حضرت عبدالمطلب بن ربیعہ بن حارث رضی اللہ عنہ کی حدیثیں

حَدَّثَنَا جَرِيرُ بْنُ عَبْدِ الْحَمِيدِ عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي زِيَادٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ عَنْ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ بْنِ رَبِيعَةَ قَالَ دَخَلَ الْعَبَّاسُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّا لَنَخْرُجُ فَنَرَى قُرَيْشًا تَحَدَّثُ فَإِذَا رَأَوْنَا سَكَتُوا فَغَضِبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَدَرَّ عِرْقٌ بَيْنَ عَيْنَيْهِ ثُمَّ قَالَ وَاللَّهِ لَا يَدْخُلُ قَلْبَ امْرِئٍ إِيمَانٌ حَتَّى يُحِبَّكُمْ لِلَّهِ عَزَّ وَجَلَّ وَلِقَرَابَتِي-
حضرت عبدالمطلب بن ربیعہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ! (صلی اللہ علیہ وسلم) ہم لوگ اپنے گھر سے نکلتے ہیں تو قریش کو باتیں کرتے ہوئے دیکھتے ہیں لیکن جب وہ ہمیں قریب آتے ہوئے دیکھتے ہیں تو خاموش ہو جاتے ہیں ؟ اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دونوں آنکھوں کے درمیان پیشانی پر موجود رگ پھولنے لگی اور فرمایا اللہ کی قسم! کسی شخص کے دل میں اس وقت تک ایمان داخل نہیں ہوسکتا جب تک وہ اللہ کی رضاء کے لئے اور میری قرابت داری کی وجہ سے تم سے محبت نہیں کرتا۔
-
حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا يَزِيدُ يَعْنِي ابْنَ عَطَاءٍ عَنْ يَزِيدَ يَعْنِي ابْنَ أَبِي زِيَادٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ نَوْفَلٍ حَدَّثَنِي عَبْدُ الْمُطَّلِبِ بْنُ رَبِيعَةَ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ قَالَ دَخَلَ الْعَبَّاسُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُغْضَبًا فَقَالَ لَهُ مَا يُغْضِبُكَ قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا لَنَا وَلِقُرَيْشٍ إِذَا تَلَاقَوْا بَيْنَهُمْ تَلَاقَوْا بِوُجُوهٍ مُبْشِرَةٍ وَإِذَا لَقُونَا لَقُونَا بِغَيْرِ ذَلِكَ فَغَضِبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى احْمَرَّ وَجْهُهُ وَحَتَّى اسْتَدَرَّ عِرْقٌ بَيْنَ عَيْنَيْهِ وَكَانَ إِذَا غَضِبَ اسْتَدَرَّ فَلَمَّا سُرِّيَ عَنْهُ قَالَ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ أَوْ قَالَ وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ لَا يَدْخُلُ قَلْبَ رَجُلٍ الْإِيمَانُ حَتَّى يُحِبَّكُمْ لِلَّهِ عَزَّ وَجَلَّ وَلِرَسُولِهِ ثُمَّ قَالَ يَا أَيُّهَا النَّاسُ مَنْ آذَى الْعَبَّاسَ فَقَدْ آذَانِي إِنَّمَا عَمُّ الرَّجُلِ صِنْوُ أَبِيهِ-
حضرت عبدالمطلب بن ربیعہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ غصے کی حالت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ! (صلی اللہ علیہ وسلم) ہم لوگ اپنے گھر سے نکلتے ہیں تو قریش کو باتیں کرتے ہوئے دیکھتے ہیں لیکن جب وہ ہمیں قریب آتے ہوئے دیکھتے ہیں تو خاموش ہوجاتے ہیں ؟ اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دونوں آنکھوں کے درمیان پیشانی پر موجود رگ پھولنے لگی اور فرمایا اللہ کی قسم! کسی شخص کے دل میں اس وقت تک ایمان داخل نہیں ہوسکتا جب تک وہ اللہ کی رضاء کے لئے اور میری قرابت داری کی وجہ سے تم سے محبت نہیں کرتا۔ پھر فرمایا لوگو! جس نے عباس کو ایذاء پہنچائی اس نے مجھے ایذا پہنچائی، کیونکہ انسان کا چچا اس کے باپ کے قائمقام ہوتا ہے۔
-
حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ عَطَاءٍ عَنْ يَزِيدَ عَنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ نَوْفَلٍ عَنْ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ بْنِ رَبِيعَةَ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ قَالَ أَتَى نَاسٌ مِنْ الْأَنْصَارِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالُوا إِنَّا لَنَسْمَعُ مِنْ قَوْمِكَ حَتَّى يَقُولَ الْقَائِلُ مِنْهُمْ إِنَّمَا مِثْلُ مُحَمَّدٍ مِثْلُ نَخْلَةٍ نَبَتَتْ فِي كِبَاءٍ قَالَ حُسَيْنٌ الْكِبَاءُ الْكُنَاسَةُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيُّهَا النَّاسُ مَنْ أَنَا قَالُوا أَنْتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ أَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ قَالَ فَمَا سَمِعْنَاهُ قَطُّ يَنْتَمِي قَبْلَهَا أَلَا إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ خَلَقَ خَلْقَهُ فَجَعَلَنِي مِنْ خَيْرِ خَلْقِهِ ثُمَّ فَرَّقَهُمْ فِرْقَتَيْنِ فَجَعَلَنِي مِنْ خَيْرِ الْفِرْقَتَيْنِ ثُمَّ جَعَلَهُمْ قَبَائِلَ فَجَعَلَنِي مِنْ خَيْرِهِمْ قَبِيلَةً ثُمَّ جَعَلَهُمْ بُيُوتًا فَجَعَلَنِي مِنْ خَيْرِهِمْ بَيْتًا وَأَنَا خَيْرُكُمْ بَيْتًا وَخَيْرُكُمْ نَفْسًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-
حضرت عبدالمطلب بن ربیعہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ کچھ انصاری لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہنے لگے کہ ہم آپ کی قوم سے بہت سی باتیں سنتے ہیں ، وہ یہاں تک کہتے ہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی مثال تو اس درخت کی سی ہے جو کوڑا کرکٹ میں اگ آیا ہو، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لوگو! میں کون ہوں؟ انہوں نے کہا کہ آپ اللہ کے پیغمبر ہیں ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نسبی طور پر میں محمد بن عبداللہ بن عبدالمطلب ہوں ، ہم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس سے قبل اس طرح نسبت کرتے ہوئے نہیں دیکھا تھا، اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کو جب پیدا کیا تو مجھے سب سے بہترین مخلوق میں رکھا، پھر اسے دو حصوں میں تقسیم کیا اور مجھے ان میں سے بہترین حصے میں رکھا، پھر انہیں قبیلوں میں تقسی کیا اور مجھے سب سے بہترین قبیلے میں رکھا، پھر انہیں خانوادوں میں تقسیم کیا اور مجھے سب سے بہترین گھرانے میں رکھا، اور میں گھرانے اور ذات کے اعتبار سے تم سب سے بہتر ہوں ۔ صلی اللہ علیہ وسلم۔
-
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ عَنْ يُونُسَ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ نَوْفَلٍ عَنْ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ بْنِ رَبِيعَةَ بْنِ الْحَارِثِ أَنَّهُ هُوَ وَالْفَضْلُ أَتَيَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِيُزَوِّجَهُمَا وَيَسْتَعْمِلَهُمَا عَلَى الصَّدَقَةِ فَيُصِيبَانِ مِنْ ذَلِكَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ هَذِهِ الصَّدَقَةَ إِنَّمَا هِيَ أَوْسَاخُ النَّاسِ وَإِنَّهَا لَا تَحِلُّ لِمُحَمَّدٍ وَلَا لِآلِ مُحَمَّدٍ ثُمَّ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لِمَحْمِيَةَ الزُّبَيْدِيِّ زَوِّجْ الْفَضْلَ وَقَالَ لِنَوْفَلِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ زَوِّجْ عَبْدَ الْمُطَّلِبِ بْنَ رَبِيعَةَ وَقَالَ لِمَحْمِيَةَ بْنِ جَزْءٍ الزُّبَيْدِيِّ وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْتَعْمِلُهُ عَلَى الْأَخْمَاسِ فَأَمَرَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصْدِقُ عَنْهُمَا مِنْ الْخُمُسِ شَيْئًا لَمْ يُسَمِّهِ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْحَارِثِ وَفِي أَوَّلِ هَذَا الْحَدِيثِ أَنَّ عَلِيًّا لَقِيَهُمَا فَقَالَ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يَسْتَعْمِلُكُمَا فَقَالَا هَذَا حَسَدُكَ فَقَالَ أَنَا أَبُو حَسَنِ الْقَوْمِ لَا أَبْرَحُ حَتَّى أَنْظُرَ مَا يَرُدُّ عَلَيْكُمَا فَلَمَّا كَلَّمَاهُ سَكَتَ فَجَعَلَتْ زَيْنَبُ تُلَوِّحُ بِثَوْبِهَا أَنَّهُ فِي حَاجَتِكُمَا-
حضرت عبدالمطلب بن ربیعہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ وہ اور فضل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تاکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کی شادی بھی کروا دیں اور انہیں زکوۃ وصول کرنے کے لئے مقرر کر دیں تاکہ انہیں بھی کچھ مل جائے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ یہ صدقات لوگوں کے مال کا میل کچیل ہوتے ہیں اس لئے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اور آل محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے لئے حلال نہیں ہے۔ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے محمیہ زبیدی سے فرمایا کہ اپنی بیٹی کا نکاح فضل سے کر دو، اور نفول بن حارث سے فرمایا کہ تم اپنی بیٹی کا نکاح عبدالمطلب بن ربیعہ سے کر دو، پھر محمیہ جنہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خمس پر مقرر فرما رکھا تھا سے فرمایا کہ انہیں خمس میں سے اتنے پیسے دے دو کہ یہ مہر ادا کر سکیں ، اور اس حدیث کے آغاز میں یہ تفصیل بھی ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ان دونوں سے ملاقات ہوئی تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تمہیں کبھی بھی زکوۃ وصول کرنے کے لئے مقرر نہیں فرمائیں گے، وہ کہنے لگے کہ یہ تمہارا حسد ہے، انہوں نے فرمایا کہ میں ابو حسن ہوں ، میری رائے مقدم ہوتی ہے، میں اس وقت تک واپس نہیں جاؤں گا جب تک یہ نہ دیکھ لوں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تمہیں کیا جواب دیتے ہیں ؟ چنانچہ جب ان دونوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بات کی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہوگئے اور حضرت زینت رضی اللہ عنہا اپنے کپڑے کو ہلا کر اشارہ کرنے لگیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تمہارا کام کر دیں گے۔
-
حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ وَسَعْدٌ قَالَا حَدَّثَنَا أَبِي عَنْ صَالِحٍ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ نَوْفَلِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ أَخْبَرَهُ أَنَّ عَبْدَ الْمُطَّلِبِ بْنَ رَبِيعَةَ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ أَخْبَرَهُ أَنَّهُ اجْتَمَعَ رَبِيعَةُ بْنُ الْحَارِثِ وَعَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ فَقَالَا وَاللَّهِ لَوْ بَعَثْنَا هَذَيْنِ الْغُلَامَيْنِ فَقَالَ لِي وَلِلْفَضْلِ بْنِ عَبَّاسٍ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَمَّرَهُمَا عَلَى هَذِهِ الصَّدَقَاتِ فَأَدَّيَا مَا يُؤَدِّي النَّاسُ وَأَصَابَا مَا يُصِيبُ النَّاسُ مِنْ الْمَنْفَعَةِ فَبَيْنَمَا هُمَا فِي ذَلِكَ جَاءَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ فَقَالَ مَاذَا تُرِيدَانِ فَأَخْبَرَاهُ بِالَّذِي أَرَادَا قَالَ فَلَا تَفْعَلَا فَوَاللَّهِ مَا هُوَ بِفَاعِلٍ فَقَالَ لِمَ تَصْنَعُ هَذَا فَمَا هَذَا مِنْكَ إِلَّا نَفَاسَةٌ عَلَيْنَا لَقَدْ صَحِبْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنِلْتَ صِهْرَهُ فَمَا نَفِسْنَا ذَلِكَ عَلَيْكَ قَالَ فَقَالَ أَنَا أَبُو حَسَنٍ أَرْسِلُوهُمَا ثُمَّ اضْطَجَعَ قَالَ فَلَمَّا صَلَّى الظُّهْرَ سَبَقْنَاهُ إِلَى الْحُجْرَةِ فَقُمْنَا عِنْدَهَا حَتَّى مَرَّ بِنَا فَأَخَذَ بِأَيْدِينَا ثُمَّ قَالَ أَخْرِجَا مَا تُصَرِّرَانِ وَدَخَلَ فَدَخَلْنَا مَعَهُ وَهُوَ حِينَئِذٍ فِي بَيْتِ زَيْنَبَ بِنْتِ جَحْشٍ قَالَ فَكَلَّمْنَاهُ فَقُلْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ جِئْنَاكَ لِتُؤَمِّرَنَا عَلَى هَذِهِ الصَّدَقَاتِ فَنُصِيبَ مَا يُصِيبُ النَّاسُ مِنْ الْمَنْفَعَةِ وَنُؤَدِّي إِلَيْكَ مَا يُؤَدِّي النَّاسُ قَالَ فَسَكَتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرَفَعَ رَأْسَهُ إِلَى سَقْفِ الْبَيْتِ حَتَّى أَرَدْنَا أَنْ نُكَلِّمَهُ قَالَ فَأَشَارَتْ إِلَيْنَا زَيْنَبُ مِنْ وَرَاءِ حِجَابِهَا كَأَنَّهَا تَنْهَانَا عَنْ كَلَامِهِ وَأَقْبَلَ فَقَالَ أَلَا إِنَّ الصَّدَقَةَ لَا تَنْبَغِي لِمُحَمَّدٍ وَلَا لِآلِ مُحَمَّدٍ إِنَّمَا هِيَ أَوْسَاخُ النَّاسِ ادْعُوا لِي مَحْمِيَةَ بْنَ جَزْءٍ وَكَانَ عَلَى الْعُشْرِ وَأَبَا سُفْيَانَ بْنَ الْحَارِثِ فَأَتَيَا فَقَالَ لِمَحْمِيَةَ أَصْدِقْ عَنْهُمَا مِنْ الْخُمُسِ حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ حَدَّثَنَا أَبِي عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ قَالَ حَدَّثَنَا الزُّهْرِيُّ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ نَوْفَلِ عَنْ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ بْنِ رَبِيعَةَ بْنِ الْحَارِثِ قَالَ اجْتَمَعَ الْعَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ وَابْنُ رَبِيعَةَ بْنِ الْحَارِثِ فِي الْمَسْجِدِ فَذَكَرَ الْحَدِيثَ-
حضرت عبدالمطلب بن ربیعہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا محمیہ جنہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خمس پر مقرر فرما رکھا تھا اور ابو سفیان بن حارث کو بلا کر ان سے فرمایا کہ انہیں خمس سے اتنے پیسے دے دو کہ یہ مہر ادا کر سکیں ۔ ایک مرتبہ ربیعہ بن حارث اور عباس بن عبدالمطلب جمع ہوئے اور کہنے لگے کہ ان دونوں لڑکوں کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجنا چاہئے، چنانچہ انہوں نے مجھے اور فضل کو بلا کر کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چلے جاؤ، وہ تمہیں زکوۃ کی وصولی پر مقرر کر دیں گے، تم لوگوں کی طرح ذمہ داری ادا کر دو، اور لوگوں کی منفعت حاصل کرو، اسی دوران حضرت علی رضی اللہ عنہ آگئے، انہوں نے پوچھا کہ تمہارا کیا ارادہ ہے؟ انہوں نے اپنا ارادہ بتایا، حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا ایسا نہ کرو۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تمہیں کبھی بھی زکوۃ وصول کرنے کے لئے مقرر نہیں فرمائیں گے، وہ کہنے لگے کہ یہ تمہارا حسد ہے، انہوں نے فرمایا کہ میں ابو حسن ہوں ، میری رائے مقدم ہوتی ہے، میں اس وقت تک واپس نہیں جاؤں گا جب تک یہ نہ دیکھ لوں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تمہیں کیا جواب دیتے ہیں ؟ چنانچہ جب ان دونوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بات کی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہوگئے اور حضرت زینب رضی اللہ عنہا اپنے کپڑے کو ہلا کر اشارہ کرنے لگیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تمہارا کام کر دیں گے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ یہ صدقات لوگوں کے مال کا میل کچیل ہوتے ہیں ، اس لئے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اور آل محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے لئے حلال نہیں ہیں ۔ گذشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔
-