرتے ہوئے دیکھا ہے۔
-
قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ حَدَّثَنَا أَحْمَد بْن حَنْبَلٍ قَرَأْتُ عَلَى عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مَهْدِيٍّ : مَالِكٌ عَنِ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ دَخَلَ رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَسْجِدَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ وَعُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَخْطُبُ النَّاسَ فَقَالَ عُمَرُ أَيَّةُ سَاعَةٍ هَذِهِ فَقَالَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ انْقَلَبْتُ مِنْ السُّوقِ فَسَمِعْتُ النِّدَاءَ فَمَا زِدْتُ عَلَى أَنْ تَوَضَّأْتُ فَقَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَالْوُضُوءَ أَيْضًا وَقَدْ عَلِمْتَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَأْمُرُ بِالْغُسْلِ-
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ جمعہ کے دن خطبہ ارشاد فرما رہے تھے، دوران خطبہ ایک صاحب آئے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے پوچھا کہ یہ کون سا وقت ہے آنے کا؟ انہوں نے جوابا کہا کہ امیرالمومنین! میں بازار سے واپس آیا تھا، میں نے تو جیسے ہی اذان سنی، وضو کرتے ہی آگیا ہوں، حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا اوپر سے وضو بھی؟ جبکہ آپ جانتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے لئے غسل کرنے کا حکم دیتے تھے۔
-
حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ كَانَ الْمُشْرِكُونَ لَا يُفِيضُونَ مِنْ جَمْعٍ حَتَّى تُشْرِقَ الشَّمْسُ عَلَى ثَبِيرٍ فَخَالَفَهُمْ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَفَاضَ قَبْلَ أَنْ تَطْلُعَ الشَّمْسُ-
حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ مشرکین مزدلفہ سے طلوع آفتاب سے پہلے واپس نہیں جاتے تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا طریقہ اختیار نہیں کیا، اور مزدلفہ سے منی کی طرف طلوع آفتاب سے قبل ہی روانہ ہوگئے۔
-
حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَنْبَأَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ حَدَّثَنِي أَبُو الزُّبَيْرِ أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ يَقُولُ أَخْبَرَنِي عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ لَأُخْرِجَنَّ الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى مِنْ جَزِيرَةِ الْعَرَبِ حَتَّى لَا أَدَعَ إِلَّا مُسْلِمًا-
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا میں جزیرہ عرب سے یہودونصاری کو نکال کر رہوں گا، یہاں تک کہ جزیرہ عرب میں مسلمانوں کے علاوہ کوئی نہ رہے گا۔
-
حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ عَنِ الزُّهْرِيِّ عَنْ سَالِمٍ عَنْ أَبِيهِ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ بَيْنَا هُوَ قَائِمٌ يَخْطُبُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ فَدَخَلَ رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَنَادَاهُ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَيَّةُ سَاعَةٍ هَذِهِ فَقَالَ إِنِّي شُغِلْتُ الْيَوْمَ فَلَمْ أَنْقَلِبْ إِلَى أَهْلِي حَتَّى سَمِعْتُ النِّدَاءَ فَلَمْ أَزِدْ عَلَى أَنْ تَوَضَّأْتُ فَقَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ الْوُضُوءَ أَيْضًا وَقَدْ عَلِمْتُمْ وَفِي مَوْضِعٍ آخَرَ وَقَدْ عَلِمْتَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَأْمُرُ بِالْغُسْلِ-
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت فاروق اعظم رضی اللہ جمعہ کے دن خطبہ ارشاد فرما رہے تھے، دوران خطبہ ایک صاحب آئے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے پوچھا کہ یہ کون ساوقت ہے آنے کا؟ انہوں نے جوابا کہا کہ امیرالمومنین! میں بازار سے واپس آیا تھا، میں نے تو جیسے ہی اذان سنی، وضو کرتے ہی آگیا ہوں، حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا اوپر سے وضو بھی؟ جبکہ آپ جانتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے لئے غسل کرنے کا حکم دیتے تھے۔
-
حَدَّثَنَا هَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ يَعْنِي ابْنَ عَمَّارٍ حَدَّثَنِي سِمَاكٌ الْحَنَفِيُّ أَبُو زُمَيْلٍ قَالَ حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبَّاسٍ حَدَّثَنِي عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ لَمَّا كَانَ يَوْمُ خَيْبَرَ أَقْبَلَ نَفَرٌ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالُوا فُلَانٌ شَهِيدٌ فُلَانٌ شَهِيدٌ حَتَّى مَرُّوا عَلَى رَجُلٍ فَقَالُوا فُلَانٌ شَهِيدٌ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَلَّا إِنِّي رَأَيْتُهُ فِي النَّارِ فِي بُرْدَةٍ غَلَّهَا أَوْ عَبَاءَةٍ ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَا ابْنَ الْخَطَّابِ اذْهَبْ فَنَادِ فِي النَّاسِ أَنَّهُ لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ إِلَّا الْمُؤْمِنُونَ قَالَ فَخَرَجْتُ فَنَادَيْتُ أَلَا إِنَّهُ لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ إِلَّا الْمُؤْمِنُونَ-
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ غزوہ خیبر کے دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کچھ صحابہ سامنے سے آتے ہوئے دکھائی دیئے جو یہ کہہ رہے تھے کہ فلاں بھی شہید ہے، فلاں بھی شہید ہے، یہاں تک کہ ان کا گذر ایک آدمی پر ہوا، اس کے بارے بھی انہوں نے یہی کہا کہ یہ بھی شہید ہے،نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہرگز نہیں ! میں نے اسے جہنم میں دیکھا ہے کیونکہ اس نے مال غنیمت میں سے ایک چادر چوری کی تھی، اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے ابن خطاب! جا کر لوگوں میں منادی کر دو کہ جنت میں صرف مومنین ہی داخل ہوں گے، چنانچہ میں نکل کر یہ منادی کرنے لگا کہ جنت میں صرف مومنین ہی داخل ہوں گے۔
-
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ حَدَّثَنَا دَاوُدُ يَعْنِي ابْنَ أَبِي الْفُرَاتِ حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بُرَيْدَةَ عَنْ أَبِي الْأَسْوَدِ الدِّيْلِيِّ قَالَ أَتَيْتُ الْمَدِينَةَ وَقَدْ وَقَعَ بِهَا مَرَضٌ فَهُمْ يَمُوتُونَ مَوْتًا ذَرِيعًا فَجَلَسْتُ إِلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَمَرَّتْ بِهِ جَنَازَةٌ فَأُثْنِيَ عَلَى صَاحِبِهَا خَيْرٌ فَقَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَجَبَتْ ثُمَّ مُرَّ بِأُخْرَى فَأُثْنِيَ عَلَى صَاحِبِهَا خَيْرٌ فَقَالَ وَجَبَتْ ثُمَّ مُرَّ بِالثَّالِثَةِ فَأُثْنِيَ عَلَى صَاحِبِهَا شَرٌّ فَقَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَجَبَتْ فَقُلْتُ وَمَا وَجَبَتْ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ قَالَ قُلْتُ كَمَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيُّمَا مُسْلِمٍ شَهِدَ لَهُ أَرْبَعَةٌ بِخَيْرٍ أَدْخَلَهُ اللَّهُ الْجَنَّةَ قَالَ قُلْنَا أَوْ ثَلَاثَةٌ قَالَ أَوْ ثَلَاثَةٌ فَقُلْنَا أَوْ اثْنَانِ قَالَ أَوْ اثْنَانِ ثُمَّ لَمْ نَسْأَلْهُ عَنْ الْوَاحِدِ-
ابوالاسود رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہوا، وہاں پہنچا تو پتہ چلا کہ وہاں کوئی بیماری پھیلی ہوئی ہے جس سے لوگ بکثرت مر رہے ہیں، میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی مجلس میں بیٹھا ہوا تھا کہ وہاں سے ایک جنازہ کا گذر ہوا، لوگوں نے اس مردے کی تعریف کی، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا واجب ہوگئی، پھر دوسرا جنازہ گذرا، لوگوں نے اس کی بھی تعریف کی، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پھر فرمایا واجب ہو گئی، تیسرا جنازہ گذرا تو لوگوں نے اس کی برائی بیان کی، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پھر فرمایا واجب ہوگئی، میں نے بالآخر پوچھ ہی لیا کہ امیرالمومنین! کیا چیز واجب ہوگئی؟ انہوں نے فرمایا میں نے تو وہی کہا ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ جس مسلمان کے لیے چار آدمی خیر کی گواہی دے دیں تواس کے لیے جنت واجب ہوگئی، ہم نے عرض کیا اگر تین آدمی ہوں؟ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تب بھی یہی حکم ہے، ہم نے دو کے متعلق پوچھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دو ہوں تب بھی یہی حکم ہے، پھر ہم نے خود ہی ایک کے متعلق سوال نہیں کیا۔
-
حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ حَدَّثَنَا حَيْوَةُ أَخْبَرَنِي بَكْرُ بْنُ عَمْرٍو أَنَّهُ سَمِعَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ هُبَيْرَةَ يَقُولُ إِنَّهُ سَمِعَ أَبَا تَمِيمٍ الْجَيْشَانِيَّ يَقُولُ سَمِعَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَقُولُ إِنَّهُ سَمِعَ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ لَوْ أَنَّكُمْ تَتَوَكَّلُونَ عَلَى اللَّهِ حَقَّ تَوَكُّلِهِ لَرَزَقَكُمْ كَمَا يَرْزُقُ الطَّيْرَ تَغْدُو خِمَاصًا وَتَرُوحُ بِطَانًا-
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اگر تم اللہ پر اس طرح ہی توکل کر لیتے جیسے اس پر توکل کرنے کا حق ہے تو تمہیں اسی طرح رزق عطاء کیا جاتاجیسے پرندوں کو دیا جاتا ہے جو صبح کو خالی پیٹ نکلتے ہیں اور شام کو پیٹ بھر کر واپس آتے ہیں ۔
-
حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ أَبِي أَيُّوبَ حَدَّثَنِي عَطَاءُ بْنُ دِينَارٍ عَنْ حَكِيمِ بْنِ شَرِيكٍ الْهُذَلِيِّ عَنْ يَحْيَى بْنِ مَيْمُونٍ الْحَضْرَمِيِّ عَنْ رَبِيعَةَ الْجُرَشِيِّ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا تُجَالِسُوا أَهْلَ الْقَدَرِ وَلَا تُفَاتِحُوهُمْ وَقَالَ أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ مَرَّةً سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا منکرین تقدیر کے ساتھ مت بیٹھا کرو، اور گفتگو شروع کرنے میں ان سے پہل نہ کیا کرو۔
-
حَدَّثَنَا هَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ يَزِيدَ بْنِ خُمَيْرٍ الْهَمْدَانِيِّ أَبِي عُمَرَ قَالَ سَمِعْتُ حَبِيبَ بْنَ عُبَيْدٍ يُحَدِّثُ عَنْ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ عَنِ ابْنِ السِّمْطِ أَنَّهُ خَرَجَ مَعَ عُمَرَ إِلَى ذِي الْحُلَيْفَةِ فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ فَسَأَلْتُهُ عَنْ ذَلِكَ فَقَالَ إِنَّمَا أَصْنَعُ كَمَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-
ابن سمط کہتے ہیں کہ وہ ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے ساتھ ذوالحلیفہ کی طرف روانہ ہوئے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے وہاں دو رکعتیں پڑھیں، میں نے ان سے اس کے متعلق سوال کیا، انہوں نے جواب دیا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح کرتے ہوئے دیکھا ہے۔
-
حَدَّثَنَا أَبُو نُوحٍ قُرَادٌ أَنْبَأَنَا عِكْرِمَةُ بْنُ عَمَّارٍ حَدَّثَنَا سِمَاكٌ الْحَنَفِيُّ أَبُو زُمَيْلٍ حَدَّثَنِي ابْنُ عَبَّاسٍ حَدَّثَنِي عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ لَمَّا كَانَ يَوْمُ بَدْرٍ قَالَ نَظَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى أَصْحَابِهِ وَهُمْ ثَلَاثُ مِائَةٍ وَنَيِّفٌ وَنَظَرَ إِلَى الْمُشْرِكِينَ فَإِذَا هُمْ أَلْفٌ وَزِيَادَةٌ فَاسْتَقْبَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْقِبْلَةَ ثُمَّ مَدَّ يَدَيْهِ وَعَلَيْهِ رِدَاؤُهُ وَإِزَارُهُ ثُمَّ قَالَ اللَّهُمَّ أَيْنَ مَا وَعَدْتَنِي اللَّهُمَّ أَنْجِزْ مَا وَعَدْتَنِي اللَّهُمَّ إِنَّكَ إِنْ تُهْلِكْ هَذِهِ الْعِصَابَةَ مِنْ أَهْلِ الْإِسْلَامِ فَلَا تُعْبَدْ فِي الْأَرْضِ أَبَدًا قَالَ فَمَا زَالَ يَسْتَغِيثُ رَبَّهُ عَزَّ وَجَلَّ وَيَدْعُوهُ حَتَّى سَقَطَ رِدَاؤُهُ فَأَتَاهُ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَأَخَذَ رِدَاءَهُ فَرَدَّاهُ ثُمَّ الْتَزَمَهُ مِنْ وَرَائِهِ ثُمَّ قَالَ يَا نَبِيَّ اللَّهِ كَفَاكَ مُنَاشَدَتُكَ رَبَّكَ فَإِنَّهُ سَيُنْجِزُ لَكَ مَا وَعَدَكَ وَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ إِذْ تَسْتَغِيثُونَ رَبَّكُمْ فَاسْتَجَابَ لَكُمْ أَنِّي مُمِدُّكُمْ بِأَلْفٍ مِنْ الْمَلَائِكَةِ مُرْدِفِينَ فَلَمَّا كَانَ يَوْمُئِذٍ وَالْتَقَوْا فَهَزَمَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ الْمُشْرِكِينَ فَقُتِلَ مِنْهُمْ سَبْعُونَ رَجُلًا وَأُسِرَ مِنْهُمْ سَبْعُونَ رَجُلًا فَاسْتَشَارَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَبَا بَكْرٍ وَعَلِيًّا وَعُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَا نَبِيَّ اللَّهِ هَؤُلَاءِ بَنُو الْعَمِّ وَالْعَشِيرَةُ وَالْإِخْوَانُ فَإِنِّي أَرَى أَنْ تَأْخُذَ مِنْهُمْ الْفِدْيَةَ فَيَكُونُ مَا أَخَذْنَا مِنْهُمْ قُوَّةً لَنَا عَلَى الْكُفَّارِ وَعَسَى اللَّهُ أَنْ يَهْدِيَهُمْ فَيَكُونُونَ لَنَا عَضُدًا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا تَرَى يَا ابْنَ الْخَطَّابِ قَالَ قُلْتُ وَاللَّهِ مَا أَرَى مَا رَأَى أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَلَكِنِّي أَرَى أَنْ تُمَكِّنَنِي مِنْ فُلَانٍ قَرِيبًا لِعُمَرَ فَأَضْرِبَ عُنُقَهُ وَتُمَكِّنَ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ مِنْ عَقِيلٍ فَيَضْرِبَ عُنُقَهُ وَتُمَكِّنَ حَمْزَةَ مِنْ فُلَانٍ أَخِيهِ فَيَضْرِبَ عُنُقَهُ حَتَّى يَعْلَمَ اللَّهُ أَنَّهُ لَيْسَتْ فِي قُلُوبِنَا هَوَادَةٌ لِلْمُشْرِكِينَ هَؤُلَاءِ صَنَادِيدُهُمْ وَأَئِمَّتُهُمْ وَقَادَتُهُمْ فَهَوِيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا قَالَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَلَمْ يَهْوَ مَا قُلْتُ فَأَخَذَ مِنْهُمْ الْفِدَاءَ فَلَمَّا أَنْ كَانَ مِنْ الْغَدِ قَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ غَدَوْتُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِذَا هُوَ قَاعِدٌ وَأَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَإِذَا هُمَا يَبْكِيَانِ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَخْبِرْنِي مَاذَا يُبْكِيكَ أَنْتَ وَصَاحِبَكَ فَإِنْ وَجَدْتُ بُكَاءً بَكَيْتُ وَإِنْ لَمْ أَجِدْ بُكَاءً تَبَاكَيْتُ لِبُكَائِكُمَا قَالَ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الَّذِي عَرَضَ عَلَيَّ أَصْحَابُكَ مِنْ الْفِدَاءِ لَقَدْ عُرِضَ عَلَيَّ عَذَابُكُمْ أَدْنَى مِنْ هَذِهِ الشَّجَرَةِ لِشَجَرَةٍ قَرِيبَةٍ وَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ مَا كَانَ لِنَبِيٍّ أَنْ يَكُونَ لَهُ أَسْرَى حَتَّى يُثْخِنَ فِي الْأَرْضِ إِلَى قَوْلِهِ لَوْلَا كِتَابٌ مِنْ اللَّهِ سَبَقَ لَمَسَّكُمْ فِيمَا أَخَذْتُمْ مِنْ الْفِدَاءِ ثُمَّ أُحِلَّ لَهُمْ الْغَنَائِمُ فَلَمَّا كَانَ يَوْمُ أُحُدٍ مِنْ الْعَامِ الْمُقْبِلِ عُوقِبُوا بِمَا صَنَعُوا يَوْمَ بَدْرٍ مِنْ أَخْذِهِمْ الْفِدَاءَ فَقُتِلَ مِنْهُمْ سَبْعُونَ وَفَرَّ أَصْحَابُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَكُسِرَتْ رَبَاعِيَتُهُ وَهُشِمَتْ الْبَيْضَةُ عَلَى رَأْسِهِ وَسَالَ الدَّمُ عَلَى وَجْهِهِ وَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى أَوَلَمَّا أَصَابَتْكُمْ مُصِيبَةٌ قَدْ أَصَبْتُمْ مِثْلَيْهَا الْآيَةَ بِأَخْذِكُمْ الْفِدَاءَ-
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ غزوہ بدر کے دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کا جائزہ لیا تو وہ تین سو سے کچھ اوپر تھے، اور مشرکین کا جائزہ لیا وہ ایک ہزار سے زیادہ معلوم ہوئے، یہ دیکھ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قبلہ رخ ہو کر دعاء کے لیے اپنے ہاتھ پھیلا دئیے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت چادر اوڑھ رکھی تھی، دعاء کرتے ہوئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا الٰہی! تیرا وعدہ کہاں گیا؟ الٰہی اپنا وعدہ پورا فرما، الٰہی اگر آج یہ مٹھی بھر مسلمان ختم ہو گئے تو زمین میں پھر کبھی بھی آپ کی عبادت نہیں کی جائے گی۔ اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم مستقل اپنے رب سے فریاد کرتے رہے، یہاں تک کہ آپ کی رداء مبارک گر گئی، یہ دیکھ کر حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ آگے بڑھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی چادر کو اٹھا کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ڈال دیا اور پیچھے سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کوچمٹ گئے اور کہنے لگے اے اللہ کے نبی! آپ نے اپنے رب سے بہت دعاء کرلی، وہ اپنا وعدہ ضرور پورا کرے گا، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمادی کہ اس وقت کو یاد کرو جب تم اپنے رب سے فریاد کر رہے تھے اور اس نے تمہاری فریاد کو قبول کر لیا تھا کہ میں تمہاری مدد ایک ہزار فرشتوں سے کروں گا جو لگاتار آئیں گے۔ جب غزوہ بدر کا معرکہ بپا ہوا اور دونوں لشکر ایک دوسرے سے ملے تو اللہ کے فضل سے مشرکین کو ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا، چنانچہ ان میں سے ستر قتل ہو گئے اور ستر ہی گرفتار کر کے قید کر لیے گئے، ان قیدیوں کے متعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ، حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے مشورہ کیا، حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے مشورہ دیا اے اللہ کے نبی! یہ لوگ ہمارے ہی بھائی بند اور رشتہ دار ہیں ، میری رائے تو یہ ہے کہ آپ ان سے فدیہ لے لیں، وہ مال کافروں کے خلاف ہماری طاقت میں اضافہ کرے گا اور عین ممکن ہے کہ اللہ انہیں بھی ہدایت دے دے تو یہ بھی ہمارے دست و بازو بن جائیں گے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا ابن خطاب! تمہاری رائے کیا ہے؟ میں نے عرض کیا کہ میری رائے وہ نہیں ہے جو حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی ہے، میری رائے یہ ہے کہ آپ فلاں آدمی کو جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قریبی رشتہ دار تھا میرے حوالے کردیں اور میں اپنے ہاتھ سے اس کی گردن اڑادوں ، آپ عقیل کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے حوالے کردیں اور وہ ان کی گردن اڑادیں ، حمزہ کو فلاں پر غلبہ عطاء فرمائیں اور وہ اپنے ہاتھ سے اسے قتل کریں، تاکہ اللہ جان لے کہ ہمارے دلوں میں مشرکین کے لیے کوئی نرمی کا پہلو نہیں ہے، یہ لوگ مشرکین کے سردار، ان کے قائد اور ان کے سرغنہ ہیں، جب یہ قتل ہو جائیں گے تو کفر و شرک اپنی موت آپ مرجائے گا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی رائے کو ترجیح دی اور میری رائے کو چھوڑ دیا، اور ان سے فدیہ لے لیا، اگلے دن میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو دیکھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ بیٹھے ہوئے رو رہے ہیں، میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! خیر تو ہے آپ اور آپ کے دوست (حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ) رو رہے ہیں؟ مجھے بھی بتائیے تاکہ اگر میری آنکھوں میں بھی آنسو آجائیں تو آپ کا ساتھ دوں ورنہ کم از کم رونے کی کوشش ہی کرلوں ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہارے ساتھیوں نے مجھے فدیہ کا جو مشورہ دیا تھا اس کی وجہ سے تم سب پر آنے والا عذاب مجھے اتنا قریب دکھائی دیا جتنا یہ درخت نظر آرہا ہے، اور اللہ نے یہ آیت نازل کی ہے کہ پیغمبر اسلام کے لیے یہ مناسب نہیں ہے کہ اگر ان کے پاس قیدی آئیں ۔ ۔ ۔ آخر آیت تک، بعد میں ان کے لئے مال غنیمت کو حلال قرار دے دیا گیا۔ آئندہ سال جب غزوہ احد ہوا تو غزوہ بدر میں فدیہ لینے کے عوض مسلمانوں کے ستر آدمی شہید ہوگئے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ کر منتشر ہوگئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دندان مبارک شہید ہوگئے، خود کی کڑی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سر مبارک میں گھس گئی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا روئے انور خون سے بھر گیا اور یہ آیت قرآنی نازل ہوئی کہ جب تم پر وہ مصیبت نازل ہوئی جو اس سے قبل تم مشرکین کو خود بھی پہنچا چکے تھے تو تم کہنے لگے کہ یہ کیسے ہوگیا؟ آپ فرما دیجئے کہ یہ تمہاری طرف سے ہی ہے، بے شک اللہ ہر چیز پر قادر ہے، مطلب یہ ہے کہ یہ شکست فدیہ لینے کی وجہ سے ہوئی۔
-
حَدَّثَنَا أَبُو نُوحٍ حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ قَالَ فَسَأَلْتُهُ عَنْ شَيْءٍ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ فَلَمْ يَرُدَّ عَلَيَّ قَالَ فَقُلْتُ لِنَفْسِي ثَكِلَتْكَ أُمُّكَ يَا ابْنَ الْخَطَّابِ نَزَرْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ فَلَمْ يَرُدَّ عَلَيْكَ قَالَ فَرَكِبْتُ رَاحِلَتِي فَتَقَدَّمْتُ مَخَافَةَ أَنْ يَكُونَ نَزَلَ فِيَّ شَيْءٌ قَالَ فَإِذَا أَنَا بِمُنَادٍ يُنَادِي يَا عُمَرُ أَيْنَ عُمَرُ قَالَ فَرَجَعْتُ وَأَنَا أَظُنُّ أَنَّهُ نَزَلَ فِيَّ شَيْءٌ قَالَ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَزَلَتْ عَلَيَّ الْبَارِحَةَ سُورَةٌ هِيَ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ الدُّنْيَا وَمَا فِيهَا إِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُبِينًا لِيَغْفِرَ لَكَ اللَّهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ-
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہم ایک سفر میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھے، میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی چیز کے متعلق تین مرتبہ سوال کیا، لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ بھی جواب نہ دیا، میں نے اپنے دل میں کہا ابن خطاب! تیری ماں تجھے روئے، تو نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے تین مرتبہ ایک چیز کے متعلق دریافت کیا لیکن انہوں نے تجھے کوئی جواب نہ دیا، یہ سوچ کر میں اپنی سواری پر سوار ہو کر وہاں سے نکل آیا کہ کہیں میرے بارے قرآن کی کوئی آیت نازل نہ ہوجائے۔ تھوڑی دیرکے بعد ایک منادی میرا نام لے کر پکارتا ہوا آیا کہ عمر کہاں ہے؟ میں یہ سوچتا ہوا واپس لوٹ آیا کہ شاید میرے بارے میں قرآن کی کوئی آیت نازل ہوئی ہے، وہاں پہنچا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا آج رات مجھ پر ایک ایسی سورت نازل ہوئی ہے جو میرے نزدیک دنیا ومافیہا سے زیادہ پسندیدہ ہے، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سورت الفتح کی پہلی آیت تلاوت فرمائی۔
-
حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ حَدَّثَنَا الْمَسْعُودِيُّ عَنْ حَكِيمِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ مُوسَى بْنِ طَلْحَةَ عَنِ ابْنِ الْحَوْتَكِيَّةِ قَالَ أُتِيَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ بِطَعَامٍ فَدَعَا إِلَيْهِ رَجُلًا فَقَالَ إِنِّي صَائِمٌ ثُمَّ قَالَ وَأَيُّ الصِّيَامِ تَصُومُ لَوْلَا كَرَاهِيَةُ أَنْ أَزِيدَ أَوْ أَنْقُصَ لَحَدَّثْتُكُمْ بِحَدِيثِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ جَاءَهُ الْأَعْرَابِيُّ بِالْأَرْنَبِ وَلَكِنْ أَرْسِلُوا إِلَى عَمَّارٍ فَلَمَّا جَاءَ عَمَّارٌ قَالَ أَشَاهِدٌ أَنْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ جَاءَهُ الْأَعْرَابِيُّ بِالْأَرْنَبِ قَالَ نَعَمْ فَقَالَ إِنِّي رَأَيْتُ بِهَا دَمًا فَقَالَ كُلُوهَا قَالَ إِنِّي صَائِمٌ قَالَ وَأَيُّ الصِّيَامِ تَصُومُ قَالَ أَوَّلَ الشَّهْرِ وَآخِرَهُ قَالَ إِنْ كُنْتَ صَائِمًا فَصُمْ الثَّلَاثَ عَشْرَةَ وَالْأَرْبَعَ عَشْرَةَ وَالْخَمْسَ عَشْرَةَ-
ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی خدمت میں کھانا پیش کیا گیا ، انہوں نے ایک آدمی کو شرکت کی دعوت دی، اس نے کہا کہ میں روزے سے ہوں ، فرمایا تم کون سے روزے رکھ رہے ہو؟ اگر کمی بیشی کا اندیشہ نہ ہوتا تو میں تمہارے سامنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ حدیث بیان کرتا جب ایک دیہاتی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک خرگوش لے کر حاضر ہوا، تم ایسا کرو کہ حضرت عمار رضی اللہ عنہ کو بلا کر لاؤ۔ جب حضرت عمار رضی اللہ عنہ تشریف لائے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے پوچھا کہ کیا آپ اس دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھے جب ایک دیہاتی ایک خرگوش لے کر آیا تھا؟ فرمایا جی ہاں ! میں نے اس پر خون لگا ہوا دیکھا تھا ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسے کھاؤ، وہ کہنے لگا کہ میرا روزہ ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیسا روزہ؟ اس نے کہا کہ میں ہر ماہ کی ابتداء اور اختتام پر روزہ رکھتا ہوں، فرمایا اگر تم روزہ رکھنا ہی چاہتے ہو تو نفلی روزے کے لئے مہینے کی تیرہ، چودہ اور پندرہ تاریخ کا انتخاب کیا کرو۔
-
حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ حَدَّثَنَا أَبُو عَقِيلٍ حَدَّثَنَا مُجَالِدُ بْنُ سَعِيدٍ أَخْبَرَنَا عَامِرٌ عَنْ مَسْرُوقِ بْنِ الْأَجْدَعِ قَالَ لَقِيتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَقَالَ لِي مَنْ أَنْتَ قُلْتُ مَسْرُوقُ بْنُ الْأَجْدَعِ فَقَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ الْأَجْدَعُ شَيْطَانٌ وَلَكِنَّكَ مَسْرُوقُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ قَالَ عَامِرٌ فَرَأَيْتُهُ فِي الدِّيوَانِ مَكْتُوبًا مَسْرُوقُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ فَقُلْتُ مَا هَذَا فَقَالَ هَكَذَا سَمَّانِي عُمَرُ-
مسروق بن اجدع کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میری ملاقات حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ سے ہوئی تو انہوں نے پوچھا کہ تم کون ہو؟ میں نے عرض کیا کہ میں مسروق بن اجدع ہوں ، فرمایا میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اجدع شیطان کا نام ہے، اس لئے تمہارا نام مسروق بن عبدالرحمن ہے، عامر کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے ان کے رجسٹر میں ان کا نام مسروق بن عبدالرحمن لکھا ہوا دیکھا تو ان سے پوچھا یہ کیا ہے؟ اس پر انہوں نے بتایا کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے میرا یہ نام رکھا تھا۔
-
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ عِيسَى حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ عَنْ جَعْفَرِ بْنِ رَبِيعَةَ عَنِ الزُّهْرِيِّ عَنْ مُحَرَّرِ بْنِ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْ الْعَزْلِ عَنْ الْحُرَّةِ إِلَّا بِإِذْنِهَا-
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں آزاد عورت سے اس کی اجازت کے بغیر عزل کرنے سے منع فرمایا ہے۔
-
حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ عَمْرٍو قَالَ حَدَّثَنَا هِشَامٌ يَعْنِي ابْنَ سَعْدٍ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ عَنْ أَبِيهِ قَالَ سَمِعْتُ عُمَرَ يَقُولُ لَئِنْ عِشْتُ إِلَى هَذَا الْعَامِ الْمُقْبِلِ لَا يُفْتَحُ لِلنَّاسِ قَرْيَةٌ إِلَّا قَسَمْتُهَا بَيْنَهُمْ كَمَا قَسَمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَيْبَرَ-
اسلم جو کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے آزاد کردہ غلام تھے کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اگر میں آئندہ سال تک زندہ رہا تو جو بستی اور شہر بھی مفتوح ہوگا، میں اسے فاتحین کے درمیان تقسیم کر دیا کروں گا جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کو تقسیم فرما دیا تھا ۔
-
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الزُّبَيْرِيُّ حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ عَنْ سِمَاكٍ عَنْ عِكْرِمَةَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنْ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ كُنْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَزَاةٍ فَحَلَفْتُ لَا وَأَبِي فَهَتَفَ بِي رَجُلٌ مِنْ خَلْفِي فَقَالَ لَا تَحْلِفُوا بِآبَائِكُمْ فَإِذَا هُوَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کسی غزوے میں تھا، ایک موقع پر میں نے قسم کھاتے ہوئے کہا " لا وابی " تو پیچھے سے ایک آدمی نے مجھ سے کہا کہ اپنے آباؤ اجداد کے نام کی قسمیں مت کھایا کرو، میں نے دیکھا تو وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔
-
حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ الزُّبَيْرِيُّ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ عَنْ جَابِرٍ عَنْ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ لَئِنْ عِشْتُ إِنْ شَاءَ اللَّهُ لَأُخْرِجَنَّ الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى مِنْ جَزِيرَةِ الْعَرَبِ-
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا اگر میں زندہ رہا تو انشاء اللہ جزیرہ عرب سے یہودونصاری کو نکال کر رہوں گا۔
-
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ أَبُو دَاوُدَ حَدَّثَنَا شَرِيكٌ عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عُمَرَ قَالَ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَمْسَحُ عَلَى الْخُفَّيْنِ-
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے موزوں پر مسح فرمایا۔
-
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ أَبُو دَاوُدَ حَدَّثَنَا سَلَّامٌ يَعْنِي أَبَا الْأَحْوَصِ عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ عَنْ سَيَّارِ بْنِ الْمَعْرُورِ قَالَ سَمِعْتُ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَخْطُبُ وَهُوَ يَقُولُ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَنَى هَذَا الْمَسْجِدَ وَنَحْنُ مَعَهُ الْمُهَاجِرُونَ وَالْأَنْصَارُ فَإِذَا اشْتَدَّ الزِّحَامُ فَلْيَسْجُدْ الرَّجُلُ مِنْكُمْ عَلَى ظَهْرِ أَخِيهِ وَرَأَى قَوْمًا يُصَلُّونَ فِي الطَّرِيقِ فَقَالَ صَلُّوا فِي الْمَسْجِدِ-
سیاربن معرور کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو دوران خطبہ یہ ارشاد فرماتے ہوئے سناکہ اس مسجد کی تعمیر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مہاجرین وانصار کے ساتھ مل کر فرمائی ہے، اگر رش زیادہ ہوجائے تو (مسجد کی کمی کو مورد التزام ٹھہرانے کی بجائے) اپنے بھائی کی پشت پر سجدہ کر لیا کرو ، اسی طرح ایک مرتبہ حضرت فاروق اعطم رضی اللہ عنہ نے کچھ لوگوں کو راستے میں نماز پڑھتے ہوئے دیکھا تو فرمایا کہ مسجد میں نماز پڑھا کرو ۔
-
قَالَ قَرَأْتُ عَلَى يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ عَنْ زُهَيْرٍ قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ عَنْ حَارِثَةَ بْنِ مُضَرِّبٍ أَنَّهُ حَجَّ مَعَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَأَتَاهُ أَشْرَافُ أَهْلِ الشَّامِ فَقَالُوا يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ إِنَّا أَصَبْنَا مِنْ أَمْوَالِنَا رَقِيقًا وَدَوَابَّ فَخُذْ مِنْ أَمْوَالِنَا صَدَقَةً تُطَهِّرُنَا بِهَا وَتَكُونُ لَنَا زَكَاةً فَقَالَ هَذَا شَيْءٌ لَمْ يَفْعَلْهُ اللَّذَانِ كَانَا مِنْ قَبْلِي وَلَكِنْ انْتَظِرُوا حَتَّى أَسْأَلَ الْمُسْلِمِينَ-
حارثہ بن مضرب کہتے ہیں کہ انہیں حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے ساتھ حج کا شرف حاصل ہوا، شام کے کچھ معززین ان کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہنے لگے امیرالمومنین! ہمیں کچھ غلام اور جانور ملے ہیں، آپ ہمارے مال سے زکوۃ وصول کر لیجئے تاکہ ہمارا مال پاک ہوجائے، اور وہ ہمارے لیے پاکیزگی کا سبب بن جائے، فرمایا یہ کام تو مجھ سے پہلے میرے دو پیشرو حضرات نے نہیں کیا، میں کیسے کر سکتا ہوں البتہ ٹھہرو! میں مسلمانوں سے مشورہ کر لیتا ہوں۔
-
حَدَّثَنَا رَوْحٌ وَمُؤَمَّلٌ قَالَا حَدَّثَنَا سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَئِنْ عِشْتُ لَأُخْرِجَنَّ الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى مِنْ جَزِيرَةِ الْعَرَبِ حَتَّى لَا أَتْرُكَ فِيهَا إِلَّا مُسْلِمًا-
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اگر میں زندہ رہا توجزیرہ عرب سے یہودونصاری کو نکال کر رہوں گا، یہاں تک کہ جزیرہ عرب میں مسلمان کے علاوہ کوئی نہ رہے گا۔
-
حَدَّثَنَا عَتَّابُ بْنُ زِيَادٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ يَعْنِي ابْنَ الْمُبَارَكِ أَخْبَرَنَا يُونُسُ عَنِ الزُّهْرِيِّ عَنِ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ وَعُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدٍ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ عَبْد اللَّهِ وَقَدْ بَلَغَ بِهِ أَبِي إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ فَاتَهُ شَيْءٌ مِنْ وِرْدِهِ أَوْ قَالَ مِنْ جُزْئِهِ مِنْ اللَّيْلِ فَقَرَأَهُ مَا بَيْنَ صَلَاةِ الْفَجْرِ إِلَى الظُّهْرِ فَكَأَنَّمَا قَرَأَهُ مِنْ لَيْلَتِهِ-
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس شخص سے اس کا رات والی دعاؤں کا معمول کسی وجہ سے چھوٹ جائے اور وہ اسے اگلے دن فجر اور ظہر کے درمیان کسی بھی وقت پڑھ لے تو گویا اس نے اپنا معمول رات ہی کو پورا کیا ۔
-
حَدَّثَنَا أَبُو نُوحٍ قُرَادٌ حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ بْنُ عَمَّارٍ حَدَّثَنَا سِمَاكٌ الْحَنَفِيُّ أَبُو زُمَيْلٍ حَدَّثَنِي ابْنُ عَبَّاسٍ حَدَّثَنِي عُمَرُ قَالَ لَمَّا كَانَ يَوْمُ بَدْرٍ قَالَ نَظَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى أَصْحَابِهِ وَهُمْ ثَلَاثُ مِائَةٍ وَنَيِّفٌ وَنَظَرَ إِلَى الْمُشْرِكِينَ فَإِذَا هُمْ أَلْفٌ وَزِيَادَةٌ فَاسْتَقْبَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْقِبْلَةَ ثُمَّ مَدَّ يَدَهُ وَعَلَيْهِ رِدَاؤُهُ وَإِزَارُهُ ثُمَّ قَالَ اللَّهُمَّ أَيْنَ مَا وَعَدْتَنِي اللَّهُمَّ أَنْجِزْ مَا وَعَدْتَنِي اللَّهُمَّ إِنْ تُهْلِكْ هَذِهِ الْعِصَابَةَ مِنْ أَهْلِ الْإِسْلَامِ فَلَا تُعْبَدْ فِي الْأَرْضِ أَبَدًا قَالَ فَمَا زَالَ يَسْتَغِيثُ رَبَّهُ وَيَدْعُوهُ حَتَّى سَقَطَ رِدَاؤُهُ فَأَتَاهُ أَبُو بَكْرٍ فَأَخَذَ رِدَاءَهُ فَرَدَّاهُ ثُمَّ الْتَزَمَهُ مِنْ وَرَائِهِ ثُمَّ قَالَ يَا نَبِيَّ اللَّهِ كَفَاكَ مُنَاشَدَتُكَ رَبَّكَ فَإِنَّهُ سَيُنْجِزُ لَكَ مَا وَعَدَكَ وَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى إِذْ تَسْتَغِيثُونَ رَبَّكُمْ فَاسْتَجَابَ لَكُمْ أَنِّي مُمِدُّكُمْ بِأَلْفٍ مِنْ الْمَلَائِكَةِ مُرْدِفِينَ فَلَمَّا كَانَ يَوْمُئِذٍ وَالْتَقَوْا فَهَزَمَ اللَّهُ الْمُشْرِكِينَ فَقُتِلَ مِنْهُمْ سَبْعُونَ رَجُلًا وَأُسِرَ مِنْهُمْ سَبْعُونَ رَجُلًا فَاسْتَشَارَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَبَا بَكْرٍ وَعَلِيًّا وَعُمَرَ فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ يَا نَبِيَّ اللَّهِ هَؤُلَاءِ بَنُو الْعَمِّ وَالْعَشِيرَةُ وَالْإِخْوَانُ فَأَنَا أَرَى أَنْ تَأْخُذَ مِنْهُمْ الْفِدَاءَ فَيَكُونُ مَا أَخَذْنَا مِنْهُمْ قُوَّةً لَنَا عَلَى الْكُفَّارِ وَعَسَى اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ أَنْ يَهْدِيَهُمْ فَيَكُونُونَ لَنَا عَضُدًا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا تَرَى يَا ابْنَ الْخَطَّابِ فَقَالَ قُلْتُ وَاللَّهِ مَا أَرَى مَا رَأَى أَبُو بَكْرٍ وَلَكِنِّي أَرَى أَنْ تُمَكِّنَنِي مِنْ فُلَانٍ قَرِيبٍ لِعُمَرَ فَأَضْرِبَ عُنُقَهُ وَتُمَكِّنَ عَلِيًّا مِنْ عَقِيلٍ فَيَضْرِبَ عُنُقَهُ وَتُمَكِّنَ حَمْزَةَ مِنْ فُلَانٍ أَخِيهِ فَيَضْرِبَ عُنُقَهُ حَتَّى يَعْلَمَ اللَّهُ أَنَّهُ لَيْسَ فِي قُلُوبِنَا هَوَادَةٌ لِلْمُشْرِكِينَ هَؤُلَاءِ صَنَادِيدُهُمْ وَأَئِمَّتُهُمْ وَقَادَتُهُمْ فَهَوِيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا قَالَ أَبُو بَكْرٍ وَلَمْ يَهْوَ مَا قُلْتُ فَأَخَذَ مِنْهُمْ الْفِدَاءَ فَلَمَّا كَانَ مِنْ الْغَدِ قَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ غَدَوْتُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِذَا هُوَ قَاعِدٌ وَأَبُو بَكْرٍ وَإِذَا هُمَا يَبْكِيَانِ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَخْبِرْنِي مَاذَا يُبْكِيكَ أَنْتَ وَصَاحِبَكَ فَإِنْ وَجَدْتُ بُكَاءً بَكَيْتُ وَإِنْ لَمْ أَجِدْ بُكَاءً تَبَاكَيْتُ لِبُكَائِكُمَا قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الَّذِي عَرَضَ عَلَيَّ أَصْحَابُكَ مِنْ الْفِدَاءِ وَلَقَدْ عُرِضَ عَلَيَّ عَذَابُكُمْ أَدْنَى مِنْ هَذِهِ الشَّجَرَةِ لِشَجَرَةٍ قَرِيبَةٍ وَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى مَا كَانَ لِنَبِيٍّ أَنْ يَكُونَ لَهُ أَسْرَى حَتَّى يُثْخِنَ فِي الْأَرْضِ إِلَى قَوْلِهِ لَمَسَّكُمْ فِيمَا أَخَذْتُمْ مِنْ الْفِدَاءِ ثُمَّ أُحِلَّ لَهُمْ الْغَنَائِمُ فَلَمَّا كَانَ يَوْمُ أُحُدٍ مِنْ الْعَامِ الْمُقْبِلِ عُوقِبُوا بِمَا صَنَعُوا يَوْمَ بَدْرٍ مِنْ أَخْذِهِمْ الْفِدَاءَ فَقُتِلَ مِنْهُمْ سَبْعُونَ وَفَرَّ أَصْحَابُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَكُسِرَتْ رَبَاعِيَتُهُ وَهُشِمَتْ الْبَيْضَةُ عَلَى رَأْسِهِ وَسَالَ الدَّمُ عَلَى وَجْهِهِ فَأَنْزَلَ اللَّهُ أَوَلَمَّا أَصَابَتْكُمْ مُصِيبَةٌ قَدْ أَصَبْتُمْ مِثْلَيْهَا إِلَى قَوْلِهِ إِنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ بِأَخْذِكُمْ الْفِدَاءَ-
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ غزوہ بدر کے دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کا جائزہ لیا تو وہ تین سو سے کچھ اوپر تھے، اور مشرکین کا جائزہ لیا وہ ایک ہزار سے زیادہ معلوم ہوئے، یہ دیکھ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قبلہ رخ ہو کر دعاء کے لیے اپنے ہاتھ پھیلا دئیے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت چادر اوڑھ رکھی تھی، دعاء کرتے ہوئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا الٰہی! تیرا وعدہ کہاں گیا؟ الٰہی اپنا وعدہ پورا فرما، الٰہی اگر آج یہ مٹھی بھر مسلمان ختم ہوگئے تو زمین میں پھر کبھی بھی آپ کی عبادت نہیں کی جائے گی۔ اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم مستقل اپنے رب سے فریاد کرتے رہے، یہاں تک کہ آپ کی رداء مبارک گر گئی، یہ دیکھ کر حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ آگے بڑھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی چادر کو اٹھا کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ڈال دیا اور پیچھے سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو چمٹ گئے اور کہنے لگے اے اللہ کے نبی! آپ نے اپنے رب سے بہت دعاء کرلی، وہ اپنا وعدہ ضرور پورا کرے گا، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمادی کہ اس وقت کو یاد کرو جب تم اپنے رب سے فریاد کر رہے تھے اور اس نے تمہاری فریاد کو قبول کر لیا تھا کہ میں تمہاری مدد ایک ہزار فرشتوں سے کروں گا جو لگاتار آئیں گے۔ جب غزوہ بدر کا معرکہ بپا ہوا اور دونوں لشکر ایک دوسرے سے ملے تو اللہ کے فضل سے مشرکین کو ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا، چنانچہ ان میں سے ستر قتل ہوگئے اور ستر ہی گرفتار کر کے قید کر لیے گئے، ان قیدیوں کے متعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ، حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے مشورہ کیا، حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے مشورہ دیا اے اللہ کے نبی! یہ لوگ ہمارے ہی بھائی بند اور رشتہ دار ہیں، میری رائے تو یہ ہے کہ آپ ان سے فدیہ لے لیں، وہ مال کافروں کے خلاف ہماری طاقت میں اضافہ کرے گا اور عین ممکن ہے کہ اللہ انہیں بھی ہدایت دے دے تو یہ بھی ہمارے دست و بازو بن جائیں گے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا ابن خطاب! تمہاری رائے کیا ہے؟ میں نے عرض کیا کہ میری رائے وہ نہیں ہے جو حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی ہے، میری رائے یہ ہے کہ آپ فلاں آدمی کو جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قریبی رشتہ دار تھا میرے حوالے کر دیں اور میں اپنے ہاتھ سے اس کی گردن اڑادوں، آپ عقیل کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے حوالے کردیں اور وہ ان کی گردن اڑادیں، حمزہ کو فلاں پر غلبہ عطاء فرمائیں اور وہ اپنے ہاتھ سے اسے قتل کریں، تاکہ اللہ جان لے کہ ہمارے دلوں میں مشرکین کے لیے کوئی نرمی کا پہلو نہیں ہے، یہ لوگ مشرکین کے سردار، ان کے قائد اور ان کے سرغنہ ہیں ، جب یہ قتل ہوجائیں گے تو کفروشرک اپنی موت آپ مرجائے گا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی رائے کو ترجیح دی اور میری رائے کو چھوڑ دیا، اور ان سے فدیہ لے لیا، اگلے دن میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو دیکھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ بیٹھے ہوئے رو رہے ہیں، میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! خیر تو ہے آپ اور آپ کے دوست (حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ) رو رہے ہیں؟ مجھے بھی بتائیے تاکہ اگر میری آنکھوں میں بھی آنسو آجائیں تو آپ کا ساتھ دوں، ورنہ کم از کم رونے کی کوشش ہی کرلوں ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہارے ساتھیوں نے مجھے فدیہ کا جو مشورہ دیا تھا اس کی وجہ سے تم سب پر آنے والا عذاب مجھے اتنا قریب دکھائی دیا جتنا یہ درخت نظر آرہا ہے، اور اللہ نے یہ آیت نازل کی ہے کہ پیغمبر اسلام کے لیے یہ مناسب نہیں ہے کہ اگر ان کے پاس قیدی آئیں ۔ ۔ ۔ آخر آیت تک، بعد میں ان کے لئے مال غنیمت کو حلال قرار دے دیا گیا۔ آئندہ سال جب غزوہ احد ہوا تو غزوہ بدر میں فدیہ لینے کے عوض مسلمانوں کے ستر آدمی شہید ہوگئے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ کر منتشر ہو گئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دندان مبارک شہید ہو گئے، خود کی کڑی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سر مبارک میں گھس گئی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا روئے انورخون سے بھر گیا اور یہ آیت قرآنی نازل ہوئی کہ جب تم پر وہ مصیبت نازل ہوئی جو اس سے قبل تم مشرکین کو خود بھی پہنچا چکے تھے تو تم کہنے لگے کہ یہ کیسے ہو گیا؟ آپ فرما دیجئے کہ یہ تمہاری طرف سے ہی ہے، بے شک اللہ ہر چیز پر قادر ہے، مطلب یہ ہے کہ یہ شکست فدیہ لینے کی وجہ سے ہوئی۔
-
حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَنْبَأَنَا مَعْمَرٌ عَنِ الزُّهْرِيِّ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي ثَوْرٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ لَمْ أَزَلْ حَرِيصًا عَلَى أَنْ أَسْأَلَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ الْمَرْأَتَيْنِ مِنْ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اللَّتَيْنِ قَالَ اللَّهُ تَعَالَى إِنْ تَتُوبَا إِلَى اللَّهِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوبُكُمَا حَتَّى حَجَّ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَحَجَجْتُ مَعَهُ فَلَمَّا كُنَّا بِبَعْضِ الطَّرِيقِ عَدَلَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَعَدَلْتُ مَعَهُ بِالْإِدَاوَةِ فَتَبَرَّزَ ثُمَّ أَتَانِي فَسَكَبْتُ عَلَى يَدَيْهِ فَتَوَضَّأَ فَقُلْتُ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ مَنْ الْمَرْأَتَانِ مِنْ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اللَّتَانِ قَالَ اللَّهُ تَعَالَى إِنْ تَتُوبَا إِلَى اللَّهِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوبُكُمَا فَقَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَاعَجَبًا لَكَ يَا ابْنَ عَبَّاسٍ قَالَ الزُّهْرِيُّ كَرِهَ وَاللَّهِ مَا سَأَلَهُ عَنْهُ وَلَمْ يَكْتُمْهُ عَنْهُ قَالَ هِيَ حَفْصَةُ وَعَائِشَةُ قَالَ ثُمَّ أَخَذَ يَسُوقُ الْحَدِيثَ قَالَ كُنَّا مَعْشَرَ قُرَيْشٍ قَوْمًا نَغْلِبُ النِّسَاءَ فَلَمَّا قَدِمْنَا الْمَدِينَةَ وَجَدْنَا قَوْمًا تَغْلِبُهُمْ نِسَاؤُهُمْ فَطَفِقَ نِسَاؤُنَا يَتَعَلَّمْنَ مِنْ نِسَائِهِمْ قَالَ وَكَانَ مَنْزِلِي فِي بَنِي أُمَيَّةَ بْنِ زَيْدٍ بِالْعَوَالِي قَالَ فَتَغَضَّبْتُ يَوْمًا عَلَى امْرَأَتِي فَإِذَا هِيَ تُرَاجِعُنِي فَأَنْكَرْتُ أَنْ تُرَاجِعَنِي فَقَالَتْ مَا تُنْكِرُ أَنْ أُرَاجِعَكَ فَوَاللَّهِ إِنَّ أَزْوَاجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيُرَاجِعْنَهُ وَتَهْجُرُهُ إِحْدَاهُنَّ الْيَوْمَ إِلَى اللَّيْلِ قَالَ فَانْطَلَقْتُ فَدَخَلْتُ عَلَى حَفْصَةَ فَقُلْتُ أَتُرَاجِعِينَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ نَعَمْ قُلْتُ وَتَهْجُرُهُ إِحْدَاكُنَّ الْيَوْمَ إِلَى اللَّيْلِ قَالَتْ نَعَمْ قُلْتُ قَدْ خَابَ مَنْ فَعَلَ ذَلِكَ مِنْكُنَّ وَخَسِرَ أَفَتَأْمَنُ إِحْدَاكُنَّ أَنْ يَغْضَبَ اللَّهُ عَلَيْهَا لِغَضَبِ رَسُولِهِ فَإِذَا هِيَ قَدْ هَلَكَتْ لَا تُرَاجِعِي رَسُولَ اللَّهِ وَلَا تَسْأَلِيهِ شَيْئًا وَسَلِينِي مَا بَدَا لَكِ وَلَا يَغُرَّنَّكِ إِنْ كَانَتْ جَارَتُكِ هِيَ أَوْسَمَ وَأَحَبَّ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ مِنْكِ يُرِيدُ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَ وَكَانَ لِي جَارٌ مِنْ الْأَنْصَارِ وَكُنَّا نَتَنَاوَبُ النُّزُولَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَيَنْزِلُ يَوْمًا وَأَنْزِلُ يَوْمًا فَيَأْتِينِي بِخَبَرِ الْوَحْيِ وَغَيْرِهِ وَآتِيهِ بِمِثْلِ ذَلِكَ قَالَ وَكُنَّا نَتَحَدَّثُ أَنَّ غَسَّانَ تُنْعِلُ الْخَيْلَ لِتَغْزُوَنَا فَنَزَلَ صَاحِبِي يَوْمًا ثُمَّ أَتَانِي عِشَاءً فَضَرَبَ بَابِي ثُمَّ نَادَانِي فَخَرَجْتُ إِلَيْهِ فَقَالَ حَدَثَ أَمْرٌ عَظِيمٌ قُلْتُ وَمَاذَا أَجَاءَتْ غَسَّانُ قَالَ لَا بَلْ أَعْظَمُ مِنْ ذَلِكَ وَأَطْوَلُ طَلَّقَ الرَّسُولُ نِسَاءَهُ فَقُلْتُ قَدْ خَابَتْ حَفْصَةُ وَخَسِرَتْ قَدْ كُنْتُ أَظُنُّ هَذَا كَائِنًا حَتَّى إِذَا صَلَّيْتُ الصُّبْحَ شَدَدْتُ عَلَيَّ ثِيَابِي ثُمَّ نَزَلْتُ فَدَخَلْتُ عَلَى حَفْصَةَ وَهِيَ تَبْكِي فَقُلْتُ أَطَلَّقَكُنَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ لَا أَدْرِي هُوَ هَذَا مُعْتَزِلٌ فِي هَذِهِ الْمَشْرُبَةِ فَأَتَيْتُ غُلَامًا لَهُ أَسْوَدَ فَقُلْتُ اسْتَأْذِنْ لِعُمَرَ فَدَخَلَ الْغُلَامُ ثُمَّ خَرَجَ إِلَيَّ فَقَالَ قَدْ ذَكَرْتُكَ لَهُ فَصَمَتَ فَانْطَلَقْتُ حَتَّى أَتَيْتُ الْمِنْبَرَ فَإِذَا عِنْدَهُ رَهْطٌ جُلُوسٌ يَبْكِي بَعْضُهُمْ فَجَلَسْتُ قَلِيلًا ثُمَّ غَلَبَنِي مَا أَجِدُ فَأَتَيْتُ الْغُلَامَ فَقُلْتُ اسْتَأْذِنْ لِعُمَرَ فَدَخَلَ الْغُلَامُ ثُمَّ خَرَجَ عَلَيَّ فَقَالَ قَدْ ذَكَرْتُكَ لَهُ فَصَمَتَ فَخَرَجْتُ فَجَلَسْتُ إِلَى الْمِنْبَرِ ثُمَّ غَلَبَنِي مَا أَجِدُ فَأَتَيْتُ الْغُلَامَ فَقُلْتُ اسْتَأْذِنْ لِعُمَرَ فَدَخَلَ ثُمَّ خَرَجَ إِلَيَّ فَقَالَ قَدْ ذَكَرْتُكَ لَهُ فَصَمَتَ فَوَلَّيْتُ مُدْبِرًا فَإِذَا الْغُلَامُ يَدْعُونِي فَقَالَ ادْخُلْ فَقَدْ أَذِنَ لَكَ فَدَخَلْتُ فَسَلَّمْتُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِذَا هُوَ مُتَّكِئٌ عَلَى رَمْلِ حَصِيرٍ ح و حَدَّثَنَاه يَعْقُوبُ فِي حَدِيثِ صَالِحٍ قَالَ رُمَالِ حَصِيرٍ قَدْ أَثَّرَ فِي جَنْبِهِ فَقُلْتُ أَطَلَّقْتَ يَا رَسُولَ اللَّهِ نِسَاءَكَ فَرَفَعَ رَأْسَهُ إِلَيَّ وَقَالَ لَا فَقُلْتُ اللَّهُ أَكْبَرُ لَوْ رَأَيْتَنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ وَكُنَّا مَعْشَرَ قُرَيْشٍ قَوْمًا نَغْلِبُ النِّسَاءَ فَلَمَّا قَدِمْنَا الْمَدِينَةَ وَجَدْنَا قَوْمًا تَغْلِبُهُمْ نِسَاؤُهُمْ فَطَفِقَ نِسَاؤُنَا يَتَعَلَّمْنَ مِنْ نِسَائِهِمْ فَتَغَضَّبْتُ عَلَى امْرَأَتِي يَوْمًا فَإِذَا هِيَ تُرَاجِعُنِي فَأَنْكَرْتُ أَنْ تُرَاجِعَنِي فَقَالَتْ مَا تُنْكِرُ أَنْ أُرَاجِعَكَ فَوَاللَّهِ إِنَّ أَزْوَاجَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيُرَاجِعْنَهُ وَتَهْجُرُهُ إِحْدَاهُنَّ الْيَوْمَ إِلَى اللَّيْلِ فَقُلْتُ قَدْ خَابَ مَنْ فَعَلَ ذَلِكَ مِنْهُنَّ وَخَسِرَ أَفَتَأْمَنُ إِحْدَاهُنَّ أَنْ يَغْضَبَ اللَّهُ عَلَيْهَا لِغَضَبِ رَسُولِهِ فَإِذَا هِيَ قَدْ هَلَكَتْ فَتَبَسَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ فَدَخَلْتُ عَلَى حَفْصَةَ فَقُلْتُ لَا يَغُرُّكِ إِنْ كَانَتْ جَارَتُكِ هِيَ أَوْسَمَ وَأَحَبَّ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْكِ فَتَبَسَّمَ أُخْرَى فَقُلْتُ أَسْتَأْنِسُ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ نَعَمْ فَجَلَسْتُ فَرَفَعْتُ رَأْسِي فِي الْبَيْتِ فَوَاللَّهِ مَا رَأَيْتُ فِيهِ شَيْئًا يَرُدُّ الْبَصَرَ إِلَّا أَهَبَةً ثَلَاثَةً فَقُلْتُ ادْعُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَنْ يُوَسِّعَ عَلَى أُمَّتِكَ فَقَدْ وُسِّعَ عَلَى فَارِسَ وَالرُّومِ وَهُمْ لَا يَعْبُدُونَ اللَّهَ فَاسْتَوَى جَالِسًا ثُمَّ قَالَ أَفِي شَكٍّ أَنْتَ يَا ابْنَ الْخَطَّابِ أُولَئِكَ قَوْمٌ عُجِّلَتْ لَهُمْ طَيِّبَاتُهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا فَقُلْتُ اسْتَغْفِرْ لِي يَا رَسُولَ اللَّهِ وَكَانَ أَقْسَمَ أَنْ لَا يَدْخُلَ عَلَيْهِنَّ شَهْرًا مِنْ شِدَّةِ مَوْجِدَتِهِ عَلَيْهِنَّ حَتَّى عَاتَبَهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ-
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے اس بات کی بڑی آرزو تھی کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ان دو ازواج مطہرات کے بارے سوال کروں جن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا تھا کہ " اگر تم دونوں توبہ کرلو تو اچھا ہے کیونکہ تمہارے دل ٹیڑھے ہوچکے ہیں " لیکن ہمت نہیں ہوتی تھی، حتیٰ کہ ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ حج کے لئے تشریف لے گئے، میں بھی ان کے ساتھ تھا، راستے میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ لوگوں سے ہٹ کر چلنے لگے، میں بھی پانی کا برتن لے کر ان کے پیچھے چلا گیا، انہوں نے اپنی طبعی ضرورت پوری کی اور جب واپس آئے تو میں نے ان کے ہاتھوں پر پانی ڈالا اور حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ وضو کرنے لگے۔ اس دوران مجھے موقع مناسب معلوم ہوا، اس لئے میں نے پوچھ ہی لیا کہ امیرالمومنین! نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات سے وہ دو عورتیں کون تھیں جن کے بارے اللہ نے یہ فرمایا ہے کہ اگر تم توبہ کرلو تو اچھا ہے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا ابن عباس! حیرانگی کی بات ہے کہ تمہیں یہ بات معلوم نہیں، وہ دونوں عائشہ اور حفصہ تھیں ، اور فرمایا کہ ہم قریش کے لوگ اپنی عورتوں پر غالب رہا کرتے تھے، لیکن جب ہم مدینہ منورہ میں آئے تو یہاں کی عورتیں، مردوں پر غالب نظر آئیں، ان کی دیکھا دیکھی ہماری عورتوں نے بھی ان سے یہ طور طریقے سیکھنا شروع کر دئیے۔ میرا گھر اس وقت عوالی میں بنو امیہ بن زید کے پاس تھا، ایک دن میں نے اپنی پر غصہ کا اظہار کسی وجہ سے کیا تو وہ الٹا مجھے جواب دینے لگی، مجھے بڑا تعجب ہوا، وہ کہنے لگی کہ میرے جواب دینے پر تو آپ کو تعجب ہو رہا ہے بخدا! نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات بھی انہیں جواب دیتی ہیں بلکہ بعض اوقات تو ان میں سے کوئی سارا دن تک نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بات ہی نہیں کرتی۔ یہ سنتے ہی میں اپنی بیٹی حفصہ کے پاس پہنچا اور ان سے کہا کہ کیا تم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تکرار کرتی ہو؟ انہوں نے اقرار کیا، پھر میں نے پوچھا کہ کیا تم میں سے کوئی سارا دن تک نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بات ہی نہیں کرتی؟ انہوں نے اس پر اقرار کیا، میں نے کہا کہ تم میں سے جو یہ کرتا ہے وہ بڑے نقصان اور خسارے میں ہے، کیا تم لوگ اس بات پر مطمئن ہو کہ اپنے پیغمبر کو ناراض دیکھ کر تم میں سے کسی پر اللہ کا غضب نازل ہو اور وہ ہلاک ہوجائے۔ میرا ایک انصاری پڑوسی تھا، ہم دونوں نے باری مقرر کر رکھی تھی، ایک دن وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتا اور ایک دن میں ، وہ اپنے دن کی خبریں اور وحی مجھے سنا دیتا اور میں اپنی باری کی خبریں اور وحی اسے سنادیتا، اس زمانے میں ہم لوگ آپس میں یہ گفتگو ہی کرتے رہتے تھے کہ بنو غسان کے لوگ ہم سے مقابلے کے لئے اپنے گھوڑوں کے نعل ٹھونک رہے ہیں، اس تناظر میں میرا پڑوسی ایک دن عشاء کے وقت میرے گھر آیا اور زور زور سے دروازہ بجایا، پھر مجھے آوازیں دینے لگا، میں جب باہر نکل کر آیا تو وہ کہنے لگا کہ آج تو ایک بڑا اہم واقعہ پیش آیا ہے، میں نے پوچھا کہ کیا بنوغسان نے حملہ کردیا؟ اس نے کہا نہیں! اس سے بھی زیادہ اہم واقعہ پیش آیاہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ازواج مطہرات کو طلاق دے دی ہے، میں نے یہ سنتے ہی کہا کہ حفصہ خسارے میں رہ گئی، مجھے پتہ تھا کہ یہ ہو کر رہے گا۔ خیر! فجر کی نماز پڑھ کر میں نے اپنے کپڑے پہنے اور سیدھاحفصہ کے پاس پہنچا، وہ رو رہی تھیں ، میں نے ان سے پوچھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہیں طلاق دے دی ہے؟ انہوں نے کہا مجھے کچھ خبر نہیں، وہ اس بالاخانے میں اکیلے رہ رہے ہیں، میں وہاں پہنچا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک سیاہ فام غلام ملا، میں نے کہا کہ میرے لیے اندر داخل ہونے کی اجازت لے کر آؤ، وہ گیا اور تھوڑی دیر بعد آکر کہنے لگا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کا ذکر کر دیا تھا لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے۔ میں وہاں سے آکر منبر کے قریب پہنچا تو وہاں بھی بہت سے لوگوں کو بیٹھے روتا ہوا پایا، میں بھی تھوڑی دیر کے لیے وہاں بیٹھ گیا، لیکن پھر بے چینی مجھ پر غالب آگئی اور میں نے دوبارہ اس غلام سے جا کر کہا کہ میرے لیے اجازت لے کر آؤ، وہ گیا اور تھوڑی دیر بعد ہی آکر کہنے لگا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کا ذکر کیا لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے، تین مرتبہ اس طرح ہونے کے بعد جب میں واپس جانے لگا توغلام نے مجھے آواز دی کہ آئیے، آپ کو اجازت مل گئی ہے۔ میں نے اندر داخل ہو کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا، دیکھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک چٹائی سے ٹیک لگائے بیٹھے ہیں جس کے نشانات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلوئے مبارک پر نظر آرہے ہیں، میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! کیا آپ نے اپنی ازواج مطہرات کو طلاق دے دی؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سر اٹھا کر میری طرف دیکھا اور فرمایا نہیں ! میں نے اللہ اکبر کا نعرہ بلند کیا، اور عرض کیا یا رسول اللہ! ذرا دیکھئے تو سہی، ہم قریشی لوگ اپنی عورتوں پر غالب رہتے تھے، جب مدینہ منورہ پہنچے تو یہاں ایسے لوگوں سے پالا پڑا جن پر ان کی عورتیں غالب رہتی ہیں، ہماری عورتوں نے بھی ان کی دیکھا دیکھی ان کے طور طریقے سیکھنا شروع کر دئیے، چنانچہ ایک دن میں اپنی سے کسی بات پر ناراض ہوا تو وہ الٹا مجھے جواب دینے لگی، مجھے تعجب ہوا تو وہ کہنے لگی کہ آپ کو میرے جواب پر تعجب ہو رہاہے، بخدا! نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج بھی انہیں جواب دیتی ہیں اور سارا سارا دن تک ان سے بات نہیں کرتیں ۔ میں نے کہا کہ جو ایسا کرتی ہے وہ نقصان اور خسارے میں ہے، کیا وہ اس بات سے مطمئن رہتی ہیں کہ اگر اپنے پیغمبر کی ناراضگی پر اللہ کا غضب ان پر نازل ہوا تو وہ ہلاک نہیں ہوں گی؟ یہ سن کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم مسکرائے، میں نے مزید عرض کیا یا رسول اللہ! اس کے بعد میں حفصہ کے پاس آیا اور اس سے کہا کہ تو اس بات سے دھوکہ میں نہ رہ کہ تیری سہیلی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زیادہ چہیتی اور لاڈلی ہے، یہ سن کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم دوبارہ مسکرائے۔ پھر میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! کیا میں بے تکلف ہو سکتا ہوں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دے دی، چنانچہ میں نے سر اٹھا کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کاشانہ اقدس کا جائزہ لینا شروع کردیا، اللہ کی قسم! مجھے وہاں کوئی ایسی چیز نظر نہیں آئی جس کی طرف باربار نظریں اٹھیں، سوائے تین کچی کھالوں کے، میں نے یہ دیکھ کر عرض کیا یا رسول اللہ! اللہ سے دعاء کیجئے کہ آپ کی امت پر وسعت اور کشادگی فرمائے، فارس اور روم جو اللہ کی عبادت نہیں کرتے، ان پر تو بڑی فراخی کی گئی ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم یہ سن کر سیدھے ہو کر بیٹھ گئے اور فرمایا ابن خطاب! کیا تم اب تک شک میں مبتلا ہو؟ ان لوگوں کو دنیا میں یہ ساری چیزیں دے دی گئی ہیں، میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! میرے لیے بخشش کی دعاء فرما دیجئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اصل میں یہ قسم کھالی تھی کہ ایک مہینے تک اپنی ازواج مطہرات کے پاس نہیں جائیں گے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ان پر سخت غصہ اور غم تھا، تا آنکہ اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر اس سلسلے میں وحی نازل فر مادی۔
-
حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنِي يُونُسُ بْنُ سُلَيْمٍ قَالَ أَمْلَى عَلَيَّ يُونُسُ بْنُ يَزِيدَ الْأَيْلِيُّ عَنِ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدٍ الْقَارِيِّ سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَقُولُ كَانَ إِذَا نَزَلَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْوَحْيُ يُسْمَعُ عِنْدَ وَجْهِهِ دَوِيٌّ كَدَوِيِّ النَّحْلِ فَمَكَثْنَا سَاعَةً فَاسْتَقْبَلَ الْقِبْلَةَ وَرَفَعَ يَدَيْهِ فَقَالَ اللَّهُمَّ زِدْنَا وَلَا تَنْقُصْنَا وَأَكْرِمْنَا وَلَا تُهِنَّا وَأَعْطِنَا وَلَا تَحْرِمْنَا وَآثِرْنَا وَلَا تُؤْثِرْ عَلَيْنَا وَارْضَ عَنَّا وَأَرْضِنَا ثُمَّ قَالَ لَقَدْ أُنْزِلَتْ عَلَيَّ عَشْرُ آيَاتٍ مَنْ أَقَامَهُنَّ دَخَلَ الْجَنَّةَ ثُمَّ قَرَأَ عَلَيْنَا قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ حَتَّى خَتَمَ الْعَشْرَ-
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر جب نزول وحی ہوتا تو آپ کے روئے انور کے قریب سے شہد کی مکھیوں کی بھنبھناہٹ کی سی آواز سنائی دیتی تھی، ایک مرتبہ ایسا ہوا تو ہم کچھ دیر کے لیے رک گئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قبلہ رخ ہو کر اپنے ہاتھ پھیلائے اور یہ دعاء فرمائی کہ اے اللہ! ہمیں زیادہ عطاء فرما، کمی نہ فرما، ہمیں معزز فرما، ذلیل نہ فرما، ہمیں عطاء فرما، محروم نہ فرما، ہمیں ترجیح دے، دوسروں کو ہم پر ترجیح نہ دے، ہم سے راضی ہوجا اور ہمیں راضی کر دے، اس کے بعد فرمایا کہ مجھ پر ابھی ابھی دس ایسی آیتیں نازل ہوئی ہیں کہ اگر ان کی پابندی کوئی شخص کرلے، وہ جنت میں داخل ہوگا، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سورت المومنون کی ابتدائی دس آیات کی تلاوت فرمائی۔
-
حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَنْبَأَنَا مَعْمَرٌ عَنِ الزُّهْرِيِّ عَنْ أَبِي عُبَيْدٍ مَوْلَى عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ أَنَّهُ شَهِدَ الْعِيدَ مَعَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَصَلَّى قَبْلَ أَنْ يَخْطُبَ بِلَا أَذَانٍ وَلَا إِقَامَةٍ ثُمَّ خَطَبَ فَقَالَ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْ صِيَامِ هَذَيْنِ الْيَوْمَيْنِ أَمَّا أَحَدُهُمَا فَيَوْمُ فِطْرِكُمْ مِنْ صِيَامِكُمْ وَعِيدُكُمْ وَأَمَّا الْآخَرُ فَيَوْمٌ تَأْكُلُونَ فِيهِ مِنْ نُسُكِكُمْ حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ حَدَّثَنَا أَبِي عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ حَدَّثَنَا الزُّهْرِيُّ عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي عُبَيْدٍ مَوْلَى عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَزْهَرَ قَالَ شَهِدْتُ الْعِيدَ مَعَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَذَكَرَ الْحَدِيثَ-
ابوعبید کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں عید کے موقع پر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا ، انہوں نے خطبہ سے پہلے بغیر اذان اور اقامت کے نماز پڑھائی، پھر خطبہ دیتے ہوئے فرمایا لوگو! نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دودنوں کے روزے سے منع فرمایا ہے، عیدالفطر کے دن تو اس لیے کہ اس دن تمہارے روزے ختم ہوتے ہیں اور عیدالاضحی کے دن اس لئے کہ تم اپنی قربانی کے جانور کا گوشت کھا سکو۔ گذشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی نقل کی گئی ہے۔
-
حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ عَنْ نَافِعٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَبَّلَ الْحَجَرَ ثُمَّ قَالَ قَدْ عَلِمْتُ أَنَّكَ حَجَرٌ وَلَوْلَا أَنِّي رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَبَّلَكَ مَا قَبَّلْتُكَ-
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے حجر اسود کو بوسہ دیا اور اس سے مخاطب ہو کر فرمایا میں جانتا ہوں کہ تو ایک پتھر ہے اگر میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تیرا بوسہ لیتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو میں تجھے کبھی بوسہ نہ دیتا۔
-
حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ أَخْبَرَنِي سَيَّارٌ عَنْ أَبِي وَائِلٍ أَنَّ رَجُلًا كَانَ نَصْرَانِيًّا يُقَالُ لَهُ الصُّبَيُّ بْنُ مَعْبَدٍ أَسْلَمَ فَأَرَادَ الْجِهَادَ فَقِيلَ لَهُ ابْدَأْ بِالْحَجِّ فَأَتَى الْأَشْعَرِيَّ فَأَمَرَهُ أَنْ يُهِلَّ بِالْحَجِّ وَالْعُمْرَةِ جَمِيعًا فَفَعَلَ فَبَيْنَمَا هُوَ يُلَبِّي إِذْ مَرَّ يَزِيدُ بْنُ صُوحَانَ وَسَلْمَانُ بْنُ رَبِيعَةَ فَقَالَ أَحَدُهُمَا لِصَاحِبِهِ لَهَذَا أَضَلُّ مِنْ بَعِيرِ أَهْلِهِ فَسَمِعَهَا الصُّبَيُّ فَكَبُرَ ذَلِكَ عَلَيْهِ فَلَمَّا قَدِمَ أَتَى عُمَرَ فَذَكَرَ ذَلِكَ لَهُ فَقَالَ لَهُ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ هُدِيتَ لِسُنَّةِ نَبِيِّكَ قَالَ وَسَمِعْتُهُ مَرَّةً أُخْرَى يَقُولُ وُفِّقْتَ لِسُنَّةِ نَبِيِّكَ-
حضرت ابو وائل کہتے ہیں کہ صبی بن معبد ایک عیسائی آدمی تھے جنہوں نے اسلام قبول کر لیا، انہوں نے جہاد کا ارادہ کر لیا، اسی اثناء میں کسی نے کہا آپ پہلے حج کر لیں، پھر جہاد میں شرکت کریں ۔ چنانچہ وہ اشعری کے پاس آئے، انہوں نے صبی کو حج اور عمرہ دونوں کا اکٹھااحرام باندھ لینے کا حکم دیا، انہوں نے ایسا ہی کیا، وہ یہ تلبیہ پڑھتے ہوئے، زید بن صوحان اور سلمان بن ربیعہ کے پاس سے گذرے تو ان میں سے ایک نے دوسرے سے کہا کہ یہ شخص اپنے اونٹ سے بھی زیادہ گمراہ ہے، صبی نے یہ بات سن لی اور ان پر بہت بوجھ بنی، جب وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو زید اور سلمان نے جو کہا تھا ، اس کے متعلق ان کی خدمت میں عرض کیا، حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ان سے فرمایا کہ آپ کو اپنے پیغمبر کی سنت پر رہنمائی نصیب ہوگئی۔
-
حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ عَنْ إِبْرَاهِيمَ عَنْ عَلْقَمَةَ عَنْ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْمُرُ عِنْدَ أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ اللَّيْلَةَ كَذَاكَ فِي الْأَمْرِ مِنْ أَمْرِ الْمُسْلِمِينَ وَأَنَا مَعَهُ-
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ معمول مبارک تھا کہ روزانہ رات کو حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے پاس مسلمانوں کے معاملات میں مشورے کے لیے تشریف لے جاتے تھے، ایک مرتبہ میں بھی اس موقع پر موجود تھا۔
-
حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ حَدَّثَنَا عَاصِمٌ الْأَحْوَلُ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَرْجِسَ قَالَ رَأَيْتُ الْأُصَيْلِعَ يَعْنِي عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يُقَبِّلُ الْحَجَرَ وَيَقُولُ إِنِّي لَأُقَبِّلُكَ وَأَعْلَمُ أَنَّكَ حَجَرٌ لَا تَنْفَعُ وَلَا تَضُرُّ وَلَوْلَا أَنِّي رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُقَبِّلُكَ لَمْ أُقَبِّلْكَ-
عبداللہ بن سرجس کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ وہ حجر اسود کو بوسہ دے رہے ہیں اور اس سے مخاطب ہو کر فرما رہے ہیں، میں جانتاہوں کہ تو ایک پتھر ہے، کسی کو نفع پہنچا سکتا ہے اور نہ نقصان، لیکن میں تجھے پھر بھی بوسہ دے رہا ہوں، اگر میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تیرا بوسہ لیتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو میں تجھے کبھی بوسہ نہ دیتا۔
-
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ عَنْ نَافِعٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ عَنْ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَيَرْقُدُ أَحَدُنَا وَهُوَ جُنُبٌ قَالَ نَعَمْ إِذَا تَوَضَّأَ-
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا اگر کوئی آدمی اختیاری طور پر ناپاک ہوجائے تو کیا اسی حال میں سو سکتا ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں ! وضو کر لے اور سو جائے۔
-
حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ أَخْبَرَنَا هِشَامٌ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَاصِمٍ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَقْبَلَ اللَّيْلُ وَأَدْبَرَ النَّهَارُ وَغَابَتْ الشَّمْسُ فَقَدْ أَفْطَرْتَ-
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جب رات آجائے اور دن چلاجائے اور سورج غروب ہوجائے تو تمہیں روزہ افطار کرلینا چاہیے، (مشرق اور مغرب مراد ہے )
-
حَدَّثَنَا أَبُو كَامِلٍ حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ حَدَّثَنَا ابْنُ شِهَابٍ ح و حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَنْبَأَنَا مَعْمَرٌ عَنِ الزُّهْرِيِّ الْمَعْنَى عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ عَامِرِ بْنِ وَاثِلَةَ أَنَّ نَافِعَ بْنَ عَبْدِ الْحَارِثِ لَقِيَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ بِعُسْفَانَ وَكَانَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ اسْتَعْمَلَهُ عَلَى مَكَّةَ فَقَالَ لَهُ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ مَنْ اسْتَخْلَفْتَ عَلَى أَهْلِ الْوَادِي قَالَ اسْتَخْلَفْتُ عَلَيْهِمْ ابْنَ أَبْزَى قَالَ وَمَا ابْنُ أَبْزَى فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ مَوَالِينَا فَقَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ اسْتَخْلَفْتَ عَلَيْهِمْ مَوْلًى فَقَالَ إِنَّهُ قَارِئٌ لِكِتَابِ اللَّهِ عَالِمٌ بِالْفَرَائِضِ قَاضٍ فَقَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَمَا إِنَّ نَبِيَّكُمْ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ قَالَ إِنَّ اللَّهَ يَرْفَعُ بِهَذَا الْكِتَابِ أَقْوَامًا وَيَضَعُ بِهِ آخَرِينَ-
حضرت عامربن واثلہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ عسفان نامی جگہ میں نافع بن عبدالحارث کی حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے ملاقات ہوئی، حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے انہیں مکہ مکرمہ کا گورنر بنا رکھا تھا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے پوچھا کہ تم نے اپنے پیچھے اپنا نائب کسے بنایا؟ انہوں نے کہا عبدالرحمن بن ابزی کو، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا ابن ابزی کون ہے؟ عرض کیا ہمارے موالی میں سے ہے،حضرت عمر رضی اللہ نے فرمایا کہ کہ تم ایک غلام کو اپنانائب بنا آئے؟ عرض کیا کہ وہ قرآن کریم کا قاری ہے، علم فرائض ووراثت کو جانتا ہے اور فیصلہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، حضرت عمر رضی اللہ نے فرمایا کہ تمہارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم اس کے متعلق فرما گئے ہیں کہ بیشک اللہ اس کتاب کے ذریعے بہت سے لوگوں کو عزتیں عطاء فرمائے گا اور بہت سے لوگوں نیچے کر دے گا۔
-
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ سُمَيْعٍ عَنْ مُسْلِمٍ الْبَطِينِ عَنْ أَبِي الْبَخْتَرِيِّ قَالَ قَالَ عُمَرُ لِأَبِي عُبَيْدَةَ بْنِ الْجَرَّاحِ ابْسُطْ يَدَكَ حَتَّى أُبَايِعَكَ فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ أَنْتَ أَمِينُ هَذِهِ الْأُمَّةِ فَقَالَ أَبُو عُبَيْدَةَ مَا كُنْتُ لِأَتَقَدَّمَ بَيْنَ يَدَيْ رَجُلٍ أَمَرَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَؤُمَّنَا فَأَمَّنَا حَتَّى مَاتَ-
ابوالبختری کہتے ہیں کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ حضرت ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ سے فرمایا اپنا ہاتھ پھیلائیے تاکہ میں آپ کے ہاتھ پر بیعت کروں، کیونکہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ آپ اس امت کے امین ہیں، انہوں نے فرمایا میں اس شخص سے آگے نہیں بڑھ سکتاجسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہماری امامت کا حکم دیا ہو اور وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال تک ہماری امامت کرتے رہے ہوں ۔
-
حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَنْبَأَنَا سُفْيَانُ عَنِ الْأَعْمَشِ عَنْ شَقِيقِ بْنِ سَلَمَةَ عَنْ سَلْمَانَ بْنِ رَبِيعَةَ عَنْ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَسَمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قِسْمَةً فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ لَغَيْرُ هَؤُلَاءِ أَحَقُّ مِنْهُمْ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّهُمْ خَيَّرُونِي بَيْنَ أَنْ يَسْأَلُونِي بِالْفُحْشِ أَوْ يُبَخِّلُونِي فَلَسْتُ بِبَاخِلٍ-
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ چیزیں تقسیم فرمائیں، میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! اس کے زیادہ حقدار تو ان لوگوں کو چھوڑ کر دوسرے لوگ تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا انہوں نے مجھ سے غیر مناسب طریقے سے سوال کرنے یا مجھے بخیل قرار دینے میں مجھے اختیار دے دیا ہے، حالانکہ میں بخیل نہیں ہوں ۔ فائدہ : مطلب یہ ہے کہ اگر میں نے اہل صفہ کو کچھ نہیں دیا تو اپنے پاس کچھ بچا کر نہیں رکھا اور اگر دوسروں کو دیا ہے تو ان کی ضروریات کو سامنے رکھ کر دیا۔
-
حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَنْبَأَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ عَنْ نَافِعٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ سَأَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَلْ يَنَامُ أَحَدُنَا وَهُوَ جُنُبٌ قَالَ نَعَمْ وَيَتَوَضَّأُ وُضُوءَهُ لِلصَّلَاةِ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَنْبَأَنَا مَعْمَرٌ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ نَافِعٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ سَأَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِثْلَهُ-
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا اگر کوئی آدمی اختیاری طور پر ناپاک ہوجائے تو کیا اسی حال میں سو سکتا ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں ! نماز والا وضو کر لے اور سو جائے۔ گذشتہ روایت ایک دوسری سند سے بھی مذکور ہے جو عبارت میں گذر چکی۔
-
حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَنْبَأَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ عَنْ نَافِعٍ قَالَ رَأَى ابْنُ عُمَرَ سَعْدَ بْنَ مَالِكٍ يَمْسَحُ عَلَى خُفَّيْهِ فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ وَإِنَّكُمْ لَتَفْعَلُونَ هَذَا فَقَالَ سَعْدٌ نَعَمْ فَاجْتَمَعَا عِنْدَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَقَالَ سَعْدٌ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ أَفْتِ ابْنَ أَخِي فِي الْمَسْحِ عَلَى الْخُفَّيْنِ فَقَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ كُنَّا وَنَحْنُ مَعَ نَبِيِّنَا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَمْسَحُ عَلَى خِفَافِنَا فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَإِنْ جَاءَ مِنْ الْغَائِطِ وَالْبَوْلِ فَقَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ نَعَمْ وَإِنْ جَاءَ مِنْ الْغَائِطِ وَالْبَوْلِ قَالَ نَافِعٌ فَكَانَ ابْنُ عُمَرَ بَعْدَ ذَلِكَ يَمْسَحُ عَلَيْهِمَا مَا لَمْ يَخْلَعْهُمَا وَمَا يُوَقِّتُ لِذَلِكَ وَقْتًا فَحَدَّثْتُ بِهِ مَعْمَرًا فَقَالَ حَدَّثَنِيهِ أَيُّوبُ عَنْ نَافِعٍ مِثْلَهُ-
ایک مرتبہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت سعد بن مالک رضی اللہ عنہ کو موزوں پر مسح کرتے ہوئے دیکھا تو پوچھا کہ آپ یہ بھی کرتے ہیں؟ انہوں نے کہا ہاں ! پھر وہ دونوں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس اکٹھے ہوئے تو حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے کہا امیرالمومنین! ذرا ہمارے بھتیجے کو موزوں پر مسح کامسئلہ بتادیجئے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ہم ماضی میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اور اب بھی موزوں پر مسح کرتے ہیں، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ اگرچہ کوئی شخص پاخانہ یاپیشاب ہی کر کے آیا ہو؟ فرمایا ہاں! اگرچہ وہ پاخانہ یا پیشاب ہی کر کے آیا ہو، نافع کہتے ہیں کہ اس کے بعد حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ بھی موزوں پر مسح کرنے لگے اور اس وقت تک مسح کرتے رہے جب تک موزے اتار نہ لیتے اور اس کے لیے کسی وقت کی تعیین نہیں فرماتے تھے۔
-
حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَنْبَأَنَا مَعْمَرٌ عَنِ الزُّهْرِيِّ أَخْبَرَنِي مَالِكُ بْنُ أَوْسِ بْنِ الْحَدَثَانِ قَالَ صَرَفْتُ عِنْدَ طَلْحَةَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ وَرِقًا بِذَهَبٍ فَقَالَ أَنْظِرْنِي حَتَّى يَأْتِيَنَا خَازِنُنَا مِنْ الْغَابَةِ قَالَ فَسَمِعَهَا عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَقَالَ لَا وَاللَّهِ لَا تُفَارِقُهُ حَتَّى تَسْتَوْفِيَ مِنْهُ صَرْفَهُ فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ الذَّهَبُ بِالْوَرِقِ رِبًا إِلَّا هَاءَ وَهَاءَ-
حضرت مالک بن اوس بن الحدثان کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ سے سونے کے بدلے چاندی کا معاملہ طے کیا، حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ کہنے لگے کہ ذرا رکیے، ہمارا خازن غابہ سے آتا ہی ہوگا، یہ سن کر حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے فرمایا نہیں ! تم اس وقت تک ان سے جدا نہ ہوناجب تک کہ ان سے اپنی چیز وصول نہ کرلو، کیونکہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ سونے کی چاندی کے بدلے خریدوفروخت سود ہے الا یہ کہ معاملہ نقد ہے ۔
-
حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ عَنِ الزُّهْرِيِّ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ قَالَ لَمَّا ارْتَدَّ أَهْلُ الرِّدَّةِ فِي زَمَانِ أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ عُمَرُ كَيْفَ تُقَاتِلُ النَّاسَ يَا أَبَا بَكْرٍ وَقَدْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّى يَقُولُوا لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ فَإِذَا قَالُوا لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ عَصَمُوا مِنِّي دِمَاءَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ إِلَّا بِحَقِّهَا وَحِسَابُهُمْ عَلَى اللَّهِ فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَاللَّهِ لَأُقَاتِلَنَّ مَنْ فَرَّقَ بَيْنَ الصَّلَاةِ وَالزَّكَاةِ فَإِنَّ الزَّكَاةَ حَقُّ الْمَالِ وَاللَّهِ لَوْ مَنَعُونِي عَنَاقًا كَانُوا يُؤَدُّونَهَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَقَاتَلْتُهُمْ عَلَيْهَا قَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَوَاللَّهِ مَا هُوَ إِلَّا أَنْ رَأَيْتُ أَنَّ اللَّهَ قَدْ شَرَحَ صَدْرَ أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ لِلْقِتَالِ فَعَرَفْتُ أَنَّهُ الْحَقُّ-
عبیداللہ بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں اہل عرب میں سے جو مرتد ہوسکتے تھے، سو ہوگئے تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے عرض کیا کہ آپ ان لوگوں سے کیسے قتال کر سکتے ہیں جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے مجھے لوگوں سے اس وقت تک قتال کا حکم دیا گیاہے جب تک وہ لاالہ الا اللہ نہ کہہ لیں، جو شخص لاالہ الا اللہ کہہ لے، اس نے اپنی جان اور مال کو مجھ سے محفوظ کر لیا، ہاں اگر اسلام کا کوئی حق ہو تو الگ بات ہے، اور اس کا حساب کتاب اللہ کے ذمے ہوگا؟ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے یہ سن کر فرمایا اللہ کی قسم! میں اس شخص سے ضرور قتال کروں گا جو نماز اور زکوۃ کے درمیان فرق کرتے ہیں، کیونکہ زکوۃ مال کا حق ہے، بخدا! اگر انہوں نے ایک بکری کا بچہ جو یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیتے تھے بھی روکا تو میں ان سے قتال کروں گا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں سمجھ گیا، اللہ تعالیٰ نے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو اس معاملے میں شرح صدر کی دولت عطاء فرمادی ہے اور میں سمجھ گیا کہ ان کی رائے ہی برحق ہے۔
-
حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَنْبَأَنَا إِسْرَائِيلُ عَنْ سِمَاكٍ عَنْ عِكْرِمَةَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ قَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ كُنْتُ فِي رَكْبٍ أَسِيرُ فِي غَزَاةٍ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَحَلَفْتُ فَقُلْتُ لَا وَأَبِي فَنَهَرَنِي رَجُلٌ مِنْ خَلْفِي وَقَالَ لَا تَحْلِفُوا بِآبَائِكُمْ فَالْتَفَتُّ فَإِذَا أَنَا بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کسی غزوے میں تھا، ایک موقع پر میں نے قسم کھاتے ہوئے کہا " لا وابی " تو پیچھے سے ایک آدمی نے مجھ سے کہا کہ اپنے آباؤاجداد کے نام کی قسمیں مت کھایا کرو ، میں نے دیکھا تو وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔
-
حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ عَنِ الزُّهْرِيِّ عَنْ سَالِمٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ سَمِعَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا أَحْلِفُ بِأَبِي فَقَالَ إِنَّ اللَّهَ يَنْهَاكُمْ أَنْ تَحْلِفُوا بِآبَائِكُمْ قَالَ عُمَرُ فَوَاللَّهِ مَا حَلَفْتُ بِهَا بَعْدُ ذَاكِرًا وَلَا آثِرًا-
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اپنے باپ کی قسم کھاتے ہوئے سنا تو فرمایا اللہ تعالیٰ نے تمہیں اپنے آباؤاجداد کے نام کی قسمیں کھانے سے منع فرمایا ہے چنانچہ اس کے بعد میں نے جان بوجھ کر یا نقل کے طور پر بھی ایسی قسم نہیں کھائی۔
-
حَدَّثَنَا خَلَفُ بْنُ الْوَلِيدِ حَدَّثَنَا خَالِدٌ عَنْ خَالِدٍ عَنْ أَبِي عُثْمَانَ عَنْ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَخَّصَ فِي الْحَرِيرِ فِي إِصْبَعَيْنِ-
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مردوں کے لئے دو انگلیوں کے برابر ریشم کی اجازت دی ہے۔
-
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا التَّيْمِيُّ عَنْ أَبِي عُثْمَانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ كُنَّا مَعَ عُتْبَةَ بْنِ فَرْقَدٍ فَكَتَبَ إِلَيْهِ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ بِأَشْيَاءَ يُحَدِّثُهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَكَانَ فِيمَا كَتَبَ إِلَيْهِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا يَلْبَسُ الْحَرِيرَ فِي الدُّنْيَا إِلَّا مَنْ لَيْسَ لَهُ فِي الْآخِرَةِ مِنْهُ شَيْءٌ إِلَّا هَكَذَا وَقَالَ بِإِصْبَعَيْهِ السَّبَّابَةِ وَالْوُسْطَى قَالَ أَبُو عُثْمَانَ فَرَأَيْتُ أَنَّهَا أَزْرَارُ الطَّيَالِسَةِ حِينَ رَأَيْنَا الطَّيَالِسَةَ-
ابوعثمان کہتے ہیں کہ ہم حضرت عتبہ بن فرقد رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا ایک خط آگیا، جس میں لکھا تھا، جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص دنیا میں ریشمی لباس پہنتا ہے سوائے اتنی مقدار کے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انگلی بلند کر کے دکھائی، اس کا آخرت میں ریشم کے حوالے سے کوئی حصہ نہیں ۔
-
حَدَّثَنَا يَحْيَى عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي عَمَّارٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بَابَيْهِ عَنْ يَعْلَى بْنِ أُمَيَّةَ قَالَ قُلْتُ لِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ إِقْصَارُ النَّاسِ الصَّلَاةَ الْيَوْمَ وَإِنَّمَا قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ إِنْ خِفْتُمْ أَنْ يَفْتِنَكُمْ الَّذِينَ كَفَرُوا فَقَدْ ذَهَبَ ذَاكَ الْيَوْمَ فَقَالَ عَجِبْتُ مِمَّا عَجِبْتَ مِنْهُ فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ صَدَقَةٌ تَصَدَّقَ اللَّهُ بِهَا عَلَيْكُمْ فَاقْبَلُوا صَدَقَتَهُ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَنْبَأَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ سَمِعْتُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي عَمَّارٍ يُحَدِّثُ فَذَكَرَهُ-
یعلی بن امیہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ قرآن کریم میں قصر کا جو حکم خوف کی حالت میں آیا ہے، اب تو ہرطرف امن وامان ہو گیا ہے تو کیا یہ حکم ختم ہو گیا؟ (اگر ایسا ہے تو پھر قرآن میں اب تک یہ آیت کیوں موجود ہے؟) تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ مجھے بھی اسی طرح تعجب ہوا تھا جس طرح تمہیں ہوا ہے اور میں نے بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق دریافت کیا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا یہ اللہ کی طرف سے صدقہ ہے جو اس نے اپنے بندوں پر کیا ہے، لہٰذا اس کے صدقے اور مہربانی کو قبول کرو۔ گذشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مذکور ہے۔
-
حَدَّثَنَا يَحْيَى عَنِ ابْنِ أَبِي عَرُوبَةَ حَدَّثَنَا قَتَادَةُ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ قَالَ قَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ إِنَّ آخِرَ مَا نَزَلَ مِنْ الْقُرْآنِ آيَةُ الرِّبَا وَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُبِضَ وَلَمْ يُفَسِّرْهَا فَدَعُوا الرِّبَا وَالرِّيبَةَ-
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ قرآن کریم میں سب سے آخری آیت سود سے متعلق نازل ہوئی ہے، اس لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے وصال مبارک سے قبل اس کی مکمل وضاحت کا موقع نہیں مل سکا، اس لئے سود کو بھی چھوڑ دو اور جس چیز میں ذرا بھی شک ہو اسے بھی چھوڑ دو۔
-
حَدَّثَنَا يَحْيَى حَدَّثَنَا شُعْبَةُ حَدَّثَنَا قَتَادَةُ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ عَنِ ابْنِ عُمَرَ عَنْ عُمَرَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ الْمَيِّتُ يُعَذَّبُ فِي قَبْرِهِ بِالنِّيَاحَةِ عَلَيْهِ-
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا میت کو اس کی قبر میں اس پر ہونے والے نوحے کی وجہ سے عذاب ہوتا ہے۔
-
حَدَّثَنَا يَحْيَى عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ أَخْبَرَنِي نَافِعٌ عَنِ ابْنِ عُمَرَ عَنْ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ يُعَذَّبُ الْمَيِّتُ بِبُكَاءِ أَهْلِهِ عَلَيْهِ-
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا میت کو اس کی قبر میں اس پر اس کے اہل خانہ کے رونے کی وجہ سے عذاب ہوتا ہے۔
-
حَدَّثَنَا يَحْيَى عَنْ يَحْيَى قَالَ سَمِعْتُ سَعِيدَ بْنَ الْمُسَيَّبِ أَنَّ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ إِيَّاكُمْ أَنْ تَهْلِكُوا عَنْ آيَةِ الرَّجْمِ لَا نَجِدُ حَدَّيْنِ فِي كِتَابِ اللَّهِ فَقَدْ رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ رَجَمَ وَقَدْ رَجَمْنَا-
حضرت سعید بن مسیب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ آیت رجم کے حوالے سے اپنے آپ کو ہلاکت میں پڑنے سے بچانا، کہیں کوئی شخص یہ نہ کہنے لگے کہ کتاب اللہ میں تو ہمیں دوسزاؤں کا تذکرہ نہیں ملتا، میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی رجم کی سزاء جاری کرتے ہوئے دیکھا ہے اور خود ہم نے بھی یہ سزاجاری کی ہے۔
-
حَدَّثَنَا يَحْيَى حَدَّثَنَا حُمَيْدٌ عَنْ أَنَسٍ قَالَ قَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَافَقْتُ رَبِّي فِي ثَلَاثٍ وَوَافَقَنِي رَبِّي فِي ثَلَاثٍ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ لَوْ اتَّخَذْتَ مِنْ مَقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى فَأَنْزَلَ اللَّهُ وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّهُ يَدْخُلُ عَلَيْكَ الْبَرُّ وَالْفَاجِرُ فَلَوْ أَمَرْتَ أُمَّهَاتِ الْمُؤْمِنِينَ بِالْحِجَابِ فَأَنْزَلَ اللَّهُ آيَةَ الْحِجَابِ وَبَلَغَنِي مُعَاتَبَةُ النَّبِيِّ عَلَيْهِ السَّلَام بَعْضَ نِسَائِهِ قَالَ فَاسْتَقْرَيْتُ أُمَّهَاتِ الْمُؤْمِنِينَ فَدَخَلْتُ عَلَيْهِنَّ فَجَعَلْتُ أَسْتَقْرِيهِنَّ وَاحِدَةً وَاحِدَةً وَاللَّهِ لَئِنْ انْتَهَيْتُنَّ وَإِلَّا لَيُبَدِّلَنَّ اللَّهُ رَسُولَهُ خَيْرًا مِنْكُنَّ قَالَ فَأَتَيْتُ عَلَى بَعْضِ نِسَائِهِ قَالَتْ يَا عُمَرُ أَمَا فِي رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا يَعِظُ نِسَاءَهُ حَتَّى تَكُونَ أَنْتَ تَعِظُهُنَّ فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ عَسَى رَبُّهُ إِنْ طَلَّقَكُنَّ أَنْ يُبْدِلَهُ أَزْوَاجًا خَيْرًا مِنْكُنَّ-
حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے تین باتوں میں اپنے رب کی موافقت کی ہے۔ ایک مرتبہ میں نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا یا رسول اللہ! کاش! ہم مقام ابراہیم کو مصلی بنا لیتے، اس پر یہ آیت نازل ہوگئی کہ مقام ابراہیم کو مصلی بنالو۔ (٢) ایک مرتبہ میں نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا یا رسول اللہ! آپ کے پاس نیک اور بد ہر طرح کے لوگ آتے ہیں، اگر آپ امہات المومنین کو پردے کا حکم دے دیں توبہتر ہے؟ اس پر اللہ نے آیت حجاب نازل فرمادی۔ (٣) ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعض ازواج مطہرات سے ناراضگی کا مجھے پتہ چلا، میں ان میں سے ہر ایک کے پاس فردا فردا گیا اور ان سے کہا کہ تم لوگ باز آجاؤ ورنہ ہو سکتا ہے ان کا رب انہیں تم سے بہتر بیویاں عطاء کردے، حتیٰ کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک زوجہ محترمہ کے پاس گیا تو وہ کہنے لگیں عمر! کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نصیحت کرنے کے لیے کافی نہیں ہیں جو تم ان کی بیویوں کو نصیحت کرنے آگئے ہو؟ اس پر اللہ تعالیٰ نے ان ہی الفاظ کے ساتھ قرآن کریم کی آیت نازل فرما دی۔
-
حَدَّثَنَا يَحْيَى عَنْ شُعْبَةَ حَدَّثَنِي أَبُو ذِبْيَانَ سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ الزُّبَيْرِ يَقُولُ لَا تُلْبِسُوا نِسَاءَكُمْ الْحَرِيرَ فَإِنِّي سَمِعْتُ عُمَرَ يُحَدِّثُ يَقُولُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ مَنْ لَبِسَ الْحَرِيرَ فِي الدُّنْيَا لَمْ يَلْبَسْهُ فِي الْآخِرَةِ و قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الزُّبَيْرِ مِنْ عِنْدِهِ وَمَنْ لَمْ يَلْبَسْهُ فِي الْآخِرَةِ لَمْ يَدْخُلْ الْجَنَّةَ قَالَ اللَّهُ تَعَالَى وَلِبَاسُهُمْ فِيهَا حَرِيرٌ-
حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ فرماتے تھے کہ اپنی عورتوں کو بھی ریشمی کپڑے مت پہنایا کرو کیونکہ میں نے حضرت عمر رضی اللہ کو یہ حدیث بیان کرتے ہوئے سنا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص دنیا میں ریشم پہنتا ہے، وہ آخرت میں اسے نہیں پہن سکے گا، اس کے بعد حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے اپنے اجتہاد سے فرمایا کہ جو آخرت میں بھی ریشم نہ پہن سکے وہ جنت میں ہی داخل نہ ہوگا، کیونکہ قرآن میں آتا ہے کہ اہل جنت کالباس ریشم کا ہوگا۔ فائدہ : یہ حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کا اپنا اجتہاد تھا، جمہور علماء کی رائے یہ ہے کہ ریشمی کپڑے کی ممانعت مرد کے لیے ہے، عورت کے لیے نہیں ۔
-
حَدَّثَنَا يَحْيَى عَنْ إِسْمَاعِيلَ حَدَّثَنَا عَامِرٌ و حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبِي خَالِدٍ عَنْ رَجُلٍ عَنِ الشَّعْبِيِّ قَالَ مَرَّ عُمَرُ بِطَلْحَةَ فَذَكَرَ مَعْنَاهُ قَالَ مَرَّ عُمَرُ بِطَلْحَةَ فَرَآهُ مُهْتَمًّا قَالَ لَعَلَّكَ سَاءَكَ إِمَارَةُ ابْنِ عَمِّكَ قَالَ يَعْنِي أَبَا بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَقَالَ لَا وَلَكِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ إِنِّي لَأَعْلَمُ كَلِمَةً لَا يَقُولُهَا الرَّجُلُ عِنْدَ مَوْتِهِ إِلَّا كَانَتْ نُورًا فِي صَحِيفَتِهِ أَوْ وَجَدَ لَهَا رَوْحًا عِنْدَ الْمَوْتِ قَالَ عُمَرُ أَنَا أُخْبِرُكَ بِهَا هِيَ الْكَلِمَةُ الَّتِي أَرَادَ بِهَا عَمَّهُ شَهَادَةُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ قَالَ فَكَأَنَّمَا كُشِفَ عَنِّي غِطَاءٌ قَالَ صَدَقْتَ لَوْ عَلِمَ كَلِمَةً هِيَ أَفْضَلُ مِنْهَا لَأَمَرَهُ بِهَا-
امام شعبی رحمۃ اللہ علیہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ کے پاس سے گذرے تو انہیں پریشان حال دیکھا، وہ کہنے لگے کہ شاید آپ کو اپنے چچازاد بھائی کی یعنی میری خلافت اچھی نہیں لگی؟ انہوں نے فرمایا اللہ کی پناہ! مجھے تو کسی صورت ایسا نہیں کرنا چاہیے، اصل بات یہ ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ میں ایک ایسا کلمہ جانتا ہوں کہ اگر کوئی شخص نزع کی حالت میں وہ کلمہ کہہ لے تواسکے لیے روح نکلنے میں سہولت پیدا ہوجائے اور قیامت کے دن وہ اس کے لیے باعث نور ہو، (مجھے افسوس ہے کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کلمے کے بارے میں پوچھ نہیں سکا، اور خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی نہیں بتایا، میں اس وجہ سے پریشان ہوں ) ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں وہ کلمہ جانتاہوں ، (حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے الحمدللہ کہہ کر پوچھا کہ وہ کیا کلمہ ہے؟) فرمایا وہی کلمہ جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچا کے سامنے پیش کیا تھا یعنی لاالہ الا اللہ حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ فرمانے لگے کہ آپ نے سچ فرمایا، آپ نے میرے اوپر سے پردہ ہٹا دیا، اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس سے افضل بھی کوئی کلمہ جانتے ہوتے تو اپنے چچا کو اسکا حکم دیتے۔
-
حَدَّثَنَا يَحْيَى عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ حَدَّثَنِي سُلَيْمَانُ بْنُ عَتِيقٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بَابَيْهِ عَنْ يَعْلَى بْنِ أُمَيَّةَ قَالَ طُفْتُ مَعَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَلَمَّا كُنْتُ عِنْدَ الرُّكْنِ الَّذِي يَلِي الْبَابَ مِمَّا يَلِي الْحَجَرَ أَخَذْتُ بِيَدِهِ لِيَسْتَلِمَ فَقَالَ أَمَا طُفْتَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُلْتُ بَلَى قَالَ فَهَلْ رَأَيْتَهُ يَسْتَلِمُهُ قُلْتُ لَا قَالَ فَانْفُذْ عَنْكَ فَإِنَّ لَكَ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةً حَسَنَةً-
حضرت یعلی بن امیہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے ساتھ طواف کیا، جب میں رکن یمانی پر پہنچا تو میں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ لیا تاکہ وہ استلام کرلیں، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کیا آپ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کبھی طواف نہیں کیا؟ میں نے عرض کیا کیوں نہیں ! فرمایا تو کیا آپ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا استلام کرتے ہوئے دیکھا ہے؟ میں نے کہا نہیں! فرمایا پھر اسے چھوڑ دو، کیونکہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں تمہارے لیے اسوہ حسنہ موجود ہے ۔
-
حَدَّثَنَا يَحْيَى عَنِ الْأَعْمَشِ حَدَّثَنَا شَقِيقٌ حَدَّثَنِي الصُّبَيُّ بْنُ مَعْبَدٍ وَكَانَ رَجُلًا مِنْ بَنِي تَغْلِبَ قَالَ كُنْتُ نَصْرَانِيًّا فَأَسْلَمْتُ فَاجْتَهَدْتُ فَلَمْ آلُ فَأَهْلَلْتُ بِحَجَّةٍ وَعُمْرَةٍ فَمَرَرْتُ بِالْعُذَيْبِ عَلَى سَلْمَانَ بْنِ رَبِيعَةَ وَزَيْدِ بْنِ صُوحَانَ فَقَالَ أَحَدُهُمَا أَبِهِمَا جَمِيعًا فَقَالَ لَهُ صَاحِبُهُ دَعْهُ فَلَهُوَ أَضَلُّ مِنْ بَعِيرِهِ قَالَ فَكَأَنَّمَا بَعِيرِي عَلَى عُنُقِي فَأَتَيْتُ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لَهُ فَقَالَ لِي عُمَرُ إِنَّهُمَا لَمْ يَقُولَا شَيْئًا هُدِيتَ لِسُنَّةِ نَبِيِّكَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-
حضرت ابووائل کہتے ہیں کہ صبی بن معبد قبیلہ بنو تغلب کے آدمی تھے وہ کہتے ہیں کہ میں نے اسلام قبول کرلیا، اور محنت کرنے میں کوئی کمی نہ کی۔ پھر میں نے میقات پر پہنچ کر حج اور عمرہ دونوں کا احرام باندھ لیا، زید بن صوحان اور سلمان بن ربیعہ کے پاس سے مقام عذیب میں میرا گذر ہوا تو ان میں سے ایک نے دوسرے سے کہا کہ یہ شخص اپنے اونٹ سے بھی زیادہ گمراہ ہے، صبی کہتے ہیں کہ اس جملے سے مجھے یوں محسوس ہوا کہ میرا اونٹ میری گردن پر ہے، میں جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا تو زید اور سلمان نے جو کہا تھا، اس کے متعلق ان کی خدمت میں عرض کیا، حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ان کی بات کا کوئی اعتبار نہیں، آپ کو اپنے پیغمبر کی سنت پر رہنمائی نصیب ہو گئی۔
-
حَدَّثَنَا يَحْيَى عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ حَدَّثَنِي نَافِعٌ عَنِ ابْنِ عُمَرَ عَنْ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّهُ قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي نَذَرْتُ فِي الْجَاهِلِيَّةِ أَنْ أَعْتَكِفَ فِي الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ لَيْلَةً فَقَالَ لَهُ فَأَوْفِ بِنَذْرِكَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَنْبَأَنَا سُفْيَانُ عَنْ مَنْصُورٍ عَنْ أَبِي وَائِلٍ عَنْ صُبَيِّ بْنِ مَعْبَدٍ التَّغْلِبِيِّ قَالَ كُنْتُ حَدِيثَ عَهْدٍ بِنَصْرَانِيَّةٍ فَأَرَدْتُ الْجِهَادَ أَوْ الْحَجَّ فَأَتَيْتُ رَجُلًا مِنْ قَوْمِي يُقَالُ لَهُ هُدَيْمٌ فَسَأَلْتُهُ فَأَمَرَنِي بِالْحَجِّ فَقَرَنْتُ بَيْنَ الْحَجِّ وَالْعُمْرَةِ فَذَكَرَهُ-
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے بارگاہ رسالت میں ذکر کیا یا رسول اللہ! میں نے زمانہ جاہلیت میں یہ منت مانی تھی کہ مسجدحرام میں ایک رات کا اعتکاف کروں گا، اب کیا کروں؟ فرمایا اپنی منت پوری کرو۔ صبی بن معبد کہتے ہیں کہ میں نے نیانیا عیسائیت کو خیرباد کہا تھا، میں نے ارادہ کیا کہ جہاد یا حج پر روانہ ہوجاؤں، چنانچہ میں نے اپنے ایک ہم قوم سے جس کا نام ہدیم تھا مشورہ کیا تو اس نے مجھے حج کرنے کو کہا، میں نے حج اور عمرہ دونوں کی نیت کرلی، اس کے بعد انہوں نے پوری حدیث ذکر کی۔
-
حَدَّثَنَا وَكِيعٌ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ زُبَيْدٍ الْإِيَامِيِّ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى عَنْ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ صَلَاةُ السَّفَرِ رَكْعَتَانِ وَصَلَاةُ الْأَضْحَى رَكْعَتَانِ وَصَلَاةُ الْفِطْرِ رَكْعَتَانِ وَصَلَاةُ الْجُمُعَةِ رَكْعَتَانِ تَمَامٌ غَيْرُ قَصْرٍ عَلَى لِسَانِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ سُفْيَانُ وَقَالَ زُبَيْدٌ مَرَّةً أُرَاهُ عَنْ عُمَرَ قَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ عَلَى غَيْرِ وَجْهِ الشَّكِّ و قَالَ يَزِيدُ يَعْنِي ابْنَ هَارُونَ ابْنُ أَبِي لَيْلَى قَالَ سَمِعْتُ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ-
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ سفر کی نماز میں دو رکعتیں ہیں ، عیدین میں سے ہر ایک کی دو دو رکعتیں ، اور جمعہ کی بھی دو رکعتیں ہیں ، اور یہ ساری نمازیں مکمل ہیں ، ان میں سے قصر کوئی بھی نہٰیں ہے جیساکہ لسان نبوت سے ادا ہوچکا۔
-
حَدَّثَنَا وَكِيعٌ حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّهُ وَجَدَ فَرَسًا كَانَ حَمَلَ عَلَيْهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ تُبَاعُ فِي السُّوقِ فَأَرَادَ أَنْ يَشْتَرِيَهَا فَسَأَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَنَهَاهُ وَقَالَ لَا تَعُودَنَّ فِي صَدَقَتِكَ-
اسلم رحمۃ اللہ علیہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فی سبیل اللہ کسی شخص کو سواری کے لئے گھوڑا دے دیا، بعد میں دیکھا کہ وہی گھوڑا بازار میں بک رہا ہے، انہوں نے سوچا کہ اسے خرید لیتا ہوں ، چنانچہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مشورہ کیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اس سے منع کردیا اور فرمایا کہ اسے مت خریدو اور اپنے صدقے سے رجوع مت کرو،
-
حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنِ ابْنِ أَبِي خَالِدٍ عَنْ قَيْسٍ قَالَ رَأَيْتُ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَبِيَدِهِ عَسِيبُ نَخْلٍ وَهُوَ يُجْلِسُ النَّاسَ يَقُولُ اسْمَعُوا لِقَوْلِ خَلِيفَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَجَاءَ مَوْلًى لِأَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يُقَالُ لَهُ شَدِيدٌ بِصَحِيفَةٍ فَقَرَأَهَا عَلَى النَّاسِ فَقَالَ يَقُولُ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ اسْمَعُوا وَأَطِيعُوا لِمَا فِي هَذِهِ الصَّحِيفَةِ فَوَاللَّهِ مَا أَلَوْتُكُمْ قَالَ قَيْسٌ فَرَأَيْتُ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ بَعْدَ ذَلِكَ عَلَى الْمِنْبَرِ-
قیس کہتے ہیں کہ میں نے عمر فاروق رضی اللہ کو ایک مرتبہ اس حال میں دیکھا کہ ان کے ہاتھ میں کھجور کی ایک شاخ تھی اور وہ لوگوں کو بٹھا رہے تھے، اور کہہ رہے تھے کہ خلیفہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات توجہ سے سنو، اتنی دیر میں حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا آزاد کردہ غلام جس کا نام شدید تھا ایک کاغذ لے کر آگیا، اور اس نے لوگوں کو وہ پڑھ کر سنایا کہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اس کاغذ میں جس شخص کا نام درج ہے (وہ میرے بعد خلیفہ ہوگا اس لیے) تم اس کی بات سننا اور اس کی اطاعت کرنا، بخدا! میں نے اس سلسلے میں مکمل احتیاط اور کوشش کر لی ہے، قیس کہتے ہیں کہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے انتقال کے بعد میں نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو منبر پر جلوہ افروز دیکھا (جس کا مطلب یہ تھا کہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے اس کاغذ میں ان ہی کا نام لکھوایا تھا )
-
حَدَّثَنَا مُؤَمَّلٌ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ سَلَمَةَ عَنْ عِمْرَانَ السُّلَمِيِّ قَالَ سَأَلْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا عَنْ النَّبِيذِ فَقَالَ نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ نَبِيذِ الْجَرِّ وَالدُّبَّاءِ فَلَقِيتُ ابْنَ عُمَرَ فَسَأَلْتُهُ فَأَخْبَرَنِي فِيمَا أَظُنُّ عَنْ عُمَرَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْ نَبِيذِ الْجَرِّ وَالدُّبَّاءِ شَكَّ سُفْيَانُ قَالَ فَلَقِيتُ ابْنَ الزُّبَيْرِ فَسَأَلْتُهُ فَقَالَ نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ نَبِيذِ الْجَرِّ وَالدُّبَّاءِ-
عمران اسلمی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مٹکے کی نبیذ کے متعلق سوال کیا تو انہوں نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مٹکے کی نبیذ اور کدو کی سے ہی تو منع فرمایا ہے۔ پھر میں نے یہی سوال حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے کیا تو انہوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہما کے حوالے سے یہ حدیث سنائی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کدو کی نبیذ اور سبز مٹکے سے منع فرمایا ہے، پھر میں نے یہی سوال حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے کیا تو انہوں نے بھی یہی فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مٹکے اور کدو کی نبیذ سے منع فرمایا ہے۔
-
حَدَّثَنَا أَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ عَنْ أَبِي سِنَانٍ عَنْ عُبَيْدِ بْنِ آدَمَ وَأَبِي مَرْيَمَ وَأَبِي شُعَيْبٍ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ كَانَ بِالْجَابِيَةِ فَذَكَرَ فَتْحَ بَيْتِ الْمَقْدِسِ قَالَ فَقَالَ أَبُو سَلَمَةَ فَحَدَّثَنِي أَبُو سِنَانٍ عَنْ عُبَيْدِ بْنِ آدَمَ قَالَ سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَقُولُ لِكَعْبٍ أَيْنَ تُرَى أَنْ أُصَلِّيَ فَقَالَ إِنْ أَخَذْتَ عَنِّي صَلَّيْتَ خَلْفَ الصَّخْرَةِ فَكَانَتْ الْقُدْسُ كُلُّهَا بَيْنَ يَدَيْكَ فَقَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ضَاهَيْتَ الْيَهُودِيَّةَ لَا وَلَكِنْ أُصَلِّي حَيْثُ صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَتَقَدَّمَ إِلَى الْقِبْلَةِ فَصَلَّى ثُمَّ جَاءَ فَبَسَطَ رِدَاءَهُ فَكَنَسَ الْكُنَاسَةَ فِي رِدَائِهِ وَكَنَسَ النَّاسُ-
فتح بیت المقدس کے واقعے میں مختلف رواۃ ذکر کرتے ہیں کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے کعب احبار سے پوچھا کہ آپ کی رائے میں مجھے کہاں نماز پڑھنی چاہیے؟ انہوں نے کہا کہ اگر آپ میری رائے پر عمل کرنا چاہتے ہیں تو صخرہ کے پیچھے نماز پڑھیں، اس طرح پورا بیت المقدس آپ کے سامنے ہوگا، فرمایا تم نے بھی یہودیوں جیسی بات کہی، ایسا نہیں ہوسکتا، میں اس مقام پر نماز پڑھوں گا جہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے شب معراج نماز پڑھی تھی، چنانچہ انہوں نے قبلہ کی طرف بڑھ کر نماز پڑھی، پھر نماز کے بعد اپنی چادر بچھائی اور اپنی چادر میں وہاں کا سارا کوڑا کر کٹ اکٹھا کیا ، لوگوں نے بھی ان کی پیروی کی۔
-
حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ حَدَّثَنَا مَالِكٌ يَعْنِي ابْنَ مِغْوَلٍ قَالَ سَمِعْتُ الْفُضَيْلَ بْنَ عَمْرٍو عَنْ إِبْرَاهِيمَ النَّخَعِيِّ عَنْ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ الْكَلَالَةِ فَقَالَ تَكْفِيكَ آيَةُ الصَّيْفِ فَقَالَ لَأَنْ أَكُونَ سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْهَا أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ يَكُونَ لِي حُمْرُ النَّعَمِ-
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کلالہ کے متعلق سوال کیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہارے لیے موسم گرما میں نازل ہونے والی آیت کلالہ کافی ہے، مجھے اس مسئلے کے متعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کرنا سرخ اونٹوں کے ملنے سے زیادہ پسندیدہ تھا۔
-
حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ عَنْ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّهُ أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ إِنَّهُ تُصِيبُنِي الْجَنَابَةُ فَأَمَرَهُ أَنْ يَغْسِلَ ذَكَرَهُ وَيَتَوَضَّأَ وُضُوءَهُ لِلصَّلَاةِ-
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ انہوں نے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا اگر میں ناپاک ہوجاؤں تو کیا کروں ؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا کہ شرمگاہ کو دھوکر نماز والا وضو کر کے سوجاؤ۔
-
حَدَّثَنَا عَفَّانُ حَدَّثَنَا هَمَّامٌ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ قَزَعَةَ قَالَ قُلْتُ لِابْنِ عُمَرَ يُعَذِّبُ اللَّهُ هَذَا الْمَيِّتَ بِبُكَاءِ هَذَا الْحَيِّ فَقَالَ حَدَّثَنِي عُمَرُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا كَذَبْتُ عَلَى عُمَرَ وَلَا كَذَبَ عُمَرُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-
قزعہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ اللہ تعالیٰ میت کو اہل محلہ کے رونے دھونے کی وجہ سے عذاب میں مبتلا کریں گے؟ فرمایا کہ یہ بات مجھ سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے بیان کی ہے، میں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی طرف اس کی جھوٹی نسبت کی ہے اور نہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف۔
-
حَدَّثَنَا عَفَّانُ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ زِيَادٍ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ عَنْ عَلْقَمَةَ عَنْ الْقَرْثَعِ عَنِ قَيْسٍ أَوْ ابْنِ قَيْسٍ رَجُلٍ مِنْ جُعْفِيٍّ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ قَالَ مَرَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا مَعَهُ وَأَبُو بَكْرٍ عَلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ وَهُوَ يَقْرَأُ فَقَامَ فَسَمِعَ قِرَاءَتَهُ ثُمَّ رَكَعَ عَبْدُ اللَّهِ وَسَجَدَ قَالَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَلْ تُعْطَهْ سَلْ تُعْطَهْ قَالَ ثُمَّ مَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَالَ مَنْ سَرَّهُ أَنْ يَقْرَأَ الْقُرْآنَ غَضًّا كَمَا أُنْزِلَ فَلْيَقْرَأْهُ مِنْ ابْنِ أُمِّ عَبْدٍ قَالَ فَأَدْلَجْتُ إِلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ لِأُبَشِّرَهُ بِمَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فَلَمَّا ضَرَبْتُ الْبَابَ أَوْ قَالَ لَمَّا سَمِعَ صَوْتِي قَالَ مَا جَاءَ بِكَ هَذِهِ السَّاعَةَ قُلْتُ جِئْتُ لِأُبَشِّرَكَ بِمَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ قَدْ سَبَقَكَ أَبُو بَكْرٍ قُلْتُ إِنْ يَفْعَلْ فَإِنَّهُ سَبَّاقٌ بِالْخَيْرَاتِ مَا اسْتَبَقْنَا خَيْرًا قَطُّ إِلَّا سَبَقَنَا إِلَيْهَا أَبُو بَكْرٍ-
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا گذر حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس سے ہوا، میں بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھا، ابن مسعود رضی اللہ عنہ اس وقت قرآن پڑھ رہے تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کی قرات سننے کے لیے کھڑے ہوگئے۔ پھر عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے رکوع سجدہ کیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مانگو تمہیں دیا جائے گا، پھر واپس جاتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ جو شخص قرآن کریم کو اسی طرح تروتازہ پڑھنا چاہے جیسے وہ نازل ہوا ہے، اسے چاہیے کہ وہ ابن ام عبد کی قرات پر اسے پڑھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے دل میں سوچا کہ رات ہی کو میں انہیں یہ خوشخبری ضرور سناؤں گا، چنانچہ جب میں نے ان کا دروازہ بجایا تو انہوں نے فرمایا کہ رات کے اس وقت میں خیر تو ہے؟ میں نے کہا کہ میں آپ کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے خوشخبری سنانے کے لیے آیا ہوں ، انہوں نے فرمایا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ آپ پر سبقت لے گئے ہیں، میں نے کہا اگر انہوں نے ایسا کیا ہے تو وہ نیکیوں میں بہت زیادہ آگے بڑھنے والے ہیں، میں نے جس معاملے میں بھی ان سے مسابقت کی کوشش کی، وہ ہر اس معاملے میں مجھ سے سبقت لے گئے۔
-
حَدَّثَنَا عَفَّانُ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ عَنْ سَعِيدٍ الْجُرَيْرِيِّ عَنْ أَبِي نَضْرَةَ عَنْ أُسَيْرِ بْنِ جَابِرٍ قَالَ لَمَّا أَقْبَلَ أَهْلُ الْيَمَنِ جَعَلَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَسْتَقْرِي الرِّفَاقَ فَيَقُولُ هَلْ فِيكُمْ أَحَدٌ مِنْ قَرَنٍ حَتَّى أَتَى عَلَى قَرَنٍ فَقَالَ مَنْ أَنْتُمْ قَالُوا قَرَنٌ فَوَقَعَ زِمَامُ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَوْ زِمَامُ أُوَيْسٍ فَنَاوَلَهُ أَحَدُهُمَا الْآخَرَ فَعَرَفَهُ فَقَالَ عُمَرُ مَا اسْمُكَ قَالَ أَنَا أُوَيْسٌ فَقَالَ هَلْ لَكَ وَالِدَةٌ قَالَ نَعَمْ قَالَ فَهَلْ كَانَ بِكَ مِنْ الْبَيَاضِ شَيْءٌ قَالَ نَعَمْ فَدَعَوْتُ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ فَأَذْهَبَهُ عَنِّي إِلَّا مَوْضِعَ الدِّرْهَمِ مِنْ سُرَّتِي لِأَذْكُرَ بِهِ رَبِّي قَالَ لَهُ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ اسْتَغْفِرْ لِي قَالَ أَنْتَ أَحَقُّ أَنْ تَسْتَغْفِرَ لِي أَنْتَ صَاحِبُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ إِنَّ خَيْرَ التَّابِعِينَ رَجُلٌ يُقَالُ لَهُ أُوَيْسٌ وَلَهُ وَالِدَةٌ وَكَانَ بِهِ بَيَاضٌ فَدَعَا اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ فَأَذْهَبَهُ عَنْهُ إِلَّا مَوْضِعَ الدِّرْهَمِ فِي سُرَّتِهِ فَاسْتَغْفَرَ لَهُ ثُمَّ دَخَلَ فِي غِمَارِ النَّاسِ فَلَمْ يُدْرَ أَيْنَ وَقَعَ قَالَ فَقَدِمَ الْكُوفَةَ قَالَ وَكُنَّا نَجْتَمِعُ فِي حَلْقَةٍ فَنَذْكُرُ اللَّهَ وَكَانَ يَجْلِسُ مَعَنَا فَكَانَ إِذَا ذَكَرَ هُوَ وَقَعَ حَدِيثُهُ مِنْ قُلُوبِنَا مَوْقِعًا لَا يَقَعُ حَدِيثُ غَيْرِهِ فَذَكَرَ الْحَدِيثَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ أَبِي الشَّوَارِبِ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ زِيَادٍ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ عَنْ إِبْرَاهِيمَ عَنِ الْقَرْثَعِ عَنْ قَيْسٍ أَوْ ابْنِ قَيْسٍ رَجُلٍ مِنْ جُعْفِيٍّ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَذَكَرَ نَحْوَ حَدِيثِ عَفَّانَ-
اسیر بن جابر کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ اہل یمن کا وفد آیا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ اپنی اونٹنی کی رسی تلاش کرتے جاتے تھے اور پوچھتے جاتے تھے کہ کیا تم میں سے کوئی قرن سے بھی آیا ہے، یہاں تک کہ وہ پوچھتے پوچھتے قرن کے لوگوں کے پاس آپہنچے اور ان سے پوچھا کہ تم لوگ کون ہو؟ انہوں نے بتایا کہ ہمارا تعلق قرن سے ہے، اتنے میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی یا حضرت اویس قرنی رحمۃ اللہ علیہ کے ہاتھ سے جانوروں کی لگام چھوٹ کر گر پڑی، ان میں سے ایک نے دوسرے کو اٹھا کر وہ لگام دی تو ایک دوسرے کو پہچان لیا۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ان سے پوچھا کہ آپ کا اسم گرامی کیا ہے؟ عرض کیا اویس! فرمایا کیا آپ کی کوئی والدہ بھی تھیں؟ عرض کیا جی ہاں ! فرمایا کیا آپ کے جسم پر چیچک کا بھی کوئی نشان ہے؟ عرض کیا جی ہاں! لیکن میں نے اللہ سے دعاء کی تو اللہ نے اسے ختم کردیا، اب وہ نشان میری ناف کے پاس صرف ایک درہم کے برابر رہ گیا ہے تاکہ اسے دیکھ کر مجھے اپنے رب کی یاد آتی رہے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ آپ اللہ سے میرے لیے بخشش کی دعاء کیجئے، انہوں نے عرض کیا کہ آپ صحابی رسول ہیں، آپ میرے حق میں بخشش کی دعاء کیجئے، اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ خیرالتابعین اویس نامی ایک آدمی ہوگا، جس کی والدہ بھی ہوگی اور اس کے جسم پر چیچک کے نشانات ہوں گے، پھر جب وہ اللہ سے دعاء کرے گا تو ناف کے پاس ایک درہم کے برابر جگہ کو چھوڑ کر اللہ تعالیٰ اس بیماری کو اس سے دور فرما دیں گے، حضرت اویس قرنی رحمۃ اللہ علیہ نے سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے لئے بخشش کی دعاء کی اور لوگوں کے ہجوم میں گھس کر غائب ہو گئے، کسی کو پتہ نہ چل سکا کہ وہ کہاں چلے گئے۔ بعد میں وہ کوفہ آگئے تھے، راوی کہتے ہیں کہ ہم ان کے ساتھ ایک حلقہ بنا کر ذکر کیا کرتے تھے، یہ بھی ہمارے ساتھ بیٹھتے تھے، جب یہ ذکر کرتے تھے تو ان کی بات ہمارے دلوں پر اتنا اثر کرتی تھی کہ کسی دوسرے کی بات اتنااثر نہیں کرتی تھی۔ گذشتہ حدیث ایک دوسری سند سے بھی روایت کی گئی ہے جو عبارت میں موجود ہے ۔
-
حَدَّثَنَا عَفَّانُ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ حَدَّثَنَا ثَابِتٌ عَنْ أَنَسٍ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ لَمَّا عَوَّلَتْ عَلَيْهِ حَفْصَةُ فَقَالَ يَا حَفْصَةُ أَمَا سَمِعْتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ الْمُعَوَّلُ عَلَيْهِ يُعَذَّبُ قَالَ وَعَوَّلَ صُهَيْبٌ فَقَالَ عُمَرُ يَا صُهَيْبُ أَمَا عَلِمْتَ أَنَّ الْمُعَوَّلَ عَلَيْهِ يُعَذَّبُ-
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کا آخری وقت قریب آیا تو حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا رونے اور چیخنے لگیں، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا حفصہ! کیا تم نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے نہیں سنا کہ جس پر چیخ کر رویا جاتا ہے، اسے عذاب ہوتا ہے؟ اس کے بعد حضرت صہیب رضی اللہ عنہ پر بھی ایسی ہی کیفیت طاری ہوئی تو ان سے بھی یہی فرمایا۔
-
حَدَّثَنَا عَفَّانُ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ حَدَّثَنَا يَزِيدُ الرِّشْكُ عَنْ مُعَاذَةَ عَنْ أُمِّ عَمْرٍو ابْنَةِ عَبْدِ اللَّهِ أَنَّهَا سَمِعَتْ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ الزُّبَيْرِ يُحَدِّثُ أَنَّهُ سَمِعَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَخْطُبُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ لَبِسَ الْحَرِيرَ فِي الدُّنْيَا فَلَا يُكْسَاهُ فِي الْآخِرَةِ-
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جو شخص دنیا میں ریشم پہنے گا، آخرت میں اسے نہیں پہنایا جائے گا۔
-
حَدَّثَنَا عَفَّانُ حَدَّثَنَا هَمَّامٌ حَدَّثَنَا قَتَادَةُ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَالِيَةِ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ حَدَّثَنِي رِجَالٌ مَرْضِيُّونَ فِيهِمْ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَقَالَ عَفَّانُ مَرَّةً شَهِدَ عِنْدِي رِجَالٌ مَرْضِيُّونَ وَأَرْضَاهُمْ عِنْدِي عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا صَلَاةَ بَعْدَ صَلَاتَيْنِ بَعْدَ الصُّبْحِ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ وَبَعْدَ الْعَصْرِ حَتَّى تَغْرُبَ الشَّمْسُ حَدَّثَنَا عَفَّانُ حَدَّثَنَا أَبَانُ حَدَّثَنَا قَتَادَةُ عَنْ أَبِي الْعَالِيَةِ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ بِمِثْلِ هَذَا شَهِدَ عِنْدِي رِجَالٌ مَرْضِيُّونَ-
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ مجھے ایسے لوگوں نے اس بات کی شہادت دی ہے جن کی بات قابل اعتماد ہوتی ہے، ان میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی شامل ہیں جو میری نطروں میں ان سب سے زیادہ قابل اعتماد ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے تھے دو نمازوں کے بعد کوئی نماز نہیں ہے، فجر کی نماز کے بعد طلوع آفتاب تک کوئی نماز نہ پڑھی جائے اور عصر کی نماز کے بعد غروب آفتاب تک کوئی نفلی نماز نہ پڑھی جائے۔ یہی روایت حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے ایک دوسری سند سے بھی نقل کی گئی ہے۔
-
حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ قَيْسِ بْنِ مُسْلِمٍ عَنْ طَارِقِ بْنِ شِهَابٍ أَنَّ الْيَهُودَ قَالُوا لِعُمَرَ إِنَّكُمْ تَقْرَءُونَ آيَةً لَوْ أُنْزِلَتْ فِينَا لَاتَّخَذْنَا ذَلِكَ الْيَوْمَ عِيدًا فَقَالَ إِنِّي لَأَعْلَمُ حَيْثُ أُنْزِلَتْ وَأَيَّ يَوْمٍ أُنْزِلَتْ وَأَيْنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ أُنْزِلَتْ أُنْزِلَتْ يَوْمَ عَرَفَةَ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَاقِفٌ بِعَرَفَةَ قَالَ سُفْيَانُ وَأَشُكُّ يَوْمَ جُمُعَةٍ أَوْ لَا يَعْنِي الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمْ الْإِسْلَامَ دِينًا-
طارق بن شہاب کہتے ہیں کہ ایک یہودی حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا ، اور کہنے لگا امیرالمومنین! آپ لوگ اپنی کتاب میں ایک ایسی آیت پڑھتے ہیں جو اگر ہم یہودیوں پر نازل ہوئی ہوتی تو ہم اس دن کو عید بنا لیتے جس دن وہ نازل ہوئی، (حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے پوچھا وہ کون سی آیت ہے؟ اس نے آیت تکمیل دین کا حوالہ دیا،) اس پر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ بخدا! مجھے علم ہے کہ یہ آیت کس دن اور کس وقت نازل ہوئی تھی، یہ آیت نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر جمعہ کے دن عرفہ کی شام نازل ہوئی تھی۔
-
حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ قَيْسِ بْنِ مُسْلِمٍ عَنْ طَارِقِ بْنِ شِهَابٍ عَنْ أَبِي مُوسَى قَالَ قَدِمْتُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ بِالْبَطْحَاءِ فَقَالَ بِمَ أَهْلَلْتَ قُلْتُ بِإِهْلَالٍ كَإِهْلَالِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ هَلْ سُقْتَ مِنْ هَدْيٍ قُلْتُ لَا قَالَ طُفْ بِالْبَيْتِ وَبِالصَّفَا وَالْمَرْوَةِ ثُمَّ حِلَّ فَطُفْتُ بِالْبَيْتِ وَبِالصَّفَا وَالْمَرْوَةِ ثُمَّ أَتَيْتُ امْرَأَةً مِنْ قَوْمِي فَمَشَّطَتْنِي وَغَسَلَتْ رَأْسِي فَكُنْتُ أُفْتِي النَّاسَ بِذَلِكَ بِإِمَارَةِ أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَإِمَارَةِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَإِنِّي لَقَائِمٌ فِي الْمَوْسِمِ إِذْ جَاءَنِي رَجُلٌ فَقَالَ إِنَّكَ لَا تَدْرِي مَا أَحْدَثَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ فِي شَأْنِ النُّسُكِ فَقُلْتُ أَيُّهَا النَّاسُ مَنْ كُنَّا أَفْتَيْنَاهُ فُتْيَا فَهَذَا أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ قَادِمٌ عَلَيْكُمْ فَبِهِ فَأْتَمُّوا فَلَمَّا قَدِمَ قُلْتُ مَا هَذَا الَّذِي قَدْ أَحْدَثْتَ فِي شَأْنِ النُّسُكِ قَالَ إِنْ نَأْخُذْ بِكِتَابِ اللَّهِ تَعَالَى فَإِنَّ اللَّهَ تَعَالَى قَالَ وَأَتِمُّوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ لِلَّهِ وَإِنْ نَأْخُذْ بِسُنَّةِ نَبِيِّنَا فَإِنَّهُ لَمْ يَحِلَّ حَتَّى نَحَرَ الْهَدْيَ-
حضرت ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں جب یمن سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم بطحاء میں تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے احرام کی حالت میں دیکھ کر پوچھا کہ کس نیت سے احرام باندھا؟ میں نے عرض کیا یہ نیت کر کے کہ جس نیت سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے احرام باندھا ہو، میرا بھی وہی احرام ہے، پھر پوچھا کہ قربانی کا جانور ساتھ لائے ہو؟ میں نے عرض کیا کہ نہیں! فرمایا کہ پھر خانہ کعبہ کا طواف کرکے صفا مروہ کے درمیان سعی کرو اور حلال ہو جاؤ۔ چنانچہ میں نے بیت اللہ کا طواف کیا، صفا مروہ کے درمیان سعی کی، پھر اپنی قوم کی ایک عورت کے پاس آیا، اس نے میرے سر کے بالوں میں کنگھی کی اور میرا سرپانی سے دھویا، بعد میں لوگوں کو بھی حضرات شیخین رضی اللہ عنہما کے دور خلافت میں یہی مسئلہ بتاتا رہا، ایک دن ایام حج میں، میں کسی جگہ کھڑا ہوا تھا کہ ایک آدمی میرے پاس آیا اور کہنے لگا کہ آپ نہیں جانتے، امیرالمومنین نے حج کے معاملات میں کیا نئے احکام جاری کیے ہیں؟ اس پر میں نے کہا لوگو! ہم نے جسے بھی کوئی فتویٰ دیا ہو، وہ سن لے، یہ امیرالمومنین موجود ہیں، ان ہی کی اقتداء کرو، جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ تشریف لائے تو میں نے ان سے پوچھا کہ مناسک حج میں آپ نے یہ کیا نیا حکم جاری کیا ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ اگر ہم قرآن کریم کو لیتے ہیں تو وہ ہمیں اتمام حج وعمرہ کا حکم دیتا ہے اور اگر ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو لیتے ہیں تو نبی صلی للہ علیہ وسلم قربانی کا جانور ذبح کرنے سے پہلے حلال نہیں ہوئے۔ فائدہ : دراصل حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک ہی سفر میں حج اور عمرہ دونوں کو جمع کرنے کی ممانعت کی تھی، یہاں اسی کا ذکر ہے۔
-
حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عَبْدِ الْأَعْلَى عَنْ سُوَيْدِ بْنِ غَفَلَةَ قَالَ رَأَيْتُ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يُقَبِّلُ الْحَجَرَ وَيَقُولُ إِنِّي لَأَعْلَمُ أَنَّكَ حَجَرٌ لَا تَضُرُّ وَلَا تَنْفَعُ وَلَكِنِّي رَأَيْتُ أَبَا الْقَاسِمِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِكَ حَفِيًّا-
سوید بن غفلہ رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ میں نے ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ وہ حجر اسود کو بوسہ دے رہے ہیں اور اس سے مخاطب ہو کر فرما رہے ہیں میں جانتا ہوں کہ تو محض ایک پتھر ہے جو کسی کو نفع نقصان نہیں پہنچا سکتا لیکن میں نے ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم کو تجھ پر مہربان دیکھا ہے۔
-
حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ عَنْ سُفْيَانَ وَعَبْدُ الرَّزَّاقِ أَنْبَأَنَا سُفْيَانُ عَنِ أَبِي إِسْحَاقَ عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ قَالَ قَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ عَبْدُ الرَّزَّاقِ سَمِعْتُ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ إِنَّ الْمُشْرِكِينَ كَانُوا لَا يُفِيضُونَ مِنْ جَمْعٍ حَتَّى تُشْرِقَ الشَّمْسُ عَلَى ثَبِيرٍ قَالَ عَبْدُ الرَّزَّاقِ وَكَانُوا يَقُولُونَ أَشْرِقْ ثَبِيرُ كَيْمَا نُغِيرُ يَعْنِي فَخَالَفَهُمْ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَدَفَعَ قَبْلَ أَنْ تَطْلُعَ الشَّمْسُ-
عمرو بن میمون کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ مشرکین طلوع آفتاب سے پہلے مزدلفہ سے واپس نہیں جاتے تھے، نبی صلی اللہ عیہ وسلم نے ان کا طریقہ اختیار نہیں کیا، اور مزدلفہ سے منی کی طرف طلوع آفتاب سے قبل ہی روانہ ہوگئے۔
-
حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ حَدَّثَنَا مَالِكٌ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ قَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى بَعَثَ مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنْزَلَ عَلَيْهِ الْكِتَابَ فَكَانَ فِيمَا أَنْزَلَ عَلَيْهِ آيَةُ الرَّجْمِ فَقَرَأْنَا بِهَا وَعَقَلْنَاهَا وَوَعَيْنَاهَا فَأَخْشَى أَنْ يَطُولَ بِالنَّاسِ عَهْدٌ فَيَقُولُوا إِنَّا لَا نَجِدُ آيَةَ الرَّجْمِ فَتُتْرَكَ فَرِيضَةٌ أَنْزَلَهَا اللَّهُ تَعَالَى وَإِنَّ الرَّجْمَ فِي كِتَابِ اللَّهِ تَعَالَى حَقٌّ عَلَى مَنْ زَنَى إِذَا أَحْصَنَ مِنْ الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ إِذَا قَامَتْ الْبَيِّنَةُ أَوْ كَانَ الْحَبَلُ أَوْ الِاعْتِرَافُ-
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ فرمایا اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا، ان پر کتاب نازل فرمائی، اس میں رجم کی آیت بھی تھی جسے ہم نے پڑھا، اور یاد کیا تھا ، مجھے اندیشہ ہے کہ کچھ عرصہ گذرنے کے بعد لوگ یہ نہ کہنے لگیں کہ ہمیں تو رجم سے متعلق کوئی آیت نہیں ملتی اور یوں ایک فریضہ جو اللہ نے نازل کیا ہے چھوٹ جائے، یاد رکھو! کتاب اللہ سے رجم کا ثبوت برحق ہے اس شخص کے لئے جو شادی شدہ ہو خواہ مرد ہو یا عورت جبکہ گواہ موجود ہوں، یا عورت حاملہ ہوگئی ہو یا وہ اعتراف جرم کر لے۔
-
حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ عَنْ مَالِكٍ عَنِ الزُّهْرِيِّ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدٍ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ سَمِعْتُ هِشَامَ بْنَ حَكِيمٍ يَقْرَأُ سُورَةَ الْفُرْقَانِ فِي الصَّلَاةِ عَلَى غَيْرِ مَا أَقْرَؤُهَا وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَقْرَأَنِيهَا فَأَخَذْتُ بِثَوْبِهِ فَذَهَبْتُ بِهِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي سَمِعْتُهُ يَقْرَأُ سُورَةَ الْفُرْقَانِ عَلَى غَيْرِ مَا أَقْرَأْتَنِيهَا فَقَالَ اقْرَأْ فَقَرَأَ الْقِرَاءَةَ الَّتِي سَمِعْتُهَا مِنْهُ فَقَالَ هَكَذَا أُنْزِلَتْ ثُمَّ قَالَ لِي اقْرَأْ فَقَرَأْتُ فَقَالَ هَكَذَا أُنْزِلَتْ إِنَّ هَذَا الْقُرْآنَ أُنْزِلَ عَلَى سَبْعَةِ أَحْرُفٍ فَاقْرَءُوا مَا تَيَسَّرَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَنْبَأَنَا مَعْمَرٌ عَنِ الزُّهْرِيِّ عَنْ عُرْوَةَ عَنِ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدٍ الْقَارِيِّ أَنَّهُمَا سَمِعَا عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَقُولُ مَرَرْتُ بِهِشَامِ بْنِ حَكِيمِ بْنِ حِزَامٍ يَقْرَأُ سُورَةَ الْفُرْقَانِ فَذَكَرَ مَعْنَاهُ-
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے ہشام بن حکیم کو نماز میں سورت فرقان کی تلاوت کرتے ہوئے سنا، انہوں نے اس میں ایسے حروف کی تلاوت کی جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے نہیں پڑھائے تھے۔ میں نے ان کا ہاتھ پکڑا اور انہیں کھینچتا ہوا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو گیا، اور عرض کیا یا رسول اللہ! آپ نے مجھے سورت فرقان خود پڑھائی ہے، میں نے اسے سورت فرقان کو ایسے حروف میں پڑھتے ہوئے سنا ہے جو آپ نے مجھے نہیں پڑھائے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہشام سے اس کی تلاوت کرنے کے لیے فرمایا، انہوں نے اسی طرح پڑھا جیسے میں نے انہیں سنا تھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ سورت اسی طرح نازل ہوئی ہے، پھر مجھ سے کہا کہ عمر! تم بھی پڑھ کر سناؤ، چنانچہ میں نے بھی پڑھ کر سنادیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ اس طرح بھی نازل ہوئی ہے، اس کے بعد ارشاد فرمایا بے شک اس قرآن کا نزول سات قراتوں پر ہوا ہے، لہٰذا تمہارے لیے جو آسان ہو اس کے مطابق تلاوت کر لیا کرو ۔ یہی روایت حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے اس دوسری سند سے بھی نقل کی گئی ہے
-
حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ عَنْ مَعْمَرٍ عَنِ الزُّهْرِيِّ عَنِ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ السَّعْدِيِّ قَالَ قَالَ لِي عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَلَمْ أُحَدَّثْ أَنَّكَ تَلِي مِنْ أَعْمَالِ النَّاسِ أَعْمَالًا فَإِذَا أُعْطِيتَ الْعُمَالَةَ لَمْ تَقْبَلْهَا قَالَ نَعَمْ قَالَ فَمَا تُرِيدُ إِلَى ذَاكَ قَالَ أَنَا غَنِيٌّ لِي أَعْبُدٌ وَلِي أَفْرَاسٌ أُرِيدُ أَنْ يَكُونَ عَمَلِي صَدَقَةً عَلَى الْمُسْلِمِينَ قَالَ لَا تَفْعَلْ فَإِنِّي كُنْتُ أَفْعَلُ مِثْلَ الَّذِي تَفْعَلُ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعْطِينِي الْعَطَاءَ فَأَقُولُ أَعْطِهِ مَنْ هُوَ أَفْقَرُ إِلَيْهِ مِنِّي فَقَالَ خُذْهُ فَإِمَّا أَنْ تَمَوَّلَهُ وَإِمَّا أَنْ تَصَدَّقَ بِهِ وَمَا آتَاكَ اللَّهُ مِنْ هَذَا الْمَالِ وَأَنْتَ غَيْرُ مُشْرِفٍ لَهُ وَلَا سَائِلِهِ فَخُذْهُ وَمَا لَا فَلَا تُتْبِعْهُ نَفْسَكَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ عَنِ الزُّهْرِيِّ عَنِ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ قَالَ لَقِيَ عُمَرُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ السَّعْدِيِّ فَذَكَرَ مَعْنَاهُ إِلَّا أَنَّهُ قَالَ تَصَدَّقْ بِهِ وَقَالَ لَا تُتْبِعْهُ نَفْسَكَ-
ایک مرتبہ عبداللہ بن سعدی رحمۃ اللہ علیہ خلافت فاروقی کے زمانے میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں دیکھ کر فرمایا کیا تم وہی ہو جس کے متعلق مجھے یہ بتایا گیا ہے کہ تمہیں عوام الناس کی کوئی ذمہ داری سونپی گئی ہے لیکن جب تہیں اس کی تنخواہ دی جاتی ہے تو تم اسے لینے سے ناگواری کا اظہار کرتے ہو؟ عبداللہ کہتے ہیں میں نے عرض کیا جی ہاں ! ایسا ہی ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ اس سے تمہارا کیا مقصد ہے؟ میں نے عرض کیا میرے پاس اللہ کے فضل سے گھوڑے اور غلام سب ہی کچھ ہے اور میں مالی اعتبار سے بھی صحیح ہوں، اس لئے میری خواہش ہوتی ہے کہ میری تنخواہ مسلمانوں کے ہی کاموں میں استعمال ہوجائے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا ایسا مت کرو، کیونکہ ایک مرتبہ میں نے بھی یہی چاہا تھا ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم مجھے کچھ دینا چاہتے تو میں عرض کر دیتا کہ یا رسول اللہ! مجھ سے زیادہ جو محتاج لوگ ہیں، یہ انہیں دے دیجئے، اسی طرح ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مجھے کچھ دینا چاہتے تو میں عرض کر دیتا کہ یا رسول اللہ! مجھ سے زیادہ محتاج لوگ ہیں، یہ انہیں دے دیجئے، اسی طرح ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے کچھ مال ودولت عطاء فرمایا، میں نے حسب سابق یہی عرض کیا کہ مجھ سے زیادہ کسی ضرورت مند کو دے دیجئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسے لے لو، اپنے مال میں اضافہ کرو، اس کے بعد صدقہ کردو، اور یاد رکھو! اگر تمہاری خواہش اور سوال کے بغیر کہیں سے مال آئے تو اسے لے لیا کرو ، ورنہ اس کے پیچھے نہ پڑا کرو ۔ یہی حدیث ایک دوسری سند سے بھی مروی ہے جو عبارت میں گذری ہے۔
-
حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ عَنْ مَالِكٍ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ حَمَلْتُ عَلَى فَرَسٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَأَضَاعَهُ صَاحِبُهُ فَأَرَدْتُ أَنْ أَبْتَاعَهُ وَظَنَنْتُ أَنَّهُ بَائِعُهُ بِرُخْصٍ فَقُلْتُ حَتَّى أَسْأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ لَا تَبْتَعْهُ وَإِنْ أَعْطَاكَهُ بِدِرْهَمٍ فَإِنَّ الَّذِي يَعُودُ فِي صَدَقَتِهِ فَكَالْكَلْبِ يَعُودُ فِي قَيْئِهِ-
حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نے فی سبیل اللہ کسی شخص کو سواری کے لیے گھوڑا دے دیا، اس نے اسے ضائع کر دیا، میں نے سوچا کہ اسے خرید لیتا ہوں ، کیونکہ میرا خیال تھا کہ وہ اسے سستا فروخت کردے گا، لیکن میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مشورہ کیا، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے مت خریدو اگرچہ وہ تمہیں پیسوں کے بدلے دے کیونکہ صدقہ دے کررجوع کرنے والے کی مثال ایسے ہی ہے جیسے کتا قئی کر کے اسے دوبارہ چاٹ لے۔
-
قَالَ قَرَأْتُ عَلَى عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ مَالِكٍ عَنِ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ أَبِي عُبَيْدٍ مَوْلَى ابْنِ أَزْهَرَ أَنَّهُ قَالَ شَهِدْتُ الْعِيدَ مَعَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَجَاءَ فَصَلَّى ثُمَّ انْصَرَفَ فَخَطَبَ النَّاسَ فَقَالَ إِنَّ هَذَيْنِ يَوْمَانِ نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ صِيَامِهِمَا يَوْمُ فِطْرِكُمْ مِنْ صِيَامِكُمْ وَالْآخَرُ يَوْمٌ تَأْكُلُونَ فِيهِ مِنْ نُسُكِكُمْ-
ابوعبید کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں عید کے موقع پر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا ، انہوں نے آکر پہلے نماز پڑھائی، پھر لوگوں کی طرف منہ پھیر کر خطبہ دیتے ہوئے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دنوں کے روزے سے منع فرمایا ہے، عیدالفطرکے دن تو اس لیے کہ اس دن تمہارے روزے ختم ہوتے ہیں اور عیدالاضحی کے دن اس لئے کہ تم اپنی قربانی کے جانور کا گوشت کھا سکو۔
-
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي إِسْحَاقَ عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ كَانَ عُمَرُ رَجُلًا غَيُورًا فَكَانَ إِذَا خَرَجَ إِلَى الصَّلَاةِ اتَّبَعَتْهُ عَاتِكَةُ ابْنَةُ زَيْدٍ فَكَانَ يَكْرَهُ خُرُوجَهَا وَيَكْرَهُ مَنْعَهَا وَكَانَ يُحَدِّثُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِذَا اسْتَأْذَنَتْكُمْ نِسَاؤُكُمْ إِلَى الصَّلَاةِ فَلَا تَمْنَعُوهُنَّ-
حضرت سالم رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ بڑے غیور طبع آدمی تھے، جب وہ نماز کے لیے نکلتے تو ان کے پیچھے پیچھے عاتکہ بنت زید بھی چلی جاتیں، انہیں ان کا نکلنا بھی پسند نہ تھا اور روکنا بھی پسند نہ تھا، اور وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے یہ حدیث بیان کرتے تھے کہ جب تمہاری عورتیں تم سے نماز کے لئے مسجد جانے کی اجازت مانگیں تو انہیں مت روکو۔
-
حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ عَنْ مَالِكٍ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عُمَرَ قَالَ لَوْلَا آخِرُ الْمُسْلِمِينَ مَا فُتِحَتْ قَرْيَةٌ إِلَّا قَسَمْتُهَا كَمَا قَسَمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَيْبَرَ-
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ فرماتے تھے کہ اگر بعد میں آنے والے مسلمانوں کا خیال نہ ہوتا تو جو بستی اور شہر بھی مفتوح ہوتا، میں اسے فاتحین کے درمیان تقسیم کر دیتا جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کو تقسیم فرما دیا تھا۔
-
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ حَدَّثَنَا سَلَمَةُ بْنُ عَلْقَمَةَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ قَالَ نُبِّئْتُ عَنْ أَبِي الْعَجْفَاءِ السُّلَمِيِّ قَالَ سَمِعْتُ عُمَرَ يَقُولُ أَلَا لَا تُغْلُوا صُدُقَ النِّسَاءِ أَلَا لَا تُغْلُوا صُدُقَ النِّسَاءِ فَإِنَّهَا لَوْ كَانَتْ مَكْرُمَةً فِي الدُّنْيَا أَوْ تَقْوَى عِنْدَ اللَّهِ كَانَ أَوْلَاكُمْ بِهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا أَصْدَقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ امْرَأَةً مِنْ نِسَائِهِ وَلَا أُصْدِقَتْ امْرَأَةٌ مِنْ بَنَاتِهِ أَكْثَرَ مِنْ ثِنْتَيْ عَشْرَةَ أُوقِيَّةً وَإِنَّ الرَّجُلَ لَيُبْتَلَى بِصَدُقَةِ امْرَأَتِهِ وَقَالَ مَرَّةً وَإِنَّ الرَّجُلَ لَيُغْلِي بِصَدُقَةِ امْرَأَتِهِ حَتَّى تَكُونَ لَهَا عَدَاوَةٌ فِي نَفْسِهِ وَحَتَّى يَقُولَ كَلِفْتُ إِلَيْكِ عَلَقَ الْقِرْبَةِ قَالَ وَكُنْتُ غُلَامًا عَرَبِيًّا مُوَلَّدًا لَمْ أَدْرِ مَا عَلَقُ الْقِرْبَةِ قَالَ وَأُخْرَى تَقُولُونَهَا لِمَنْ قُتِلَ فِي مَغَازِيكُمْ وَمَاتَ قُتِلَ فُلَانٌ شَهِيدًا وَمَاتَ فُلَانٌ شَهِيدًا وَلَعَلَّهُ أَنْ يَكُونَ قَدْ أَوْقَرَ عَجُزَ دَابَّتِهِ أَوْ دَفَّ رَاحِلَتِهِ ذَهَبًا أَوْ وَرِقًا يَلْتَمِسُ التِّجَارَةَ لَا تَقُولُوا ذَاكُمْ وَلَكِنْ قُولُوا كَمَا قَالَ النَّبِيُّ أَوْ كَمَا قَالَ مُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ قُتِلَ أَوْ مَاتَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَهُوَ فِي الْجَنَّةِ-
ابوالعجفاء سلمی کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو تکرار کے ساتھ یہ بات فرماتے ہوئے سنا کہ لوگو! اپنی بیویوں کے مہر زیادہ مت باندھا کرو ، کیونکہ اگر یہ چیز دنیا میں باعث عزت ہوتی یا اللہ کے نزدیک تقویٰ میں شمار ہوتی تو اس کے سب سے زیادہ حق دار نبی صلی اللہ علیہ وسلم تھے، جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی بیوی یا بیٹی کامہر بارہ اوقیہ سے زیادہ نہیں تھا، اور انسان اپنی بیوی کے حق مہر سے ہی آزمائش میں مبتلا ہوتا ہے، جو بعد میں اس کے لئے خود اپنی ذات سے دشمنی ثابت ہوتی ہے اور انسان یہاں تک کہہ جاتا ہے کہ میں تو تمہارے پاس مشکیزہ کا منہ باندھنے والی رسی تک لانے پر مجبور ہو گیا ہوں ۔ ابوالعجفاء جو کہ راوی ہیں کہتے ہیں کہ میں چونکہ عرب کے ان غلاموں میں سے تھاجنہیں مولدین کہا جاتا ہے اس لئے مجھے اس وقت تک علق القربۃ (جس کاترجمہ مشکیزہ کامنہ باندھنے والی رسی کیا گیا ہے) کا معنہ معلوم نہیں تھا۔ پھر حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ دوسری بات یہ ہے کہ جو شخص دوران جہاد مقتول ہوجائے یا طبعی طور پر فوت ہوجائے تو آپ لوگ یہ کہتے ہیں کہ فلاں آدمی شہید ہوگیا، فلاں آدمی شہید ہو کر دنیا سے رخصت ہوا، حالانکہ یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ اس نے اپنی سواری کے پچھلے حصے میں یا کجاوے کے نیچے سوناچاندی چھپا رکھا جس سے وہ تجارت کا ارادہ رکھتا ہو، اس لئے تم کسی کے متعلق یقین کے ساتھ یہ مت کہو کہ وہ شہید ہے، البتہ یہ کہہ سکتے ہو کہ جو شخص راہ خدا میں مقتول یا فوت ہو جائے (وہ شہید ہے ) اور جنت میں داخل ہوگا جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے۔
-
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ أَنْبَأَنَا الْجُرَيْرِيُّ سَعِيدٌ عَنْ أَبِي نَضْرَةَ عَنْ أَبِي فِرَاسٍ قَالَ خَطَبَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَقَالَ يَا أَيُّهَا النَّاسُ أَلَا إِنَّا إِنَّمَا كُنَّا نَعْرِفُكُمْ إِذْ بَيْنَ ظَهْرَيْنَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَإِذْ يَنْزِلُ الْوَحْيُ وَإِذْ يُنْبِئُنَا اللَّهُ مِنْ أَخْبَارِكُمْ أَلَا وَإِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ انْطَلَقَ وَقَدْ انْقَطَعَ الْوَحْيُ وَإِنَّمَا نَعْرِفُكُمْ بِمَا نَقُولُ لَكُمْ مَنْ أَظْهَرَ مِنْكُمْ خَيْرًا ظَنَنَّا بِهِ خَيْرًا وَأَحْبَبْنَاهُ عَلَيْهِ وَمَنْ أَظْهَرَ مِنْكُمْ لَنَا شَرًّا ظَنَنَّا بِهِ شَرًّا وَأَبْغَضْنَاهُ عَلَيْهِ سَرَائِرُكُمْ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَ رَبِّكُمْ أَلَا إِنَّهُ قَدْ أَتَى عَلَيَّ حِينٌ وَأَنَا أَحْسِبُ أَنَّ مَنْ قَرَأَ الْقُرْآنَ يُرِيدُ اللَّهَ وَمَا عِنْدَهُ فَقَدْ خُيِّلَ إِلَيَّ بِآخِرَةٍ أَلَا إِنَّ رِجَالًا قَدْ قَرَءُوهُ يُرِيدُونَ بِهِ مَا عِنْدَ النَّاسِ فَأَرِيدُوا اللَّهَ بِقِرَاءَتِكُمْ وَأَرِيدُوهُ بِأَعْمَالِكُمْ أَلَا إِنِّي وَاللَّهِ مَا أُرْسِلُ عُمَّالِي إِلَيْكُمْ لِيَضْرِبُوا أَبْشَارَكُمْ وَلَا لِيَأْخُذُوا أَمْوَالَكُمْ وَلَكِنْ أُرْسِلُهُمْ إِلَيْكُمْ لِيُعَلِّمُوكُمْ دِينَكُمْ وَسُنَّتَكُمْ فَمَنْ فُعِلَ بِهِ شَيْءٌ سِوَى ذَلِكَ فَلْيَرْفَعْهُ إِلَيَّ فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ إِذَنْ لَأُقِصَّنَّهُ مِنْهُ فَوَثَبَ عَمْرُو بْنُ الْعَاصِ فَقَالَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ أَوَرَأَيْتَ إِنْ كَانَ رَجُلٌ مِنْ الْمُسْلِمِينَ عَلَى رَعِيَّةٍ فَأَدَّبَ بَعْضَ رَعِيَّتِهِ أَئِنَّكَ لَمُقْتَصُّهُ مِنْهُ قَالَ إِي وَالَّذِي نَفْسُ عُمَرَ بِيَدِهِ إِذَنْ لَأُقِصَّنَّهُ مِنْهُ وَقَدْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُقِصُّ مِنْ نَفْسِهِ أَلَا لَا تَضْرِبُوا الْمُسْلِمِينَ فَتُذِلُّوهُمْ وَلَا تُجَمِّرُوهُمْ فَتَفْتِنُوهُمْ وَلَا تَمْنَعُوهُمْ حُقُوقَهُمْ فَتُكَفِّرُوهُمْ وَلَا تُنْزِلُوهُمْ الْغِيَاضَ فَتُضَيِّعُوهُمْ حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ مَرَّةً أُخْرَى أَخْبَرَنَا سَلَمَةُ بْنُ عَلْقَمَةَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ قَالَ نُبِّئْتُ عَنْ أَبِي الْعَجْفَاءِ قَالَ سَمِعْتُ عُمَرَ يَقُولُ أَلَا لَا تُغْلُوا صُدُقَ النِّسَاءِ فَذَكَرَ الْحَدِيثَ قَالَ إِسْمَاعِيلُ وَذَكَرَ أَيُّوبُ وَهِشَامٌ وَابْنُ عَوْنٍ عَنْ مُحَمَّدٍ عَنْ أَبِي الْعَجْفَاءِ عَنْ عُمَرَ نَحْوًا مِنْ حَدِيثِ سَلَمَةَ إِلَّا أَنَّهُمْ قَالُوا لَمْ يَقُلْ مُحَمَّدٌ نُبِّئْتُ عَنْ أَبِي الْعَجْفَاءِ-
ابو فراس کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا لوگو! جب تک نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہم میں موجود رہے، وحی نازل ہوتی رہی، اور اللہ ہمیں تمہارے حالات سے مطلع کرتا رہا اس وقت تک تو ہم تمہیں پہچانتے تھے، اب چونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے گئے ہیں اور وحی کا سلسلہ منقطع ہوچکا ہے اب ہم تمہیں ان چیزوں سے پہچانیں گے جو ہم تمہیں کہیں گے۔ تم میں سے جو شخص خیر ظاہر کرے گا ہم اس کے متعلق اچھا گمان رکھیں گے اور اس سے محبت کریں گے اور جو شر ظاہر کرے گا ہم اس کے متعلق اچھا گمان نہیں رکھیں گے اور اس بناء پر اس سے نفرت کریں گے، تمہارے پوشیدہ راز تمہارے رب اور تمہارے درمیان ہوں گے۔ یاد رکھو! مجھ پر ایک وقت ایسا بھی آیا ہے کہ جس میں، میں سمجھتا ہوں جو شخص قرآن کریم کو اللہ اور اس کی نعمتوں کو حاصل کرنے کے لیے پڑھتا ہے وہ میرے سامنے آخرت کا تخیل پیش کرتا ہے، یاد رکھو! بعض لوگ ایسے بھی ہیں کہ جو قرآن کریم کی تلاوت سے لوگوں کے مال و دولت کا حصول چاہتے ہیں، تم اپنی قرائت سے اللہ کو حاصل کرو، اپنے اعمال کے ذریعے اللہ کو حاصل کرو، اور یاد رکھو! میں نے تمہارے پاس اپنے مقرر کردہ گورنروں کو اس لئے نہیں بھیجا کہ وہ تمہاری چمڑی ادھیڑ دیں، اور تمہارے مال و دولت پر قبضہ کرلیں، میں نے تو انہیں تمہارے پاس اس لیئے بھیجا ہے کہ وہ تمہیں تمہارا دین اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتیں سکھائیں ۔ جس شخص کے ساتھ اس کے علاوہ کوئی اور معاملہ ہوا ہو، اسے چاہیے کہ وہ اسے میرے سامنے پیش کرے، قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے، میں اسے بدلہ ضرور لے کردوں گا، یہ سن کر حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کود کر سامنے آئے اور کہنے لگے امیرالمومنین! اگر کسی آدمی کو رعایا پر ذمہ دار بنایا جائے اور وہ رعایا کو ادب سکھانے کے لئے کوئی سزا دے دے تو کیا آپ اس سے بھی قصاص لیں گے؟ فرمایا ہاں! اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں عمر کی جان ہے میں اس سے بھی قصاص لوں گا، میں نے خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی طرف سے قصاص دیتے ہوئے دیکھا ہے۔ یاد رکھو! مسلمانوں کو مار پیٹ کر ذلیل مت کرو، انہیں انگاروں پر مت رکھو کہ انہیں آزمائش میں مبتلا کردو، ان سے ان کے حقوق مت روکو کہ انہیں کفر اختیار کرنے پر مجبور کردو، اور انہیں غصہ مت دلاؤ کہ انہیں ضائع کر دو۔ مہر زیادہ مقرر نہ کرنے والی روایت جو عنقریب گذری ایک دوسری سند سے بھی مروی ہے۔
-
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ حَدَّثَنَا أَيُّوبُ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ قَالَ كُنْتُ عِنْدَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ وَنَحْنُ نَنْتَظِرُ جَنَازَةَ أُمِّ أَبَانَ ابْنَةِ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ وَعِنْدَهُ عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ فَجَاءَ ابْنُ عَبَّاسٍ يَقُودُهُ قَائِدُهُ قَالَ فَأُرَاهُ أَخْبَرَهُ بِمَكَانِ ابْنِ عُمَرَ فَجَاءَ حَتَّى جَلَسَ إِلَى جَنْبِي وَكُنْتُ بَيْنَهُمَا فَإِذَا صَوْتٌ مِنْ الدَّارِ فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ إِنَّ الْمَيِّتَ يُعَذَّبُ بِبُكَاءِ أَهْلِهِ عَلَيْهِ فَأَرْسَلَهَا عَبْدُ اللَّهِ مُرْسَلَةً قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ كُنَّا مَعَ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ عُمَرَ حَتَّى إِذَا كُنَّا بِالْبَيْدَاءِ إِذَا هُوَ بِرَجُلٍ نَازِلٍ فِي ظِلِّ شَجَرَةٍ فَقَالَ لِي انْطَلِقْ فَاعْلَمْ مَنْ ذَاكَ فَانْطَلَقْتُ فَإِذَا هُوَ صُهَيْبٌ فَرَجَعْتُ إِلَيْهِ فَقُلْتُ إِنَّكَ أَمَرْتَنِي أَنْ أَعْلَمَ لَكَ مَنْ ذَاكَ وَإِنَّهُ صُهَيْبٌ فَقَالَ مُرُوهُ فَلْيَلْحَقْ بِنَا فَقُلْتُ إِنَّ مَعَهُ أَهْلَهُ قَالَ وَإِنْ كَانَ مَعَهُ أَهْلُهُ وَرُبَّمَا قَالَ أَيُّوبُ مَرَّةً فَلْيَلْحَقْ بِنَا فَلَمَّا بَلَغْنَا الْمَدِينَةَ لَمْ يَلْبَثْ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ أَنْ أُصِيبَ فَجَاءَ صُهَيْبٌ فَقَالَ وَا أَخَاهُ وَا صَاحِبَاهُ فَقَالَ عُمَرُ أَلَمْ تَعْلَمْ أَوَلَمْ تَسْمَعْ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنَّ الْمَيِّتَ لَيُعَذَّبُ بِبَعْضِ بُكَاءِ أَهْلِهِ عَلَيْهِ فَأَمَّا عَبْدُ اللَّهِ فَأَرْسَلَهَا مُرْسَلَةً وَأَمَّا عُمَرُ فَقَالَ بِبَعْضِ بُكَاءِ فَأَتَيْتُ عَائِشَةَ فَذَكَرْتُ لَهَا قَوْلَ عُمَرَ فَقَالَتْ لَا وَاللَّهِ مَا قَالَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ الْمَيِّتَ يُعَذَّبُ بِبُكَاءِ أَحَدٍ وَلَكِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنَّ الْكَافِرَ لَيَزِيدُهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ بِبُكَاءِ أَهْلِهِ عَذَابًا وَإِنَّ اللَّهَ لَهُوَ أَضْحَكَ وَأَبْكَى وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى قَالَ أَيُّوبُ وَقَالَ ابْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ حَدَّثَنِي الْقَاسِمُ قَالَ لَمَّا بَلَغَ عَائِشَةَ قَوْلُ عُمَرَ وَابْنِ عُمَرَ قَالَتْ إِنَّكُمْ لَتُحَدِّثُونِي عَنْ غَيْرِ كَاذِبَيْنِ وَلَا مُكَذَّبَيْنِ وَلَكِنَّ السَّمْعَ يُخْطِئُ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَنْبَأَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ أَخْبَرَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ فَذَكَرَ مَعْنَى حَدِيثِ أَيُّوبَ إِلَّا أَنَّهُ قَالَ فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ لِعَمْرِو بْنِ عُثْمَانَ وَهُوَ مُوَاجِهُهُ أَلَا تَنْهَى عَنْ الْبُكَاءِ فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنَّ الْمَيِّتَ لَيُعَذَّبُ بِبُكَاءِ أَهْلِهِ عَلَيْهِ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَنْبَأَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ أَخْبَرَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ قَالَ تُوُفِّيَتْ ابْنَةٌ لِعُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ بِمَكَّةَ فَحَضَرَهَا ابْنُ عُمَرَ وَابْنُ عَبَّاسٍ وَإِنِّي لَجَالِسٌ بَيْنَهُمَا فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ لِعَمْرِو بْنِ عُثْمَانَ وَهُوَ مُوَاجِهُهُ أَلَا تَنْهَى عَنْ الْبُكَاءِ فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنَّ الْمَيِّتَ لَيُعَذَّبُ بِبُكَاءِ أَهْلِهِ عَلَيْهِ فَذَكَرَ نَحْوَ حَدِيثِ إِسْمَاعِيلَ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ-
حضرت عبداللہ بن ابی ملیکہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن ہم حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی ام ابان کے جنازے کے انتظار میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، وہاں عمرو بن عثمان بھی تھے، اتنی دیر میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کو ان کا رہنما لے آیا، شاید اسی نے انہیں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کی نشست کا بتایا، چنانچہ وہ میرے پہلو میں آکر بیٹھ گئے اور میں ان دونوں کے درمیان ہوگیا، اچانک گھر سے رونے کی آوازیں آنے لگیں، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما فرمانے لگے کہ میں نے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ میت کو اس کے اہل خانہ کے رونے دھونے کی وجہ سے عذاب ہوتا ہے، اور اہل خانہ کو یہ حدیث کہلوا بھیجی۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرمانے لگے کہ ایک مرتبہ ہم امیرالمومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے ساتھ مقام بیداء میں پہنچے تو ان کی نظر ایک آدمی پر پڑی جو کسی درخت کے سائے میں کھڑا تھا، انہوں نے مجھ سے فرمایا جا کر خبر لاؤ کہ یہ آدمی کون ہے؟ میں گیا تو وہ حضرت صہیب رضی اللہ عنہ تھے، میں نے واپس آکر عرض کیا کہ آپ نے مجھے فلاں آدمی کے بارے معلوم کرنے کا حکم دیا تھا ، وہ صہیب رضی اللہ عنہ ہیں، فرمایا انہیں ہمارے پاس آنے کے لیے کہو، میں نے عرض کیا ان کے ساتھ ان کے اہل خانہ بھی ہیں، فرمایا اگرچہ اہل خانہ ہوں تب بھی انہیں بلا کر لاؤ۔ خیر! مدینہ منورہ پہنچنے کے چند دن بعد ہی امیرالمومنین پر قاتلانہ حملہ ہوا، حضرت صہیب رضی اللہ عنہ کو پتہ چلا تو وہ آئے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو دیکھتے ہی کہنے لگے ہائے! میرے بھائی، ہائے میرے دوست، اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ آپ کو معلوم نہیں کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میت کو اس کے رشتہ داروں کے رونے دھونے کی وجہ سے عذاب ہوتا ہے۔ عبداللہ بن ابی ملیکہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوا تو ان سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا یہ قول بھی ذکر کیا، انہوں نے فرمایا بخدا! نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات نہیں فرمائی تھی کہ میت کو کسی کے رونے دھونے سے عذاب ہوتا ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تو یہ فرمایا تھا کہ اللہ تعالیٰ کافر کے اہل خانہ کے رونے دھونے کی وجہ سے اس کے عذاب میں اضافہ کر دیتا ہے، اصل ہنسانے اور رلانے والا تو اللہ ہے، اور یہ بھی اصول ہے کہ کوئی شخص کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ ابن ابی ملیکہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مجھے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے بھانجے حضرت قاسم رحمۃ اللہ علیہ نے بتایا کہ جب حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور ان کے صاحبزادے کا یہ قول معلوم ہوا تو فرمایا کہ تم لوگ جن سے حدیث روایت کر رہے ہو، نہ تو وہ جھوٹے تھے اور نہ ان کی تکذیب کی جاسکتی ہے، البتہ بعض اوقات انسان سے سننے میں غلطی ہوجاتی ہے۔ ایک دوسری سند سے بھی یہ روایت مروی ہے البتہ اس میں یہ بھی ہے کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے عمرو بن عثمان سے جو ان کے سامنے ہی تھے فرمایا کہ آپ ان رونے والیوں کو رونے سے روکتے کیوں نہیں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میت پر اس کے اہل خانہ کے رونے کی وجہ سے عذاب ہوتا ہے۔ عبداللہ بن ابی ملیکہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مکہ مکرمہ میں حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی ایک بیٹی فوت ہوگئی، اس کے جنازے میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ اور ابن عباس رضی اللہ عنہ دونوں شریک ہوئے، جبکہ میں ان دونوں کے درمیان بیٹھا ہوا تھا، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے سامنے بیٹھے ہوئے عمرو بن عثمان سے کہا کہ تم ان لوگوں کو رونے سے کیوں نہیں روکتے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میت پر اہل خانہ کے رونے کی وجہ سے عذاب ہوتا ہے، پھر انہوں نے مکمل حدیث ذکر کی۔
-
حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ عَنْ سِمَاكٍ عَنْ عِكْرِمَةَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ قَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ كُنْتُ فِي رَكْبٍ أَسِيرُ فِي غَزَاةٍ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَحَلَفْتُ فَقُلْتُ لَا وَأَبِي فَهَتَفَ بِي رَجُلٌ مِنْ خَلْفِي لَا تَحْلِفُوا بِآبَائِكُمْ فَالْتَفَتُّ فَإِذَا هُوَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کسی غزوے میں تھا، ایک موقع پر میں نے قسم کھاتے ہوئے کہا " لا وابی " تو پیچھے سے ایک آدمی نے مجھ سے کہا کہ اپنے آباؤ اجداد کے نام کی قسمیں مت کھایا کرو ، میں نے دیکھا تو وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔
-
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُيَسَّرٍ أَبُو سَعْدٍ الصَّاغَانِيُّ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَطَاءٍ عَنْ مَالِكِ بْنِ أَوْسِ بْنِ الْحَدَثَانِ قَالَ كَانَ عُمَرُ يَحْلِفُ عَلَى أَيْمَانٍ ثَلَاثٍ يَقُولُ وَاللَّهِ مَا أَحَدٌ أَحَقَّ بِهَذَا الْمَالِ مِنْ أَحَدٍ وَمَا أَنَا بِأَحَقَّ بِهِ مِنْ أَحَدٍ وَاللَّهِ مَا مِنْ الْمُسْلِمِينَ أَحَدٌ إِلَّا وَلَهُ فِي هَذَا الْمَالِ نَصِيبٌ إِلَّا عَبْدًا مَمْلُوكًا وَلَكِنَّا عَلَى مَنَازِلِنَا مِنْ كِتَابِ اللَّهِ تَعَالَى وَقَسْمِنَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَالرَّجُلُ وَبَلَاؤُهُ فِي الْإِسْلَامِ وَالرَّجُلُ وَقَدَمُهُ فِي الْإِسْلَامِ وَالرَّجُلُ وَغَنَاؤُهُ فِي الْإِسْلَامِ وَالرَّجُلُ وَحَاجَتُهُ وَ وَاللَّهِ لَئِنْ بَقِيتُ لَهُمْ لَيَأْتِيَنَّ الرَّاعِيَ بِجَبَلِ صَنْعَاءَ حَظُّهُ مِنْ هَذَا الْمَالِ وَهُوَ يَرْعَى مَكَانَهُ-
مالک بن اوس کہتے ہیں کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ تین باتوں پر قسم کھایا کرتے تھے، وہ فرماتے تھے کہ اللہ کی قسم! اس مال کا ایک کی نسبت دوسرا کوئی شخص زیادہ حقدار نہیں (بلکہ سب برابر مستحق ہیں) اور میں بھی کسی دوسرے کی نسبت زیادہ مستحق نہیں ہوں، اللہ کی قسم! ہر مسلمان کا اس مال میں حق ہے سوائے اس غلام کے جو اپنے آقا کا اب تک مملوک ہے، البتہ ہم کتاب اللہ کے مطابق درجہ بندی کریں گے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا طریقہ کار حاصل کریں گے۔ چنانچہ ایک آدمی وہ ہے جس نے اسلام کی خاطر بڑی آزمائشیں برداشت کیں، ایک آدمی وہ ہے جو قدیم الاسلام ہو، ایک آدمی وہ ہے جو اسلام میں غنی رہا اور ایک آدمی وہ ہے جو ضرورت مند رہا، اللہ کی قسم! اگر میں زندہ رہا تو ایسا ہو کر رہے گا کہ جبل صنعاء سے ایک چرواہا آئے گا اور اس مال سے اپناحصہ وصول کرے گا اور اپنی جگہ جانور بھی چراتا رہے گا۔
-
حَدَّثَنَا عَبْدُ الْقُدُّوسِ بْنُ الْحَجَّاجِ حَدَّثَنَا صَفْوَانُ حَدَّثَنِي أَبُو الْمُخَارِقِ زُهَيْرُ بْنُ سَالِمٍ أَنَّ عُمَيْرَ بْنَ سَعْدٍ الْأَنْصَارِيَّ كَانَ وَلَّاهُ عُمَرُ حِمْصَ فَذَكَرَ الْحَدِيثَ قَالَ عُمَرُ يَعْنِي لِكَعْبٍ إِنِّي أَسْأَلُكَ عَنْ أَمْرٍ فَلَا تَكْتُمْنِي قَالَ وَاللَّهِ لَا أَكْتُمُكَ شَيْئًا أَعْلَمُهُ قَالَ مَا أَخْوَفُ شَيْءٍ تَخَوَّفُهُ عَلَى أُمَّةِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ أَئِمَّةً مُضِلِّينَ قَالَ عُمَرُ صَدَقْتَ قَدْ أَسَرَّ ذَلِكَ إِلَيَّ وَأَعْلَمَنِيهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے عمیر بن سعید کو حمص کا گورنر مقرر فرما رکھا تھا، ایک مرتبہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے فرمایا میں تم سے ایک سوال پوچھتا ہوں، مجھ سے کچھ نہ چھپانا، انہوں نے عرض کیا کہ مجھے جس چیز کا علم ہوگا، اسے نہیں چھپاؤں گا، فرمایا امت مسلمہ کے حوالے سے تمہیں سب سے زیادہ خطرناک بات کیا معلوم ہوتی ہے؟ عرض کیاگمراہ کن ائمہ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا آپ نے سچ کہا، مجھے یہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بتائی تھی۔
-
حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ حَدَّثَنَا أَبِي عَنْ صَالِحٍ قَالَ ابْنُ شِهَابٍ فَقَالَ سَالِمٌ فَسَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ يَقُولُ قَالَ عُمَرُ أَرْسِلُوا إِلَيَّ طَبِيبًا يَنْظُرُ إِلَى جُرْحِي هَذَا قَالَ فَأَرْسَلُوا إِلَى طَبِيبٍ مِنْ الْعَرَبِ فَسَقَى عُمَرَ نَبِيذًا فَشُبِّهَ النَّبِيذُ بِالدَّمِ حِينَ خَرَجَ مِنْ الطَّعْنَةِ الَّتِي تَحْتَ السُّرَّةِ قَالَ فَدَعَوْتُ طَبِيبًا آخَرَ مِنْ الْأَنْصَارِ مِنْ بَنِي مُعَاوِيَةَ فَسَقَاهُ لَبَنًا فَخَرَجَ اللَّبَنُ مِنْ الطَّعْنَةِ صَلْدًا أَبْيَضَ فَقَالَ لَهُ الطَّبِيبُ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ اعْهَدْ فَقَالَ عُمَرُ صَدَقَنِي أَخُو بَنِي مُعَاوِيَةَ وَلَوْ قُلْتَ غَيْرَ ذَلِكَ كَذَّبْتُكَ قَالَ فَبَكَى عَلَيْهِ الْقَوْمُ حِينَ سَمِعُوا ذَلِكَ فَقَالَ لَا تَبْكُوا عَلَيْنَا مَنْ كَانَ بَاكِيًا فَلْيَخْرُجْ أَلَمْ تَسْمَعُوا مَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ يُعَذَّبُ الْمَيِّتُ بِبُكَاءِ أَهْلِهِ عَلَيْهِ فَمِنْ أَجْلِ ذَلِكَ كَانَ عَبْدُ اللَّهِ لَا يُقِرُّ أَنْ يُبْكَى عِنْدَهُ عَلَى هَالِكٍ مِنْ وَلَدِهِ وَلَا غَيْرِهِمْ-
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے قاتلانہ حملہ میں زخمی ہونے کے بعد فرمایا میرے پاس طبیب کو بلا کر لاؤ جو میرے زخموں کی دیکھ بھال کرے، چنانچہ عرب کا ایک نامی گرامی طبیب بلایا گیا، اس نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو نبیذ پلائی، لیکن وہ ناف کے نیچے لگے ہوئے زخم سے نکل آئی اور اس کا رنگ خون کی طرح سرخ ہوچکا تھا ۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے اس کے بعد انصار کے بنو معاویہ میں سے ایک طبیب کو بلایا، اس نے آکر انہیں دودھ پلایا، وہ بھی ان کے زخم سے چکناسفید نکل آیا، طبیب نے یہ دیکھ کر کہا کہ امیرالمومنین! اب وصیت کر دیجئے، (یعنی اب بچنا مشکل ہے) حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ انہوں نے سچ کہا، اگر تم کوئی دوسری بات کہتے تو میں تمہاری بات نہ مانتا۔ یہ سن کر لوگ رونے لگے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا مجھ پر مت روؤ، جو رونا چاہتا ہے وہ باہر چلاجائے کیا تم لوگوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان نہیں سنا کہ میت کو اس کے اہل خانہ کے رونے سے عذاب ہوتا ہے، اسی وجہ سے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما اپنے بیٹوں یا کسی اور کے انتقال پر رونے والوں کو اپنے پاس نہیں بٹھاتے تھے۔
-
حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَنْبَأَنَا الثَّوْرِيُّ عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ قَالَ سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَقُولُ كَانَ أَهْلُ الْجَاهِلِيَّةِ لَا يُفِيضُونَ مِنْ جَمْعٍ حَتَّى يَرَوْا الشَّمْسَ عَلَى ثَبِيرٍ وَكَانُوا يَقُولُونَ أَشْرِقْ ثَبِيرُ كَيْمَا نُغِيرُ فَأَفَاضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ-
عمرو بن میمون کہتے ہیں کہ میں نے حضرت فاروق اعطم رضی اللہ عنہ کو یہ فرماتے ہوئے سناکہ مشرکین طلوع آفتاب سے پہلے واپس نہیں جاتے تھے، اور کہتے تھے کہ کوہ ثبیر روشن ہو تاکہ ہم حملہ کریں، جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مزدلفہ سے منی کی طرف طلوع آفتاب سے قبل ہی روانہ ہوگئے۔
-
حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَنْبَأَنَا مَعْمَرٌ عَنِ الزُّهْرِيِّ عَنْ عُرْوَةَ عَنِ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدٍ الْقَارِيِّ أَنَّهُمَا سَمِعَا عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَقُولُ مَرَرْتُ بِهِشَامِ بْنِ حَكِيمِ بْنِ حِزَامٍ يَقْرَأُ سُورَةَ الْفُرْقَانِ فِي حَيَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاسْتَمَعْتُ قِرَاءَتَهُ فَإِذَا هُوَ يَقْرَأُ عَلَى حُرُوفٍ كَثِيرَةٍ لَمْ يُقْرِئْنِيهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَكِدْتُ أَنْ أُسَاوِرَهُ فِي الصَّلَاةِ فَنَظَرْتُ حَتَّى سَلَّمَ فَلَمَّا سَلَّمَ لَبَّبْتُهُ بِرِدَائِهِ فَقُلْتُ مَنْ أَقْرَأَكَ هَذِهِ السُّورَةَ الَّتِي تَقْرَؤُهَا قَالَ أَقْرَأَنِيهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ قُلْتُ لَهُ كَذَبْتَ فَوَاللَّهِ إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَهُوَ أَقْرَأَنِي هَذِهِ السُّورَةَ الَّتِي تَقْرَؤُهَا قَالَ فَانْطَلَقْتُ أَقُودُهُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي سَمِعْتُ هَذَا يَقْرَأُ سُورَةَ الْفُرْقَانِ عَلَى حُرُوفٍ لَمْ تُقْرِئْنِيهَا وَأَنْتَ أَقْرَأْتَنِي سُورَةَ الْفُرْقَانِ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرْسِلْهُ يَا عُمَرُ اقْرَأْ يَا هِشَامُ فَقَرَأَ عَلَيْهِ الْقِرَاءَةَ الَّتِي سَمِعْتُهُ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَكَذَا أُنْزِلَتْ ثُمَّ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اقْرَأْ يَا عُمَرُ فَقَرَأْتُ الْقِرَاءَةَ الَّتِي أَقْرَأَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ هَكَذَا أُنْزِلَتْ ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ الْقُرْآنَ أُنْزِلَ عَلَى سَبْعَةِ أَحْرُفٍ فَاقْرَءُوا مِنْهُ مَا تَيَسَّرَ حَدَّثَنَا الْحَكَمُ بْنُ نَافِعٍ أَنْبَأَنَا شُعَيْبٌ عَنِ الزُّهْرِيِّ حَدَّثَنِي عُرْوَةُ عَنْ حَدِيثِ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدٍ الْقَارِيِّ أَنَّهُمَا سَمِعَا عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَقُولُ سَمِعْتُ هِشَامَ بْنَ حَكِيمِ بْنِ حِزَامٍ يَقْرَأُ سُورَةَ الْفُرْقَانِ فِي حَيَاةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاسْتَمَعْتُ لِقِرَاءَتِهِ فَإِذَا هُوَ يَقْرَأُ عَلَى حُرُوفٍ كَثِيرَةٍ لَمْ يُقْرِئْنِيهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَكِدْتُ أُسَاوِرُهُ فِي الصَّلَاةِ فَنَظَرْتُ حَتَّى سَلَّمَ فَلَمَّا سَلَّمَ فَذَكَرَ مَعْنَاهُ-
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے دور نبوت میں ہشام بن حکیم کے پاس سے گزرتے ہوئے انہیں سورت فرقان کی تلاوت کرتے ہوئے سنا، انہوں نے اس میں ایسے حروف کی تلاوت کی جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے نہیں پڑھائے تھے۔ میرا دل چاہا کہ میں ان سے نماز ہی میں پوچھ لوں، بہرحال فراغت کے بعد میں نے انہیں چادر سے گھسیٹ کر پوچھا کہ تمہیں سورت فرقان اس طرح کس نے پڑھائی ہے؟ انہوں نے کہا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے، میں نے کہا آپ جھوٹ بولتے ہیں، بخدا! نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بھی یہ سورت پڑھائی ہے۔ یہ کہہ کر میں نے ان کا ہاتھ پکڑا اور انہیں کھینچتا ہوا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوگیا اور عرض کیا یا رسول اللہ! آپ نے مجھے سورت فرقان خود پڑھائی ہے، میں نے اسے سورت فرقان کو ایسے حروف میں پڑھتے ہوئے سنا ہے جو آپ نے مجھے نہیں پڑھائے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عمر! اسے چھوڑ دو، پھر ہشام سے اس کی تلاوت کرنے کے لیے فرمایا، انہوں نے اسی طرح پڑھا جیسے وہ پہلے پڑھ رہے تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ سورت اسی طرح نازل ہوئی ہے، پھر مجھ سے کہا کہ عمر! تم بھی پڑھ کر سناؤ، چنانچہ میں نے بھی پڑھ کر سنادیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ اس طرح بھی نازل ہوئی ہے، اس کے بعد ارشاد فرمایا بے شک اس قرآن کا نزول سات قرائتوں پر ہوا ہے، لہٰذا تمہارے لیے جو آسان ہو اس کے مطابق تلاوت کرلیا کرو ۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے دور نبوت میں ہشام بن حکیم کے پاس سے گذرتے ہوئے انہیں سورت فرقان کی تلاوت کرتے ہوئے سنا، انہوں نے اس میں ایسے حروف کی تلاوت کی جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے نہیں پڑھائے تھے۔ میرا دل چاہا کہ میں ان سے نماز ہی میں پوچھ لوں، پھر انہوں نے مکمل حدیث ذکر کی۔
-
حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ عَنْ زَائِدَةَ عَنْ عَاصِمٍ عَنْ أَبِيهِ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ قَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ كَانَ مِنْكُمْ مُلْتَمِسًا لَيْلَةَ الْقَدْرِ فَلْيَلْتَمِسْهَا فِي الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ وِتْرًا-
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ شب قدر کو رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کیا کرو۔
-
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيهِ عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ عُمَرَ قِيلَ لَهُ أَلَا تَسْتَخْلِفُ فَقَالَ إِنْ أَتْرُكْ فَقَدْ تَرَكَ مَنْ هُوَ خَيْرٌ مِنِّي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَإِنْ أَسْتَخْلِفْ فَقَدْ اسْتَخْلَفَ مَنْ هُوَ خَيْرٌ مِنِّي أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ-
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کہا گیا کہ آپ اپنا خلیفہ کسی کو مقرر کر دیجئے؟ فرمایا اگر میں خلیفہ مقرر نہ کروں تو مجھ سے بہتر ذات نے بھی مقرر نہیں کیا تھا یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اور اگر مقرر کردوں تو مجھ سے بہتر ذات نے بھی مقرر کیا تھا یعنی حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے۔
-
حَدَّثَنَا يَزِيدُ أَنْبَأَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ أَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ إِبْرَاهِيمَ أَخْبَرَهُ أَنَّهُ سَمِعَ عَلْقَمَةَ بْنَ وَقَّاصٍ اللَّيْثِيَّ يَقُولُ إِنَّهُ سَمِعَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَهُوَ يَخْطُبُ النَّاسَ وَهُوَ يَقُولُ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ إِنَّمَا الْعَمَلُ بِالنِّيَّةِ وَإِنَّمَا لِامْرِئٍ مَا نَوَى فَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ إِلَى اللَّهِ وَإِلَى رَسُولِهِ فَهِجْرَتُهُ إِلَى اللَّهِ وَإِلَى رَسُولِهِ وَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ لِدُنْيَا يُصِيبُهَا أَوْ امْرَأَةٍ يَتَزَوَّجُهَا فَهِجْرَتُهُ إِلَى مَا هَاجَرَ إِلَيْهِ-
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اعمال کا دارومدار تو نیت پر ہے اور ہر انسان کو وہی ملے گا جس کی اس نے نیت کی ہو، سو جس شخص کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کی طرف ہو، تو اس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول ہی کی طرف ہوگی، اور جس کی ہجرت حصول دنیا کے لئے ہو یا کسی عورت سے نکاح کی خاطر ہو تو اس کی ہجرت اس چیز کی طرف ہوگی جس کی طرف اس نے کی۔
-
حَدَّثَنَا يَزِيدُ حَدَّثَنَا عَاصِمٌ عَنْ أَبِي عُثْمَانَ النَّهْدِيِّ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّهُ قَالَ اتَّزِرُوا وَارْتَدُوا وَانْتَعِلُوا وَأَلْقُوا الْخِفَافَ وَالسَّرَاوِيلَاتِ وَأَلْقُوا الرُّكُبَ وَانْزُوا نَزْوًا وَعَلَيْكُمْ بِالْمَعَدِّيَّةِ وَارْمُوا الْأَغْرَاضَ وَذَرُوا التَّنَعُّمَ وَزِيَّ الْعَجَمِ وَإِيَّاكُمْ وَالْحَرِيرَ فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ نَهَى عَنْهُ وَقَالَ لَا تَلْبَسُوا مِنْ الْحَرِيرِ إِلَّا مَا كَانَ هَكَذَا وَأَشَارَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِإِصْبَعَيْهِ-
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ تہبند بھی باندھا کرو اور جسم کے اوپر والے حصے پر چادر بھی ڈالا کرو، جوتے پہنا کرو، موزے اور شلوار چھوڑ دو، سواری کو گھٹنوں کے بل بٹھا کر اس پر سوار ہونے کی بجائے کود کرسوار ہوا کرو تاکہ تمہاری بہادری اور ہمت میں اضافہ ہو، قبیلہ معد کی سواریوں کو اپنے اوپر لازم کر لو، ہدف پر نشانہ لگانا سیکھو، ناز و نعمت، عیش پرستی اور عجم کے طور طریقے چھوڑ دو، اور ریشم سے اپنے آپ کو بچاؤ، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے اور فرمایا ہے کہ ریشم مت پہنو، سوائے اتنی مقدار کے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دو انگلیوں سے اشارہ فرمایا۔
-
حَدَّثَنَا يَزِيدُ أَنْبَأَنَا يَحْيَى عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ إِيَّاكُمْ أَنْ تَهْلِكُوا عَنْ آيَةِ الرَّجْمِ وَأَنْ يَقُولَ قَائِلٌ لَا نَجِدُ حَدَّيْنِ فِي كِتَابِ اللَّهِ تَعَالَى فَقَدْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجَمَ وَرَجَمْنَا بَعْدَهُ-
سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ آیت رجم کے حوالے سے اپنے آپ کو ہلاکت میں پڑنے سے بچانا، کہیں کوئی شخص یہ نہ کہنے لگے کہ کتاب اللہ میں تو ہمیں دو سزاؤں کا تذکرہ نہیں ملتا، میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی رجم کی سزا جاری کرتے ہوئے دیکھا ہے اور خود ہم نے بھی یہ سزاجاری کی ہے۔
-
حَدَّثَنَا يَزِيدُ أَنْبَأَنَا الْعَوَّامُ حَدَّثَنِي شَيْخٌ كَانَ مُرَابِطًا بِالسَّاحِلِ قَالَ لَقِيتُ أَبَا صَالِحٍ مَوْلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَقَالَ حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ لَيْسَ مِنْ لَيْلَةٍ إِلَّا وَالْبَحْرُ يُشْرِفُ فِيهَا ثَلَاثَ مَرَّاتٍ عَلَى الْأَرْضِ يَسْتَأْذِنُ اللَّهَ فِي أَنْ يَنْفَضِخَ عَلَيْهِمْ فَيَكُفُّهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ-
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کوئی رات ایسی نہیں گذرتی جس میں سمندر تین مرتبہ زمین پر جھانک کر نہ دیکھتا ہو، وہ ہر مرتبہ اللہ سے یہی اجازت مانگتا ہے کہ زمین والوں کو ڈبو دے، لیکن اللہ اسے ایسا کرنے سے روک دیتا ہے ۔
-
حَدَّثَنَا يَزِيدُ أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ عَنْ أَنَسِ بْنِ سِيرِينَ قَالَ قُلْتُ لِابْنِ عُمَرَ حَدِّثْنِي عَنْ طَلَاقِكَ امْرَأَتَكَ قَالَ طَلَّقْتُهَا وَهِيَ حَائِضٌ قَالَ فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَذَكَرَهُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُرْهُ فَلْيُرَاجِعْهَا فَإِذَا طَهُرَتْ فَلْيُطَلِّقْهَا فِي طُهْرِهَا قَالَ قُلْتُ لَهُ هَلْ اعْتَدَدْتَ بِالَّتِي طَلَّقْتَهَا وَهِيَ حَائِضٌ قَالَ فَمَا لِي لَا أَعْتَدُّ بِهَا وَإِنْ كُنْتُ قَدْ عَجَزْتُ وَاسْتَحْمَقْتُ-
انس بن سیرین کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے عرض کیا کہ اپنی زوجہ کو طلاق دینے کا واقعہ تو سنائیے، انہوں نے فرمایا کہ میں نے اپنی بیوی کو ایام کی حالت میں طلاق دے دے، اور یہ بات حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو بھی بتادی، انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا تذکرہ کیا تو انہوں نے فرمایا اس سے کہو کہ اپنی بیوی سے رجوع کرلے، جب وہ پاک ہوجائے تو ایام طہارت میں اسے طلاق دے دے، میں نے پوچھا کہ کیا آپ نے وہ طلاق شمار کی تھی جو ایام کی حالت میں دی تھی؟ انہوں نے کہا کہ اسے شمار نہ کرنے کی کیا وجہ تھی؟ انہوں نے کہا اگر میں ایسا کرتا تو لوگ مجھے بیوقوف سمجھتے۔
-
حَدَّثَنَا يَزِيدُ أَنْبَأَنَا أَصْبَغُ عَنْ أَبِي الْعَلَاءِ الشَّامِيِّ قَالَ لَبِسَ أَبُو أُمَامَةَ ثَوْبًا جَدِيدًا فَلَمَّا بَلَغَ تَرْقُوَتَهُ قَالَ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي كَسَانِي مَا أُوَارِي بِهِ عَوْرَتِي وَأَتَجَمَّلُ بِهِ فِي حَيَاتِي ثُمَّ قَالَ سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَقُولُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ اسْتَجَدَّ ثَوْبًا فَلَبِسَهُ فَقَالَ حِينَ يَبْلُغُ تَرْقُوَتَهُ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي كَسَانِي مَا أُوَارِي بِهِ عَوْرَتِي وَأَتَجَمَّلُ بِهِ فِي حَيَاتِي ثُمَّ عَمَدَ إِلَى الثَّوْبِ الَّذِي أَخْلَقَ أَوْ قَالَ أَلْقَى فَتَصَدَّقَ بِهِ كَانَ فِي ذِمَّةِ اللَّهِ تَعَالَى وَفِي جِوَارِ اللَّهِ وَفِي كَنَفِ اللَّهِ حَيًّا وَمَيِّتًا حَيًّا وَمَيِّتًا حَيًّا وَمَيِّتًا-
ابوالعلاء شامی کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ نے نیا لباس زیب تن کیا، جب وہ ان کی ہنسلی کی ہڈی تک پہنچا تو انہوں نے یہ دعاء پڑھی کہ اس اللہ کا شکر جس نے مجھے لباس پہنایا جس کے ذریعے میں اپنا ستر چھپاتا ہوں ، اور اپنی زندگی میں اس سے زینت حاصل کرتا ہوں، پھر فرمایا کہ میں نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص نیا کپڑا پہنے اور جب وہ اس کی ہنسلی کی ہڈی تک پہنچے تو یہ دعاء پڑھے (جس کا ترجمہ ابھی گذرا) اور پرانا کپڑاصدقہ کردے، وہ زندگی میں بھی اور زندگی کے بعد بھی اللہ کی حفاظت میں، اللہ کے پڑوس میں اور اللہ کی نگہبانی میں رہے گا۔
-
حَدَّثَنَا يَزِيدُ أَنْبَأَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ عَنْ نَافِعٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَحَدُنَا إِذَا أَرَادَ أَنْ يَنَامَ وَهُوَ جُنُبٌ كَيْفَ يَصْنَعُ قَبْلَ أَنْ يَغْتَسِلَ قَالَ يَتَوَضَّأُ وُضُوءَهُ لِلصَّلَاةِ ثُمَّ يَنَامُ-
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا اگر ہم میں سے کوئی شخص ناپاک ہوجائے اور وہ غسل کرنے سے پہلے سونا چاہے تو کیا کرے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نماز والا وضو کرکے سوجائے۔
-
حَدَّثَنَا يَزِيدُ أَنْبَأَنَا وَرْقَاءُ وَأَبُو النَّضْرِ قَالَ حَدَّثَنَا وَرْقَاءُ عَنْ عَبْدِ الْأَعْلَى الثَّعْلَبِيِّ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى قَالَ كُنْتُ مَعَ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ وَعُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فِي الْبَقِيعِ يَنْظُرُ إِلَى الْهِلَالِ فَأَقْبَلَ رَاكِبٌ فَتَلَقَّاهُ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَقَالَ مِنْ أَيْنَ جِئْتَ فَقَالَ مِنْ الْعَرَبِ قَالَ أَهْلَلْتَ قَالَ نَعَمْ قَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ اللَّهُ أَكْبَرُ إِنَّمَا يَكْفِي الْمُسْلِمِينَ الرَّجُلُ ثُمَّ قَامَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَتَوَضَّأَ فَمَسَحَ عَلَى خُفَّيْهِ ثُمَّ صَلَّى الْمَغْرِبَ ثُمَّ قَالَ هَكَذَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَنَعَ قَالَ أَبُو النَّضْرِ وَعَلَيْهِ جُبَّةٌ ضَيِّقَةُ الْكُمَّيْنِ فَأَخْرَجَ يَدَهُ مِنْ تَحْتِهَا وَمَسَحَ-
عبدالرحمن بن ابی لیلی کہتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھا، اس وقت حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ جنت البقیع میں چاند دیکھ رہے تھے کہ ایک سوار آدمی آیا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا اس سے آمنا سامنا ہوگیا، انہوں نے اس سے پوچھا کہ تم کسی طرف سے آرہے ہو؟ اس نے بتایا مغرب کی جانب سے، انہوں نے پوچھا کیا تم نے چاند دیکھا ہے؟ اس نے کہا جی ہاں ! میں نے شوال کا چاند دیکھ لیاہے، حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اللہ اکبر کہہ کر فرمایا مسلمانوں کے لئے ایک آدمی کی گواہی بھی کافی ہے، پھر خود کھڑے ہو کر ایک برتن سے جس میں پانی تھا، وضو کیا اور اپنے موزوں پر مسح کیا، اور مغرب کی نماز پڑھائی، اور فرمایا میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح کرتے ہوئے دیکھا ہے، اس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شامی جبہ پہن رکھا تھا جس کی آستینیں تنگ تھیں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ جبے کے نیچے سے نکال کر مسح کیا تھا ۔
-
حَدَّثَنَا يَزِيدُ أَخْبَرَنَا جَرِيرٌ أَنْبَأَنَا الزُّبَيْرُ بْنُ الْخِرِّيتِ عَنْ أَبِي لَبِيدٍ قَالَ خَرَجَ رَجُلٌ مِنْ طَاحِيَةَ مُهَاجِرًا يُقَالُ لَهُ بَيْرَحُ بْنُ أَسَدٍ فَقَدِمَ الْمَدِينَةَ بَعْدَ وَفَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِأَيَّامٍ فَرَآهُ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَعَلِمَ أَنَّهُ غَرِيبٌ فَقَالَ لَهُ مَنْ أَنْتَ قَالَ مِنْ أَهْلِ عُمَانَ قَالَ نَعَمْ قَالَ فَأَخَذَ بِيَدِهِ فَأَدْخَلَهُ عَلَى أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَقَالَ هَذَا مِنْ أَهْلِ الْأَرْضِ الَّتِي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ إِنِّي لَأَعْلَمُ أَرْضًا يُقَالُ لَهَا عُمَانُ يَنْضَحُ بِنَاحِيَتِهَا الْبَحْرُ بِهَا حَيٌّ مِنْ الْعَرَبِ لَوْ أَتَاهُمْ رَسُولِي مَا رَمَوْهُ بِسَهْمٍ وَلَا حَجَرٍ-
ابولبید کہتے ہیں کہ ایک آدمی جس کا نام بیرح بن اسد تھاطاحیہ نامی جگہ سے ہجرت کے ارادے سے روانہ ہوا جب وہ مدینہ منورہ پہنچا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئے کئی دن گذر چکے تھے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں دیکھا تو وہ انہیں اجنبی محسوس ہوا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس سے پوچھا آپ کون ہو؟ اس نے کہا کہ میرا تعلق عمان سے ہے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اچھا کہا اور اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں لے گئے، اور عرض کیا کہ ان کا تعلق اس سر زمین سے ہے جس کے متعلق میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ میں ایک ایسے شہر کو جانتا ہوں جس کا نام عمان ہے اس کے ایک کنارے سمندر بہتا ہے، وہاں عرب کا ایک قبیلہ بھی آباد ہے، اگر میرا قاصد ان کے پاس گیا ہے تو انہوں نے اسے کوئی تیر یا پتھر نہیں مارا۔
-
حَدَّثَنَا يَزِيدُ أَنْبَأَنَا عَاصِمُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ أَبِيهِ عَنِ ابْنِ عُمَرَ عَنْ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ لَا أَعْلَمُهُ إِلَّا رَفَعَهُ قَالَ يَقُولُ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى مَنْ تَوَاضَعَ لِي هَكَذَا وَجَعَلَ يَزِيدُ بَاطِنَ كَفِّهِ إِلَى الْأَرْضِ وَأَدْنَاهَا إِلَى الْأَرْضِ رَفَعْتُهُ هَكَذَا وَجَعَلَ بَاطِنَ كَفِّهِ إِلَى السَّمَاءِ وَرَفَعَهَا نَحْوَ السَّمَاءِ-
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث قدسی مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں جو شخص میرے لیے اتنا سا جھکتا ہے، راوی نے زمین کے قریب اپنے ہاتھ کو لے جا کر کہا، تو میں اسے اتنا بلند کر دیتا ہوں، راوی نے آسمان کی طرف اپنا ہاتھ اٹھا کر دکھایا۔ فائدہ : یعنی تواضع اختیار کرنے والے کو اللہ کی طرف سے رفعتیں اور عظمتیں عطاء ہوتی ہیں ۔
-
حَدَّثَنَا يَزِيدُ أَنْبَأَنَا دَيْلَمُ بْنُ غَزْوَانَ الْعَبْدِيُّ حَدَّثَنَا مَيْمُونٌ الْكُرْدِيُّ عَنْ أَبِي عُثْمَانَ النَّهْدِيِّ قَالَ إِنِّي لَجَالِسٌ تَحْتَ مِنْبَرِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَهُوَ يَخْطُبُ النَّاسَ فَقَالَ فِي خُطْبَتِهِ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ إِنَّ أَخْوَفَ مَا أَخَافُ عَلَى هَذِهِ الْأُمَّةِ كُلُّ مُنَافِقٍ عَلِيمِ اللِّسَانِ-
ابو عثمان نہدی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے منبر کے نیچے بیٹھا ہوا تھا اور وہ لوگوں کے سامنے خطبہ دے رہے تھے، انہوں نے اپنے خطبے میں فرمایا کہ میں نے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے کہ مجھے اپنی امت کے متعلق سب سے زیادہ خطرہ اس منافق سے ہے جو زبان دان ہو۔
-
حَدَّثَنَا رَوْحٌ حَدَّثَنَا مَالِكٌ ح وَحَدَّثَنَا إِسْحَاقُ أَخْبَرَنِي مَالِكٌ قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ عَبْد اللَّهِ بْن أَحْمَد و حَدَّثَنَا مُصْعَبٌ الزُّبَيْرِيُّ حَدَّثَنِي مَالِكٌ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَبِي أُنَيْسَةَ أَنَّ عَبْدَ الْحَمِيدِ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ زَيْدِ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَخْبَرَهُ عَنْ مُسْلِمِ بْنِ يَسَارٍ الْجُهَنِيِّ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ سُئِلَ عَنْ هَذِهِ الْآيَةِ وَإِذْ أَخَذَ رَبُّكَ مِنْ بَنِي آدَمَ مِنْ ظُهُورِهِمْ ذُرِّيَّاتِهِمْ الْآيَةَ فَقَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُئِلَ عَنْهَا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ اللَّهَ خَلَقَ آدَمَ ثُمَّ مَسَحَ ظَهْرَهُ بِيَمِينِهِ وَاسْتَخْرَجَ مِنْهُ ذُرِّيَّةً فَقَالَ خَلَقْتُ هَؤُلَاءِ لِلْجَنَّةِ وَبِعَمَلِ أَهْلِ الْجَنَّةِ يَعْمَلُونَ ثُمَّ مَسَحَ ظَهْرَهُ فَاسْتَخْرَجَ مِنْهُ ذُرِّيَّةً فَقَالَ خَلَقْتُ هَؤُلَاءِ لِلنَّارِ وَبِعَمَلِ أَهْلِ النَّارِ يَعْمَلُونَ فَقَالَ رَجُلٌ يَا رَسُولَ اللَّهِ فَفِيمَ الْعَمَلُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ إِذَا خَلَقَ الْعَبْدَ لِلْجَنَّةِ اسْتَعْمَلَهُ بِعَمَلِ أَهْلِ الْجَنَّةِ حَتَّى يَمُوتَ عَلَى عَمَلٍ مِنْ أَعْمَالِ أَهْلِ الْجَنَّةِ فَيُدْخِلَهُ بِهِ الْجَنَّةَ وَإِذَا خَلَقَ الْعَبْدَ لِلنَّارِ اسْتَعْمَلَهُ بِعَمَلِ أَهْلِ النَّارِ حَتَّى يَمُوتَ عَلَى عَمَلٍ مِنْ أَعْمَالِ أَهْلِ النَّارِ فَيُدْخِلَهُ بِهِ النَّارَ-
مسلم بن یسار الجہنی کہتے ہیں کہ کسی نے حضت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے اس آیت کا مطلب پوچھا واذ اخذ ربک من بنی آدم من ظہورہم ذریتہم تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی اس نوعیت کا سوال کسی کو پوچھتے ہوئے سنا تھا، اس موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا جواب یہ ارشاد فرمایا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کی جب تخلیق فرمائی تو کچھ عرصے بعد ان کی پشت پر اپنا دایاں ہاتھ پھیرا اور ان کی اولاد کو نکالا اور فرمایا کہ میں نے ان لوگوں کو جنت کے لئے اور اہل جنت کے اعمال کرنے کے لیے پیدا کیا ہے۔ اس کے بعد دوبارہ ہاتھ پھیر کر ان کی کچھ اور اولاد کو نکالا اور فرمایا میں نے ان لوگوں کو جہنم کے لیے اور اہل جہنم کے اعمال کرنے کے لیے پیدا کیا ہے، ایک آدمی نے یہ سن کر عرض کیا یا رسول اللہ! پھر عمل کا کیا فائدہ؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ نے جب کسی بندے کو جنت کے لیے پیدا کیا ہے تو اسے اہل جنت کے کاموں میں لگائے رکھے گا یہاں تک کہ وہ جنتیوں والے اعمال کرتے ہوئے دنیا سے رخصت ہوجائے اور اس کی برکت سے جنت میں داخل ہوجائے، اور اگر کسی بندے کو جہنم کے لیے پیدا کیا ہے تو وہ اسے اہل جہنم کے کاموں میں لگائے رکھے گا، یہاں تک کہ جہنمیوں کے اعمال کرتا ہوا وہ دنیا سے رخصت ہوجائے گا اور ان کی نحوست سے جہنم میں داخل ہو جائے گا۔
-
حَدَّثَنَا رَوْحٌ حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ عَنِ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا عَنْ أَبِيهِ أَنَّ رَجُلًا مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ الْمَسْجِدَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ وَعُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَائِمٌ يَخْطُبُ فَقَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَيَّةُ سَاعَةٍ هَذِهِ فَقَالَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ انْقَلَبْتُ مِنْ السُّوقِ فَسَمِعْتُ النِّدَاءَ فَمَا زِدْتُ عَلَى أَنْ تَوَضَّأْتُ فَأَقْبَلْتُ فَقَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ الْوُضُوءُ أَيْضًا وَقَدْ عَلِمْتَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَأْمُرُنَا بِالْغُسْلِ-
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ جمعہ کے دن خطبہ ارشاد فرما رہے تھے، دوران خطبہ ایک صاحب آئے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے پوچھا کہ یہ کون سا وقت ہے آنے کا؟ انہوں نے جوابا کہا کہ امیرالمومنین! میں بازار سے واپس آیا تھا، میں نے تو جیسے ہی اذان سنی، وضو کرتے ہی آگیا ہوں، حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا اوپر سے وضو بھی؟ جبکہ آپ جانتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے لیے غسل کرنے کا حکم دیتے تھے۔
-
حَدَّثَنَا رَوْحٌ حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ أَخْبَرَنِي سُلَيْمَانُ بْنُ عَتِيقٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بَابَيْهِ عَنْ بَعْضِ بَنِي يَعْلَى عَنْ يَعْلَى بْنِ أُمَيَّةَ قَالَ طُفْتُ مَعَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَاسْتَلَمَ الرُّكْنَ قَالَ يَعْلَى فَكُنْتُ مِمَّا يَلِي الْبَيْتَ فَلَمَّا بَلَغْتُ الرُّكْنَ الْغَرْبِيَّ الَّذِي يَلِي الْأَسْوَدَ جَرَرْتُ بِيَدِهِ لِيَسْتَلِمَ فَقَالَ مَا شَأْنُكَ فَقُلْتُ أَلَا تَسْتَلِمُ قَالَ أَلَمْ تَطُفْ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ بَلَى فَقَالَ أَفَرَأَيْتَهُ يَسْتَلِمُ هَذَيْنِ الرُّكْنَيْنِ الْغَرْبِيَّيْنِ قَالَ فَقُلْتُ لَا قَالَ أَفَلَيْسَ لَكَ فِيهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ قَالَ قُلْتُ بَلَى قَالَ فَانْفُذْ عَنْكَ-
حضرت یعلی بن امیہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے ساتھ طواف کیا، انہوں نے حجر اسود کا استلام کیا، جب میں رکن یمانی پر پہنچا تو میں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ لیا تاکہ وہ استلام کرلیں، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا تمہیں کیا ہوا؟ میں نے کہا کیا آپ استلام نہیں کریں گے؟ انہوں نے فرمایا کیا آپ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کبھی طواف نہیں کیا؟ میں نے عرض کیا کیوں نہیں! فرمایا تو کیا آپ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا استلام کرتے ہوئے دیکھاہے؟ میں نے کہا نہیں! انہوں نے فرمایا کیا جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں تمہارے لیے اسوہ حسنہ موجود نہیں ہے؟ میں نے عرض کیا کیوں نہیں، انہوں نے فرمایا پھر اسے چھوڑ دو۔
-
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ وَأَبُو عَامِرٍ قَالَ حَدَّثَنَا مَالِكٌ عَنِ الزُّهْرِيِّ عَنْ مَالِكِ بْنِ أَوْسِ بْنِ الْحَدَثَانِ قَالَ جِئْتُ بِدَنَانِيرَ لِي فَأَرَدْتُ أَنْ أَصْرِفَهَا فَلَقِيَنِي طَلْحَةُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ فَاصْطَرَفَهَا وَأَخَذَهَا فَقَالَ حَتَّى يَجِيءَ سَلْمٌ خَازِنِي قَالَ أَبُو عَامِرٍ مِنْ الْغَابَةِ وَقَالَ فِيهَا كُلِّهَا هَاءَ وَهَاءَ قَالَ فَسَأَلْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ ذَلِكَ فَقَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ الذَّهَبُ بِالْوَرِقِ رِبًا إِلَّا هَاءَ وَهَاءَ وَالْبُرُّ بِالْبُرِّ رِبًا إِلَّا هَاءَ وَهَاءَ وَالشَّعِيرُ بِالشَّعِيرِ رِبًا إِلَّا هَاءَ وَهَاءَ وَالتَّمْرُ بِالتَّمْرِ رِبًا إِلَّا هَاءَ وَهَاءَ-
حضرت مالک بن اوس بن الحدثان کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں سونے کے بدلے چاندی حاصل کرنے کے لیے اپنے کچھ دینار لے کر آیا، راستے میں حضرت طلحۃ رضی اللہ عنہ سے ملاقات ہوگئی، انہوں نے مجھ سے سونے کے بدلے چاندی کا معاملہ طے کرلیا اور میرے دینار پکڑ لیے اور کہنے لگے کہ ذرا رکیے ہمارا خازن غابہ سے آتا ہی ہوگا، میں نے حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ سے اس کا حکم پوچھا تو انہوں نے فرمایا میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سناہے کہ سونے کی چاندی کے بدلے خریدوفروخت سود ہے الا یہ کہ معاملہ نقد ہو، اسی طرح کھجور کے بدلے کھجور کی بیع سود ہے الا یہ کہ معاملہ نقد ہو۔
-
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ أَخْبَرَنَا يُونُسُ عَنِ الزُّهْرِيِّ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ أَنَّ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنَّ الْمَيِّتَ يُعَذَّبُ بِبُكَاءِ أَهْلِهِ عَلَيْهِ-
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا میت پر اس کے اہل خانہ کے رونے دھونے کی وجہ سے عذاب ہوتا ہے۔
-
حَدَّثَنَا بَكْرُ بْنُ عِيسَى حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ عَنِ الْمُغِيرَةِ عَنِ الشَّعْبِيِّ عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ قَالَ أَتَيْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فِي أُنَاسٍ مِنْ قَوْمِي فَجَعَلَ يَفْرِضُ لِلرَّجُلِ مِنْ طَيِّئٍ فِي أَلْفَيْنِ وَيُعْرِضُ عَنِّي قَالَ فَاسْتَقْبَلْتُهُ فَأَعْرَضَ عَنِّي ثُمَّ أَتَيْتُهُ مِنْ حِيَالِ وَجْهِهِ فَأَعْرَضَ عَنِّي قَالَ فَقُلْتُ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ أَتَعْرِفُنِي قَالَ فَضَحِكَ حَتَّى اسْتَلْقَى لِقَفَاهُ ثُمَّ قَالَ نَعَمْ وَاللَّهِ إِنِّي لَأَعْرِفُكَ آمَنْتَ إِذْ كَفَرُوا وَأَقْبَلْتَ إِذْ أَدْبَرُوا وَوَفَيْتَ إِذْ غَدَرُوا وَإِنَّ أَوَّلَ صَدَقَةٍ بَيَّضَتْ وَجْهَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَوُجُوهَ أَصْحَابِهِ صَدَقَةُ طَيِّئٍ جِئْتَ بِهَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ أَخَذَ يَعْتَذِرُ ثُمَّ قَالَ إِنَّمَا فَرَضْتُ لِقَوْمٍ أَجْحَفَتْ بِهِمْ الْفَاقَةُ وَهُمْ سَادَةُ عَشَائِرِهِمْ لِمَا يَنُوبُهُمْ مِنْ الْحُقُوقِ-
حضرت عدی بن حاتم کہتے ہیں کہ میں اپنی قوم کے کچھ لوگوں کے ساتھ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے پاس آیا، انہوں نے بنو طئی کے ایک آدمی کو دوہزار دئیے لیکن مجھ سے اعراض کیا، میں ان کے سامنے آیا تب بھی انہوں نے اعراض کیا، میں ان کے چہرے کے رخ کی جانب سے آیا لیکن انہوں نے پھر بھی اعراض کیا، یہ دیکھ کر میں نے کہا امیرالمومنین! آپ مجھے پہچانتے ہیں؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ہنسنے لگے، پھر چت لیٹ گئے اور فرمایا ہاں! اللہ کی قسم! میں آپ کو جانتاہوں، جب یہ کافر تھے آپ نے اس وقت اسلام قبول کیا تھا، جب انہوں نے پیٹھ پھیر رکھی تھی آپ متوجہ ہوگئے تھے، جب انہوں نے عہد شکنی کی تھی تب آپ نے وعدہ وفا کیا تھا، اور سب سے پہلا وہ مال صدقہ جسے دیکھ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے چہرے کھل اٹھے تھے بنو طئی کی طرف سے آنے والا وہ مال تھا جو آپ ہی لے کر آئے تھے۔ اس کے بعد حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ ان سے معذرت کرتے ہوئے فرمانے لگے میں نے ان لوگوں کو مال دیا ہے جنہیں فقروفاقہ اور تنگدستی نے کمزور کر رکھا ہے، اور یہ لوگ اپنے اپنے قبیلے کے سردار ہیں، کیونکہ ان پر حقوق کی نیاب کی ذمہ داری ہے۔
-
حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ عَمْرٍو حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ عَنْ أَبِيهِ قَالَ سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَقُولُ فِيمَا الرَّمَلَانُ الْآنَ وَالْكَشْفُ عَنْ الْمَنَاكِبِ وَقَدْ أَطَّأَ اللَّهُ الْإِسْلَامَ وَنَفَى الْكُفْرَ وَأَهْلَهُ وَمَعَ ذَلِكَ لَا نَدَعُ شَيْئًا كُنَّا نَفْعَلُهُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-
حضرت عمر فاروق رضی اللہ نے ایک مرتبہ فرمایا کہ اب طواف کے دوران جبکہ اللہ نے اسلام کو شان و شوکت عطاء فرمادی، اور کفرواہل کفر کو ذلیل کرکے نکال دیا رمل اور کندھے خالی کرنے کی کوئی ضرورت نہیں رہی لیکن اس کے باوجود ہم اسے ترک نہیں کریں گے کیونکہ ہم اسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے کرتے چلے آرہے ہیں ۔
-
حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ وَعَفَّانُ قَالَا حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ أَبِي الْفُرَاتِ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بُرَيْدَةَ قَالَ عَفَّانُ عَنِ ابْنِ بُرَيْدَةَ عَنْ أَبِي الْأَسْوَدِ الدِّيلِيِّ قَالَ أَتَيْتُ الْمَدِينَةَ وَقَدْ وَقَعَ بِهَا مَرَضٌ قَالَ عَبْدُ الصَّمَدِ فَهُمْ يَمُوتُونَ مَوْتًا ذَرِيعًا فَجَلَسْتُ إِلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَمَرَّتْ بِهِ جَنَازَةٌ فَأُثْنِيَ عَلَى صَاحِبِهَا خَيْرٌ فَقَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَجَبَتْ ثُمَّ مُرَّ بِأُخْرَى فَأُثْنِيَ عَلَى صَاحِبِهَا خَيْرٌ فَقَالَ وَجَبَتْ ثُمَّ مُرَّ بِأُخْرَى فَأُثْنِيَ عَلَيْهَا شَرٌّ فَقَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَجَبَتْ فَقَالَ أَبُو الْأَسْوَدِ فَقُلْتُ لَهُ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ مَا وَجَبَتْ فَقَالَ قُلْتُ كَمَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيُّمَا مُسْلِمٍ شَهِدَ لَهُ أَرْبَعَةٌ بِخَيْرٍ إِلَّا أَدْخَلَهُ اللَّهُ الْجَنَّةَ قَالَ قُلْنَا وَثَلَاثَةٌ قَالَ وَثَلَاثَةٌ قُلْنَا وَاثْنَانِ قَالَ وَاثْنَانِ قَالَ وَلَمْ نَسْأَلْهُ عَنْ الْوَاحِدِ-
ابوالاسود رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہوا، وہاں پہنچا تو پتہ چلا کہ وہاں کوئی بیماری پھیلی ہوئی ہے جس سے لوگ بکثرت مر رہے ہیں، میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی مجلس میں بیٹھا ہوا تھا کہ وہاں سے ایک جنازہ کا گذر ہوا، لوگوں نے اس مردے کی تعریف کی، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا واجب ہوگئی، پھر دوسرا جنازہ گذرا، لوگوں نے اس کی بھی تعریف کی، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پھر فرمایا واجب ہو گئی، تیسرا جنازہ گذرا تو لوگوں نے اس کی برائی بیان کی، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پھر فرمایا واجب ہوگئی، میں نے بالآخر پوچھ ہی لیا کہ امیرالمومنین! کیا چیز واجب ہوگئی؟ انہوں نے فرمایا میں نے تو وہی کہا ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ جس مسلمان کے لیے چار آدمی خیر کی گواہی دے دیں تواس کے لیے جنت واجب ہوگئی، ہم نے عرض کیا اگر تین آدمی ہوں؟ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تب بھی یہی حکم ہے، ہم نے دو کے متعلق پوچھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دو ہوں تب بھی یہی حکم ہے، پھر ہم نے خود ہی ایک کے متعلق سوال نہیں کیا۔
-
حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ حَدَّثَنَا حَرْبٌ يَعْنِي ابْنَ شَدَّادٍ حَدَّثَنَا يَحْيَى حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ حَدَّثَنَا أَبُو هُرَيْرَةَ قَالَ بَيْنَمَا عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَخْطُبُ إِذْ جَاءَ رَجُلٌ فَجَلَسَ فَقَالَ عُمَرُ لِمَ تَحْتَبِسُونَ عَنْ الْجُمُعَةِ فَقَالَ الرَّجُلُ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ مَا هُوَ إِلَّا أَنْ سَمِعْتُ النِّدَاءَ فَتَوَضَّأْتُ ثُمَّ أَقْبَلْتُ فَقَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَأَيْضًا أَلَمْ تَسْمَعُوا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ إِذَا رَاحَ أَحَدُكُمْ إِلَى الْجُمُعَةِ فَلْيَغْتَسِلْ حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ حَدَّثَنِي أَبِي حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ الْمُعَلِّمُ حَدَّثَنَا يَحْيَى أَخْبَرَنِي أَبُو سَلَمَةَ أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَخْبَرَهُ أَنَّ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ بَيْنَا هُوَ يَخْطُبُ فَذَكَرَهُ-
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ جمعہ کے دن خطبہ ارشاد فرما رہے تھے، دوران خطبہ ایک صاحب آکر بیٹھ گئے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے پوچھا نماز سے کیوں رکے رہے انہوں نے جوابا کہا کہ امیرالمومنین! میں بازار سے واپس آیا تھا، میں نے تو جیسے ہی اذان سنی، وضو کرتے ہی آگیا ہوں ، حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا اچھا کیا تم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے نہیں سنا ہے کہ جب تم میں سے کوئی شخص جمعہ کے لئے جائے تو اسے غسل کر لینا چاہیے۔ گذشتہ روایت اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔
-
حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ حَدَّثَنَا حَرْبٌ حَدَّثَنَا يَحْيَى عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حِطَّانَ فِيمَا يَحْسِبُ حَرْبٌ أَنَّهُ سَأَلَ ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ لَبُوسِ الْحَرِيرِ فَقَالَ سَلْ عَنْهُ عَائِشَةَ فَسَأَلَ عَائِشَةَ فَقَالَتْ سَلْ ابْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَسَأَلَ ابْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَقَالَ حَدَّثَنِي أَبُو حَفْصٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ لَبِسَ الْحَرِيرَ فِي الدُّنْيَا فَلَا خَلَاقَ لَهُ فِي الْآخِرَةِ-
عمران بن حطان نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے ریشمی لباس کی بابت سوال کیا، انہوں نے کہا کہ اس کا جواب حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھو، عمران نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے پوچھو، انہوں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے پوچھا تو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے اپنے والد محترم کے حوالے سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد نقل کیا کہ جو شخص دنیا میں ریشم پہنتا ہے، اس کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہے۔
-
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَمَّادٍ وَعَفَّانُ قَالَا حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ عَنْ دَاوُدَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْأَوْدِيِّ عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحِمْيَرِيِّ حَدَّثَنَا ابْنُ عَبَّاسٍ بِالْبَصْرَةِ قَالَ أَنَا أَوَّلُ مَنْ أَتَى عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ حِينَ طُعِنَ فَقَالَ احْفَظْ عَنِّي ثَلَاثًا فَإِنِّي أَخَافُ أَنْ لَا يُدْرِكَنِي النَّاسُ أَمَّا أَنَا فَلَمْ أَقْضِ فِي الْكَلَالَةِ قَضَاءً وَلَمْ أَسْتَخْلِفْ عَلَى النَّاسِ خَلِيفَةً وَكُلُّ مَمْلُوكٍ لَهُ عَتِيقٌ فَقَالَ لَهُ النَّاسُ اسْتَخْلِفْ فَقَالَ أَيَّ ذَلِكَ أَفْعَلُ فَقَدْ فَعَلَهُ مَنْ هُوَ خَيْرٌ مِنِّي إِنْ أَدَعْ إِلَى النَّاسِ أَمْرَهُمْ فَقَدْ تَرَكَهُ نَبِيُّ اللَّهِ عَلَيْهِ الصَّلَاة وَالسَّلَامُ وَإِنْ أَسْتَخْلِفْ فَقَدْ اسْتَخْلَفَ مَنْ هُوَ خَيْرٌ مِنِّي أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَقُلْتُ لَهُ أَبْشِرْ بِالْجَنَّةِ صَاحَبْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَطَلْتَ صُحْبَتَهُ وَوُلِّيتَ أَمْرَ الْمُؤْمِنِينَ فَقَوِيتَ وَأَدَّيْتَ الْأَمَانَةَ فَقَالَ أَمَّا تَبْشِيرُكَ إِيَّايَ بِالْجَنَّةِ فَوَاللَّهِ لَوْ أَنَّ لِي قَالَ عَفَّانُ فَلَا وَاللَّهِ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ لَوْ أَنَّ لِي الدُّنْيَا بِمَا فِيهَا لَافْتَدَيْتُ بِهِ مِنْ هَوْلِ مَا أَمَامِي قَبْلَ أَنْ أَعْلَمَ الْخَبَرَ وَأَمَّا قَوْلُكَ فِي أَمْرِ الْمُؤْمِنِينَ فَوَاللَّهِ لَوَدِدْتُ أَنَّ ذَلِكَ كَفَافًا لَا لِي وَلَا عَلَيَّ وَأَمَّا مَا ذَكَرْتَ مِنْ صُحْبَةِ نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَلِكَ-
حمید بن عبدالرحمن کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ بصرہ میں ہمیں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے یہ حدیث سنائی کہ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ قاتلانہ حملے میں زخمی ہوئے تو سب سے پہلے ان کے پاس پہنچنے والا میں ہی تھا، انہوں نے فرمایا کہ میری تین باتیں یاد رکھو، کیونکہ مجھے خطرہ ہے کہ لوگ جب تک آئیں گے اس وقت تک میں نہیں بچوں گا اور لوگ مجھے نہ پاسکیں گے، کلالہ کے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں کرتا، لوگوں پر اپنا نائب اور خلیفہ کسی کو نامزد نہیں کرتا، اور میرا ہر غلام آزاد ہے ۔ لوگوں نے ان سے عرض کیا کہ امیرالمومنین! کسی کو اپنا خلفیہ نامزد کر دیجئے، انہوں نے فرمایا کہ میں جس پہلو کو بھی اختیار کروں، اسے مجھ سے بہتر ذات نے اختیار کیا ہے، چنانچہ اگر میں لوگوں کا معاملہ ان ہی کے حوالے کردوں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ایسا ہی کیا تھا، اور اگر کسی کو اپنا خلیفہ مقرر کردوں تو مجھ سے بہتر ذات نے بھی اپنا خلیفہ مقرر کیا تھا یعنی حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے۔ میں نے عرض کیا کہ آپ کو جنت کی بشارت ہو، آپ کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہم نشینی کاشرف حاصل ہوا، اور طویل موقع ملا، اس کے بعد آپ کو امیرالمومنین بنایا گیا تو آپ نے اپنے مضبوط ہونے کا ثبوت پیش کیا اور امانت کو ادا کیا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرمانے لگے کہ تم نے مجھے جنت کی جو بشارت دی ہے، اللہ کی قسم! اگر میرے پاس دنیاومافیہا کی نعمتیں اور خزانے ہوتے تو اصل صورت حال واضح ہونے سے پہلے اپنے سامنے پیش آنے والے ہولناک واقعات و مناظر کے فدئیے میں دے دیتا، اور مسلمانوں پر خلافت کا جو تم نے ذکر کیا ہے تو بخدا! میری تمنا ہے کہ برابر سرابر چھوٹ جاؤں، نہ میرا کوئی فائدہ ہو اور نہ مجھ پر کوئی وبال ہو، البتہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہم نشینی کا جو تم نے ذکر کیا ہے، وہ صحیح ہے۔
-
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَيَّاشٍ عَنْ حَكِيمِ بْنِ حَكِيمٍ عَنْ أَبِي أُمَامَةَ بْنِ سَهْلٍ قَالَ كَتَبَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ إِلَى أَبِي عُبَيْدَةَ بْنِ الْجَرَّاحِ أَنْ عَلِّمُوا غِلْمَانَكُمْ الْعَوْمَ وَمُقَاتِلَتَكُمْ الرَّمْيَ فَكَانُوا يَخْتَلِفُونَ إِلَى الْأَغْرَاضِ فَجَاءَ سَهْمٌ غَرْبٌ إِلَى غُلَامٍ فَقَتَلَهُ فَلَمْ يُوجَدْ لَهُ أَصْلٌ وَكَانَ فِي حَجْرِ خَالٍ لَهُ فَكَتَبَ فِيهِ أَبُو عُبَيْدَةَ إِلَى عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ إِلَى مَنْ أَدْفَعُ عَقْلَهُ فَكَتَبَ إِلَيْهِ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقُولُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ مَوْلَى مَنْ لَا مَوْلَى لَهُ وَالْخَالُ وَارِثُ مَنْ لَا وَارِثَ لَهُ-
حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے حضرت ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ کے نام ایک خط میں لکھا کہ اپنے لڑکوں کو تیرنا اور اپنے جنگجوؤں کو تیر اندازی کرنا سکھاؤ، چنانچہ مختلف چیزوں کو نشانہ بنا کر تیر اندازی سیکھنے لگے، اسی تناظر میں ایک بچے کو نامعلوم تیر لگا، جس سے وہ جاں بحق ہوگیا، اس کاصرف ایک ہی وارث تھا اور وہ تھا اس کا ماموں، حضرت ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ نے اس سلسلے میں حضرت فاروق اعطم رضی اللہ عنہ کی خدمت میں خط لکھا، انہوں نے جوابا لکھ بھیجا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ جس کا کوئی مولیٰ نہ ہو، اللہ و رسول اس کے مولی ہیں، اور جس کا کوئی وارث نہ ہو، ماموں ہی اس کا وارث ہوگا۔
-
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ زَيْدٍ أَخْبَرَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ يَرِثُ الْوَلَاءَ مَنْ وَرِثَ الْمَالَ مِنْ وَالِدٍ أَوْ وَلَدٍ-
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے کہ مال کی وراثت اسی کو ملے گی جسے ولاء ملے گی خواہ وہ باپ ہو یا بیٹا۔
-
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ عَنْ إِبْرَاهِيمَ عَنْ عَابِسِ بْنِ رَبِيعَةَ قَالَ رَأَيْتُ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَتَى الْحَجَرَ فَقَالَ أَمَا وَاللَّهِ إِنِّي لَأَعْلَمُ أَنَّكَ حَجَرٌ لَا تَضُرُّ وَلَا تَنْفَعُ وَلَوْلَا أَنِّي رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَبَّلَكَ مَا قَبَّلْتُكَ ثُمَّ دَنَا فَقَبَّلَهُ-
عابس بن ربیعہ کہتے ہیں کہ میں نے ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ وہ حجر اسود کے قریب آئے اور اس سے مخاطب ہو کر فرمایا بخدا! میں جانتا ہوں کہ تو محض ایک پتھر ہے جو کسی کو نفع و نقصان نہیں دے سکتا، اگر میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تیرا بوسہ لیتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو میں تجھے کبھی بوسہ نہ دیتا، یہ کہہ کر آپ نے اسے قریب ہو کر بوسہ دیا۔
-
حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ حَدَّثَنَا دُجَيْنٌ أَبُو الْغُصْنِ بَصْرِيٌّ قَالَ قَدِمْتُ الْمَدِينَةَ فَلَقِيتُ أَسْلَمَ مَوْلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَقُلْتُ حَدِّثْنِي عَنْ عُمَرَ فَقَالَ لَا أَسْتَطِيعُ أَخَافُ أَنْ أَزِيدَ أَوْ أَنْقُصَ كُنَّا إِذَا قُلْنَا لِعُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ حَدِّثْنَا عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ أَخَافُ أَنْ أَزِيدَ حَرْفًا أَوْ أَنْقُصَ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ كَذَبَ عَلَيَّ فَهُوَ فِي النَّارِ-
دجین جن کی کنیت ابوالغصن تھی کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں مدینہ منورہ آیا، وہاں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے آزاد کردہ غلام اسلم سے ملاقات ہوئی، میں نے ان سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی کوئی حدیث سنانے کی فرمائش کی، انہوں نے معذرت کی اور فرمایا کہ مجھے کمی بیشی کا اندیشہ ہے، ہم بھی جب حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے کہتے تھے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے کوئی حدیث سنائیے تو وہ یہی جواب دیتے تھے کہ مجھے اندیشہ کہ کہیں کچھ کمی بیشی نہ ہوجائے، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص میری طرف کسی جھوٹی بات کو منسوب کرتا ہے وہ جہنم میں ہوگا۔
-
حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ مَوْلَى آلِ الزُّبَيْرِ عَنْ سَالِمٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ قَالَ فِي سُوقٍ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ بِيَدِهِ الْخَيْرُ يُحْيِي وَيُمِيتُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ كَتَبَ اللَّهُ لَهُ بِهَا أَلْفَ أَلْفِ حَسَنَةٍ وَمَحَا عَنْهُ بِهَا أَلْفَ أَلْفِ سَيِّئَةٍ وَبَنَى لَهُ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ-
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص بازار میں یہ کلمات کہہ لے " جن کاترجمہ یہ ہے کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، بادشاہی بھی اسی کی ہے اور تمام تعریفات بھی اسی کی ہیں ہر طرح کی خیر اسی کے دست قدرت میں ہے، وہی زندگی اور موت دیتا ہے، اور وہ ہر چیز پر قادر ہے " تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے دس نیکیاں لکھ دے گا، دس لاکھ گناہ مٹادے گا اور جنت میں اس کے لئے محل بنائے گا۔
-
حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ بْنُ عَمَّارٍ حَدَّثَنَا أَبُو زُمَيْلٍ حَدَّثَنِي ابْنُ عَبَّاسٍ حَدَّثَنِي عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ لَمَّا كَانَ يَوْمُ خَيْبَرَ أَقْبَلَ نَفَرٌ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُونَ فُلَانٌ شَهِيدٌ وَفُلَانٌ شَهِيدٌ حَتَّى مَرُّوا بِرَجُلٍ فَقَالُوا فُلَانٌ شَهِيدٌ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَلَّا إِنِّي رَأَيْتُهُ يُجَرُّ إِلَى النَّارِ فِي عَبَاءَةٍ غَلَّهَا اخْرُجْ يَا عُمَرُ فَنَادِ فِي النَّاسِ إِنَّهُ لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ إِلَّا الْمُؤْمِنُونَ فَخَرَجْتُ فَنَادَيْتُ إِنَّهُ لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ إِلَّا الْمُؤْمِنُونَ-
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ غزوہ خیبر کے دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کچھ صحابہ سامنے سے آتے ہوئے دکھائی دیئے جو یہ کہہ رہے تھے کہ فلاں بھی شہید ہے، فلاں بھی شہید ہے ، یہاں تک کہ ان کا گذر ایک آدمی پر ہوا، اس کے بارے بھی انہوں نے یہی کہا کہ یہ بھی شہید ہے ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہرگز نہیں! میں نے اسے جہنم میں دیکھا ہے کیونکہ اس نے مال غنیمت میں سے ایک چادر چوری کی تھی، اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے ابن خطاب! جا کر لوگوں میں منادی کر دو کہ جنت میں صرف مومنین ہی داخل ہوں گے، چنانچہ میں نکل کریہ منادی کرنے لگا کہ جنت میں صرف مومنین ہی داخل ہوں گے۔ ۔
-
حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مَسْرُوقٍ عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَيْدَةَ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ عُمَرَ أَنَّهُ قَالَ لَا وَأَبِي فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَهْ إِنَّهُ مَنْ حَلَفَ بِشَيْءٍ دُونَ اللَّهِ فَقَدْ أَشْرَكَ-
ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے کسی موقع پر اپنے باپ کی قسم کھائی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں روکتے ہوئے فرمایا کہ جو شخص اللہ کے علاوہ کسی اور چیز کی قسم کھاتا ہے، وہ شرک کرتا ہے۔
-
حَدَّثَنَا حَمَّادٌ الْخَيَّاطُ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ عَنْ نَافِعٍ أَنَّ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ زَادَ فِي الْمَسْجِدِ مِنْ الْأُسْطُوَانَةِ إِلَى الْمَقْصُورَةِ وَزَادَ عُثْمَانُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَقَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ لَوْلَا أَنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ نَبْغِي نَزِيدُ فِي مَسْجِدِنَا مَا زِدْتُ فِيهِ-
نافع کہتے ہیں کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے مسجد نبوی میں اسطوانہ یعنی ستون سے لے کر مقصورہ شریف تک کا اضافہ کروایا، بعد میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے بھی اپنی توسیع میں اس کی عمارت بڑھائی، اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اگر میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے نہ سنا ہوتا کہ ہم اپنی اس مسجد کی عمارت میں مزید اضافہ کرنا چاہتے ہیں تو میں کبھی اس میں اضافہ نہ کرتا۔
-
حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ عَنِ الزُّهْرِيِّ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ بْنِ مَسْعُودٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنْ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّهُ قَالَ إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ بَعَثَ مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْحَقِّ وَأَنْزَلَ مَعَهُ الْكِتَابَ فَكَانَ مِمَّا أُنْزِلَ عَلَيْهِ آيَةُ الرَّجْمِ فَرَجَمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرَجَمْنَا بَعْدَهُ ثُمَّ قَالَ قَدْ كُنَّا نَقْرَأُ وَلَا تَرْغَبُوا عَنْ آبَائِكُمْ فَإِنَّهُ كُفْرٌ بِكُمْ أَوْ إِنَّ كُفْرًا بِكُمْ أَنْ تَرْغَبُوا عَنْ آبَائِكُمْ ثُمَّ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا تُطْرُونِي كَمَا أُطْرِيَ ابْنُ مَرْيَمَ وَإِنَّمَا أَنَا عَبْدٌ فَقُولُوا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ وَرُبَّمَا قَالَ مَعْمَرٌ كَمَا أَطْرَتْ النَّصَارَى ابْنَ مَرْيَمَ-
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ فرمایا اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا، ان پر کتاب نازل فرمائی، اس میں رجم کی آیت بھی تھی جس کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی رجم کیا تھا اور ہم نے بھی رجم کیا تھا، پھر فرمایا کہ ہم لوگ یہ حکم بھی پڑھتے تھے کہ اپنے آباؤ اجداد سے بے رغبتی ظاہر نہ کرو کیونکہ یہ تمہاری جانب سے کفر ہے، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے اس طرح حد سے آگے مت بڑاؤ جیسے حضرت عیسی علیہ السلام کو بڑھا چڑھا کرپیش کیا گیا، میں تو ایک بندہ ہوں، اس لیے یوں کہا کرو کہ وہ اللہ کے بندے اور رسول ہیں ۔
-
حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ عَنِ الزُّهْرِيِّ عَنْ سَالِمٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّهُ قَالَ لِعُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ إِنِّي سَمِعْتُ النَّاسَ يَقُولُونَ مَقَالَةً فَآلَيْتُ أَنْ أَقُولَهَا لَكُمْ زَعَمُوا أَنَّكَ غَيْرُ مُسْتَخْلِفٍ فَوَضَعَ رَأْسَهُ سَاعَةً ثُمَّ رَفَعَهُ فَقَالَ إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ يَحْفَظُ دِينَهُ وَإِنِّي إِنْ لَا أَسْتَخْلِفْ فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَسْتَخْلِفْ وَإِنْ أَسْتَخْلِفْ فَإِنَّ أَبَا بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَدْ اسْتَخْلَفَ قَالَ فَوَاللَّهِ مَا هُوَ إِلَّا أَنْ ذَكَرَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبَا بَكْرٍ فَعَلِمْتُ أَنَّهُ لَمْ يَكُنْ يَعْدِلُ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحَدًا وَأَنَّهُ غَيْرُ مُسْتَخْلِفٍ-
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ انہوں نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے عرض کیا میں نے لوگوں کو ایک بات کہتے ہوئے سنا ہے، میں اسے آپ تک پہنچانے میں کوتاہی نہیں کروں گا، لوگوں کا خیال یہ ہے کہ آپ کسی کو اپنا خلیفہ نامزد نہیں کر رہے؟ انہوں نے ایک لمحے کے لیے اپنا سرجھکا کر اٹھایا اور فرمایا کہ اللہ اپنے دین کی حفاظت خود کرے گا، میں کسی کو اپنا خلیفہ نامزد نہیں کروں گا کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی کسی کو اپنا خلیفہ مقرر نہیں فرمایا تھا، اور اگر میں کسی کو خلیفہ مقرر کر دیتا ہوں تو حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے بھی ایسا ہی کیا تھا ۔
-
حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ عَنِ الزُّهْرِيِّ عَنْ مَالِكِ بْنِ أَوْسِ بْنِ الْحَدَثَانِ قَالَ أَرْسَلَ إِلَيَّ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَذَكَرَ الْحَدِيثَ فَقُلْتُ لَكُمَا إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا نُورَثُ مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ-
مالک بن اوس کہتے ہیں کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ مجھے بلوایا، پھر انہوں نے مکمل حدیث ذکر کی، جس میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ بھی فرمایا کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہمارے مال میں وراثت جاری نہیں ہوتی، ہم جو کچھ چھوڑ کر جاتے ہیں وہ صدقہ ہوتا ہے۔
-
حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ عَنِ الزُّهْرِيِّ عَنِ ابْنِ الْمُسَيَّبِ قَالَ لَمَّا مَاتَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ بُكِيَ عَلَيْهِ فَقَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنَّ الْمَيِّتَ يُعَذَّبُ بِبُكَاءِ الْحَيِّ-
سعید بن مسیب رحمۃ اللہ علیہ سے مروی ہے کہ جب حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا تو لوگ رونے لگے، اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ میت پر اس کے اہل محلہ کے رونے کی وجہ سے عذاب ہوتا ہے۔
-
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ خَالِدٍ حَدَّثَنَا رَبَاحٌ عَنْ مَعْمَرٍ عَنِ الزُّهْرِيِّ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ لَمَّا تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَكَفَرَ مَنْ كَفَرَ قَالَ قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَا أَبَا بَكْرٍ كَيْفَ تُقَاتِلُ النَّاسَ وَقَدْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّى يَقُولُوا لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ فَمَنْ قَالَ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ فَقَدْ عَصَمَ مِنِّي مَالَهُ وَنَفْسَهُ وَحِسَابُهُ عَلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ قَالَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ لَأُقَاتِلَنَّ مَنْ فَرَّقَ بَيْنَ الصَّلَاةِ وَالزَّكَاةِ إِنَّ الزَّكَاةَ حَقُّ الْمَالِ وَاللَّهِ لَوْ مَنَعُونِي عَنَاقًا كَانُوا يُؤَدُّونَهَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَقَاتَلْتُهُمْ عَلَى مَنْعِهَا فَقَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَاللَّهِ مَا هُوَ إِلَّا أَنْ رَأَيْتُ أَنَّ اللَّهَ قَدْ شَرَحَ صَدْرَ أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ بِالْقِتَالِ فَعَرَفْتُ أَنَّهُ الْحَقُّ-
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم دنیا سے پردہ فرماگئے اور ان کے بعد حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ خلیفہ منتخب ہوگئے اور اہل عرب میں سے جو کافر ہو سکتے تھے، سو ہو گئے تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے سیدناصدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے عرض کیا کہ آپ ان لوگوں سے کیسے قتال کرسکتے ہیں جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے مجھے لوگوں سے اس وقت تک قتال کا حکم دیا گیا ہے جب تک وہ لاالہ الا اللہ نہ کہہ لیں ، جو شخص لاالہ الا اللہ کہہ لے، اس نے اپنی جان اور مال کو مجھ سے محفوظ کر لیا، ہاں ! اگر اسلام کا کوئی حق ہو تو الگ بات ہے، اور اس کا حساب کتاب اللہ کے ذمے ہوگا؟ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے یہ سن کر فرمایا اللہ کی قسم! میں اس شخص سے ضرور قتال کروں گا جو نماز اور زکوۃ کے درمیان فرق کرتے ہیں، کیونکہ زکوۃ مال کا حق ہے، بخدا! اگر انہوں نے ایک بکری کا بچہ جو یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیتے تھے بھی روکا تو میں ان سے قتال کروں گا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں سمجھ گیا، اللہ تعالیٰ نے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو اس معاملے میں شرح صدر کی دولت عطاء فرما دی ہے اور میں سمجھ گیا کہ ان کی رائے ہی برحق ہے۔
-
حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ عَمْرٍو عَنِ الزُّهْرِيِّ عَنْ مَالِكِ بْنِ أَوْسٍ عَنْ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّا لَا نُورَثُ مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ-
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہمارے مال میں وراثت جاری نہیں ہوتی، ہم جو کچھ چھوڑ کر جاتے ہیں وہ صدقہ ہوتا ہے۔
-
حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ عَمْرٍو عَنِ الزُّهْرِيِّ عَنْ مَالِكِ بْنِ أَوْسٍ قَالَ أَرْسَلَ إِلَيَّ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَذَكَرَ الْحَدِيثَ وَقَالَ إِنَّ أَمْوَالَ بَنِي النَّضِيرِ كَانَتْ مِمَّا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ مِمَّا لَمْ يُوجِفْ عَلَيْهِ الْمُسْلِمُونَ بِخَيْلٍ وَلَا رِكَابٍ فَكَانَ يُنْفِقُ عَلَى أَهْلِهِ مِنْهَا نَفَقَةَ سَنَةٍ وَمَا بَقِيَ جَعَلَهُ فِي الْكُرَاعِ وَالسِّلَاحِ عُدَّةً فِي سَبِيلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ-
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ بنونضیر سے حاصل ہونے والے اموال کا تعلق مال فئی سے جو اللہ نے اپنے پیغمبر کو عطاء فرمائے، اور مسلمانوں کو اس پر گھوڑے یا کوئی اور سواری دوڑانے کی ضرورت نہیں پیش آئی، اس لیے یہ مال خاص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا تھا ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس میں سے اپنی ازواج مطہرات کو سال بھر کا نفقہ ایک ہی مرتبہ دے دیا کرتے تھے اور جو باقی بچتا تھا اس سے گھوڑے اور دیگر اسلحہ جو جہاد میں کام آسکے، فراہم کر لیتے تھے۔
-
حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ هِشَامٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ أَبِيهِ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِذَا أَقْبَلَ اللَّيْلُ وَأَدْبَرَ النَّهَارُ وَغَرَبَتْ الشَّمْسُ فَقَدْ أَفْطَرَ الصَّائِمُ-
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جب رات یہاں سے آجائے اور دن وہاں سے چلا جائے اور سورج غروب ہوجائے تو روزہ دار کو روزہ افطار کرلینا چاہیے، مشرق اور مغرب مراد ہے ۔
-
حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ يَحْيَى يَعْنِي ابْنَ سَعِيدٍ عَنْ عُبَيْدِ بْنِ حُنَيْنٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ أَرَدْتُ أَنْ أَسْأَلَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَمَا رَأَيْتُ مَوْضِعًا فَمَكَثْتُ سَنَتَيْنِ فَلَمَّا كُنَّا بِمَرِّ الظَّهْرَانِ وَذَهَبَ لِيَقْضِيَ حَاجَتَهُ فَجَاءَ وَقَدْ قَضَى حَاجَتَهُ فَذَهَبْتُ أَصُبُّ عَلَيْهِ مِنْ الْمَاءِ قُلْتُ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ مَنْ الْمَرْأَتَانِ اللَّتَانِ تَظَاهَرَتَا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ عَائِشَةُ وَحَفْصَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا-
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے اس بات کی بڑی آرزو تھی کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے (نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دو ازواج مطہرات کے بارے) سوال کروں (جن کے متعلق اللہ نے یہ فرمایا تھا کہ اگر تم دونوں توبہ کرلو تو اچھا ہے کیونکہ تمہارے دل ٹیڑھے ہوچکے ہیں) لیکن ہمت نہیں ہوتی تھی اور دوسال گذر گئے، حتی کہ ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ حج کے لئے تشریف لے گئے، میں بھی ان کے ساتھ تھا، راستے میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ لوگوں سے ہٹ کرچلنے لگے، میں بھی پانی کا برتن لے کر ان کے پیچھے چلا گیا، انہوں نے اپنی طبعی ضرورت پوری کی اور جب واپس آئے تو میں نے ان کے ہاتھوں پر پانی ڈالا اور عرض کیا اے امیرالمومنین! وہ دوعورتیں کون ہیں جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر غالب آنا چاہتی تھیں؟ انہوں نے فرمایا کہ عائشہ اور حفصہ (رضی اللہ عنہما)
-
حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ أَيُّوبَ عَنِ ابْنِ سِيرِينَ سَمِعَهُ مِنْ أَبِي الْعَجْفَاءِ سَمِعْتُ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَقُولُ لَا تُغْلُوا صُدُقَ النِّسَاءِ فَإِنَّهَا لَوْ كَانَتْ مَكْرُمَةً فِي الدُّنْيَا أَوْ تَقْوَى فِي الْآخِرَةِ لَكَانَ أَوْلَاكُمْ بِهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا أَنْكَحَ شَيْئًا مِنْ بَنَاتِهِ وَلَا نِسَائِهِ فَوْقَ اثْنَتَيْ عَشْرَةَ وُقِيَّةً وَأُخْرَى تَقُولُونَهَا فِي مَغَازِيكُمْ قُتِلَ فُلَانٌ شَهِيدًا مَاتَ فُلَانٌ شَهِيدًا وَلَعَلَّهُ أَنْ يَكُونَ قَدْ أَوْقَرَ عَجُزَ دَابَّتِهِ أَوْ دَفَّ رَاحِلَتِهِ ذَهَبًا وَفِضَّةً يَبْتَغِي التِّجَارَةَ فَلَا تَقُولُوا ذَاكُمْ وَلَكِنْ قُولُوا كَمَا قَالَ مُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ قُتِلَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَهُوَ فِي الْجَنَّةِ-
ابوالعجفاء سلمی کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ لوگو! اپنی بیویوں کے مہر زیادہ مت باندھا کرو ، کیونکہ اگر یہ چیز دنیا میں باعث عزت ہوتی یا اللہ کے نزدیک تقویٰ میں شمار ہوتی تو اس کے سب زیادہ حق دار نبی صلی اللہ علیہ وسلم تھے، جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی بیوی یا بیٹی کامہر بارہ اوقیہ سے زیادہ نہیں تھا، پھر حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ دوسری بات یہ ہے کہ جو شخص دوران جہاد مقتول ہوجائے یاطبعی طور پر فوت ہوجائے تو آپ لوگ یہ کہتے ہیں کہ فلاں آدمی شہید ہوگیا، فلاں آدمی شہید ہو کر دنیا سے رخصت ہوا، حالانکہ یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ اس نے اپنی سواری کے پچھلے حصے میں یا کجاوے کے نیچے سونا چاندی چھپا رکھا جس سے وہ تجارت کا ارادہ رکھتا ہو، اس لئے تم کسی کے متعلق یقین کے ساتھ یہ مت کہو کہ وہ شہید ہے، البتہ یہ کہہ سکتے ہو کہ جو شخص راہ خدا میں مقتول یا فوت ہو جائے (وہ شہید ہے ) اور جنت میں داخل ہوگا جیساکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے۔
-
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي عَرُوبَةَ أَمَلَّهُ عَلَيَّ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ الْغَطَفَانِيِّ عَنْ مَعْدَانَ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ الْيَعْمَرِيِّ أَنَّ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَامَ خَطِيبًا فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ وَذَكَرَ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبَا بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ثُمَّ قَالَ إِنِّي رَأَيْتُ رُؤْيَا كَأَنَّ دِيكًا نَقَرَنِي نَقْرَتَيْنِ وَلَا أُرَى ذَلِكَ إِلَّا لِحُضُورِ أَجَلِي وَإِنَّ نَاسًا يَأْمُرُونَنِي أَنْ أَسْتَخْلِفَ وَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ لَمْ يَكُنْ لِيُضِيعَ خِلَافَتَهُ وَدِينَهُ وَلَا الَّذِي بَعَثَ بِهِ نَبِيَّهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِنْ عَجِلَ بِي أَمْرٌ فَالْخِلَافَةُ شُورَى فِي هَؤُلَاءِ الرَّهْطِ السِّتَّةِ الَّذِينَ تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ عَنْهُمْ رَاضٍ فَأَيُّهُمْ بَايَعْتُمْ لَهُ فَاسْمَعُوا لَهُ وَأَطِيعُوا وَقَدْ عَرَفْتُ أَنَّ رِجَالًا سَيَطْعَنُونَ فِي هَذَا الْأَمْرِ وَإِنِّي قَاتَلْتُهُمْ بِيَدِي هَذِهِ عَلَى الْإِسْلَامِ فَإِنْ فَعَلُوا فَأُولَئِكَ أَعْدَاءُ اللَّهِ الْكَفَرَةُ الضُّلَّالُ وَإِنِّي وَاللَّهِ مَا أَدَعُ بَعْدِي شَيْئًا هُوَ أَهَمُّ إِلَيَّ مِنْ أَمْرِ الْكَلَالَةِ وَلَقَدْ سَأَلْتُ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْهَا فَمَا أَغْلَظَ لِي فِي شَيْءٍ قَطُّ مَا أَغْلَظَ لِي فِيهَا حَتَّى طَعَنَ بِيَدِهِ أَوْ بِإِصْبَعِهِ فِي صَدْرِي أَوْ جَنْبِي وَقَالَ يَا عُمَرُ تَكْفِيكَ الْآيَةُ الَّتِي نَزَلَتْ فِي الصَّيْفِ الَّتِي فِي آخِرِ سُورَةِ النِّسَاءِ وَإِنِّي إِنْ أَعِشْ أَقْضِ فِيهَا قَضِيَّةً لَا يَخْتَلِفُ فِيهَا أَحَدٌ يَقْرَأُ الْقُرْآنَ أَوْ لَا يَقْرَأُ الْقُرْآنَ ثُمَّ قَالَ اللَّهُمَّ إِنِّي أُشْهِدُكَ عَلَى أُمَرَاءِ الْأَمْصَارِ فَإِنِّي بَعَثْتُهُمْ يُعَلِّمُونَ النَّاسَ دِينَهُمْ وَسُنَّةَ نَبِيِّهِمْ وَيَقْسِمُونَ فِيهِمْ فَيْئَهُمْ وَيُعَدِّلُونَ عَلَيْهِمْ وَمَا أَشْكَلَ عَلَيْهِمْ يَرْفَعُونَهُ إِلَيَّ ثُمَّ قَالَ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّكُمْ تَأْكُلُونَ مِنْ شَجَرَتَيْنِ لَا أُرَاهُمَا إِلَّا خَبِيثَتَيْنِ هَذَا الثُّومُ وَالْبَصَلُ لَقَدْ كُنْتُ أَرَى الرَّجُلَ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُوجَدُ رِيحُهُ مِنْهُ فَيُؤْخَذُ بِيَدِهِ حَتَّى يُخْرَجَ بِهِ إِلَى الْبَقِيعِ فَمَنْ كَانَ آكِلَهُمَا لَا بُدَّ فَلْيُمِتْهُمَا طَبْخًا قَالَ فَخَطَبَ بِهَا عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ وَأُصِيبَ يَوْمَ الْأَرْبِعَاءِ لِأَرْبَعِ لَيَالٍ بَقِينَ مِنْ ذِي الْحِجَّةِ-
ایک مرتبہ حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ جمعہ کے دن منبر پر خطبہ کے لیے تشریف لائے، اللہ تعالی کی حمدوثناء بیان کی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا تذکرہ کیا، حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی یاد تازہ کی، پھر فرمانے لگے کہ میں نے ایک خواب دیکھا ہے اور مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میری دنیا سے رخصتی کا وقت قریب آگیا ہے، میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ ایک مرغے نے مجھے دو مرتبہ ٹھونگ ماری ہے۔ پھر فرمایا کہ لوگ مجھ سے یہ کہہ رہے ہیں کہ میں اپنا خلیفہ مقرر کردوں، اتنی بات تو طے ہے کہ اللہ اپنے دین کو ضائع کرے گا اور نہ ہی اس خلافت کو جس کے ساتھ اللہ نے اپنے پیغمبر کو مبعوث فرمایا تھا، اب اگر میرا فیصلہ جلد ہوگیا تو میں مجلس شوری ان چھ افراد کی مقرر کر رہا ہوں جن سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم بوقت رحلت راضی ہو کر تشریف لے گئے تھے، جب تم ان میں سے کسی ایک کی بیعت کرلو تو ان کی بات سنو اور ان کی اطاعت کرو۔ میں جانتا ہوں کہ کچھ لوگ مسئلہ خلافت میں رخنہ ڈالنے کی کوشش کریں گے، بخدا! میں اپنے ان ہاتھوں سے اسلام کی مدافعت میں ان لوگوں سے قتال کرچکا ہوں، یہ لوگ دشمنان خدا، کافر اور گمراہ ہیں، اللہ کی قسم! نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اختیار کرنے کے بعد مجھے یاد نہیں پڑتا کہ کسی مسئلہ میں آپ مجھ سے ناراض ہوئے ہوں، سوائے کلالہ کے مسئلہ کے کہ اس میں آپ صلی اللہ علیہ انتہائی سخت ناراض ہوئے تھے، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگلی میرے سینے پر رکھ کر فرمایا کہ تمہارے لیے اس مسئلے میں سورت نساء کی آخری آیت جو گرمی میں نازل ہوئی تھی کافی ہے۔ اگر میں زندہ رہا تو اس مسئلے کا ایساحل نکال کر جاؤں گا کہ اس آیت کو پڑھنے والے اور نہ پڑھنے والے سب ہی کے علم میں وہ حل آجائے، اور میں اللہ کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ میں نے مختلف شہروں میں امراء اور گورنر بھیجے ہیں وہ صرف اس لیے کہ وہ لوگوں کو دین سکھائیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتیں لوگوں کے سامنے بیان کریں، ان میں مال غنیمت تقسیم کریں، ان میں انصاف کریں اور میرے سامنے ان کے وہ مسائل پیش کریں جن کا ان کے پاس کوئی حل نہ ہو۔ پھر فرمایا لوگو! تم دو درختوں میں سے کھاتے ہوجنہیں میں گندہ سمجھتا ہوں (ایک لہسن اور دوسرا پیاز، جنہیں کچا کھانے سے منہ میں بدبو پیدا ہوجاتی ہے) میں نے دیکھا ہے کہ اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی شخص کے منہ سے اس کی بدبو آتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم حکم دیتے اور اسے ہاتھ سے پکڑ کر مسجد سے باہر نکال دیا جاتا تھا اور یہی نہیں بلکہ اس کو جنت البقیع تک پہنچا کر لوگ واپس آتے تھے، اگر کوئی شخص انہیں کھانا ہی چاہتا ہے تو پکا کر ان کی بدبو مار دے۔ راوی کہتے ہیں کہ جمعہ کو حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے یہ خطبہ ارشاد فرمایا اور ٢٦ ذی الحجہ بروز بدھ کو آپ پر قاتلانہ حملہ ہوگیا۔
-
حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ قَالَ وَأَخْبَرَنِي هُشَيْمٌ عَنِ الْحَجَّاجِ بْنِ أَرْطَاةَ عَنِ الْحَكَمِ بْنِ عُتَيْبَةَ عَنْ عُمَارَةَ عَنْ أَبِي بُرْدَةَ عَنْ أَبِي مُوسَى أَنَّ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ هِيَ سُنَّةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعْنِي الْمُتْعَةَ وَلَكِنِّي أَخْشَى أَنْ يُعَرِّسُوا بِهِنَّ تَحْتَ الْأَرَاكِ ثُمَّ يَرُوحُوا بِهِنَّ حُجَّاجًا-
حضرت ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا اگرچہ حج تمتع نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے لیکن مجھے اندیشہ ہے کہ لوگ اپنی اپنی بیویوں کے ساتھ پیلو کے درخرت کے نیچے رات گذاریں اور صبح کو اٹھ کر حج کی نیت کرلیں ۔ فائدہ : دراصل حج تمتع میں آدمی عمرہ کر کے احرام کھول لیتا ہے اور اس کے لیے اپنی بیوی کے قریب جاناحلال ہو جاتا ہے، کہیں ایسا نہ ہو کہ آٹھ ذی الحجہ کو جب حج کا احرام کھول لیتا ہے اور اس کے لئے اپنی بیوی کے قریب جاناحلال ہو جاتا ہے، کہیں ایسا نہ ہو کہ آٹھ ذی الحجہ کو جب حج کا احرام باندھنا ہو، اسی رات وہ اپنی بیوی کے پاس رہا ہو اور صبح اس کے سر سے پانی کے ٹپکتے ہوئے قطرات لوگوں کو کچھ اشارات دے رہے ہوں ، اس وجہ سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ اسے اچھا نہیں سمجھتے تھے، ورنہ اس کے نفس جواز میں کوئی اختلاف نہیں ۔
-
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَاصِمٍ أَنْبَأَنَا يَزِيدُ بْنُ أَبِي زِيَادٍ عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ عَنْ أَبِيهِ أَوْ جَدِّهِ الشَّكُّ مِنْ يَزِيدَ عَنْ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَوَضَّأَ بَعْدَ الْحَدَثِ وَمَسَحَ عَلَى خُفَّيْهِ وَصَلَّى-
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حدث کے بعد وضو کرتے ہوئے دیکھا جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے موزوں پر مسح کیا اور نماز پڑھی۔
-
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ سِمَاكٍ قَالَ سَمِعْتُ عِيَاضًا الْأَشْعَرِيَّ قَالَ شَهِدْتُ الْيَرْمُوكَ وَعَلَيْنَا خَمْسَةُ أُمَرَاءَ أَبُو عُبَيْدَةَ بْنُ الْجَرَّاحِ وَيَزِيدُ بْنُ أَبِي سُفْيَانَ وَابْنُ حَسَنَةَ وَخَالِدُ بْنُ الْوَلِيدِ وَعِيَاضٌ وَلَيْسَ عِيَاضٌ هَذَا بِالَّذِي حَدَّثَ سِمَاكًا قَالَ وَقَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ إِذَا كَانَ قِتَالٌ فَعَلَيْكُمْ أَبُو عُبَيْدَةَ قَالَ فَكَتَبْنَا إِلَيْهِ إِنَّهُ قَدْ جَاشَ إِلَيْنَا الْمَوْتُ وَاسْتَمْدَدْنَاهُ فَكَتَبَ إِلَيْنَا إِنَّهُ قَدْ جَاءَنِي كِتَابُكُمْ تَسْتَمِدُّونِي وَإِنِّي أَدُلُّكُمْ عَلَى مَنْ هُوَ أَعَزُّ نَصْرًا وَأَحْضَرُ جُنْدًا اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ فَاسْتَنْصِرُوهُ فَإِنَّ مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ نُصِرَ يَوْمَ بَدْرٍ فِي أَقَلَّ مِنْ عِدَّتِكُمْ فَإِذَا أَتَاكُمْ كِتَابِي هَذَا فَقَاتِلُوهُمْ وَلَا تُرَاجِعُونِي قَالَ فَقَاتَلْنَاهُمْ فَهَزَمْنَاهُمْ وَقَتَلْنَاهُمْ أَرْبَعَ فَرَاسِخَ قَالَ وَأَصَبْنَا أَمْوَالًا فَتَشَاوَرُوا فَأَشَارَ عَلَيْنَا عِيَاضٌ أَنْ نُعْطِيَ عَنْ كُلِّ رَأْسٍ عَشْرَةً قَالَ وَقَالَ أَبُو عُبَيْدَةَ مَنْ يُرَاهِنِّي فَقَالَ شَابٌّ أَنَا إِنْ لَمْ تَغْضَبْ قَالَ فَسَبَقَهُ فَرَأَيْتُ عَقِيصَتَيْ أَبِي عُبَيْدَةَ تَنْقُزَانِ وَهُوَ خَلْفَهُ عَلَى فَرَسٍ عَرَبِيٍّ-
حضرت عیاض اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں غزوہ یرموک میں موجود تھا، ہم پر پانچ امراء مقرر تھے (۱) حضرت ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ (٢) حضرت یزید بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ (٣) حضرت ابن حسنہ رضی اللہ عنہ (٤) حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ (۵) حضرت عیاض بن غنم رضی اللہ عنہ (یاد رہے کہ اس سے مراد خود راوی حدیث نہیں ہیں ۔ ) حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرما رکھا تھا کہ جب جنگ شروع ہو تو تمہارے سردار حضرت ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ ہوں گے، راوی کہتے ہیں کہ ہم نے حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی طرف ایک مراسلہ میں لکھ کر بھیجا کہ موت ہماری طرف اچھل اچھل کر آرہی ہے، ہمارے لیے کمک روانہ کیجئے، انہوں نے جواب میں لکھ کر بھیجا کہ میرے پاس تمہاراخط پہنچا جس میں تم نے مجھ سے امداد کی درخواست کی ہے، میں تمہیں ایسی ہستی کا پتہ بتاتا ہوں جس کی نصرت سب سے زیادہ مضبوط اور جس کے لشکر سب سے زیادہ حاضر باش ہوتے ہیں، وہ ہستی اللہ تبارک وتعالی ہیں ان ہی سے مدد مانگو، کیونکہ جناب رسول اللہ سلی اللہ علیہ وسلم کی نصرت غزوہ بدر کے موقع پر بھی کی گئی تھی جبکہ وہ تعداد میں تم سے بہت تھوڑے تھے، اس لئے جب تمہارے پاس میرا یہ خط پہنچے تو ان سے قتال شروع کردو اور مجھ سے باربار امداد کے لئے مت کہو۔ راوی کہتے ہیں کہ پھر ہم نے قتال شروع کیا تو مشرکین کو شرمناک ہزیمت سے دوچار کیا اور چار فرسخ تک انہیں قتل کرتے چلے گئے، اور ہمیں مال غنیمت بھی حاصل ہوا، اس کے بعد مجاہدین نے باہم مشورہ کیا، حضرت عیاض رضی اللہ عنہ نے مشورہ دیا کہ ہر مجاہد کو فی کس دس درہم دیئے جائیں، حضرت ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے پوچھا میرے ساتھ اس کی دیکھ بھال کون کرے گا؟ ایک نوجوان بولا اگر آپ ناراض نہ ہوں تو میں کروں گا، یہ کہہ کر وہ آگے بڑھ گیا، میں نے حضرت ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کے بالوں کی چوٹیوں کو دیکھا کہ وہ ہوا میں لہرا رہی تھیں اور وہ نوجوان ان کے پیچھے ایک عربی گھوڑے پر بیٹھا ہوا تھا۔
-
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَكْرٍ أَنْبَأَنَا عُيَيْنَةُ عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ قَالَ قَدِمْتُ الْمَدِينَةَ فَدَخَلْتُ عَلَى سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ وَعَلَيَّ جُبَّةُ خَزٍّ فَقَالَ لِي سَالِمٌ مَا تَصْنَعُ بِهَذِهِ الثِّيَابِ سَمِعْتُ أَبِي يُحَدِّثُ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنَّمَا يَلْبَسُ الْحَرِيرَ مَنْ لَا خَلَاقَ لَهُ-
علی بن زید کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں مدینہ منورہ آیا، اس وقت میں نے ریشمی جبہ زیب تن کر رکھا تھا، حضرت سالم رحمۃ اللہ علیہ نے مجھ سے فرمایا کہ تم ان کپڑوں کا کیا کروگے؟ میں نے اپنے والد کو حضرت عمر فاروق رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے سے حدیث بیان کرتے ہوئے سنا ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ریشم وہ شخص پہنتا ہے جس کا آخرت میں کوئی حصہ نہ ہو۔
-
حَدَّثَنَا أَبُو الْمُنْذِرِ إِسْمَاعِيلُ بْنُ عُمَرَ أُرَاهُ عَنِ حَجَّاجٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ قَالَ قَتَلَ رَجُلٌ ابْنَهُ عَمْدًا فَرُفِعَ إِلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَجَعَلَ عَلَيْهِ مِائَةً مِنْ الْإِبِلِ ثَلَاثِينَ حِقَّةً وَثَلَاثِينَ جَذَعَةً وَأَرْبَعِينَ ثَنِيَّةً وَقَالَ لَا يَرِثُ الْقَاتِلُ وَلَوْلَا أَنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ لَا يُقْتَلُ وَالِدٌ بِوَلَدِهِ لَقَتَلْتُكَ-
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے اپنے بیٹے کو جان بوجھ کر اور سوچ سمجھ کر مار ڈالا، حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی خدمت میں یہ معاملہ پیش ہوا تو انہوں نے اس پر سو اونٹ دیت واجب قرار دی، تیس حقے، تیس جذعے اور چالیس ثنیے یعنی جو دوسرے سال میں لگے ہوں ، اور فرمایا قاتل وارث نہیں ہوتا، اور اگر میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے نہ سنا ہوتا کہ باپ کو بیٹے کے بدلے میں قتل نہیں کیا جائے گا تو میں تجھے قتل کردیتا۔ فائدہ : حقہ اور جذعہ کی تعریف پیچھے گذر چکی ہے۔
-
حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ وَيَزِيدُ عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ قَالَ قَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ لَوْلَا أَنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ لَيْسَ لِقَاتِلٍ شَيْءٌ لَوَرَّثْتُكَ قَالَ وَدَعَا خَالَ الْمَقْتُولِ فَأَعْطَاهُ الْإِبِلَ حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ حَدَّثَنَا أَبِي عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي نَجِيحٍ وَعَمْرُو بْنُ شُعَيْبٍ كِلَاهُمَا عَنْ مُجَاهِدِ بْنِ جَبْرٍ فَذَكَرَ الْحَدِيثَ وَقَالَ أَخَذَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ مِنْ الْإِبِلِ ثَلَاثِينَ حِقَّةً وَثَلَاثِينَ جَذَعَةً وَأَرْبَعِينَ ثَنِيَّةً إِلَى بَازِلِ عَامِهَا كُلُّهَا خَلِفَةٌ قَالَ ثُمَّ دَعَا أَخَا الْمَقْتُولِ فَأَعْطَاهَا إِيَّاهُ دُونَ أَبِيهِ وَقَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ لَيْسَ لِقَاتِلٍ شَيْءٌ-
ایک دوسری سند سے اسی روایت میں یہ اضافہ بھی ہے کہ پھر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے مقتول کے بھائی کو بلایا اور دیت کے وہ اونٹ اس کے حوالے کر دئیے۔ مجاہد سے گذشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے اور وہ کہتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس پر سو اونٹ دیت واجب قرار دی، تیس حقے، تیس جذعے اور چالیس ثنیے یعنی جو دوسرے سال میں لگے ہوں ، اور سب کے سب حاملہ ہوں ، پھر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے مقتول کے بھائی کو بلایا اور دیت کے وہ اونٹ اس کے حوالے کر دئیے اور فرمایا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ قاتل کو کچھ نہیں ملے گا۔
-
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ حَدَّثَنَا أَيُّوبُ عَنْ عِكْرِمَةَ بْنِ خَالِدٍ عَنْ مَالِكِ بْنِ أَوْسِ بْنِ الْحَدَثَانِ قَالَ جَاءَ الْعَبَّاسُ وَعَلِيٌّ عَلَيْهِمَا السَّلَام إِلَى عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَخْتَصِمَانِ فَقَالَ الْعَبَّاسُ اقْضِ بَيْنِي وَبَيْنَ هَذَا الْكَذَا كَذَا فَقَالَ النَّاسُ افْصِلْ بَيْنَهُمَا افْصِلْ بَيْنَهُمَا قَالَ لَا أَفْصِلُ بَيْنَهُمَا قَدْ عَلِمَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا نُورَثُ مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ-
مالک بن اوس کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت عباس رضی اللہ عنہ اپنا جھگڑا لیکر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس فیصلہ کرنے آئے، حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میرے اور ان کے درمیان فلاں فلاں چیز کا فیصلہ کر دیجئے، لوگوں نے بھی کہا کہ ان کے درمیان فیصلہ کر دیجئے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں ان دونوں کے درمیان کوئی فیصلہ نہیں کروں گا کیونکہ یہ دونوں جانتے ہیں کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے ہمارے مال میں وراثت جاری نہیں ہوتی، ہم جو چھوڑ جاتے ہیں وہ سب صدقہ ہوتا ہے۔
-
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ عَنِ ابْنِ أَبِي عَرُوبَةَ عَنْ قَتَادَةَ عَنِ ابْنِ الْمُسَيَّبِ أَنَّ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ إِنَّ مِنْ آخِرِ مَا أُنْزِلَ آيَةُ الرِّبَا وَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تُوُفِّيَ وَلَمْ يُفَسِّرْهَا فَدَعُوا الرِّبَا وَالرِّيبَةَ-
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ قرآن کریم میں سب سے آخری آیت سود سے متعلق نازل ہوئی ہے، اس لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے وصال مبارک سے قبل اس کی مکمل وضاحت کا موقع نہیں مل سکا، اس لئے سود کو بھی چھوڑ دو اور جس چیز میں ذرا بھی شک ہو اسے بھی چھوڑ دو۔
-
حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّهِ مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنِ الْحَكَمِ عَنْ عُمَارَةَ بْنِ عُمَيْرٍ عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ أَبِي مُوسَى عَنْ أَبِي مُوسَى أَنَّهُ كَانَ يُفْتِي بِالْمُتْعَةِ فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ رُوَيْدَكَ بِبَعْضِ فُتْيَاكَ فَإِنَّكَ لَا تَدْرِي مَا أَحْدَثَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ فِي النُّسُكِ بَعْدَكَ حَتَّى لَقِيَهُ بَعْدُ فَسَأَلَهُ فَقَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَدْ عَلِمْتُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ فَعَلَهُ وَأَصْحَابُهُ وَلَكِنِّي كَرِهْتُ أَنْ يَظَلُّوا بِهِنَّ مُعَرِّسِينَ فِي الْأَرَاكِ وَيَرُوحُوا لِلْحَجِّ تَقْطُرُ رُءُوسُهُمْ-
حضرت ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ حج تمتع کے جواز کا فتوی دیتے تھے، ایک دن ایک شخص آکر ان سے کہنے لگا کہ آپ اپنے کچھ فتوے روک کر رکھیں، آپ کو معلوم نہیں ہے کہ آپ کے پیچھے امیرالمومنین نے مناسک حج کے حوالے سے کیا نئے احکام جاری کیے ہیں، جب ان دونوں حضرات کی ملاقات ہوئی تو حضرت ابو موسی رضی اللہ عنہ نے ان سے اس کی بابت دریافت کیا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ مجھے معلوم ہے کہ حج تمتع نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے صحابہ نے بھی کیا ہے لیکن مجھے یہ چیز اچھی معلوم نہیں ہوتی کہ لوگ پیلو کے درخت کے نیچے اپنی بیویوں کے پاس رات گذاریں اور صبح کو حج کے لئے اس حال میں روانہ ہوں کہ ان کے سروں سے پانی کے قطرات ٹپک رہے ہوں ۔
-
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ وَحَجَّاجٌ قَالَا حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ قَالَ سَمِعْتُ عُبَيْدَ اللَّهِ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ يُحَدِّثُ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ قَالَ حَجَّ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَأَرَادَ أَنْ يَخْطُبَ النَّاسَ خُطْبَةً فَقَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ إِنَّهُ قَدْ اجْتَمَعَ عِنْدَكَ رَعَاعُ النَّاسِ فَأَخِّرْ ذَلِكَ حَتَّى تَأْتِيَ الْمَدِينَةَ فَلَمَّا قَدِمَ الْمَدِينَةَ دَنَوْتُ مِنْهُ قَرِيبًا مِنْ الْمِنْبَرِ فَسَمِعْتُهُ يَقُولُ وَإِنَّ نَاسًا يَقُولُونَ مَا بَالُ الرَّجْمِ وَإِنَّمَا فِي كِتَابِ اللَّهِ الْجَلْدُ وَقَدْ رَجَمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرَجَمْنَا بَعْدَهُ وَلَوْلَا أَنْ يَقُولُوا أَثْبَتَ فِي كِتَابِ اللَّهِ مَا لَيْسَ فِيهِ لَأَثْبَتُّهَا كَمَا أُنْزِلَتْ-
حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ حج کے لئے تشریف لے گئے، وہاں انہوں نے مخصوص حالات کے تناظر میں کوئی خطبہ دینا چاہا لیکن حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا کہ اس وقت تو لوگوں کا کمزور طبقہ بہت بڑی مقدار میں موجود ہے، آپ اپنے اس خطبہ کو مدینہ منورہ واپسی تک مؤخر کر دیں (کیونکہ وہاں کے لوگ سمجھدار ہیں، وہ آپ کی بات سمجھ لیں گے، یہ لوگ بات کو صحیح طرح سمجھ نہ سکیں گے اور شورش بپا کر دیں گے۔ ) چنانچہ جب حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ مدینہ منورہ واپس آگئے تو ایک دن میں منبر کے قریب گیا، میں نے انہیں یہ کہتے ہوئے سناکہ بعض لوگ کہتے ہیں رجم کی کیا حیثیت ہے؟ کتاب اللہ میں تو صرف کوڑوں کی سزا ذکر کی گئی ہے؟ حالانکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی رجم کی سزا جاری فرمائی ہے اور ان کے بعد ہم نے بھی، اور اگر لوگ یہ نہ کہتے کہ عمر نے کتاب اللہ میں اس چیز کا اضافہ کر دیا جو اس میں نہیں ہے تو میں اس حکم والی آیت کو قرآن کریم (کے حاشیے) پر لکھ دیتا۔
-
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ وَحَجَّاجٌ قَالَا حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ قَالَ سَمِعْتُ النُّعْمَانَ يَعْنِي ابْنَ بَشِيرٍ يَخْطُبُ قَالَ ذَكَرَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ مَا أَصَابَ النَّاسُ مِنْ الدُّنْيَا فَقَالَ لَقَدْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَظَلُّ الْيَوْمَ يَلْتَوِي مَا يَجِدُ دَقَلًا يَمْلَأُ بِهِ بَطْنَهُ-
حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے اپنی آنکھوں سے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھوک کی وجہ سے کروٹیں بدلتے ہوئے دیکھا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ردی کھجور بھی نہ ملتی تھی جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا پیٹ بھر لیتے تھے۔
-
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ وَحَجَّاجٌ قَالَ حَدَّثَنِي شُعْبَةُ قَالَ سَمِعْتُ قَتَادَةَ يُحَدِّثُ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ عَنِ ابْنِ عُمَرَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ الْمَيِّتُ يُعَذَّبُ فِي قَبْرِهِ بِمَا نِيحَ عَلَيْهِ وَقَالَ حَجَّاجٌ بِالنِّيَاحَةِ عَلَيْهِ-
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا میت کو اس کی قبر میں اس پر ہونے والے نوحے کی وجہ سے عذاب ہوتا ہے۔
-
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ قَتَادَةَ قَالَ سَمِعْتُ رُفَيْعًا أَبَا الْعَالِيَةِ يُحَدِّثُ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدَّثَنِي رِجَالٌ قَالَ شُعْبَةُ أَحْسِبُهُ قَالَ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ وَأَعْجَبُهُمْ إِلَيَّ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْ الصَّلَاةِ فِي سَاعَتَيْنِ بَعْدَ الْعَصْرِ حَتَّى تَغْرُبَ الشَّمْسُ وَبَعْدَ الصُّبْحِ حَتَّى تَطْلُعَ-
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ مجھے ایسے لوگوں نے اس بات کی شہادت دی ہے جن کی بات قابل اعتماد ہوتی ہے، ان میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی شامل ہیں جو میری نظروں میں ان سب سے زیادہ قابل اعتماد ہیں، کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دو وقت نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے، ایک تو یہ کہ عصر کی نماز کے بعد غروب آفتاب تک کوئی نفلی نماز نہ پڑھی جائے اور دوسرے یہ کہ فجر کی نماز کے بعدطلوع آفتاب تک کوئی نماز نہ پڑھی جائے۔
-
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ وَحَجَّاجٌ قَالَ حَدَّثَنِي شُعْبَةُ عَنْ قَتَادَةَ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا عُثْمَانَ النَّهْدِيَّ قَالَ جَاءَنَا كِتَابُ عُمَرَ وَنَحْنُ بِأَذْرَبِيجَانَ مَعَ عُتْبَةَ بْنِ فَرْقَدٍ أَوْ بِالشَّامِ أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْ الْحَرِيرِ إِلَّا هَكَذَا أُصْبُعَيْنِ قَالَ أَبُو عُثْمَانَ فَمَا عَتَّمْنَا إِلَّا أَنَّهُ الْأَعْلَامُ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ وَحَجَّاجٌ وَأَبُو دَاوُدَ قَالَ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ قَتَادَةَ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا عُثْمَانَ النَّهْدِيَّ قَالَ جَاءَنَا كِتَابُ عُمَرَ-
ابو عثمان کہتے ہیں کہ ہم حضرت عتبہ بن فرقد رضی اللہ عنہ کے ساتھ شام یا آذربائیجان میں تھے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا ایک خط آگیا، جس میں لکھا تھا کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ریشمی لباس پہننے سے منع فرمایا ہے سوائے اتنی مقدار یعنی دو انگلیوں کے۔ گذشتہ حدیث ایک دوسری سند سے بھی مروی ہے۔
-
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ وَأَبُو دَاوُدَ عَنْ شُعْبَةَ عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ قَالَ صَلَّى عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ الصُّبْحَ وَهُوَ بِجَمْعٍ قَالَ أَبُو دَاوُدَ كُنَّا مَعَ عُمَرَ بِجَمْعٍ فَقَالَ إِنَّ الْمُشْرِكِينَ كَانُوا لَا يُفِيضُونَ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ وَيَقُولُونَ أَشْرِقْ ثَبِيرُ وَإِنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَالَفَهُمْ فَأَفَاضَ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ-
عمروبن میمون کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے ہمیں مزدلفہ میں فجر کی نماز پڑھائی، اور فرمایا کہ مشرکین طلوع آفتاب سے پہلے واپس نہیں جاتے تھے، اور کہتے تھے کہ کوہ ثبیر روشن ہو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا طریقہ اختیار نہیں کیا اور مزدلفہ سے منی کی طرف طلوع آفتاب سے قبل ہی روانہ ہوگئے۔
-
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ قَالَ سَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ يَقُولُ سَأَلَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ تُصِيبُنِي الْجَنَابَةُ مِنْ اللَّيْلِ فَمَا أَصْنَعُ قَالَ اغْسِلْ ذَكَرَكَ ثُمَّ تَوَضَّأْ ثُمَّ ارْقُدْ-
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ایک مرتبہ میں نے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا اگر میں رات کو ناپاک ہوجاؤں تو کیا کروں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اپنی شرمگاہ کودھو کر نماز والا وضو کر کے سو جاؤ۔
-
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا الْحَكَمِ قَالَ سَأَلْتُ ابْنَ عُمَرَ عَنِ الْجَرِّ فَحَدَّثَنَا عَنْ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْ الْجَرِّ وَعَنْ الدُّبَّاءِ وَعَنْ الْمُزَفَّتِ-
ابوالحکم کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مٹکے کی نبیذ کے متعلق سوال کیا تو انہوں نے حضرت عمر رضی اللہ کے عنہ کے حوالے سے یہ حدیث سنائی کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مٹکے، کدو کی نبیذ، سبزرنگ کی روغنی ہنڈیا یا برتن سے منع فرمایا ہے۔
-
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ عَاصِمٍ الْأَحْوَلِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَرْجِسَ قَالَ رَأَيْتُ الْأُصَيْلِعَ يَعْنِي عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يُقَبِّلُ الْحَجَرَ وَيَقُولُ أَمَا إِنِّي أَعْلَمُ أَنَّكَ حَجَرٌ وَلَكِنْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُقَبِّلُكَ-
عبداللہ بن سرجس کہتے ہیں کہ میں نے ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ وہ حجر اسود کو بوسہ دے رہے ہیں اور اس سے مخاطب ہو کر فرما رہے ہیں، میں جانتا ہوں کہ تو ایک پتھر ہے، لیکن میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تجھے بوسہ دیتے ہوئے دیکھا ہے۔
-
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا جَمْرَةَ الضُّبَعِيَّ يُحَدِّثُ عَنْ جُوَيْرِيَةَ بْنِ قُدَامَةَ قَالَ حَجَجْتُ فَأَتَيْتُ الْمَدِينَةَ الْعَامَ الَّذِي أُصِيبَ فِيهِ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ فَخَطَبَ فَقَالَ إِنِّي رَأَيْتُ كَأَنَّ دِيكًا أَحْمَرَ نَقَرَنِي نَقْرَةً أَوْ نَقْرَتَيْنِ شُعْبَةُ الشَّاكُّ فَكَانَ مِنْ أَمْرِهِ أَنَّهُ طُعِنَ فَأُذِنَ لِلنَّاسِ عَلَيْهِ فَكَانَ أَوَّلَ مَنْ دَخَلَ عَلَيْهِ أَصْحَابُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ أَهْلُ الْمَدِينَةِ ثُمَّ أَهْلُ الشَّامِ ثُمَّ أُذِنَ لِأَهْلِ الْعِرَاقِ فَدَخَلْتُ فِيمَنْ دَخَلَ قَالَ فَكَانَ كُلَّمَا دَخَلَ عَلَيْهِ قَوْمٌ أَثْنَوْا عَلَيْهِ وَبَكَوْا قَالَ فَلَمَّا دَخَلْنَا عَلَيْهِ قَالَ وَقَدْ عَصَبَ بَطْنَهُ بِعِمَامَةٍ سَوْدَاءَ وَالدَّمُ يَسِيلُ قَالَ فَقُلْنَا أَوْصِنَا قَالَ وَمَا سَأَلَهُ الْوَصِيَّةَ أَحَدٌ غَيْرُنَا فَقَالَ عَلَيْكُمْ بِكِتَابِ اللَّهِ فَإِنَّكُمْ لَنْ تَضِلُّوا مَا اتَّبَعْتُمُوهُ فَقُلْنَا أَوْصِنَا فَقَالَ أُوصِيكُمْ بِالْمُهَاجِرِينَ فَإِنَّ النَّاسَ سَيَكْثُرُونَ وَيَقِلُّونَ وَأُوصِيكُمْ بِالْأَنْصَارِ فَإِنَّهُمْ شَعْبُ الْإِسْلَامِ الَّذِي لَجِئَ إِلَيْهِ وَأُوصِيكُمْ بِالْأَعْرَابِ فَإِنَّهُمْ أَصْلُكُمْ وَمَادَّتُكُمْ وَأُوصِيكُمْ بِأَهْلِ ذِمَّتِكُمْ فَإِنَّهُمْ عَهْدُ نَبِيِّكُمْ وَرِزْقُ عِيَالِكُمْ قُومُوا عَنِّي قَالَ فَمَا زَادَنَا عَلَى هَؤُلَاءِ الْكَلِمَاتِ قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ قَالَ شُعْبَةُ ثُمَّ سَأَلْتُهُ بَعْدَ ذَلِكَ فَقَالَ فِي الْأَعْرَابِ وَأُوصِيكُمْ بِالْأَعْرَابِ فَإِنَّهُمْ إِخْوَانُكُمْ وَعَدُوُّ عَدُوِّكُمْ حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ أَنْبَأَنَا شُعْبَةُ سَمِعْتُ أَبَا جَمْرَةَ الضُّبَعِيَّ يُحَدِّثُ عَنْ جُوَيْرِيَةَ بْنِ قُدَامَةَ قَالَ حَجَجْتُ فَأَتَيْتُ الْمَدِينَةَ الْعَامَ الَّذِي أُصِيبَ فِيهِ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ فَخَطَبَ فَقَالَ إِنِّي رَأَيْتُ كَأَنَّ دِيكًا أَحْمَرَ نَقَرَنِي نَقْرَةً أَوْ نَقْرَتَيْنِ شُعْبَةُ الشَّاكُّ قَالَ فَمَا لَبِثَ إِلَّا جُمُعَةً حَتَّى طُعِنَ فَذَكَرَ مِثْلَهُ إِلَّا أَنَّهُ قَالَ وَأُوصِيكُمْ بِأَهْلِ ذِمَّتِكُمْ فَإِنَّهُمْ ذِمَّةُ نَبِيِّكُمْ قَالَ شُعْبَةُ ثُمَّ سَأَلْتُهُ بَعْدَ ذَلِكَ فَقَالَ فِي الْأَعْرَابِ وَأُوصِيكُمْ بِالْأَعْرَابِ فَإِنَّهُمْ إِخْوَانُكُمْ وَعَدُوُّ عَدُوِّكُمْ-
جویریہ بن قدامہ کہتے ہیں کہ جس سال حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ شہید ہوئے، مجھے اس سال حج کی سعادت نصیب ہوئی، میں مدینہ منورہ بھی حاضر ہوا، وہاں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا کہ میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ ایک سرخ رنگ کا مرغا مجھے ایک یا دو مرتبہ ٹھونگ مارتا ہے، اور ایسا ہی ہوا تھا کہ قاتلانہ حملے میں ان پر نیزے کے زخم آئے تھے۔ بہرحال! لوگوں کو ان کے پاس آنے کی اجازت دی گئی توسب سے پہلے ان کے پاس صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تشریف لائے، پھر عام اہل مدینہ، پھر اہل شام اور پھر اہل عراق، اہل عراق کے ساتھ داخل ہونے والوں میں میں بھی شامل تھا، جب بھی لوگوں کی کوئی جماعت ان کے پاس جاتی تو ان کی تعریف کرتی اور ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوتے۔ جب ہم ان کے کمرے میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ ان کے پیٹ کوسفید عمانے سے باندھ دیا گیا ہے لیکن اس میں سے خون کا سیل رواں جاری ہے، ہم نے ان سے وصیت کی درخواست کی جو کہ اس سے قبل ہمارے علاوہ کسی اور نے نہ کی تھی۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کتاب اللہ کو لازم پکڑو، کیونکہ جب تک تم اس کی اتباع کرتے رہوگے، ہرگز گمراہ نہ ہوگے، ہم نے مزید وصیت کی درخواست کی تو فرمایا میں تمہیں مہاجرین کے ساتھ حسن سلوک کی وصیت کرتا ہوں کیونکہ لوگ تو کم اور زیادہ ہوتے ہی رہتے ہیں، انصار کے ساتھ بھی حسن سلوک کی وصیت کرتا ہوں کیونکہ وہ اسلام کا قلعہ ہیں جہاں اہل اسلام نے آکر پناہ لی تھی، نیز دیہاتیوں سے کیونکہ وہ تمہاری اصل اور تمہارا مادہ ہیں، نیز ذمیوں سے بھی حسن سلوک کی وصیت کرتا ہوں ، کیونکہ وہ تمہارے نبی کی ذمہ داری میں ہیں (ان سے معاہدہ کر رکھا ہے) اور تمہارے اہل وعیال کا رزق ہیں ۔ اب جاؤ، اس سے زائد بات انہوں نے کوئی ارشاد نہیں فرمائی، البتہ راوی نے ایک دوسرے موقع پر دیہاتیوں سے متعلق جملے میں اس بات کا بھی اضافہ کیا کہ وہ تمہارے بھائی اور تمہارے دشمن کے دشمن ہیں ۔ جویریہ بن قدامہ کہتے ہیں کہ جس سال حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ شہید ہوئے، مجھے اس سال حج کی سعادت نصیب ہوئی، میں مدینہ منورہ بھی حاضر ہوا، وہاں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا کہ میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ ایک سرخ رنگ کامرغا مجھے ایک یا دو مرتبہ ٹھونگ مارتا ہے، چنانچہ ابھی ایک جمعہ ہی گذرا تھا کہ ان پر حملہ ہوگیا، پھر راوی نے مکمل حدیث ذکر کی اور یہ کہ میں تمہیں ذمیوں سے بھی حسن سلوک کی وصیت کرتا ہوں، کیونکہ وہ تمہارے نبی کی ذمہ داری میں ہیں (ان سے معاہدہ کر رکھا ہے) اور دیہاتیوں کے حوالے سے فرمایا کہ میں تمہیں دیہاتیوں کے ساتھ حسن سلوک کی وصیت کرتا ہوں کیونکہ وہ تمہارے بھائی اور تمہارے دشمنوں کے دشمن ہیں ۔
-
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا سَعِيدٌ وَعَبْدُ الْوَهَّابِ عَنْ سَعِيدٍ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَبِي الْعَالِيَةِ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّهُ قَالَ شَهِدَ عِنْدِي رِجَالٌ مَرْضِيُّونَ فِيهِمْ عُمَرُ وَأَرْضَاهُمْ عِنْدِي عُمَرُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْ صَلَاةٍ بَعْدَ صَلَاةِ الصُّبْحِ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ وَبَعْدَ الْعَصْرِ حَتَّى تَغْرُبَ-
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ مجھے ایسے لوگوں نے اس بات کی شہادت دی ہے جن کی بات قابل اعتماد ہوتی ہے، ان میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی شامل ہیں جو میری نظروں میں ان سب سے زیادہ قابل اعتماد ہیں، کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے کہ فجر کی نماز کے بعد طلوع آفتاب تک کوئی نماز نہ پڑھی جائے اور عصر کی نماز کے بعد غروب آفتاب تک کوئی نفلی نماز نہ پڑھی جائے۔
-
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا سَعِيدٌ عَنْ قَتَادَةَ عَنِ الشَّعْبِيِّ عَنْ سُوَيْدِ بْنِ غَفَلَةَ أَنَّ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ خَطَبَ النَّاسَ بِالْجَابِيَةِ فَقَالَ نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ لُبْسِ الْحَرِيرِ إِلَّا مَوْضِعَ أُصْبُعَيْنِ أَوْ ثَلَاثَةٍ أَوْ أَرْبَعَةٍ وَأَشَارَ بِكَفِّهِ-
سوید بن غفلہ کہتے ہیں کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے جابیہ میں خطبہ دیتے ہوئے فرمایا کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ سلم نے ریشم پہننے سے (مرد کو ) منع فرمایا ہے، سوائے دو تین یا چار انگلیوں کی مقدار کے اور یہ کہہ کر حضرت عمر رضی اللہ نے اپنی ہتھیلی سے بھی اشارہ کیا۔
-
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا سَعِيدٌ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ عَنِ ابْنِ عُمَرَ عَنْ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ الْمَيِّتُ يُعَذَّبُ فِي قَبْرِهِ بِمَا نِيحَ عَلَيْهِ-
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا میت کو اس کی قبر میں اس پر ہونے والے نوحے کی وجہ سے عذاب ہوتا ہے۔
-
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا كَهْمَسٌ عَنِ ابْنِ بُرَيْدَةَ وَيَزِيدُ بْنُ هَارُونَ حَدَّثَنَا كَهْمَسٌ عَنِ ابْنِ بُرَيْدَةَ عَنْ يَحْيَى بْنِ يَعْمَرَ سَمِعَ ابْنَ عُمَرَ قَالَ حَدَّثَنِي عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ بَيْنَمَا نَحْنُ ذَاتَ يَوْمٍ عِنْدَ نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذْ طَلَعَ عَلَيْنَا رَجُلٌ شَدِيدُ بَيَاضِ الثِّيَابِ شَدِيدُ سَوَادِ الشَّعَرِ لَا يُرَى قَالَ يَزِيدُ لَا نَرَى عَلَيْهِ أَثَرَ السَّفَرِ وَلَا يَعْرِفُهُ مِنَّا أَحَدٌ حَتَّى جَلَسَ إِلَى نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَسْنَدَ رُكْبَتَيْهِ إِلَى رُكْبَتَيْهِ وَوَضَعَ كَفَّيْهِ عَلَى فَخِذَيْهِ ثُمَّ قَالَ يَا مُحَمَّدُ أَخْبِرْنِي عَنْ الْإِسْلَامِ مَا الْإِسْلَامُ فَقَالَ الْإِسْلَامُ أَنْ تَشْهَدَ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ وَتُقِيمَ الصَّلَاةَ وَتُؤْتِيَ الزَّكَاةَ وَتَصُومَ رَمَضَانَ وَتَحُجَّ الْبَيْتَ إِنْ اسْتَطَعْتَ إِلَيْهِ سَبِيلًا قَالَ صَدَقْتَ قَالَ فَعَجِبْنَا لَهُ يَسْأَلُهُ وَيُصَدِّقُهُ قَالَ ثُمَّ قَالَ أَخْبِرْنِي عَنْ الْإِيمَانِ قَالَ الْإِيمَانُ أَنْ تُؤْمِنَ بِاللَّهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَالْقَدَرِ كُلِّهِ خَيْرِهِ وَشَرِّهِ قَالَ صَدَقْتَ قَالَ فَأَخْبِرْنِي عَنْ الْإِحْسَانِ مَا الْإِحْسَانُ قَالَ يَزِيدُ أَنْ تَعْبُدَ اللَّهَ كَأَنَّكَ تَرَاهُ فَإِنْ لَمْ تَكُنْ تَرَاهُ فَإِنَّهُ يَرَاكَ قَالَ فَأَخْبِرْنِي عَنْ السَّاعَةِ قَالَ مَا الْمَسْئُولُ عَنْهَا بِأَعْلَمَ بِهَا مِنْ السَّائِلِ قَالَ فَأَخْبِرْنِي عَنْ أَمَارَاتِهَا قَالَ أَنْ تَلِدَ الْأَمَةُ رَبَّتَهَا وَأَنْ تَرَى الْحُفَاةَ الْعُرَاةَ رِعَاءَ الشَّاءِ يَتَطَاوَلُونَ فِي الْبِنَاءِ قَالَ ثُمَّ انْطَلَقَ قَالَ فَلَبِثَ مَلِيًّا قَالَ يَزِيدُ ثَلَاثًا فَقَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَا عُمَرُ أَتَدْرِي مَنْ السَّائِلُ قَالَ قُلْتُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ قَالَ فَإِنَّهُ جِبْرِيلُ أَتَاكُمْ يُعَلِّمُكُمْ دِينَكُمْ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ حَدَّثَنَا كَهْمَسٌ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ عَنْ يَحْيَى بْنِ يَعْمَرَ سَمِعَ ابْنَ عُمَرَ قَالَ حَدَّثَنَا عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ كُنَّا جُلُوسًا عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرَ الْحَدِيثَ إِلَّا أَنَّهُ قَالَ وَلَا يُرَى عَلَيْهِ أَثَرُ السَّفَرِ وَقَالَ قَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَلَبِثْتُ ثَلَاثًا فَقَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَا عُمَرُ-
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، ایک دن ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک ایک آدمی چلتا ہوا آیا، وہ مضبوط، سفید کپڑوں میں ملبوس اور انتہائی سیاہ بالوں والا تھا اس پر سفر کے آثار نظر آرہے تھے اور نہ ہی ہم میں سے کوئی اسے پہچانتا تھا ۔ وہ آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب آکر بیٹھ گیا۔ اور اس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے گھٹنوں سے اپنے گھٹنے ملا کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رانوں پر ہاتھ رکھ لیے اور کہنے لگا کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم مجھے اسلام کے بارے بتائیے کہ اسلام کیا ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود ہو ہی نہیں سکتا اور یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے پیغمبر ہیں نیز یہ کہ آپ نماز قائم کریں، زکوۃ اداکریں، رمضان کے روزے رکھیں اور حج بیت اللہ کریں ۔ اس نے اگلا سوال یہ پوچھا کہ ایمان کیا ہے؟ فرمایا تم اللہ پر، اس کے فرشتوں ، کتابوں ، رسولوں ، یوم آخرت اور ہر اچھی بری تقدیر پر یقین رکھو،، اس نے کہا آپ نے سچ فرمایا پھر پوچھا کہ احسان کیا ہے؟ فرمایا تم اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لیے کوئی عمل اس طرح کرو گویا کہ تم اسے دیکھ رہے ہو، اگر تم یہ تصور نہیں کرسکتے تو پھر یہی تصور کرلو کہ وہ تو تمہیں دیکھ ہی رہا ہے (اس لیے یہی تصور کرلیا کرو کہ اللہ ہمیں دیکھ رہا ہے) ۔ اس نے پھر پوچھا کہ قیامت کب آئے گی؟ فرمایا جس سے سوال پوچھا جارہا ہے وہ پوچھنے والے سے زیادہ نہیں جانتا یعنی ہم دونوں ہی اس معاملے میں بے خبر ہیں، اس نے کہا کہ پھر اس کی کچھ علامات ہی بتا دیجئے؟ فرمایا جب تم یہ دیکھو کہ جن کے جسم پر چیتھڑا اور پاؤں میں لیترا نہیں ہوتا تھا ،غریب اور چرواہے تھے، آج وہ بڑی بڑی بلڈنگیں اور عمارتیں بنا کر ایک دوسرے پر فخر کرنے لگیں، لونڈیاں اپنی مالکن کو جنم دینے لگیں تو قیامت قریب آگئی۔ پھر وہ آدمی چلا گیا تو کچھ دیر بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا اے عمر! کیا تمہیں علم ہے کہ وہ سائل کون تھا؟ انہوں نے عرض کیا اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں، فرمایا وہ جبرئیل علیہ السلام تھے جو تمہیں تمہارے دین کی اہم اہم باتیں سکھانے آئے تھے۔ گذشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی روایت کی گئی ہے۔
-
حَدَّثَنَا بَهْزٌ قَالَ وَحَدَّثَنَا عَفَّانُ قَالَا حَدَّثَنَا هَمَّامٌ حَدَّثَنَا قَتَادَةُ عَنْ أَبِي نَضْرَةَ قَالَ قُلْتُ لِجَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ إِنَّ ابْنَ الزُّبَيْرِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَنْهَى عَنْ الْمُتْعَةِ وَإِنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ يَأْمُرُ بِهَا قَالَ فَقَالَ لِي عَلَى يَدِي جَرَى الْحَدِيثُ تَمَتَّعْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ عَفَّانُ وَمَعَ أَبِي بَكْرٍ فَلَمَّا وَلِيَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ خَطَبَ النَّاسَ فَقَالَ إِنَّ الْقُرْآنَ هُوَ الْقُرْآنُ وَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هُوَ الرَّسُولُ وَإِنَّهُمَا كَانَتَا مُتْعَتَانِ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِحْدَاهُمَا مُتْعَةُ الْحَجِّ وَالْأُخْرَى مُتْعَةُ النِّسَاءِ-
ابو نضرہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ حج تمتع سے منع کرتے ہیں جبکہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ اس کی اجازت دیتے ہیں اس کی کیا وجہ ہے؟ انہوں نے مجھ سے حدیث بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ ہم کو خلافت ملی تو انہوں نے خطبہ دیتے ہوئے لوگوں سے فرمایا کہ قرآن، قرآن ہے اور پیغمبر، پیغمبر ہے، حالانکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور باسعادت میں دوطرح کامتعہ ہوتا تھا ، ایک متعۃ الحج جسے حج تمتع کہتے ہیں اور ایک متعۃ النساء جو عورتوں کو طلاق دے کر رخصت کرتے وقت کپڑوں کی صورت میں دینا مستحب ہے۔
-
حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ أَنْبَأَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ هُبَيْرَةَ عَنْ أَبِي تَمِيمٍ أَنَّهُ سَمِعَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَقُولُ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ لَوْ أَنَّكُمْ تَوَكَّلْتُمْ عَلَى اللَّهِ حَقَّ تَوَكُّلِهِ لَرَزَقَكُمْ كَمَا يَرْزُقُ الطَّيْرَ تَغْدُو خِمَاصًا وَتَرُوحُ بِطَانًا-
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سناہے کہ اگر تم اللہ پر اس طرح ہی توکل کر لیتے جیسے اس پر توکل کرنے کا حق ہے تو تمہیں اسی طرح رزق عطاء کیا جاتا جیسے پرندوں کو دیا جاتا ہے جو صبح کو خالی پیٹ نکلتے ہیں اور شام کو پیٹ بھر کر واپس آتے ہیں ۔
-
حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ حَدَّثَنَا لَيْثٌ حَدَّثَنِي بُكَيْرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ بُسْرِ بْنِ سَعِيدٍ عَنْ ابْنِ السَّاعِدِيِّ الْمَالِكِيِّ أَنَّهُ قَالَ اسْتَعْمَلَنِي عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَلَى الصَّدَقَةِ فَلَمَّا فَرَغْتُ مِنْهَا وَأَدَّيْتُهَا إِلَيْهِ أَمَرَ لِي بِعِمَالَةٍ فَقُلْتُ لَهُ إِنَّمَا عَمِلْتُ لِلَّهِ وَأَجْرِي عَلَى اللَّهِ قَالَ خُذْ مَا أُعْطِيتَ فَإِنِّي قَدْ عَمِلْتُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَعَمَّلَنِي فَقُلْتُ مِثْلَ قَوْلِكَ فَقَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أُعْطِيتَ شَيْئًا مِنْ غَيْرِ أَنْ تَسْأَلَ فَكُلْ وَتَصَدَّقْ-
عبداللہ بن ساعدی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مجھے کسی جگہ زکوۃ وصول کرنے کے لئے بھیجا، جب میں فارغ ہو کر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور وہ مال ان کے حوالے کر دیا تو انہوں نے مجھے تنخواہ دینے کا حکم دیا میں نے عرض کیا کہ میں نے یہ کام اللہ کی رضا کے لئے کیا ہے اور وہی مجھے اس کا اجر دے گا۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا تمہیں جو دیا جائے وہ لے لیا کرو ، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں ایک مرتبہ میں نے بھی یہی خدمت سرانجام دی تھی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے کچھ مال و دولت عطاء فرمایا، میں نے تمہاری والی بات کہہ دی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر تمہاری خواہش اور سوال کے بغیر کہیں سے مال آئے تو اسے کھالیا کرو ، ورنہ اسے صدقہ کر دیا کرو ۔
-
حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ حَدَّثَنَا لَيْثٌ حَدَّثَنِي بُكَيْرٌ عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ سَعِيدٍ الْأَنْصَارِيِّ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّهُ قَالَ هَشَشْتُ يَوْمًا فَقَبَّلْتُ وَأَنَا صَائِمٌ فَأَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ صَنَعْتُ الْيَوْمَ أَمْرًا عَظِيمًا قَبَّلْتُ وَأَنَا صَائِمٌ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرَأَيْتَ لَوْ تَمَضْمَضْتَ بِمَاءٍ وَأَنْتَ صَائِمٌ فَقُلْتُ لَا بَأْسَ بِذَلِكَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَفِيمَ-
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دن میں بہت خوش تھا، خوشی سے سرشار ہو کر میں نے روزہ کی حالت میں ہی اپنی بیوی کا بوسہ لے لیا، اس کے بعد احساس ہوا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ یار سول اللہ! آج مجھ سے ایک بہت بڑا گناہ سرزد ہو گیا ہے، میں نے روزے کی حالت میں اپنی بیوی کو بوسہ دے دیا؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ بتاؤ! اگر آپ روزے کی حالت میں کلی کر لو تو کیا ہوگا؟ میں نے عرض کیا اس میں تو کوئی حرج نہیں ہے، فرمایا پھر اس میں کہاں سے ہوگا؟
-
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ إِسْحَاقَ أَنْبَأَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ هُبَيْرَةَ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا تَمِيمٍ الْجَيْشَانِيَّ يَقُولُ سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَقُولُ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ لَوْ أَنَّكُمْ كُنْتُمْ تَوَكَّلُونَ عَلَى اللَّهِ حَقَّ تَوَكُّلِهِ لَرَزَقَكُمْ كَمَا يَرْزُقُ الطَّيْرَ أَلَا تَرَوْنَ أَنَّهَا تَغْدُو خِمَاصًا وَتَرُوحُ بِطَانًا-
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اگر تم اللہ پر اس طرح ہی توکل کرلیتے جیسے اس پر توکل کرنے کا حق ہے تو تمہیں اسی طرح رزق عطاء کیا جاتاجیسے پرندوں کودیا جاتا ہے جو صبح کو خالی پیٹ نکلتے ہیں اور شام کو پیٹ بھر کر واپس آتے ہیں ۔
-
حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ مَرْثَدٍ عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ بُرَيْدَةَ عَنِ ابْنِ يَعْمَرَ قَالَ قُلْتُ لِابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ إِنَّا نُسَافِرُ فِي الْآفَاقِ فَنَلْقَى قَوْمًا يَقُولُونَ لَا قَدَرَ فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ إِذَا لَقِيتُمُوهُمْ فَأَخْبِرُوهُمْ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ مِنْهُمْ بَرِيءٌ وَأَنَّهُمْ مِنْهُ بُرَآءُ ثَلَاثًا ثُمَّ أَنْشَأَ يُحَدِّثُ بَيْنَمَا نَحْنُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَجَاءَ رَجُلٌ فَذَكَرَ مِنْ هَيْئَتِهِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ادْنُهْ فَدَنَا فَقَالَ ادْنُهْ فَدَنَا فَقَالَ ادْنُهْ فَدَنَا حَتَّى كَادَ رُكْبَتَاهُ تَمَسَّانِ رُكْبَتَيْهِ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَخْبِرْنِي مَا الْإِيمَانُ أَوْ عَنْ الْإِيمَانِ قَالَ تُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَتُؤْمِنُ بِالْقَدَرِ قَالَ سُفْيَانُ أُرَاهُ قَالَ خَيْرِهِ وَشَرِّهِ قَالَ فَمَا الْإِسْلَامُ قَالَ إِقَامُ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءُ الزَّكَاةِ وَحَجُّ الْبَيْتِ وَصِيَامُ شَهْرِ رَمَضَانَ وَغُسْلٌ مِنْ الْجَنَابَةِ كُلُّ ذَلِكَ قَالَ صَدَقْتَ صَدَقْتَ قَالَ الْقَوْمُ مَا رَأَيْنَا رَجُلًا أَشَدَّ تَوْقِيرًا لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ هَذَا كَأَنَّهُ يُعَلِّمُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَخْبِرْنِي عَنْ الْإِحْسَانِ قَالَ أَنْ تَعْبُدَ اللَّهَ أَوْ تَعْبُدَهُ كَأَنَّكَ تَرَاهُ فَإِنْ لَا تَرَاهُ فَإِنَّهُ يَرَاكَ كُلُّ ذَلِكَ نَقُولُ مَا رَأَيْنَا رَجُلًا أَشَدَّ تَوْقِيرًا لِرَسُولِ اللَّهِ مِنْ هَذَا فَيَقُولُ صَدَقْتَ صَدَقْتَ قَالَ أَخْبِرْنِي عَنْ السَّاعَةِ قَالَ مَا الْمَسْئُولُ عَنْهَا بِأَعْلَمَ بِهَا مِنْ السَّائِلِ قَالَ فَقَالَ صَدَقْتَ قَالَ ذَلِكَ مِرَارًا مَا رَأَيْنَا رَجُلًا أَشَدَّ تَوْقِيرًا لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ هَذَا ثُمَّ وَلَّى قَالَ سُفْيَانُ فَبَلَغَنِي أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ الْتَمِسُوهُ فَلَمْ يَجِدُوهُ قَالَ هَذَا جِبْرِيلُ جَاءَكُمْ يُعَلِّمُكُمْ دِينَكُمْ مَا أَتَانِي فِي صُورَةٍ إِلَّا عَرَفْتُهُ غَيْرَ هَذِهِ الصُّورَةِ حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ مَرْثَدٍ عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ بُرَيْدَةَ عَنِ ابْنِ يَعْمَرَ قَالَ سَأَلْتُ ابْنَ عُمَرَ أَوْ سَأَلَهُ رَجُلٌ إِنَّا نَسِيرُ فِي هَذِهِ الْأَرْضِ فَنَلْقَى قَوْمًا يَقُولُونَ لَا قَدَرَ فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ إِذَا لَقِيتَ أُولَئِكَ فَأَخْبِرْهُمْ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ مِنْهُمْ بَرِيءٌ وَهُمْ مِنْهُ بُرَآءُ قَالَهَا ثَلَاثَ مَرَّاتٍ ثُمَّ أَنْشَأَ يُحَدِّثُنَا قَالَ بَيْنَا نَحْنُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَجَاءَ رَجُلٌ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَدْنُو فَقَالَ ادْنُهْ فَدَنَا رَتْوَةً ثُمَّ قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَدْنُو فَقَالَ ادْنُهْ فَدَنَا رَتْوَةً ثُمَّ قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَدْنُو فَقَالَ ادْنُهْ فَدَنَا رَتْوَةً حَتَّى كَادَتْ أَنْ تَمَسَّ رُكْبَتَاهُ رُكْبَةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا الْإِيمَانُ فَذَكَرَ مَعْنَاهُ-
یحییٰ بن یعمر کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے ذکر کیا کہ ہم لوگ دنیا میں مختلف جگہوں کے سفر پر آتے جاتے رہتے ہیں ، ہماری ملاقات بعض ان لوگوں سے بھی ہوتی ہے جو تقدیر کے منکر ہوتے ہیں انہوں نے فرمایا کہ جب تم ان لوگوں کے پاس لوٹ کر جاؤ توان سے کہہ دینا کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ تم سے بری ہے، اور تم اس سے بری ہو، یہ بات تین مرتبہ کہہ کر انہوں نے یہ روایت سنائی کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ، ایک دن ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک ایک آدمی چلتا ہوا آیا، پھر انہوں نے اس کا حلیہ بیان کیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دو مرتبہ اسے قریب ہونے کے لیے کہا چنانچہ وہ اتنا قریب ہوا کہ اس کے گھٹنے نبی صلی اللہ علیہ کے گھٹنوں سے چھونے لگے، اس نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ بتائیے کہ ایمان کیا ہے؟ فرمایا تم اللہ پر، اس کے فرشتوں، جنت و جہنم، قیامت کے بعد دوبارہ جی اٹھنے اور تقدیر پر یقین رکھو، اس نے پھر پوچھا کہ اسلام کیا ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ کہ آپ نماز قائم کریں ، زکوۃ ادا کریں رمضان کے روزے رکھیں اور حج بیت اللہ کریں اور غسل جنابت کریں ۔ اس نے پھر پوچھا کہ احسان کیا ہے؟ فرمایا تم اللہ کی رضاحاصل کرنے کے لیے اس کی عبادت اس طرح کرو گویا کہ تم اسے دیکھ رہے ہو، اگر تم یہ تصور نہیں کر سکتے تو وہ تو تمہیں دیکھ ہی رہا ہے (اس لیے یہ تصور ہی کر لیا کرو کہ اللہ ہمیں دیکھ رہا ہے) اس کے ہر سوال پر ہم یہی کہتے تھے کہ اس سے زیادہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و توقیر کرنے والا ہم نے کوئی نہیں دیکھا اور وہ باربار کہتا جارہا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سچ فرمایا۔ اس نے پھر پوچھا کہ قیامت کب آئے گی؟ فرمایا جس سے سوال پوچھا جا رہا ہے وہ پوچھنے والے سے زیادہ نہیں جانتا یعنی ہم دونوں ہی اس معاملے میں بے خبر ہیں، جب وہ آدمی چلا گیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ذرا اس آدمی کو بلا کر لانا، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس کی تلاش میں نکلے تو انہیں وہ نہ ملا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ جبرئیل تھے جو تمہیں تمہارے دین کی اہم اہم باتیں سکھانے آئے تھے، اس سے پہلے وہ جس صورت میں بھی آتے تھے میں انہیں پہچان لیتا تھا لیکن اس مرتبہ نہیں پہچان سکا۔ یحییٰ بن یعمر کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے ذکر کیا کہ ہم لوگ دنیا میں مختلف جگہوں کے سفر پر آتے جاتے رہتے ہیں، ہماری ملاقات بعض ان لوگوں سے بھی ہوتی ہے جو تقدیر کے منکر ہوتے ہیں انہوں نے فرمایا کہ جب تم ان لوگوں کے پاس لوٹ کر جاؤ تو ان سے کہہ دینا کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ تم سے بری ہے، اور تم اس سے بری ہو، یہ بات تین مرتبہ کہہ کر انہوں نے یہ روایت سنائی کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، ایک دن ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک ایک آدمی چلتا ہوا آیا، پھر انہوں نے اس کا حلیہ بیان کیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دو مرتبہ اسے قریب ہونے کے لیے کہا چنانچہ وہ اتنا قریب ہوا کہ اس کے گھٹنے نبی صلی اللہ علیہ کے گھٹنوں سے چھونے لگے، اس نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ بتائیے کہ ایمان کیا ہے؟ پھر راوی نے مکمل حدیث ذکر کی۔
-
حَدَّثَنَا حَسَنُ بْنُ مُوسَى الْأَشْيَبُ حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ أَبِي الْوَلِيدِ عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سُرَاقَةَ الْعَدَوِيِّ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ أَظَلَّ رَأْسَ غَازٍ أَظَلَّهُ اللَّهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَمَنْ جَهَّزَ غَازِيًا حَتَّى يَسْتَقِلَّ بِجَهَازِهِ كَانَ لَهُ مِثْلُ أَجْرِهِ وَمَنْ بَنَى مَسْجِدًا يُذْكَرُ فِيهِ اسْمُ اللَّهِ بَنَى اللَّهُ لَهُ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ-
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے جو شخص کسی مجاہد کے سر پر سایہ کرے، اللہ قیامت کے دن اس پر سایہ کرے گا، جو شخص مجاہد کو سامان جہاد مہیا کرے یہاں تک کہ وہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہوجائے، اس کے لیے اس مجاہد کے برابر اجر لکھاجاتا رہے گا، اور جو شخص اللہ کی رضا کے لیے مسجد تعمیر کرے جس میں اللہ کا ذکر کیا جائے، اللہ جنت میں اس کا گھر تعمیر کرے گا۔
-
حَدَّثَنَا عَتَّابٌ يَعْنِي ابْنَ زِيَادٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ يَعْنِي ابْنَ الْمُبَارَكِ أَنْبَأَنَا يُونُسُ عَنِ الزُّهْرِيِّ عَنِ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ وَعُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ عَنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدٍ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ عَبْد اللَّهِ وَقَدْ بَلَغَ بِهِ أَبِي إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ فَاتَهُ شَيْءٌ مِنْ وِرْدِهِ أَوْ قَالَ مِنْ جُزْئِهِ مِنْ اللَّيْلِ فَقَرَأَهُ مَا بَيْنَ صَلَاةِ الْفَجْرِ إِلَى الظُّهْرِ فَكَأَنَّمَا قَرَأَهُ مِنْ لَيْلَتِهِ-
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس شخص سے اس کا رات والی دعاؤں کا معمول کسی وجہ سے چھوٹ جائے اور وہ اسے اگلے دن فجر اور ظہر کے درمیان کسی بھی وقت پڑھ لے تو گویا اس نے اپنا معمول رات ہی کو پورا کیا ۔
-
حَدَّثَنَا خَلَفُ بْنُ الْوَلِيدِ حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ عَنْ أَبِي مَيْسَرَةَ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ لَمَّا نَزَلَ تَحْرِيمُ الْخَمْرِ قَالَ اللَّهُمَّ بَيِّنْ لَنَا فِي الْخَمْرِ بَيَانًا شَافِيًا فَنَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ الَّتِي فِي سُورَةِ الْبَقَرَةِ يَسْأَلُونَكَ عَنْ الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ قُلْ فِيهِمَا إِثْمٌ كَبِيرٌ قَالَ فَدُعِيَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَقُرِئَتْ عَلَيْهِ فَقَالَ اللَّهُمَّ بَيِّنْ لَنَا فِي الْخَمْرِ بَيَانًا شَافِيًا فَنَزَلَتْ الْآيَةُ الَّتِي فِي سُورَةِ النِّسَاءِ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَقْرَبُوا الصَّلَاةَ وَأَنْتُمْ سُكَارَى فَكَانَ مُنَادِي رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَقَامَ الصَّلَاةَ نَادَى أَنْ لَا يَقْرَبَنَّ الصَّلَاةَ سَكْرَانُ فَدُعِيَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَقُرِئَتْ عَلَيْهِ فَقَالَ اللَّهُمَّ بَيِّنْ لَنَا فِي الْخَمْرِ بَيَانًا شَافِيًا فَنَزَلَتْ الْآيَةُ الَّتِي فِي الْمَائِدَةِ فَدُعِيَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَقُرِئَتْ عَلَيْهِ فَلَمَّا بَلَغَ فَهَلْ أَنْتُمْ مُنْتَهُونَ قَالَ فَقَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ انْتَهَيْنَا انْتَهَيْنَا-
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب حرمت شراب کا حکم نازل ہونا شروع ہوا تو انہوں نے دعاء کی کہ اے اللہ! شراب کے بارے میں کوئی شافی بیان نازل فرمائیے، چنانچہ سورت بقرہ کی یہ آیت نازل ہوئی۔ یسألونک عن الخمر والمیسر قل فیہمااثم کبیر اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم یہ آپ سے شراب اور جوئے کے بارے پوچھتے ہیں، آپ فرما دیجئے کہ ان کا گناہ بہت بڑا ہے۔ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو بلا کر یہ آیت سنائی گئی، انہوں نے پھر وہی دعاء کی کہ اے اللہ! شراب کے بارے کوئی شافی بیان نازل فرمائیے، اس پر سورت نساء کی یہ آیت نازل ہوئی۔ یا ایہاالذین آمنوا لاتقربوا الصلاۃ وانتم سکاری اے ایمان والو! جب تم نشے کی حالت میں ہو تو نماز کے قریب نہ جاؤ اس آیت کے نزول کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مؤذن جب اقامت کہتا تو یہ نداء بھی لگاتا کہ نشے میں مدہوش کوئی شخص نماز کے قریب نہ آئے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو بلا کر یہ آیت بھی سنائی گئی، لیکن انہوں نے پھر وہی دعاء کی کہ اے اللہ! شراب کے بارے کوئی شافی بیان نازل فرمائیے، اس پر سورت مائدہ کی آیت نازل ہوئی، اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو بلا کر اس کی تلاوت بھی سنائی گئی، جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم فہل انتم منتہون پر پہنچے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کہنے لگے کہ ہم باز آگئے، ہم باز آگئے۔
-
حَدَّثَنَا عَفَّانُ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنِ الْحَكَمِ عَنْ أَبِي وَائِلٍ عَنْ صُبَيِّ بْنِ مَعْبَدٍ أَنَّهُ كَانَ نَصْرَانِيًّا تَغْلِبِيًّا فَأَسْلَمَ فَسَأَلَ أَيُّ الْعَمَلِ أَفْضَلُ فَقِيلَ لَهُ الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ فَأَرَادَ أَنْ يُجَاهِدَ فَقِيلَ لَهُ أَحَجَجْتَ قَالَ لَا فَقِيلَ لَهُ حُجَّ وَاعْتَمِرْ ثُمَّ جَاهِدْ فَأَهَلَّ بِهِمَا جَمِيعًا فَوَافَقَ زَيْدَ بْنَ صُوحَانَ وَسَلْمَانَ بْنَ رَبِيعَةَ فَقَالَا هُوَ أَضَلُّ مِنْ نَاقَتِهِ أَوْ مَا هُوَ بِأَهْدَى مِنْ جَمَلِهِ فَانْطَلَقَ إِلَى عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَأَخْبَرَهُ بِقَوْلِهِمَا فَقَالَ هُدِيتَ لِسُنَّةِ نَبِيِّكَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْ لِسُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-
حضرت ابووائل کہتے ہیں کہ صبی بن معبد ایک دیہاتی قبیلہ بنو تغلب کے عیسائی آدمی تھے جنہوں نے اسلام قبول کرلیا، انہوں نے لوگوں سے پوچھا کہ سب سے افضل عمل کون سا ہے؟ لوگوں نے بتایا راہ خدا میں جہاد کرنا، چنانچہ انہوں نے جہاد کا ارادہ کرلیا، اسی اثناء میں کسی نے ان سے پوچھا کہ آپ نے حج کیا ہے؟ انہوں نے کہا کہ نہیں ! اس نے کہا آپ پہلے حج اور عمرہ کرلیں، پھر جہاد میں شرکت کریں ۔ چنانچہ وہ حج کی نیت سے روانہ ہوگئے اور میقات پر پہنچ کر حج اور عمرہ دونوں کا احرام باندھ لیا، زید بن صوحان اور سلمان بن ربیعہ کو معلوم ہوا تو انہوں نے کہا کہ یہ شخص اپنے اونٹ سے بھی زیادہ گمراہ ہے، صبی نے یہ بات سن لی جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو زید اور سلمان نے جو کہا تھا، اس کے متعلق ان کی خدمت میں عرض کیا، حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ان سے فرمایا کہ آپ کو اپنے پیغمبر کی سنت پر رہنمائی نصیب ہوگئی۔
-
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ عَنْ هِشَامٍ قَالَ أَخْبَرَنِي أَبِي أَنَّ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ لِلْحَجَرِ إِنَّمَا أَنْتَ حَجَرٌ وَلَوْلَا أَنِّي رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُقَبِّلُكَ مَا قَبَّلْتُكَ ثُمَّ قَبَّلَهُ-
ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے حجر اسود سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ تو محض ایک پتھر ہے اگر میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تیرا بوسہ لیتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو میں تجھے کبھی بوسہ نہ دیتا،
-
حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ هِشَامٍ عَنْ أَبِيهِ أَنَّ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَتَى الْحَجَرَ فَقَالَ إِنِّي لَأَعْلَمُ أَنَّكَ حَجَرٌ لَا تَضُرُّ وَلَا تَنْفَعُ وَلَوْلَا أَنِّي رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُقَبِّلُكَ مَا قَبَّلْتُكَ قَالَ ثُمَّ قَبَّلَهُ-
عروہ کہتے ہیں کہ میں نے دیکھا ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ حجر اسود کے پاس آئے اور اس سے فرمایا میں جانتا ہوں کہ تو ایک پتھر ہے، کسی کو نفع پہنچا سکتا ہے اور نہ نقصان، اگر میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تیرا بوسہ لیتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو میں تجھے کبھی بوسہ نہ دیتا، یہ کہہ کر انہوں نے اسے بوسہ دیا۔
-
حَدَّثَنَا وَكِيعٌ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عَبْدِ الْأَعْلَى عَنْ سُوَيْدِ بْنِ غَفَلَةَ أَنَّ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَبَّلَهُ وَالْتَزَمَهُ ثُمَّ قَالَ رَأَيْتُ أَبَا الْقَاسِمِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِكَ حَفِيًّا يَعْنِي الْحَجَرَ-
سوید بن غفلہ رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ میں نے دیکھا ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے حجر اسود کو چمٹ کر اسے بوسہ دیا اور اس سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ میں نے ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم کو تجھ پر مہربان دیکھا ہے۔
-
حَدَّثَنَا وَكِيعٌ حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُمَرَ عَنْ أَبِيهِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا جَاءَ اللَّيْلُ مِنْ هَهُنَا وَذَهَبَ النَّهَارُ مِنْ هَهُنَا فَقَدْ أَفْطَرَ الصَّائِمُ-
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جب رات یہاں سے آجائے اور دن وہاں سے چلا جائے تو روزہ دار کو روزہ افطار کرلینا چاہیے، مشرق اور مغرب مراد ہے ۔
-
حَدَّثَنَا وَكِيعٌ حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَثَلُ الَّذِي يَعُودُ فِي صَدَقَتِهِ كَمَثَلِ الَّذِي يَعُودُ فِي قَيْئِهِ-
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا صدقہ دے کر دوبارہ اس کی طرف رجوع کرنے والا اس شخص کی طرح ہوتا ہے جو اپنے منہ سے قئی کر کے اس کو چاٹ لے۔
-
حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ عَنْ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ كَانَ أَهْلُ الْجَاهِلِيَّةِ لَا يُفِيضُونَ مِنْ جَمْعٍ حَتَّى يَقُولُوا أَشْرِقْ ثَبِيرُ كَيْمَا نُغِيرُ فَلَمَّا جَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَالَفَهُمْ فَكَانَ يَدْفَعُ مِنْ جَمْعٍ مِقْدَارَ صَلَاةِ الْمُسْفِرِينَ بِصَلَاةِ الْغَدَاةِ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ-
حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ مشرکین طلوع آفتاب سے پہلے واپس نہیں جاتے تھے، اور کہتے تھے کہ کوہ ثبیر روشن ہو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا طریقہ اختیار نہیں کیا اور مزدلفہ سے منی کی طرف طلوع آفتاب سے قبل ہی روانہ ہوگئے جبکہ نماز فجر اسفار کر کے پڑھنے والوں کی مقدار کے تناسب سے پڑھی جاسکتی تھی۔
-
حَدَّثَنَا وَكِيعٌ حَدَّثَنَا رَبَاحُ بْنُ أَبِي مَعْرُوفٍ عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ سَمِعَ ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَقُولُ قَالَ لِي عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ إِنَّ الْمَيِّتَ لَيُعَذَّبُ بِبُكَاءِ أَهْلِهِ عَلَيْهِ-
حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ میت کو اس پر اس کے اہل خانہ کے رونے کی وجہ سے عذاب ہوتا ہے۔
-
حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ حَسَنِ بْنِ صَالِحٍ عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ عَنْ سَالِمٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَمْسَحُ عَلَى خُفَّيْهِ فِي السَّفَرِ-
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے خود اپنی آنکھوں سے دوران سفر جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو موزوں پر مسح کرتے ہوئے دیکھا ہے۔
-
حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ إِسْرَائِيلَ عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ عَنْ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَتَعَوَّذُ مِنْ الْبُخْلِ وَالْجُبْنِ وَعَذَابِ الْقَبْرِ وَأَرْذَلِ الْعُمُرِ وَفِتْنَةِ الصَّدْرِ قَالَ وَكِيعٌ فِتْنَةُ الصَّدْرِ أَنْ يَمُوتَ الرَّجُلُ وَذَكَرَ وَكِيعٌ الْفِتْنَةَ لَمْ يَتُبْ مِنْهَا-
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (پانچ چیزوں سے) اللہ کی پناہ مانگا کرتے تھے، بخل سے، بزدلی سے، دل کے فتنہ سے، عذاب قبر سے اور بری عمر سے۔
-
حَدَّثَنَا وَكِيعٌ حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ الْوَلِيدِ الشَّنِّيُّ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ قَالَ جَلَسَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ مَجْلِسًا كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَجْلِسُهُ تَمُرُّ عَلَيْهِ الْجَنَائِزُ قَالَ فَمَرُّوا بِجِنَازَةٍ فَأَثْنَوْا خَيْرًا فَقَالَ وَجَبَتْ ثُمَّ مَرُّوا بِجِنَازَةٍ فَأَثْنَوْا خَيْرًا فَقَالَ وَجَبَتْ ثُمَّ مَرُّوا بِجِنَازَةٍ فَقَالُوا خَيْرًا فَقَالَ وَجَبَتْ ثُمَّ مَرُّوا بِجِنَازَةٍ فَقَالُوا هَذَا كَانَ أَكْذَبَ النَّاسِ فَقَالَ إِنَّ أَكْذَبَ النَّاسِ أَكْذَبُهُمْ عَلَى اللَّهِ ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ مَنْ كَذَبَ عَلَى رُوحِهِ فِي جَسَدِهِ قَالَ قَالُوا أَرَأَيْتَ إِذَا شَهِدَ أَرْبَعَةٌ قَالَ وَجَبَتْ قَالُوا أَوْ ثَلَاثَةٌ قَالَ وَثَلَاثَةٌ وَجَبَتْ قَالُوا وَاثْنَيْنِ قَالَ وَجَبَتْ وَلَأَنْ أَكُونَ قُلْتُ وَاحِدًا أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ حُمْرِ النَّعَمِ قَالَ فَقِيلَ لِعُمَرَ هَذَا شَيْءٌ تَقُولُهُ بِرَأْيِكَ أَمْ شَيْءٌ سَمِعْتَهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا بَلْ سَمِعْتُهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-
عبداللہ بن بریدہ رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اس جگہ بیٹھے ہوئے تھے جہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی بیٹھتے تھے اور وہاں سے جنازے گذرتے تھے، وہاں سے ایک جنازہ کا گذر ہوا، لوگوں نے اس مردے کی تعریف کی، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا واجب ہوگئی، پھر دوسرا جنازہ گذرا، لوگوں نے اس کی بھی تعریف کی، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پھر فرمایا واجب ہوگئی، تیسرے جنازہ پر بھی ایسا ہی ہوا، جب چوتھا جنازہ گذرا تو لوگوں نے کہا یہ سب سے بڑا جھوٹا تھا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا لوگوں میں سب سے بڑا جھوٹا وہ ہوتا ہے جو اللہ پر سب سے زیادہ جھوٹ باندھتا ہے، اس کے بعد وہ لوگ ہوتے ہیں جو اپنے جسم میں موجود روح پر جھوٹ باندھتے ہیں، لوگوں نے کہا یہ بتائیے کہ اگر کسی مسلمان کے لیے چار آدمی خیر کی گواہی دے دیں تو اس کا کیا حکم ہے؟ انہوں نے فرمایا اس کے لیے جنت واجب ہوگئی، لوگوں نے عرض کیا اگر تین آدمی ہوں؟ تو فرمایا تب بھی یہی حکم ہے، ہم نے دو کے متعلق پوچھا، فرمایا دو ہوں تب بھی یہی حکم ہے، اگر میں ایک کے متعلق پوچھ لیتا تو یہ میرے نزدیک سرخ اونٹوں سے بھی زیادہ پسندیدہ تھا، کسی شخص نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ یہ بات آپ اپنی رائے سے کہہ رہے ہیں یا آپ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے؟ انہوں نے فرمایا نہیں، بلکہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے۔
-
حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَبَايَةَ بْنِ رِفَاعَةَ قَالَ بَلَغَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ سَعْدًا لَمَّا بَنَى الْقَصْرَ قَالَ انْقَطَعَ الصُّوَيْتُ فَبَعَثَ إِلَيْهِ مُحَمَّدَ بْنَ مَسْلَمَةَ فَلَمَّا قَدِمَ أَخْرَجَ زَنْدَهُ وَأَوْرَى نَارَهُ وَابْتَاعَ حَطَبًا بِدِرْهَمٍ وَقِيلَ لِسَعْدٍ إِنَّ رَجُلًا فَعَلَ كَذَا وَكَذَا فَقَالَ ذَاكَ مُحَمَّدُ بْنُ مَسْلَمَةَ فَخَرَجَ إِلَيْهِ فَحَلَفَ بِاللَّهِ مَا قَالَهُ فَقَالَ نُؤَدِّي عَنْكَ الَّذِي تَقُولُهُ وَنَفْعَلُ مَا أُمِرْنَا بِهِ فَأَحْرَقَ الْبَابَ ثُمَّ أَقْبَلَ يَعْرِضُ عَلَيْهِ أَنْ يُزَوِّدَهُ فَأَبَى فَخَرَجَ فَقَدِمَ عَلَى عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَهَجَّرَ إِلَيْهِ فَسَارَ ذَهَابَهُ وَرُجُوعَهُ تِسْعَ عَشْرَةَ فَقَالَ لَوْلَا حُسْنُ الظَّنِّ بِكَ لَرَأَيْنَا أَنَّكَ لَمْ تُؤَدِّ عَنَّا قَالَ بَلَى أَرْسَلَ يَقْرَأُ السَّلَامَ وَيَعْتَذِرُ وَيَحْلِفُ بِاللَّهِ مَا قَالَهُ قَالَ فَهَلْ زَوَّدَكَ شَيْئًا قَالَ لَا قَالَ فَمَا مَنَعَكَ أَنْ تُزَوِّدَنِي أَنْتَ قَالَ إِنِّي كَرِهْتُ أَنْ آمُرَ لَكَ فَيَكُونَ لَكَ الْبَارِدُ وَيَكُونَ لِي الْحَارُّ وَحَوْلِي أَهْلُ الْمَدِينَةِ قَدْ قَتَلَهُمْ الْجُوعُ وَقَدْ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ لَا يَشْبَعُ الرَّجُلُ دُونَ جَارِهِ آخِرُ مُسْنَدِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ حَدِيثُ السَّقِيفَةِ-
عبایہ بن رفاعہ کہتے ہیں کہ جب حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو یہ خبر معلوم ہوئی کہ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے اپنے لیے ایک محل تعمیر کروایا ہے جہاں فریادیوں کی آوازیں پہنچنا بند ہوگئی ہیں، تو انہوں نے فورا حضرت محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ کو روانہ فرمایا، انہوں نے وہاں پہنچ کر چقماق نکال کر اس سے آگ سلگائی، ایک درہم کی لکڑیاں خریدیں اور انہیں آگ لگادی۔ کسی نے جا کر حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے کہا کہ ایک آدمی ایسا ایسا کر رہا ہے، انہوں نے فرمایا کہ وہ محمد بن مسلمہ ہیں، یہ کہہ کر وہ ان کے پاس آئے اور ان سے قسم کھا کر کہا کہ انہوں نے کوئی بات نہیں کہی ہے محمد بن مسلمہ کہنے لگے کہ ہمیں تو جو حکم ملا ہے، ہم وہی کریں گے، اگر آپ نے کوئی پیغام دینا ہو تو وہ بھی پہنچا دیں گے، یہ کہہ کر انہوں نے اس محل کے دروازے کو آگ لگادی۔ پھر حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے انہیں زاد راہ کی پیشکشی کی لیکن انہوں نے اسے بھی قبول نہ کیا اور واپس روانہ ہوگئے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس جس وقت وہ پہنچے وہ دوپہر کا وقت تھا اور اس آنے جانے میں ان کے کل انیس دن صرف ہوئے تھے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں دیکھ کر فرمایا اگر آپ کے ساتھ حسن ظن نہ ہوتا تو ہم یہ سمجھتے کہ شاید آپ نے ہمارا پیغام ان تک نہیں پہنچایا۔ انہوں نے عرض کیا کیوں نہیں! اس کے جواب میں انہوں نے آپ کو سلام کہلوایا ہے اور معذرت کی ہے اور اللہ کی قسم کھا کر کہا ہے کہ انہوں نے کسی قسم کی کوئی بات نہیں کی ہے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ کیا انہوں نے آپ کو زادراہ دیا؟ عرض کیا میں نے خود ہی نہیں لیا، فرمایا پھر اپنے ساتھ کیوں نہیں لے گئے؟ عرض کیا کہ مجھے یہ چیز اچھی نہ لگی کہ میں انہیں آپ کا کوئی حکم دوں، وہ آپ کے لئے تو ٹھنڈے رہیں اور میرے لیے گرم ہوجائیں، پھر میرے اردگرد اہل مدینہ آباد ہیں جنہیں بھوک نے مار رکھا ہے اور میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ کوئی شخص اپنے پڑوسی کو چھوڑ کر خود سیراب نہ ہوتا پھر ے۔ حدیث السقیفہ
-
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ عِيسَى الطَّبَّاعُ حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ حَدَّثَنِي ابْنُ شِهَابٍ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ بْنِ مَسْعُودٍ أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ أَخْبَرَهُ أَنَّ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ عَوْفٍ رَجَعَ إِلَى رَحْلِهِ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ وَكُنْتُ أُقْرِئُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ عَوْفٍ فَوَجَدَنِي وَأَنَا أَنْتَظِرُهُ وَذَلِكَ بِمِنًى فِي آخِرِ حَجَّةٍ حَجَّهَا عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ إِنَّ رَجُلًا أَتَى عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَقَالَ إِنَّ فُلَانًا يَقُولُ لَوْ قَدْ مَاتَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ بَايَعْتُ فُلَانًا فَقَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ إِنِّي قَائِمٌ الْعَشِيَّةَ فِي النَّاسِ فَمُحَذِّرُهُمْ هَؤُلَاءِ الرَّهْطَ الَّذِينَ يُرِيدُونَ أَنْ يَغْصِبُوهُمْ أَمْرَهُمْ قَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ فَقُلْتُ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ لَا تَفْعَلْ فَإِنَّ الْمَوْسِمَ يَجْمَعُ رَعَاعَ النَّاسِ وَغَوْغَاءَهُمْ وَإِنَّهُمْ الَّذِينَ يَغْلِبُونَ عَلَى مَجْلِسِكَ إِذَا قُمْتَ فِي النَّاسِ فَأَخْشَى أَنْ تَقُولَ مَقَالَةً يَطِيرُ بِهَا أُولَئِكَ فَلَا يَعُوهَا وَلَا يَضَعُوهَا عَلَى مَوَاضِعِهَا وَلَكِنْ حَتَّى تَقْدَمَ الْمَدِينَةَ فَإِنَّهَا دَارُ الْهِجْرَةِ وَالسُّنَّةِ وَتَخْلُصَ بِعُلَمَاءِ النَّاسِ وَأَشْرَافِهِمْ فَتَقُولَ مَا قُلْتَ مُتَمَكِّنًا فَيَعُونَ مَقَالَتَكَ وَيَضَعُونَهَا مَوَاضِعَهَا فَقَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ لَئِنْ قَدِمْتُ الْمَدِينَةَ سَالِمًا صَالِحًا لَأُكَلِّمَنَّ بِهَا النَّاسَ فِي أَوَّلِ مَقَامٍ أَقُومُهُ فَلَمَّا قَدِمْنَا الْمَدِينَةَ فِي عَقِبِ ذِي الْحِجَّةِ وَكَانَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ عَجَّلْتُ الرَّوَاحَ صَكَّةَ الْأَعْمَى فَقُلْتُ لِمَالِكٍ وَمَا صَكَّةُ الْأَعْمَى قَالَ إِنَّهُ لَا يُبَالِي أَيَّ سَاعَةٍ خَرَجَ لَا يَعْرِفُ الْحَرَّ وَالْبَرْدَ وَنَحْوَ هَذَا فَوَجَدْتُ سَعِيدَ بْنَ زَيْدٍ عِنْدَ رُكْنِ الْمِنْبَرِ الْأَيْمَنِ قَدْ سَبَقَنِي فَجَلَسْتُ حِذَاءَهُ تَحُكُّ رُكْبَتِي رُكْبَتَهُ فَلَمْ أَنْشَبْ أَنْ طَلَعَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَلَمَّا رَأَيْتُهُ قُلْتُ لَيَقُولَنَّ الْعَشِيَّةَ عَلَى هَذَا الْمِنْبَرِ مَقَالَةً مَا قَالَهَا عَلَيْهِ أَحَدٌ قَبْلَهُ قَالَ فَأَنْكَرَ سَعِيدُ بْنُ زَيْدٍ ذَلِكَ فَقَالَ مَا عَسَيْتَ أَنْ يَقُولَ مَا لَمْ يَقُلْ أَحَدٌ فَجَلَسَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَلَى الْمِنْبَرِ فَلَمَّا سَكَتَ الْمُؤَذِّنُ قَامَ فَأَثْنَى عَلَى اللَّهِ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ ثُمَّ قَالَ أَمَّا بَعْدُ أَيُّهَا النَّاسُ فَإِنِّي قَائِلٌ مَقَالَةً قَدْ قُدِّرَ لِي أَنْ أَقُولَهَا لَا أَدْرِي لَعَلَّهَا بَيْنَ يَدَيْ أَجَلِي فَمَنْ وَعَاهَا وَعَقَلَهَا فَلْيُحَدِّثْ بِهَا حَيْثُ انْتَهَتْ بِهِ رَاحِلَتُهُ وَمَنْ لَمْ يَعِهَا فَلَا أُحِلُّ لَهُ أَنْ يَكْذِبَ عَلَيَّ إِنَّ اللَّهَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى بَعَثَ مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْحَقِّ وَأَنْزَلَ عَلَيْهِ الْكِتَابَ وَكَانَ مِمَّا أَنْزَلَ عَلَيْهِ آيَةُ الرَّجْمِ فَقَرَأْنَاهَا وَوَعَيْنَاهَا وَرَجَمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرَجَمْنَا بَعْدَهُ فَأَخْشَى إِنْ طَالَ بِالنَّاسِ زَمَانٌ أَنْ يَقُولَ قَائِلٌ لَا نَجِدُ آيَةَ الرَّجْمِ فِي كِتَابِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ فَيَضِلُّوا بِتَرْكِ فَرِيضَةٍ قَدْ أَنْزَلَهَا اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ فَالرَّجْمُ فِي كِتَابِ اللَّهِ حَقٌّ عَلَى مَنْ زَنَى إِذَا أُحْصِنَ مِنْ الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ إِذَا قَامَتْ الْبَيِّنَةُ أَوْ الْحَبَلُ أَوْ الِاعْتِرَافُ أَلَا وَإِنَّا قَدْ كُنَّا نَقْرَأُ لَا تَرْغَبُوا عَنْ آبَائِكُمْ فَإِنَّ كُفْرًا بِكُمْ أَنْ تَرْغَبُوا عَنْ آبَائِكُمْ أَلَا وَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا تُطْرُونِي كَمَا أُطْرِيَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ عَلَيْهِ السَّلَام فَإِنَّمَا أَنَا عَبْدُ اللَّهِ فَقُولُوا عَبْدُ اللَّهِ وَرَسُولُهُ وَقَدْ بَلَغَنِي أَنَّ قَائِلًا مِنْكُمْ يَقُولُ لَوْ قَدْ مَاتَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ بَايَعْتُ فُلَانًا فَلَا يَغْتَرَّنَّ امْرُؤٌ أَنْ يَقُولَ إِنَّ بَيْعَةَ أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ كَانَتْ فَلْتَةً أَلَا وَإِنَّهَا كَانَتْ كَذَلِكَ أَلَا وَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ وَقَى شَرَّهَا وَلَيْسَ فِيكُمْ الْيَوْمَ مَنْ تُقْطَعُ إِلَيْهِ الْأَعْنَاقُ مِثْلُ أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَلَا وَإِنَّهُ كَانَ مِنْ خَبَرِنَا حِينَ تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ عَلِيًّا وَالزُّبَيْرَ وَمَنْ كَانَ مَعَهُمَا تَخَلَّفُوا فِي بَيْتِ فَاطِمَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا بِنْتِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَتَخَلَّفَتْ عَنَّا الْأَنْصَارُ بِأَجْمَعِهَا فِي سَقِيفَةِ بَنِي سَاعِدَةَ وَاجْتَمَعَ الْمُهَاجِرُونَ إِلَى أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَقُلْتُ لَهُ يَا أَبَا بَكْرٍ انْطَلِقْ بِنَا إِلَى إِخْوَانِنَا مِنْ الْأَنْصَارِ فَانْطَلَقْنَا نَؤُمُّهُمْ حَتَّى لَقِيَنَا رَجُلَانِ صَالِحَانِ فَذَكَرَا لَنَا الَّذِي صَنَعَ الْقَوْمُ فَقَالَا أَيْنَ تُرِيدُونَ يَا مَعْشَرَ الْمُهَاجِرِينَ فَقُلْتُ نُرِيدُ إِخْوَانَنَا هَؤُلَاءِ مِنْ الْأَنْصَارِ فَقَالَا لَا عَلَيْكُمْ أَنْ لَا تَقْرَبُوهُمْ وَاقْضُوا أَمْرَكُمْ يَا مَعْشَرَ الْمُهَاجِرِينَ فَقُلْتُ وَاللَّهِ لَنَأْتِيَنَّهُمْ فَانْطَلَقْنَا حَتَّى جِئْنَاهُمْ فِي سَقِيفَةِ بَنِي سَاعِدَةَ فَإِذَا هُمْ مُجْتَمِعُونَ وَإِذَا بَيْنَ ظَهْرَانَيْهِمْ رَجُلٌ مُزَمَّلٌ فَقُلْتُ مَنْ هَذَا فَقَالُوا سَعْدُ بْنُ عُبَادَةَ فَقُلْتُ مَا لَهُ قَالُوا وَجِعٌ فَلَمَّا جَلَسْنَا قَامَ خَطِيبُهُمْ فَأَثْنَى عَلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ وَقَالَ أَمَّا بَعْدُ فَنَحْنُ أَنْصَارُ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ وَكَتِيبَةُ الْإِسْلَامِ وَأَنْتُمْ يَا مَعْشَرَ الْمُهَاجِرِينَ رَهْطٌ مِنَّا وَقَدْ دَفَّتْ دَافَّةٌ مِنْكُمْ يُرِيدُونَ أَنْ يَخْزِلُونَا مِنْ أَصْلِنَا وَيَحْضُنُونَا مِنْ الْأَمْرِ فَلَمَّا سَكَتَ أَرَدْتُ أَنْ أَتَكَلَّمَ وَكُنْتُ قَدْ زَوَّرْتُ مَقَالَةً أَعْجَبَتْنِي أَرَدْتُ أَنْ أَقُولَهَا بَيْنَ يَدَيْ أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَقَدْ كُنْتُ أُدَارِي مِنْهُ بَعْضَ الْحَدِّ وَهُوَ كَانَ أَحْلَمَ مِنِّي وَأَوْقَرَ فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَلَى رِسْلِكَ فَكَرِهْتُ أَنْ أُغْضِبَهُ وَكَانَ أَعْلَمَ مِنِّي وَأَوْقَرَ وَاللَّهِ مَا تَرَكَ مِنْ كَلِمَةٍ أَعْجَبَتْنِي فِي تَزْوِيرِي إِلَّا قَالَهَا فِي بَدِيهَتِهِ وَأَفْضَلَ حَتَّى سَكَتَ فَقَالَ أَمَّا بَعْدُ فَمَا ذَكَرْتُمْ مِنْ خَيْرٍ فَأَنْتُمْ أَهْلُهُ وَلَمْ تَعْرِفْ الْعَرَبُ هَذَا الْأَمْرَ إِلَّا لِهَذَا الْحَيِّ مِنْ قُرَيْشٍ هُمْ أَوْسَطُ الْعَرَبِ نَسَبًا وَدَارًا وَقَدْ رَضِيتُ لَكُمْ أَحَدَ هَذَيْنِ الرَّجُلَيْنِ أَيَّهُمَا شِئْتُمْ وَأَخَذَ بِيَدِي وَبِيَدِ أَبِي عُبَيْدَةَ بْنِ الْجَرَّاحِ فَلَمْ أَكْرَهْ مِمَّا قَالَ غَيْرَهَا وَكَانَ وَاللَّهِ أَنْ أُقَدَّمَ فَتُضْرَبَ عُنُقِي لَا يُقَرِّبُنِي ذَلِكَ إِلَى إِثْمٍ أَحَبَّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ أَتَأَمَّرَ عَلَى قَوْمٍ فِيهِمْ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ إِلَّا أَنْ تَغَيَّرَ نَفْسِي عِنْدَ الْمَوْتِ فَقَالَ قَائِلٌ مِنْ الْأَنْصَارِ أَنَا جُذَيْلُهَا الْمُحَكَّكُ وَعُذَيْقُهَا الْمُرَجَّبُ مِنَّا أَمِيرٌ وَمِنْكُمْ أَمِيرٌ يَا مَعْشَرَ قُرَيْشٍ فَقُلْتُ لِمَالِكٍ مَا مَعْنَى أَنَا جُذَيْلُهَا الْمُحَكَّكُ وَعُذَيْقُهَا الْمُرَجَّبُ قَالَ كَأَنَّهُ يَقُولُ أَنَا دَاهِيَتُهَا قَالَ وَكَثُرَ اللَّغَطُ وَارْتَفَعَتْ الْأَصْوَاتُ حَتَّى خَشِيتُ الِاخْتِلَافَ فَقُلْتُ ابْسُطْ يَدَكَ يَا أَبَا بَكْرٍ فَبَسَطَ يَدَهُ فَبَايَعْتُهُ وَبَايَعَهُ الْمُهَاجِرُونَ ثُمَّ بَايَعَهُ الْأَنْصَارُ وَنَزَوْنَا عَلَى سَعْدِ بْنِ عُبَادَةَ فَقَالَ قَائِلٌ مِنْهُمْ قَتَلْتُمْ سَعْدًا فَقُلْتُ قَتَلَ اللَّهُ سَعْدًا وَقَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَمَا وَاللَّهِ مَا وَجَدْنَا فِيمَا حَضَرْنَا أَمْرًا هُوَ أَقْوَى مِنْ مُبَايَعَةِ أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ خَشِينَا إِنْ فَارَقْنَا الْقَوْمَ وَلَمْ تَكُنْ بَيْعَةٌ أَنْ يُحْدِثُوا بَعْدَنَا بَيْعَةً فَإِمَّا أَنْ نُتَابِعَهُمْ عَلَى مَا لَا نَرْضَى وَإِمَّا أَنْ نُخَالِفَهُمْ فَيَكُونَ فِيهِ فَسَادٌ فَمَنْ بَايَعَ أَمِيرًا عَنْ غَيْرِ مَشُورَةِ الْمُسْلِمِينَ فَلَا بَيْعَةَ لَهُ وَلَا بَيْعَةَ لِلَّذِي بَايَعَهُ تَغِرَّةً أَنْ يُقْتَلَا قَالَ مَالِكٌ وَأَخْبَرَنِي ابْنُ شِهَابٍ عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ أَنَّ الرَّجُلَيْنِ اللَّذَيْنِ لَقِيَاهُمَا عُوَيْمِرُ بْنُ سَاعِدَةَ وَمَعْنُ بْنُ عَدِيٍّ قَالَ ابْنُ شِهَابٍ وَأَخْبَرَنِي سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيَّبِ أَنَّ الَّذِي قَالَ أَنَا جُذَيْلُهَا الْمُحَكَّكُ وَعُذَيْقُهَا الْمُرَجَّبُ الْحُبَابُ بْنُ الْمُنْذِرِ-
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اپنی زندگی میں جو آخری حج کیا ، یہ اس زمانے کی بات ہے کہ حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ اپنی سواری کے پاس واپس آئے، میں انہیں پڑھایا کرتا تھا، انہوں نے مجھے اپنا انتظار کرتے ہوئے پایا، اس وقت ہم لوگ منی میں تھے، حضرت عبدالرحمن بن عوف آتے ہی کہنے لگے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے پاس ایک آدمی آیا اور کہنے لگا کہ فلاں شخص یہ کہتا ہے کہ اگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ فوت ہوگئے تو میں فلاں شخص سے بیعت کرلوں گا۔ اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ آج رات کو میں کھڑا ہو کر لوگوں کو اس گروہ سے بچنے اور احتیاط کرنے کی تاکید کروں گا جو خلافت کو غصب کرنا چاہتے ہیں، لیکن میں نے ان سے عرض کیا امیرالمومنین! آپ ایسا نہ کیجئے، کیونکہ حج میں ہرطرح سے لوگ شامل ہوتے ہیں، شرپسند بھی ہوتے ہیں اور گھٹیا سوچ رکھنے والے بھی، جب آپ لوگوں کےسامنے کھڑے ہو کر کچھ کہنا چاہیں گے تو یہ آپ پر غالب آجائیں گے، مجھے اندیشہ ہے کہ آپ اگر کوئی بات کہیں گے تو یہ لوگ اسے اڑا لے جائیں گے، صحیح طرح اسے یاد نہ رکھ سکیں گے اور صحیح محل پر اسے محمول نہ کر سکیں گے، البتہ جب آپ مدینہ منورہ تشریف لے جائیں، جو کہ دارالہجرۃ اور دارالسنۃ ہے، اور خالصۃ علماء اور معززین کا گہوارہ ہے، تب آپ جو کہنا چاہتے ہیں کہہ دیں اور خوب اعتماد سے کہیں، وہ لوگ آپ کی بات کو سمجھیں گے بھی اور اسے صحیح محل پر بھی محمول کریں گے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ سن کر فرمایا اگر میں مدینہ منورہ صحیح سالم پہنچ گیا تو سب سے پہلے لوگوں کے سامنے یہی بات رکھوں گا۔ ذی الحجہ کے آخر میں جب ہم مدینہ منورہ پہنچے توجمعہ کے دن میں اندھوں سے ٹکراتا ہوا صبح ہی مسجد میں پہنچ گیا، راوی نے اندھوں سے ٹکرانے کا مطلب پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کسی خاص وقت کی پرواہ نہیں کرتے تھے اور نہ ہی گرمی سردی وغیرہ کو خاطر میں لاتے تھے (جب دل چاہتا آکر منبر پر رونق افروز ہوجاتے) بہرحال! میں نے منبر کی دائیں جانب حضرت سعید بن زید رضی اللہ عنہ کو بیٹھے ہوئے پایا جو مجھ سے سبقت لے گئے تھے، میں بھی ان کے برابر جا کر بیٹھ گیا، اور میرے گھٹنے ان کے گھٹنے سے رگڑ کھا رہے تھے۔ ابھی تھوڑی دیر ہی گذری تھی کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ تشریف لاتے ہوئے نظر آئے، میں نے انہیں دیکھتے ہی کہا کہ آج یہ اس منبر سے ایسی بات کہیں گے جو اس سے پہلے انہوں نے کبھی نہ کہی ہوگی، حضرت سعید بن زید رضی اللہ عنہ نے اس پر تعجب کا اظہار کیا اور کہنے لگے کہ مجھے تو نہیں لگتا کہ یہ کوئی ایسی بات کہیں جو اب سے پہلے نہ کہی ہو، اسی اثناء میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ آکر منبر پر تشریف فرما ہوگئے۔ جب مؤذن اذان دے کر خاموش ہوا تو سب سے پہلے کھڑے ہو کر انہوں نے اللہ کی حمدوثناء کی، پھر امابعد کہہ کر فرمایا لوگو! میں آج ایک بات کہنا چاہتا ہوں جسے کہنا میرے لیے ضروری ہو گیا ہے، کچھ خبر نہیں کہ شاید یہ میری موت کا پیش خیمہ ہو، اس لیے جو شخص اسے یاد رکھ سکے اور اچھی طرح سمجھ سکے، اسے چاہیے کہ یہ بات وہاں تک لوگوں کو پہنچا دے جہاں تک اس کی سواری جاسکتی ہو اور جو شخص اسے یاد نہ رکھ سکے، اس کے لیے مجھ پر جھوٹ بولنا جائز نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر کو حق کے ساتھ بھیجا، ان پر اپنی کتاب نازل فرمائی اور ان پر نازل ہونے والے احکام میں رجم کی آیت بھی شامل تھی، جسے ہم نے پڑھا اور یاد کیا، نیز نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی رجم کی سزا جاری فرمائی اور ان کے بعد ہم نے بھی یہ سزا جاری کی، مجھے خطرہ ہے کہ کچھ عرصہ گذرنے کے بعد کوئی یہ نہ کہنے لگے کہ ہمیں تو کتاب اللہ میں رجم کی آیت نہیں ملتی، اور وہ اللہ کے نازل کردہ ایک فریضے کو ترک کر کے گمراہ ہوجائیں۔ یاد رکھو! اگر کوئی مرد یا عورت شادی شدہ ہو کر بدکاری کا ارتکاب کرے اور اس پر گواہ بھی موجود ہوں ، یا عورت حاملہ ہو، یا وہ اعتراف جرم کرلے تو کتاب اللہ میں اس کے لئے رجم کا ہونا ایک حقیقت ہے، یاد رکھو! ہم یہ بھی پڑھتے تھے کہ اپنے آباؤ اجداد سے اعراض کر کے کسی دوسرے کی طرف نسبت نہ کرو کیونکہ ایساکرنا کفر ہے۔ یاد رکھو! جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس طرح حضرت عیسی علیہ السلام کو حد سے زیادہ بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا ، مجھے اس طرح مت بڑھانا، میں تو محض اللہ کا بندہ ہوں، اس لئے تم بھی مجھے اللہ کا بندہ اور اس کا پیغمبر ہی کہو۔ مجھے یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ آپ لوگوں میں سے بعض لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ جب عمر مرجائے گا تو ہم فلاں شخص کی بیعت کرلیں گے، کوئی شخص اس بات سے دھوکہ میں نہ رہے کہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی بیعت اچانک اور جلدی میں ہوئی تھی، ہاں ! ایسا ہی ہوا تھا، لیکن اللہ نے اس کے شر سے ہماری حفاظت فرمائی، لیکن اب تم میں حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ جیسا کوئی شخص موجود نہیں ہے جس کی طرف گردنیں اٹھ سکیں ۔ ہمارا یہ واقعہ بھی سن لو کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال مبارک ہوگیا تو حضرت علی، حضرت زبیر رضی اللہ عنہما، حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ کے گھر میں رہے، جبکہ انصار سب سے کٹ کر مکمل طور پر سقیفہ بنی ساعدہ میں جمع ہوگئے اور مہاجرین حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے پاس آکر اکٹھے ہونے لگے، میں نے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے عرض کیا کہ ہمارے ساتھ انصاری بھائیوں کی طرف چلیے۔ چنانچہ ہم ان کے پیچھے روانہ ہوئے، راستے میں ہمیں دو نیک آدمی ملے، انہوں نے ہمیں بتایا کہ لوگوں نے کیا کیا ہے! اور ہم سے پوچھا کہ آپ کہاں جا رہے ہیں؟ میں نے کہا کہ ہم اپنے انصاری بھائیوں کے پاس جا رہے ہیں، انہوں نے کہا کہ آپ ان کے پاس نہ جائیں تو بہتر ہے، آپ اپنا معاملہ خود طے کرلیجئے، میں نے کہا کہ نہیں! ہم ضروران کے پاس جائیں گے۔ چنانچہ ہم سقیفہ بنی ساعدہ میں پہنچ گئے، وہاں تمام انصار اکٹھے تھے، اور ان کے درمیان میں ایک آدمی چادر اوڑھے ہوئے بیٹھا ہوا تھا، میں نے اس کے متعلق پوچھا تو لوگوں نے بتایا کہ یہ حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ ہیں، میں نے پوچھا کہ انہیں کیا ہوا؟ لوگوں نے بتایا کہ بیمار ہیں ۔ بہرحال! جب ہم بیٹھ گئے تو ان کا ایک مقرر کھڑا ہوا اور اللہ کی حمدوثنا کرنے کے بعد کہنے لگا کہ ہم اللہ کے انصار و مددگار ہیں، اور اسلام کا لشکر ہیں، اور اے گروہ مہاجرین! تم ہمارا ایک گروہ ہو، لیکن اب تم ہی میں سے کچھ ہماری جڑیں کاٹنے لگے ہیں، وہ ہماری اصل سے سے جدا کرنے پر تلے ہوئے ہیں اور ہمیں خلافت سے الگ رکھنا چاہتے ہیں ۔ جب وہ اپنی بات کہہ کرخاموش ہوا تو میں نے بات کرنا چاہی کیونکہ میں اپنے دل میں ایک بڑی عمدہ تقریر سوچ کر آیا تھا ، میرا ارادہ یہ تھا کہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے کچھ کہنے سے پہلے میں اپنی بات کہہ لوں، میں نے اس میں بعض سخت باتیں بھی شامل کر رکھی تھیں لیکن حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ مجھ سے زیادہ حلیم اور باوقار تھے، انہوں نے مجھے روک دیا، میں نے انہیں ناراض کرنا مناسب نہ سمجھا، کیونکہ وہ مجھ سے بڑے عالم اور زیادہ پروقار تھے۔ بخدا! میں نے میں نے اپنے ذہن میں جو تقریر سوچ رکھی تھی، حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے اس کا ایک کلمہ بھی نہ چھوڑا اور فی البدیہ وہ سب کچھ بلکہ اس سے بہتر کہہ دیا جو میں کہنا چاہتا تھا، یہاں تک کہ انہوں نے اپنی تقریر ختم کرلی، اس تقریر کے دوران انہوں نے فرمایا کہ آپ لوگوں نے اپنی جو نیکیاں ذکر کی ہیں، آپ ان کے اہل اور حقدار ہیں، لیکن خلافت کو پورا عرب قریش کے اسی قبیلے کا حق سمجھتا ہے کیونکہ پورے عرب میں حسب نسب اور جگہ کے اعتبار سے یہ لوگ مرکز شمار ہوتے ہیں، میں آپ کے لئے ان دو میں کسی ایک کو منتخب کرنے کی تجویز پیش کرتا ہوں ، آپ جس کو مرضی منتخب کرلیں ، یہ کہہ کر انہوں نے میرا اور حضرت ابوعبیدہ بن الجراح کا ہاتھ پکڑ لیا۔ مجھے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی پوری تقریر میں یہ بات اچھی نہ لگی، بخدا! میں یہ سمجھتا تھا کہ اگر مجھے آگے بڑھایا جائے تو میری گردن اڑا دی جائے، مجھے یہ بہت بڑا گناہ محسوس ہوتا تھا کہ میں ایک ایسی قوم کا حکمران بنوں جس میں حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ جیسا شخص موجود ہو، البتہ اب موت کے وقت آکر میرا مزاج بدل گیا ہے (یہ کسر نفسی کے طور پر فرمایا گیا ہے) انصار کے ایک آدمی نے کہا کہ مجھے ان معاملات کا خوب تجربہ ہے اور میں اس کے بہت سے پھلوں کا بوجھ لادے رہاہوں، اے گروہ قریش! ایک امیر ہم میں سے ہوگا اور ایک امیر تم میں سے ہوگا، اس پر شور و شغب بڑھ گیا، آوازیں بلند ہونے لگیں اور مجھے خطرہ پیدا ہوگیا کہ کہیں جھگڑا نہ ہوجائے، یہ سوچ کر میں نے فورا کہا ابوبکر! اپنا ہاتھ بڑھائیے، انہوں نے اپنا ہاتھ بڑھایا تو میں نے ان کی بیعت کرلی، یہ دیکھ کر مہاجرین نے بھی بیعت کرلی اور انصار نے بھی بیعت کرلی، اور ہم وہاں سے کود کر آگئے، اور حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ وہیں رہ گئے۔ کسی نے کہا کہ تم نے سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کو مارڈالا، میں نے کہا اللہ نے ایسا کیا ہوگا (ہم کیا کر سکتے ہیں؟) اس کے بعد حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا بخدا! آج ہمیں حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی بیعت کے واقعے سے زیادہ مضبوط حالات کا سامنا نہیں ہے، ہمیں اندیشہ ہے کہ اگر لوگ جدا ہوگئے اور اس وقت کوئی خلیفہ نہ ہوا تو وہ کسی سے بیعت کر لیں گے، اب یا تو ہم کچھ ناپسندیدہ فیصلوں پر انہیں اپنے اتباع پر قائم کریں، یا پھر ہم ان کی مخالفت میں احکام جاری کریں، ظاہر ہے کہ اس صورت میں فساد ہوگا۔ اس لئے یاد رکھو! جو شخص مسلمانوں کے مشورے کے بغیر کسی شخص کی بیعت کرے گا اس کی بیعت کا کوئی اعتبار نہیں ، اور نہ ہی وہ اس شخص کے ہاتھ پر صحیح ہوگی جس سے بیعت لی گئی ہے، اس اندیشے سے کہ کہیں وہ دونوں قتل نہ ہوجائیں ۔
-
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ عِيسَى أَخْبَرَنِي مَالِكٌ عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ أَنَّهُ سَمِعَ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ يَقُولُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَلَا أُخْبِرُكُمْ بِخَيْرِ دُورِ الْأَنْصَارِ بَنِي النَّجَّارِ ثُمَّ بَنِي عَبْدِ الْأَشْهَلِ ثُمَّ بَلْحَارِثِ بْنِ الْخَزْرَجِ ثُمَّ بَنِي سَاعِدَةَ وَقَالَ فِي كُلِّ دُورِ الْأَنْصَارِ خَيْرٌ-
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ فرمایا کیا میں تمہیں انصار کے بہترین گھروں کا پتہ نہ بتاؤں؟ بنونجار، پھر بنو عبد الاشہل، پھر حارث بن خزرج، پھر بنو ساعدہ، اور فرمایا کہ انصار کے ہرگھر میں خیر ہی خیر ہے۔
-
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ عِيسَى حَدَّثَنَا مَالِكٌ عَنْ نَافِعٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمُتَبَايِعَانِ بِالْخِيَارِ مَا لَمْ يَتَفَرَّقَا أَوْ يَكُونُ الْبَيْعُ خِيَارًا-
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ بائع اور مشتری جب تک جدا نہ ہوجائیں، انہیں اختیار ہے یا یہ فرمایا کہ وہ بیع ہی خیار پر قائم ہوگی۔
-
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ عِيسَى أَنْبَأَنَا مَالِكٌ عَنْ نَافِعٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْ بَيْعِ حَبَلِ الْحَبَلَةِ-
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حاملہ جانور کے حمل سے پیدا ہونے والے بچے کی جو ابھی ماں کے پیٹ میں ہی ہے، پیٹ میں ہی بیع کرنے سے منع فرمایا ہے۔
-
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ عِيسَى أَنْبَأَنَا مَالِكٌ عَنْ نَافِعٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ كُنَّا نَتَبَايَعُ الطَّعَامَ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَيَبْعَثُ عَلَيْنَا مَنْ يَأْمُرُنَا بِنَقْلِهِ مِنْ الْمَكَانِ الَّذِي ابْتَعْنَاهُ فِيهِ إِلَى مَكَانٍ سِوَاهُ قَبْلَ أَنْ نَبِيعَهُ-
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور باسعادت میں ہم لوگ خریدوفروخت کرتے تھے، بعض اوقات نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس یہ پیغام بھیجتے تھے کہ کسی چیز کو بیچنے سے پہلے ہم ایک چیز کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کر سکتے ہیں ۔
-
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ عِيسَى أَخْبَرَنَا مَالِكٌ عَنْ نَافِعٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ ابْتَاعَ طَعَامًا فَلَا يَبِعْهُ حَتَّى يَسْتَوْفِيَهُ-
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص غلہ خریدے، اسے اس وقت تک آگے نہ بیچے جب تک اس پر قبضہ نہ کرلے۔
-
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ عِيسَى أَنْبَأَنَا مَالِكٌ عَنْ نَافِعٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ أَعْتَقَ شِرْكًا لَهُ فِي عَبْدٍ فَكَانَ لَهُ مَا يَبْلُغُ ثَمَنَ الْعَبْدِ فَإِنَّهُ يُقَوَّمُ قِيمَةَ عَدْلٍ فَيُعْطَى شُرَكَاؤُهُ حَقَّهُمْ وَعَتَقَ عَلَيْهِ الْعَبْدَ وَإِلَّا فَقَدْ أَعْتَقَ مَا أَعْتَقَ-
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص کسی غلام کو اپنے حصے کے بقدر آزاد کر دیتا ہے تو وہ غلام کی قیمت کے اعتبار سے ہوگا چنانچہ اب اس غلام کی قیمت لگائی جائے گی، باقی شرکاء کو ان کے حصے کی قیمت دے دی جائے گی اور غلام آزاد ہوجائے گا، ورنہ جتنا اس نے آزاد کیا ہے اتنا ہی رہے گا۔
-
حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ سَعِيدٍ قَالَ قُلْتُ لِابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ رَجُلٌ لَاعَنَ امْرَأَتَهُ فَقَالَ فَرَّقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَهُمَا وَذَكَرَ الْحَدِيثَ-
سعید بن مسیب رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے لعان کرنے والے کے متعلق مسئلہ پوچھا، انہوں نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے میاں بیوی کے درمیان تفریق کرادی تھی۔ ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے حجر اسود سے مخاطب ہو کر فرمایا میں جانتا ہوں کہ تو پتھر ہے جو کسی کو نفع نقصان نہیں پہنچا سکتا، اگر میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تیرا بوسہ لیتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو میں تجھے کبھی بوسہ نہ دیتا۔
-